برصغیر پاک و ہند میں علم حدیث اورعلمائے اہل حدیث کی مساعی

شیخ نور الدین احمد آبادی : (م1155ھ)
آپ کا نام محمد صالح ہے۔ 1064ھ میں احمد آباد گجرات میں پیدا ہوئے۔ممتاز علمائے وقت سے تحصیل تعلیم کے بعد حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ آپ صاحب تصانیف کثیرہ ہیں۔
حدیث کی خدمت اور نشرواشاعت میں آپ کی گرانقدر خدمات ہیں۔نور القاری کے نام سے بخاری شریف کی شرح لکھی ۔1
1155ھ میں 91 سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی۔2

شیخ محمد افضل سیالکوٹی : (1146ھ)
حضرت شیخ محمد افضل سیالکوٹی مخدوم شیخ عبدالاحد کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ حضرت امام ولی اللہ دہلوی (م1176ھ) اور حضرت مرزا مظہر جانجان شہید (م1195ھ) کا آپ کے سلسلہ تلمذ میں ہونا آپ کی افضلیت اور اسم بامسمّٰی ہونے کی بیّن دلیل ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ (م1176ھ) فرماتے ہیں:
ترجمہ: ''اور مجھ کو اجازت دی مشکوٰة المصابیح اور صحیح بخاری وغیرہ صحاح ستہ کی معتمد ثابت القول حاجی محمد افضل نے شیخ عبدالاحد سے انہوں نےاپنے والد شیخ محمد سعید سے، انہوں نے اپنے دادا شیخ طریقت شیخ احمد سرہندی سے ان کی سند طویل مذکور ہے۔''3

مولانا سید عبدالحئ (م1341ھ) لکھتے ہیں:
''ہندوستان میں جن بزرگوں نے علم حدیث کی نشرواشاعت کی ہے، ان میں شیخ محمد افضل سیالکوٹی بھی ہیں۔ یہ شیخ عبدالاحد سرہندی بن محمد سعید کے ممتاز شاگردوں میں ہیں۔ انہوں نے فن حدیث کی تحصیل ان سے کی۔ پھر یہ حجاز تشریف لے گئے او روہاں شیخ سالم مکی بن عبداللہ البصری سے مزید اس فن کو حاصل کیا۔پھر ہندوستان واپس آئے اور دارالسلطنت دہلی میں درس حدیث کی مسند بچھائی۔''4 1146ھ میں ان کا انتقال ہوا۔

حضرت مرزا مظہر جانجان شہید (م1195ھ)
1110ھ میں آپ کی ولادت ہوئی۔نام شمس الدین بن حبیب اللہ ہے۔مظہر تخلص تھا۔مولانا السید نواب صدیق حسن رئیس بھوپال (م1307ھ) لکھتے ہیں:
''شیخ شمس الدین علوی المعروف مرزا مظہر جانجان جو امام محمد بن حنیفہ کی اولاد میں سے تھے۔ فن حدیث میں حاجی محمد افضل سیالکوٹی کے شاگرد تھے۔ اتباع سنت میں آپ کا پایہ بہت بلند تھا۔ آپ تشہید میں مسجہ کے قائل تھے او رنماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر باندھتے تھے اور قراء ت فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے۔''5

مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی (م1176ھ) لکھتے ہیں:
''حضرت مرزا مظہر جانجان کے مقابلہ میں کوئی ایسا بزرگ نظر سے نہیں گزرا جو ان کی طرح جادہ شریعت اور طریقت پراو رکتاب و سنت کی پیروی میں ان کی طرح استوار و مستقیم ہو۔''6

مولانا سیدابوالحقن علی ندوی لکھتے ہیں:
''حضرت مرزا مظہر جانجان شہید (م1195ھ) جنہوں نے 35 سال تک اپنے انفاس قدسیہ سے دلوں کو گرم و منور رکھا اور دارالسلطنت دہلی میں عشق کا زور بازار اپنے عروج پر رہا۔''7

توحید و سنت کی اشاعت اور علم حدیث کی ترقی و ترویج میں آپ کی گرانقدر علمی خدمات کا ہر پڑھا لکھا معترف ہے اور آ پ کے فیض عام کو دیکھ کر ان کے مسترشد مولانا خالد رومی کا فارسی کا یہ شعر بالکل واقعہ کی تصویر ہے۔ ؎

خبر از من وہیدآں شان خوباں رابہ پنہانی
کہ عالم زندہ شد باردگراں از ابر نیسانی!


آپ کا سن وفات 1195 ھ ہے۔

امام الہند حکیم الامة بقیة السلف حجة الخلف حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی : (م1176ھ)
حضرت شاہ ولی اللہ4 شوال1114ھ (10 فروری 1703ء) میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت شاہ عبدالرحیم (م1131ھ) کے فرزند ارجمند تھے، ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔

جیسا کہ حضرت شاہ صاحب خود لکھتے ہیں:
''وأما العلوم الظاھرة من التفسیر والحدیث والفقه والعقائد والنحو و الصرف والکلام والأصول والمنطق من سیدي الوالد رضي اللہ عنه''8

حضرت والد بزرگو کے علاوہ حضرت شیخ محمد افضل سیالکوٹی (م1146ھ) حاجی محمد فاضل سندی (م1145ھ) شیخ ابوطاہر کردی (م1145ھ) سے جملہ علوم و فنون میں تعلیم حاصل کی جیسا کہ حضرت شاہ صاحب لکھتےہیں:
''باجازت عامہ روایت حدیث از مولانا محمد افضل سیالکوٹی گرفتند و بریں ہم قانع نگر دیدہ در مدینہ منورہ علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام تشریف بردند تجدید اجازت از ابوطاہر بن ابراہیم کردی المدنی نمودند''9

17۔ سال کی عمر میں تکمیل تعلیم سے فارغ ہوئے اور اس کے بعد آپ نے مسند تدریس سنبھالی۔ صاحب ''تراجم علمائے حدیث ہند'' لکھتے ہیں:
''حضرت حجة اللہ شاہ ولی اللہ نے ظاہری و باطنی تکمیل کے بعد اپنے والد ماجد مولانا شاہ عبدالرحیم کے قائم کردہ مدرسہ رحیمیہ میں تدریس شروع کی۔ ہندوستان اور بیرون ہند کے طلباء شریک درس رہے کہ لوٹنے کے بعد جن میں کا ایک ایک فرد مسند تدریس و افتاء کا مالک بنا، ان میں سے ان حضرات کے نام معلوم ہوسکے ہیں۔

بیہقی وقت علم الہدیٰ قاضی ثناء اللہ پانی پتی، علامہ سید مرتضیٰ بلگرامی زبیدی، مولانا شاہ رفیع الدین مراد آبادی، مولانا خیر الدین سورتی، مولانا مخدوم لکھنوی ابن حافظ محمدنواز بن مولوی عبدالسمیع بن سید محی الدین المشہدی، مولانا سید جمال الدین رامپوری، مولوی محمد عبداللہ خاں رامپوری، مولوی محمد سعید خاں، جداعلیٰ مولانا نجم الغنی، صاحب اخبار الصناوید رامپوری، شیخ جار اللہ بن عبدالرحیم لاہوری ثم المدنی، مولانا محمد معین بن مولانا محمد امین، صاحب دراسات اللبیب، مولانا شاہ محمد عاشق پھلتی، سید جمال الدین رامپوری خلیفہ و داماد حضرت سید احمد شہید بریلوی ۔''10

تصانیف :
درس و تدریس کے ساتھ ساتھ حضرت شاہ صاحب تصنیف و تالیف میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ آپ کی عربی و فارسی تصانیف تقریباً70 کے قریب ہیں۔ جن کی تفصیل یہ ہے:
عربی فارسی میزان
قرآن و متعلقات قرآن 2 2 4
حدیث و متعلقات حدیث 5 2 7
فقہ حدیث و حکمت دین 1 ۔۔ 1
کلام 2 ۔۔ 2
اصول فقہ 1 ۔۔ 1
اختلاف الفقہاء 1 ۔۔ 1
تصوف 4 9 13
سیرو سوانح ۔۔ 3 3
مکتوبات 1 4 5
صرف ۔۔ 1 1
قصائد 1 ۔۔ 1
دیوان 5 22 27
متفرفات 23 43 66

حضرت شاہ صاحب کی تصانیف میں سب سے زیادہ مشہور کتاب حجة اللہ البالغہ ہے۔ اس کے متعلق حضرت نواب صدیق حسن خاں (م1307ھ) لکھتے ہیں:
''ایں کتاب اگرچہ در علم حدیث نیست آما حدیث بسیار دراں (درج) کردہ حکم اسرار بیان نمودہ تا آنکہ درفن مبسوق علیہ واقع شدہ و مثل آں دریں دروازہ صد سال ہجری ہیچ یکے از علمائے عرب و عجم تصنیفے موجود نیامدہ''11

''حجة اللہ البالغہ جس میں انہوں نے (شاہ صاحب) نے شریعت کے حقائق و اسرار بیان کیے ہیں، درحقیقت علم کلام کی روح رواں ہے۔ علم کلام درحقیقت اس کا نام ہے کہ مذہب اسلام کی نسبت ثابت کیا جاوے کہ وہ منزل من اللہ ہے۔ مذہب دو چیزوں سے مرکب ہے۔ عقائد و احکام، شاہ صاحب کے زمانے تک جس قدر تصنیفات لکھی جاچکی تھیں صر ف پہلے حصے کے متعلق تھیں، دوسرے حصے کوکسی نے مس نہیں کیا تھا۔ شاہ صاحب پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس موضوع پرکتاب لکھی ہے۔12


حوالہ جات
1. سیرۃ البخاری ، ص229
2. تاریخ اہلحدیث، ص397
3. القول الجمیل
4. اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں، ص198، ص229
5. ابجد العلوم۔
6. کلمات طیبات ص164
7. تاریخ دعوت و عزیمت جلد4 ص366
8. القول الجمیل ص116
9. ازالۃ الخفاء
10. تراجم علمائے حدیث ہند
11. اتحاد النبلاء
12. رود کوثر مطبوعہ لاہور فیروز سنز ص567