مسافران ِعدم کو گئے زمانہ ہوا

عمل بڑا ہو کہ چھوٹا جو بے ریا نہ ہوا
خدا کے ہاں وہ عمل قابل جزا نہ ہوا

وہ زندہ زندہ نہیں اس جہان فانی میں
جو اپنی زیست کے مقصد سے آشنا نہ ہوا

رہا جو درپئے آزارِ بندگان خدا
جہاں میں اس کا بھی ہرگز کبھی بھلا نہ ہوا

عمل میں حسن عمل کی بڑی ضرورت ہے
بغیر اس کے کوئی کام، کام کا نہ ہوا

نہ جانے دے گئے داغ جدائی کتنے غم
وہ تیرا غم ہے جو مجھ سے کبھی جدا نہ ہوا

پتہ ہے کیا اسے آفت زدوں کی حالت کا
جو خود کبھی کسی آفت میں مبتلا نہ ہوا

اسی کے ساتھ وہ میدان حشر میں ہوگا
کہ جس کا جس سے بھی دوستانہ ہوا

ہے مجھ پہ تیرا کرم بے مثال و بے پایاں
یہ حق ہے، مجھ سے کبھی تیرا حق ادا نہ ہوا

نہ خود ہی آئے نہ انکی کوئی خبر آئی
مسافرانِ عدم کو گئے زمانہ ہوا

ٹھہر سکا نہ وہ پل بھر بھی دہر میں عاجز
کسی کا دہر سے جب ختم آب و دانہ ہوا
[از صبح صادق]