مجلس التحقیق الاسلامی ... رفتار ِکار

جامعہ لاہور الاسلامیہ، مجلس التحقیق الاسلامی، ماہنامہ محدث اور ان کے ذیلی ادارہ جات علم و تحقیق کے میدانوںمیں اس وقت سے سرگرمِ عمل ہیں جب ان اداروں کے روحِ رواں اور بانی مبانی مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی ۱۹۶۸ء میں جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ سے تحصیل علم کے بعد وطن واپس لوٹے۔ آپ نے اپنے علمی و تحریکی ذوق کی تکمیل کے لئے مختلف مدنی فضلاء کی معاونت و مشارکت سے مجلس التحقیق الاسلامی کی بنا ڈالی جس کی طرف سے ۱۹۷۰ء میں ماہنامہ محدث نے اپنے سفرکا آغاز کیا۔ انہی سالوں میں مدنی صاحب کے والد شیخ التفسیر حافظ محمد حسینؒ کاقائم کردہ تعلیمی ادارہ مدرسہ رحمانیہ جو درجہ بدرجہ اپنی منازل طے کرتے کرتے ۱۹۸۰ء میں ثانوی درجہ تعلیم سے اعلیٰ تعلیم کے مرحلے تک پہنچ کر جامعہ لاہور الاسلامیہ کے نام سے معروف ہوا اورسعودی جامعات کے نصاب سے استفادہ کرتے ہوئے ان عالمی جامعات کے مماثل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں پہلا کلیہ الشریعہ قائم ہوا۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں نفاذِ شریعت کا نعرہ جب بڑے زور و شور سے بلند ہوا اور اس کے لئے اسلامی عدالتوں کا قیام عمل میں لانے کا اعلان ہوا تو اسلامی قانون کے ماہرین کی ضرورت بھی سامنے آئی۔ عدالتی میدان میں رجالِ کار کی فراہمی اور انہیں شریعت سے روشناس کرانے کے لئے جامعہ لاہور الاسلامیہ کے زیر اہتمام ۱۹۸۱ء میں المعھد العالي للشریعۃ والقضاء قائم کی گئی۔ اس ادارے کو قائم کرنے کی بنیادی ضرورت شام کو قائم کی گئی ان کلاسوں کے کامیاب نتائج کی صورت میں محسوس کی گئی جس میں پروفیسر حافظ محمد سعید (موجودہ امیر جماعۃ الدعوۃ)، پروفیسر ظفر اقبال (پرنسپل جامعۃ الدعوۃ مریدکے) اور دیگر بہت سی فاضل شخصیات جو مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی سے دینی اور دنیاوی علوم سے گریجویشن کے بعد علومِ دینیہ اور جدید سماجی علوم کے تقابلی مطالعہ کی تحصیل کرتے،نے ایسی پر زور خواہش کا اظہار کیاتھا۔ حافظ عبد الرحمن مدنی نے انہی کلاسوں کو المعھد العالي کے زیر اہتمام ایک سالہ اور دو سالہ اعلیٰ ڈپلومہ کورسز کی نئی صورت دے کر 'قاضی کلاسز' کا آغاز کیا۔ گزشتہ سال شہید ہونے والے محترم پروفیسر عطاء الرحمن ثاقبؒ بھی جامعہ لاہور الاسلامیہ سے فراغت کے بعد اسی کلاس میں عربی دانی کے ذوق کی تکمیل کرتے رہے ۔

۱۹۸۹ء میں پاکستان کے مایہ ناز قاری محمد ابراہیم میرمحمدی جو مدینہ منورہ یونیورسٹی میں قراء ات اور علومِ قرآن میں اعلیٰ تعلیمی مراحل کی تکمیل کرچکے تھے۔ محترم حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب نے مدینہ منورہ میں اُن سے پے در پے ملاقاتوں کے بعد جامعہ لاہور الاسلامیہ کے تحت ایک نئے کلیہ کو جاری کرنے کا پروگرام بنایا۔کلیۃ القرآن الکریم میں علوم قرآن کو شرعی علوم میں مرکزی حیثیت سے پڑھانا مقصود تھا۔ محترم مدنی صاحب نے قاری محمد ابراہیم میرمحمدی صاحب اورملک کے دیگر معروف فاضل قراء کے مشورے اور سرپرستی سے ۱۹۹۱ء میں جامعہ لاہور الاسلامیہ کے دوسرے کلیہ کا آغاز کیا اورمدینہ یونیورسٹی کے معیار کے مطابق کلیۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ کے لیے ایک مستقل نصابِ تعلیم وضع کیا۔

۸۰ء کی دہائی میں ہی خواتین میں بھی کام کا آغاز کیا گیا۔ لاہور بھر میںپچاس سے زائد مراکز میں قرآن کریم کی تعلیم کا انتظام ہوا۔اس سلسلے میں محترم مدنی صاحب نے خواتین میں کام کرنے کے لئے اپنے اہل خانہ کو آگے بڑھایا۔ خواتین میں اس کام کے ساتھ رفاہِ عامہ کے کاموں کی بھی ابتدا کی گئی اور عرصۂ دراز سے ویلفیئر اور تعلیم وتحقیق کے جو کام منتشر طورپر ہو رہے تھے، انہیں اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کے نام سے منظم کردیا گیا۔ ۱۹۹۱ء میں اس کے دو مستقل مردانہ اور زنانہ وِنگ کی تشکیل ہوئی اور اسی سال اس کو رجسٹرکرالیا گیا۔

۹۰ء کی دہائی میں مجلس التحقیق الاسلامی، جامعہ لاہور الاسلامیہ نے اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام جہاں مؤثر اور منظم ہوکر کام شروع کیا، وہاں ان کے انتظامی ڈھانچے، مجالس ہائے مشاورت وانتظام اور سپریم کونسل وغیرہ میں بھی مختلف شعبہ ہائے حیات میں نمایاں خدمات انجام دینے والی اعلیٰ شخصیات کو نمائندگی دی گئی۔

چونکہ ان ادارہ جات کی تشکیل بنیادی طور پر اس ماڈل پر ہوئی تھی جو مڈل ایسٹ بالخصوص مصر وسعودی عرب میں مروج تھا، اس لئے ان ممالک سے ان اداروں کے بڑے قوی مراسم استوار ہوئے۔شرق اَوسط سے تعلیمی تبادلہ وفود کے علاوہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے نام سے اس دینی درسگاہ کو بیک وقت ۵۰، ۵۰ تعلیمی سکالرشپ ملتے،اور جامعہ کے مختلف شعبوں کے سینکڑوں طلبہ نے عالمی اسلامی دانش گاہوں میں اعلیٰ تعلیم کے مراحل طے کئے۔پورے بر صغیر میں پرائیویٹ سطح پر اعلیٰ تعلیم کا اس کے بارے میں پہلا ادارہ ہونے کا جامعہ اَزہر اور سعودی وزارت تعلیم کی طرف سے اعتراف ہواجس کی سند کی بنیاد پر ڈائریکٹ اسلامی جامعات میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کا داخلہ لیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جامعہ کے ثانوی مرحلہ تعلیم کو بھی اس درجہ مستند مانا گیا کہ اس کی بنیاد پر گریجویشن کے لیے ڈائریکٹ داخلہ لیا جاسکے۔ان سکالرشپ کے حصول اور تعلیمی وتحقیقی خدمات کو منوانے کے لئے محترم شیخ الجامعہ حافظ عبد الرحمن مدنی نے عرب ممالک کے بے شمار دورے کئے۔

عرب ممالک سے ثقافتی تعلقات استوار ہوجانے اور ان کے ہاں اعتراف پاجانے کے بعدگلف بالخصوص سعودی عرب کی اعلیٰ شخصیات اور سرکاری وفود آئے روز لاہور میں جامعہ کے مہمان ہوتے اور شیخ الجامعہ کے توسط سے بیسیوں رفاہی اور تعلیمی سرگرمیوں میں شرکت کرتے۔

'انسا ئیکلوپیڈیا آف اسلامک جج منٹس کامنصوبہ: ۱۹۹۵ء میں محترم شیخ الجامعہ نے کویت میں اپنے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کویتی ایوانِ شاہی میں اعلیٰ ٰشریعت کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خالد مذکور اور کویت یونیورسٹی کی شریعہ فیکلٹی کے سربراہ ڈاکٹرمحمد عبدالغفار شریف وغیرہ پر مشتمل ایک سرکاری وفد کو لاہور آنے کی دعوت دی۔ کویت کے اس اعلیٰ سطحی وفد کی شرکت سے مجلس التحقیق الاسلامی (اسلامک ریسرچ کونسل)نے دیگر کئی منصوبوں کے علاوہ انسا ئیکلو پیڈیا آف اسلامک جج منٹس کا منصوبہ بھی بنایا۔ سابق صدر پاکستان محمد رفیق تارڑ،جسٹس میاں محبوب احمد، جسٹس خلیل الرحمن خاں، جسٹس قربان صادق اکرام ،جناب ایس۔ایم ظفر جیسے ممتاز قانون دان نہ صرف بڑی سرگرمی سے کونسل کے پروگراموں میں شرکت کیا کرتے بلکہ سعودی یونیورسٹیوں کے ساتھ تعاون کے ذر یعے جو مختلف تربیتی کورسز جامعہ لاہور الاسلامیہ کے زیر اہتمام منعقد کیے جاتے ان میں ڈسٹرکٹ اور سول ججوںکے علاوہ ایک معقول تعداد سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے حاضرسروس یا ریٹائرڈجج حضرات کی بھی شریک ہوتی رہی۔

منظوری قرارداد [دسمبر۱۹۹۵ئ] :کونسل کی مجلس مشاورت اور کویتی سرکاری وفد کے درمیان مسلسل تین روز کی مشاورت میں انسا ئیکلو پیڈیا کے خاکے کی تشکیل ہوئی اور بنیادی اُصول طے پائے۔ چیئرمین مجلس التحقیق الاسلامی جناب محمد رفیق تارڑ نے ان مجالس کی صدارت کی اور کونسل نے دیگر اہم فیصلوں کے علاوہ اس امر کی باقاعدہ منظوری ۱۳؍ دسمبر ۱۹۹۵ء کوایک قرارداد کے ذریعے دی:

'' کویت حکومت اور دیگر عرب ممالک سے اس انسائیکلوپیڈیا میں معاونت حاصل کی جائے گی۔جبکہ اس منصوبے کے تمام حقوق اور قانونی اختیارات اس پروگرام کے خالق ادارے مجلس التحقیق الاسلامی کے پاس ہی محفوظ رہیں گے۔''

(تعارفی کتابچہ موسوعہ قضائیہ : ص۶۱شائع شدہ ۱۹۹۷ئ)

جب کہ ان اجلاسوں میں پاس ہونے والے فیصلے تمام شرکاء کے دستخطوں کے علاوہ چیئرمین اسلامک ریسرچ کونسل جناب محمد رفیق تارڑ اور شیخ الجامعہ حافظ عبد الرحمن مدنی کے دستخطوں سے میٹنگ کے بعد اندرون و بیرون ملک سب شرکاء کو اِرسال کئے جا چکے تھے۔

اس اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ اس منصوبے کے لئے تمام عربی بلاکوں (خلیجی ریاستوں ، اردن وشام اور مصر ومراکش) کے علاوہ دیگر اسلامی اور بین الاقوامی ممالک کا بھی سفر کیا جائے۔ ان فیصلہ جات کے بعد دور ِنبویؐ، دورِ صحابہ اور خیر القرون کے عہد کے فیصلہ جات کی تدوین کا کام مجلس التحقیق الاسلامی کی لائبریری میں مختلف کمیٹیوں نے زور و شور سے شروع کردیا۔

منصوبے کا تعارفی دورہ [مئی ۱۹۹۶ئ] :چار ماہ کے بعد حج ۱۴۱۶ھ کے موقع پر مجلس التحقیق الاسلامی نے سعودی عرب میں اپنا اس منصوبے کو متعارف کرانے کے لئے ایک وفد تشکیل دیا۔ مئی ۱۹۹۶ء میں جناب محمد رفیق تارڑ، حافظ عبد الرحمن مدنی اور محترم جسٹس خلیل الرحمن خاں جو جامعہ لاہور الاسلامیہ کے زیر اہتمام المعہد العالي للشریعۃ والقضاء کے ڈائریکٹر کے طورپربھی سرگرم تھے، نے مجلس التحقیق الاسلامی کے دیگر اراکین کے ہمراہ سعودی عرب کا ایک بھر پور علمی دورہ کیا۔ کونسل کے اس وفد کے ممبران میں مذکورہ بالا افراد کے علاوہ پروفیسر عبدالجبار شاکر اور ڈاکٹر ظفر علی راجا اور مدیر محدث حافظ حسن مدنی بھی شامل تھے۔چھ ممبران پر مشتمل اس وفد نے سعودی عرب کی اعلیٰ علمی اور سرکاری شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ حافظ عبدالرحمن مدنی نے سعودی عرب سے اپنے دیرینہ تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے بیرون ملک ممتاز شخصیات کو ان پروگراموں کی معاونت وسرپرستی کے لئے آمادہ کیا۔

مفتی اعظم سعودی عرب اور اہم سرکاری وعلمی شخصیات سے ملاقاتیں :اراکین وفد کے ہمراہ مفتی اعظم،وزیر عدل،وزیر مذہبی امور، امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی، کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض اورکئی سعودی فلاحی اداروںمثلا حرمین فاؤنڈیشن اور رابطہ عالم اسلامی کے سربراہان سے بھی ملاقاتیں کیں اور انہیں مجلس التحقیق الاسلامی کے چار عالمی زبانوں میں مکمل ہونیوالے اس عظیم الشان منصوبے انسائیکلوپیڈیا آف اسلامک جج منٹس کے بارے میں آگاہ کیا۔

حسب پروگرام جہاں حافظ عبد الرحمن مدنی نے مجلس التحقیق الاسلامی میں انسائیکلوپیڈیا پر سرگرمی سے کام جاری رکھا، وہاں مراکش، مصر،قطر، بحرین،اردن اور سوڈان میںبھی اس انسا ئیکلو پیڈیا کے منصوبے کو حکومتی اور عدالتی حلقوں میں متعارف کرانے کیلئے انفرادی یا وفود کی صورت میں یورپ اور امریکہ سمیت پے در پے بیسیوں علمی سفر کئے ۔

فلاح فاؤنڈیشن :۱۹۶۸ء سے کام کرنے والے اداروں کی نیک شہرت شیخ الجامعہ کے ذاتی اور خاندانی مراسم اور پے در پے ان دوروں سے ادارہ کے بین الاقوامی تعلقات میں اس قدر تیزی آگئی کہ ان تعلقات کو مربوط کرنے کے لئے ایک بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت محسوس کی گئی۔چنانچہ مجلس التحقیق الاسلامی کے ذیلی ادارے کے طورپر اس کے دفتر میں قائم ہونے والے فلاح فاؤنڈیشن کے تعارف سے لاہور میں ۳ تا ۵ نومبر۲۰۰۰ء ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں ۲۲ سے زائد ممالک سے مندوبین نے شرکت کی اور 'نئے ہزارئیے میں عالم اسلام کو درپیش چیلنجز' کے موضوع پر ایوانِ اقبال لاہور میں تین روزہ کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس پر محدث کا ایک خصوصی شمارہ دسمبر ۲۰۰۱ء شائع کیا گیا جس میں ۲۵ سے زائد صفحات پر تفصیلی رپورٹ محترم محمد عطاء اللہ صدیقی کے قلم سے شائع ہوئی۔ اس کانفرنس کے موقع پر تشریف لانے والے کانفرنس کے مندوبین میں جامعہ لاہور الاسلامیہ کی سپریم کونسل کے دنیا بھر سے اراکین بھی شامل تھے لہٰذا اس موقعہ پر سپریم کونسل کے دو روزہ اجلاس منعقدہ مرکزی دفتر مجلس التحقیق الاسلامی میں انسا ئیکلوپیڈیا کے کام کا بھی جائزہ لیاگیااور رفتارِ کارپراطمینان کا اظہا رکیاگیا۔ان میٹنگوں میں سپریم کونسل کے ممبران سمیت جسٹس خلیل الرحمن خاںاور دیگر ذمہ دار بھی شریک ہوتے رہے۔ جامعہ کی دعوت پرسعودی عرب سے تشریف لانے والے وزیرعدل نے اس موقع پر جب جامعہ لاہور الاسلامیہ اور مجلس التحقیق الاسلامی سے اپنی قلبی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے فلاح فاؤنڈیشن کے بارے میں استفسار کیا تو جسٹس خلیل الرحمن خاںصاحب نے یہ کہہ کر انہیں مطمئن کیا کہ یہ فاؤنڈیشن جامعہ کا ہی ایک ذیلی ادارہ ہے جسے بعض مخصوص وجوہات کی بنا پر عالمی کانفرنس کے لیے سامنے لایا گیا ہے۔

اس کانفرنس کے موقع پر سعودی وزیرعدل نے جو کانفرنس کے مہمانِ خصوصی بھی تھے۔ جامعہ لاہور الاسلامیہ کی تقریب ِتقسیم اسناد میں بڑے اہتمام سے اسلامی ممالک کی نمایندہ شخصیات کے ہمراہ شرکت کی اور جامعہ کی خدمات کو سراہا۔

مجلس التحقیق الاسلامی کی سپریم کونسل کی اس باضابطہ میٹنگ میں شرکت کرنے والے کئی ممبران نے سعودی عرب کی ممتاز علمی شخصیات سے ا نسائیکلوپیڈیا پر نظرثانی کرانے کا مشورہ دیا تاکہ اس انسا ئیکلو پیڈیا کی حیثیت زیادہ مستند اور مستحکم ہوجائے اور سعودی عرب کے عالمی کردار کی وجہ سے اسے پورے عالم اسلام میں قبولِ عام حاصل ہو۔ اس فیصلہ کو قبول کرلیا گیا اور وزیرعدل سعودی نے اس بارے میں نہ صرف اپنی بھر پور علمی شرکت کی بلکہ مالی معاونت کی بھی پیش کش کی جسے بصد شکریہ قبول کیا گیا۔ چنانچہ ۳،۴ ماہ کے بعد ہی کونسل کے ایک وفد نے ان کی دعوت پر سعودی عرب کا دورہ کیا اور وہاں اعلی حکومتی ذمہ داروں کے توسط سے تحقیق سے وابستہ اعلیٰ شخصیات اور اداروںکو نظرثانی اور تکمیل کا کام سونپ دیا۔ سعودی حکومت نے اس کام کو بڑی اہمیت دی اور ہیئۃ کبار العلمائ، اعلیٰ عدلیہ اور وزارت عدل کی معروف علمی شخصیات کے علاوہ بعض عالمی دانش گاہوں کو بھی اس انسا ئیکلو پیڈیا کی تیاری اورتکمیل میں باقاعدہ شریک کیا۔

اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ اس سال ۲۰۰۳ء میں حج کے موقع پر شیخ الجامعہ نے چار رکنی وفد کے ساتھ خادم الحرمین الشریفین کی خصوصی دعوت پر سعودی عرب کا دورہ کیا، جس میں پہلے کیا ہوا نظرثانی کا کام کافی اضافوں کے ساتھ مکمل ہو گیاہے۔ابھی انسائیکلوپیڈیاکی اعلی درجے کی اشاعت کاکام تیاری کے مراحل میں ہی تھا اوربہت سے عالمی اشاعتی اداروں نے اس کی نہایت اعلیٰ پیمانہ پر اِشاعت کے لیے مسابقت کی صورت اختیار کر رکھی تھی جب کہ سعودی عرب کے ساتھ سوڈان اور مراکش کے متعدد ادارے بھی اس انسائیکلوپیڈیا کے انگریزی و فرانسیسی ترجمہ و تہذیب میں مصروف ہیں، جس میں سوڈان کی اعلیٰ عدلیہ کے سات فاضل جج صاحبان بھی کام کررہے ہیں، سعودی عرب کی وزارت عدل، ہیئت کبار العلماء اور اعلیٰ عدلیہ کے بعض جج بھی شریک کار ہیں۔

عالمی نوعیت کے غیرمعمولی کام اسی اہتمام و انصرام کے متقاضی ہوتے ہیں اور مجلس التحقیق الاسلامی جو اس منصوبے کی خالق اور مالک ہے، اور اس کی تشکیل و تکمیل کیلئے لاکھوں ڈالرکے وسائل کے علاوہ برسہا برس کی انتھک محنت اور دنیا بھر سے روابط میںمشغول ہے، اگر حسب ِپروگرام اس کی اشاعت بین الاقوامی معیار پر کر لیتی ہے جو عنقریب متوقع ہے تو ایسے ہی منصوبے کو عالمی پذیرائی اوراعلیٰ علمی اعتماد حاصل ہوگا۔ان شاء اللہ اسی طرح یہ انسائیکلو پیڈیا دنیا بھر میں اعلی عدلیہ اور قانونی حلقوں میں قابل اعتمادآئینی اور قانونی مصدر بن سکتا ہے۔

جسٹس (ر) خلیل الرحمن خاں جو جامعہ لاہو رالاسلامیہ کے تابع المعہد العالی للشریعۃ والقضاء کے ڈائریکٹر اور فلاح فاؤنڈیشن کے وائس چیئرمین تھے لیکن بعد اَزاں انہوں نے اسلامک یونیورسٹی،اسلام آباد میں ریکٹر کی حیثیت سے ہمہ وقتی عہدہ قبول کر لیا اور مستقل طور پر لاہور سے اسلام آباد منتقل ہو گئے۔ اپنی نئی ذمہ داریوں کے سبب لاہور میں دیگر اسلامی ممالک کے تعاون سے جاری انسائیکلوپیڈیا کے تحقیقی کام سے اپنے آپ کو منسلک نہ رکھ سکے۔جسٹس صاحب نے بعض ذرائع سے انسائیکلوپیڈیا کا ایک ناقص،نامکمل اور قابل نظر ثانی مسودہ حاصل کیاجسے اب انہوں نے مادر اِدارے مجلس التحقیق الاسلامی کی اِجازت اور اطلاع کے بغیر شائع کر دیا ہے۔حالانکہ ابھی اس نسخے کی تصدیق ِمتن،صحت ِمفہوم اور اضافے ونظر ثانی کاکام حکومت سعودی عرب کے مقرر کردہ اَجل علماء اور ریسرچ سکالرز کے زیر اِہتمام جاری تھا،جو اب اللہ کے فضل سے تکمیل کے مراحل طے کر چکا ہے اورجسٹس صاحب کے شائع کردہ اغلاط آمیز(۱) مسودے سے ضخامت میںنہ صرف بہت زیادہ ہے بلکہ استناد متن کے حوالے سے بھی بین الاقوامی سطح پر تصدیق شدہ ہے۔

مزید یہ کہ ان مسودات کا اشاعتی معیار کسی طرح عام پاکستانی معیار سے بھی مناسبت نہیںرکھتا چہ جائیکہ بین الاقوامی معیار کا دعویٰ کیا جائے۔ ضخامت کے اعتبار سے یہ مسودہ صرف عہد ِنبوت کے اس تازہ مسودے کے نصف سے بھی کم ہے جو اس وقت سعودی عرب ، سوڈان اور مراکش کے تعاون سے تکمیل پا چکاہے۔

مجلس التحقیق الاسلامی اور فلاح فاؤنڈیشن کے صدر دفتر سے قطع تعلقی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے شائع کردہ عربی اور اردو مسودات پر نام تو فلاح فاؤنڈیشن پاکستان کا استعمال کیا لیکن انہیں فاؤنڈیشن کے صدر دفتر کے بجائے اپنے ذاتی گھر کے پتہ سے شائع کیا ہے۔ جس سے فاؤنڈیشن کی انتظامیہ بلکہ مینیجنگ ڈائرکٹر(حافظ عبد الرحمن مدنی) بھی لا علم رہے۔

غور فرمائیں، اس سے ایک عظیم الشان منصوبہ کس طرح متاثر ہوگا اور اسلامی ممالک سے برادرانہ علمی تعلقات پرکیا زد پڑے گی، اس کا شعور تو اس کو ہوسکتا ہے، جس کو اس طرح کے تعلقات بنانے اور بڑے منصوبے کی مشکلات جھیلنے کا واسطہ پیش آیا ہو۔

تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ ۲۳؍اپریل ۲۰۰۳ء کو 'اسلامک یونیورسٹی' اسلام آباد کے آڈیٹوریم ہال میں نمائش ِقرآن اور نبوی تبرکات کے زیرپردہ صدرپرویز مشرف سے اس مسروقہ مسودہ کے ناقص حصے کی تقریب رونمائی بھی کرائی جا رہی ہے۔حالانکہ سعودی عرب، مراکش اور سوڈان کے تعاون سے مکمل ہونے والا اصل مع ترجمہ جات اور ان ممالک کا تصدیق شدہ انسائیکلوپیڈیا عالمی معیار کی طباعت کے ساتھ عنقریب اشاعت پذیر ہونے والا ہے۔ پاکستان کے صدر مقام میں صدر پرویز مشرف کے ذمہ دارانہ عہدے کے زیر سایہ عرب ممالک کے سفراء کے سامنے رسول مقبول ؐ کے حوالے سے ایک ناقص انسائیکلوپیڈیا کی بالواسطہ رونمائی کا کھیل کھیلا جائے تو عالمی نمایندے پاکستان اور اس کی علمی وجاہت و دیانت کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے؟

اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ:اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت ان تمام ادارہ جات کو ۱۹۹۱ء میں جب رجسٹر کرایا گیا تو جہاں خواتین میں چیئرمین سینٹ محمد میاں سومرو کی والدہ مسز سعیدہ سومرو اور محترم چوہدری شجاعت حسین صدر مسلم لیگ (ق) کی اہلیہ مسز کوثر شجاعت حسین نے بڑا سرگرم کردار ادا کیا ، وہاں جناب محمد میاں سومرو بھی ٹرسٹ کے کارہائے خیر میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ جب وہ گورنر ِسندھ تھے تو انہوں نے بارہا شیخ الجامعہ کو بلا کر انہیں کراچی میں 'باب الاسلام یونیورسٹی' کے نام سے اسلامی ،سماجی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم پر مشتمل ایک عظیم جامعہ قائم کرنے کی پیش کش کی۔ مدنی صاحب اپنی گونا گوں مصروفیات اور لاہورسے زیادہ وابستگی کی بنا پر اس آفر کو فوری طور پر پورا نہ کر سکے۔

استقبالیہ:گذشتہ دنوں جناب محمد میاں سومرو چیئرمین سینٹ منتخب ہونے کے بعد جب پہلی بار لاہور تشریف لائے تو اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ نے ان کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا جس میں شیخ الجامعہ کی دعوت پر سابق وزیر قانون سینیٹر ایس ایم ظفر، سینئر جج سپریم کورٹ جسٹس منیراے شیخ، جسٹس قربان صادق اکرام، چیئرمین واپڈا جنرل ذوالفقار، جنرل راحت لطیف خواجہ، شعیب بن عزیز ڈائریکٹر انفارمیشن، کونسل کے دیرینہ رفیق جسٹس گل محمد مرحوم کے داماد منصور الرحمن آفریدی (صدر ڈسٹرکٹ بار،لاہور)، نوائے وقت کے ڈپٹی چیف ایڈیٹر ارشاد احمد عارف، معروف ماہر قانون اور شاعر ظفر علی راجا،چوہدری عبدالرؤف (انکم ٹیکس کمشنر)، جناب توقیر شریفی (جنرل مینجر پاور کنسٹرکشن پاکستان) نامور سماجی شخصیت اور ممتاز فزیشن ڈاکٹر سلیم اختر، ملک وقار سلیم (ایڈووکیٹ سپریم کورٹ) ممتاز تاجران شیخ قمر الحق، حافظ عبدالوحید اور دیگر حضرات نے شرکت کی۔ ۲۱؍ مارچ بروز جمعہ شام تشریف لانے والے یہ احباب نصف شب تک مجلس التحقیق الاسلامی کی لائبریری میں رفاہی،تعلیمی اور تحقیقی موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے رہے۔ ان حضرات کا اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ سے اس قدر وابستگی اور قربت کا اظہار ذمہ داران ٹرسٹ کے لئے بڑی حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔

اسی دوستانہ ماحول میں شیخ الجامعہ نے چیئرمین سینٹ سے گذارش کی کہ وہ اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کی چیئرمین شپ قبول فرمائیں۔اگرچہ اس سے قبل بھی جناب محمد میاں سومروان اداروں سے کسی نہ کسی حیثیت سے وابستہ تھے۔ اس موقع پر احباب کی اس مجلس میں انہوں نے باضابطہ اس منصب کو قبول کیا اور اوّلین فرصت میں اس کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی۔ ۲۴؍اپریل ۲۰۰۳ء کے اخبارات روزنامہ ڈان، دی نیوز ،دی نیشن ،جنگ،پاکستان،دن، انصاف،مساوات اورصحافت نے اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کے استقبالیہ کی خبریں شائع کیں:

''چیئرمین سینٹ محمد میاں سومرو نے کہا ہے کہ اسلامی علوم میں تحقیق سے جہاں ہمیں اپنے عظیم ثقافتی اور تاریخی ورثے سے شناسائی حاصل ہوتی ہے، وہاں ہمیں زندگی کے مختلف شعبوں میں مستقبل کے راستوں کا سراغ بھی ملتا ہے۔ لاہور میں اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سینٹ نے کہا کہ اسلامی تحقیق کے لئے گرانقدر وسائل ناگزیر ہیں۔ جن کی فراہمی معاشرے کے اہل ثروت طبقوں کا قومی اور ملی فریضہ ہے۔ محمد میاں سومرو نے اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کی تحقیقی اور علمی سرگرمیوں کو سراہا اور ٹرسٹ کو اس ضمن میں ہر طرح کی اعانت اور سرپرستی کا یقین دلایا۔ پیشتر ازیں حافظ عبدالرحمن مدنی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گذشتہ چودہ سوبرس کے دوران عدالتوں میں ہونے والے اسلامی فیصلوں کی تدوین کے کام سے آگاہ کیا۔ انہوںنے اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کی سرگرمیوں کا بھی ایک جائزہ پیش کیا۔ استقبالیہ میں دیگر افراد کے علاوہ چیئرمین واپڈا جنرل ذوالفقار علی، جسٹس منیر اے شیخ، ایس ایم ظفرنے بھی شرکت کی۔ معروف دانشور اور صحافی ظفر علی راجا نے بھی استقبالیے سے خطاب کیا۔'' (روزنامہ 'دن' :۲۴؍ مارچ ۲۰۰۳ئ)

اجلاس سپریم کونسل :استقبالیہ کے چند ہی دنوں بعد چیئرمین ٹرسٹ جناب محمد میاں سومرو کی زیرہدایت ٹرسٹ کی سپریم کونسل کا اجلاس بروز ہفتہ ۵؍اپریل ۱۲ بجے دن ٹرسٹ کے دفتر میں منعقد ہوا۔ جس میں بطورِ خاص انسائیکلوپیڈیا کی پیش رفت کاتفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ حج کے موقع پر مجلس التحقیق الاسلامی کے نمایندہ وفد نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ جس کے جواب میں ۲۱؍مارچ ۲۰۰۳ء کو سعودی عرب سے ملنے والے تازہ ترین مراسلہ کا بھی جائزہ لیا گیا اور قابل وضاحت نکات پر بحث و مباحثہ ہوا۔ علاوہ ازیں سوڈان میں انسا ئیکلو پیڈیا کے بارے میں جاری کام کی بھی رپورٹ پیش کی گئی۔

ٹرسٹ کی سپریم کونسل کے ممبر ایس ایم ظفر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

''میرا چونکہ برما وغیرہ سے تعلق رہا ہے۔ اس لئے میرا مشورہ ہے کہ سری لنکا، ملائیشیا اور انڈونیشیا سے بھی اسلامی عدالتوں کے فیصلوں کو حاصل کیا جائے۔ اسی طرح دیگر ممالک سے مدد اور مشاورت تو ضروری ہے لیکن ایگزیکٹیو کمیٹی کو بہت طویل نہ کرنا مناسب ہوگا۔ انہوں نے اس امر پر بھی زور دیا کہ انسائیکلو پیڈیا کے کاپی رائٹ اسلامک ریسرچ کونسل کے پاس ہی رہنے چاہئیں، اگر اعلیٰ طباعتی معیار حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے ملک سے شائع کرانا بھی مجبوری ہوتو ضروری ہے کہ بطورِ ناشر و مالک کے کونسل کا نام ہی شائع ہو۔ تمام ممالک سے یہ استفادہ تعاون کی قبیل سے ہی ہے اور اس کی ملکیت کا تحفظ بہر طور ضروری ہے۔''

جسٹس (ر) میاں محبوب احمد نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ

''اس انسا ئیکلو پیڈیا میں فرقہ بندی والے مواد سے احتراز ضروری ہے۔ سوڈان کی اہمیت اس حوالے سے بہت زیادہ ہے کہ ان لوگوں کی انگریزی زبان بڑی شاندار ہے عربی تو ان کی مادری زبان ہے اور غیر عربی مصادر تک بھی ان کی کافی رسائی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ سعودی عرب کی شمولیت سے اس انسا ئیکلو پیڈیا کی Authenticity بڑی معیاری ہوجائے گی۔''

جسٹس منیر اے شیخ اور محمد میاں سومرو بھی اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔ اس میٹنگ کی خبریں بھی حسب ِسابق اخبارات میں شائع ہوئیں۔ اخبارات کو درج ذیل پریس ریلیز جاری کیا گیا :

''(لاہور: ۵؍اپریل ۲۰۰۳ئ)چیئرمین سینٹ محمد میاں سومرو نے اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹرسٹ کے شعبۂ تحقیق اسلامک ریسرچ کونسل کے زیر اہتمام بین الاقوامی اسلامی فیصلہ جات کی تدوین اور اشاعت کاکام ایک منفرد اور تاریخی حیثیت رکھتا ہے،جو فقہی سطح پر مسلم اُمہ میں فکری ہم آہنگی پیدا کر ے گا اور تمام مسلمان دنیا میں اسلامی انصاف پر مبنی یکساں نظام انصاف رائج کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہو گا۔

آج پاکستان کے فلاحی ،تعلیمی، سماجی بہبود کے ادارے اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کی سپریم کونسل کا اجلاس ادارے کے چیئرمین جناب محمد میاں سومرو چیئرمین سینٹ پاکستان کے زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں سپریم کونسل کے اَراکین سابق وفاقی وزیر قانون اور سینیٹر ایس ایم ظفر، سپریم کورٹ کے جسٹس منیر اے شیخ، وفاقی شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس میاں محبوب احمد، جنرل راحت لطیف،شیخ قمر الحق، توقیر احمد شریفی، میاں عبد المجید، ظفر علی راجا ایڈووکیٹ اور دیگر ارکان نے شرکت کی۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کے صدر حافظ عبد الرحمن مدنی نے بتایا کہ بین الاقوامی اسلامی فیصلہ جات کی تدوین کے دو مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ حیاتِ نبوی ؐکے دوران فیصل ہونے والے مقدمات اور خلفائے راشدین کے ادوار کے شرعی فیصلے جمع کرنے کا کام مکمل ہو چکا ہے اور سعودی عرب نے حکومتی سطح پر دورِ نبویؐ کے فیصلہ جات پر نظر ثانی کر کے اظہارِ اطمینان بھی کردیا ہے۔اب اعلیٰ درجے کی طباعت کا مرحلہ درپیش ہے ۔سپریم کونسل نے اتفاق سے دو ذیلی کمیٹیوں کی تشکیل کی منظوری دی اور طباعتی کمیٹی کاسربراہ جسٹس (ر) میاں محبوب احمد جبکہ پراجیکٹ کمیٹی کا انچارج جنرل (ر) راحت لطیف کو مقرر کیا اورفیصلہ کیا گیا کہ اس عظیم علمی کام اور جوڈیشل اکادمی کے منصوبے کو رو بہ عمل لانے کے لیے کوششیں تیز تر کی جائیں۔چیئرمین سینٹ محمد میاں سومرو نے اسلامی فیصلوں کی تدوین واشاعت کے کام میں تیزی کی ضرورت پر زور دیا۔اورسعودی حکومت کے ساتھ ساتھ سوڈان اور مراکش کی طرف سے تعاون کی پیش کش پر مثبت طور پراظہارِ اطمینان کیا۔'' ٭٭