يوم آزادی کا اِعلان ہمارا دستور قرآن ہے!

14۔اگست کے موقع پر حکومت کی جانب سے نئے سیاسی ڈھانچے کا اعلان متوقع ہے او راخبارات میں اس سلسلہ کے ظن و تخمین، قیاس آرائیوں، سیاسی پیشگوئیوں اور تجاویز پر مشتمل خبریں اور بیانات شائع ہورہے ہیں۔ چنانچہ امیر جماعت اسلامی کا خیال ہے کہ:
''ذات برادری کی بنیاد پر لوگ اگر منتخب ہوکر اسمبلیوں میں آئے تو انتخابات کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔''

اور اس طرح !
''حکومت نے نشاندہی کردی ہے کہ وہ اقتدار نہیں چھوڑنا چاہتی۔''

کالعدم جمعیت العلمائے اسلام درخواستیں گروپ کے سیکرٹری جنرل نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کی مخالفت کرتے ہوئے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ:
''نئے سیاسی ڈھانچے میں سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد ہونے کا امکان ہے۔''

قومی کونسل برائے شہری آزادی کے سیکرٹری جنرل نے یہ اطمینان دلایا ہے کہ:
''انتخابات کے لیے عبوری حکومت کے قیام سے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوگی!''

اور مجلس شوریٰ کی خصوصی کمیٹی نے پارلیمانی طرز حکومت کو ملک کے لیے موزوں قرار دیتے ہوئے :
''عام انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرانے کی سفارش کی ہے۔''

جبکہ کالعدم تحریک استقلال کے قائم مقام سربراہ نے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ:
''کالعدم تحریک استقلال ایم ۔آڑ ۔ڈی کے اجلاسوں میں شرکت کرے گی۔''

پیشگوئی فرمائی ہے کہ:
''بلدیاتی انتخابات فراڈ ہیں!''

اور مشورہ دیا ہے کہ:
''اسلامی مشاورتی کونسل توڑ دی جائے!'' اور ''ملک میں فوراً جمہوری عمل بحال کیا جائے!'' 1

یہ اس اسلامی مملکت کے سیاستدانوں کے بیانات ہیں ، جس کی دیواریں ''لا إلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ'' کی بنیادوں پر اٹھائی گئی تھیں، جس کے قیام کے وقت ہر مسلمان مرد و عورت، بچے اور بوڑھے کی زبان پر یہی ایک نعرہ تھا جس کے حصول کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دی گئیں، آگ اور خون کے دریا عبور کیے گئے، ہزاروں لاشے تڑپے، جائیدادیں لٹا دی گئیں اور یہ سب کچھ اس لیے کہ اس خطہ سرزمین میں بسنے والے، اللہ رب العزّت کی منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کرسکیں او ریہ کہ اس مملکت خداداد کا دستور اللہ کا قرآن ہوگا، وہی قرآن مجید جس نے ایک اسلامی مملکت میں بسنے والوں کی یہ صفات گنوائی ہیں:
﴿ٱلَّذِينَ إِن مَّكَّنَّـٰهُمْ فِى ٱلْأَرْ‌ضِ أَقَامُواٱلصَّلَو‌ٰةَ وَءَاتَوُاٱلزَّكَو‌ٰةَ وَأَمَرُ‌وابِٱلْمَعْرُ‌وفِ وَنَهَوْاعَنِ ٱلْمُنكَرِ‌...﴿٤١﴾...سورۃ الحج
کہ ''(اللہ کے بندے وہ ہیں) جن کو ہم اگر زمین میں جگہ دیں تو وہ نمازیں قائم کرتے، زکوٰة ادا کرتے، نیکی حکم دیتے او ربُرائی سے منع کرتے ہیں۔''

جس نے یہ تنبیہ فرمائی تھی کہ:
﴿مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَٱتَّقُوهُ وَأَقِيمُواٱلصَّلَو‌ٰةَ وَلَا تَكُونُوامِنَ ٱلْمُشْرِ‌كِينَ ﴿٣١﴾ مِنَ ٱلَّذِينَ فَرَّ‌قُوادِينَهُمْ وَكَانُواشِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِ‌حُونَ ﴿٣٢...سورۃ الروم
''اللہ کی طرف رجوع کرنے والے (ہوکر رہو) اسی سے ڈرتے رہو، نمازیں قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہوجاؤ کہ جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا او رٹکڑے ٹکڑے ہوگئے (او راب حالت یہ ہے کہ) ہر گروہ ، جوکچھ اس کے پاس ہے، اسی پرنازاں ہے۔''

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کےحصول کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے والے اب متعدد گروہوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں اور بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔اگرچہ نعرہ سب کا ایک ہی ہے، لیکن یہ اسی نعرہ سے مختلف ہے جو قیام پاکستان کے وقت لگایاگیا تھا۔ جی ہاں، یہ آج سے چھتیس برس پہلے کی بات ہے جب فضائیں ''پاکستان کا مطلب کیا؟ '' '' لا الٰہ الا اللہ!'' سے گونج رہی تھیں، اب ہر طرف سے ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے۔ ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھ رہا ہے:

''انتخاب، انتخاب، انتخاب!''
گویا ان کے نزدیک یہی حاصل زندگانی ہے، مرتے وقت یہی کلمہ ان کی زبانوں پر جاری ہونا چاہیے، قبر میں منکر نکیر یہی سوال ان سے کریں گے، حشر کی جان لیوا او رنازک گھڑیوں میں یہی نعرہ ان کی مشکلات کو آسان بنائے گا، میزان عمل میں اسی پرچی کا وزن گناہوں کے پلڑے پر بھری ہوگا جس پرانتخاب کا نعرہ درج ہوگا۔ اللہ رب العزّت، انتخابات کی آن پر مرمٹنے یا اس سے روگردانی کا ہی سب سے پہلا سوال ان سے کریں گے۔ یعنی ؎
روز محشر کہ جاں گداز بود ........ اوّلین پرسش ''انتخاب'' بود

غرض نامہ اعمال اسی کو داہنے ہاتھ میں ملے گا، پلصراط کو بسلامت وہی عبور کرسکیں گے او رجنت میں داخلہ کا ٹکٹ صرف انہیں ملے گا جنہوں نے جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے تھے یا مملکت خداداد پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے 14۔ اگست کو تحریک چلائی تھی او رانہی سرتوڑ کوششوں میں انہوں نے اپنی جانیں جاں آفرین کے سپرد کردی تھیں ؎


یہ رتبہ بلندملا جس کو مل گیا ........ ہر مدّعی کے واسطے دار و رسن کہاں


إنا للہ وإنا إلیه راجعون!
موجودہ دور کی اسلامی تحریکوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی ابتداء میں یہی نعرہ سرفہرست دکھائی دیتا ہے کہ:
''قرآن ہمارا دستور ہے''

لیکن جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے او ریہ تحریکیں اقتدار سے ہم آغوش ہونے لگتی ہیں، اسی قدر اس نعرہ کو بلند کرنے والوں کے گلے رندھتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ کامیابی کے بعد عملی زندگی میں اس سےاس طرح بے اعتنائی برتی جاتی ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب علمی سطح پر بے شمار شبہات و ملحدانہ نظریات سے اس کی تردید و تاویل کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

پاکستان کی چھتیس سالہ تاریخ بھی اسی طرز عمل سے عبارت ہے۔ تشکیل پاکستان کے بعد اس نعرہ کو یکسر فراموش کرکے تقریباً ہر دور میں جمہوریت کےراگ الاپے گئے، اور یا پھر جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کرنے کی سرتوڑ کوششیں ہوتی رہیں، نتیجہ یہ ہواکہ خدا تو ویسے ہی نہ ملنا تھا کہ اس سے بغاوت کی ٹھان لی گئی تھی، وصال صنم بھی نصاب نہ ہوسکا۔جمہوریوں کو اس ملک میں مارشل لاء ، اسلامی سوشلزم، آمریت وغیرہ سب کچھ توملے، لیکن جمہوریت نہ مل سکی۔ طرفہ تماشا یہ کہ جمہوریت کا نعرہ بلند کرنے والی سیاسی جماعتوں کو، اپنی جماعتی سیاسی زندگی میں بھی اس کا تصور ڈھونڈے سے نہیں ملتا چنانچہ جمہوریت کا لازمہ انتشار و افتراق و تشقت، ان کا مقدر بن کر رہ گیا ہے۔ تاہم اعلانات و بیانات کی حد تک یہ نعرہ استعمال ضرور ہوتا رہا ہے (او راب بھی ہورہا ہے) مل کا مشرقی بازو کٹ گیا، لیکن بیہوشیوں کو ہوش نہ آیا۔ حتیٰ کہ تحریک نظام مصطفیٰ ؐ چلی، لیکن جب یہ تحریک کامیابی کی پہلی منزل سے ہمکنار ہوئی تو ''قرآن ہمارا دستور ہے'' کسی کو یاد بھی نہ رہا۔ چنانچہ کہیں سے فقہ حنفی یا فقہ جدید کے نفاذ کا آوازہ بلند ہوا، تو کسی کونےسے دوبارہ جمہوریت کی مدھرتانوں نے فضاؤں میں ارتعاش پیدا کرنا شروع کیا۔ اسی دوران حکومت کے ایوانوں سے یہ اعلان بھی سنائی دیا۔
''اسلام کا نعرہ ہر دور میں بلند کیا جاتا رہا ہے لیکن عملاً ایسا نہ ہوسکا، اب وہ وقت آگیا ہے کہ اس ملک میں کتاب و سنت کی حکمرانی ہوگی!''

تاہم سیاستدان اپنی بساط سیاست پر جمہوریت کے مُہرے سجا کر پھر سے اپنے پرانے کھیل میں مشغول ہوچکے تھے۔ ان حالات میں شریعت کی عملداری میں عملی تعاون تو کیا ہوتا حکومت اور سیاستدان ایک دوسرے سے کٹ کر رہ گئے او راب وہ مرحلہ درپیش ہے کہ حکومت یوم آزادی کے موقع پر کسی نئے سیاسی ڈھانچے کا اعلان کرنے والی ہے اور سیاستدان مضطرب ہیں کہ اس نئے سیاسی ڈھانچے میں ان کے لیے اپنی لیلائے اقتدار کے رخ زیبا کا ایک پر توجمال دیکھ لینے کےمواقع کس حد تک موجود ہیں!

حکومت اور سیاستدانوں کے ایک دوسرے سے کٹ کر رہ جانے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حصول اقتدار او رطوالت اقتدار کی دوڑ شروع ہوچکی ہے۔ اس دوران معاشرتی بدامنی، اخلاقی بے راہروی، فحاشی، لہو و لعب اور شرک و بدعات کو جس قدر فروغ حاصل ہوا ہے، اسے اگر سیاستدانوں اور حکومت کی ناگزیر ضرورت کہہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا تاکہ عوام کو ان کھلونون سےبہلایا جاسکے، سیاستدان الگ بیانات داغتے رہیں او رحکومت اطمینان سے اپنی دانست میں اسلام نافذ کرتی رہے۔ تاہم یہ صورت حال جلد ختم ہوسکتی تھی اگر ملک میں کتاب و سنت کی حکمرانی کے وعدہ کا صحیح معنون میں پاس کیا جاتا۔ چنانچہ لاہور ہائیکورٹ میں ملک کی ایک بڑی شخصیت ، جسے موجودہ قانون کو مسلمان بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، کے ایک حالیہ خطاب نے ان خوش فہمیوں کو بھی رفع کردیا ہے۔ یہ خطاب سعودی ناظم الامور کے ایک خطاب ، جس میں قرآن کو مسلمان حکومتوں کا دستور قرار دیا گیاتھا، کے بعد کیا گیا۔اس خطاب کا خلاصہ یہ ہے کہ:
''قرآن مجید اسلامی اصول و اخلاق ، فلسفہ اور وعظ کی کتاب ہے، جبکہ ہمیں حدود و تعزیرات اور دیگر پابندیوں کی بھی ضرورت ہے۔(2) لہٰذا معاشرے میں متعین اقدامات کے لیے ہمیں دستور و قانون خود وضع کرنا ہوگا۔''

2۔ کتاب و سنت کی تعبیر و تشریح میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ ہم تقلید کی بجائے اس رائے کو قانونی طور پر اختیار کریں گے جو ہماری عقل اور معاشرتی حالات سے مناسب ہوگی کیونکہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہے:
''کسی شخص کو میری رائے مع دلیل اس وقت اپنانی چاہیے ، جب اس کی تصدیق اس کی عقل کرتی ہو۔''

3۔ مروّجہ قانون و عرف کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اسلام انسانی فطرت سے مطابقت کا حامی ہے۔ اسلامی حکومت کا کام صرف یہی ہے کہ مروّجہ قانون و عرف میں جو چیز شریعت کے منافی ہو، اسے تبدیل کردے۔ چنانچہ امام شافعی نے اپنی کتاب ''الرسالہ'' میں مروّجہ قانون و عرف کی شریعت سے مطابقت او رمخالفت جانچنے کے اصول پیش کیے ہیں۔ تاہم یہ کام بھی علماء سے زیادہ بہتر وکلاء اور جدید قانون دان طبقہ کرسکتاہے، کیونکہ علماء کو مروّجہ قانون و عرف سے واقفیت نہیں!''

مذکورہ بالا خطاب کے ان حوالوں سے یہ اندازہ بآسانی ہوسکتا ہ ےکہ ''قرآن ہمارا دستور ہے'' کے نعرہ کو نہ صرف یکسر نظر انداز کردیا گیاہے، بلکہ اس سلسلہ میں وہ افسوسناک صورت حال بھی ہمارے سامنے ہے جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے یعنی علمی سطح پر بے شمار شبہات او رملحدانہ نظریات سے اس نعرہ کی تردید کی جارہی ہے او رواضح لفظوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ:

''قرآن مجید کو بطور دستور نہیں اپنایا جاسکتا کیونکہ
قرآن مجید اسلامی اصول و اخلاق، فلسفہ اور وعظ کی کتاب ہے، معاشرے میں متعین اقدامات کے لیے جدید انداز میں ہمیں دستور و قانون خود وضع کرنا ہوگا۔''

حالانکہ یہ نظریہ قرآن مجید سے انتہائی بے خبری کی دلیل ہے۔ قرآن مجید کو نہ صرف دستوری حیثیت حاصل ہے، بلکہ اسی قرآن مجید میں اللہ رب العزّت نے یہ تنبیہ بھی فرمائی ہے:
﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَ ﴿٤٤...سورۃ المائدہ
﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ ﴿٤٥...سورۃ المائدہ
﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَـٰسِقُونَ ﴿٤٧...سورۃ المائدہ

کہ ''جو کوئی اس چیز کےمطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے تو یہی لوگ کافر ہیں، یہی لوگ ظالم ہیں، او ریہی لوگ فاسق ہیں!''

قرآن مجید کا یہ مقام ملاحظہ ہو، جہاں یہ آیات مذکور ہیں، انکے سیاق و سباق میں نہ صرف قانون قصاص کا ذکر ہے بلکہ مذکورہ تین آیات کےعلاوہ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب فرماتے ہوئے : ''فاحكم بما انزل الله''اور ''فَٱحْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ'' کے الفاظ بھی وارد ہیں۔

بتائیے، یہ آیات کریمہ قرآن مجید کو محض فلسفہ و وعظ کی ایک کتاب قرار دے رہی ہیں، یااس کی دستوری حیثیت کا اعلان کررہی ہیں؟ یہی نہیں بلکہ ان ایات سے ، ''ہمیں دستور و قانون خود وضع کرنا ہوگا'' کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے کہ کتاب و سنت کے ہوتے ہوئے دستور سازی کی کوئی بھی کوشش قرآن مجید کی نظر میں کفر ، ظلم اور فسق کے زمرہ میں آئے گی۔

ستم ظریفی کی انتہاء تو دیکھئے ، ایک طرف قرآن مجید سے یہ ناواقفیت ہے اور دوسری طرف دعویٰ اتنا بڑا کہ:
''ہم تقلید کی بجائے اس رائے کو قانونی طور پر اختیارکریں گے جو ہماری عقل اور معاشرتی حالات سے مناسب ہوگی!''

تقلید کو تو خیر، ہم بھی جزوایمان نہیں سمجھتے، لیکن اس ''ہماری عقل''کا اندازہ لگائیے، جس کو قانونی طور پر اختیار کرکے ایک طرف تو خود شریعت ہونےکا درجہ دے دیا گیا ہے اور دوسری طرف یہ عقل امام ابوحنیفہ کے ایک قول کا مفہوم سمجھنے سے بھی قاصر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے، امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہے:
''کسی شخص کو میری رائے مع دلیل اس وقت اپنانا چاہیے، جب اس کی تصدیق اس کی عقل کرتی ہو!''

حالانکہ آپ نے جو بات بیان فرمائی ہے، وہ یہ ہےکہ:
'''کسی شخص کو میری رائے کے مطابق فتویٰ دینا اسی وقت درست ہے، جب وہ میری دلیل سےواقف ہو۔''

یہی حال امام شافعی کی کتاب''الرسالہ'' کےموضوع کو سمجھنے کا ہے۔ امام شافعی  نے اس کتاب میں مروّجہ قانون و عرف کی شریعت سے مطابقت او رمخالفت جانچنے کے اصول پیش نہیں کیے، کیونکہ اس وقت نہ کوئی وضعی قانون موجود تھااور نہ ہی یہ مسئلہ زیر بحث تھا بلکہ انہوں نے کتاب و سنت کا باہمی ربط و مطابقت اور ان دونوں کے فہم و تفقہ کےاصول اس میں بیان فرمائے ہیں:
لیکن اس کے باوجود دعویٰ یہ ہےکہ :
''مروّجہ قانون و عرف میں جو چیز شریعت کے منافی ہو اسے تبدیل کرنےکا کام علماء سے زیادہ بہتر وکلاء اور جدید قانون دان طبقہ کرسکتا ہے کیونکہ علماء کو مروّجہ قانون سے واقفیت نہیں!''

جبکہ وکلاء اور جدید قانون دان طبقہ کا حال یہ ہے کہ نہ قرآن مجید سے واقفیت ہے، نہ سنت کے معیار اور مفہوم سے شناسائی ہے ، نہ آئمہ کے اقوال و فرامین کامفہوم و محل وہ متعین کرسکتے ہیں۔

جہاں تک کتاب و سنت کی تعبیر و تشریح میں فقہاء کے اختلاف کا تعلق ہے تو یہ دستوری اختلاف نہیں۔ اس لیے فقہاء کی آراء کتاب و سنت کے فہم میں مفید ضرور ہیں، لیکن کتاب و سنت ان کی پابند نہیں کیونکہ فقہاء کے اجتہادات مختلف ہونے کی بناء پر فقہ کا متعدد ہونا سب کے نزدیک مسلّم ہے لیکن شریعت، جسے اسلامی مملکت کا دستور کہا جاسکتاہے، صرف ایک ہے اور وہ کتاب و سنت ہے۔ اگرچہ قرآن کریم کی بعض قراءتوں کا اختلاف ہے او راسی طرح بعض سنتوں کی تصحیح و تضعیف کا بھی اختلاف ہے۔لیکن یہ اختلاف اتنا نادر ہے جس کا کتاب و سنت کی دستوری حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا جبکہ کتاب و سنت کے بعد مجتہدین کی آراء کو بھی اگر دستوری حیثیت دے دی جائے تو وہی مشکل پیش آئے گی جو آج دستور قانون کے وضع کرتے وقت مسلمان حکومتوں کو درپیش ہے، حالانکہ بنیادی غلطی یہ ہےکہ وہ نام شریعت کا لیتے ہیں لیکن نافذ کرنے کے لیے اپنے سامنے ائمہ کی فقہ یا جدید آراء کورکھ لیتے ہیں۔گویا انسانی کوششوں کو شریعت کامقام دینے کے لیے یہ تگ و دو ہوتی ہے جس کا نتیجہ اختلافات او رانتشار کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے او رمخالفین کو یہ طعن دہرانے کا موقع ملتا ہے کہ کسی حکومت کےلیے دین و مذہب کو دستوری حیثیت دیئے جانے کا تصور غلط ہے۔

فقہی مسائل میں اختلاف کے باوجود کتاب و سنت کی دستوری حیثیت متاثر نہ ہونے کے سلسلہ میں بطور مثال حضرت عمرؓ کے دور کے اس واقعہ کا تذکرہ مناسب ہوگا جب آپؓ نے حق مہر کومحدود کرنےکا ارادہ فرمایا تو ایک بڑھیا نے اٹھ کر اپؓ کو ٹوک دیا:
''امیرالمؤمنین! اللہ رب العزّت نے قرآن مجید میں ''وآتيتم إحداهن قنطارا'' کے الفاظ ذکرفرمائے ہیں، پس جب قرآن مجید نے حق مہر کو محدود نہیں فرمایا تو آپ اس کی تحدید فرمانے والے کون ہوتے ہیں؟''

چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس بڑھیا کی دلیل کو قبول کرتےہوئےاپنے فیصلے سے رجوع فرما لیا۔

اسی طرح مجتہدین کی آراء کو دستوری حیثیت نہ دے سکنے کے سلسلے میں امام مالک کے اس رویہ کا حوالہ دیا جاسکتا ہے ، جو پہلے منصور او رپھر ہارون الرشید کی اس پیشکش کے جواب میں تھا کہ ''فقہاء کے اختلاف کے پیش نظر مناسب ہوگا کہ ان کی کتاب مؤطا کو دستوری حیثیت دے دی جائے'' لیکن امام مالک نے دونوں حیثیتوں سے اپنی اس تالیف کو دستور بنانے سےاتفاق نہ کیا۔ایک دفعہ یہ جواب دیا کہ میری کتاب جملہ سنن و احادیث کا احاطہ نہیں کرتی اور دوسری دفعہ یہ جواب دیاکہ فقہاء مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کوکسی رائے کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی مؤطا میں فقہاء کے جو فتاویٰ مذکور ہیں، ان کی پابندی سب پر لازمی نہیں۔3

مختصراً اس خطاب کے مذکورہ نکات پر تبصرہ یوں کیاجاسکتا ہے کہ:
''لا إلٰه إلا اللہ'' کا معنی یہ ہے کہ عبادت و اطاعت صرف اللہ کی ہے، جبکہ سیاستدانوں نے عبادت کو تو عوام کا نجی معاملہ قرار دیا (جیسا کہ حال ہی میں اس سلسلہ کے دو اخباری بیانات سامنے آئے ہیں کہ''نماز روزہ عوام کا ذاتی مسئلہ ہے'' اور دوسرے بیان میں ایک خاتون لیڈر نے یہ کہا ہے کہ ''امیدواروں کے لیے صوم و صلوٰة کی پابندی بے معنی ہے، ان کا مسلمان ہونا کافی ہے۔'' یعنی ان کے نزدیک مسلمانی صوم و صلوٰة کے بغیر، الگ کوئی چیز ہے) اور اطاعت کا حق اپنے لیے مخصوص کرلیا۔ وہ یوں کہ دستوری حیثیت صرف اس چیز کو حاصل ہے جسے اسمبلی پاس کرے۔

پھر اگر معاملہ یہیں تک محدود رہتا کہ اسمبلی کا اصل مشن شریعت کی صحیح تعبیر اور موجودہ حالات پر اس کی تطبیق ہے تو بات کسی حد تک قابل فہم تھی، لیکن سیاستدانوں نے اپنے اس حق پر اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے کتاب و سنت کا علم رکھنے والے کو تعبیر شریعت کے حق سے یوم محروم کردیا کہ اسے جدید تقاضوں اور جدید معاشرہ کے مسائل سے واقفیت نہیں اور چونکہ دستور سازی میں اصل اہمیت عصری حالات اور عرف کو ہے، اس لیے کتاب و سنت کا عمل رکھنے والا کسی اجتہاد کا اہل نہیں۔ گویا اوّلاً تو قرآن مجید کو دستور بنانا غلط ہے اور دوسرے اس کی تعبیر وہ لوگ نہیں کرسکتے جنہوں نےفہم قرآن اور اس کے متعلقہ علوم پر زندگیاں صرف کی ہیں۔ تیسرے دستور میں اصل اہمیت فہم قرآن کونہیں، جدید معاشرے کو ہے۔ وہی جدید معاشرہ، جس میں پروان چڑھنے والے ایک بہترین دماغ کا نمونہ آپ مندرجہ بالا سطور میں ملاحظہ فرما چکے ہیں۔

کتاب و سنت پر ان صریح زیادتیوں کا صدمہ ابھی تازہ تھا کہ 17 جولائی 1983ء کی اشاعت میں ''مسائل وافکار'' کے عنوان کے تحت نامور صحافی زید۔ اے سلہری صاحب کا مضمون مزید اضطراب کا باعث بنا۔جس کا خلاصہ یہ ہےکہ:
''اسلامی دستور و نظام، ملکی آبادی کی اکثریت کے فیصلے سے نافذ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ہندوستان سے الگ کیا گیا تاکہ مسلمان اکثریت اپنی مرضی کا قانون نافذ کرسکے۔''
''خالصتاً اسلامی نظام پر اصرار اس لیے بے معنی ہے کہ اسلام نے ہمیں زندگی کے بنیادی تصورات دیے ہیں، کسی خاص نظام کا ڈھانچہ نہیں دیا۔''
''دنیا میں مروجہ نظاموں اور تہذیبوں سے کٹ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ نہیں بنائی جاسکتی۔ دریا کی لہروں کے خلاف پیرنے کی بجائے اس کی موافقت میں پیرنا ہی منزل مقصود پر پہنچنے کی ضمانت ہوتا ہے۔''

حالانکہ :
1۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے شریعت سازی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور اس کا نفاذ نبی کرتا ہے جس میں کسی تنسیخ و ترمیم کی گنجائش نہیں ہوتی اور شریعت چونکہ جامع اور کامل ہے، لہٰذا اس کے ساتھ کسی مروج قانون کی پیوند کاری بھی نہیں ہوسکتی ، کجا یہ کہ کوئی نیا دستور ، نئی شریعت ایجاد کرلی جائے۔

ویسے بھی یہ حضرت بھول رہے ہیں۔اسلامی دستور و نظام ملکی آبادی کی اکثریت کے فیصلے سے '' چھتیس سال کا طویل عرصہ گزر گیا، آج تک تو نافذ نہ ہوسکا۔ ہاں پاکستان ضرور بن گیا تھا۔ تاہم یہ بھی ملکی آبادی کی اکثریت کے فیصلے سے نہیں بنا تھا۔ ملک ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں تھے، اکثریت ہندو کی تھی، اس کے باوجود اگر پاکستان بن گیا تو آپ کا بیان کردہ اصول الٹ ہوتا نظر آتا ہے۔ لہٰذا آپ کو یوں کہنا چاہیے کہ:
''پاکستان کو ہندوستان سے اقلیت کی بناء پر الگ کیا گیا تاکہ مسلمان اقلیت اپنی مرضی کا قانون نافذ کرسکے ''

2۔ ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ بات (خالصتاً اسلامی نظام پراصرار اس لیے بے معنی ہے کہ اسلام نے ہمیں زندگی کے بنیادی تصورات دیئے ہیں، کسی خاص نظام کا ڈھانچہ نہیں دیا) ایک مسلمان کہہ سکتا ہے یا کم از کم تاریخ اسلام سے اس قدر ناواقف شخص صحافیوں کے زمرہ میں کیونکر شمار ہونے لگا۔ ''دو اور دو چار روٹی '' کے مصداق دراصل یہ حضرت اسلامی نظام کا ڈھانچہ خلفاء اربعہ کے طریقہ انتکاب کو قرار دے رہے ہیں، جس میں تفاوت نے انہیں اس وہم میں مبتلا کردیا ہے کہ اسلام نے ہمیں کسی خاص نظام کا ڈھانچہ نہیں دیا۔

حالانکہ یہیں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام نے طریق و طرز انتخاب کو اصل مقصود نہیں قرار دیا بلکہ مقصود و مطلوب شریعت کےنفاذ کا اعلان و تعمیل ہے۔ جو بھی حکومت یہ کام کردکھائے گی، اسلام کی نظر میں وہی اسلامی حکومت کہلائے گی۔ تو پھر آپ کو مارشل لاء سے اس قدر نفرت اور جمہوریت سےاس قدر پیار کیوں ہے؟ اگر مارشل لاء ملک کے لیے نیک فال نہیں تو جمہوریت نے ہمیں آج تک کیا دیا ہے؟ یہی نا کہ ملک دولخت ہوگیا؟ بہرحال یہ الگ بحث ہے! ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر موجودہ حکومت اسلام کے نفاذ یا قرآن مجید کی دستوری حیثیت کا اعلان کردے پھر صحیح معنوں میں اس کی تعمیل بھی ہو، تو کیا یہ حکومت غیر اسلامی ہوگی؟ اور گذشتہ حکومتوں میں سے اگر کسی حکومت نے انتخابات تو جمہوری بنیادی پر کرائے تھے، لیکن شریعت کی عملداری کی توفیق اسے نہ ہوسکی تو کیا یہ اسلامی حکومت تھی؟ علاوہ ازیں خلفائے اربعہ کے طریق انتخاب میں تفاوت کی بناء پر کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان حضرات کا یہ دور خلافت خالصتاً اسلامی نطام نہیں تھا؟ اور اگر یہ خالصتاً اسلامی نظام تھا تو پھر اس پر اصرار کیوں نہیں کیا جاسکتا؟

واضح رہے کہ ہمارا مقصود عصر رسالت اور دور خلافت راشدہ کو بطور مثالی اسلامی نظام پیش کرنا ہے۔ کیونکہ یہ حضرت ان مقدس ادوار کو اسلامی نظام یا ا س کا ڈھانچہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ اگر کوئی نظریہ کسی نظام کی صورت میں متشکل نہ ہو تو وہ نظریہ ہی بیکار ہوتا ہے۔ اگر اسلامی نظریے کا کوئی متعین اور مثالی اسلامی نظام نہیں تو یہ اسلامی نظریہ ہی کا انکار ہے۔

دراصل طریق انتخابات وغیرہ کے جس اختلاف سے گھبرا کر یہ حضرت ان ادوار کو اسلامی نظام قرار دینے سے انکار کررہے ہیں، تو یہ ان کی دین سے ناواقفیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہر نظام کو چلاتے ہوئے تدبیری امور سے بھی واسطہ پڑتا ہے، اور تدبیر کے سلسلے میں شریعت ہم پرکوئی قدغن عائد نہیں کرتی۔ بشرطیکہ ایسی کوئی تدبیر غیراسلامی اصولوں پر مبنی نہ ہو۔ اس لیے تقرر و انتخاب کے مسئلہ میں، ان ادوار میں جو مختلف طریقے سامنے آئے ہیں، اس حد تک یہ معاملہ تدبیری تھا۔ تاہم یہ اسلامی نظام ہی کا حصہ تھا اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ اسلام کا کوئی مثالی نظام ہی نہیں جس کی پابندی امت پر لازمی قرار دی گئی ہو۔

ہاں اگر ارشادات عالیہ کا مفہوم ہم نے غلط سمجھا ہے تو آپ ہی وضاحت فرما دیجئے کہ ''زندگی کے بنیادی تصورات'' اور ''کسی خاص نظام کے ڈھانچے'' سے آپ کی کیا مراد ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، رسول اللہ ﷺ کا مبارک دور حیات، خلفائے راشدین کا زریں دور اور اس کے بعد بھی کئی حکومتیں ہماری نظر میں خالصتاً اسلامی نظام کی حامل تھیں، لیکن اگر آپ کو اس سے انکار ہے تو شائد پوری تاریخ اسلام میں کوئی ایک حکومت بھی اسلامی نظام کی حامل نہیں گزری تو پھر اپ نے پاکستان کو ہندوستان سے الگ کرنے کی یہ کیا مصیبت مول لے لی تھی؟ ''قرآن ہمارا دستور ہے!'' اس کا کیا مطلب تھا؟ تحریک نظام مصطفیٰ ؐ کیوں چلائی تھی؟ بھٹو ہی کیا بُرا تھا؟ آخر ملکی آبادی کی اکثریت ہی نے تو اسے پاکستان کا وزیراعظم بنایا تھا؟ اسلامی نظریات و اصول کےحامل تو آپ اکھنڈ بھارت میں رہ کر بھی بن سکتے تھے۔

3۔ دنیا میں مروّجہ نظاموں اور تہذیبوں سے کٹ جانا اگر آپ کے نزدیک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کے مترادف ہے تو ہندوستان کی سرزمین آپ کو کیوں راس نہ آئی؟ کیا اتنی قربانیاں دینے کے بعد اب آپ کو یہ احساس ہوا ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہیے تھا؟ آخر ہندو ازم بھی ایک نظام تھا، اس کی اپنی تہذیب بھی تھی۔ اس نظام اور تہذیب سے کٹ جانے کی آپ کو کیوں ضرورت پیش آئی تھی؟ آپ بھول رہے ہیں، اپنے اس مضمون میں آپ اسلامی دستور و نظام کو پاکستان کو ہندوستان سےالگ کرنے کی وجہ قرار دے چکے ہیں۔ آپ نے اس ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کو الگ بنانا اس وقت کیسے گوارا کرلیا تھا؟ پھر آپ کا وہ دو قومی نظریہ کیا ہوا؟ اگر دریا کی لہروں کی موافقت میں پیرنا ہی منزل مقصود پہنچنے کی ضمانت ہوتا ہے تو آپ اس کے خلاف کیوں پیرے تھے؟ غالباً آپ کو علامہ اقبال کے اس شعر میں بھی کوئی معقولیت نظر نہ آئی ہوگی ؎

تندئ باد ِمخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے !


سرزمین عرب میں صدیوں قبل رونما ہونے والا وہ انقلاب بھی شاید آپ کو پسند نہ آیا ہوگا جس نے تاریخ عالم کے دھارے بدل دیئے تھے، ظلم و بربریت کے طوفانوں کا منہ موڑ دیا تھا او ردکھی تڑھتی، سسکتی اور دم توڑتی ہوئی انسانیت نے امن و عافیت کے گہواروں میں سکون کی سانس لی تھی۔ کیا آپ کو اپنی پوری تاریخ سے انکار ہے؟ آپ نے دراصل سوچا ہی نہیں کہ اس ''ڈیرھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے '' کے پس پردہ آپ کہنے کیا جارہے ہیں۔ ہاں مگر جو شخص خالصتاً اسلامی نظام پر اصرار کو بے معنی سمجھتا ہے وہ قرآن مجید کے اس صریح حکم کا انکار کیوں نہیں کرسکتا۔
﴿لَّا يَتَّخِذِ ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلْكَـٰفِرِ‌ينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ...﴿٢٨﴾...سورۃ آل عمران
کہ ''مومنین کفار کو اپنا دست نہ پکڑیں ، ہاں یہ دوستی انہیں مومنوں ہی سے اختیار کرنی چاہیے''

کیونکہ
﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْ...﴿٥١﴾...سورۃ المائدہ
''تم میں سے جو شخص ان (کفار) سے دوستی اختیار کرے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا۔''

اور :
''من  تشبه بقوم فھو منهم''
''جس شخص نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انہی میں سے ہوا کرتا ہے''

الغرض، مندرجہ بالا سیاسی تجاویز صرف نامعقول ہی نہیں، بلکہ اُن کو تسلیم کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری تمام تر توانائیاں دستوری کوششوں، سیاسی اتار چڑھاؤ اور جدید اداروں کی تشکیل و تنظیم پر صرف ہونی چاہئیں۔ اس لیے اصل بحث یہ ہے کہ مارشل لاء کیسے ختم کیا جائے؟ صدارتی نظام کی بجائے پارلیمانی نظام حکومت کیسے لایا جائے ؟ 1973ء کے دستور کے اندر صدر اور وزیراعظم کے اختیارات کا توازن کیسے قائم کیا جائے ؟ سیاسی پارٹیوں کی تعداد میں کمی کیسے کی جائے؟ اسمبلیوں میں صوبوں ، عورتوں اور اقلیتوں کی نمائندگی کا کیا تناسب ہو؟ گویا ہمارے تمام مسائل یہی کچھ ہیں، جن سے عہدہ برآ ہوکر ہم زمانے کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ حالانکہ ادارہ جات اور تنظیم و تنسیخ کسی دستور و قانون کی تطبیق و ترویج کے لیے معرض وجود میں آتے ہیں۔ ان کامقصد ایسی تدبیر ہوتا ہے کہ ملک کا اساسی فکر اور دستور ظاہر و باہر طور پرپورے نظام زندگی میں سمو دیا جائے، جبکہ مذکورہ بالا سیاسی تجاویز کو سب کچھ تسلیم کرلینے سے یہ لازم اتا ہے کہ اصل مسئلہ درخت لگانا او راسے پروان چڑھانا نہیں، بلکہ ٹہنیوں کی کانٹ چھانٹ او رانہیں ایک خاص سمت میں باندھ کر رکھنا ہے۔ بتائیے، شجر اسلام کیا ہم سے یہی مطالبہ کرتا ہے؟ پاکستان کیا اسی لیے بنایا گیا تھا؟ ''لا إلٰه إلا اللہ'' کا یہ مفہوم ہے اور ''قرآن ہمارا دستور ہے'' کا یہی تقاضا ہے؟

ہم واضح لفظوں میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مذکورہ طرز فکر نتیجہ ہے اس عہد و پیمان سے انحراف کا جو تشکیل پاکستان کے وقت اللہ رب العزّت سےباندھا گیا تھا، دیکھئے، ان کے علاوہ بھی کیسی کیسی آوازیں سننے میں آرہی ہیں:
''کالعدم قومی محاذ آزادی کے سربراہ معراج محمد خالد نے کہا ہے کہ ''اسلام سے بڑا سیکولر مذہب اور کوئی نہیں ''

پھر اس کی وضاحت یوں فرمائیں کہ:
''اور سیکولر کا مطلب لا دین نہیں ہوتا!'' 4

یعنی اسلام کو گالیاں بھی دیتے ہیں اور ساتھ ہی یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس گالی کا وہ مفہوم نہیں جوپوری دنیا جانتی او رسمجھتی ہے۔ گالی دینے کے اس انوکھے طریق کار کی دریافت کا سہرا انہی کے سر ہے۔

مزید فرماتے ہیں:
''قائد اعظم نے کہا تھا، پاکستان ایسی ریاست نہیں ہوگی جہاں ملاؤں کی حکومت ہو'' 5

اسی طرح سرخپوش لیڈر عبدالغفار خان کی یہ بات کہ:
''داڑھی سنت نہیں، بلکہ اسےملاؤں نے رواج دیا ہے۔'' (روزنامہ جنگ حوالہ مذکور تحت عنوان ''غفار خان اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں'')

دراصل یہ وہ لوگ ہیں جن کو صرف کرسی سے غرض ہے، یا سیاست جن کامشغلہ ہے۔ ڈاکے پڑیں، قتل وغارت ہو، قوم کی بہو بیٹیوں کی عزتیں پامال ہوں، شیطان عین چوراہوں میں ننگا ناچے، ملک رہے یا نہ رہے، قرآن سے بغاوت ہوتی ہے تو ہوتی رہے، اللہ رب العزت سے عبد و معبود کے رشتے کٹ جانا، یہ سب کچھ انہیں منظور ہے، لیکن انتخابات سے دست بردار ہونا انہیں گوارا نہیں، تاکہ ایوان حکومت تک ان کی رسائی کی کوئی صورت ممکن ہوسکے، جبکہ ایک مسلمان کے نزدیک مذکورہ بالا اصول اصل اہمیت رکھتے ہیں، جن کا حصول ملک میں شریعت کی عملداری سے ہی ممکن ہے او رجس میں اگر تاخیر ہوئی تو یاد رکھئے، نہ صرف ان دشمنان اسلام کو، جو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ آور ہوکر اسے نیست و نابود کردینا چاہتے اور اس طرح قوم کی ہڈیوں پر اپنے عشرت کوے تعمیر کرنا چاہتے ہیں، نہ صرف مزید کھل کر کھیلنے کا موقع ملے گا بلکہ قہر خداوندی کا وہ کوڑا بھی حرکت میں آجائے گا جس کا مقصود او ربالآخر نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے:
﴿وَإِن تَتَوَلَّوْايَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَ‌كُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوٓاأَمْثَـٰلَكُم ﴿٣٨...سورۃ محمد
کہ ''اگر تم باز نہ آئے، تو خدائے لم یزل تمہارے علاوہ کسی دوسری قوم کو اپنے فرامین کی بجاآوری کے لیے منتخب فرما لے گا ''.......او رپھر ع

تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں''


پس 14۔ اگست کو یوم آزادی کے موقع پر اہم اعلان کی توقع کے پیش نظر ہم ''قرآن ہمارا دستور ہے'' کا نعرہ لگانے والوں سے عموماً او ران اسلامی جماعتوں کو خصوصاً جو اپنے منشور میں اور تو سب کچھ لکھتی ہیں لیکن اس نعرہ کو نظر انداز کرتی یا اس کی تاویل کرنا اپنا اوّلین فریضہ خیال کرتی ہیں، مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے قول و عمل میں مطابقت پیدا کریں۔ اسی طرح ہم صدر مملکت اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جناب جنرل محمد ضیاء الحق سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کسی مملکت کی فکری اساس و نقشہ، دستور ہوتا ہے او ر''لا إلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ'' کی بنیادوں پر قائم ہونے والی اسلامی حکومت کا نقشہ قرآن مجید کی دستوری حیثیت کے اعلان و تعمیل سے ہی تشکیل پاتا ہے۔ لہٰذا وہ یوم آزادی کے موقع پر یہ اعلان فرما دیں کہ:
''آج سے ہم قرآن مجید کو اپنا دستور ماننے کا اعلان کرتے ہیں، او رہماری جتنی بھی انفرادی، اجتماعی، حکومتی کوششیں او رتدبیریں ہوں گی، وہ اسی شجر اسلام کے فروغ کے لیے ہوں گی!'' أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْ‌عُهَا فِى ٱلسَّمَآءِ ﴿٢٤...سورۃ ابراھیم۔........وآخردعوانا أن الحمدللہ رب العالمین!


حوالہ جات
1. روزنامہ ''جنگ'' 24 جولائی 1983ء
2.  واضح رہے کہ خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین او ربعد کے ادوار میں اسلامی حکومتوں کا دستور و قانون قرآن مجید ہی تھا اور وہ اس کی آخری تعبیر سنت رسول اللہ ﷺ کی پابندی کرتے ہوئے جملہ حدود و تعزیرات اور دیگر قانونی اقدامات اسی سے کرتے رہے۔کسی دیگر قانون سازی کی ضرورت کبھی کسی نے محسوس نہیں کی۔
3.  مندرجہ بالا سطور میں حضرت عمرؓ اور امام مالک کا جو واقعہ بیان ہوا ہے ہم نے اپنے الفاظ میں اس کا مفہوم بیان کیاہے، اصل الفاظ یوں ہیں:
(الف) قال عمر بن الخطاب لا تغالوا في مھورالنساء فقال امرأة ''لیس ذٰلك یا عمر ، إن اللہ یقول (وآتيتم إحداهن قنطارا) من ذھب...... فقال عمر: إن امرأة خاصمت عمر فخصمته(تفسیر ابن کثیر ج1 ص467)
''حضر ت عمرؓ نے فرمایا: |''عورتوں کے حق مہر باندھنے میں غلو سے کام نہ لو'' تو ایک عورت نے کہا، ''عمرؓ، آپ کو یہ کہنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حق مہر کے بیان میں) فرمایا ہے:
''اگرتم عورتوں کو ڈھیروں مال دے چکے ہو'' سونے سے ..... پس حضرت عمرؓ نے فرمایا، ''ایک عورت نے عمرؓ سے جھگڑا کیا اور وہ اس پر غالب آگئی!''
(ب) طبقات ابن سعد میں امام مالک کے الفاظ یوں مذکور ہیں:
''فقلت یا أمیر المؤمنین لا تفعل ھٰذا فإن الناس قد سبقت إلیهم أقاویل سمعوا أحادیث و رووا روایات وأخذ کل قوم بما سبق إلیهم ودانوا به فدع الناس و ما اختار أھل کل بلد منهم لأ نفسهم!''
''پس میں نے (امام مالک نے) خلیفہ منصور سے کہا، ''یا امیر المؤمنین (میری تالیف مططا کو دستوری حیثیت دینے کا) یہ کام نہ کیجئے، کیونکہ لوگوں کے پاس اقوا ل پہنچ چکے، احادیث انہوں نے سن لیں، روایات انہوں نے روایت کیں اور ہر قوم نے اس چیز کو لیا جو اس کےپاس پہنچ چکی اور اسی کی انہوں نے پیروی کی ، پس ہر شہر کے لوگوں نے اپنے لیے جس چیز کو ا|ختیار کرلیا، اس پر انہیں چھوڑ دیجئے!''
اسی طرح امام مالک کا قول ہے:
''مامن أحد إلا وقوله مقبول و مردود عليه إلاصاحب ھٰذا القبر'' ''ہر کسی کی بات قبول کی جاسکتی ہے او رچھوڑی بھی جاسکتی ہے، سوائے اس ( روضہ اقدس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) صاحب قبر کے'' (ﷺ)
4. روزنامہ جنگ 27 جولائی 1983ء
5. حوالہ مذکور