جَنّتِ اَرضِی یا جنت المأوٰی

صاحب مضمون مولانا عبدالرحمٰن کیلانی زید مجدہ کا یہ مقالہ دراصل محمد صادق صاحب (کراچی) کے اس مراسلہ کا جواب ہے۔ جس میں انہوں نے لکھا ہے:''حال ہی میں ماہنامہ ''المعارف'' لاہور (شمارہ دسمبر 1982ء) میں جناب شہیر نیازی صاحب کا مضمون ''آدم جنت ارضی میں'' پڑھ کر ذہنی الجھن میں مبتلا ہوگیا ہوں کہ قرآن و احادیث صحیحہ کی رو سے صحیح حقیقت کیاہے؟چنانچہ میں اس مضمون کی عکسی نقل آپ کے پاس بغرض علمی تبصرہ بھیج رہا ہوں۔ از راہ کرم مضمون کے تمام وضاحت طلب یا قابل تشریع پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالیں اور ''محدث'' کے آئندہ شمارہ میں اس کو ضرور شائع کریں تاکہ مجھ جیسے سطحی علم رکھنے والے اصحاب بھی بھرپور استفادہ کرسکیں۔ والسلام (ادارہ)



اسلام میں جب سے عقل پرست فرقوں کا آغاز ہوا ہے، ان کی یہی عادت رہی ہے کہ قرآن و حدیث یا اسلامی روایات میں جہاں کہیں کوئی بات اپنی عقل کے خلاف دیکھی تو اس کی مختلف توجیہات و تاویلات پیش کرکے اسے مطابق عقل و عاد ت بنا کے ہی دم لیا۔ ایسی ہی باتوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ جس جنت میں اللہ تعالیٰ نے آدم و حوا کو رہنے کا حکم دیاتھا وہ آسمان پر تھی یا زمین پر؟

چونکہ اس مسئلہ کا انسان کی ہدایت سے کوئی تعلق نہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ کو یہ تفصیل بتلانے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ قرآن و حدیث میں ایسے واضح الفاظ کہیں بھی نہیں ملتے، جن سے واضح طور پر اس بات کا فیصلہ کیا جاسکے۔ تاہم قرآن و حدیث سے ہی کچھ ایسے اشارات اور دلائل ضرور مل جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنت سماوی تھی، ارضی نہ تھی، لیکن عقل پرست حضرات اسےکسی صورت جنت المأوٰی ماننے کو تیار نہیں۔ لہٰذا تاویلات و توجیہات کا سہارا لینے لگے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی ایسی توجیہات و تاویلات میں بھی بہت زیادہ اختلاف رونما ہوئے۔

معتزّلین اور قدریہ نے جنت سماویہ سے انکار کیا تو زمین میں اس جنت کی جگہ بھی متعین کردی کہ وہ یا تو فلسطین میں تھی یا فارس و کرمان کے درمیان تھی۔ سرسید مرحوم کی تاویل لاجواب ہے، وہ جنت سے مراد بلوغت یا عقل و تمیز سے پہلے کی زندگی مراد لیتے ہیں۔ شجر ممنوعہ سے مراد عقل و تمیز کا درخت ہے اور ہبوط آدم سے مراد عقل و تمیز کے بعد کی مکلّف زندگی ہے۔ گویا ان کے نزدیک یہ جنت کوئی مادی شے تھی ہی نہیں جس کے متعلق یہ سوال پیدا ہوسکے کہ وہ ارضی ہے یا سماوی؟

شہیر نیازی صاحب بھی جنت ارضی کے قائل ہین ۔ لیکن معتزلین کا بتلایا ہوا مقام ان کے خیال میں درست نہیں۔ وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ ان علاقوں میں تو آج بھی نسل آدم آباد ہے، پھر جنت سے اخراج کیا ہوا؟ بالفاظ دیگر آپ نے معتزلین کے خیال کی تردید فرما دی۔ آپ کے خیال کے مطابق یہ جنت ایک نہیں بلکہ دو تھیں۔ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ پہلی جنت سے جب نکالا (جو پہاڑ پر واقع تھی) تو فرمایا ''قلنا اهبطوا'' اس حکم کے مطابق آدم اور حوا جنت نمبر 2 میں آگئے جو ایک جزیرہ پر واقع تھی۔ اس جنت میں آدم و حوّا کے اولاد بھی پیدا ہوئی، اسی لیے جب یہاں سے نکلنے کا حکم دیا تو فرمایا ''قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا'' (تم سب کے سب اس جنت سے نکل جاؤ) چنانچہ آدم و حوّا دوسری بار اس دوسری جنت سے نکلے۔ ان کے نکلنے کے بعد یہ دونوں جنت کے قطعے آتش فشانی کی وجہ سے بحر اوقیانوس میں غرق ہوچکے ہیں۔ آپ کی ان معلومات کا مآخذ مصریوں کی وہ تاریخ ہے جو وہ مندروں پر لکھا کرتے تھے۔

آپ کی تحقیق اس لحاظ سے بے مثال ہے کہ آپ نے قرآن ہی کے الفاظ'قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا''سے یہ ثابت کردکھایا کہ یہ جنت ارضی ایک نہیں بلکہ دو تھیں۔ اور آدم و حوّا ایک بار نہیں بلکہ دو بار ان جنتوں سے نکالے گئے اور نیز یہ کہ ان جنتی قطعات کے ڈوبنے سے پیشتر انہیں کسی حفاظتی مقام پر نکل جانے کو کہہ دیا گیا تھا۔ نیازی صاحب نے قرآن کے ان الفاظ پر جو لغوی تحقیق پیش کرکے یہ نتائج نکالے ہیں، سب سے پہلے ہم اسی کا جائزہ لینا چاہتے ہیں، فرماتے ہیں:

ہبط کی لغوی تحقیق:
''تیسری ضروری اور اہم چیز اس سلسلے میں لفظ''اھبطوا'' کا استعمال ہے۔ اس لفظ کے لغوی معنی کسی اونچی جگہ سے نیچے آنے کے ہیں، یہاں تک کہ سواریوں پر سے اترنے کےلیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اللہ علیم و خبیر ہے، اسے معلوم تھا کہ لوگ ''اھبطوا'' کےسلسلے میں اونچائی سے مراد آسمان لیں گے، لہٰذا دوسری جگہ ''ٱهْبِطُوامِصْرً‌ا'' (یعنی مصر میں جاکر اترو) کہہ کر یہ واضح کردیا کہ آدم کو آسمان سے پھینکا نہیں گیا، بلکہ ایک سرسبز پہاڑ کی چوٹی سے، جو جنت نظیر تھا، اتارا گیا،اللہ تعالیٰ کسی کو معاف کرنے کے بعد سزا نہیں دیتا۔ جب توبہ قبول ہوگئی تھی تو یہ نکلنا رحمت تھا نہ کہ زحمت، بنی اسرائیل مصر کی قید سے چھٹ کر آئے تھے اور یہ ایک تنبیہ تھی۔ جاکر اترنا تو سوائے سواریوں کے اور کسی چیز سے اترنے کے معنی یہاں دیتا نہیں ہے۔ قافلے کا لڑنا، لوگوں کا اترنا اور پڑاؤ کرنا جیسا وسیع مفہوم صرف ایک لفظ ''اھبطوا'' میں پوشیدہ ہے۔'' (صفحہ 6، 7)

اس اقتباس سے ھبط کے متعلق لغوی تحقیق یہ ہوئی کہ:
1۔ اس کا معنیٰ اونچی جگہ سے نیچے آنا یا سواری سے اترنا ہے۔
2۔اگریہ لفظ جنت سماوی سے متعلق ہو تو اس کا معنیٰ ''پھینکنا'' کرنا چاہیے اور اگر کسی پہاڑ کی چوٹی پر یہ جنت ہو تو اس کا معنیٰ ''اتارنا'' کرنا چاہیے۔
3۔ یہ لفظ بطور رحمت بھی استعمال ہوسکتا ہے۔
4۔ اس لفظ کا لغوی مفہوم بڑا وسیع ہے جیسے قافلہ کا لڑنا، پڑاؤ کرنا، لوگوں کا اترنا وغیرہ۔

اب دیکھیے ھبط کی لغوی بحث میں جو باتیں امتیازی خصوصیت کی حیثیت رکھتی ہیں ان کا نیازی صاحب نے ذکر ہی نہیں کیا، مثلاً :
ھبط (لازم و متعدی) میں صرف مادی لحاظ سے کسی بلند جگہ سے نیچے اترنے کا مفہوم ہی نہیں پایا جاتا بلکہ قدر و منزلت کے لحاظ سے گر جانے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے ''ھبط الثمن'' بمعنی ''قیمت گرگئی'' ''ھبطه الزمان'' ''اُسے زمانہ نے گرا دیا'' یعنی پہلے امیر تھا اب غریب ہوگیا۔ ''ھبط'' بمعنی ''برائی میں پڑنا، نقصان اور ذلت۔'' جس اترنے میں ذلت ہو، وہاں ہبوط کا لفظ آتا ہے۔ عزت کا اترنا، اتارنا ہو تو نزول اور انزال استعمال ہوتا ہے، جیسے قرآن ، بارش، ملائکہ وغیرہ 1

2۔ اس مادی یا معنوی نزول کے علاوہ ''ھبط'' کی دوسری امتیازی خصوصیت ''اضطرار'' ہے۔ امام راغب کے الفاظ میں ''الہبوط'' کے معنی کسی چیز کے قہراً یا بے اختیاری کی حالت میں نیچے اتر آنا کے ہیں، جیسا کہ پتھر بلندی سے نیچے گرتا ہے۔'' 2

پھر کبھی تو اس لفظ میں یہ سب خصوصیات بیک وقت پائی جاتی ہیں، جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ ٱللَّهِ...﴿٧٤﴾...سورۃ البقرۃ
''پھر پتھروں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔''

اور کبھی اس لفظ میں نیچے آنے کے علاوہ ذلت کے ساتھ کسی جگہ یا مقام سے نکلنے یا نکالے جانے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔

جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قَالَ فَٱهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ‌ فِيهَا فَٱخْرُ‌جْ إِنَّكَ مِنَ ٱلصَّـٰغِرِ‌ينَ ﴿١٣...سورۃ الاعراف
''اللہ نے ابلیس سے فرمایا، بہشت سے اتر جا، تجھے شایان نہیں کہ یہاں تو غرور کرو ، پس نکل جا تو ذلیل ہے۔''

اس آیت میں یہ لفظ(Get Out)کے معنی دے رہا ہے۔ گویا ''ھبط'' میں یا تو اضطرار کا پہلو ضروری ہوتا ہے یا تحقیر کا اور یاپھر دونوں باتیں بیک وقت پائی جاتی ہیں۔ نزول اور خروج کے ہبوط کا یہ امتیازی فرق اتنا مشہور ہے کہ ایک اردو شاعر نے بھی درج ذیل شعر میں یہ فرق واضح کردیا ہے ؎

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچہ سے ہم نکلے


ایک تیسرے مقام پر یہ لفظ قرآن میں یوں استعمال ہوا ہے:
﴿قِيلَ يَـٰنُوحُ ٱهْبِطْ بِسَلَـٰمٍ مِّنَّا...﴿٤٨﴾...سورۃ ھود'' ''اے نوح ؑ، سلامتی کے ساتھ (کشتی سے)نیچے اتر آؤ''

اس آیت میں مادی طور پر نزول اور اضطرار دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ذلت و تحقیر کے پہلو کو ''بسلام منا'' کےالفاظ نے خارج از بحث قرار دےدیا۔

چوتھے مقام پر ہے:
﴿ٱهْبِطُوامِصْرً‌ا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِ‌بَتْ عَلَيْهِمُ ٱلذِّلَّةُ وَٱلْمَسْكَنَةُ وَبَآءُو بِغَضَبٍ مِّنَ ٱللَّهِ...﴿٦١﴾...سورۃ البقرۃ
''کسی شہر میں اترو، تمہیں وہ کچھ مل جائے گا جو تم مانگتے ہو، اور ذلت اور محتاج ان پر چمٹا دی گئی۔وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہوگئے۔''

اس آیت میں ذلت اور اضطرار دو باتیں پائی جاتی ہیں لیکن مادی طور پر بلندی سے نیچے آنے کا مفہوم نہیں ہے۔

اب یہ لغوی مفہوم سامنے رکھیے اور نیازی صاحب کی یہ توجیہ سامنے لائیے کہ حضرت آدم و حوّا از راہ کرم و احسان، اس پہاڑ کی چوٹی سے اتار کر بحفاظت تمام کسی دوسرے مقام پر بھیجے جارہے ہیں۔ جس پہاڑ پر ان کے خیال کے مطابق جنت نمبر 1 تھی اور جو آدم و حوّا کے چلے جانے کے بعد پھٹنے والا تھا۔ نیازی صاحب نے ہبوط کے معنوں میں اس کرم و احسان یا رحمت کی توجیہ یہ بیان فرمائی کہ اللہ کسی کو معاف کرنے کے بعد سزا نہیں دیتا۔ اب نیازی صاحب کی توجیہ قبول کرنے میں مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ہبوط تو پہلے مرچکا ہے اور قصور کی معانی بعد میں ہوتی ہے۔ ہبوط کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت نمبر 36 میں ہے اور توبہ کی قبولیت کا ذکر آیت نمبر 37 میں ہے۔ بالفاظ دیگر جنت سے نکالے جانے کے بعد جب آدم حوا نے زمین میں رہائش اختیار کرلی، تب آدمؑ نے اپنے خدا سے کلمات توبہ سیکھے اور توبہ قبول ہوئی، گویا ہبوط جرم کی سزا کے طور پر ہوا تھا، اس وقت احسان یا رحمت کا کون سا موقعہ تھا؟

جنت نمبر 2 اور دوسری بار اخراج کی دلیل:
''دوسری بار آدم و حوا سے کہا گیا کہ ''اھبطوا'' اور اسی تسلسل میں فرمایا گیا ''ٱهْبِطُوامِنْهَا جَمِيعًا'' ..... آخر یہ دو دفعہ اخراج کیوں ہوا، اس میں یہ واقعہ بھی موجود ہے کہ جو آدم کے صرف دو ہونے اور اس کے بعد اہل و عیال سمیت نکلنے کے درمیان فطرت کا تقاضا ہے۔ عربی اس قدر فصیح زبان ہے کہ چار اور پانچ کے عدد کے لیے بھی الفاظ موجود ہیں۔ جمیعاً کا لفظ اچھی خاصی انسانی تعداد کی طرف واضح اشارہ کررہا ہے اور پھر دوسری دفعہ مع ان کی اولاد کے اس جزیرے سے نکالا گیا، جہاں کبھی یہ خوبصورت باغ تھا اور وہ جزیرہ جو اب سمندری اتش فشاں پہاڑوں کی وجہ سے ڈوبنے والا تھا، انہیں نکال لیا گیا۔'' 3

اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ:
1۔ چونکہ قرآن نے ''اھبطوا'' کالفظ دوبار استعمال فرمایا ہے، لہٰذا یہ اخراج دوبار ہوا اور دونوں بار ہی دو مختلف جنتوں سے ہوا۔
2۔ دوسری بار جو ''اهبطوا'' کےساتھ ''جمیعا'' کا لفظ بھی ہے جو چار پانچ تو درکنار، اچھی خاصی تعداد کو ظاہر کررہا ہے۔ آدم اور حوا دو سے اتنی خاصی تعداد ان کے بچوں کی ہی ہوسکتی ہے جو کہ جنت نمبر 1 کے قیام کے دوران پیدا ہوئے، پھر جتنی مدت بچوں کی اتنی خاصی تعداد کی پیدائش کے لیے درکار تھی وہی ان دونوں طرح کے اخراج کا درمیانی وقفہ ہے۔

اب دیکھیے نیازی صاحب ،قرآن کریم کی جس فصاحت و بلاغت کی داد فرما رہے ہیں، ہمیں افسوس ہےکہ نیازی صاحب خود اس سے بے بہرہ ہیں۔ عربی زبان میں فصاحت یہ ہے کہ تثنیہ کےلیے الگ صیغہ موجود ہے 4 اور جمع کا صیغہ نمبر 2 سے نہیں بلکہ تین سے شروع ہوتا ہے۔ تین یا اس سے زائد جتنی بھی تعداد ہو اس کے لیے ''اھبطوا'' ہی آئے گا۔ چار یا پانچ کے لیے کوئی علیٰحدہ صیغہ عربی زبان میں موجود نہیں ہے، البتہ چار یا پانچ کے لیے عربی میں اربع اور خمس کے الفاظ ضرور موجود ہیں، لیکن یہ عربی کی کوئی خصوصیت نہیں۔ چار یا پانچ کے لیے ہر زبان میں ہی الفاظ موجود ہیں۔ البتہ ایک لفظ ''بضع'' کا بھی آتا ہے جس کے معنی ہیں ''چند'' اور اس کا اطلاق 3 سے 9 تک ہوتا ہے مگر اس لفظ کا استعمال ''اھبطوا'' میں کچھ تبدیلی نہیں لاتا۔ہاں اس سے زائد اگر کوئی بات نیازی صاحب کے علم میں ہے تو اسے واضح کردینا چاہیے تھا تاکہ لوگ اس سے مستفید ہوسکتے۔

یہ تو آپ دیکھ چکے کہ نیازی صاحب کا سارا پلان لفظ ''جمیعا'' کے گرد گھومتا ہے جس کے معنی آپ نے ''سب کے سب '' کئی بار دہرائے ہیں، اب مشکل یہ ہے کہ ''جمیعا'' کےمعنی وہ ہیں ہی نہیں جو نیازی صاحب سمجھے بیٹھے ہیں بلکہ اس کے معنی ہیں ''ایک ساتھ'' یا ''اکٹھے مل کر''یا ''جمع ہوکر''
﴿قُلْنَا ٱهْبِطُوامِنْهَا جَمِيعًا...﴿٣٨﴾...سورۃ البقرۃ

''ہم نے کہا تم سب جنت سے ایک ساتھ اترو''

جیسے کہ دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿لَا يُقَـٰتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِى قُرً‌ى مُّحَصَّنَةٍ أَوْ مِن وَرَ‌آءِ جُدُرٍ‌...﴿١٤﴾...سورۃ الحشر
''یہ اکٹھے مل کر تم سے کبھی لڑ نہ سکیں گے (یعنی میدان مقابلہ میں آمنے سامنے) مگر بستیوں کے قلعوں میں یا دیواروں کی اوٹ میں۔''

اور جہاں ''سب کے سب'' کا مفہوم اداکرنا ہو تو وہاں ''جمیعا'' کا لفظ نہیں آتا بلکہ أجمعون یا أجمعین آتا ہے، جیسے فرمایا:
﴿فَسَجَدَ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ﴿٣٠...سورۃ الحجر

''تو سب کے سب فرشتوں نے (آدمؑ کو )سجدہ کیا۔''

اس آیت میں ''کلهم'' تاکید مزید کے لیے ، ورنہ أجمعین اور أجمعون ''سب کے سب'' کے معنون میں ہی استعمال ہوتے ہیں۔

گویا''اھبطوا'' میں تین افراد (آدم اور ، حوا اور ابلیس) کو صرف اترنے کا حکم ہے اور ''ٱهْبِطُوامِنْهَا جَمِيعًا'' میں یہ وضاحت ہے کہ تمہیں سب کو اکٹھا مل کر ایک ساتھ ہی اترنا ہوگا۔ یہ نہیں کہ باری باری اترتے رہو۔''

قرآن میں تکرار کی وجہ:
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ قرآن میں ''اھبطوا'' کااستعمال دو بار کیوں ہوا؟ تو اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ پہلی بار ''اھبطوا'' کے مابعد کی زندگی کے ایک پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے اور دوسری بار دوسرے پہلو کو ۔ پہلی باراس ہبوط کی وجہ بتلائی کہ چونکہ تم ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہو لہٰذا یہاں سےنکل جاؤ یا اتر جاؤ۔جنت میں ایسی مخاصمت کی کوئی گنجائش نہیں۔لہٰذا اب تمہارا مستقر زمین کو بنایا جاتا ہے اور دوسری بار ہبوط کے حکم کے بعد آئندہ کے لیے رشد وہدایت کا لائحہ عمل بیان فرمایا کہ اس زمین میں تمہارے پاس میری طرف سے رسول آتے رہیں گے..... الآیة (البقرہ :39)

ہبوط ایک ہی بار ہوا اور جنت بھی ایک ہی تھی۔ اس دعویٰ کی دلیل یہ ہے ، کہ سورة اعراف میں بھی یہی ہبوط آدم کا قصہ سورہ بقرہ میں بیان شدہ قصہ سے زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے لیکن وہاں ایک دفعہ ہی ہبوط کا ذکر آیا ہے۔ اس مقام پر درج ذیل آیت میں:
﴿قَالَ ٱهْبِطُوابَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِى ٱلْأَرْ‌ضِ مُسْتَقَرٌّ‌وَمَتَـٰعٌ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٢٤...سورۃ الاعراف
''اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اتر جاؤ، تم سب ایک دوسرے کے دشمن ہو، اب تمہارے لیے اس میں ٹھکانا اور ایک وقت تک زندگی کا سامان ہے۔''

تو موجود ہے لیکن ''ٱهْبِطُوامِنْهَا جَمِيعًا'' یعنی نہ دوسری بار کے ہبوط کا ذکر ہے اور نہ جمیعا کا ۔ لہٰذا جمیعا سے متعلق نیازی صاحب کی بیان کردہ مدت اور وقفہ کا مسئلہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔

شجرممنوعہ:
شجر ممنوعہ کا نام نہ قرآن میں مذکور ہے نہ احادیث میں۔ تفاسیر میں مفسرین نے اپنے اپنے خیال کے مطابق اس درخت کا نام تجویز کیا ہے۔

نیازی صاحب ان سب کا ردّ کرنےکے بعد اپنی تحقیق ان الفاظ میں پیش فرماتے ہیں کہ:
''قرآن کریم اپنی تفسیر خود اپنے آپ فرماتا ہے ۔ مندرجہ بالا آیات سے شجر ممنوعہ کے پھل کی تاثیر سامنے آگئی اور وہ یہ کہ حضرت آدم و حوا پھل کھانے سے پہلے مرد و عورت کے فرق اور ضرورت سے ناواقف تھے جب انہوں نے پھل کھایا تو ان کے ستر ایک دوسرے پر کھل گئے اور انہوں نے ایک دوسرے کو جنس مخالف کی حیثیت سے پہچان لیا اور وہ برائے نام نہیں، بلکہ سچ مچ کے میاں بیوی بن گئے۔ اس لیے اس شجر کو سوائے شجر تشخیص جنس (Sex Tres)کے کچھ بھی قرار نہیں دے سکتے۔'' 5

شجر ممنوعہ کی یہ تعبیر نیازی صاحب سے پیشتر بھی کئی حضرات پیش فرما چکے ہیں۔ لیکن اس تعبیر پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہےکہ اس درخت کا پھل کھانا جرم تھااور یہ پھل جنسی شہوت (سیکس) تھی۔ آدمؑ نےاس پھل کھانے کے جرم سے توبہ استغفار کی، جو قبول بھی ہوگئی۔ لیکن یہ پھل آپ بعد میں بھی کھاتے رہے اور آپ کی ساری اولاد آج تک یہ پھل کھا رہی ہے، تو پھر یہ جرم کیسا تھا اور معانی کیسی ہوئی تھی؟

اگرچہ نیازی صاحب نے اس شجر کو جنت نمبر 1 کےساتھ ہی جزیرہ میں ڈبو کر ختم کردیا ہے مگر جرم اس درخت کا وجود تو نہ تھا بلکہ اس کا پھل کھانا تھا اور وہ پھل آج تک کھایا جارہا ہے۔ پھر اس درخت کو ڈبونے کا فائدہ بھی کیا تھا؟

ارضی جنت کیوں؟
گو نیازی صاحب کے دو عدد جنتوں اور دوبار خروج کا فلسفہ شجر ممنوعہ کا ذکر چھیڑے بغیر بھی حل ہوجاتا ہے۔ تاہم آپ نے یہ ذکر اس طرح چھیڑا کہ اس شجر ممنوعہ کا وجود صرف جنت ارضی میں ہی ہوسکتا ہے اور اگرہم جنت ارضی کے بجائے جنت آسمانی فرض کرلیں تو اس پر بہت سے اعتراض وارد ہوتے ہیں، مثلاً ''کیا یہ درخت حضرت آدم ؑ سے پہلے بھی موجود تھا؟ اگر تھا تو فرشتوں کوبھی اس کی ممانعت تھی یا نہیں؟ جنت میں تو سوائے غیر کے کچھ نہیں۔ یہ درخت کیوں پیدا کیاگیا؟ کیا یہ درخت آج بھی موجود ہے؟ اور اگر موجود ہے تو جنتیوں کی پریشانی کا باعث تو نہ ہوگا؟ آسمانی جنت تو ایک دائمی نعمت ہے۔ اس میں شجر ممنوعہ کا کیسا کام ؟ وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح کے کچھ مزید سوالات ۔ جنہیں آپ ''بنیادی سوالات'' کا نام دیتے ہیں۔ نیازی صاحب سے تخلیق آدم کے سلسلہ میں بھی اٹھائے ہیں، مثلاً آدم ؑ کو کہاں پیدا کیا گیا؟ جنت کا کیا مفہوم ہے؟ یہ جنت زمین پر تھی یا آسمان پر؟ اگریہ آسمان پر تھی تو آدمؑ کے لیے زمین سے مٹی منگوانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا اللہ تعالیٰ اس مٹی کو منگائے بغیر تخلیق آدم پر قادر نہ تھا؟ آدمؑ سے پہلے کرہ ارض وجود میں نہ تھا، چرند پرند موجود نہیں تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ایسے ہی بے کار اور لا یعنی سوالات کا انبار لگا دیا ہے جن سے کسی کو ذہنی انتشار میں تو مبتلا کیا جاسکتا ہے۔مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔

پھر جس طرح کے یہ عقلی قسم کے سوال ہوتےہیں اسی طرح کے ان کے عقلی جوابات ہوتے ہین۔ عقلی قسم کے سوال و جواب میں دراصل مقابلہ تو فریقین کی عقلون کا ہوتا ہے اور معلوم ہوجاتا ہے کہ کون صاحب عقل جوہر دکھانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس سے مسئلہ زیر بحث کے درست یا غلط ہونے پر کم ہی استشہاد کیا جاسکتا ہے۔

بالکل اسی قسم کے سوالات اور اعتراضات ان لوگوں کی طرف سے بھی پیش کیے جاتے ہیں جو جنت سماوی کے قائل ہیں، مثلاً وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ اس باغ کوکس نے بویا اور کس نے لگایا؟ جن و ملائکہ تو دنیاوی باغ لگایا نہیں کرتے اور نہ ان کا لگایا ہوا باغ آج تک کسی انسان نے دیکھا ہے اور آدم سے پیشتر انسانی آبادی نہیں، جس کے متعلق کہا جاسکے کہ شاید اس نے لگایا ہو اور اگر آدمؑ نے اس باغ کو خود بویا اور لگایاتھا تو پھر اس میں آباد ہونےکی اجازت اور اخراج ہونے کا کیا مطلب ؟ نیز اگر یہ باغ آدمؑ کا خود کاشتہ تھا تو اپ نے شجر ممنوعہ کیوں لگایا؟ پھر آپ اس کی تاثیر سے کیوں ناواقف رہے؟ جس کے کھانے پر اللہ کی طرف سے عتاب نازل ہوا؟ اسی شجر ممنوعہ کو ابلیس نے ''شجرة الخلد'' بتلایا۔ تو اس فانی باغ میں ''شجرة الخلد'' کا کیا کام؟ وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالات سے آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ جس طرح کے سوالات نیازی صاحب نے اٹھائے ہیں، دوسرا فریق بھی ایسے بے شمار سوالات اٹھا سکتا ہے، لہٰذا ایسے سوالات کا جواب دینا جن کےمتعلق قرآن و حدیث میں کوئی وضاحت نہ ہو اور ان کا جواب انسانی علم کی دسترس سے بھی باہر ہو۔ ایک عبث فعل ہے۔

آدم جنت سماوی میں:
یہ تو آپ دیکھ چکے ہیں کہ جنت ارضی کے قائلین کے پاس اپنے دعوےٰ کے ثبوت کے لیے سوائے چند عقلی دلائل یا اعتراضات کے کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ انہیں نقلی بنیاد اگر ملتی ہے تو تورات سے، جس میں یہ مذکور ہے کہ یہ جنت عدن میں تھی، لیکن تورات ساتھ یہ بھی بتلاتی ہے کہ اس جنت میں آدمؑ و حوا اور ابلیس کے علاوہ سانپ اور مور بھی تھے اور ابلیس انہیں کی معرفت آدم و حوا کو بہکاتا پھسلاتا رہا، لہٰذا تورات کی یہ حکایت کسی فریق کے لیے بھی قابل تسلیم نہیں۔

ہم یہ بھی بتلا چکے ہیں کہ قرآن و حدیث میں ایسے صریح الفاظ کہیں نہیں ملتے جو اس نزاع کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوں تاہم بعض ایسے اشارات اور دلائل ضرور مل جاتے ہین جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ جنت ارضی نہیں بلکہ جنت الماوٰی ہی تھی جس میں آدم و حوّا کو رہائش اختیار کرنے کو کہا گیا ، لہٰذا جمہور علمائے اسلام کا یہی مسلک ہے کہ یہ جنت وہی جنت الماوٰی ہے جس کا وعدہ آخرت میں مسلمانوں کے لیے کیا گیا ہے کیونکہ آیات و احادیث کا ظاہر اسی پر دلالت کرتا ہے۔مثلاً:
دلیل اوّل :
ارشاد باری ہے:
﴿قُلْنَا يَـٰٓـَٔادَمُ ٱسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ ٱلْجَنَّةَ...﴿٣٥﴾...سورۃ البقرۃ '' ''ہم نے کہا اے آدم ؑ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔''

اس جگہ جنت کو عربی قاعدہ سے ''الجنة'' الف لام کے ساتھ ذکرکرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اسی مشہور جنت کا ذکر ہے جس کو جگہ جگہ قرآن عزیز میں قیام قیامت کے بعد مومنوں کا مستقر بتلایا گیا ہے ورنہ اگر نئے مقام کا تذکرہ ہوتا یعنی یہ ارضی باغ ہوتا تو پہلے اس کی حقیقت کا اظہار ہوتا۔ پھر اس کو جانی پہچانی چیز کی طرح ال کے ساتھ ذکر کیا جاسکتا تھا۔

دلیل دوم:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقُلْنَا ٱهْبِطُوابَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِى ٱلْأَرْ‌ضِ مُسْتَقَرٌّ‌وَمَتَـٰعٌ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٣٦...سورۃ البقرۃ
''ہم نے کہا نیچے اترو کیونکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ اب تمہارے لیے زمین میں مستقر اور ایک وقت تک فائدہ اٹھانا ہے۔''

اب دیکھیے ''حبط بالبلد''بمعنی ''شہر میں اترنا'' اور ''حبط بالواد'' ''وادی میں اترنا'' ۔ یہ بلندی سے پستی کی طرف آنے کے بغیر بھی ممکن ہے، لیکن زمین میں اترنا اس بات کا متقاضی ہے کہ یہ اترنا کسی بلندی یا آسمان سے ہو۔ ارض کی ضد سماء ہے جس کے معنی آسمان بھی ہے اور بلندی بھی۔ اسی طرح ارض کا معنی زمین بھی ہے اور پستی بھی۔ گویا ہبوط اور ارض دونوں لفظ مل کر اس جنت کو سماوٰی قرا ردیتے ہیں۔

دلیل سوم :
صحیح مسلم ، کتاب الایمان باب الشفاعة میں ایک طویل حدیث کا درج ذیل حصہ ملاحظہ فرمائیے:
''یجمع اللہ الناس فیقوم المؤمنون حتیٰ تزدلف لهم الجنة فیأتون آدم فیقولون یٰأبانا استفتح لنا الجنة فیقول: وھل أخرجکم من الجنة إلاخطیئة أبیکم''
''اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) لوگوں کو جمع کرے گا، پس اہل ایمان کھڑے ہوں گے، جب جنت ان کے ریب ہوگی، پھر وہ آدمؑ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے، ''اے ہمارے باپ! ہمارے لیے اس جنت کو کھولیے'' اس پر حضرت آدم ؑ فرمائیں گے، ''کیا تم کو اس جنت سے تمہارے باپ کی خطا کاری نے ہی نہ نکالا تھا؟''

ان دلائل سے بخوبی یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ یہ واقعہ بلا شبہ جنت الماوٰی میں ہی پیش آیا تھا۔

اب ہم ایک ایسی دلیل پیش کرتے ہیں جس کی رو سے نیازی صاحب نے خود بھی دبی زبان سے یہ حقیقت تسلیم کرلی ہے کہ یہ جنت ارضی نہ تھی۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَقُلْنَا ٱهْبِطُوابَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ...﴿٣٦﴾...سورۃ البقرۃ'' ''ہم نے کہا، جنت سے اتر جاؤ کیونکہ تم سب ایک دوسرے کے دشمن ہو۔''


گویا اللہ تعالیٰ نے جنت سے نکالنے کا سبب یہ بتلایا کہ جنت لڑائی جھگڑا کرنے کی جگہ نہیں اور تم میں آپس میں دشمن ہوچکی ہے، لہٰذا یہاں سے نکل جاؤ، لیکن نیازی صاحب فرماتے ہیں:
''ایک جگہ ''اھبطوا'' کے ساتھ ہی خداوند کریم نے فرمایا کہ نیچے جاکر کھیتی باڑی کرو، اب تم میں سے بعض، بعض کے دشمن رہیں گے۔ ظاہر ہے کہ جہاں زر، زن اور زمین موجود ہوں گے جھگڑے لازماً ہوں گے۔ ہابیل اور قابیل کا جھگڑا بھی زمین اور زن سے تعلق رکھتا تھا۔'' 6

اس اقتباس سے واضح ہے کہ دشمنی پیدا ہوجانے کے بعد تو زمین ہی مناسب مستقر ہے۔ لیکن جب تک دشمنی کی فضا پیدا نہ ہو اور لڑائی جھگڑا کا امکان ہی نہ تھا تو اس وقت الجنة ہی بہتر اور مناسب مستقر تھا۔


حوالہ جات
1. مرأة القرآن، منجد
2. مفردات امام راغب
3. ص7، 8
4. لہٰذا نیازی صاحب کے مطابق آدم و حوا ، ''صرف دو (پہلے) کے اخراج کے لیے ''اھبطا منها'' کے الفاظ استعمال ہونا چاہیئیں تھے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
5. ص5، 6
6. ص7