صلیب و ہلال کی کشمکش ؛ جنگ ِعراق کے تناظر میں
صلیب و ہلال کی کشمکش کا آغاز حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بیت المقدس کی فتح (۶۳۶ء) سے ہوگیا تھا کہ جس وقت نہ صرف فلسطین بلکہ مصر و شام کا پورا علاقہ مسلمانوں کے تصرف میں آچکا تھا اور بازنطینی حکومت اپنے جبر و استبداد کی داستانیں تاریخ کے صفحات پر رقم کرکے اس علاقے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہورہی تھی۔ اہل فلسطین اور شام کا جوق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہونا مقامی صلیبی طاقتوں کے لئے آخری ہچکی ثابت ہوا لیکن یورپ کے صلیبی اس شکست کو بآسانی قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔
مسیحیت کے پہلے ہزار سال کا ا ختتام ہوا تو یورپ کے عیسائی، مسیح ؑکی آمد ِثانی کے انتظار میں ارضِ مقدس کی بازیابی کا نعرہ الاپنے لگے۔ متعصب پادریوں اور جنگجو سلاطین ِیورپ کی زبانوں پر ایک ہی نعرہ تھا کہ یروشلم کو 'کافروں' کے ناپاک وجود سے آزاد کرایا جائے۔ گیارہویں صدی کے نصف آخر میں صلیبیوں کا ایک طوفان اُٹھا جو خود یورپ کے ممالک میں دہشت گردی اورغارت گری کے شبخون مارتا ہوا بیت المقدس کی فصیلوں تک پہنچ گیا۔ جو اس جم غفیر کی تیرہ دستیوں کے سامنے نہ ٹھہر سکیں اور ۱۰۹۸ء کا سال اہل یروشلم کے لئے قیامت برپا کرگیا۔ خود مغربی مؤرخین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ کہاں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح بیت المقدس جس میں انسانی جان کی عظمت کو چار چاند لگے اور کہاں صلیبیوں کے ہاتھوں بیت المقدس کا پامال ہونا جس میں خون اس کثرت سے بہا کہ شہر کی گلیاں خون کی نہروں کا منظر پیش کررہی تھیں۔ گھوڑوں کے سموں تک نہیں بلکہ گھٹنوں تک خون ہی خون تھا۔ گو ان صلیبی جنگوں کا دورانیہ دو سو سال تک دراز ہوتا چلا گیا لیکن اُمت ِمسلمہ کا ایک مردِ مجاہد، کردستان کا امیر ابن امیر، صلاح الدین ایوبی اپنی جاں نثار سپاہ کے ساتھ نواسی سال کے بعد سن ۱۱۸۷ء میں بیت المقدس کو صلیبیوں کے شکنجہ سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوگیا۔
انہی صلیبی جنگوں کے دوران فرانس کا شاہ لوئی نہم کچھ عرصہ مسلمانوں کی قید میں رہا، زرِ فدیہ دے کر رہائی نصیب ہوئی۔ وطن پہنچ کر اس نے اپنے ابناے وطن سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''اگر تم مسلمانوں کو شکست دینا چاہتے ہو تو ہتھیار کا خیال چھوڑ دو کہ تم نے اسے استعمال کرکے دیکھ لیا ہے، ہاں ان کے عقیدے پر ضرب کاری لگاؤ تاکہ ان کی آئندہ نسلیں پکے ہوئے پھلوں کی طرح تمہاری جھولی میں آگریں۔''
شاہِ فرانس کی اس نصیحت پر سلاطین یورپ نے تو کان نہیں دھرا لیکن بیسویں صدی کے عیسائی مبلغین نے اسے یقینا حرزِ جان بنائے رکھا۔۱۴۹۲ء میں سقوطِ غرناطہ کے ساتھ سرزمین اَندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اختتام کو پہنچی۔ فرڈیننڈ اور ایزابیلا کی متعصب حکومت نے مسلمانوں کا جینا دو بھر کردیا۔ صرف ایک سو دس سال کے عرصہ میں ہسپانیہ مسلمانوں کے وجود سے خالی ہوگیا۔ بیشتر افریقہ کے مسلم علاقوں (مراکش ، الجزائز، تیونس، لیبیا اور مصر) ہجرت کرنے پر مجبور کردیئے گئے اور جو باقی بچے وہ یا تو تلواروں کی نوک چڑھے یا زبردستی عیسائی بنا لئے گئے۔ جامع مساجد کو گرجوں اور کنیساؤں کا لبادہ اوڑھا دیا گیا۔
اسی سال دو مہم جو ملاح نئی دنیا کے انکشاف کے لئے ساحل سپین (اندلس)سے روانہ ہوئے، واسکوڈی گاما اور کولمبس۔ لیکن کیا یہ دونوں صرف نئی وسعتوں کی تلاش میں نکلے تھے؟
واسکوڈی گاما نے ہندوستان کے مسلم دور کو دیکھنے کے بعد یہ رپورٹ دی تھی:
'' آج ہم نے اسلام کی گردن کو طوق پہنچا دیا ہے۔ اب صرف رسی کھینچنے کی دیر ہے، یہ دم گھٹ کر یا سسک سسک کر مرجائے گا۔''
کولمبس نے شمالی اور جنوبی امریکہ کے نقطہ اتصال کے بالمقابل بارباڈوس کے ایک جزیرہ پر قدم رکھا تھا کہ جس کی بنا پر اسے اکتشافِ امریکہ کا اعزاز دیا جاتا ہے۔ کولمبس نے واپس پہنچ کر شاہِ اسپین کو رپورٹ دی اور مطالبہ کیا کہ میں ایسا ملک دیکھ آیا ہوں جہاں لادین بستے ہیں، اس لئے وہاں فوری طور پر عیسائی مبلغین بھیجے جائیں۔
پندرہویں صدی میں جہاں یورپ کے مغرب میں مسلمانوں کا سورج غروب ہورہا تھا، وہاں یورپ کا مشرق آلِ عثمان کی شکل میں مسلمانوں کے اُبھرتے ہوئے سورج کو سلام کررہا تھا۔
۱۴۵۳ء میں بازنطینی سلطنت کی آخری آماجگاہ قسطنطنیہ محمد الفاتح کے سامنے سرنگوں ہوچکی تھی۔ عساکر ِاسلام یورپ کی مشرقی ریاستوں کو اسلام کی روشنی سے مالا مال کرتے ہوئے ۱۵۲۹ء تک وی آنا (آسٹریا) کی فصیلوں تک پہنچ گئے تھے۔ سرزمین بلقان (بوسنیا، کوسووا، کروشیا وغیرہ) کے باشندے اسی زمانہ میں اسلام سے متعارف ہوئے اور پھر اسی کے ہورہے۔
مغربی یورپ کے عیسائی بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اگر ۱۵۲۹ء میں یورپ کی طاقتیں مجتمع ہوکر آلِ عثمان کا مقابلہ نہ کرتیں تو باقی ماندہ یورپ میں بھی عیسائیت کا چراغ گل ہوجاتا، وی آنا کے ناکام محاصرہ کے بعد آلِ عثمان رجعت ِقہقریٰ پر مجبور ہوئے اور یوں صلیب کے تن مردہ میں نئی روح پھونکی جاسکی۔
اٹھارویں صدی کے وسط سے مغرب کی استعماری طاقتیں افریقہ اور مشرقِ بعید کے علاقوں کو اپنی ترکتازیوں کا نشانہ بنا رہی تھیں۔ برطانوی جنگجو ہندوستانی ساحلوں پر اپنے جھنڈے گاڑ رہے تھے۔
۱۸۹۸ء میں نپولین نے مصر پر یلغار کی۔نپولین نے اہل مصر کو حملہ کا جو جواز بتایا اسے عراق پرامریکی حملہ سے موازنہ کیا جائے...!!
نپولین نے کہا: اے اہل مصر! میں آپ حضرات کو ممالیک کے جبرواستبداد سے نجات دلانے آیا ہوں۔ بخدا، مجھے آپ کے دین سے کوئی سروکار نہیں، میں اپنے ساتھ پریس لایا ہوں تاکہ علم کی روشنی عام کروں۔ میرے ہمراہ ایک علمی و تحقیقی مشن ہے۔ جو فراعنہ کے آثار کی کھدائی کرے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نپولین کے اپنے تجارتی مقاصد بھی تھے اور وہ خاص طور پر برطانیہ کی راہدارئ ہند کاٹنا چاہتا تھا۔
نپولین نے بعض مواقع پر شریعت ِحقہ کی تعریف بھی کی کہ تو اس وقت کے ایک نامور عالم شیخ شرقاوی نے شاہِ فرانس کو للکار کر کہا کہ اگر تم دل کی گہرائیوں سے یہ بات کہہ رہے ہو تو پیرس میں اس شریعت کو نافذ کیوں نہیں کرتے؟
نپولین کا پریس عربی زبان میں سرکلر شائع کررہا تھا جس میں ایک سرکلر یہ بتا رہا تھا کہ
''اے اہل مصر! تم قضاے الٰہی پرایمان رکھتے ہو، اس لئے نپولین کے حملہ کوتقدیر الٰہی سمجھ کر قبول کرو۔''
آثارِ فراعنہ اور پھر ہر اسلامی خطہ میں ماقبل اسلام آثار کی کھدائی، بحث و تحقیق کے نام پر جاہلی تہذیبوں کے احیا کی ایک تدبیر تھی جس نے مسلمانوں میں آہستہ آہستہ ایسا طبقہ پیدا کرنا شروع کیا جو اسلامی اُخوت سے زیادہ وطنی قومیت کا پرچار کرنے لگے۔ جن کی اسلام سے وابستگی کمزور اور دورِ جاہلیت کے طواغیت سے مانوسیت بڑھتی گئی، ایسے ہی لوگوں نے نحن أبناء الفراعنۃ (ہم فرعونوں کی اولاد ہیں) کا نعرہ لگایا اور انہی میں سے ایک نے یہ بھی کہا :
أنا مصري بناني من بنی هرم الدهر الذي أعيا الفنا
''میں مصری ہوں، مجھے بنانے والا وہ ہے جس نے لازوال اہرام بنائے۔''
تعجب تو یہ ہے کہ یہ شعر اس حافظ ابراہیم کا ہے جس کی اسلام دوستی اس کا ا صل سرمایہ ہے۔
اُنیسویں صدی کے اوائل سے والی ٔ مصر محمد علی کی ہدایت پر اہل مصر کے لئے بغرضِ تعلیم پیرس کی راہ ہموار کردی گئی۔ شروع شروع میں طلبہ کے ہر وفد کے ساتھ ایک امام کو بھی بھیجاجاتا تاکہ وہ ان کی دینی و روحانی ضروریات کو پورا کرسکے لیکن ان ائمہ کی کیسے کایا پلٹ ہوئی، اس کی مثال شیخ رفاعہ طہطاوی کی شکل میں سامنے آئی۔ یہ صاحب جب پیرس پلٹ ہوئے تو انہوں نے سب سے پہلے خواتین مشرق کو پردے کی حدود و قیود سے آزادی دلانے کا نعرہ لگایا۔ رقص کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اس میں کون سی غیر اسلامی حرکت ہے، یہ تو جسمانی ریاضت کا نہایت ہی لطیف ذریعہ ہے۔
۱۸۲۲ء کے بعد سے مصر میں انگریزی نفوذ بڑھنا شروع ہوا جو بالآخر ۱۸۸۲ء میں مکمل قبضہ پرمنتہی ہوا۔ اس وقت کے برطانوی وزیراعظم گلڈاسٹون کا بیان اب تاریخ کی امانت بن چکا ہے۔ اس نے کہا: ''جب تک قرآن باقی ہے، یورپ مشرق پراپنا قبضہ مستحکم کرسکتا ہے نہ خود امن و امان میں رہ سکتا ہے۔''
انگریز، فرانسیسیوں کے مقابلہ میں "Slow but sure" (آہستہ مگر یقینی) پالیسی کے قائل تھے۔ اس لئے انہوں نے مصریوں کے دل و دماغ پر چھا جانے کے لئے مناہج تعلیم کو نشانہ بنایا۔ مدارس میںمعلم انگریزی اور معلم عربی کی حیثیت ِعرفی میں نمایاں فرق پیدا کیا۔ نتیجتاً نئی نسل کی توقعات انگریزی سے وابستہ ٹھہریں۔ عربی کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی۔ یہی کچھ برطانوی ہند میں عربی اور اُردو کے ساتھ کیا گیا۔
یہی وہ زمانہ تھا جب کہ لارنس آف عریبیہ اور ایسی گماشتہ کے لوگ عرب قومیت کے نام پرعربوں کو ترکوں سے برگشتہ کررہے تھے۔ سلطنت ِعثمانیہ اپنوں ہی کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہورہی تھی، عرب قومیت کی ناعاقبت اندیش پکار نے برطانوی جنگجوؤں کو سرزمین فلسطین، شام اور عراق میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع فراہم کردیا۔
بغداد، بصرہ اور فلسطین ۱۹۱۷ء تک برطانیہ کی مہیب طاقت کے سامنے سرنگوں ہوچکے تھے۔ برطانوی وزیرخارجہ لارڈ بالفور نے اسی سال جہاں عربوں سے ان کی آزاد ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا، وہاں یہودیوں کو ان کے 'ہوم لینڈ' بنائے جانے کی نوید بھی سنائی تھی۔ تیس سال کی مدتِ انتداب کے بعد جب ۱۴؍ مئی ۱۹۴۸ء کی شام چھ بجے برطانیہ نے اپنے رخصت ہونے کا اعلان کیا، تویہودی تل ابیب سے اپنی ریاست قائم ہونے کا اعلان کررہے تھے۔ جسے ایک منٹ بعد امریکہ نے اور چھ منٹ بعد روس نے تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔برطانیہ نے یہودیوں سے اپنے وعدہ کا ایفا کردیا، عرب قوم پرست منہ دیکھتے رہ گئے...!!
یہاں یورپ کے مردِ بیمار، تاجدارِ خلافت ِعثمانیہ، سلطان عبدالحمید ثانی کا تذکرہ کرنا مناسب ہوگا۔ خلافت ِعثمانیہ اپنے آخری دنوں میں کافی مقروض ہوچکی تھی۔ یہودیوں کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے سلطان عبدالحمید سے ملاقات کی اور یہ درخواست پیش کی کہ وہ سلطنت ِعثمانیہ کے تمام قرض اُتارنے کے لئے تیار ہیں۔ بشرطیکہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ سلطان نے یہ جواب دے کر کہ ایسا میری مردہ لاش پر ہی ہو سکتا ہے،ایک مردِ مؤمن کی یاد تازہ کردی لیکن یہودی چیرہ دستیوں، سازشوں اور مکروفریب کا دروازہ ایسے کھلا کہ بالآخر سلطان کو تخت چھوڑنا ہی پڑا۔
عالمی صیہونیت جس نے ۱۸۹۷ء میں بیزل (سوئیٹرز لینڈ) میں اپنی پہلی کانفرنس سے آغاز کیا تھا، اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ہمیشہ مرکز ِقوت کا ساتھ دیا۔ آلِ عثمان سے جب مقصد حاصل نہ ہوا تو برطانیہ کی کاسہ برداری کی، برطانیہ ہی کے ہاتھوں اسرائیل قائم کروایا اور اب جبکہ مرکز ِقوت امریکہ منتقل ہوچکا ہے، صیہونیت نے اسرائیل کی بقاء و تحفظ کے لئے انکل سام کی پناہ لے رکھی ہے۔ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے دو ازکی متحارب قوتیں (یہودیت اور صلیبیت) متحد ہوچکی ہیں۔ الکفر ملة واحدة
۱۹۲۴ء میں جنگ ِعظیم اوّل کی فاتح طاقتوں نے خلافت ِعثمانیہ کے دامن کو تار تار کردیا۔ عرب قومیت کے مقابلہ میں ترک قومیت خم ٹھونک کر کھڑی ہوگئی لیکن کہاں خلافت ِعثمانیہ کی پہنائیاں اور کہاں اناطولیہ کی تنگ نائیاں...!!
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا
ترکی کے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کئے جانے کا جب برطانوی دارالعوام میںتذکرہ ہوا تو ممبران وزیرخارجہ لارڈ کرزن پر برس پڑے کہ ترکی کو آزاد کیوں رہنے دیا گیا ہے کیونکہ آزادی کا مطلب ہے کہ یہ ملک ایک دن پھر اپنی جمع پونجی اکٹھی کرکے اُٹھ کھڑا ہوگا اور بقیہ اسلامی ممالک کو ہمراہ لے کر اہل یورپ کے لئے مصیبت بنا رہے گا تو لارڈ کرزن نے انتہائی اطمینان کے ساتھ جواب دیا: ''مطمئن رہئے؛ہم نے وہ کام کیا ہے جس کے بعد ترکی کبھی بھی اُٹھ کھڑا نہیں ہوسکے گا ہم نے ان دونوں چیزوں کا قلع قمع کردیا ہے جو اسکی اصل طاقت تھیں: اسلام اور خلافت''
ممبران نے زور شور سے تالیاں بجائیں اور پھر سکوت چھا گیا۔
لارڈ کرزن نے اپنی دانست میں بالکل ٹھیک کہا تھا کیونکہ لوزان کانفرنس میں انگریزوں نے ترکی کی سرزمین سے انخلا کے لئے مصطفی کمال کو ان چار باتوں پرپابند کیا تھا :
1. خلافت ِاسلامیہ کو ختم کرنا اور خلیفہ کو جلا وطن کرکے اسکی املاک اور اَموال کو بحق سرکار ضبط کرنا
2. نئی حکومت اس بات کی ضمانت دیگی کہ خلافت کی حمایت میں ہر تحریک کی سرکوبی کی جائیگی۔
3. ترکی اسلام سے اپنا رشتہ منقطع کرے گا۔
4. سابق دستور جس میں اسلامی دفعات شامل تھیں کی جگہ ایک نیا سول دستور نافذ کیا جائیگا۔
مصطفی کمال نے اسلامی شعائر کے ساتھ جو کچھ کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن اسے ہر اس چیز سے نفرت تھی جس کا تعلق اسلام یا مسلم تہذیب سے ہو۔ اس کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ ایک طرف مغربی لباس کا پہننا لازم قرار دیا اور دوسری طرف طربوش (ترکی ٹوپی) کا پہننا قابل گردن زدنی!! بلکہ ہیٹ کا پہننا لازم تھا۔ چنانچہ کئی صاحب ِحیثیت لوگ اٹلی سے لاکھوں کی تعداد میں ہیٹ درآمد کرکے کروڑ پتی بن گئے۔
جہاں تک مصطفی کمال اتاترک اور اس کے اخلاف کے ہاتھوں تیار ہونے والے جیش کا تعلق ہے تو مجھے ایک معتمد ترک دوست نے بتایا کہ ترکی فوج ملحدوں کا جم غفیر ہے۔ ایک فوجی کے لئے نماز پڑھنا تو کیا اگر معلوم ہوجائے کہ کوئی جوان مسجد جاتا ہے تو اس کی پٹائی ہوجاتی ہے۔ فوج میںبھرتی کرتے وقت نوجوان کے سارے خاندان کی چھان بین کی جاتی ہے۔ اگر کسی بھی شخص کی پیشانی سجدہ کے نشان کی غمازی کرتی ہو تو ایسے خاندان کا کوئی بھی فرد فوج تک رسائی نہیں پاسکتا۔
آج کل بعض حضرات کی طرف سے یہ آواز بھی اٹھائی جارہی ہے کہ موجودہ جنگ کا صلیبیت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا مقصد صرف تیل کی دولت کا حصول ہے لیکن یاد رہے کہ مشہور عیسائی مبلغ سموئیل زویمر نے ۱۹۳۵ء میں یروشلم کی 'تبلیغ عیسائیت کانفرنس' میںواشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ہمارا مشن مسلمانوں کو عیسائیت میں داخل کرنا نہیںہے کیونکہ اس طرح تو انہیں عزت و تکریم حاصل ہوگی بلکہ ہمارا مشن یہ ہے کہ ہم مسلمان کو اسلام سے ایسے نکال دیں کہ اس کا اللہ سے کوئی تعلق باقی نہ رہ جائے۔ وہ صرف خواہشات کا بندہ بن کر رہ جائے، تعلیم حاصل کرے تو صرف خواہشاتِ نفس کے لئے، مال حاصل کرے تو صرف اسی مقصد کے لئے اور اونچے سے اونچے منصب تک پہنچے تو بھی اسی کام کے لئے۔ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ عیسائی مبلغین عالم اسلام کی حد تک اپنے اس مقصد میں معتدبہ کامیابی حاصل کرچکے ہیں!!
اور کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ عالم اسلام کے ایک حصہ پر دشمن یلغار کررہا ہے لیکن ۵۷ اسلامی ممالک کے سربراہ، کچھ مذکورہ صلیبیت کی بنا پر، کچھ بیماری 'وہن' (حب ِدنیا اور کراہیت موت) کی بنا پر'ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم' کی تصویر بنے بیٹھے ہیں اور ان کے عجزو درماندگی پران بے چارے مسلمانوں کی حالت صادق آتی ہے جو فتنہ تاتار کے موقع پر قبرستانوں، زیرزمین نالوں اور خندقوں میںپناہ لے رہے تھے لیکن نجات کی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ کوئی بھاگ کر مکان کی چھت پر چھپ جاتا تو تاتاری اس کا پیچھا کرتے آتے اور پھر چھت کے پرنالے انسانی خون کی بارش برساتے۔ ڈر اور خوف کا یہ عالم تھا کہ ایک جگہ چند مسلمانوں کو ایک نہتے تاتاری نے آلیا اور پھر انہیں للکار کر کہا کہ ٹھہرو! میرا انتظار کرو، میں ذرا تلوار لے آؤں اور پھر تمہیں موت کا مزا چکھاؤں۔ ان میں سے کسی کو لڑ کر جان دینے کی توفیق نہ ہوئی!!
کیا یہی عالم اب قائدین اُمت ِمسلمہ کا نہیں ہے کہ یہ سوال بار بار اٹھایا جارہا ہے: ''اب کس کی باری ہے؟''یہ سوچ عنقا ہوچکی ہے کہ اس عفریت ِبلا خیز سے مجتمع ہوکر مقابلہ کیسے کیا جائے؟ اناﷲ!