صدرِمملکت کی نشری تقریر کا ایک جائزہ
صدر مملکت، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جناب جنرل محمد ضیاء الحق ماشاء اللہ ایک بہترین مقرر ہیں، اور قوم کے نام ان کی ہر نشری تقریر سے جہان ایک سربراہ مملکت کا جاہ و وقار ٹپکتا ہے، وہاں ایک بیدار مغز سیاستدان کی حکمت عملی اس سے مترشح ہوتی اور کسی واعظ دلپذیر کی اثر آفرینی بھی اس میں پائی جاتی ہے۔ ان کی 12۔ اگست کی تقریر بھی انہی خوبیوں کا حسین مرقع ہے او راس طویل تقریر میں انہوں نے تقریباً ہر وہ بات بیان کردی ہے جو وقت کا تقاضا تھا اور جس کی اہل وطن ان سے توقع کررہے تھے۔ علاوہ ازیں انہوں نے جو کچھ فرمایا، دل کی گہرائیوں سے بیان فرمایا، او ران کی ہر بات انکے اخلاص کا منہ بولتا ثبوت ، جذبہ حب الوطنی کی بہترین عکاس، امور مملکت میں گہری دلچسپی کی غماز او ران کی اسلام پسندی کا مظہر اور ترجمان تھی۔
اس وقت ان کی اسی تقریر کے مندرجہ ذیل نکات ہمارے پیش نظر ہیں:
''مسلمان اپنی حکومتوں میں کسی دستور اور قانون کو خود مرتب کرنے کا حق نہیں رکھتے، ان کا دستور مرتب و متعین ان کے ہاتھوں میں موجود ہے اور وہ ہے قرآن مجید!'' 1
''مسلمانوں کا آئین مطلق تو قرآن ہی ہے اور جو کوئی اسلامی نظام یا اسلامی حکومت کا دعویدار ہے ، اسے اسی بنیادی اور دائمی سرچشمہ حیات کی طرح رجوع کرنا چاہیے لیکن قرآن پاک میں روزمرہ زندگی کے تمام جزئیات کے متعلق ساری کی ساری ہدایات درج نہیں۔ لہٰذا جہاں قرآنی احکامات میسر نہیں وہاں ہمیں سنت رسولؐ کی طرف رجوع کرنا ہوگا!''
آگے جاکر انہوں نے اجتہاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
''جہاں کہیں قرآن و سنت کے احکام مفقود ہیں وہاں ہمیں اجتہاد سے کام لینا چاہیے او راجتہا دکے دروازے مسلمانوں پر کھلے رہنے چاہیئیں''
اسی ضمن میں بعد میں انہوں نے حضرت معاذ بن جبلؓ کا وہ واقعہ بھی بیان فرمایا ہے، جب وہ یمن کے گورنر بنا کر روانہ کیے گئے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا:
''(اے معاذؓ) آپ فیصلوں کے لیے کس چیز کو اپنائیں گے؟''
انہوں نےکہا: ''یارسول اللہ ﷺ، قرآن حکیم کو!'' رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ''قرآن کریم میں اگر آپ کو کوئی چیز نہیں ملی؟'' تو فرمایا کہ ''رسول اللہﷺ! آپؐ کی حدیث، آپؐ کی زندگی کے واقعات سے فائدہ اٹھاؤں گا!'' رسول مقبول ﷺ فرماتے ہیں، ''فرض کیجئے کہ آپ کو اس سے بھی کچھ نہیں ملتا؟'' تو فرمایا، ''رسول اللہ، میں اپنے دماغ سے کام لیتے ہوئے اجتہاد کے طور پراپنا وقت نکالوں گا!''
'' اور آئین سازی کے سلسلے میں یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ خود رسول اللہﷺ کا وضع کردہ ایک آئین بھی ہمارے پاس موجود ہے'' اسی ضمن میں اس کے بعد صدر صاحب نے ''میثاق مدینہ'' کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں۔
''اسلامی احکامات کے مطابق آئین سازی کا مرحلہ صرف ہمیں پیش نہیں آیا، یہ منزل، ایک امی، جو ہادئ دو جہان او رسرور کونینؐ تھے، انہوں نے بھی انجام دی، ہم تو ان کی خاک پاکے برابر نہیں، لیکن ہم یقیناً ان کے اتباع میں یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔''
''آپ نے یقیناً اس بات پر کئی بار غور فرمایا ہوگا کہ ہمارے وطن عزیز میں بار بار مارشل لاء کیوں لگا او رکیوں آئین کبھی منسوخ او رکبھی معطل ہوئے؟ میں اس وقت اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتا، لیکن 1977ء کے واقعات کا ذکر ضرور کرنا چاہتا ہوں، جس کے نتیجے میں موجودہ مارشل لاء لگانا پڑا اور 1973ء کا آئین معطل کردیا گیا۔ سب کہتے ہیں ، او رکسی حد تک بجا کہتے ہیں کہ یہ آئین عوام کے منتخب نمائندوں کا بنایا ہوا تھا او راس پر تمام سیاسی جماعتوں اور گروہوں نے مہر تصدیق ثبت کی تھی۔ اس آئین پر عملدرامد کرانے والی حکومت بھی جمہوریت حکومت کہلاتی تھی اگریہ سب کچھ درست ہے تو کیا وجہ ہے کہ 1977ء میں جب ملک بحران سے دوچار ہوا تو یہ آئین اس بحران کا کوئی حل پیش نہ کرسکا؟''
''اصل نکتہ یہ ہے کہ 1973ء کے آئین کے تحت وزیراعظم اور صدر مملکت کے اختیارات میں زبردست عدم توازن پایا جاتا تھا اور اسی عدم توازن سے 1977ء کا بحران او رگہرا ہوگیا۔''
''میں نے اب تک جو گفتگو کی ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ ہمیں ایسے آئین اور نظام حکومت کی ضرورت ہے جس کے خدوخال شریعت سے عین مطابقت رکھتے ہوں، قائداعظم محمد علی جناح کے تصورات کے آئینہ دار ہوں او راس کے علاوہ دور حاضرہ کے تقاضوں پربھی پورا اترتے ہوں۔''
''(ہمارے سامنے) تیسرا (راستہ) یہ(ہے) کہ (1973ء کے) آئین میں ضروری ردّوبدل کرکے اسے نافذ کردیا جائے!'' 2
قارئین کرام، سردست ہم آئین سے متعلقہ انہی نکات پر اکتفاء کرتے ہوئے ان کو زیر بحث لانا چاہتے ہیں۔
ان نکات پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی، ان میں پائے جانے والے انتہائی واضح تضادات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بہترین دماغی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے بڑی مہارت اور حکمت عملی سے پہلے تو نعرہ کی حد تک ''ہمارا دستور قرآن ہے!'' کا حق ادا کردیا گیا ہے ۔ پھر سنت رسول اللہ ﷺ کو دل و جان سے محبوب رکھنے والوں کے جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ پھر آپؐ ہی کی اتباع کے حوالہ سے، بڑے غیر محسوس طریقہ سے، آئین سازی کی ضرورت کی طرف پیش رفت ہوئی ہے۔ پھر 1973ء کے دستور کو 1977ء کے بحران کے حل کرنے میں ناکام ثابت کرتے ہوئے اس میں ترمیم کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ اس کے بعد ایک ایسے آئین کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے جو کہنے کی حد تک تو ''شریعت سے عین مطابقت رکھتا'' ہوگا لیکن درحقیقت ''دور حاضر کے تقاضوں پر اسے پورا اتارنے'' کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے، دائمی، ابدی اور غیر متبدل شریعت میں ترمیم و تحریف کے دروازے کھولنے میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں کیا گیا۔ لیکن چونکہ یہ بات ان کے بقول ''ملک و قوم کو غیر آئینی حالات سے دوچار کرنے'' کے مترادف تھی (نہ کہ اللہ رب العزّت کی ناراضگی کا سبب) لہٰذا بالآخر 1973ء کے آئین کو صحیفہ آسمانی سمجھنے والوں کے زخموں پ رمرہم رکھتے ہوئے بڑی حکمت سے اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت پر استدلال کیا گیاہے۔ چنانچہ اس میں کی جانے والی ترامیم کا اعلان بھی ہوچکا ہے۔ اگرچہ ان ترامیم کا مقصد صدر اور وزیراعظم کے اختیارات میں توازن قائم کرنا ہے ، لیکن ہماری نظر میں ان ترامیم کے باوجود عدم توازن کا خدشہ برقرار رہے گا، ہاں صورت حال برعکس ضرور ہوجائے گی کہ پہلے اگر صدر ، وزیراعظم کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی کا درجہ رکھتا تھا، تو اب وہی حیثیت وزیراعظم کی صدر کے سامنے ہوگی۔
تاہم سوال یہ ہے کہ جب مسلمانوں کا دستور (قرآن مجید) مرتب و متعین ان کے ہاتھوں میں موجود ہے، او رمسلمان کسی دستور کو مرتب کرنے کا حق بھی نہیں رکھتے، تو رسول اللہ ﷺ کی اتباع کے حوالہ سے اس کام (دستور سازی) کی ضرورت کا احساس کیوں دلایا جارہا ہے؟ کیا ان دونوں باتوں میں واضح تضاد موجود نہیں ہے۔؟ کیا دوسری بات پہلی بات کی مکمل تردید نہیں کررہی؟ او رکیا پہلی بات غلط ہے یا دوسری؟ پھر اگرملک میں بار بار مارشل لاء لگتا رہا ہے، آئین معطل یا منسوخ ہوتے رہے ہیں، حتیٰ کہ 1977ء کا وہ دستور بھی، جس پر تمام سیاسی جماعتوں اور گروہوں نے مہر تصدیق ثبت کی تھی اور جو عوام کے منتکب نمائندوں (جمہوریوں کے نزدیک منزل من اللہ ) کا بنایا ہواتھا، 1977ء کے بحران کا کوئی حل پیش نہ کرسکا اور نہ ہی 12۔ اگست کو وہ ترمیمات کے بغیر جنرل صاحب کے کسی کام آسکا ہے۔ چنانچہ آج وزیراعظم اور صدر کے اختیارات میں توازن قائم کرنے کے لیے اس میں ترمیم کا اعلان بھی کیا جاچکا ہے، تو کون یہ ضمانت دے سکتا ہے کہ کل کے بدلتے ہوئے حالات کے تحت، اس میں مزید ترامیم کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، خصوصاً جبکہ اس سلسلہ میں ہم ایک خدشہ کا اظہار کر بھی چکے ہیں؟ ہم برملا یہ کہتے ہیں کہ آئین سازی مخلوق کے بس کا روگ ہی نہیں ہے او رنہ ہی مسلمانوں کو اس درد سری کی ضرورت ہے۔ آئین ساز صرف اللہ رب العزّت کی ذات ہے ، جس کو تاقیامت پیش آنے والے حالات و ضروریات کا مکمل علم ہے اور قرآن مجید اسی غلاّم الغیوب کا وہ پاک کلام ہے جو ہر دور میں مسلمانوں کی مکمل راہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکتا ہے او راس میں کسی بھی ترمیم کی کبھی کسی کو ضرورت پیش نہیں آئے گی، او رنہ ہی کسی میں یہ جرأت ہے، کیونکہ اس کی حفاطت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لے رکھا ہے۔ یہی مسلمانوں کا دستور ہے۔ لہٰذا پہلی بات ہی درست ہے کہ:
''مسلمانوں کا دستور مرتب و متعین ان کے ہاتھوں میں موجود ہے اور وہ ہے قرآن مجید'' .......... اور :
''مسلمان کسی دستور کو خود مرتب کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے!''
لیکن افسوس ، کہ اس ٹھوس حقیقت کو ، اعتراف کے باوجود، محض نعرہ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
پھر یہ دستور ایسا دستور ہے کہ اس کی متعین تعبیر بھی سنت رسول اللہﷺ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ گو یا کتاب و سنت (یعنی شریعت) کی عملداری ہی قرآن مجید کو واحد دستور ماننے کا اوّلین تقاضا ہے، نہ کہ سنت سے، اتباع کے نام پر، آئین سازی کا استدلال کرتے ہوئے رسالت کے تحت پر خود متمکن ہوجانے کی اس میں کوئی گنجائش موجود ہے۔3
چنانچہ اوّلاً تو یہ بات ہی علط ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود کوئی آئین وضع کیاتھا، کیونکہ آئین تو شریعت ہے اور صاحب شریعت ، شریعت کی اتباع خود کرتا اور دوسروں سے کرواتا ہے، اپنی طرف سے کوئی نئی شریعت ، نیا آئین ایجاد نہیں کرتا اور اگر ''میثاق مدینہ'' کےکسی مزعومہ واقعہ سے یہ مغالطٰہ ہو بھی تو ﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ﴿٣﴾ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ﴿٤﴾..النجم کے تحت یہ خود شریعت ہی کا حصہ ہوگا، اور جسے بجائے خود دستوری حیثیت حاصل ہے پھر آپؐ کا ایسا کرنا تو منصب نبوت کے سزاوار ہے، لیکن ہمارے لیے یہ نہ تو ممکن ہے نہ لائق، کہ رسالت کی اتباع میں کسی نئی رسالت کو جنم دے ڈالیں اور آپؐ کی اتباع میں خود رسالت کااعلان کردیں۔ پس صدر صاحب نے یہاں اتباع کا مفہوم غلط سمجھا ہے۔ اور قرآن مجید کی دستوری حیثیت تسلیم کرنے کے باوجود 1973ء کے دستور کو ترمیم کے ساتھ یا ترمیم کے بغیر نافذ کرنے کا نہ تو کوئی جواز موجود ہے او رنہ ہی اسے نفاذ اسلام کا نام دیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ہمارا دعویٰ ہے کہ نفاذ اسلام کی ایسی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ آزمائش شرط ہے۔
ہم نے گذشتہ شمارہ کے ''فکرو نظر'' کے صفحات میں اسی ضرورت پر زور دیا تھا کہ 14۔ اگست کےموقع پر قرآن مجید کی دستوری حیثیت کا اعلان کردیاجائے۔ یہ عہد کیا جائے کہ ہم اپنے جملہ امور قرآن مجید او راس کی واحد متعین تعبیر، سنت رسول اللہ (ﷺ) کی راہنمائی میں انجام دیں گے اور یہی اسلامی حکومت کی تشکیل کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ چنانچہ اگر ایسا ہوجاتا تو ان تضادات کا شکار ہونے کی نوبت نہ آتی۔
''جہاں کہیں کتاب و سنت کے احکام مفقود ہیں'' تو جنرل صاحب نے بجا ارشاد فرمایا کہ: ''ہمیں اجتہاد سے کام لینا چاہیے او راجتہاد کے دروازے مسلمانوں پر کھلے رہنے چاہیئں!'' تاہم اجتہاد کا یہ مفہوم درست نہیں ہے کہ کتاب و سنت ناقص ہیں، یا اجتہاد کے نام پر سنت کو تغیر و تبدل کا نشانہ بنایا جائے۔ کیونکہ مسلمانون کا (جدید دور کے چند متجددین کو چھوڑ کر) یہ اجماعی عقیدہ رہا ہے کہ سنت تاقیامت پیش آنے والے جملہ واقعات و احوال میں ہماری راہنمائی کرتی ہے۔ اس سلسلے میں بعض ائمہ کی مستقبل تصانیف بھی ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی مشہور تالیف ''معارج الوصول إلیٰ معرفة أن أصول الدین و فروعه قد بینها الرسول'' اسی موضوع پر مستقل تصنیف ہے۔لہٰذا اجتہاد کا مطلب کتاب و سنت کی وسعتوں اور راہنمائی کی تلاش ہے، کہ جب نئے پیش آمادہ مسائل میں کتاب و سنت کا حکم صریح نہ ہو تو غوروفکر سے کتاب و سنت کی راہنمائی خود کتاب و سنت سے تلاش کی جائے۔ اس لیے اس خیال سے اجتہاد کا دروازہ کھولنا کہ کتاب و سنت میں مکمل راہنمائی مفقود ہے، غلط ہے۔ اس سلسلہ میں معاذ بن جبلؓ کی جس روایت کا ذکر صدر صاحب نے فرمایا ہے وہ اہل روایت و درایت کے ہاں ثابت نہ ہے اور بعض لوگون کی اس غلط فہمی کا ازالہ جیل القدر ائمہ نے بہت پہلے سے کردیاتھا جن میں امام بخاری، ترمذی، دارقطنی، ابن حزم، ابن طاہر، ابن حجر، ابن جوزی، عقیلی، ذہبی، سبکی جیسے محدثین و فقہاء شامل ہیں۔
پس ان معنون میں آئین سازی کو اجتہاد قرار دینا غلط ہے۔ بلکہ اجتہاد یہ ہے کہ کتاب اللہ کو دستور جان کر، سنت کو اس کی ابدی تعبیر کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا اعلان کیا جائے او رجملہ حکومتی کام انہی کی روشنی میں انجام دیئے جائیں۔ اس سلسلہ میں جو ذیلی قوانین اور ادارہ جاتی ضوابط حکومت وضح کرے گی، ان کی حیثیت دستور کی نہیں ہوگی۔ بلکہ دستور کے تابع تدبیر و سیاست کی ہوگی ورنہ اگر اجتہاد کے نام پر آئین سازی یا آئین میں ترمیم کا دروازہ کھول دیا جائے تووہ کون سی من مانی ہے جو اجتہاد کے نام پر نہ ہوگی؟
یہی حال ان کے ارشاد ''ہمارا آئین قرآن و سنت پر مبنی ہونا چاہیے'' کا ہے کہ جب آپ خود قرآن مجید کے دستور ہونے کا اقرار کرچکے ہیں تو اس الگ آئین کی ضرورت کہاں باقی رہ گئی جو قرآن و سنت پر مبنی ہوگا۔
اسی طرح ہمیں آپ کی اس بات سے بھی اتفاق نہیں ہے کہ ''اسلامی نظام کے نفاذ کا عمل جاری رہے گا'' کہ یہ نظام تو چودہ سو سال قبل سے نافذ ہے۔ دراصل افرنگی سیاست کے تابع ایک طویل مدت گزارنے کی وجہ سے ہم یہ فرنگی تصور اسلام میں تسلیم کیے بیٹھے ہیں کہ قانون وضع کیا جاتا ہے پھر وہ نافذ العمل ہوتا ہے۔ حالانکہ اسلام اس تصور کو تسلیم نہیں کرتا۔ شریعت کا صحیح فکر یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب و سنت کی صورت میں اسے مکمل طور پر نافذ کررکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نماز روزہ کرتے ہیں، فریضہ حج ادا کرتے او رزکوٰة دیتے ہیں۔ نکاح و طلاق بھی شرعی احکامات کے تحت انجام دیتے ہیں اور تجارت و اقتصاد میں حرام و حلال کا امتیاز بھی روا رکھتے ہیں۔ اگرچہ حکومت کی حد تک یہ بات تسلیم کرنے کا اعلان باقی ہے کہ اس کے نزدیک کتاب و سنت کو (واقعتاً) دستوری حیثیت حاصل ہے۔
پس ہمارا کام اس نظام کو نافذ کرنا نہیں۔ بلکہ پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کے لیے ضرورت صرف کتاب و سنت کی دستوری حیثیت کے اعلان کے بعد پاکستان میں اس کی عملداری کی ہے۔جس کے لیے ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ صدر صاحب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور اگر ایسا ہوگیا تو آپ کا یہ کارنامہ تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ پھر جہاں تک آخرت کا تعلق ہے تو ''واللہ عندہ اجر عظیم'' یقین فرمائیے ، آپ کے خلوص کے پیش نظر ہمیں اسی کی آپ سے توقع بھی ہے اور یہی ان سطور کو احاطہ تحریر میں لانے کا مقصد بھی ہے کہ ع
ایں کا راز تو آید مرداں چنیں کنندا
وما علینا إلاالبلاغ
حوالہ جات
1. بحوالہ تقریر نواب بہادر یار جنگ و قائداعظم
2. روزنامہ ''مشرق'' بعنوان ''آئینی و سیاسی مسائل پر صدر مملکت کی 12۔ اگست کی تقریر کا مکمل متن''
3. واضح رہے کہ اسلام انسانی زندگی کو ایک وحدت قرار دیتاہے جس میں مذہب و سیاست کی کوئی تقسیم نہیں، اس لیے اس کا دستور زندگی قرآن کریم ہے جس کا تفصیلی نقشہ رسول اکرم ﷺ نے سنت کی صورت میں پیش کردیاہے۔ وہ نقشہ اس وقت تک قرآن مجید کا واحد نقشہ شمار ہوگا جب تک آپؐ کی رسالت موجود ہے، لہٰذا جو لوگ کتاب و سنت کے دستوری تعطل کی نشاندہی کے بغیر آئین سازی کے قائل ہیں، وہ دراصل ریاست و حکومت کو رسالت کی حیثیت دیتے ہیں۔ مسٹر غلام احمد پرویز نے سنت کو ایک وقتی چیز قرار دے کر نئی حکومت کو سنت میں ترامیم یا نئی آئین سازی کا جو اختیار دیا ہے، وہ اسے رسالت ہی کا نام دیتے ہیں اور اتباع کا یہی مفہوم پیش کرتے ہیں، حالانکہ اتباع کے معنے یہ ہیں کہ سنت رسولؐ اللہ کو ابدی حیثیت سے مان کر اس کی اتباع کو لازم قرار دیا جائے۔ جس میں کسی تغیر و تبدل کی گنجائش نہ ہو۔ مثلاً اگر ''میثاق مدینہ'' کا کوئی وجود تسلیم کرلیا جائے (جس کا حوالہ جنرل صاحب نے دیا ہے) تو دیکھنا ہے کہ وہ سنت کا حصہ ہے ، تو اس کی حیثیت بھی ابدی ہوگی۔ گویا اس کی اتباع کرتے ہوئے کسی نئی قانون سازی کا جواز پیدا نہیں کیا جاسکتا۔جبکہ صورت حال یہ ہےکہ اوّلا تو ''میثاق مدینہ'' کا کوئی وجود نہ ہے۔ البتہ سیرت ابن ہشام میں رسول اللہﷺ کا انصار و مہاجرین کے لیے مواخاة کا ایک فرمان ملتا ہے۔ جس کی اگر کوئی حیثیت ہے تو ایک اعلامیہ کی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے جاری فرمایا اور جس نے اسے تسلیم کرلیا وہ آپؐ کا حلیف قرا رپایا۔اس اعلامیے سےقبل کسی قبیلے یا علاقے کے کسی نمائندے سے بات چیت ہوئی ہے او رنہ کسی کے اس پر دستخط ہیں۔لہٰذا اسے میثاق قرار دینا بالکل غلط ہے۔ خصوصاً جبکہ مبینہ فرمان جسے غلط طور پر ''میثاق'' کے لفظ سے بعض جدید مورکین نے ذکر کیا ہے، ثابت نہ ہوسکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابن کثیر نے ''البدایہ والنہایہ'' میں اس فرمان رسول اللہ ﷺ کو تفصیل سے ذکر کرکے اس پر امام ابوعبید قاسم بن سلام صاحب ''کتاب الاموال'' و ''غریب الحدیث ''کی جرح نقل کی ہے۔