یہودیوں کے حق ِتولیت کے 'اِشراقی' علمبردار

معاصر 'اشراق' کے نوجوان سکالرز کی تحقیق کاری کا ناقدانہ جائزہ


گروہِ ملاحدہ اور سیکولر متفرنجین کی دل آزار شقاوتِ قلبی پر نوحہ گری سے قلم کو ابھی فرصت میسر نہیں آتی کہ متجددین ِشریعت میں سے کسی کی ایسی تحریر نگاہ سے گزرتی ہے جو قلب کو چیرتی ہوئی نکل جاتی ہے۔ ہمارے ہاں شریعت کو 'روحِ عصر' کے مطابق ڈھالنے کا 'عظیم مشن' لے کر عقل پرست متجددین اور اشراقی محققین کا ایک گروہ سامنے آیا ہے جس کے نزدیک تجدید ِدین کا مفہوم بس اتنا ہی ہے کہ اُمت ِمسلمہ کے جمہور فقہا نے جس بات پر اتفاقِ رائے کا اظہار کیا ہے، اس کو عقل اور روحِ عصر سے متصادم قرار دے کر اپنی 'محققانہ علمیت' کا ڈھنڈورا پیٹا جائے۔ حیرت یہ ہے کہ یہی گروہ سنت و احادیث کے قابل اعتبار ہونے کے لئے اُمت ِمسلمہ کی تاریخ سے 'تواتر ِعملی' کا ثبوت بھی مانگتا ہے۔ یہ گروہ جو اپنے حق میں 'اعتزال' کو گالی نہیںبلکہ تحسین کا نام دیتا ہے، اپنے تفردات اور عقلی تعبیرات میں اس قدر آگے نکل گیا ہے کہ معتزلہ بھی انہیں اپنے ساتھ ملانے میں شاید عار محسوس کرتے، کیونکہ وہ بھی اُمت ِمسلمہ کی دل آزاری میںاتنے بے باک واقع نہیں ہوئے تھے...!!

افغانستان کے نہتے بے گناہ مسلمانوں پر دورِحاضر کی بدترین بمباری ہورہی تھی، مسلمانوں کے جگر چھلنی کئے جارہے تھے، ان کی آبادیاں ڈیزی کٹر بموں سے اُڑائی جارہی تھیں، عین ان قیامت خیز ایام میں اس گروہ کے امام صاحب کا اخبار میں بیان چھپتا ہے:

''افغانستان پرامریکی بمباری جائز ہے۔'' (روزنامہ پاکستان، سنڈے میگزین ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۱ء)

اور پھر ارشاد ہوتا ہے: ''کشمیر کا جہاد جائز نہیں ہے۔'' بلکہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں: '' جہادِ کشمیر دہشت گردی ہے۔'' یہ تو محض ایک مثال ہے، ورنہ ملت ِاسلامیہ کو گھائل کر دینے والے ان کے بیانات کی فہرست بہت طویل ہے۔

مولانا نعیم صدیقی ؒ جو مولانا مودودی ؒ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، اس گروہ کے امام کے بارے میں فرماتے ہیں :

'' ایک تو ان میں سے بے شمار حلقہ ہائے فکر ونظر اسلامی میں سے ذرا اُبھر کر کچھ نئی راہیں نکالنے کا معاملہ ہے ، وہ ان کی خاص ضرورت ہے۔ وہ تمام نصوص اور معاملات او رنقطہ ہائے نظر سے خورد بینی نگاہ کے ساتھ ایسے پہلو یا گوشے نکالتے ہیں کہ ایک متوسط قاری یہ تاثر لے سکتا ہے کہ وقت کا کوئی بڑا مجتہد پیدا ہوا ہے جو عام سی باتوں میں ایسے ایسے لطیف نکتے نکالتا ہے کہ سر پھر جاتا ہے۔مگر اہل علم وتحقیق اگر بغور تجزیہ کریں تو بس ایک طرح کا ہپناٹزم ہے۔ اسی کو آپ (مولانا زاہد الراشدی) نے تفرد کہا ہے اور اس تفرد کے بغیر کوئی نو خیر آدمی جگہ بنا ہی نہیںسکتا۔ زور ہمیشہ کسی مروّج ومعروف مسئلے میں اختلافی دراڑ پیدا کرنے پر ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اس تفرد کو کسی طرف سے مسلمہ علمی شخصیت یا ادارے کی سند ملنی چاہیے۔ اس سند کے لیے وہ فوراً اصلاحی صاحب کی طرف لپکتے ہیں۔ایک متعین مرکز استفادہ اور چند مسائل تفرد!! یہ وہ سرمایہ ہے جس سے ایک نئے علم ومرکز کا قیام عمل میں آتا ہے۔

یہ حضرات بغداد والے ان علاماؤں کی روش پر بحثوں میں پڑے وقت کی آفات سے ایسے غافل ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ تاتاری مسلمانوں او ران کی حکومتوں کوبرباد کرتے ہوئے بغداد کی طرف آر ہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ کوئی تدبیر آنے والی تباہی کے تدارک کے لیے کرتے ، انہیں اپنی بحثوں سے فرصت نہ تھی، یہاں تک کہ سب صفایا ہو گیا ۔ نہ عَلَم رہا باقی اور نہ علم۔'' (مولانا زاہد الراشدی کے نام خط: ماہنامہ 'الشریعہ'،اگست ۲۰۰۱ئ)

راقم نے نعیم صدیقی صاحب کی رائے یہاں اس لیے نقل کی ہے کہ قارئین یہ جان سکیں کہ اس گروہ کے متعلق اہل علم کیا 'حسن ظن' رکھتے ہیں۔

نعیم صدیقی صاحب نے موصوف کے مجتہدانہ تاثر پیدا کرنے کی جو بات کی ہے، وہ بالکل درست ہے، بہت سے لوگ اس تاثر کی گرفت میں ہیں۔صحافیوں کا ایک گروہ جو روایتی علما سے تو بیزار ہے مگر اسلام پسندی کو اب تک مسلک کے طور پر اپنائے ہوئے ہے، ان سے اِرادت مندی کا رشتہ رکھتا ہے۔ایک معروف صحافی تو پاکستان میں جدید اسلامی ریاست کے تصور کو فروغ دینے میں انہیں 'آخری اُمید' سمجھتے ہیں۔روزنامہ جنگ کے ایک کالم نگار نے توانہیں'فقیہ العصر' کا لقب دے رکھا ہے اور دوسروں سے یہ منوانے کے لیے تواتر سے قلمی جدوجہدفرماتے رہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان کا پاکستان کے دینی حلقوں میں اصل مقام ایک طائفہ نو اعتزال کے گرو(The Leader of Neo-Mutazalites) کا ہی ہے۔ حریت ِفکر وضمیر کے پردے میں اس منحرف گروہ نے عمل وخیال کی ایسی ایسی نئی طرحیں ایجاد کی ہیں کہ مذہبی معتقدات اور اسلامی تاریخ کے مستند واقعات کو ریب وشک میں ڈال دیا ہے۔ تحقیق کے نام پر یہ ایسے ایسے استنتاج واستنباط پیش کرتے ہیں کہ واقعی ایک عام شخص چکرا کررہ جاتا ہے۔ان کے 'عالمانہ اُلجھاؤ' اور 'محققانہ نکتہ رسی' سے پاکستان کی دینی اساس کی بساط کو خطرات در پیش ہیں۔

آج ہم ان عقل پرست متکلمین کے جس 'وصف ِخصوصی' کا ذکر کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ان حضرات کا شرعی علوم سے عاقلانہ شغف یہودیوں کے متعلق ان کے قلوب میں نرم گوشہ پیدا کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ کا باعث نہیں بنتا۔ ایک طویل عرصہ سے اس گروہ کے یہودی علماء (رِبیوں) سے روابط اور ان سے انٹر نیٹ پر علمی مکاتبت کی خبریں آرہی تھیں، کبھی کبھاریہود سے اظہارِ ہمدردی پر مبنی بیانات بھی سامنے آتے رہے۔ بیت المقدس پر یہودیوں کے استحقاق کی طرف 'اشارات' بھی ان کی تحریروں میں بارہا محسوس کئے گئے، مگر حال ہی میںعقل پرست متجددین کا یہ ملت فروش بیزار گروہ مسجد ِاقصیٰ پر یہودیوں کے حق ِتولیت کا علمبردار بن کر کچھ اس انداز میں آگے بڑھا ہے کہ اگر اس کی پیش قدمی نہ روکی گئی تواتحادِ ملت میں شدید رخنہ اندازی اور فکری گمراہی کے نئے دَر کھلنے کا امکان ہے۔ اس گروہ کے محققین ملت ِاسلامیہ کے عادلانہ موقف کی تائید کی بجائے یہود کے ماخذ و مصادر سے اخذ شدہ معلومات پر اپنے 'نتائج ِعلمی' مرتب کرنے کا گہرا میلان رکھتے ہیں !!

ماہنامہ 'اشراق' مذکورہ گروہ کا 'آرگن' ہے، اس کی جولائی اور اگست ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں 'مسجد ِاقصیٰ، یہود اور اُمت ِمسلمہ' کے عنوان سے ایک نوجوان محقق کا تحریر کردہ ایک 'علمی' مقالہ شائع ہوا ہے جس میں فاضل مصنف نے سارا 'جوشِ تحقیق' اور 'زورِ علم' محض یہ ثابت کرنے پرصرف کیا ہے کہ مسجد ِاقصیٰ پر یہودیوں کے تولیت کے حق کو تسلیم نہ کرکے اُمت ِمسلمہ گذشتہ چودہ سو برسوں سے عدل و انصاف کا خون کررہی ہے۔ نوخیز محقق کے مقالہ کا بیشتر حصہ یہودی علما کے نقش ہائے عبرانی سے مزین ہے، کہیں کہیں قرآن و حدیث کے حوالہ جات بھی دئیے گئے ہیں، مگر اسرائیلیات سے اس قدر غیر معمولی شغف کے باوجود بھی موصوف کو دعویٰ یہ ہے کہ اس معاملے میں اسلامی شریعت کا صحیح منشا اگر کوئی سمجھنے کے قابل ہوا ہے، تو اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں لکھنے والا بس یہی محقق ہے...!!

بساطِ تحقیق پر جلوہ گر ہونے والے اس نووارد اِشراقی محقق کے 'علمی کارنامے' ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پچاس صفحات پر پھیلے ہوئے مضمون کا مواد اس نوجوان مصنف کی بلا شرکت ِغیرے تحقیقی کاوش کانتیجہ نہیں ہے، اس میں اس طائفہ نواعتزال کے اجتماعی خون پسینے، جو وہ اس راہ ِ تحقیق میں مدت سے بہا رہا ہے،کو بھی خاصا دخل ہے۔ اشراقیت پسندوں کا یہ گروہ اپنی ذہنی اُپج، فلسفیانہ شغف اور تقابل ادیان کی طرف گہرے میلان کی وجہ سے مسلمان علما سے رابطوں کو اپنے 'عالمانہ پندار' سے کم تر خیال کرتا ہے، البتہ یہودی ربیوں سے 'علمی مکاتبت' پر ناز کا اظہار کرتے کبھی نہیں تھکتا...!!

پاکستان میںمحض دیسی یہودیوں (یعنی قادیانی) کے متعلق عام طور پر لوگ زیادہ تر جانتے ہیں کہ انہوں نے اسرائیل میں باقاعدہ تبلیغی مشن بٹھا رکھے ہیں۔ مگر 'اشراقیہ 'کے متعلق 'اشرافیہ' (Elites)تک کو بھی علم نہیں ہے کہ ان کے یہود کے ساتھ کس حد تک گہرے 'علمی روابط' ہیں۔ جس نے ان 'روابط' کی ہلکی سی جھلک دیکھنی ہو، وہ ہمارے ممدوح محقق کا زیر تبصرہ مضمون دیکھ لے۔ ایسا مضمون اس طرح کے 'علمی روابط' کے بغیر 'جوڑنا' بے حد مشکل ہے۔

اہل اشراق کے گرو(جو اپنے حلقہ میں بجا طور پر 'فقیہ العصر' کے طور پر جانے جاتے ہیں) کے حسن انتخاب کی بھی داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ انہوں نے اپنی اجتماعی کاوش اور یہودیوں کے نقطہ نظر کو اُردو زبان کے قارئین کے مطالعہ میں لانے کے لیے اس نوجوان محقق کو مبعوث فرمایاکہ جوایک ایسے مذہبی خانوادے سے تعلق رکھتا ہے جس کا مذہبی حلقوں میں خاصا احترام کیاجاتا ہے۔ یہی بات اگر وہ اپنے درجن بھر محققین میں سے کسی سے لکھواتے تو اس کا دین سے وابستہ حضرات پر وہ اثر ہرگز نہ ہوتا جو اس مقالہ کے اس نوجوان قلم کار کے لکھنے سے ہوگا۔ لیکن افسوس کہ لکھنے والے کو اپنے اس خاندانی مقام ومرتبہ اور دینی حمیت وغیرت کا وہ احساس نہیں جس کی بنا پر اشراقیوں کی نظر انتخاب اس پر ٹھہری ہے۔

عدل و انصاف کے قرآنی تصور کا عجیب و غریب تصور رکھنے والا یہ قلمکار اپنے تئیں یہ سمجھتا ہے کہ ملت ِاسلامیہ یہودیوں کے معاملے میں عدل و انصاف کے طریقے سے گریز کر رہی ہے، لہٰذا یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے صحیح راستہ سمجھائے۔

موصوف قرآنِ مجید کی آیت ''کسی قسم کے ساتھ دشمنی تمہیں برانگیختہ کرکے ناانصافی پر آمادہ نہ کردے۔'' نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :

''اگر مسلمان کسی موقع پر عدل و انصاف کے طریقہ سے گریز کا رویہ اختیار کریں تو قرآن مجید کی رو سے اہل ِایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی رو رعایت کے بغیر اپنے بھائیوں کے سامنے حق کی شہادت دیں گے۔'' پھر اپنے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

''ذیل کی سطور میں ہم نے اس جذبہ کے ساتھ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔'' (ماہنامہ 'اشراق': جولائی ۲۰۰۳ء ،صفحہ ۳۴)

ہم آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیںکہ متجددین کے اس گروہ کے ارکان کے قلوب میں یہ جذبہ ہر اس مقام پر آخر کیوں بیدار ہوتا ہے جہاں ملت ِاسلامیہ کے موقف کی مخالفت کرنی ہو۔ آخر انہوں نے یہ کیسے فرض کرلیا ہے کہ آج تک اُمت ِمسلمہ میں ایک بھی بطل جلیل ایسا پیدا نہیں ہوا جو یہودیوں کے ساتھ معاملات میں عدل و انصاف کے شرعی تقاضوں کو کماحقہ سمجھ سکا ہو۔ کیا یہ نکتہ صلاح الدین ایوبی جیسے عادل بادشاہ کو بھی نہ سوجھا جس نے اپنے مخالف برطانوی بادشاہ رچرڈ کی بیماری کا سنا تو اپنا معالج بھیج دیا۔ کیا حضرت عمر فاروقؓ جنہوں نے یروشلم کے دورہ کے دوران عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ بے مثال روا داری کا ثبوت دیا تھا، ان کے دل میں بھی عدل و انصاف کا وہ تصور بیدار نہ ہوا، جس کی نشاندہی کا 'اعزاز' دورِ حاضر کے اِس محقق کوحاصل ہوا ہے۔

مضمون کے اہم مقدمات پر تبصرہ

مصنف کے تفصیلی مباحث کا جواب ہم بعد میں دیں گے ، ان کے اہم مقدمات پر مختصراً تبصرہ ہم پہلے پیش کرتے ہیں:

1. مسجد ِاقصیٰ پریہودیوں کے حق تولیت و تصرف کی وکالت کرتے ہوئے فاضل مضمون نگار لکھتے ہیں:

''فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں نے اس نہایت مقدس اور فضیلت والی عبادت گاہ کو جو صدیوں سے ویران پڑی تھی، آباد اور تعمیر کیا۔ قرآن و سنت کی اُصولی تعلیمات کی روشنی میںمسلمانوں کے اس اقدام کی نوعیت خالصتاً احترام و تقدیس اور تکریم و تعظیم کی تھی، نہ کہ استحقاق اور استیثار کی۔ اس کی تولیت کی ذمہ داری انہوں نے یہود کو اس سے بے دخل کرکے اس پر اپنا حق جتانے کے تصور کے تحت نہیں، بلکہ ان کی غیر موجودگی میںمحض امانتا ًاُٹھائی تھی۔ لیکن چونکہ اس سارے عرصہ میں یہود کے نزدیک نہ مذہبی لحاظ سے ہیکل کی تعمیر کی شرائط پوری ہوتی تھیں اور وہ نہ سیاسی لحاظ سے اس پوزیشن میں تھے کہ اس کا مطالبہ یا کوشش کریں، اس لئے کم و بیش تیرہ صدیوں تک جاری رہنے والے اس تسلسل نے غیر محسوس طریقے سے مسجد اقصیٰ کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی اور اس پر استحقاق کا ایک ایسا تصور پیدا کردیا جس کے نتیجے میں معاملہ کااصل پس منظر اور اس کی صحیح نوعیت نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔'' (اشراق: اگست ۲۰۰۳، صفحہ ۴۸)

بیت المقدس کی تولیت کی ذمہ داری اور امانت کا مندرجہ بالا تصور مصنف کے مخصوص فکری رجحانات کانتیجہ ہے، ورنہ تاریخی طور پر اس کاکوئی وجود نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تھا، تو ان کے اور عیسائیوں کے درمیان جو مفصل معاہدہ تحریر میں لایاگیا تھا، اس میںاس طرح کی کسی مزعومہ امانت کا ذکر تک نہیں ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہودیوں کی غیر موجودگی میں مسلمانوں کو اس بارِ امانت کے اُٹھانے کی ضرورت کیا تھی۔ بالخصوص حضرت عمرؓ جیسے خلیفہ عادل کی موجودگی میں، جسے یہ بھی گوارا نہ تھا کہ مسلمان بیت المقدس کے اس حصہ میں نماز ادا کریں جو عیسائیوں نے اپنی عبادت کے لئے منتخب کررکھا تھا۔ اگر اسے بعد میں یہودیوں کی تولیت میں دینے کا مسئلہ ہوتا، تومسلمان مذکورہ معاہدہ میں اس کا اِندراج ضرور کراتے، اتنی بڑی بات کو نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ حضرت عمرفاروقؓ نے یروشلم پہنچنے کے بعد اہل بیت المقدس کے ساتھ جو معاہدہ فرمایا، اس کے یہ الفاظ ہمارے خصوصی تجزیہ کے متقاضی ہیں :

''یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیرالمومنین عمرؓ نے اہل ایلیا کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لئے ہے۔ نہ ان کے گرجاؤں میںسکونت کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کو یا ان کے احاطے کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔ ایلیا کے باسیوں میں سے جو یہ چاہیں کہ اپنی جان و مال لے کر رومیوں کے ساتھ چلے جائیں اور اپنے گرجا اور صلیبیں چھوڑ جائیں تو ان کی جانوں، گرجوں اور صلیبوں کو امان حاصل ہے یہاں تک کہ وہ کسی پرامن جگہ پر پہنچ جائیں۔''

ذرا غور فرمائیے ایک ایسا تفصیلی معاہدہ جس میں گرجا تو اپنی جگہ، ایک چھوٹی سی علامت تقدس یعنی 'صلیب' تک کو امان دینے کاذکر ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اس شہر میں کسی ہیکل سلیمان یا دیوارِ گریہ کے آثار موجود ہوتے جسے اس وقت کے یہودی اپنے معبد کے طور پر استعمال کرتے تھے اور ان کا ذکر اس معاہدے میں نہ ہوتا۔ معاہدے کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ معاہدہ محض عیسائیوں سے نہیں تھا بلکہ 'ایلیا کے باسیوں' سے تھا۔ ان باسیوں میں یہودی بھی شامل ہوں گے۔ یہ پیش نظر رہے کہ فلسطین سے یہودیوں کا سو فیصد اخراج کسی دور میں بھی نہیں ہوا۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تو اس شہر میں یہودی بھی موجود تھے۔ یہودیوں کی تاریخ کے مطابق ہیکل سلیمانی کو عیسائی فاتحین نے تباہ کیا تھا۔ اب جبکہ مسلمانوں نے عیسائیوں سے یہ مقدس شہر چھین لیا تھا، تو یہودیوں کے لئے یہ نادر موقع تھا کہ وہ مسلمانوں سے اپنے مقدس مقامات کی بحالی کی درخواست گذارتے کیونکہ ان کی فاتح مسلمانوں سے براہِ راست کوئی جنگ نہیں تھی اور دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر پسے ہوئے طبقات نئے فاتح کے سامنے پرانے فاتح کی شکایات پیش کرتے ہیں۔ مثلاً پنجاب کے مسلمانوں نے انگریزوں سے سکھوں کی شکایت کی کہ انہوں نے ان کے مقدس مقامات مثلاً شاہی مسجد لاہور کا تقدس پامال کیا۔ انگریزوں نے مسلمانوں کی اس شکایت کا فوراً ازالہ کردیا۔ مگر یہودیوں کی طرف سے اس طرح کی کسی درخواست کا تاریخ میں ذکر نہیں ہے۔ آخر کیوں؟ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہاں کسی ہیکل سلیمانی کے آثار موجود نہ تھے جس کی بحالی کی وہ درخواست کرتے۔ یہ واقعی ایک مزعومہ ہیکل تھا، جس کا فسانہ فری میسن تحریک نے گھڑا تھا۔

یہ بھی مصنف کی یہود نوازی کا شاخسانہ ہے جو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہود مذہبی یا سیاسی لحاظ سے اس پوزیشن میں نہ تھے کہ اس کا مطالبہ یا کو شش کریں۔ یہودیوں کی اتنی بڑی اُمت میں کیا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو تیرہ سوبرسوں میں کبھی کسی مسلمان حکمران سے یہ مطالبہ کرتاکہ یہودیوں کو ہیکل تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتاکہ ان کایہ مطالبہ مسترد کردیا جاتا، جس کا امکان کم تھا۔ انہیں محض اس مطالبہ پر کوئی مسلمان خلیفہ قتل کی سزا تو نہ دیتا۔ پھر آخر کیا و جہ ہے کہ تاریخ ان کی طرف سے اس طرح کے مطالبہ کے ذکر سے یکسر خالی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ ایسے واقعات سے خالی نہیں ہے جس میں ظاہری طور پر شرع کے پابند مسلمان بادشاہوں نے غیر مسلم رعایا کے لئے عبادت گاہیں تعمیر کیں۔

سپین کے مسلمان بادشاہوں نے عیسائی رعایا کے لئے گرجوں کی تعمیر کے لئے رقوم عطا کیں۔ برصغیر میں اورنگ زیب عالمگیر نے ہندوؤں کے مندر شاہی خزانے سے تعمیر کرائے۔ تاریخی حقیقت وہی ہے جس کا ذکر ڈاکٹر یوسف قرضاوی، فلسطین کے موجودہ مفتی اعظم عکرمہ صبری، فلسطینی اتھارٹی کے ڈائریکٹر آف اسلامک وقف شیخ اسماعیل اور جناب یاسرعرفات نے اپنے ان بیانات میں کیا ہے، جنہیںنقل کرنے کے بعد 'اشراق' کے مضمون نگار نے انہیں 'کتمانِ حق' اور 'تکذیب ِآیات اللہ' قرار دیا ہے۔ ان حضرات نے اپنے بیانات میں بالکل درست کہا ہے کہ ''ہیکل ِسلیمانی کا کوئی وجود نہیں ہے۔''

فلسطین کے موجودہ مفتی اعظم صاحب کی تحقیق یہی ہے کہ

''پورے شہر میں کوئی ایک پتھر بھی ایسا نہیں جو یہودی تاریخ پر دلالت کرتاہو۔ یہودی تو یہ تک نہیں جانتے کہ ان کے ہیکل کا ٹھیک ٹھیک محل وقوع کیا تھا، اس لئے ہم اس مقام پر سطح زمین کے نیچے یا اس کے اوپر ان کا کوئی حق تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔''

جب تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ مسجد ِاقصیٰ کے ساتھ کوئی ہیکل سلیمانی موجودنہیں تھا، کم از کم اس وقت جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا، تو اس کی تولیت کا فسانہ کھڑاکرنا حد درجہ شر انگیزی اور مسلمانوں میں یہودی سوچ کو پروان چڑھانے کی افسوسناک سازش ہے۔ تمام عالم عرب اور اُمت ِمسلمہ کے اجماعی موقف کو 'تکذیب آیات اللہ' قرار دینا ایک ایسی مذموم حرکت ہے جس کا علما کو سخت نوٹس لینا چاہئے۔

ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا قضیہ اٹھانے کی و جہ؟

2. مصنف خلاصۂ بحث پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

''گذشتہ صدی میں جب یہود کے مذہبی حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ باقاعدہ صورت میں سامنے آیا تو وہ صہیونی تحریک کے سیاسی عزائم کے جلو میں آیا۔ اُمت ِمسلمہ کی اخلاقی ذمہ داری بلا شبہ یہ تھی کہ وہ سیاسی کشا کش سے بالاتر ہوکر اس مطالبہ کو اس کے صحیح شرعی و مذہبی تناظر میںدیکھتی اور اسلام کی اُصولی تعلیمات کی روشنی میں اس معاملے کا فیصلہ عدل و انصاف کے ساتھ بالکل بے لاگ طریقے سے کرتی۔ اہل کتاب اور ان کی عبادت گاہوں کے بارے میں اسلام کی اصل تعلیم رواداری اور مسامحت کی ہے۔ مرکز ِعبادت اور قبلہ کی حیثیت رکھنے والے مقام کے احترام اور اس کے ساتھ وابستگی کی جو کیفیت مذاہب ِعالم کے ماننے والوں میں پائی جاتی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اس طرح یہود کی شریعت میں ہیکل کے مقام وحیثیت، اس کی تباہی و بربادی پر ان کے دلوں میں ذلت و رسوائی کے احساسات اور اس کی بازیابی کے حوالہ سے ان کے سینوں میں صدیوں سے تڑپنے والے مذہبی جذبات بھی ایک مسلمہ حقیقت ہیں۔ یہ ایک نہایت اعلیٰ، مبارک اور فطری جذبہ ہے اور خود قرآنِ مجید یہود سے ان کے اس مرکز ِعبادت کے چھن جانے کی وجہ ان کے اخلاقی جرائم کو قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس امکان کو بھی صراحتاً تسلیم کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اور ان کی آزمائش کے لئے اس مرکز کو دوبارہ ان کے تصرف میں دے دے۔'' (ایضاً، صفحہ ۴۸)

جیسا کہ مصنف نے خود اعتراف کیا ہے، اصل میں یہ سب صہیونیوں کے مکروہ سیاسی عزائم تھے جن کی تکمیل کے لئے وہ یہ تمام ایجنڈا پیش کررہے تھے۔ ۱۸۹۷ء میں تھیوڈرہرزل کی قیادت میں جب صہیونی تحریک وجود میں آئی تواس کا اصل ہدف فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام تھا۔ ہیکل سلیمانی کی تعمیر یا دیوارِ گریہ کی مرمت ان کا مقصود ہرگز نہ تھا، فاضل مصنف اگر یہودی انسا ئیکلو پیڈیا یا یہودی رِبیوں کی طرف سے حاصل کردہ معلومات تک ہی اپنے آپ کو محدود نہ رکھتے تو ان کے لئے یہ جاننامشکل نہ تھا کہ صہیونی لیڈروں نے عثمانی خلیفہ عبدالحمید سے بار بار فلسطین میںخطہ فراہم کرنے کامطالبہ کیا تھا جہاں وہ یہودی ریاست قائم کرسکیں۔ راقم الحروف پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہتا ہے کہ اگر یہودی عثمانی خلیفہ سے یہودی ریاست کے قیام کی بجائے مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور اس کی تولیت کی درخواست کرتے تو وہ اسے شرفِ قبولیت سے ضرور نوازتا۔ کیونکہ اسی عثمانی خلیفہ نے یورپ سے نکالے گئے ہزاروں یہودیوں کو اپنی سلطنت میں پناہ ہی نہیں دی، خوشحالی کے وسائل بھی فراہم کئے تھے۔ یہودی اتنے سادہ لوح نہ تھے، جتنا کہ فاضل مصنف ان کے بارے میں ہمیں تاثر دینا چاہتے ہیں۔ یہودی تولیت پر قناعت کرنے والے نہ تھے، ہیکل سلیمانی کا فسانہ تو انہوں نے یہودی ریاست کو جواز عطاکرنے کے لئے ہی گھڑا تھا ورنہ ان کی بات میںوزن کیسے پیدا ہوتا۔

'اشراق' کے مضمون نگار یہودی ذہنیت کو سمجھنے میں قطعی طور پر ناکام رہے ہیں۔ وہ یہودیوں کے سینوں میں صدیوں سے تڑپنے والے مذہبی جذبات کا بہت واویلا کرتے ہیں اور انہیں مبارک خیال کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدیوں سے تڑپنے والے جذبات قیامِ اسرائیل کے بعد بالآخر جھاگ کی طرح کیوں بیٹھ گئے؟ اب ان کا وہ 'نہایت اعلیٰ، مبارک اور فطری جذبہ' کہاں غتر بود ہوگیا؟ وہ اتنے پرجوش تھے تو اب تک ہیکل سلیمانی تعمیر کیوں نہ کرسکے، کیا انہیںمسلمانوں کاڈر ہے یا عالمی رائے عامہ کا؟ اب تک انہوں نے جن وحشیانہ کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے، اس سے تو معلوم ہوتا ہے وہ کسی کے خوف میںمبتلا نہیں ہیں!!

مصنف نے مسلمانوں کی 'عدم رواداری' کا ذکر چھیڑ کر مسلمانوں میں 'احساسِ جرم' کو بیدار کرنے کی بے کارکوشش کی ہے حالانکہ مسلمانوں کی پوری تاریخ یہودیوں کے ساتھ رواداری پر مبنی رہی ہے۔ مسلمانوں کے دور میں یہودیوں کی تجارت خوب چمکی۔ وہ مشرقِ وسطیٰ سے سامان لے کر یورپ جاتے تھے اور خوب کمائی کرتے تھے، آج یہودیوں کی خوشحالی کی اصل وجہ مسلمانوں کی یہی تاریخی روا داری ہی ہے ۔

مصنف کا یہ کہنا کہ قرآنِ مجید میں یہودیوں کو ان کے مرکز دوبارہ ملنے کے امکان کا ذکر ہے، محض سوئے تاویل اور قرآنی آیات کی معنوی تحریف ہے۔ قرآن مجید میں یہودیوں کے جس دوبارہ تصرف کی بات کی گئی ہے ، وہ بخت نصر کی فتح کے بعد وقوع پذیر ہوچکا ، اب قرآنِ مجید کی رو سے ان کے کسی تصرف کا امکان ظاہر نہیں ہوتا۔ قرآنی آیات کی اس طرح معنوی تحریف یہودی موقف کی وکالت کے زمرے میں آتی ہے۔

3. اشراق کے مضمون نگاربالآخر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں :

''اس معاملہ میں اُمت ِمسلمہ کے موقف اور رویے کا جس قدر بھی تجزیہ کیجئے، یہی بات نکھرتی چلی جاتی ہے کہ وہ 'استحقاق' کی نفسیات سے مغلوب ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کی تولیت کی 'امانت' کو ایک مستقل مذہبی حق قرار دینے اور یہود کو اس سے قطعاً لاتعلق ثابت کرنے کے لئے علمی سطح پر انحرافات کا ایک سلسلہ وجود میں آچکا ہے۔

ہیکل کی بازیابی اور تعمیرنو کے ایک مقدس مذہبی جذبے کو 'مسجد ِاقصیٰ کی حرمت کی پامالی کی یہودی سازش' کا عنوان دے کر ایک طعنہ اور الزام بنا دینا مسجد ِاقصیٰ پر یہود کے تاریخی و مذہبی حق کی مطلقاً نفی کردینا اور اس سے بڑھ کر ان کو اس میں عبادت تک کی اجازت نہ دینا ہرگز کوئی ایسا طرزِ عمل نہیں ہے جو کسی طرح بھی قرین انصاف اور اس اُمت کے شایانِ شان ہو جس کو قوامین ﷲ شھداء بالقسط کے منصب پرفائز کیا گیا ہے۔ '' (صفحہ ۴۹)

صرف مذکورہ مضمون نگار ہی نہیں، یہودی پراپیگنڈہ سے مرعوب و متاثر کوئی بھی صاحب قلم جب اُمت ِمسلمہ کے موقف کا اپنی کج فکری کی تجربہ گاہ میں تجزیہ کرے گا، تو اسی نتیجہ پر پہنچے گا۔ موصوف کو اُمت ِمسلمہ کاموقف تو استحقاق کی نفسیات سے مغلوب لگتا ہے، مگر یہودیوں کے موقف میں کوئی سقم نظر نہیں آتا۔ یہودی آج تک ہیکل سلیمانی کا وجود ثابت نہیں کرسکے، مگر یہودیوں کے متعلق نرم گوشہ رکھنے والے بزعم خویش محقق کی نگاہ میں ان کا موقف پتھر پر لکیر کی طرح ثبت ہے۔ مصنف جس گروہ کی ہم نوائی کررہا ہے، اسے مسلمانوں کے مسلمہ موقف میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی خرابی نظر آتی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہو، یا فلسطین کا، افغانستان پر امریکی بمباری ہو یا عراق پر امریکی قبضہ، وہ ہمیشہ مسلمانوں کی مخالف سمت میں نظر آتے ہیں!!

ہم اُوپر کی سطور میں لکھ چکے ہیں کہ ہیکل کی بازیابی اور تعمیر نویہودیوں کاکوئی مقدس جذبہ نہیں ہے۔اگر اس میں ذرّہ برابر صداقت ہوتی تو کوئی امر مانع نہ تھا کہ آخر وہ اس کی تکمیل کیوں نہ کرتے، یہ مصنف کی محض سطحی تاویل تراشی اور کھوکھلی موضوعیت ہے جس کی بنا پر انہیں یہودیوں کے 'مقدس جذبہ' پر اس قدر ایمان ہے۔ مصنف یہودیوں کو مظلوم ثابت کرنے کے جوش میںاس تاریخی حقیقت کو جھٹلانے سے بھی باز نہیں رہے کہ یہودیوں کو مسلمانوں نے کبھی ان کی اپنی تعمیر کردہ عبادت گاہ پرعبادت کرنے سے باز نہیں رکھا۔ صہیونی جنونیوں کی اصل دلچسپی مسلمانوں کی عبادت گاہ کو گرا کر اس پر ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا ہے ۔مصنف صہیونی مزاج اور ان کی نفسیات کا بہ نظر عمیق مطالعہ فرماتے تو یہ جاننا مشکل نہ تھا کہ یہودی مسلمانوں کی مسجد ِاقصیٰ گرا کر مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس مقدس سر زمین سے روحانی اور سیاسی طور پر بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔مسجد اقصیٰ ہی مسلمانوں کی جذباتی وابستگی کا اصل محور ومرکز ہے، جب یہ باقی نہیں رہے گا تو مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کی کوئی بھی تحریک چلانا مشکل ہو جائے گا۔مسجد اقصیٰ کو گرا کر ہیکل سلیمانی کی تعمیرمیں جو پیغام پوشیدہ ہے اسے ہر صاحب ِعقل بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے پردے میں یہودی بیت المقدس پر اپنا سیاسی تسلط مستحکم کرنا چاہتے ہیں،مصنف خوامخواہ ان کے حق تولیت کی وکالت فرما رہے ہیں۔

4.اپنے مضمون میں مصنف ایک مقام پر لکھتے ہیں :

''۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل مشرقی یروشلم پرقبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا جس میںمسجد ِاقصیٰ واقع ہے اور مسجد کواسرائیلی فوج نے اپنے کنٹرول میں لے لیا، تاہم اسرائیلی وزیر دفاع موشے دایان نے خیرسگالی کے اظہار کے طور پر احاطہ مقدسہ کی چابیاں اُردن کے حکمران ہاشمی خاندان کے سپرد کردیں۔'' (اشراق: جولائی، صفحہ۴۰)

راقم الحروف کے علم کے مطابق کسی مذہبی رسالہ میں لکھنے والا یہ پہلا مصنف ہے جس کی عقابی نگاہ نے تاریخ کے خونیں صفحات سے ظالم موشے دایان کی اس 'خیرسگالی' کو کھود نکالا ہے، ورنہ یہ تاریخ کے دبیز پردوں میں ہی ملفوف رہتی۔ ہمارے وہ سیکولر دانشور جو اسرائیل کی حمایت میں مہم برپا کئے ہوئے ہیں، وہ اس 'خیرسگالی' کو خوش آئند کہیں گے۔ اُنہیں ضرور مسرت ہوگی کہ اب 'اہل شریعت' میںسے بھی کچھ محقق میدان میں آگئے ہیں جو یہودیوں کی'خیرسگالی' پر دل سے یقین رکھتے ہیں۔

ہمیں حیرت ہے کہ فاضل مصنف نے اسرائیلی قیادت کی طرف سے 'خیرسگالی' کا محض یہ اکلوتا واقعہ بیان کرنے پر ہی اکتفا کیوں کیا، وہ چاہتے تو اسرائیلی وزیراعظم ایرل شیرون کی اس 'خیرسگالی' کا ذکر بھی کرسکتے تھے جس کا اس نے حال ہی میں جناب یاسرعرفات کے ساتھ اظہار کیا ہے، یعنی ان کے ہیڈکوارٹر پر ٹینک چڑھانے کے بعد اس پر قبضہ نہ کرنا بھی تو آخر 'خیرسگالی' کا اظہار ہی تھا۔ 'جنین' کے قصبہ پر بلڈوزر چڑھانے کے بعد، چند سخت جان خواتین و حضرات کی جاںبخشی کیا کم 'خیرسگالی' تھی جس کا ذکر کرنا فاضل مصنف بھول گئے؟ موصوف نے اپنے مضمون میں جو زورِ قلم دکھایا ہے، ہمیں حسن ظن ہے کہ اگر وہ چاہتے تو نہ جانے 'خیرسگالی' کے کیسے کیسے نادرۂ روزگار واقعات پر روشنی ڈال سکتے تھے۔

حق تولیت ...چند اہم سوالات

مضمون نگار نے مسجد ِاقصیٰ پریہودیوں کے حق ِتولیت کو ثابت کرنے کے لئے جو مواد جمع کیا ہے، اس کامعتدبہ حصہ یہودی ذرائع ابلاغ اور یہودی ربیوں کی ویب سائٹس سے اَخذ شدہ معلوم ہوتا ہے اور جہاںکہیں قرآن وسنت، اسلامی تاریخ سے حوالہ جات نقل کئے ہیں، ان کے سیاق و سباق اور حقیقی مفہوم کو صحیح تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی بجائے من چاہی نکتہ آفرینیوں سے ذہن میں پہلے سے بنے بنائے نتائج کو 'تحقیق' کا نام دے کر پیش کردیا ہے۔ یہی و جہ ہے کہ موصوف نے اپنے دلائل کاجو پایۂ چو بیں شدید دماغی کاوش کے بعد ترتیب دیا ہے، اس کے انہدام کے لئے باہر سے اضافی مواد کو جمع کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کے اپنے پیش کردہ موادکی صحیح تعبیر کردی جائے تو ان کا استدلال کھوکھلا ہی نہیں باطل بھی ثابت ہوجائے گا۔ اس پوری بحث میں چند باتیں بے حد اہم ہیں، مثلاً :

1. ہیکل ِسلیمانی کی تعمیر کے اصل مقام کا تعین کیسے کیا جائے؟ کیا اس کے لئے محض یہودی روایات کو ہی کافی سمجھا جائے یا اسلامی تاریخ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے؟

2. قبہ صخرا کی حقیقت کیاہے؟ اس کے مقام کا تعین کیونکر کیا جائے؟

3. کیا مسجد ِاقصیٰ عین ہیکل ِسلیمانی کی جگہ تعمیر کی گئی یا اس سے ذرافاصلے پر؟

فرض کیجئے یہ وہاں قائم کی گئی جہاں پرتباہ شدہ ہیکل سلیمانی کے آثار تھے، تو مسلمانوں کے اس اقدام کے محرکات کیا تھے؟

4. 'دیوارِ گریہ' کی حقیقت کیاہے؟ کیا یہ ہیکل سلیمانی کا باقی ماندہ حصہ ہے جسے وہ موجودہ مسجد ِاقصیٰ کی مغربی دیوار کہتے ہیں؟ دیوارِ گریہ کا دیوارِ براق سے کوئی تعلق ہے؟

5. جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تو ہیکل سلیمانی کی پوزیشن کیا تھی؟

جیسا کہ مصنف نے تحریر کیا ہے کہ ''اُمت ِمسلمہ کی نمائندگی کرنے والے مذہبی و سیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور ماہرین تاریخ کی اکثریت'' سرے سے ہیکل سلیمانی کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتی، اس کے مقام کے تعین کاسوال تو رہا ایک طرف۔ موصوف کی طرف سے پیش کردہ چند معروف شخصیات کے مختصر اَقوال کو یہاں دہرانا ضروری معلوم ہوتا ہے :

(i) ڈاکٹر یوسف قرضاوی فرماتے ہیں:

''اپنے تمام تر ترقی یافتہ سائنسی ، تکنیکی اور انجینئرنگ کے سامان کے ساتھ وہ تیس سال سے تلاش کررہے ہیں کہ مفروضہ ہیکل سلیمانی کا کوئی نشان ہی مل جائے لیکن وہ اس میںناکام ہیں۔ اس نام نہاد ہیکل سلیمانی کے وجود کااِمکان ہی کہاں ہے؟'' (اِشراق: اگست ۲۰۰۳ئ)

(ii) فلسطین کے موجودہ مفتی اعظم عکرمہ صبری صاحب کا مفصل بیان اوپر درج کیا گیا ہے، ان کے بیان کی یہ سطر اہم ہے: ''یہودی تو یہ تک نہیں جانتے کہ ان کے ہیکل کاٹھیک ٹھیک محل وقوع کیاتھا۔'' انہوں نے مزید کہا: ''دنیا کو دھوکہ دینا یہودیوں کا خاص فن ہے۔ لیکن وہ ہمیں دھوکہ نہیں دے سکتے، مغربی دیوار کے ایک بھی پتھر کا یہودی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔''

(iii)فلسطینی اتھارٹی کے ڈائریکٹر شیخ اسمٰعیل جمال کا بیان بھی نقل کرچکے ہیں، وہ کہتے ہیں:

''اسرائیل کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ الاقصیٰ کے نزدیک نہ ان کا کوئی ہیکل ہے اور نہ اس کے کوئی بچے کھچے آثار۔ قرآنِ مجید کی رو سے بنی اسرائیل بیت ِلحم کے مغرب میں کسی جگہ مقیم تھے، نہ کہ یروشلم میں...''

(iv) جناب یاسرعرفات نے ۲۰۰۰ء میںاسرائیلی وزیراعظم ایہودبارک کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہیکل سلیمانی کے وجود کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا۔ انہوں نے کہا:

''میں ایک مذہبی آدمی ہوں اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا کہ میرے ذکر میں یہ بات لکھی جائے کہ میں نے اس پہاڑی کے نیچے مفروضہ ہیکل کی موجودگی کو تسلیم کرلیا۔'' (ایضاً)

(v) رابطہ عالم اسلامی کے سرکاری بیانات اور عرب اخبارات و جرائد میں لکھنے والے کم وبیش تمام اصحابِ قلم کی تحریروں میں ہیکل سلیمانی کا ذکر کرتے ہوئے الھیکل المزعوم (مفروضہ ہیکل) کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ رابطہ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے اس دعویٰ کو مسترد کیا ہے کہ ''مسجد اقصیٰ ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات کے اوپرقائم ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ تاریخی دستاویزات اسرائیلیوں کے اس دعویٰ کے بطلان کوثابت کرتی ہیں جس کا اعلان وہ مسجد گرا کر اس کی جگہ ہیکل کی تعمیر کے منصوبوں کی تکمیل کی غرض سے کرتے رہے ہیں۔''

مندرجہ بالا انتہائی قابل اعتبار اور اہم حوالہ جات کونقل کرنے کے بعد مضمون نگار اس رائے کا اظہار کرتے ہیں:

''حقائق و واقعات کی رو سے یہ موقف اس قابل نہیں کہ اس علمی و تاریخی بحث میں اس سے تعرض بھی کیا جائے۔ قرآن و سنت کی تصریحات، مسلمہ تاریخی حقائق، یہود و نصاریٰ کی مذہبی روایات مسلمانوں کے تاریخی لٹریچر اور مسلم محققین کی تصریحات کی روشنی میں نہ اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہے کہ مسجد ِاقصیٰ دراصل ہیکل سلیمانی ہی ہے، نہ اس دلیل میں کوئی وزن ہے کہ اثریاتی تحقیق کے نتیجہ میں مسجد ِاقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے کوئی آثار دریافت نہیں ہوسکے۔''

اس قدر جذباتی ہیجان خیزی میںمبتلا ہونے کے باوجود موصوف کی نرگسیت اور پندار کا ٹھکانہ نہیں ہے کہ وہ اسے 'علمی و تاریخی بحث' قرار دیتے ہیں۔ اگر موصوف کسی خاص 'اشراقی جلال' میں آکر یہ باتیں کہتے تو صوفیا کی بعض شطحات کی طرح ان کی تاویل شاید قبول کی جاسکتی تھی مگر وہ تو مصر ہیں کہ ان کی یہ جذباتی رائے بھی قرآن و سنت، تاریخی حقائق وغیرہ سے مستنبط ہے۔ لہٰذا ہم ان سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آخر قرآن و سنت کی وہ کون سی تصریحات ہیں جو ان کے علم میں تو ہیں مگر اُمت ِمسلمہ کے کسی عالم، مؤرخ یا محدث کی نگاہ سے اب تک اوجھل رہی ہیں۔ کیا مصنف قرآنِ مجید کی کوئی ایک آیت یا کسی ایک حدیث کاحوالہ دے سکتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ مسجد ِاقصیٰ کی تعمیر ہیکل سلیمانی کی جگہ پر کی گئی ہے ؟

یہودیوں کے موقف کی تائید میں اگر کوئی 'تاریخی حقائق'ہیں تو اس کو وہ خود ثابت نہیں کرسکے، البتہ اس کا علم ہمارے ممدوح کو ضرور ہوگیا ہے۔ اگر 'تاریخی حقائق' کی خود ساختہ کہانی میں ذرا سی جان بھی ہوتی تو مندرجہ بالاجلیل القدر،علمی و سیاسی شخصیات بقائم حوش وحواس ان کا انکار کیسے کرسکتی تھیں؟ کیا آج کے سائنسی دور میں 'تاریخی حقائق' کو اس اعتماد اور یقین کے ساتھ مسترد کیا جاسکتا ہے جس کا اظہار ان کے بیانات سے ہوتا ہے؟ تعصب اور مذہبی جذبات ایک طرف، تاریخی حقائق کو اس انداز میں جھٹلانا ممکن نہیں!!

اگر اُمت ِمسلمہ کے اہل علم یہودیوں کے پیش کردہ 'تاریخی حقائق' کو جھٹلاتے ہیں، تو ہمارا ایمان یہ کہتا ہے کہ ان کی یہ بات درست ہے کیونکہ یہودی 'مفروضات' کوتاریخی حقائق بنا کر پیش کررہے ہیں۔ کوئی معقول و جہ نہیں ہے کہ ان کی دیانت پر شک و شبہ کا اظہار کیاجائے، وہ بھی یہودیوں کے مقابلے میں جن کے دجل و فریب سے ایک زمانہ واقف ہے۔ مصنف نے محض قلمی روانی میں اس فہرست میں 'یہود و نصاریٰ کی مذہبی روایات' کا ذکر بھی کردیا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جو سوال زیر بحث ہے، اس کاجواب یہودی مذہبی روایات سے آخر کیونکر دیا جاسکتا ہے؟

اصل سوال یہ ہے کہ مسجد ِاقصیٰ، ہیکل سلیمانی پر تعمیر کی گئی ہے یا نہیں؟ اس بات کا جواب یہودیوں کی تاریخ سے تو دیا جاسکتا ہے مگر ان کی مذہبی روایات سے نہیںکیونکہ بنو اسرائیل کی مذہبی روایات، اسلام سے پہلے کی ہیں اور مسجد ِاقصیٰ بقولِ مصنف بنو اُمیہ کے دورمیں تعمیر کی گئی تھی۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ معروف معنوں میں جسے آج کل مسجد ِاقصیٰ سمجھا جاتا ہے وہ یہی مسجد ہے۔یہودی بھی اسی 'مسجد اقصیٰ' کو گرانے کے در پے ہیں جبکہ قرآن مجید میں جس'مسجد اقصیٰ' کا ذکر آیا ہے وہ مسجد ِحرام کی طرح محض ایک احاطہ کی صورت میں تھی، اس وقت وہاں کوئی عمارت نہ تھی۔ تولیت کا تعلق ہمیشہ کسی عمارت سے ہوا کرتا ہے۔ فتح مکہ کے وقت خانہ کعبہ کے متولیوں کا ذکر ملتا ہے نہ کہ مسجد ِحرام کا۔ دورِ نبویؐ میں موجود مسجد ِاقصیٰ (احاطہ) پر مسلمانوں کی طرف سے تولیت کا آغازبھی عملاً اسی مسجد (بنو اُمیہ کی تعمیر کردہ) کے وجود میں آنے کے بعد ہوا ۔مسجد ِاقصیٰ کی حیثیت کے متعلق مزید تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔

اسمنطقی استدلال کو کسی زمرے میں شمار کیا جائے جس میں زمان و مکان کا احساس تک نہ رہا ہو۔ یہی حال مسلمانوں کے 'تاریخی لٹریچر اور مسلم محققین کی تصریحات' کے حوالے کا ہے۔ ان کی رو سے یہودیوں کے دعویٰ کا بطلان ثابت ہوتا ہے نہ کہ تصدیق۔ اس قدر لن ترانی اور شاعرانہ تعلّی سے کام لینے کے بعد، ہمارا خیال تھا کہ مصنف اپنے دعویٰ کی تائید میں قرآن وسنت کے حوالہ جات پیش فرمائیں گے، تاریخی حقائق کے چکا چوند دفاتر کھول کر رکھیں گے اور اسرائیل کی مذہبی روایات پیش کریں گے مگر وائے افسوس! تخیل کے براق پر سواریہ محقق اپنے بلند بانگ دعویٰ کے ثبوت کے لئے ڈھونڈ ڈھانڈ کر اگر کچھ پیش کرسکے تو وہ ۱۹۳۰ء میںشائع شدہ ایک ٹورسٹ گائیڈ کی تین چار غیر متعلقہ سطور تھیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے ہم مصنف کی پیش کردہ دو سطور یہاں خاص طور پر نقل کر رہے ہیں :

''اس کمرے کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں یقینی طور پرکچھ معلوم نہیں۔ غالباً اس کی تاریخ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے معاصر ہے۔ مؤرخ یوسفس کے مطابق ۷۰ عیسوی میںطیطس کے فتح یروشلم کے وقت یہ موجود تھے اور یہودیوں نے اسے پناہ گاہ کے طور پراستعمال کیا گیا۔'' (ایضاً)

ہم نہیں جانتے کہ مصنف نے یہ سطور کس غرض سے نقل کی ہیں۔ اگر ان کامقصد مندرجہ بالا سوال کا جواب دینا ہے تو اس کے متعلق ان سطور سے ہمیں کوئی روشنی نہیں ملتی بلکہ اُلٹا متضاد معلومات ملتی ہیں۔ ان نقل کردہ سطور میں ہیکل سلیمانی اور 'کمرے' کا الگ الگ ذکر ہے ۔ اگر اس 'کمرے' سے مراد موجودہ مسجد ِاقصیٰ لی جائے تو اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہیکل سلیمانی اور مسجد ِاقصیٰ ایک مقام پر نہیں ہیں۔ یہ کمرے ہیکل کے وقت بنائے گئے مگر اس کی تباہی کے بعد بھی قائم رہے جس میں یہودیوں نے پناہ حاصل کی۔

مندرجہ بالا حوالہ نقل فرمانے کے بعد مصنف بیت المقدس کی فضیلت اور قبہ الصخرہ کے قابل تعظیم نہ ہونے کاذکر لے بیٹھتے ہیں۔ اس غیر متعلقہ بحث میں پڑ کر مصنف ایک حد تک ثابت بھی کردیتے ہیں کہ بیت المقدس کو 'حرم' کا مقام نہیں دیا جاسکتا مگر مذکورہ بالا سوال کا جواب پھر بھی تشنہ رہتا ہے۔ جب صخرہ کی فضیلت اور تعظیم کے جمہور علما قائل ہی نہیں ہیں، تو نجانے کس 'ذوقِ تحقیق' کی تسکین کے لئے انہوں نے حوالہ جات کی بھرمار کردی ہے۔ اس معاملے میں شیخ محمد ناصر الدین البانی ؒ کا یہ مختصر قول ہی کافی تھا :

''فضیلت صرف مسجداقصیٰ کی ہے، صخرہ کی نہیں! ''


دیوارِ گریہ

'دیوارِ گریہ' کے وجود و مقام کے تعین کے متعلق بھی اِشراق کے مضمون نگار یہودی موقف کے ساتھ''وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے''کا مظاہرہ فرماتے ہیں۔ یہودیوں بالخصوص فری میسن تحریک کے ڈرامہ بازوں نے اس بارے میں جو کچھ کہہ دیا ہے، اس میں کسی قسم کا شبہ وارد کرنا وہ 'ضعف ِایمان' کی علامت سمجھتے ہیں۔ البتہ یہاں بھی مسلم اکابرین کی 'خطا گرفتن' کی جسارت کا ارتکاب اسی بے باکی سے فرماتے ہیںاور یہ حد درجہ افسوسناک ہے۔ نوجوان محقق فرماتے ہیں :

''۱۹۷۰ء میں ہیکل سلیمانی کی تباہی میں اس کی مغربی دیوار محفوظ رہ گئی تھی۔مذہبی وتاریخی اہمیت کے پیش نظر اس دیوار کو یہود کے ہاں ایک متبرک و مقدس مقام کی حیثیت حاصل ہوگئی اور اس دیوار کی زیارت کے لئے آنے اور اس کے پاس دعاو مناجات اور گریہ وزاری نے رفتہ رفتہ ان کے ہاں ایک مذہبی رسم کی حیثیت اختیار کرلی۔ یہ حقیقت تاریخی لحاظ سے مسلم ہے۔''

یہ ان کا بیان ہے جو بادئ النظر میں درست نہیں ہے۔ عرب مسلمانوں اور اُمت ِمسلمہ کا موقف یہ ہے کہ یہ مغربی دیوار دراصل وہ مقام ہے جس کے ساتھ رسول اللہ1 نے سفر معراج کے موقع پر اپنی سواری کے جانور 'براق' کوباندھا تھا، اس لئے یہ مسلمانوں کابھی مقدس مقام ہے۔ مفتی اعظم فلسطین عکرمہ صبری فرماتے ہیں :

''بات بالکل صاف ہے: دیوارِ گریہ یہودیوں کا مقدس مقام نہیں ہے یہ تو مسجد کا اٹوٹ انگ ہے۔ ہم اس کو دیوارِ براق کہتے ہیں جو اس گھوڑے کا نام ہے جس پر سوار ہوکر محمد1 یروشلم سے آسمان پر تشریف لے گئے... دیوارِ براق کے کسی ایک پتھر کا بھی یہودیت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہودیوں نے اس دیوار کے پاس اُنیسویں صدی میں دعا مانگنا شروع کی جب ان کے دلوں میں کئی آرزوئیں پروان چڑھنا شرو ع ہوگئی تھیں۔''

جناب یاسر عرفات نے اپنی تقریر میں کہا :

''اس دیوار کا نام مقدس دیوارِ براق ہے نہ کہ دیوارِ گریہ۔ ہم اس کو دیوارِ گریہ نہیں کہتے۔ ۱۹۲۹ء میں اس مسئلہ پر ہونے والے ہنگاموں کے بعد شاکمیشن(Shaw Commission) نے قرار دیا کہ یہ مسلمانوں کی ایک دیوار ہے۔'' (اشراق: اگست ۲۰۰۳ء ، ص ۴۶)

فاضل 'محقق' نے دیوارِ براق کے متعلق تو تبصرہ کیا ہے کہ ''اس جگہ کی تعیین کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔'' مگر انہیں یہودیوں کے 'دیوارِ گریہ' کے دعویٰ میں 'ہرقرینہ' دکھائی دیا ہے، اسی لئے اس پر وہ شک کرنے کو دل و جان سے 'گناہ' سمجھتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کی اوہام وخرافاتthology) (My میں دیوارِ گریہ کا ذکر تو ملتا ہے، مگر اس کی تعیین ان کے بیانات میں بھی نہیںملتی۔ حتیٰ کہ فری میسن تحریک جس نے دیوارِ گریہ اور ہیکل ِسلیمانی کو ڈرامائی رنگ عطا کیاہے، اس میں بھی یہ بیان نہیں ملتا کہ مسجد ِاقصیٰ کی مغربی دیوار، دیوارِ گریہ ہے۔

جنونی یہودی رِبیوں اور صہیونی تحریک کے علمبرداروں نے اُنیسویں صدی میں پہلی مرتبہ جوش و خروش کے ساتھ 'دیوارِ گریہ' کو مسجد ِاقصیٰ کا حصہ کہنا شروع کیا۔ فاضل مصنف نے بھی کوئی ایک حوالہ پیش نہیں کیا جس کی رو سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہودیوں نے ماضی بعید میں دیوارِ گریہ کا تعین کررکھا تھا۔ ہماری اس رائے کی تائید شاکمیشن کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ یہ کمیشن لیگ آف نیشن اوریورپی ریاستوں کے زیرسرپرستی قائم ہوا تھا جو مسلمانوں کی بجائے یہودیوں کی پشت پناہی کررہی تھیں۔ یاد رہے کہ اس کمیشن کے قیام سے بارہ برس قبل اعلانِ بالفور (۱۹۱۷ء) ہوچکاتھا جس کی رو سے یہودیوں کے الگ ریاست کے حق کوتسلیم کیا گیا تھا۔ اگر 'دیوارِ گریہ' کے متعلق یہودیوں کے دعویٰ میں کچھ بھی صداقت ہوتی تو یہ کمیشن اس ذرّہ کو پہاڑ بناکر پیش کرتا تاکہ اس کی بنیاد پر یہودیوں کی ریاست کے لئے راہ مزید ہموار کی جاسکے، مگر وہ یہودیوں سے تمام تر خیرخواہی کے باوجود ایسا نہ کرسکے۔نجانے اِشراقی محققین ان ننگے حقائق سے اپنی نگاہیں کیوں پھیر لیتے ہیں۔ جو بات عقل ِعام میں فوراً آجائے، اس کے سمجھنے میںدورِ حاضر کے بزعم خویش افلاطون کوتاہی کا مظاہرہ جان بوجھ کر کرتے ہیں۔

مصنف نے برطانوی کمیشن کے سامنے ۱۹۳۰ء میں دیئے گئے یہودیوں کے بیان کا یہ حصہ بھی نقل کیا ہے : ''ہیکل میں داخل ہونے کے لئے محمدﷺ نے کون سا راستہ اختیار کیا، اس کا تعین بھی نہیں کیا جاسکا اور یہ صرف حالیہ زمانے کی بات ہے کہ مسلمانوں نے یہ مشہور کرنا شروع کردیا ہے کہ پیغمبر یہاںسے گزرے تھے۔''

اس بیان میں جھول پایا جاتا ہے جس پر مصنف کی نگاہِ التفات نہیں پڑی۔ 'ہیکل میں داخل ہونے کے لئے' کے الفاظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہودی سمجھتے ہیں کہ جب حضرت محمدﷺکا واقعہ معراج پیش آیا تو وہاں پرکوئی ہیکل موجود تھا جس میں گذرنے کی انہیں ضرورت پیش آئی۔ ہیکل بنیادی طور پر عمارت تھی، نہ کہ پلاٹ۔ جب یہودی روایات یہ بتاتی ہیں کہ دوسرا ہیکل سلیمانی بھی ۷۰ء میں تباہی کا شکار ہوگیاتھا تو پھر واقعہ معراج کے وقت کون سا ہیکل موجود تھا جس میں وہ محمدﷺ کے داخلہ کاذکر کرتے ہیں؟ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں، مصنف کو ان کے درمیان بھی تطابق تلاش کرنا چاہئے تھا۔ اگر وہ اسی بیان پر ذرا توجہ فرماتے تو انہیں یہودیوں کے دیگر بیانات کی افسانوی حیثیت کا شاید اندازہ ہوجاتا، مگر وہ تو تحقیق کے سفر پر نکلے ہی یہ مقصد لے کر تھے کہ یہودیوں کی باتوں کی تصدیق اور اُمت ِمسلمہ کے موقف کا ابطال کیا جائے تو پھر ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ ان کو یہودیوں کے حق تولیت سے محرومی کا رونا رونے سے فرصت ملتی تو وہ اصل حقائق پر توجہ ڈال سکتے۔ عجیب بات ہے کہ انہوں نے ایک ایسی چیز کے حق تولیت کے ثبوت کے لئے استدلال کی عمارت کھڑی کرنی چاہی جس کابذاتِ خود وجود ایک افسانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا !!

مسجد اقصیٰ کی تولیت ، مسلمانوں کا قانونی حق ہے یا اخلاقی؟

'فنا فی التحقیق' ہمارے ممدوح نے مسجد ِاقصیٰ پر یہودیوں کے حق تولیت کو 'فائق' ثابت کرنے کے لئے جو نادرۂ روزگار نکتہ آفرینی فرمائی ہے، وہ ایک اعلیٰ درجہ کی 'بو العجبی' سے کسی طور کم نہیں ہے۔ فرماتے ہیں: ''تاریخی لحاظ سے مسجد ِاقصیٰ کے ساتھ مذہبی تعلق و وابستگی کے دعوے میں دونوں فریق بنیادی طور پر سچے ہیں۔''

اتنے معرکۃ الآرا مسئلہ میں، بنیادی طو رپر دونوں سچے کیسے ہوسکتے ہیں، ہماری عقل میں تو نہیں آتا۔ فرض کیجئے اگر دونوں سچے ہیں، تو پھر یہودیوں کے حق ِتولیت کو 'فائق'کیسے مان لیا جائے۔ مسلمان جب برابر کی سطح پر'سچے' ہیں تو انہیں مسجد ِاقصیٰ کی تولیت سے محروم کرنے کے لئے مصنف کاہے کو زورِ قلم دکھا رہے ہیں۔ بنیادی طور پر ایک بے جوڑ بات کرنے کے بعد یہودیوں کے حق تولیت کے حق میں مصنف یوں استدلال فرماتے ہیں :

''فریقین کے تعلق و وابستگی کے دعوے کو درست مان لینے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اس پر تولیت کا حق کس فریق کو ملنا چاہئے اور فریقین میں سے کس کے حق کو کس بنیاد پر ترجیح دی جائے؟ جہاں تک قانونی پہلو کا تعلق ہے، اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے دعویٰ تولیت کو ایک عملی و جہ ِترجیح حاصل ہے۔ انہوں نے یہ عبادت گاہ نہ یہودیوں سے چھینی تھی اور نہ ان کی پہلے سے موجود کسی عبادت گاہ کو ڈھاکر اس پر اپنی عبادت گاہ تعمیر کی تھی۔ نیز وہ بحالت ِ موجودہ اس کی تولیت کے ذمہ دار ہیں اور وہ یہ ذمہ داری گذشتہ تیرہ صدیوں سے، صلیبی دور کے استثنا کے ساتھ، تسلسل کے ساتھ انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پربھی اس کی تولیت کا حق دار مسلمانوں ہی کو تسلیم کیا گیا ہے۔'' (اشراق: اکتوبر۲۰۰۳ء)

ان حقائق کو تسلیم کرلینے کے بعد موصوف یوں موشگافی فرماتے ہیں:

''تاہم قانونی پہلو کو اس معاملے کا واحد قابل لحاظ پہلو سمجھنے کے عام نقطہ نظر سے ہمیں اختلاف ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اس نوعیت کے مذہبی تنازعات میں قرآن و سنت کی رو سے اصل قابل لحاظ چیز، جس کی رعایت مسلمانوں کو لازماً کرنی چاہئے، وہ اخلاقی پہلو ہے۔ اس بحث کی تنقیح کیلئے ہمارے نزدیک اس بنیادی سوال پرغور وخوض مناسب ہوگا کہ مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا مسلمانوں کے ہاتھوں میں آنا آیا شرعی نوعیت کا کوئی معاملہ ہے یا تکوینی و واقعاتی نوعیت کا؟ دوسرے لفظوں میں، آیا یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم اور تقاضا ہے کہ مسلمان یہود کو اس عبادت گاہ سے لاتعلق قرار دیکر ان کی جگہ اس کی تولیت کی ذمہ داری خود سنبھال لیں یا محض تاریخی حالات و واقعات نے ایسی صورتحال پیدا کردی تھی کہ مسلمانوں کو اس کی تولیت کی ذمہ داری اُٹھانی پڑی۔''

بظاہر تویہ استدلال بڑا ہی لطیف ہے مگر اس پر ذرا غور کیا جائے تو یہ وکیلانہ موشگافی سے زیادہ نہیں ہے۔ مصنف یہ اِدراک کرنے سے قاصر رہے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو قانونی لحاظ سے حق ِتولیت کے بارے میں قابل ترجیح سمجھا گیا ہے تو اس کی بنیادی و جہ اس معاملے میں انکی اخلاقی برتری ہے۔ یہاں قانونی برتری کی اصل، بنیاد ا خلاقی برتری ہی ہے۔ مسجد ِاقصیٰ کے معاملے میں قانونی اور اخلاقی پہلو ناقابل ِانفکاک ہیں، اگر اخلاقی پہلو کو نظر انداز کردیا جائے، توقانونی پہلو اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ قانونی اور اخلاقی سطح کی ثنویت کا تصور بھی اس محقق کے اختراعی ذہن کا نتیجہ ہے، ورنہ یہ جاننا مشکل نہیں ہے کہ مسجد ِاقصیٰ پر مسلمانوں کے دعویٰ کی حقیقی بنیاد ہی اخلاقی ہے۔

مصنف یہ بات بھی فراموش کرگئے ہیں کہ قانون قومی ہو یا بین الاقوامی، اس کا اصل ماخذ (Source) اور سرچشمہ اخلاقیات (Ethics) ہی ہوتا ہے۔ اخلاقیات بھی دو طرح کی ہیں، سیکولر اخلاقیات اور مذہبی اخلاقیات۔ سیکولر اخلاقیات کی بنیاد عام طور پر 'عرف' رواج، رسومات و تاریخی روایات اور ثقافتی تاریخ ہوتی ہیں۔ مگر مذہبی اخلاقیات اپنی تمام تر قوت الہامی تعلیمات اور وحی سے اخذ کرتی ہے۔ رومی قانون، یونانی قانون، اینگلو سیکسن لائ، فرانسیسی قانون، چینی قانون، غرض آپ دنیا کے جس قانونی ڈھانچے کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی بنیاد میں یہی عناصر کار فرما ہیں۔ قوموں کے آپس کے تعلقات کو منضبط (Govern)کرنے والا بین الاقوامی قانون بھی اس اُصول سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ مسجد ِاقصیٰ کے متعلق 'قابل لحاظ پہلو' اگر مصنف کے نزدیک اخلاقی ہی ہے تو انہیں بتانا چاہئے تھا کہ بین الاقوامی سطح پر آخر مسلمانوں کے حق ِتولیت کو کیوں تسلیم کیا گیا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ سیکولر اخلاقیات اور مذہبی اخلاقیات، دونوں کی رو سے مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا حق بجا طور پر مسلمانوں کو ملنا چاہئے۔ سیکولر اخلاقیات کی رو سے اس لئے کہ مسلمانوں نے یہودیوں کی کسی عبادت گاہ کو گرا کر کوئی نئی عمارت قائم نہ کی، وہ ان کی اپنی تعمیر کردہ ہے۔لہٰذا اپنی تعمیر کردہ عمارت کیلئے وہ یہودیوں کا حق تولیت کیونکر تسلیم کرلیں۔ ثانیاً یہ کہ گذشتہ تیرہ صدیوں کا ان کا تولیتی تسلسل وہ اخلاقی بنیادیں فراہم کرتا ہے جس کو بین الاقوامی برادری نے عادلانہ طورپر تسلیم کرلیا ہے، لہٰذا مصنف کی رائے کا ہمارے نزدیک پانی کے تالاب میںایک قطرے جتنا وزن بھی نہیں!!

مذہبی اخلاقیات کی رو سے بھی مسلمانوں کو اس کا حق ملنا چاہئے۔ اس بارے میں علما کی طرف سے واقعہ اِسراء کے حوالہ سے جو دلائل دیئے گئے ہیں، ہم اس کو وزنی اور وقیع خیال کرتے ہیں۔جس مقام سے مسلمانوں کے پیغمبر نے معراج کا سفر اختیار کیا، اور وہاں پرانبیا نے ان کی امامت میں نماز ادا کی، اور جسے مسلمانوں کے قبلۂ اوّل ہونے کا شرف بھی حاصل ہے اور جس کا ذکر باقاعدہ قرآن مجید میں کیا گیا ہے، آخر اس سے زیادہ مذہبی اخلاقیات کی اور کن بنیادوں پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔

یہ نکتہ بھی بیان کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اشراقی مضمون نگار اگر اخلاقی اعتبار سے یہودیوں کو مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا حق دینا چاہتے ہیں، تو اس کا سبب محض یہودی پراپیگنڈہ ہے، ورنہ قرآن و سنت سے ان کی ا خلاقی برتری کاجواز نہیں نکلتا۔ موصوف جب خود ہی تسلیم کرتے ہیں کہ

''بنی اسرائیل کے اجتماعی طورپر شرک میںمبتلا ہوجانے اور شریعت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دینے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بابل کے بادشاہ بنوکدنصر کو ان پر مسلط کیا جس نے ۵۸۶ء ق م میں یروشلم پر حملہ کرکے ہیکل کو برباد کردیا۔''

اور پھر عہد ِنامہ عتیق کی یہ عبارت بھی انہوں نے نقل کی ہے :

''اگر تم میری پیروی سے برگشتہ ہوجاؤ اور میرے احکام اور آئین کو جو میں نے تمہارے آگے رکھے ہیں، نہ مانو بلکہ جاکر اور معبودوں کی عبارت کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگو تو میں اسرائیل کو اس ملک سے جو میں نے ان کو دیا ہے، کاٹ ڈالوں گا اور اس گھر کو جسے میں نے اپنے نام کے لئے مقدس کیا ہے، اپنی نظر سے دور کردوں گا ... اور وہ کہیں گے کہ خداوند نے اس ملک اور اس گھر سے ایسا کیوں کیا۔''

مصنف کہتے ہیں کہ''ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے تقریباً ساڑھے تین سو سال بعد یہ پیش گوئی پہلی مرتبہ یرمیاہ نبی کے زمانے میں پوری ہوئی۔''

ہم حیران ہیں کہ اس کے بعد یہودیوں کی کون سی اخلاقی حیثیت باقی رہ جاتی ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا دعویٰ کرسکیں۔ جب تورات کی پیش گوئی کے مطابق ان کی عبادت گاہ یعنی ہیکل سلیمانی کو ان کی نظروں سے دور (تباہ) کردیا گیا ہے تو پھر وہ کون سا اخلاقی پہلو ہے جس کو بروئے کار لاکر مصنف یہودیوں کی وکالت میں ہلکان ہوئے جارہے ہیں۔ جب خدائے بزرگ و برتر کی منشا نہیں کہ یہودیوں کے ہیکل کا وجود قائم رہے تو پھر اسلام کی ان تعلیمات کو اس مقدمہ میں بنیادکیسے بنایاجاسکتاہے جن کی رو سے مسلمانوں کو غیر مسلموں کی عبادات کے احترام کا درس دیا گیا ہے۔ اشراقی مصنف نے ان تعلیمات کا حوالہ دے کر اپنی عقل کو منشائے خداوندی سے بڑھا کر دکھانے کی جسارت کی ہے جسے ہم نرم ترین الفاظ میں افسوس ناک قرار دیتے ہیں۔ ایک مغضوب و مذلول قوم کی وکالت کرکے نجانے کون سی خوشنودی ہے جس کا حصول ان کے پیش نظر ہے...!! [جاری ہے]