عصر حاضر، فروعی تنازعات اور علماء
اسلام کے اساسی اوصافِ جمیلہ اور خصائل ِحمیدہ میں سے یہ ایک بنیادی خصوصیت ہے کہ اس کے اَحکام و قوانین حیاتِ انسانی کے جملہ پہلوؤں کا بطریق ِاحسن احاطہ کرتے ہیں۔ انسانی زندگی کی کوئی جہت بھی ... انفرادی ہو یا اجتماعی... ایسی نہیں کہ جس کا اپنی اصل کے اعتبار سے شریعت ِاسلامیہ میں تذکرہ موجود نہ ہو۔ علومِ اسلامیہ مثلاً تفسیر، حدیث، فقہ اور تاریخ وغیرہ پرانضباطِ تحریر میں آنے والی اَن گنت کتب اس حقیقت کا واضح اور بین ثبوت ہیں۔ اسلام کا اسلوبِ بیان منفرد، اندازِ تکلم جدا، طرزِ بشارت نرالا، طورِ و عید یگانہ، کلام پاکیزہ، استعارہ نفیس، کنایہ لطیف، ضابطہ بے مثل، قانون لازوال اور مجموعہ احکام فقید المثال ہے۔ اسلامی شریعت کا تمام اُمورِ بشریت پر محیط ہونا، اس کی واقعتا ایسی عظمت و شان ہے کہ دنیا میںپائے جانے والے دیگر ادیان و مذاہب اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہیں یہی وجہ ہے کہ مکمل انشراحِ صدر اور یقین کلی (Conviction) کے بعد قبولیت ِاسلام کی سعادت سے مشرف ہونے والے افرادبجا طور پر اس کی جامعیت کے معترف ہوتے ہیں۔
اسلام کی اس عظیم خصوصیت ہی کی بدولت قرونِ اُولیٰ کے صحرا نشین باسیوں نے روم اور ایران کی ناقابل شکست آہن پوش اَفواج کو ہزیمت سے دوچار کرکے اپنے سامنے سرنگوں کیا اور دنیا کو سیادت و قیادت اور رعایا پروری و غمخواری کے نئے اسالیب سے آشنا کیا ۔مدتِ مدید تک بحرو بر کی وسعتوں پراہل ِاسلام کا پرچم لہراتا رہا، قرن ہا قرن تک آہوئے چرخ(The sun) کی خیرہ کن شعاعوں کا انعکاس اسلامی دنیا کی معیت میں تیرہ و تار ظلمت کدوںکو اپنے تابش نور سے فروزاں کرتا رہا۔ طویل عرصے تک دنیا مسلمان مفکرین کے ذہن سے سوچتی، زبان سے بولتی اور قلم سے لکھتی رہی کہ بغداد و دمشق اور غرناطہ و قرطبہ کی علمی فضا میں جنم لینے والے بوعلی سینا، محمد بن موسیٰ خوارزمی، ابوبکر رازی، یعقوب کندی اور ابوریحان بیرونی وغیرہ اس وقت کی علمی میراث، تہذیبی اقدار اور معاشرتی روایات کے امام و راہنما تھے۔
اس قابل فخر عظمت ِرفتہ کے باوجود یہ ایک المناک اور تاسف انگیز حقیقت ہے کہ آج اقوامِ عالم میں اہل اسلام کی کوئی وقعت باقی نہیں رہی۔ وہ اقتدار و غلبہ اور سطوت و استیلا جو کبھی تاریخ ِاسلام کے سنہری ابواب میں شمار کیا جاتا تھا، آج قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ جن کی تیغ بے نیام کی دہشت و ہیبت سے عالم کفر کے ایوان لرزتے اور قصور (Palaces)تھرتھراتے تھے، آج اپنے دفاع کا جائز حق بھی کھو چکے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین میں ہنود و یہود کی استعماری اور توسیع پسندانہ ذہنیت کے زیراثر ہونے والا مسلمانوں کا بہیمانہ و وحشیانہ قتل ِعام اس کی ایک بدترین مثال ہے، حالانکہ یہ ایک بدیہی امر ہے کہ خاص طور پر قبلۂ اوّل کا تحفظ مجرد فلسطینی مسلمانوں ہی کا داخلی مسئلہ نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کااجتماعی معاملہ ہے لیکن اس کے باوجود پورے عالم اسلام پر اجتماعی بے حسی و غفلت اور نکبت و فلاکت کی گھمبیر تہہ نے اپنی چادر تان رکھی ہے۔ چنانچہ اس باہمی نااتفاقی اور عدمِ مشارکت ہی کا شاخسانہ ہے کہ پہلے 'برہنہ تہذیب' کے 'امن پسند علمبردار' انکل سام نے اپنے مفاد پرست اتحادیوں کے جلو میںافغانستان کو تاخت و تاراج کیا پھر عراق پر آتش و آہن اور گولہ و بارود کی مسلسل بوچھاڑ سے بصرہ و موصل اور ناصریہ و بغداد کو تہہ تیغ کیا اور اب دمِ مسلم کو شیر مادر کی طرح حلال و پاکیزہ سمجھنے والا یہ خون آشام عفریت اور وحشی درندہ شام اور ایران کو بھی دہشت گردی سے منسلک کرنے کی مذموم سعی میں کوشاں ہے۔
ایک طرف تو یہ حال ہے کہ کشمیر، فلسطین، چیچنیا، افغانستان اور عراق میں انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں، معصوم بچوں کے جسم نوچے اور آرزوئیں پامال کی جارہی ہیں، عفت مآب اور عصمت شعار خواتین کی آبروریزی کی جارہی ہے، بے گناہ شہریوں کا قتل عام علانیہ طور پرکیا جارہا ہے، قیمتی املاک کو تباہ اور پرشکوہ عمارتوں کو زمین بوس کیا جارہا ہے، اخلاقی و معاشرتی برائیوں کے ضمن میںبحیثیت ِمجموعی پورے عالم اسلام میں سودی لین دین عام ہے، معیشت کے اکثر اُمور و معاملات غیر اسلامی اُصول و قوانین پر مشتمل ہیں، عریانی و فحاشی کے ذریعے بدکاری کابازار گرم ہے، مرد کے مرد کے ساتھ اورعورت کے عورت کے ساتھ تزوج(Matrimony) کو انسانی حقوق میں شامل کیا جارہا ہے، آزادئ نسواں کے دلفریب اور کیف انگیز نعرے کے پردے میں مغرب کی عریاں تہذیبی اقدار اور معاشرتی روایات کو اسلامی ممالک میں سرعت سے پھیلایا جارہا ہے۔ فکری الحاد اور نظریاتی کج روی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ مسلمان حلال و حرام کی تمیز کھو چکے ہیں۔
دوسری جانب علما کی اکثریت اُمت ِمسلمہ کی موجودہ درماندگی و زبوں حالی کا تدارک کرنے، شریعت ِاسلامیہ کو اجتماع پرنافذ کرنے، اسلام کی حقانیت پرہونے والے متنوع قسم کے نظریاتی حملوں کا توڑ کرنے اور اُصولی مباحث پرعرق ریزی کرنے کے بجائے چند فروعی مسائل پر بحث کرنے میں مشغول ہے۔ قابل افسوس امریہ ہے کہ ان مسائل پرمناظرے منعقد کئے جاتے ہیں، کتابیں تالیف کی جاتی ہیں اور ایک دوسرے کو باطل ثابت کرنے کے لئے قرآن حکیم کی آیات سے استدلال کیا جاتا ہے۔ ان موضوعات پر اس قدر کثیر لٹریچر بازاروں میں موجود ہے کہ شمار نہیں کیا جاسکتا جبکہ اُمت کے سلگتے مسائل اور مسلم اجتماع کو درپیش چیلنجز کے بارے میں ڈھونڈے سے بھی کتب اور بحوث دستیاب نہیں ہیں۔اہل علم کے حلقہ ہائے ارادت اور دین سے وابستہ حلقے اس بے وقت کی 'راگنی' میں اس حد تک منہمک ہیں کہ اپنے اصل فرائض کو بھول چکے ہیں۔یہ بھی رجحان عام ہے کہ دین سے بیزار ، احکام سے متنفر اور عمل سے برگشتہ لوگ ان مسائل میں اپنے دن رات صرف کرتے اور ان تنازعات کو باعث ِنزاع اور وجہ ِمناقشہ بناتے ہیں، امام اوزاعیؒ کا قول ہے :
''اللہ تعالیٰ جس قوم کے ساتھ برائی کاارادہ فرماتے ہیں، اس میں بحث و جدل عام ہوجاتاہے اور عمل کا جوش و ولولہ جاتا رہتا ہے۔'' (جامع بیان العلم و فضلہ، ص۱۸۵)
عصر حاضر میں بیشتر علماے کرام کے جدید مسائل و تحدیات (Challenges) اور اُصولی مباحث سے بے اعتنائی و عدم توجہی برتنے اور فروعی تنازعات ہی میں مشغول رہنے کے بنیادی اسباب مندرجہ ذیل ہیں :
1. اس سلسلے میں سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ علمائے کرام کی اکثریت روایتیذہنیت کی حامل ہے۔ جب علمائے کرام اسلاف کی علمی میراث کو موجودہ دور کے فتنوں کے ذکر سے تہی دامن پاتے ہیں تو ان پربحث و تحقیق اور اجتہاد و تفتیش کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کیونکہ ان کے نزدیک اس 'بدعت' کا ارتکاب محض اضاعت ِاوقات اور تضییع افکار کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ اس ذہنیت کی تردید کرنے کے لئے گونا گوں دلائل اور متنوع تاویلات کا سہارا لینے کی مطلق ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہر دور کے حالات کچھ ایسی خاص کیفیات کے حامل ہوتے ہیں جو دوسرے ادوار سے یکسر مختلف و متفاوت ہوتے ہیں لیکن بعض دفعہ وہی انتہائی اہم صورت اختیار کرجاتے ہیں اور ان کو شریعت ِاسلامیہ کی روشنی میں پرکھنا لازم ہوجاتا ہے۔ فقہاے متقدمین کے مباحث ان کے عصری تقاضوں کے مطابق ہی ہوتے تھے۔ ان کی مجالس میں بیان کئے جانے والے علمی نکات اور کتب میں موضوعاتِ بحث کے اسالیب سے ان کے زمانے کے اہم مسائل و معاملات کی واضح طور پر نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ حالات وزمانہ کی رعایت کے مطابق جہودکا یہ اختلاف اور مباحث کا یہ تفاوت ہمارے اسلاف کی قابل قد ر فکری کوششوں میںبکثرت موجود ہے۔ جن غیر شرعی مفاسد اور اخلاقی و معاشرتی برائیوں کا آج ہمیں سامنا ہے اگر ان کا گذر ہمارے اسلاف پرہوا ہوتا تو وہ بھی قرآن و سنت کی روشنی میں ترجیحی طور پر اسلامی معاشرے کو ان فتنوں سے پاک کرنے کے لئے کمر بستہ ہوجاتے۔
صرف اسی بات پر اکتفا بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ علما انہی موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں جس کے بارے میں کتب اسلاف میں انہیں بے بہا تحقیق میسر آجاتی ہے، بلکہ ائمہ اسلاف کے علمی ترکے میں بھی بے شمار بحوث ایسی ہیں جن کی تشنگی دور حاضر میں شدت سے محسوس کی جاتی ہے، ہمارے بہت سے فکری مسائل کا حل ان میں موجود ہے لیکن ان کو زندہ کرنے کے بجائے اس دور کے اہل علم صرف چند مخصوص مسائل کے اسیر ہیں۔
اس دور میں حدیث ِنبوی کی حجیت کو جن حوالوں سے چیلنج درپیش ہیں، قراء ات ِقرانیہ کا کھلم کھلا انکار کیا جارہا ہے، جہاد کے مفہوم میں تحریف کی جارہی ہے اور اسلامی حجاب اور وضع قطع کو سرعام تنقید کا نشانہ بنا کر اسلام کی من مانی تعبیر کی جارہی ہے۔ ہماری روایتی علمی ذخیرے میں ان موضوعات پر سیرحاصل بحث موجود ہے، لیکن کیا اس دور میں ان کی وضاحت اور درست اسلامی تعبیر کی ذمہ داری پوری کی گئی ہے؟
معاشرتی سطح پراسلام کا خاندانی نظام شدید خطرات سے دوچار ہے، صنفی بنیادوں پر مردوزن میں تفریق کا گھنائونا کھیل سرعام کھیلا جارہا ہے، نظام عفت وعصمت پر چہارسمت سے حملے کئے جارہے ہیں۔ یہ دور تہذیبی جنگوں کا دور ہے، فکری مباحثوں اور نت نئے خیالات کا زمانہ ہے۔ نئی ایجادات اور دریافتوں نے ایک عالم کو سحرزدہ کررکھا ہے۔ابلاغ اور انفرمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے، سائنس وٹیکنالوجی نے حربی میدانوں کا نقشہ بدل دیا ہے۔
ان میں بہت سے موضوعات ایسے ہیں جن پر اسلام کی صحیح ترجمانی کی شدید ضرورت ہے، اسلام کا سائنس کے بارے میں نکتہ نظر، عیسائیت کے تصور سائنس کے ساتھ خلط ملط کیا جارہا ہے۔ اسلام کے تصور جہاد کو دہشت گردی کے مترادف قرار دیا جارہا ہے۔ ان موضوعات کے بارے میں علم کے ہمارے روایتی ذخیرہ میں بہت کچھ میسرہے لیکن ان تک پہنچنے والے ذہن بیدار نہیں اور اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرپارہے۔
2. ایک سبب یہ بھی ہے کہ علماے کرام کی اکثریت عصرحاضر کے جدید مسائل و معاملات سے ناواقف ہے۔ انہیں علم نہیں کہ دورِ جدید میں انسان کو انفرادی و اجتماعی، اخلاقی و معاشرتی اور تجارتی و سیاسی سطح پر کیسی مشکلات کا سامنا ہے اور اس سلسلے میں کتنے غیر شرعی اُمور نے حقیقی اور عمل پسند مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ اس لا علمی کی بنیادی و جہ یہ ہے کہ علماے کرام کی نشست و برخاست اپنے مخصوص حلقوں ہی تک محدود ہے۔ ان کے حلقہ درس میں شریک ہونے والے افراد کی اکثریت جب ان سے مخصوص قسم کے فقہی مسائل پر ہی سوال و جواب کرتی ہے تو وہ بھی اپنی فکری استعداد اور ذہنی صلاحیت کو ایسے اُمور میں صرف کرنا پسند نہیںکرتے جس کی جانب عوامی میلان (Popular tendency) کی کمی ہو۔ صرف یہ کہہ کر کہ ہم تو جدید مسائل ہی سے ناآشنا ہیں، عصرحاضرکے انفرادی و اجتماعی تقاضوں سے بے اعتنائی برتنا اور ان پر مباحث کا اہتمام نہ کرنا فہمیدہ اَقوام کا شعار نہیں بلکہ اپنی فکری ہزیمت کا غماز ہے۔ جو لوگ اخلاقی ومعاشرتی اصلاح کے عظیم منصب پر فائز ہوں، ان کا فرض ہے کہ وہ عوام الناس کے مابین جنم لینے والی نت نئی خامیوں سے آگاہی حاصل کریں اور ان کا سدباب و تدارک کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں۔ بعض سلف صالحین جیسے امام محمد بن حسن شیبانی ؒ (متوفی ۱۸۹ھ؍۰۴ ۸ء) کے حالاتِ زندگی میں درج ہے کہ وہ تدوین ِفقہ کے سلسلہ میں بازاروں میں جایاکرتے تھے اور تاجروں کے پاس بیٹھ کر ان سے جدید اُمور تجارت کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے۔ اس تگ وتاز کا واحد مقصد جدید امور و معاملات سے آگاہ ہونا ہی تھا۔ مولانا محمد تقی عثمانی رقم طراز ہیں :
''بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ جب کسی علاقے یا کسی معاشرے میں ناجائز کاروبار (وغیرہ) کی کثرت ہو تو چونکہ عالم اور مفتی صرف فتویٰ جاری کرنے والا نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک داعی بھی ہوتا ہے، اس لئے اس کا کام اس حد پر جاکر ختم نہیں ہوجاتا کہ وہ صرف اتنا کہہ دے کہ فلاں کام ناجائز اور حرام ہے بلکہ بحیثیت ِداعی اس کے فرائض میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کام کو ناجائز اور حرام کہنے کے بعد یہ بھی بتائے کہ ا س کا متبادل حلال طریقہ کیا ہے؟ وہ متبادل قابل عمل بھی ہونا چاہئے اور شریعت کے احکام کے مطابق بھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ قرآن کریم میں مذکور ہے کہ جب ان کے پاس قیدخانے میں بادشاہ کا پیغام پہنچا اور ان سے خواب کی تعبیردریافت کی گئی تو حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کی تعبیر بعد میں بتائی کہ سات سال کا قحط آنے والا ہے لیکن اس قحط سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ پہلے بتا دیا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿فَما حَصَدتُم فَذَروهُ فى سُنبُلِهِ إِلّا قَليلًا مِمّا تَأكُلونَ ﴿٤٧﴾... سورة يوسف" اس آیت سے یہ استنباط کیاگیا ہے کہ داعی حق حرام کام کو صرف حرام قرار دے دینے ہی پراکتفا نہ کرنے بلکہ اپنے امکان کی حد تک اس سے نکلنے کا راستہ بھی بتائے...'' (اسلام اور جدید معیشت و تجارت : ص۱۸)
3. ایک اور اہم سبب علماے کرام کی اکثریت میں انشائی استعداد (Creative ability) اور تخلیقی صلاحیت کا فقدان ہے۔ اصولی مباحث اور عصری تقاضوں سے لاپرواہی برتنے کی ایک وجہ ان کا کسی حد تک دقیق ہونا بھی ہے۔ تحصیل علم کے دورانیہ میں جس طرح نصابی کتب کے متن سے مختلف معانی کھنگالنے اور الفاظ کی گہرائی میں اُترنے کی ان کی غیرمعمولی مشق ہوتی ہے، اس سے ان کی انشائی وتخلیقی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
کتب ِتفسیر و حدیث سے مراجعت کرکے فقہی مسائل کا استخراج و استنباط کرنا بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا بعض اُصولی معاملات پر تحقیق و تفتیش کرکے ایک نئی فکر کو پروان چڑھانا اور اس کی روشنی میں مخالفین کو مسکت جواب دینا کٹھن ہے۔ کچھ علماے کرام جب شریعت ِاسلامیہ کے بعض پہلوؤں کو اپنے فہم سے بالاتر اور تدبر سے ورا دیکھتے ہیں تو ان کو ترک کرکے ایسے مسائل ہی پر قناعت کرلیتے ہیں کہ جن پر پہلے ہی سے مباحث کے انبار اور تحقیق کے دفتر موجود ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے دور کے بیشتر علماے کرام کے کثیر مباحث کا محور و موضوع ایسے مسائل ہی ہوتے ہیں جن پر علمائے سلف پہلے ہی کافی تحقیق کرچکے ہیں۔ پھر ان میں سے بھی فروعی تنازعات کو بعض علما اتنی شدت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ جیسے وہی دین اسلام کا جوہر خالص اور نمونۂ بے مثل ہیں۔ عوام جو اکثر خطبہ جمعہ ہی میں شریک ہوتے ہیں جب خطبا کی تقاریر کو ان مسائل کی بھرمار سے لبریز پاتے ہیں تو ان اجزا ہی کو دین کے کمال پر محمول کرلیتے ہیں۔ ابن جوزیؒ فرماتے ہیں :
''بعض واعظوں کا یہ حال ہے کہ بڑی آراستہ اور پُرتکلف عبارت بولتے ہیں جو اکثر بے معنی ہوتی ہے۔ اس زمانے میں مواعظ کا بڑا حصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام، کوہِ طور اور حضرت یوسف علیہ السلام و زلیخا کے قصوں پرمشتمل ہوتا ہے۔ فرائض کا تذکرہ بہت کم ہوتا ہے (اخلاقی باتوں کا ذکر بھی نہیںہوتا)۔ اسی طرح گناہ سے بچاؤ کے طریقے کبھی زیر بحث نہیں آتے۔ ایس مواعظ سے ایک زانی یا سود خور یا ریاکار کو توبہ کرنے کی ترغیب اور توفیق کیسے ہوسکتی ہے اور کب عورت کو شوہر کے حقوق ادا کرنے اور اپنے تعلقات درست کرنے کا خیال پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ یہ مواعظ ان مضامین سے یکسر خالی ہوتے ہیں، ان واعظوں نے شریعت کوپس پشت ڈال دیا ہے اسی لئے ان کا بازار خوب گرم ہے۔''
(کتاب القصاص والمذکرین کا ترجمہ 'تحفۃ الواعظین': ص۵۷)
4. ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ یہودیت، عیسائیت اور ہندومت وغیرہ کے مختصر مجموعہ احکام اور مجمل نظامِ تعلیمات کی عمومی نوعیت سے متاثر ہوکر اُمت ِمسلمہ کے بعض طبقوں میں یہ سوچ سرایت کرگئی ہے کہ اسلام بھی دوسرے اَدیان کی مانند محض چند ایک عباداتِ مخصوصہ ہی کے مجموعہ کا نام ہے اور اس کے احکام کا تعلق انفرادی سطح کے بعض اُمور و معاملات ہی تک محدود ہے لہٰذا مجرد ان اُمور و معاملات کو مرکوزِ خاطر رکھنا، عوام الناس میںان کو دین کامل کے طور پر متعارف کروانا اور ان پر تحقیق و تفتیش کو حد کمال تک پہنچانا ہی دین کا مقصودِ اصلی اور منشاے حقیقی ہے۔ ایسے لوگوں میں اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کی حیثیت سے معروف نہیں۔ اگرچہ اس گمراہ کن اور مغالطہ انگیز نظریے کا علماے کرام میں موجود ہونا بظاہر تو محال معلوم ہوتا ہے لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ بعض ایسے علما جواصولی مباحث کو ترک کرکے ہمہ وقت فروعی مسائل ہی پر تحقیق کے انبار لگانے میں مصروفِ عمل ہیں، کے اپنے قرب و جوار میں فواحش و منکرات کا سیل رواں موجِ سبک کی مانند جاری و ساری ہے لیکن ان کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی کیونکہ ان کی کوتاہ رائے کے مطابق شریعت ِاسلامیہ کو ان معاملات سے کوئی پرخاش نہیں۔
ان کے نزدیک وطن مالوف میں اسلامی نظام کے قیام کے لئے جدوجہد کرنا سیاسی مسئلہ ہے جس کی ذمہ داری اربابِ بست و کشاد اور اصحابِ حل و عقد پر عائد ہوتی ہے، سودی لین دین تجارتی برائی ہے جو باہمی پیار و محبت اور اُنس و مودّت سے دور کی جاسکتی ہے لہٰذا اس کی فکر میں اپنے آپ کو ہلکان کرنے کی مطلق حاجت نہیں اورعریانی و فحاشی وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی اخلاقی ومعاشرتی قباحت ہے جسے خالق کائنات ہی اپنی قدرتِ کاملہ کے ساتھ ختم کرسکتے ہیں لہٰذا مخلوق کو زیبا نہیں کہ وہ کائنات کے تقدیری اُمور میں 'دخل در معقولات' کی مرتکب ہو۔
نسأل الله السلامة و العافیة
معلوم ہونا چاہئے کہ نبی اکرمﷺکا اُسوۂ حسنہ دین اسلام کے متعلق اس قسم کے غلط نظریات اور رجحانات کی واضح طور پر تردید کرتا ہے اور اہل اسلام کے لئے زندگی کے ہر معاملے میں بہترین نمونہ پیش کرتا ہے اگر آپ دعوت و تبلیغ کے فریضے سے وابستہ ہیں تو مکہ و طائف کی گلیوں اور بازاروں میںاذیتیں سہنے اور تکلیفیں جھیلنے والے مصلح اعظمﷺکی سیرت کا مطالعہ کریں، اگر آپ حکمرانی کے مرتبے پر فائز ہیں تو فتح مکہ کے موقع پر اپنے ذاتی اعدا کو کمال عفو ودرگزر سے معاف کردینے والے محسن ِانسانیتﷺ کی اتباع کریں، اگر آپ خاوند کی حیثیت سے زندگی بسر کررہے ہیں توازواجِ مطہرات کے مابین ہر لمحہ عدل و انصاف اور اعتدال و توازن کا خیال رکھنے والے اولوالعزم پیغمبرﷺ کو دیکھیں، اگر آپ کو میدانِ جنگ میں کفار سے جنگ کرنے کے لئے نمونہ درکار ہے تو غزوہ بدر و اُحد میں برسر پیکار فنونِ حرب سے آشنا اور اطوارِ شجاعت کے رازدان بے مثال سپہ سالار کو اپنا رہنما بنائیں، اگر آپ ایثار و قربانی کے جذبہ سے سرشار ہیں تواپنی فکر خوردونوش سے بے پرواہ ہوکر فقراء و مساکین کے لئے پہروں متفکر رہنے والے امام الاولیاﷺ کی راہ اپنائیں، اگر آپ تعلیم کے شعبے سے منسلک ہیں تو اصحابِ صُفّہ کے بے نظیر معلم کی حیاتِ طیبہ سے خوشہ چینی کا شرف حاصل کریں، اگر آپ کو حلم و بردباری اور صبر و برداشت کا نمونہ درکار ہے تو اپنوں کی کڑوی کسیلی باتیں سن کربھی ان کی ہدایت کے لئے دست ِدعا بلند کرنے والے سرورِ کائناتﷺ کی پیروی کریں۔ غرضیکہ تیرگی کی وحشت میں تابندگی اور ضلالت کی انتہا میں نورِ ہدایت کی خیرہ کن کرنیں بکھیرنے والے محمد مجتبیٰ ﷺکی ذاتِ گرامی تپتے ہوئے صحرا کی جھلسا دینے والی گرمی میںلہلہاتے ہوئے اس مرغزار اور نخلستان کی مانند ہے کہ جس کی دلکشی اور رعنائی سے عالم مبہوت اور انسانیت مسحور ہو، ابر ِکرم اس جنت نظیر قطعہ زمین پربرسے اور خوب برسے کہ اس کی دید کا نظارہ درماندہ کارواں کے شکستہ آرزو اور پریشان حال ساربانوں کو تازگی و شگفتگی کی نئی لذت سے آشنا کردے۔
دینی جماعتوں کا المیہ
عصر حاضر میں ملت ِ اسلامیہ کا اصل فکری المیہ یہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں شاید کوئی بھی دینی جماعت ایسی نہیں جو دین کے اجتماعی تصور کو پیش نظر رکھ کر سرگرمِ عمل ہو اورنبی اکرمﷺ کے مکمل اسوۂ حسنہ کو عملی طور پر عوام کے سامنے پیش کرسکے۔ آپﷺتو دعوت و تبلیغ اور جہاد و قتال وغیرہ جیسے تمام اُمور کے جامع تھے لیکن ہماری دینی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کی عملی جدوجہد اور فکری کاوش نبی اکرمﷺ کی کسی ایک سنت ہی تک محدود ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اس ایک سنت ہی پر عمل کرنے کو تمام برائیوں اور خرابیوں کا شافی علاج تصور کیا جاتا ہے چنانچہ جو لوگ دعوت و تبلیغ سے وابستہ ہیں ان کے نزدیک یہی اسلام ہے، جو لوگ کفار سے قتال کرنے کے داعی ہیں وہ معاشرے کی غلط رسوم و رواج کے خلاف آواز بلند کرنے کو جہاد کا حصہ ہی نہیں سمجھتے اور جو لوگ اجتماعی سطح پر نفاذ اسلام کی جدوجہد میں مشغول ہیں، ان کے نزدیک انفرادی اصلاح کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ وعلیٰ ہذا القیاس
یہ ذہنیت اُمت ِمسلمہ میں اجتماعیت کے فقدان اور تفرقہ بازی کے رجحان کی آئینہ دار ہے کہ ہر جماعت نے تحکمانہ انداز میں شرعی احکام کی خود ساختہ تقسیم کررکھی ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ بیشتر جماعتیں اور تنظیمیں اپنے طے کردہ اساسی مقاصد کی بحسن و خوبی تکمیل کررہی ہیں اور ان کے عمل میں اخلاص کی جھلک اور اصلاح کی تڑپ نمایاں ہے لیکن کیاکسی ایک ہی سنت کو سینے سے لگا کر دیگر تمام احکام شرعیہ سے بے پرواہ ہوجانا نبی آخرالزماںﷺ کی کماحقہ ' اتباع و اطاعت کانمونہ ہے...؟
اختلافِ رائے کی بنیاد پر تعصب ؟
نظریاتی جہت پرمبنی یہ سوال دینی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اہل اسلام کے مابین باہمی افتراق و انتشار کی بیخ کنی اور اجتماعیت کے قیام کی آرزو ہر دل دردمند اورچشم پرنم کا دیرینہ خواب ہے جو صدیوں کی دشوار گزار اور کٹھن مسافت کے باوجود ہنوز شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا تاہم اُمورِ فقہیہ اور مسائل شرعیہ کے بارے میں دقت ِنظر سے دیکھا جائے تو واضح ہوگا کہ اختلافِ رائے اگر مہرو وفا اور صدق و صفا کے جذبات کے ساتھ ہو تو کوئی ایسی مذموم شے نہیں کیونکہ مختلف اذہان کے حامل افراد کے مابین مکمل اشتراکِ رائے ایک ناممکن الحصول خواہش ہے۔ اصل مسئلہ باہمی نفرت و عداوت اوربغض و عناد کا ہے۔ فقہی اُمور میں اختلافِ رائے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور فقہائے عظامؒ کے مابین بھی موجود تھا لیکن ان کے نزدیک یہ مسائل اتنی شدت کے حامل نہیں تھے کہ ایک دوسرے کو دائرۂ اسلام ہی سے نکال دیا جائے بلکہ ان کی نظر میں یہ مسائل علمی نوعیت پر مبنی عمومی مباحث ہوا کرتے تھے جو ایک بیدار مغز قوم کا خاصہ ہوا کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل چند ایک مثالوں سے اس حقیقت کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔
1. حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے منیٰ میں (دورانِ حج) نمازِ قصر پڑھی، آپﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیقنے بھی نمازِ قصر ادا کی ، پھر حضرت عمر فاروق نے بھی نمازِ قصر ادا کی پھر حضرت عثمان نے ابتداے خلافت میں تو نماز قصر ہی کی لیکن بعد میں مکمل ادا کرنی شروع کردی۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرجب امام (حضرت عثمان) کے پیچھے نماز ادا کرتے تو پوری ہی پڑھتے تھے لیکن جب علیحدہ ادا کرتے تو قصر کیا کرتے تھے (کیونکہ وہ سفر میں قصر کرنے کے قائل تھے)۔ (صحیح مسلم مع شرح النووی، جلد۳ ص۲۱۲۳)
2. اسی سے ملتا جلتا واقعہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے بھی حضرت عثمانکے پیچھے پوری نماز ادا کی حالانکہ وہ سفر میں نمازِ قصر کے قائل تھے پھر جب ان سے کہا گیا کہ آپ (نماز کی مکمل ادائیگی پر) حضرت عثمان کو عیب بھی لگاتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز ادا بھی کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ الخلاف شر یعنی اختلاف کرنا شر (برائی) ہے۔ (عون المعبود شرح سنن ابی داؤد ،جلد۲ ص۱۴۵)
3. عباس بن عبدالعزیز بیان کرتے ہیں کہ میں ایک روز امام احمد بن حنبلؒ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ علی بن مدینی بھی آپہنچے اور ایک مسئلے پر بحث چھڑ گئی،بحث اتنی بڑھی کہ آوازیں بلند ہوگئی، میں ڈرا کہ جھگڑا ہوجائے گا لیکن جب علی ابن مدینیؒ رخصت ہونے لگے تو امام احمد بن حنبلؒ نے آگے بڑھ کر ان کی سواری کی رکاب تھام لی اور بڑی عزت سے انہیں سوار ہونے میں مدد دی۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، ص۲۵۹)
بہرحال یہ ذکر تو برسبیل تذکرہ نوکِ قلم سے صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوگیا وگرنہ ہمارا مطلوب تواس مقصد کا حصول ہے جو ملتوں کی تاریخ کو تابناک بناتا اور اس کے افراد کی فکر کو جلا بخشتا ہے کہ حالات کے مطابق طرزِ زندگی اختیارکرنا ہی دانشمند اقوام اور فہمیدہ عوام کا شعار ہے، کیفیاتِ زمانہ کے رعایت کئے بغیر ہر دور میں پوری تندہی و جانفشانی کے ساتھ ایک جیسے مسائل ہی پر بحث کرتے رہنا اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو ہوا بنا کر ہمیشہ معاندانہ رویہ اپنائے رکھنا اہل دانش وبینش کا شیوہ نہیں۔ ملت ِاسلامیہ آج جن دگرگوں اور ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہے کیا وہ ہمیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم اب بھی انہی مباحث میں اُلجھے رہیںجو بتدریج ہمارے علمی اَوزان کو زنگ آلود، فکری وسعتوں کو زوال پذیر، قوت کو کمزور اور ہمت کو پست کردیں۔
واضح ہو کہ ہمارے قابل صد احترام ائمہ عظامؒ اور فقہاے کرامؒ جس زمانے میں فروعی مسائل پربحث فرمایاکرتے تھے، وہ اسلام کے بھرپور غلبے اور اقتدار کا دور تھا جبکہ آج اس کی مثال تو درکنار، عشرعشیر بھی نہیںہے۔ اہل بصیرت کی دقیقہ رس اور رمز شناس نگاہوں میں ابھی وہ منظر محفوظ ہوگا کہ جب امریکہ نے حکومت ِپاکستان کے اشتراک و تعاون کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا تھا توتقریباً تمام 'باحمیت اور حساس' دینی جماعتوں نے متحد ہوکر حکومت کے اس مذموم اقدام کے خلاف پُرزور صداے احتجاج بلندکی تھی لیکن جب چند ماہ بعد ہی بھارت نے اپنی افواج کو پاکستان سے ملحقہ سرحدوں پر جمع کرنا شروع کریا تو انہی تنظیموں نے صدرِ پاکستان کو پاک فوج کے دوش بدوش اپنے مکمل تعاون کی یقین دہائی کروائی تھی حالانکہ مسئلہ افغانستان پر حکومت سے ان کی چپقلش اور ناچاقی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںتھی لیکن یہ حالات کی سنگینی اور کیفیات کا تفاوت تھا کہ جس نے احوال کے پیش نظر انہیں اپنا طرزِعمل بدلنے پر مجبور کیا۔ ہوبہو یہی کیفیت فروعی مسائل کی ہے۔ ان کے سلسلے میں بھی ہمیں اپنے رویے پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ہم معاذ اللہ اس بات کے دعویدار نہیں کہ ان مسائل کا اسلامی مباحث سے کوئی تعلق اور واسطہ ہی نہیں۔ بلا شک و شبہ ان اُمور کا شماربھی اسلام کی خدمت میں ہوتا ہے اور ان پر بحث و تحقیق کی ذمہ داری بھی علماء امت کی ہی ہے لیکن جن اُمور و معاملات نے دورِ حاضر میں عالم اسلام کو نت نئی آزمائشوں سے دوچار کررکھا ہے، ان کا ترجیحی بنیادوں پر قلع قمع کرنا زیادہ ضروری ہے۔حالات کی تلاطم خیز اورناسازگار اَمواج کے بے رحم تھپیڑوں کی زد میں آئی ہوئی اُمت ِمسلمہ کی شکستہ حال و درماندہ ناؤ تباہی کے قریب آن لگی ہے۔ ہم علماے کرام کی خدمت میں بصدادب و احترام مکمل درد دل کے ساتھ درخواست کرتے ہیںکہ خدارا عالم اسلام کی موجودہ بے کسی و ناچاری پر رحم کریں اور ان مسائل کو اتنے جوش و جذبے کے ساتھ ہوا نہ دیں جو عصرحاضر میں ضمنی حیثیت کے حامل ہیں۔
قلم آمادہ، تقریر مستعد اور قلب بیدار ہو تو کتنے چیلنج ہیںجو عرصۂ دراز سے علماء کرام کی کماحقہ' توجہ کے منتظر ہیں۔ شرک و بدعت، فتنۂ انکار حدیث، نصوصِ نقلیہپر اُمور عقلیہ کی فوقیت عریانی و فحاشی اور سُود وغیرہ جیسے کتنے اُمور ہیں جن پر قرآن و سنت کی روشنی میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اہل علم و قلم ان موزوں موضوعات پر اپنی تحریروں کوترتیب دیں اور استعداد کواُبھاریں کہ حالات ِحاضرہ اسی سعی مشکور کے متقاضی ہیں ؎
اُٹھو وگرنہ حشر ہوگا نہ پھر کبھی دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا !!