اسلام اور عیسائیت میں حقوق اللہ اور حقوق العباد

قرآن میں حقوق اللہ اور حقوق العباد انفرادی؛ قومی و ملی

اب مقابلہ کیلئے نہیں بلکہ عیسائیوں کو اتمامِ حجت کی خاطر ہم قرآنی تعلیم کو مختصر پیش کریں گے:

عبادات: توحید ِحقیقی کو ذہن نشین کرنے سے انسان کے تعلقات اپنے خالق سے درست ہوجاتے ہیں۔ اس لئے ان تعلقات کو قائم و دائم رکھنے کے لئے چند آئین و قوانین ہونے چاہئیں کہ ایک دفعہ توحید ِکامل کا سبق پڑھ کر انسان اِسے بھول نہ جائے؛ انہیں اصطلاحِ شرع میں 'عبادات' کہتے ہیں۔ عبادات میں محاکمہ کے لئے ایک مبسوط بحث کرنے کی ضرورت ہے جس کی یہاں گنجائش کہاں!! کیونکہ اناجیل میں جیسا کہ مذکور ہوچکا ہے عبادات کا تو سرے سے ذکر ہی نہیں، ہاں اگر گرجے کے گھنٹوں اور ہارمونیم و آرگن کی دلکش سروں اور خوبصورت کنواریوں کے سریلے اور دلربا گانوں میں خدا کا قرب مضمر ہوتا تو موجودہ زمانہ کے تھیٹر اور ناچ گھر خدا کے پانے کا سب سے زیادہ مفید اور سہل ذریعہ ثابت ہوتے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر مسیحی گرجا جانے کی نسبت تھیٹر یا ناچ گھر یا سینما جانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔وہ دیکھیں گھر خدا کا، ہم خدا کی شان دیکھیں گے۔اس لئے اسلام کی عبادات از قسم نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کا ذکر یہاں ان کے مقابلہ کے لئے نہیں بلکہ بطورِ اتمام کیا جاتا ہے۔

نماز ہی کو لیجئے، ابتدا سے لے کر انتہا تک اس میں حضرت ذوالجلال خالق ربّ السماوات کی تقدیس و تسبیح و تحمید و تمجید ہوتی ہے۔ ذرا اذان پر غور کر اور پھر عیسائیوں کے گرجا کے گھنٹوں پر غور کرو تو معلوم ہوجائے گا کہ اسلام نے عبادت کے مفہوم کو کس طرح سمجھا ہے اور کیونکر اسے نبھایا ہے۔ اذان کا مقصد ہے، نماز کے لئے لوگوں کو اکٹھا کرنا۔ اس سے فقط اسی قدر پکارنا کہ حی علی الصلوٰۃ (نماز کے لئے آؤ) کافی ہوتا، مگر نہیں، شارع علیہ الصلوٰۃ اس سے بھی خاص فائدہ لینا چاہتے تھے۔ نمازی کے کانوں میں پہلی آواز جو پڑے تو اللہ اکبر کی ہو۔ اور اس کا خیال معاً نماز و عبادت کے مقصد کی طرف منعطف ہوجائے کہ اصل عبادت خدا کی بڑائی اور بزرگی کو سچے دل سے ماننے کا نام ہے، اس لئے چار دفعہ اللہ اکبر اور دو دفعہ أشھد أن لاإله إلااﷲ اور دو دفعہ أشھد أن محمدًا رسول اﷲ (ﷺ) پکار کر پھرحی علی الصلوٰۃ پکارا جاتا ہے ۔ بعد میں اس نماز کے نتائج کی طرف فوراً توجہ کی جاتی ہے۔ حي علی الفلاح (کامیابی و فلاح کی طرف آؤ) یعنی نماز کانتیجہ دین و دنیا دونوں جہان میں کامیابی وکامرانی ہوگا۔ آخر میں اذان کو پھر خدا کی عظمت جتلا کر اور اسی ذاتِ واحد کو قابل عبادت قرار دے کر ختم کیا گیا ہے۔

اصل میں قرآن حکیم اور اسلام کے ایک ایک حکم میں ہزارہا نکات و اسرار پوشیدہ ہیں۔انسان کہاںتک خامہ فرسائی کرتا چلا جائے...

دربندآں مباش کہ مضمون نماندہ است
صد سال میتواں سخن از زلف یار گفت


الغرض آپ جوں جوں نماز پر غور کرتے جائیں گے، آپ کے دل میں نہ صرف عبادت کا صحیح مفہوم آجائے گا۔ بلکہ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ پہلے کسی مذہب میں عبادت کا اتنا وسیع مفہوم صحیح طور پرآیا ہی نہیں، یہی حال روزہ، حج اور زکوٰۃ کا ہے۔

حقوق ُالعباد

عبادت کے بعد حقوق ُالعباد کا درجہ آتا ہے، اس میں بھی خیر سے اناجیل بالکل خالی ہیں۔ سوائے چند ایک عمدہ فقرات کے اور کچھ نہیں۔ ان میں بھی بعض میں بہت ہی افسردگی افزا فقرات ہیں اور بعض محض رہبانیت سے معمور اور دنیاوی نفرت کے جذبات سے مملو۔ سب سے پہلے والدین کا درجہ آتا ہے۔ بعد میں اعزاواقربا کا، چنانچہ

1. ''اگر کوئی میرے پاس آئے اور اپنے باپ اور ماں اور بیوی بچوں اور بھائیوں بہنوں بلکہ اپنی جان سے بھی دشمنی نہ کرے تو میرا شاگرد نہیں۔'' (لوقا: باب ۱۴؍ آیت ۲۶)

2. میں اس لئے آیا ہوں کہ آدمی کو اس کے باپ سے اور بیٹی کو اس کی ماں سے اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کردوں اور آدمی کے دشمن اس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔ (متی : باب۱۰؍ آیت ۳۵ و ۳۶)

اب اس کے مقابلہ میں قرآن حکیم کی تعلیم کو لو:

1. ﴿وَقَضىٰ رَ‌بُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ وَبِالو‌ٰلِدَينِ إِحسـٰنًا ۚ إِمّا يَبلُغَنَّ عِندَكَ الكِبَرَ‌ أَحَدُهُما أَو كِلاهُما فَلا تَقُل لَهُما أُفٍّ وَلا تَنهَر‌هُما وَقُل لَهُما قَولًا كَر‌يمًا ٢٣ وَاخفِض لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّ‌حمَةِ وَقُل رَ‌بِّ ار‌حَمهُما كَما رَ‌بَّيانى صَغيرً‌ا ٢٤﴾... سورة الاسراء

''اور اے پیغمبر تیرے پروردگار نے فیصلہ کیا ہے کہ سوائے اس کے کسی کی پرستش نہ کرو اور والدین سے احسان کر۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑی عمر کے ہوجائیں تو انہیں اُف تک بھی نہ کہہ اور نہ انہیں جھڑک اور ان سے نہایت نرمی او رمہربانی کی بات کہہ اور دونوں کے لئے رحمت کابازو جھکا دے اور کہہ کہ اے پروردگار ان پر اسی طرح رحمت فرما جیساکہ ان دونوں نے میری صغر سنی میں میری پرورش کی۔''

2. ﴿وَءاتِ ذَا القُر‌بىٰ حَقَّهُ وَالمِسكينَ وَابنَ السَّبيلِ وَلا تُبَذِّر‌ تَبذيرً‌ا ٢٦﴾... سورة الاسراء

''اور قرابت مندوں کو ان کا حق دو اور مسکینوں اور مسافروںکو بھی دو اور دولت کو بُری طرح مت اُڑاؤ۔''

3. ﴿وَاعبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشرِ‌كوا بِهِ شَيـًٔا ۖ وَبِالو‌ٰلِدَينِ إِحسـٰنًا وَبِذِى القُر‌بىٰ وَاليَتـٰمىٰ وَالمَسـٰكينِ وَالجارِ‌ ذِى القُر‌بىٰ وَالجارِ‌ الجُنُبِ وَالصّاحِبِ بِالجَنبِ وَابنِ السَّبيلِ وَما مَلَكَت أَيمـٰنُكُم...٣٦﴾... سورة النساء

''اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ نیکی کرو اور قرابت مندوں کے ساتھ اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور ہمسایہ رشتہ دار اور ہمسایہ اجنبی اور رفیق کے ساتھ بھی اور مسافروں او ران کے ساتھ بھی جو تمہارے قبضہ میں ہوں۔''

اگر عیسائی یہ کہیں کہ مسیح کی تعلیم بالافقط اس صورت کے لئے ہے جبکہ والدین یا اعزا مخالف ِمسیحیت ہوں، تو اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ اگر یہ اس صورت کے لئے ہے تو دوسری صورت کے لئے انجیل میں تعلیم کہاں اور کیا ہے اور اگرچہ احکام کی عمومیت ان کے دعویٰ کی تاویل تخصیص کی صاف تردید کررہی ہے اور خود حضرت مسیح﷤ کا عمل اسی تاویل کے خلاف ہے کیونکہ ''جب اس کی ماں او ربھائی اس سے ملنے کے لئے آئے تو اس نے نہایت نفرت سے ان سے ملنے سے انکار کردیا اور کہا کہ کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی؟''

(متی :باب ۱۲،آیت ۴۸ اور دیکھو متی ۱۲ و ۴۶؍مرقس ۳:۳۱ تا ۳۵ و لوقا ۸:۱۹تا۲۱)

لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ ایسا ہی ہے تو بھی یہ تعلیم بالکل غیر موزوں اور خلافِ انسانیت ہے۔ قرآنِ کریم کی تعلیم ایسی صورت میں ملاحظہ ہو :

﴿وَوَصَّينَا الإِنسـٰنَ بِو‌ٰلِدَيهِ حَمَلَتهُ أُمُّهُ وَهنًا عَلىٰ وَهنٍ وَفِصـٰلُهُ فى عامَينِ أَنِ اشكُر‌ لى وَلِو‌ٰلِدَيكَ إِلَىَّ المَصيرُ‌ ١٤ وَإِن جـٰهَداكَ عَلىٰ أَن تُشرِ‌كَ بى ما لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ فَلا تُطِعهُما ۖ وَصاحِبهُما فِى الدُّنيا مَعر‌وفًا...١٥﴾... سورة لقمان

''اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کی اس کی ماں نے اس کو مصیبت پر مصیبت کے ساتھ اُٹھایا۔ پھر دو سال دودھ بھی دیا پس اس کو حکم دیا کہ میرا شکریہ ادا کرے او رماں باپ کا بھی لیکن اگر وہ تم کو شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات مت مان او ران سے دنیوی اُمور میں نیک سلوک کرو۔''

ذرا کفر کے حکم پر غور کیجئے کہ اگر وہ تجھے شرک پر مجبور کریں تو ان کی اطاعت نہ کر لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تو ان کے حقوقِ ربوبیت کو بھی بھول جائے اور احسان فراموش ہوجائے اور ان سے کامل طور پر انقطاعِ تعلق ہی کرلے۔ نہیں، دنیا میں ان کی پوری خدمت گزاری کر اور ان کو ہر طرح کا دنیاوی آرام پہنچانے کی کوشش کر۔ البتہ جب کبھی موقع ہو تو انہیں نیک نصیحت کرتے رہو؛ شاید کہ وہ راہِ راست پر آجائیں۔

یہ تو موازنہ ہے حقوقِ والدین و اعزا کا۔ اب دوسری طرف تعلقات کے لئے رہنمائی ورہبری چاہئے تو اس کے لئے اناجیل کے صفحات کو پلٹنا بیکارِ محض ہے۔ کیونکہ ان میں اس کا ذکر تک نہیں۔ اگر باپ کو اپنے بیٹوں سے سلوک کرنے کے لئے ہدایت چاہئے تو اس کے لئے اناجیل کی صفحہ گردانی فضول ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ تو متاہل (متزوّج)ہوئے اور نہ ہی انکے کوئی بچہ ہوا۔ اس لئے اناجیل کے صفحات ان دونوں نہایت اہم جزئیاتِ حیاتِ انسانی پر خاموش ہیں۔ اگر ان کے لئے کسی کو ہدایت چاہئے تو وہ آئے اور کتاب حکیم کلام اللہ العظیم قرآنِ کریم کا مطالعہ کرے جس میں اسے ہر شعبہ زندگی کے متعلق اصولی قوانین ملیں گے :

﴿وَلا رَ‌طبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتـٰبٍ مُبينٍ ٥٩﴾... سورة الانعام

''کوئی تر و خشک چیز نہیں ہے مگر روشن کتاب میں دے دی گئی ہے۔''

تو گویا حقوق العباد میں ہدایت کے لئے بھی اناجیل کی صفحہ گردانی فضول ہے۔ قرآنِ حکیم ہی کا ہر عاقل کو دست نگر ہونا پڑے گا۔ اس لئے اس معاملہ میں قرآنِ حکیم کی تعلیم کے سامنے اناجیل کی تعلیم کا ذکر لاحاصل ہے۔

قومی و ملی حقوق

حقوق العباد کے بعد حقوقِ ملی کا درجہ ہے یعنی انفرادی تعلقات کے بعد قومی و ملی تعلقات کا مقام ہے۔ اس میں تین منازل ہیں :

1. صحیح مساواتِ انسانی، یعنی بنی نوع انسان میں مابہ الامتیاز فقط عمل صحیح ہو اور عمل صالح ہی مدارِ فضیلت اور ذریعہ نجات قرار دیا جائے۔ دنیاوی سامان کی قلت و کثرت، ذاتی وجاہت و شرافت حسب و نسب پر اسے منحصر نہ کیا جائے۔

2. ایک عام خواہش بنی نوع میں پیدا کردی جائے خیر الناس من ینفع الناس الحدیث ''بہترین آدمی وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔'' (کنز العمال؛ ۴۴۱۵۴)

3. قانونِ اخلاق و اُصولِ مجازات اس قدر منصفانہ ہوں کہ ہر شخص بلاامتیاز ان پر عامل ہوسکے اور ہر سوسائٹی اپنے ہر منزلِ تمدن میں اس کو جاری کرسکے۔

منزلِ اوّل:عیسائیوں نے محض کفارہ کو نجات کا ذریعہ اور عمل کو غیر ضروری قرار دے کر انسانی مساوات پر اس قدر سخت کاری ضرب لگائی ہے کہ سرے سے امتیازِ نیک و بد اٹھ گیا۔ اس عقیدے سے انسانی اعمال کی ذمہ داری کا احساس یک قلم فوت ہوجاتا ہے۔ بلکہ اعمالِ صالحہ کی رغبت و تحریص کا واحد ذریعہ فوت ہوجاتا ہے۔علاوہ ازیں تمام انجیل میں امیروغریب شریف صاحب ِفراست و بے عقلوں میں اس قدر بیجا و خلاف ِعقل تفریق قائم کی ہے کہ اس کے مطالعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ فقط غربا اورجہلاء و حمقا کے لئے مبعوث ہوئے۔ چنانچہ امیر آدمی کے لئے خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا اونٹ کے سوئی کے ناکے سے گزرنے سے بھی زیادہ غیرممکن ہے۔ برعکس اس کے قرآنِ حکیم نے ہر شخص کے لئے خدا کی بادشاہت کا دروازہ کھول دیا ہے، بشرطیکہ ا س کے اعمال صحیح ہوں اور ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا علیحدہ علیحدہ جوابدہ ہوگا۔ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں:

﴿كُلُّ نَفسٍ بِما كَسَبَت رَ‌هينَةٌ ٣٨﴾... سورة المدثر

''ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے ۔''

﴿إِنَّ أَكرَ‌مَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم...١٣﴾... سورة الحجرات

تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ معزز وہی ہے جو تم میں خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔''

یہ نہیں جو دولت مندہے، وہ ملعون ہے چاہے اس کے اعمال اچھے ہی ہوں:

﴿فَمَن يَعمَل مِثقالَ ذَرَّ‌ةٍ خَيرً‌ا يَرَ‌هُ ٧ وَمَن يَعمَل مِثقالَ ذَرَّ‌ةٍ شَرًّ‌ا يَرَ‌هُ ٨﴾... سورة الزلزلة

''جو شخص رائی برابر نیکی کرے گا وہ اسے پائے گا اور جو شخص رائی برابر برائی کرے گا تو وہ اسے بھی پالے گا۔''

﴿إِنَّ الَّذينَ ءامَنوا وَالَّذينَ هادوا وَالنَّصـٰر‌ىٰ وَالصّـٰبِـٔينَ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ وَعَمِلَ صـٰلِحًا فَلَهُم أَجرُ‌هُم عِندَ رَ‌بِّهِم وَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ٦٢﴾... سورة البقرة

''بلا شبہ مؤمن اور یہودی،عیسائی اور صابی (ابراہیمی) لوگوں میں سے جو شخص بھی اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان لائے اورعمل صالح کرے تو ایسے لوگوں کا اجر اللہ کے ہاں ہے اور نہ ان پر خوف ہوگا اور نہ وہ غم کھائیں گے۔''

﴿بَلىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحـٰطَت بِهِ خَطيـَٔتُهُ فَأُولـٰئِكَ أَصحـٰبُ النّارِ‌ ۖ هُم فيها خـٰلِدونَ ٨١ وَالَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ أُولـٰئِكَ أَصحـٰبُ الجَنَّةِ ۖ هُم فيها خـٰلِدونَ ٨٢﴾... سورة البقرة

''ہاں جو شخص برائی کرے اور اس کی خطا کاریاں ا س کا احاطہ کرلیں تو ایسے لوگ آگ والے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور وہ لوگ جو ایماندار ہیں اور انہوں نے نیک عمل بھی کئے وہ بہشت والے ہیں اور وہیں ہمیشہ رہیں گے۔''

ان آیات کو غور سے پڑھئے اور ایمان کے ساتھ عمل صالح کو شرطِ نجات قرار دینا پچھلے جملہ مذاہب پر اس قدر سبقت ہے کہ اس کا اندازہ اربابِ ذوقِ سلیم ہی کرسکتے ہیں۔ اسلام سے پہلے جملہ مذاہب نے اعتقاد کو اصل ِنجات قرار دیا تھا۔ ان کا یہ خیال تھا کہ انسانی فطرت گناہ میں پیدا ہوتی ہے اور فقط اعتقاد ہی اسے آتش ِجہنم سے بچا سکتا ہے۔ بالخصوص مسیحی حضرات کا کفارہ کا عقیدہ اسی فاسد اعتقاد سے پیدا ہوا۔ بناء الفاسد علی الفاسد

یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیم جہاں انسان میں اپنے اعمال کی ذمہ داری کے احساس کو ترقی دیتے دیتے اسے انسانِ کامل بنا دیتی ہے۔ مسیحی تعلیم اس احساس و جذبہ کو کمزور کرتے کرتے بالکل فنا کرکے انسان کو حیوان او ربالکل بیکار ہستی بنا دیتی ہے۔ اور فی الحقیقت مسیحی دنیا کے موجود قوانین ِفوجداری و دیوانی خود مذہب ِمسیحیت کی سب سے زیادہ پر زور تردید کررہے ہیں۔ فافهم و تدبر

اب رہی منزل اِصلاح بین الناس کی۔ سو اس بارے میں مسیحی تعلیم سوائے چند اچھے اور خوبصورت جملوں کے کچھ نہیں پیش کرسکتی۔ برخلاف اس کے آنحضرت سرورِ عالم ﷺنے اصلاح بین الناس کو ایک باقاعدہ حکمت بنا دیا ہے اور ا س کے تمام مدارج اس قدر صاف صاف اور واضح کرکے بتلا دیئے ہیں کہ ایک نہایت قابل جرنیل اپنی فوج کی نقل و حرکت کے لئے بھی ایک مکمل نقشہ بنا کر تیار کرلے۔ اس لئے آپ نے بڑے دعویٰ سے فرمایا کہ اگر تم میرے بتلائے ہوئے پرعمل کرو گے تو ''لن تضلوا بعدي'' میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ چنانچہ جہاں پہلے حکم دیا وہاں ساتھ ہی ا س کے مدارج بیان فرمائے۔

1. ﴿كُنتُم خَيرَ‌ أُمَّةٍ أُخرِ‌جَت لِلنّاسِ تَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ...١١٠﴾... سورة آل عمران

''تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لئے بھیجے گئے ہو۔ تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔''

2.﴿وَلتَكُن مِنكُم أُمَّةٌ يَدعونَ إِلَى الخَيرِ‌ وَيَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ ۚ وَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ﴿١٠٤﴾... سورة آل عمران

''اور چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ہمیشہ نیکی کی طرف بلائے اور وہ نیکی کا حکم کرے اور برائی سے روکے اور وہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔''

3. ﴿فَلَولا نَفَرَ‌ مِن كُلِّ فِر‌قَةٍ مِنهُم طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهوا فِى الدّينِ...١٢٢﴾... سورة التوبة

''ہر ایک فریق میں سے کیوں ایک جماعت نہ ہو جو تفقہ فی الدین حاصل کرے۔''

4. پھر فرمایا: ﴿إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ‌ ٣ ﴾... سورة العصر

''(گھاٹے سے بچنے والے) صرف وہی لوگ ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اورایک دوسرے کو سچائی اور صبر کی تلقین کی۔''

پھر احادیث میں اس کثرت سے اسکے فضائل بیان فرمائے کہ ان کا شماربھی ممکن نہیں۔

«خیر الناس من ینفع الناس» (کنز العمال؛۴۴۱۵۴)

''بہترین آدمی وہ ہے جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے۔''

«خیرکم خیر کم لأھله» (ابن ماجہ؛۱۹۷۷)

''اچھا تم میں سے وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے اچھا ہو۔''

«خیر کم من تعلم القرآن و علمه» (بخاری؛ ۵۰۲۷)

''بہترین وہ ہے جس نے قرآن پڑھا پھر اس کو پڑھایا۔''

ان سب آیات و احادیث کو بار بار پڑھو او ران پر غور کرو تو اس میں حکمت کی ایک کان (ذخیرہ) مضمر پاؤ گے۔ اور یہ ابھی ان تمام آیات و احادیث کا عشرعشیر بھی نہیں ہیں جو اس مضمون پر آئی ہیں۔

الغرض کہاں تک مقابلہ کریں۔ اگر مسیحیت میں کچھ ہو تو مقابلہ کرنے کا بھی لطف آئے اب تو ہر میدان میں ا س کا دامن بالکل خالی ہے اور ا س کی مثال خالی دکان والے بقال (سبزی فروش )کی ہے جس سے جو چیز پوچھی جاتی تھی کہ یہ تمہارے پاس ہے تو وہ ہر ایک کے جواب میں یہی کہتا ہے کہ یہی نہیں اور سب کچھ موجود ہے۔ وآخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العٰلمین

[ ہفت روزہ 'توحید' امرتسر: جلد ۲ عدد ۱،۲،۷ تا ۱۱ (۷ ؍اقساط) ... ۹؍ نومبر ۱۹۲۷ء تا ۱۸ ؍جنوری ۱۹۲۸ء]