فتاویٰ جات

آگ سے پکی سلوں یا لکڑی کو قبر میں استعمال کرنا؟

باپ کے قاتل کا وراثت میں حصہ ؟

دوسری بیوی کی پچھلی بیٹی کا پہلی بیوی کے بیٹوں سے پردہ؟

آگ سے پکی سلوں یا لکڑی کو قبر میں استعمال کرنا؟

سوال:کیا آگ سے پکی چیز کو قبر میں استعمال کیا جاسکتاہے یا نہیں؟ جیسے سیمنٹ کی سلیں وغیرہ

جواب: جس چیز کو آگ نے چھوا ہو، اس کو قبر میں استعمال نہیں کرنا چاہئے۔چنانچہ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے مرض الموت کی حالت میں فرمایاتھا:

«الحدوا لي لحداً وانصبوا علي اللبن نصبا کما صنع برسول اﷲ! »(۷؍۳۴)

''میری قبر بغلی بنانا اور اس پر کچی اینٹیں لگانا جس طرح رسول اللہ ﷺ کی قبر پر کچی اینٹیں لگائیں گئیں تھیں۔''

شارحِ مسلم امام نوویؒ فرماتے ہیں: وقد نقلوا أن عدد لبناته  تسع

''اہل علم نے نقل کیا ہے کہ نبی ﷺ کی (قبر مبارک کی )کچی اینٹوں کی تعدادنو تھی۔''

اللبن کی تعریف اہل علم نے یوں بیان کی ہے: المضروب من الطین مربعا للبناء قبل الطبخ فإذا طبخ فھو الآجر( اتحاف الکرام: ص۱۶۰)

''مربع شکل میں مٹی سے بنی ہوئی اس اینٹ کو کہتے ہیں جو آگ پر پکی ہوئی نہ ہو ۔جب پک جائے تو اُسے (لبن کی بجائے) آجر (پختہ اینٹ،ٹائل)کہتے ہیں۔''

مختصر الخرقی میں ہے : ولایدخل القبر آجرا ولا خشبا ولا شیئا مسته النار (مع المغنی وبشرح الکبیر :۲؍۳۸۴)

''قبر میں پکی اینٹ اور لکڑی استعمال نہ کی جائے اور نہ وہ شے جو آگ سے پکی ہو ۔''

فقیہ ابن قدامہؒ فرماتے ہیں:''کچی اینٹ اور'کانے' کا استعمال مستحب ہے اور امام احمدؒ نے قبر میں لکڑی کے استعمال کو مکروہ کہا ہے ۔ ابراہیم نخعیؒ نے کہا: ''سلف صالحین قبر میں کچی اینٹ کے استعمال کو مستحب اور لکڑی کے استعمال کو مکروہ سمجھتے تھے۔ ''

اس سے معلوم ہوا کہ قبر کو بند کرنے کے لئے اصل شے کچی اینٹ ہے اور عامۃ الناس میں آج کل جو سلیں لگانے کا رواج ہے، یہ غیر درست فعل ہے۔ اس سے احتراز ہونا چاہئے۔

باپ کا قاتل بیٹا اس کی وراثت کا حق دار نہیں بن سکتا؟

سوال : چند دن قبل زید کے باپ اکرم نے شراب پی کر گھر میں غل غپاڑہ شروع کردیا اور اپنی بیوی کو بھی مارا جس و جہ سے زید نے اپنے باپ کو گولی مار دی اور محمد اکرم موقع پر ہلاک ہوگیا، یاد رہے کہ زید کی عمر تقریباً ۱۲ سال ہے۔ سوالات یہ ہیں:

(i) زید توبہ کرنا چاہتا ہے، اس کا طریقہ کیا ہے؟

(ii) کیا زید اپنے باپ کی وراثت میں باقی بھائیوں کی طرح حصہ دار ہو گا یا نہیں؟

جواب:صدقِ دل سے خالق ومالک کی طرف رجوع کریں اور ہمیشہ والد کے لئے دعائِ مغفرت کرتے رہیں۔ ممکن ہے اللہ عزوجل کواس کا کوئی عمل ِخیر پسند آنے پر رحمت کا دروازہ کھل جائے۔

(ii) شریعت کا یہ حتمی اور یقینی فیصلہ ہے کہ قاتل مقتول کا وارث نہیںبن سکتا۔ ہاں اگر قتل حق ہو تو اس صورت میں وارث ہوگا جیسے حاکم وقت کے حکم سے زنا کی و جہ سے سنگسار کیا یاقاتل کو قصاص (بدلہ) کی بنا پر قتل کیا، لیکن موجودہ صورت اس میں داخل نہیں۔

ایک وضو سے دو نمازیں

سوال: اگر کوئی شخص سردی کی و جہ سے ظہر اور عصر کے لئے ایک ہی وضو کرے،پھر ظہر کی نماز پڑھ کر نکلتے ہی دوستوں کے گلے شکوے شروع کردے تو کیا ایسی صورت میں وضو قائم رہتا ہے ؟ (محمد شاہد ، حجرہ شاہ مقیم ،اوکاڑہ)

جواب: وضو قائم ہے۔ ایک وضو سے دو نمازیں یا اس سے زیادہ بھی پڑھی جاسکتی ہیں ۔ چنانچہ حدیث ہے کہ أن النبي صلی الصلوات یوم الفتح بوضوء واحد (مسلم:۶۴۰) ''نبی ﷺ نے فتح مکہ کے روز تمام نمازیں ایک ہی وضو سے ادا کیں۔''

اسی طرح صحیح بخاری کی روایت ہے کہ

«أن رسول اﷲ ! صلی العصر ثم أکل سویقا ثم صلی المغرب ولم یتوضأ»

'' رسول اللہ ﷺ نے عصر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد ستو کھایا پھر مغرب کی نماز پڑھی اور اس کے لیے وضو نہیں کیا۔''

چغلی غیبت بلاشبہ حرام ہے، تاہم اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔

دوسری بیوی کی سابقہ بیٹی کا پہلی بیوی کے بیٹوں سے پردہ؟

سوال: تیرہ سال قبل میرا ایک بیٹا حافظ محمد احسن مکہ مکرمہ میں طالب علمی کے دوران فوت ہوگیا تھا۔ اس کی ایک بچی تھی جو اب جوان ہوچکی ہے۔ قریباً سات سال قبل میں نے اس محمد احسن کی بیوہ کا نکاح اپنے بڑے بیٹے محمد اسلم سے کردیا۔ محمد اسلم پہلے شادی شدہ تھا، جس سے اس کے دو بیٹے تھے جو اَب جوان ہوچکے ہیں۔

محمد اسلم کے پہلی بیوی سے جو دو بیٹے ہیں کیا وہ اس کے مرحوم بھائی حافظ محمد احسن کی بیٹی کے محرم ہیں یاغیر محرم ؟ اس سلسلہ میں پردہ کا حکم کیا ہے؟ (حافظ اکرام اللہ ،لاہور)

جواب:صورتِ مسئولہ میں لڑکی کو مذکورہ لڑکوں سے پردہ کرنا چاہئے، کیونکہ ان کے مابین رشتہ محرمیت ثابت نہیں ہوتا۔ مذکورہ لڑکی اور دونوں لڑکے نہ والد میں شریک ہیں، نہ والدہ میں ان کے درمیان نکاح ہوسکتا ہے۔

اذانِ تہجد اور صفیں سیدھی کرنا

درج ذیل سوالات پر آپ کی رہنمائی درکار ہے۔(نذیر احمد،جامعہ ابی بکر،کراچی)

1. تہجد اور فجر کی اذان کا وقفہ کتنا ہونا چاہئے؟

2. الصلاة خیر من النوم کس اذان میں کہنا چاہئے؟

3. کیا تہجد کی اذان کا تعلق خاص رمضان سے ہے؟

4. صفیں درست کرانے کے لئے امام کے کیا فرائض ہیں؟

5. جماعت میں کیا بچوں کے لئے علیحدہ صف بنانا چاہئے؟

6. مقتدی اگر امام سے تقدیم کریں تو ان کے لئے کیا وعید ہے؟

7. جہر نمازوں میں کم از کم اور زیادہ سے زیادہ کتنی آیات تلاوت کی جاسکتی ہیں؟

جوابات(1):شرع میں تہجد کی اذان کا ثبوت نہیں۔ نبی ﷺ رات کے مختلف اوقات میں تہجد پڑھتے تھے۔

حضرت انس ؓسے مروی ہے :

«وکان لاتشاء أن تراہ من اللیل مصلیا إلا رأیته ولا نائما إلارأیته»

''اگر تم رات کو رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھنا چاہتے تو دیکھ سکتے ہو اور اگر سویا ہوا دیکھنا چاہتے تو دیکھ سکتے ہو۔''

اور حضرت عائشہؓ سے مروی ہے:

«ما ألفاہ السحر عندي إلا نائما تعني النبي!» '' میرے پاس تو سحر کے وقت آنحضرت ﷺ سوئے ہی رہے۔''(بخاری: باب من نام عندالسحررقم الحدیث :۱۱۳۳)

یہ احادیث اس امر کا واضح ثبوت ہیں کہ نماز تہجد کا وقت متعین نہیں اس سے معلوم ہوا کہ تہجد کے لئے اذان بھی نہیں اور جہاں تک بلالی اذان کا تعلق ہے سو حدیث میں اس کے دو مقصد بیان ہوئے ہیں۔ تہجد گزار تہجد ختم کردیں لیرجع قائمکم اور سوئے ہوئے بیدار ہوجائیں(ولینبه نائمکم)۔ (بخاری باب الأذان قبل الفجر رقم الحدیث :۶۲۱)

اسکے علاوہ تیسرا کوئی مقصد نہیں۔ دونوں اذانوں میں وقفہ کے بارے میں نسائی میں ہے:

«إنه لم یکن بینها إلا أن ینزل ھذا ویصعد ھذا»

یعنی:''دونوں صرف اتنا ہی وقفہ ہوتا کہ ایک اترتا اور دوسرا چڑ ھ جاتا...''

مراد بہت کم وقفہ ہوتا تھا۔ مبالغہ پر محمول کیا جائے تو قریباً بیس پچیس منٹ۔

2.جہاں صبح کی دو اذانوں کا اہتمام ہو۔ وہاں پہلی اذان میں الصلاة خیر من النوم کہا جائے اور ایک کی صورت میں موجودہ اذان میں۔ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ: کان في الأذان الأول من الصبح: الصلاة خیر من النوم(طحاوی:۱؍۱۰۳)، بیہقی :۱؍۴۲۲) اور ابو محذورہ کی روایت میں ہے : أن النبي! علمه في الأذان من الصبح الصلاة خیر من النوم (طحاوی:۱؍۱۰۳ ، بیہقی :۱؍۴۲۲)

3. نیز صبح کی پہلی اذان کا تعلق صرف رمضان سے نہیں، کیونکہ صحابہ کرامؓ رمضان کے علاوہ بھی کثرت سے نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔ اذانِ بلالی میں فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا کے الفاظ محض اشتباہ دور کرنے کے لئے ہیں کہ بلالی اذان سے کھانا پینا حرام نہیں ہوتا۔

( ملاحظہ ہو مرعاۃ المفاتیح: ۱؍۲۸۱،۱؍۴۴۴)

4.امام کا فرض ہے کہ وہ خود نمازیوں کی صفیں سیدھی کرے، یہاں تک کہ نمازی صف بندی سیکھ جائیں۔حضرت نعمان بن بشیرؓکہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفیں برابر کیا کرتے تھے حتیٰ کہ ایسا معلوم ہوتا کہ آپ ان سے تیر کی لکڑی برابر فرما رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہا تاوقتیکہ آپؐ نے سمجھا کہ ہم لوگ آپؐ سے سیکھ چکے ہیں۔ پھر ایک روز آپؐ نکلے اور تکبیر کہنے ہی والے تھے کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے نکلا ہوا دیکھا تو آپ ؐ نے فرمایا: اے اللہ کے بندو! تم اپنی صفوں کو ضرور سیدھا کرلیا کرو ورنہ اللہ تمہارے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔ (مسلم:۹۷۸) نیز صفوں کی درستگی کے لئے امام کو جماعت کی طرف چہرہ کرنا چاہئے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار نماز کی اِقامت ہوگئی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے چہرہ ہماری طرف کرکے فرمایا:

'' تم لوگ اپنی صفوں کو درست کرو اور مل کر کھڑے ہو جاؤ میں تمہیں اپنی پیٹھ پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔'' (بخاری:۷۱۹)

اور صفوں کی درستگی کے لئے امام کسی اورکو بھی مقرر کرسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ لوگوں کو صفیں برابر کرنے کا حکم دے دیتے تھے اور جب لوگ لوٹ کر خبر دیتے کہ صفیں برابر ہوگئیں ہیں اس وقت تکبیر کہتے۔

(المؤطا إمام مالك:کتاب قصر الصلوة في السفر،باب ما جاء في التسویة الصفوف:۱؍۱۰۱)

راوی بیان کرتا ہے کہ میں عثمان بن عفان کے ساتھ تھا کہ نما زکے لئے تکبیر ہوئی اور میں ان سے اپنے لئے وظیفہ مقرر کرنے کے متعلق بات کرتا رہا وہ اپنے جوتوں سے کنکریاں برابر کرتے رہے یہاں تک کہ مقرر کردہ لوگوں نے آکر صفوں کے برابر ہونے کی خبر دی تو حضرت عثمانؓنے مجھے کہا :صف میں صحیح طو ر پرکھڑا ہوجا، پھر آپ نے تکبیر تحریمہ کہی۔

(المؤطا إمام مالك:کتاب قصر الصلوة في السفر،باب ما جاء في التسویة الصفوف:۱؍۱۰۱)

5. بچوں کے لیے علیحدہ صف بندی کی ضرورت نہیں ، بڑوں کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔منیٰ میں ابن عباسؓ بڑوں کی صف میں شامل ہوتے تھے۔ فرمایا: ودخلت فی الصف فلم ینکر ذلک علی أحد ''میں صف میں داخل ہوا، پس مجھ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔''

نماز تہجد میں رسول اللہ ﷺ نے ابن عباسؓ جو ابھی بچے تھے، کو اپنے ساتھ کھڑا کیا تھا اور حضر ت انسؓ کا بیان ہے:

«فقام رسول اﷲ ! والیتیم معي والعجوز من ورائنا فصلی بنا رکعتین» (صحیح بخاری ، باب وضوء الصبیان،رقم الحدیث ۸۶۰)

6. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: امام سے پہلے سراٹھانے والے کو (کیا) اس بات سے ڈر نہیں لگتا ہے کہ اللہ اس کا سر کہیں گدھے کے سر سے نہ بدل دے۔ (بخاری:۶۹۱)

اس سے معلوم ہوا امام سے سبقت کرنا سخت وعید کا باعث ہے۔

7. فاتحہ کے علاوہ آدمی کو اختیار ہے نماز میں جتنی آیات چاہے تلاوت کرسکتا ہے اور اگر نہ بھی ملائے تب بھی نماز درست ہے۔