' الصلوٰۃ خیر من النوم ' فجر کی کس اذان میں؟

[فجر کی اذان وقت سے پہلے دی جاسکتی ہے؟]


سوال: اذان میں تثویب یعنی 'ا لصلوٰۃ خیرمن النوم' کا فجر کی پہلی اذان میں کہا جانا سنت ہے یا دوسری اذان میں؟ ہفت روزہ 'الاعتصام' میں آپ نے اظہار فرمایا کہ کلماتِ تثویب اذانِ اوّل میں کہے جانے چاہئیں۔ اس پر میں نے اپنے اطمینان کے لئے آپ سے وضاحت چاہی تو آپ نے 'الاعتصام' مؤرخہ ۱۴؍ اگست ۱۹۹۸ء میں بحوالہ روایات مزید وضاحت کردی۔ میرا مقصد یہ تھا کہ سنت ِرسولؐ اور پھر تعامل صحابہؓ کا صحیح علم ہوسکے۔ اب ایک پرانا کتابچہ 'اذانِ محمدیؐ ' مصنفہ مولانا محمد بن ابراہیم جونا گڑھی (ناشر مکتبہ سعودیہ، حدیث منزل، کراچی نمبر۱) نظر سے گذرا جس کے صفحہ ۱۵ پر مولانا موصوف رقم طراز ہیں کہ ''اذانِ سحری میں 'الصلوٰة خیر من النوم' نہیں کہا جائے گا (کیونکہ وہ اذانِ فجر کے ساتھ مخصوص ہے۔) اور اذانِ فجر میں یہ مقولہ دوبار دہرایا جائے گا۔ گویا دوسری اذانِ صلوٰۃ الفجر میں ہی تثویب کا عمل قرار پایا۔ جیسا کہ ہند وپاک نیز سعودی عرب میں بھی رائج ہے۔ علما کی اس پر تنقید قبل ازیں ہماری شنید میں نہیں آئی۔

اب تحقیق طلب بات یہ ہے کہ اگر سنت ِرسولؐ اور قرونِ اولیٰ کے مطابق تثویب کا عمل اذانِ اول میں ہی رہا تھا تو پھر متاخرین میں دوسری اذان میں تثویب کا رواج کیسے پاگیا؟ ان کے پاس اس کے دفاع کی کیا دلیل ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ چونکہ کئی جگہوں پرایک اذان صلوٰۃ الفجر ہی کہی جاتی ہے، اس لئے اس میں ہی تثویب کا رواج پاگیا تو پھربھی یہ نبوی اذان میں اپنی طرف سے اضافہ ٹھہرے گا جسے بے نقاب کرنا علما کا فرض ہے ورنہ عوام اسی کو صحیح سنت سے تعبیر کریں گے۔ اس مسئلے کا حل فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔

(ڈاکٹرعبیدالرحمن چوہدری،مصطفی آباد، لاہور)

(1) الجواب بعون الوہاب ( از مولانا حافظ عبد القہار، کراچی منقول از 'صحیفہ اہلحدیث' کراچی)

صورتِ مسئولہ میں واضح ہو کہ شرعاً الصلاة خیر من النوم صبح کی اذان میں حي علی الفلاح کے بعد دو بار مؤذن کوکہنا چاہئے۔ مشروع و مسنون یہی ہے جس کے مفصل دلائل محولہ بالا فتویٰ میں بیان ہوچکے ہیں جو کثیر تعداد میں ہیں اور زیادہ صحیح و قوی ہیں۔ البتہ سنن نسائی میں ابوسلیمان کی سند سے ابو محذورہؓ سے مروی ہے :

«قال کنت أؤذن لرسول اللہ ﷺکنت أقول في أذان الفجر الأول حي علی الفلاح ''الصلاة خیر من النوم'' اﷲ أکبر، اﷲ أکبر، لا إله إلااﷲ»

''فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے لئے اذان دیتا تھا تو میں فجر اوّل کی اذان میں حي علی الفلاح کہہ کر الصلاةخیر من النوم پھر اﷲ أکبر،۱ﷲ أکبر لا إله إلا اﷲ کہتا تھا۔'' (ج۱ ؍ص۷۵، مطبع رحیمیہ، دہلی)

اس حدیث کو اگرچہ علامہ البانی ؒ نے صحیح نسائی میں شمار کیا ہے، جبکہ ابومحذورہ ؓ کی بیت الحرام کے پاس اذان دینے والی حدیث اور ایک ایک حرف نبیﷺ کے ابو محذورہ ؓ والی حدیث جس میں فجر کی اذان میں الصلاة خیر من النوم کہنے کا ذکر ہے، ان دونوں کو صحیح نسائی اور صحیح ابوداود میں شمار کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے، اور نسائی والی روایت فجر اوّل میں الصلاة خیر من النوم کہنے والی سند میں جسے ابوجعفر الفراء سے سفیان ثوری کی روایت سے امام نسائی نے ذکر کیا اور مراد لیا ہے، لیکن حقیقت میں وہ ابوجعفر الفراء نہیں ہے۔ اس طرح یہ مجہول العین کی روایت شمار ہوگی جو کہ ضعیف کہلاتی ہے۔

اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ والی حدیث «قال:کان في الأذان الأول بعد الفلاح، الصلاة خیر من النوم، الصلاة خیر من ا لنوم» (أخر جه الطحاوي في شرح معاني الآثار: ۱؍۹۵، والبیہقي في السنن الکبریٰ: ۱؍۴۲۳، والدارقطني في سننه: ۱؍۲۴۳) کہ پہلی اذان میں حي علی الفلاح کے بعد دو بار الصلاۃ خیر من النوم کہاجاتا تھا۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں حدیثوں میں فجر اوّل اور اذانِ اوّل کا جو ذکر آیا ہے، اس سے مراد فجر کی حقیقی اذان ہے جو نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد دی جاتی ہے، وہ اذان مراد نہیں ہے جو حضرت بلال ؓ صبح کی اذان سے چندمنٹ پہلے دیا کرتے تھے، اور یہاں اوّل؍ اُولیٰ کا لفظ اقامت کے مقابلہ میں بولا گیاہے، چنانچہ امام نوویؒ تحریر فرماتے ہیں:

ھذا نص علی أن المراد من النداء الأول ھو النداء الذي بعد دخول الوقت والنداء الأول ھو بالنسبة إلی الإقامة (النووی: ۱؍۲۵۵)

''اس اذانِ اوّل سے وہی اذان مراد ہے کہ جو نمازکے وقت کے داخل ہونے کے بعد نماز کی طرف بلانے کے لئے دی جاتی ہے اور اسے اقامت کے مقابلے میں اذانِ اوّل کہہ دیا گیا ہے۔'' (۱)

علامہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ رقم طراز ہیں:

بالأولی أي عن الأولیٰ وھي متعلقة بسکت یقال سکت عن کذا إذا ترکه، والمراد بالأولی الأذان الذي یؤذن به عند دخول الوقت، وھو أول باعتبار الإقامة، و ثان باعتبار الأذان الذي قبل الفجرو جاء ه التأنیث إمامن قبل مؤاخاته للإقامة أولأنه أرادالمناداة أو الدعوة التامة، ویحتمل أن یکون صفة لمحذوف والتقدیر إذا سکت عن المرة الأولی أو في المرة الأولی

یعنی ''اولیٰ سے مراد وہ اذان ہے جو نمازِ فجر کا وقت شروع ہونے پر دی جاتی ہے۔ یہ اقامت کے مقابلے میں پہلی اذان اور فجر سے پہلے دی جانے والی اذان کے مقابلے میں دوسری اذان ہے۔ یہاں اولیٰ (صیغہ مؤنث) یا تو اقامت کے مقابلے میں بولا گیا ہے یا مناداۃ یا دعوۃ ِتامہ کے مقابلے میں او ریہ بھی احتمال ہے کہ یہاں محذوف عبارت اس طرح ہو کہ جب مؤذن پہلی مرتبہ خاموش ہوجائے۔'' (فتح الباری: ۲؍۱۰۹، ۱۱۰)

گویا'الاولیٰ' سے مراد وہ اذان ہے جو صبح کی نماز کے وقت کے داخل ہونے پر دی جاتی ہے(۲)، اس کی دلیل صریح حدیث میں مذکور ہے جسے حافظ ابن حجرنے حدیث ِعائشہؓ سے ذکرکیا اور جسے امام لیث مصریؒ نے روایت کیا ہے :

«عن عائشة قالت: صلی رسول اﷲ ﷺ العشاء ثم صلی ثمان رکعات ورکعتین جالسا، ورکعتیں بین ندائین ولم یکن یدعھما۔ وفي روایة اللیث: ثم یمهل حتی یؤذن بالأولی من صلاة الصبح فیرکع رکعتین» (فتح الباری: ۳؍۴۲، ۴۳)

'' آپ ﷺرات کی نماز (تہجد و تراویح) کے بعد دونوں اذانوں کے درمیان دو رکعت پڑھتے تھے (صبح سے پہلے کی سنت)... دوسری روایت میں ہے کہ پھر کچھ دیر ٹھہرتے یہاں تک کہ مؤذن صبح کی پہلی اذان دیتے تو آپؐ دو رکعت (صبح سے پہلے کی سنت) ادا فرماتے تھے۔ ''

اس سے معلوم ہوا کہ حدیث ِمذکورہ بالا میں الأول، اولٰی سے مراد صبح کی وہ اذان ہے جو فجر کا وقت شروع ہونے پر دی جاتی ہے نماز کی دعوت دینے کے لئے۔ اس سے مراد ہرگز وہ اذان نہیں ہے جو وقت فجر کے داخل ہونے سے پندرہ بیس منٹ قبل دی جاتی تھی کیونکہ نبی ﷺفجر کے داخل ہونے سے پہلے کی اذان کے بعد دو رکعت (فجر کی سنت) نہیں پڑھتے تھے اور نہ دائیں کروٹ اس کے بعد لیٹتے تھے، بلکہ یہ دوگانہ اذانِ فجر کے بعد پڑھتے تھے اور اس کے بعد دائیں کروٹ لیٹا کرتے تھے۔

چنانچہ حدیث ِعائشہؓ میں بالأولی من صلاة الفجر اور بلالؓ کی روایت میں ویؤذن لصلاة الفجراور انسؓ والی حدیث میں التثویب في صلاة الغداة کے الفاظ بڑی زبردست دلیل ہیں کہ اولیٰ سے مراد وہ اذان ہے جو فجر کے وقت کے داخل ہونے پر دی جاتی ہے۔ لفظ 'من' بیانیہ ہے جو اس بات کا مکمل بیان ہے کہ اذانِ اول، مناداۃِ اولیٰ سے مراد صبح کی اذان اور فجر کی اذان ہے۔ اس طرح علامہ شیخ البانیؒ، علامہ صنعانیؒ اور علامہ ابن رسلانؒ کی دلیل مرجوح قرار پاتی ہے کہ الصلاة خیر من النوم نمازِ فجر کے وقت کے داخل ہونے سے پہلے کی اذان میں کہنا چاہئے۔ اس طرح ان حضرات کا یہ قول شاذ سمجھا جائے اور یہ قول کہ اذانِ فجر میں الصلاة خیر من النوم کہنا بدعت ہے، اس سے بھی زیادہ شاذ اور عجیب بات ہے۔

یاد رہے کہ اذان کا اطلاق، اقامت و تکبیر کے لئے متعدد احادیث میں ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مغفل ؓبیان کرتے ہیں :

«قال النبيﷺ: بین کل أذانین صلاة، ثم قال في الثالثة لمن شاء» (متفق علیہ) ''ارشادِ نبویؐ ہے کہ دو اذانوں کے درمیان نماز (نفل) مشروع و مسنون ہے۔ پھر تیسری بار فرمایا کہ یہ مستحب ہے جو چاہے پڑھ لے اور جونہ پڑھے، کوئی حرج کی بات نہیں۔''

اس طرح حضرت عائشہؓ والی سابقہ حدیث میں ''ورکعتین بین الندائین'' اور دونوں اذانوں کے درمیان دو رکعت (صبح کی سنت) ادا فرماتے تھے، سے مراد متفقہ طور پر دو اذانوں سے مراد اذان اور اقامت ہے۔ اس میں کسی کا کوئی قابل ذکر اختلاف موجود نہیں ہے۔

علامہ خطابیؒ تحریر فرماتے ہیں:

''أراد بالأذانین: الأذان والإ قامة حمل أحد الاسمین علی الأخر کقولهم الأسودان: التمر والماء إنما الأسود أحدھما، وکقولھم سیرة العمرین، یریدون أبابکرؓ وعمر ویحتمل أن یکون الاسم لکل واحد منها حقیقة، لأن الأذان في اللغة الإعلام، فالأذان إعلام بحضور الوقت، والإقامة أذان بفعل الصلاة (معالم السنن و شرح السنۃ للبغوی)

''اذانین سے مراد اذان اور اقامت ہے۔ دونوں کو 'اذانین' اس لئے کہا جاتا ہے کہ ایک کو دوسرے پر محمول کردیا گیا ہے جس طرح کھجور او رپانی دونوں پر 'اسودین' کا لفظ بول دیا جاتا ہے حالانکہ اسود (سیاہ) ان میں سے صرف ایک ہے۔ اسی طرح سیرتِ عمرین سے ابوبکرؓ اور عمرؓ کی سیرت مراد ہوتی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اذان اور اقامت دونوں کے لئے حقیقی طور پر یہ لفظ 'اذانین' بولا گیا ہو کیونکہ اذن کا لغوی معنی اطلاع دینا ہے۔ لہٰذا اذان (نماز کا) وقت ہوجانے کی اطلاع ہے اور اقامت نماز (کھڑی ہونے) کے وقت کی اطلاع ہے۔''

امام نوویؒ فرماتے ہیں:''المراد بالأذانین:الأذان والإقامة'' (شرح مسلم:۱؍۲۷۸)

''اذانین سے مراد اذان اور اقامت ہے۔''

حافظ ابن حجر ؒ تحریر فرماتے ہیں :

أي أذان و إقامة وتوارد الشراح علی أن ھذا من باب التغلیب کقولهم القمرین للشمس والقمرویحتمل أن یکون أطلق علی الإقامة أذان لأنها إعلام بحضور فعل الصلاة، کما أن الأذان إعلام بدخول الوقت (فتح الباری: ۲؍۱۰۷)

'' جس طرح چاند سورج دونوں کے لئے قمرین (دو چاند)غالباً کہہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اذان واقامت کے لئے بھی اذانین (دو اذانیں) استعمال ہوگیا ہے اور اقامت پر اذان کا اطلاق اس طرح درست ہے کہ وہ عمل نماز کے شروع ہونے کی اطلاع ہوتی ہے، جس طرح اذان، نماز کے وقت کے داخل ہوجانے کی اطلاع ہوتی ہے۔ ''

سنن نسائی پرعربی حاشیہ علامہ شیخ عطاء اللہ بھوجیانی ؒ نے تحریر فرمایا ہے، جس میں انہوں نے بھی مختلف فیہ حدیث ابی محذورہؓ میں اذانِ اول سے مراد فجر کے داخل ہوجانے پر صبح کی جو اذان دی جاتی ہے، وہی مراد لی ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم

مزید تفصیل کے لئے علامہ شیخ عبدالعزیز نورستانی کی کتاب الإعلان مطالعہ فرمائیں۔

(۲) الجواب بعون الوہاب از حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ

اصل بات یہ ہے کہ صبح کی ایک اذان دینے کی صورت میں کلمہ الصلاة خیرمن النوم اسی اذان میں کہنے کے بارے میں ہی وارد ہوا ہے، مطلق احادیث میں اسی بات کابیان ہے۔ اختلاف اس صورت میں ہے کہ صبح کی دو اذانوں کی صورت میں یہ کلمہ کون سی اذان میں کہا جائے؟ صحیفہ اہلحدیث کراچی کے مفتیانِ کرام نے اپنے دعویٰ کے اثبات میں جتنے دلائل پیش کئے ہیں، وہ سب عمومی ہیں، ان سے مدعا ثابت نہیں ہوتا۔ محل نزاع میں بطورِ نص روایت مطلوب ہے جو یہاں مفقود ہے۔ پھر ان حضرات ِاہل علم وفضل نے سارا زور اس بات پر صرف کیا ہے کہ پہلی اذان سحری کی اذان ہے۔ حالانکہ کسی روایت میں سحری کی اذان کے سرے سے الفاظ ہی نہیں۔(۳) امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں بلالی اذان پر بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: باب الأذان قبل الفجریعنی فجر سے پہلے اذان کا کیا حکم ہے، مسنون ہے یا غیر مسنون؟ مشروعیت کی صورت میں یہ دوسری اذان سے کفایت کر سکتی ہے یا نہیں؟( فتح الباری:۲؍۱۰۴)

ائمہ کرام کا بھی اس بارے میں اختلاف ہے کہ (وقت ِفجر سے قبل)پہلی اذان دوسری اذان کی جگہ کافی ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اگر یہ اذان سحری یا تہجد کی ہے جس طرح کہ موصوفین کا زعم ہے تو پھر اس اختلاف کا کیا مطلب؟

دراصل اس اذان کا تعلق بھی من و جہ فجر سے ہے، اس لئے ائمہ میں ا ختلاف پیدا ہوگیا۔ پھر ان حضرات کا یہ دعویٰ کہ صبح صادق کی اذان زیادہ تر حضرت بلالؓ ہی دیا کرتے تھے۔ بلادلیل اور نصوصِ صحیحہ کے خلاف ہے۔مفتی صحیفہ نے حافظ ابن حجر کی متعارض روایات میں بعض احتمالی توجیہات کا سہارا لے کر یہ نتیجہ اَخذ کیا گیا ہے اور حافظ موصوف کی فیصلہ کن بات جو ان کے مخالف تھی، اس کو چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ثم في اٰخرالأمرأخر ابن أمّ مکتوم لضعفه ووکل به من یراعي الفجر واستقر أذان بلال بلیل (فتح الباری :۲؍۱۰۳)

''پھر آخری امر میں رسول اللہ ﷺنے ابن امّ مکتوم کی اذان کو ان کے ضعف کی وجہ سے مؤخر کردیا اور ان کے ساتھ نگہبان مقرر کردیا جو ان کو طلوعِ فجر سے آگاہ کرے اور بلالؓ کی اذان مستقل طور پر رات کو مقرر ہوگئی۔''

عون المعبود (۱؍۲۱۰) میں ہے:

فإن الثابت عن بلال أنه کان في اٰخر أیام رسول اللہﷺ یؤذن بلیل ثم یؤذن بعده ابن أمّ مکتوم مع الفجر

یعنی ''حضرت بلالؓ سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی ﷺ کی زندگی کے اخیر میں وہ رات کو اذان دے دیتے تھے پھر ان کے بعد ابن امّ مکتوم فجر کی اذان دیا کرتے تھے۔''

نبی ﷺسے ثابت ہے کہ آپؐ نے فرمایا :

«وثبت عنهﷺأنه قال إن بلالا یؤذن بلیل فکلوا واشربوا حتی یؤذن ابن أم مکتوم»

''بلال رات کو اذان دیتا ہے پس تم کھاتے پیتے رہویہاںتک کہ ابن اُمّ مکتوم اذان دے۔ ''

واضح ہو کہ شرع میں کھانے پینے کے لئے کسی اذان کا کوئی وجود نہیں، بلالی اذان میں کھانے پینے کا لفظ محض اشتباہ دور کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے کہ یہ اذان کھانے پینے سے روکنے والی نہیں بلکہ وہ ابن امّ مکتوم کی اذان ہے۔ اس پر بیہقی نے یوں باب قائم کیا ہے:

باب أذان الأعمی إذا أذن بصیر قبله أو أخبرہ لوقت

محل بحث میں نصوصِ صریحہ واضحہ کو ترک کرکے عمومات سے استناد لینا ماہرین کے قواعد وضوابط کے خلاف ہے اور بلاو جہ تاویلات کا دروازہ کھولنا ایک غلط انداز ہے۔ ہاں البتہ اقتضائی صورت میں اس کا کوئی حرج نہیں کہ اذان کا اطلاق تکبیر پر ہو۔ تاہم مقامِ گفتگو میں اس کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ شرع میں فجر کی مستقلاً دو اذانیں ہیں جبکہ دوسری طرف متعدد روایات میں پہلی اذان کی تصریح بھی موجود ہے۔ چنانچہ سبل السلام (۲؍۴۶) میں بحوالہ نسائی ہے: الصلاة خیر من النوم، الصلاة خیر من النوم في الأذان الأولی من الصبح اس سے مطلق روایات مقید ہوجاتی ہیں۔ ابن رسلان نے کہا کہ اس روایت کو ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔ تثویب(الصلوة خیر من النوم) فجر کی پہلی اذان میں ہے کیونکہ یہ سونے والے کو بیدار کرنے کے لئے ہے۔ دوسری اذان نماز کے دخولِ وقت کا اعلان اور نماز کی طرف دعوت کے لئے ہے۔ اور نسائی کی سنن کبریٰ (اور صغریٰ) میں ابومحذورہ کا بیان ہے «کنت أؤذن لرسول اللہﷺ فکنت أقول في أذان الفجر الأوّل حي علی الصلاة حي علی الفلاح، الصلاة خیرمن النوم، الصلاة خیر من النوم» ابن حزم نے کہا کہ اس کی سند صحیح ہے۔ علامہ البانی نے بھی اس پر صحت کا حکم لگایا ہے اور صحیح ابی داؤد میں جملہ طرق اور شواہد کی بنا پر اس کو صحیح قرار دیا ہے یہ کتاب چندماہ قبل کویت سے پہلی مرتبہ طبع ہوئی ہے۔ بلا تحقیق حدیث ِہذا کو ضعیف قرار دینا درست نہیں۔

اس طرح سنن کبریٰ بیہقی میں ابومحذورہ کی حدیث میں ہے: أنه کان یثوب في الأذان الأول من الصبح بأمرہﷺ ''ابومحذورہ صبح کی پہلی اذان میں نبی ﷺکے حکم سے الصلاۃ خیر من النوم کہا کرتے تھے۔

مشکوٰۃ میں بحوالہ ابوادؤد الفاظ یوں ہیں: «فإن کان صلاة الصبح قلت الصلاة خیر من النوم»اگر صبح کی نماز ہو تو الصلاة خیر من النوم کہا کرو۔ حواشی مشکوٰۃ میں اس پر علامہ البانی رقم طراز ہیں: وذلك في الأذان الأول للصبح کما في روایة أخری لأبي داود

''یہ کلمہ صبح کی پہلی اذان میں کہا جائے گا جس طرح کہ ابوادود کی دوسری روایت میں ہے۔'' ( حدیث رقم۶۴۳)

نیز حدیث ابومحذورہ میں ہے: «إن النبيﷺعلمه في الأذان الأول من الصبح الصلاة خیر من النوم أخرجه الطحاوي» ''نبی ﷺنے ابومحذورہ کو تعلیم دی کہ صبح کی پہلی اذان میں الصلاۃ خیر من النوم کہا کرے''... اور ابن عمر کی روایت میں ہے کان في الأذان الأوّل بعد الفلاح الصلاة خیر من النوم (اَخرجه الطحاوی:۱؍۳۰۱ والبیہقی ۱؍۴۲۲)

''پہلی اذان میں حی علی الفلاح کے بعد الصلاة خیر من النوم کہا جاتا تھا۔''

مذکورہ جملہ دلائل میں اس امر کی تصریح ہے کہ الصلاۃةخیرمن النوم صبح کی پہلی اذان میں کہا جائے۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ جہاں صبح کی پہلی اذان کا اہتمام نہ ہو، وہاں یہ کلمہ دوسری اذان میں کہا جائے، اس صورت میں عمومی احادیث پرعمل ہوگا اور یہ فعل 'إحداث في الأذان' کے زمرہ میں داخل نہیں ہوگا اور کلمہ الصلاة خیر من النوم بھی اس بات کا متقاضی ہے۔ دونوں اذانوں میں قدرِ مشترک چونکہ صبح کی نماز کے لئے بیدار کرنا ہے سو وہ حاصل ہے اور اس لئے بھی کہ اصل دوسری اذان ہے پہلی کا اضافہ مخصوص اغراض کے پیش نظر ہوا۔ اسی اصلی ترتیب کی بنا پر امام بخاری ؒنے اپنی صحیح میں باب الأذان بعد الفجرکا عنوان پہلے قائم کیا ہے۔ پھر باب الأذان قبل الفجر کی تبویب ذکر کی ہے۔

یہ اس طرح سمجھیں کہ مسافر پر جمعہ نہیں، اگر وہ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر پڑھنا چاہے تو اس کی اجازت ہے اور جمعہ فوت ہونے کی صور ت میں ظہر بہرصورت پڑھنی پڑتی ہے، اس طرح کلمہ الصلاة خیر النوم پہلی اذان کے عدم کی صورت میں دوسری اذان کی طرف منتقل ہوجائے گا ...تاہم جن اصحابِ علم کا نکتہ نظریہ ہے کہ یہ حکم پہلی اذان کے ساتھ ہی مخصوص ہے خواہ فجر کی ایک اذان ہی کہی جائے ۔مذکورہ علل اور وجوہات کی بنا پر میرے نزدیک یہ مسلک مرجوح ہے۔

آخر میں محترم ڈاکٹر صاحب کو میرا مشورہ ہے جب کسی مسئلہ میں بحث کی صورت میں طوالت نظر آئے تو بذاتِ خود موضوع سے متعلقہ کتابوں کا مطالعہ کریں۔ اوراشکالات کی صورت میں پختہ کار علما سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔