برصغیر پاک و ہند میں علمِ حدیثاورعلمائے اہلحدیث کی مساعی
بسلسلہ حدیث حصرت شاہ صاحب کی خدمات:
خدمت حدیث میں حضرت شاہ صاحب کی گرانقدر علمی خدمات ہیں اور آپ نے اس سلسلہ میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے، بعد کے علمائے کرام نے آپ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور آپ کی علمی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔
مولانا سید عبدالحئ (م1341ھ) لکھتے ہیں:
''شیخ اجلّ، محدث کامل، حکیم الاسلام اور فن حدیث کے زعیم حضرت شاہ ولی اللہ فاروقی دہلوی بن شاہ عبدالرحیم (م1176ھ) کی ذات گرامی سامنے آتی ہے۔ آپ حجاز تشریف لے گئے اور فن حدیث میں شیخ ابوطاہر کردی مدنی اور اس وقت کے دوسرے ائمہ حدیث کی شاگردی اختیار کی۔ آپ ہندوستان واپس تشریف لائے اور اپنی ساری کوشش اس علم کی نشرواشاعت میں صرف فرمائی۔ آپ نے درس حدیث کی مسند بچھائی۔ آپ کے درس سے بہت فائدہ پہنچا او ربہت سے لوگ فن حدیث میں کامل ہوکر نکلے۔ اس فن پر اپنے کتابیں بھی تصنیف فرمائیں۔ آپ کے علم سےبے شمار لوگوں کو فائدہ پہنچا او رآپ کی کامیاب کوششوں سے بدعات کا خاتمہ ہوا۔ مسائل فقہیہ کی صحت کا فیصلہ کتاب و سنت کی روشنی میں فرماتے تھے اور فقہاء کرام کےاقوال کی تطبیق کتاب و سنت سے کرتے تھے اور صرف انہی اقوال کو قبول فرماتے تھے کہ جن کوکتاب و سنت سے موافق پاتے تھے۔ او رجن مسائل فقہیہ کو کتاب وسنت کے موافق نہیں پاتے تھے اُن کو رد فرماتے تھے، خواہ وہ کسی امام کا قول ہو۔''1
مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی (م1375ھ) لکھتے ہیں:
''حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے پیشتر اس مک میں علم حدیث کی بنیاد تو پڑ چکی تھی او رحدیث نبویؐ پر عمل کرنے میں ان کے رستے میں کسی معین مذہب کی رکاوٹ ہرگز نہ تھی او راسی کا نام ترک تقلید ہے جس پر اہلحدیث سے نزاع کی جاتی ہے۔''
قدرت نے عمل بالسنة کی تجدید کا حصہ آپ ہی کے لیے رکھا تھا ، چنانچہ آپ نے نہایت حکیمانہ طرز سے اپنی تصانیف میں تقلید و عمل بالحدیث کی بحثیں لکھیں۔ ''حجة اللہ'' میں کئی ایک ابواب نیز ''الانصاف'' و ''عقد الجید'' خاص کتابیں اس امر کے لیے تحریر کیں۔ نیز مؤطا امام مالک کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا جو کتب حدیث کی ماں کہلانے کی مستحق ہے جس سے لوگوں میں علم و عمل ہر دو کا شوق پیدا ہوگیا۔ اس میں جابجا محدثین کی تعریف ہے او ران کے مذہب کو ترجیح دی ہے۔ چنانچہ مصفّٰے شرح مؤطا کے دیباچہ میں فرماتے ہیں:
''بائد دانست کہ سلف در استنباط مسائل فتاویٰ ہر دو وجہ بودند، یکے آنکہ قرآن و حدیث و آثار صحابہ جمع ہے کردنداز آنجا استنباط مینمودند و ایں طریقہ اصل راہ محدثین است دیگر آنکہ قواعد کلیہ کہ جمع ازائمہ تنقیح و تہذیب آں کردہ اند یاد گیرند بےملاحظہ آنہا پس ہر مسئلہ کہ داردمی شد جواب اں از قواعد طلب می کردند و ایں طریقہ اصل راہ فقہاء امت''2
آپ کی تصانیف سے ہندوستان کی علمی دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا ہوگیا اور قرآن و حدیث سےناواقفی کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں جو یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ قرآن و حدیث کا علم نہایت مشکل ہے او ران کو سوائے مجتہد کے کوئی سمجھ نہیں سکتا اور زمانہ اجتہاد .......؟؟سے ختم ہوچکا ہے۔ یہ بات حضرت شاہ صاحب کے تراجم اور علم قرآن و حدیث کی تشویق و ترغیب کے سبب ذہنوں سے جاتی رہی او رلوگ شوق سے قرآن و حدیث کے سیکھنے میں لگ گئے او راس سے عمل بالحدیث کی بنیاد پڑگئی۔3
مولانا ابویحییٰ امام خاں نوشہروی (م1385ھ) لکھتے ہیں:
''جناب حجة اللہ شاہ ولی اللہ نے حدیث کی اوّل الکتب مؤطا امام مالک کی دو شرحیں (عربی و فارسی)بنام المسوّٰے او رالمصفّٰی لکھیں اور تقلیدی بندہنوں سےبالکل بےنیاز رہ کر اس مجتہدانہ شان کے ساتھ کہ 12 ویں صدی کے مجدّد کا فرض تھا ان دونوں کا (گویا) ضمیمہ ''الإنصاف في بیان سبب الاختلاف'' کے نام سے لکھا۔ تکملہ ''عقد الجید في أحکام الاجتهاد والتقلید'' سے کیا اور تتمہ ''حجة اللہ البالغہ '' جیسی غیر مسبوق کتاب سے، جیسا کہ خاتم المحدثین نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں:
''درفن خود غیر مسبوق الیہ واقع شدہ مثل آن دریں 12 صد سال ہجرت از ہیچ یکے علمائے عرب و عجم تصنیفے بوجود نیامدہ ومن جملہ تصانیف مولفش مرضی بودہ است وفی الواقع بیش ازاں است کہ وصفش تواں نوشت ''(اتحاف النبلاء ص71)4
حدیث و متعلقات حدیث پر آپ کی تصانیف یہ ہیں:
1۔ المسویٰ في أحادیث الموطأ (عربی) مؤطا امام مالک کی شرح
2۔ المصفّٰی في شرح الموطأ (فارقی) مؤطا امام مالک کی شرح
3۔ تراجم ابواب بخاری (عربی) صحیح بخاری کے ترجمة الباب کی شرح
4۔ مسلسلات (عربی) علم اسناد حدیث میں
5۔ الإرشاد إلیٰ مهمات الإسناد
6۔ چہل حدیث (''أربعون حدیثاً مسلسلة بالأشراف في غالب سندها'' ( عربی)
وفات:
جناب حجة اللہ نے 63 سال کی عمر میں 1176ھ کو داعی اجل کو لبیک کہا۔
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م1239ھ)
آپ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے سب سے بڑے فرزند تھے۔ 1159ھ؍1746ء میں پیدا ہوئے، آپ کا تاریخی نام غلام حلیم 1159ھ ہے۔ 15 سال کی عمر میں جملہ علوم و فنون یعنی تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ، صرف، نحو، منطق، کلام، عقائد، ہندسہ، ہیئت اور ریاضی میں مہارت تامہ حاصل کرلی۔5
آپ کی عمر 17 سال کی تھی جب حضرت شاہ ولی اللہ نے داعی اجل کو لبیک کہا، چونکہ آپ تمام بھائیوں سے عمر کے ساتھ ساتھ علم میں بھی ممتاز و مشرف تھے۔اس لیے حضرت شاہ واحب کی مسند تحدیث و خلافت بھی آپ کو تفویض ہوئی۔6
اپنے والد بزرگوار کی جانشینی کا حق پوری طرح ادا کیا اور حضرت شاہ ولی اللہ نے جو علم حدیث ہندوستان میں رائج کیا تھا اس کی 60 سال تک آبیاری کی۔ آپ کے درس سے وہ حضرات فیضیاب ہوئے جو خود آگے چل کر مسند تحدیث کے مالک بنے، مثلاً
شاہ رفیع الدین محدث دہلوی (م1233ھ)شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (م1230ھ) شاہ عبدالغنی محدث دہلوی (م1227ھ) شاہ اسماعیل الشہید دہلوی (م1246ھ) شاہ مخصوص اللہ دہلوی (م1273ھ) حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق (م1262ھ) مولانا شاہ عبدالحئ بڈھانوی (م1243ھ) مولانا شاہ محمد یعقوب مہاجر مکی (م1287ھ) السید احمد شہید بریلوی (م1246ھ) مفتی الٰہی بخش کاندھلوی (م1245ھ) مفتی صدر الدین آزراہ دہلوی (م1285ھ) مولانا فضل حق خیر آبادی (م1278ھ) مولانا رشید الدین دہلوی (م1249ھ) مولانا خرم علی بلہوری (م1260ھ) مولانا شاہ فضل رحمٰن گنج مراد آبادی (م1313ھ) مولانا حسن علی لکھنوی(1262ھ) مولانا شاہ غلام علی دہلوی (م1240ھ) مولانا شاہ احمد سعید مجددی (م1277ھ) مولانا حسین احمد ملیح آبادی (1277ھ) مولانا سید حیدر علی (م1277ھ)
آپ کی علمی قابلیت :
آپ کی علمی قابلیت اور دینی تبحر کا اعتراف بعد کے علمائے کرام نے کیا ہے او رآپ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔
مولانا رحیم بخش دہلوی لکھتےہیں:
''جناب شاہ عبدالعزیز اپنے وقت کے نہایت زبردست عالم تھے۔اس زمانہ کے تمام علماء و مشائخ آپ کی طرف رجوع تھے او ربڑے بڑے فضلاء آپ کی خدمت تلمذ پر بے حد فخر کیا کرتے تھے۔ آپ نے علوم متداولہ وغیرہ میں وہ ملکہ پایا تھا جو بیان میں نہیں آسکتا۔کثرت حفظ، علم تعبیر رؤیا، سلیقہ وعظ، انشأپردازی، تحقیق نفائس علوم میں تمام ہمعصروں میں امتیازی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے اور مخالفین اسلام کو ایسی سنجیدگی سے جواب دیتے کہ وہ ہونٹ چاٹتے رہ جاتے۔''7
علم حدیث کے سلسلہ میں آپ کی گرانقدر خدمات:
علم حدیث کی اشاعت و ترویج کےسلسلہ میں جو آپ نے گرانقدر علمی خدمات سرانجام دی ہیں۔ علمائے کرام نے اس کوبھی بنظر استحسان دیکھا ہے۔
مولانا رحیم بخش دہلوی لکھتے ہیں:
''درحقیقت عمل بالحدیث کا بیج ہندوستان کی بنجر او رناقابل زمین میں آپ کے والد بزرگوار جناب شاہ ولی اللہ نے بویا اور آپ نے اسے پانی دیتے دیتے یہاں تک نوبت پہنچائی کہ اس سے ایک نہایت خوشنما اور نونہال پودا پھوٹا جو چند روز میں سرسبز و شاداب ہوکر لہلہانے لگا او رپھر تھوڑے ہی عرصہ میں دور دور کے لوگ اس کے پھل و پھول سے گودیاں لبریز کرکے جانےلگے۔''8
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م1375ھ) لکھتے ہیں:
''آپ کا خاندان علوم حدیث اورفقہ حنفی کا ہے۔ علم حدیث کی جو خدمت ملک ہند میں اس خاندان نے کی ہے کسی او رنے نہیں کی۔ سرزمین ہند میں عمل بالحدیث کا بیج حقیقت میں آپ کے والد بزرگوار نے بویا تھا اور آپ نے برگ و بار بخشا، ورنہ بلاد ہند میں کوئی شخص علاوہ فقہ حنفی کے علم حدیث سے تمسک نہیں کرتا تھا۔''9
مولانا سیّد عبدالحئ (م1341ھ) لکھتے ہیں:
''شاہ ولی اللہ کے صاحبزدگان یعنی شاہ عبدالعزیز، شاہ عبدالقادر ، شاہ رفیع الدین او ران کے پوتے شاہ اسماعیل شہید اور شاہ عبدالعسیز کے داماد شاہ عبدالحئ بڈھانوی یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں علم حدیث کی نشرواشاعت او راس کی خدمت میں پورا حصہ لیا۔ انہوں نے فن حدیث کو تمام دورے علوم پر واضح طور پر فوقیت و فضیلت دی اور ان کا علم حدیث اہل روایت کے مطابق تھا جس کو کوئی شبہ ہو، وہ ان بزرگوں کے حالات و تصنیفات سے اس کی تصدیق کرسکتا ہے۔ جب تک ہندوستان میں مسلمان موجود ہیں۔ اس وقت تک ان بزرگان کرام کا شکر مسلمانوں پر واجب ہے اور انہوں نے فن حدیث کی خدمت و اشاعت کرکے امت مسلمہ پر جو احسان کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔''10
حضرت شاہ صاحب کی تحریری خدمت:
تحریری طور پر بھی حضرت شاہ صاحب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور آپ کی تصنیفات آپ کے وسعت علم و کمال کی دلیل ہیں۔
تفسیر فتح العزیز، تحفہ اثنا عشریہ، عجالہ نافعہ او ربستان المحدثین آپ کی بہترین علمی تصانیف ہیں۔بستان المحدثین گو فن تاریخ میں ہے مگر اس کا تعلق حدیث سے بھی ہے، اس کتاب میں آپ نے تمام کتب حدیث او ران کے مصنفین و مؤلفین کے تاریخی حالات بسط و شرح کے ساتھ لکھے ہیں۔ بارہویں صدی کے بعد سلف کی یادگار میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ سب اسی سے اخذ کی گئی ہیں۔11
اور حضرت شاہ صاحب نے اس کتاب کی تالیف کا یہ سبب بیان کیا ہے:
''حمد و صلوٰة کے بعد یہ عرض ہے کہ اس رسالہ کا نام بستان المحدثین ہے۔ چونکہ اکثر رسالوں اور تصنیفوں میں ایسی کتابوں سے حدیثیں نقل کی جاتی ہیں جن پر اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے سننے والوں کو حیرانی پیش آتی ہے۔ اس وجہ سے اصل مقصود تو ان ہی کتابون کا ذکر ہے مگر تبعاً ان کےمصنفین کا بھی ذکر کیا جائے گا۔ کیونکہ مصنف سے اس کی تصنیف کی قدر معلوم ہوتی ہے۔نیز ہمارا مقصود فقط متون کا ذکر ہے۔مگر بعض شرحوں کا بھی اس وجہ سے ذکر کیا جائے گا کہ کثر تشہرت اور کثرت نقل او رزیادتی اعتماد کی وجہ سے انکو متون کا حکم دیا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم کو خطأ و لغزش سے محفوظ رکھنے کے ساتھ پھسلنے کے مقامات سے بچا کر ثابت قدم رکھے۔ ہم کو دنیا و آخرت میں ہر امر کی اسی سے امید ہے اور فقط اسی پر اعتماد اور بھروسہ ہے''12
نیز المسوٰی فی احادیث المؤطا (عربی) از حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی پر تعلیقات بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ کتاب مکہ معظمہ سے طبع ہوچکی ہے۔13
وفات :
7۔ شوال1239ھ کو دہلی میں انتقال کیا او راپنے والد کے پہلو میں دفن ہوئے۔
حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (م1243ھ)
حضرت شاہ ولی اللہ کے فرزند 1167ھ میں پیدا ہوئے۔ حرنت شاہ ولی اللہ اور حضرت شاہ عبدالعزیز سے تعلیم حاصل کی او رعلم تفسیر، حدیث، فقہ میں نام پیدا کیا۔ساری عمر مسجد کے حجرے میں بسر کی مگر اس کے ساتھ ساتھ توحید و سنت میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ قرآن مجید کا بامحاورہ ترجمہآپ کی یادگار ہے او ریہ ترجمہ اتنا اہم ہے کہ بقول مولانا رحیم بخش دہلوی: ''اگر اردو زبان میں قرآن مجید نازل ہوتا تو انہیں محاورات کے لباس میں آراستہ ہوتا جن کی رعایت مولانا شاہ عبدالقادر محدث نے اس ترجمہ میں پیش نظر رکھی ہے۔''14
حوالہ جات
1. اسلام علوم و فنون ہندوستان میں ، ص199
2. مصفّٰی شرح مؤطا، ص4
3. تاریخ اہلحدیث، ص406
4. ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات، ص14
5. حیات ولی، ص589
6. تراجم علمائے حدیث ہند، ص49
7. حیات ولی ، ص594
8. حیات ولی، ص595
9. تاریخ| اہلحدیث، ص410
10. اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں ، ص200
11. حیات ولی ، ص619
12. بستان المحدثین اردو ، ص12
13. تراجم علمائے حدیث ہند، ص61
14. حیات ولی، ص641