برصغیرپاک و ہند میں علم حدیث اور علمائے اہلحدیث کی مساعی

تاریخ وسیر جناب عبدالرشید عراقی

برصغیرپاک و ہند میں علم حدیث اور علمائے اہلحدیث کی مساعی

شیخ عبدالحق محدث دہلوی (م1052ھ)

حضرت شیخ محمد طاہر پٹنی کے بعد علم حدیث کی نشرواشاعت کےسلسلہ میں شیخ عبدالحق بن سیف الدین بخاری کا نام آتاہے۔

حضرت شیخ عبدالحق 958ھ (بمطابق 1551ء )کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد شیخ سیف الدین سے حاصل کی، اس کے بعد مختلف اساتذہ کرام سے اکتساب فیض کیا۔ 22 سال کی عمر میں تکمیل تعلیم کے بعد حرمین شریفین کے لیے روانہ ہوئے۔ راستہ میں احمد آباد میں شیخ وجیہ الدین علوی گجراتی (م998ھ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کی صحبت سے فیض حاصل کیا۔

996ھ میں آپ حجاز پہنچے اور مولانا عبدالوہاب متقی کی صحبت اختیار کی۔مولانا عبدالوہاب کا شمار عدیم المثال علماء میں ہوتا تھا اور مولانا نے اپنے علمی تبحر کا سکہ حجاز، یمن اور شام سےمنوایا تھا۔حضرت شیخ عبدالحق نے تفسیر، حدیث، فقہ و اصول کی تعلیم حاصل کی۔ حجاز سے واپسی کے بعد آپ نے دہلی میں (100ھ)مسند درس و ارشاد بچھا دی۔

پروفیسر خلیق احمدنظامی لکھتے ہیں:

''حجاز سے واپسی پر شیخ عبدالحق نے دہلی میں مسند درس و ارشاد بچھا دی شمالی ہندوستان میں اس زمانہ میں یہ پہلا مدرسہ تھا جہاں سے شریعت و سنت کی آواز بلند ہوئی۔ اس مدرسہ کا نصاب تعلیم دوسری درس گاہون سے بالکل مختلف تھا۔یہاں قرآن و حدیث کو تمام علوم دینی کامرکزی نقطہ قرار دے کر تعلیم دی جاتی تھی، فرمایا کرتے تھے ؎

چو غلام آفتابم ہمہ ز آفتاب گوئم

نہ بشم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گوئم i

درس و تدریس کا یہ ہنگامہ شیخ محدث نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک برپا رکھا۔ ان کا مدرسہ نہ صر ف دہلی میں بلکہ سارے شمالی ہندوستان میں ایک امتیازی شان رکھتا تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں طلباء استفادہ کے لیے جمع ہوتے تھے اور متعدد اساتذہ درس و تدریس کا کام انجام دیتے تھے۔

شیخ محدث کا یہ دارالعلوم اس طوفانی دور میں شریعت اسلام اور سنت نبویؐ کی سب سے بڑی پشت پناہ تھا۔ مذہبی گمراہیوں کے بادل چارون طرف منڈلائے۔مخالف طاقتیں بارباراس دارالعلوم کے بام و در سے آکر ٹکرائیں۔لیکن شیخ محدث کے پائے ثبات میں ذرا بھی جنبش پیدا نہ ہوئی۔ ان کے عزم و استقلال نے وہ کام انجام دیا جو ان حالات میں ناممکن نظر آتا تھا۔ بقول حکیم الامت ؎

ہواہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے

وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیئے ہیں اندازخسروانہ

درس و تدریس کے ساتھ ساتھ حضرت شیخ نے تصنیف و تالیف کی طرف بھی پوری توجہ کی اور آپ نے تفسیر، تجوید،حدیث، عقائد، فقہ، تصوف ، اخلاق، اعمال، فلسفہ و منطق، تاریخ، سیر ، نحو، خطبات، مکاتیب، اشعار اور ذاتی حالات پر تقریباً 60 کے قریب کتابیں لکھی ہیں۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی نے ''حیات شیخ عبدالحق'' میں بترتیب حروف تہمی صفحہ 216 تا 219 مکمل فہرست دی ہے۔

علم حدیث کے سلسلہ میں آپ نے جو گرانقدر خدمات انجام دی ہیں اس کے متعلق مولانا سید عبدالحئ (م1341ھ) لکھتے ہیں:

''فن حدیث کی نشرواشاعت کے لیے اللہ تعالیٰ نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی بن سیف الدین بخاری (م1052ھ) کومنتخب فرمایا ان کے ذریعہ علم حدیث کی اشاعت بہت عام ہوئی۔ دارالسلطنت دہلی میں مسند درس آراستہ فرمائی اور اپنی ساری کوشش و صلاحیت اس علم کی نشرواشاعت پر صرف فرمائی۔ ان کی مجلس درس سے بہت سے علماء نے فن حدیث کی تکمیل اور بہت سی کتابیں بھی فن حدیث میں تصنیف فرمائیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اس علم کی نشرواشاعت میں بڑی جدوجہد کی۔ ان کی ذات اور ان کے علم سے اللہ نے بندوں کو بہت نفع پہنچایا۔ فن حدیث کی نشرواشاعت میں ان کی جدوجہد اپنے پیشرو سے اس قدر نمایاں و ممتاز تھی کہ لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ حدیث کو ہندوستان میں سب سے پہلے لانے والے ہی شیخ عبدالحق محدث دہلوی ہیں۔''1

مولانا عطاء اللہ حنیف فرماتے ہیں:

''فتح محمد بن طاہر پٹنی (م986ھ )اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی (م1052ھ) نے فن حدیث کی خدمت اور تشریح میں ہی اپنی عمریں صرف کردیں تاکہ لوگ کتاب و سنت سے براہ راست استفادہ کرکے ان فقہاء کے بے دلیل فتوؤں اور صوفیوں کے فریب کارانہ ہتھکنڈوں سے نجات حاصل کرسکیں۔''2

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م1375ھ) لکھتے ہیں:

''شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے بہت سے مسائل میں فقہائے حنفیہ کے مقابلے میں اہل حدیث کی جانب کو ترجیح دی ہے۔''3

داراشکوہ نے آپ کو بسلسلہ ترویج علوم حدیث ، ''امام محدثان وقت'' کا وقت دیا۔ خانی خان لکھتا ہے:

''درکمالات صوری و معنوی و تحصیل علوم عقلی و نقلی خصوص تفسیر و حدیث در تمام ہندوستان ثانی نداشت۔''4

اور مولانا ابوالکلام آزاد (م1377ھ) لکھتے ہیں:

''حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی جس دور علم و تعلّم کے بانی ہوئے اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ علم حدیث کے متعلق فارسی زبان میں جو ملک کی عام زبان تھی تصنیف و تالیف کی بنیاد ڈالی گئی۔''5

اور عربی سے فارسی میں ترجمہ کرنے کی حضرت شیخ کو بڑی مہارت حاصل تھی۔

مولانا السید نواب صدیق حسن خان (1307ھ) لکھتے ہیں:

''در ترجمہ عربی بفارسی یکے از افراد ایں امت است، مثل اودریں کاروبار خصوصاً دریں روزگار احد سے معلوم نیست۔''6

حضرت شیخ عبدالحق محدث نے احادیث پر جو کتابیں تصنیف کی ہیں اس کی تفصیل یہ ہے:

1۔ اشعت اللمعات فی شرح المشکوٰة (فارسی) مطبوعہ

2۔ لمعات التنقیح فی شرح مشکوٰة المصابیح (عربی) غیر مطبوعہ

3۔ ترجمة الاحادیث الاربعین فی نصیحة الملوک والسلاطین (فارسی) غیر مطبوعہ

4۔ جامع البرکات منتبل شرح المشکوٰة (فارسی عربی) غیر مطبوعہ

5۔ جمع الاحادیث الاربعین فی ابواب علوم الدین (عربی) غیر مطبوعہ

6۔ رسالہ اقسام الحدیث (عربی) غیر مطبوعہ

7۔ رسالہ شب برأت (فارسی) غیر مطبوعہ

8۔ ماثبت بالسنة فی ایام السنت (عربی)مطبوعہ

9۔ الاکمال فی اسماء الرجال (عربی) غیر مطبوعہ

10۔ شرح سفر السعادت (فارسی) مطبوعہ

11۔ اسماء الرجال والروات المذکورین فی کتاب المشکوٰة (عربی) غیر مطبوعہ

12۔ تحقیق الاشارة فی تعمیم البشارة (عربی) غیر مطبوعہ

13۔ ترجمہ مکتوب النبیؐ (عربی) مطبوعہ

یہاں صرف حضرت شیخ کی درج ذیل تصانیف کا تعارف پیش خدمت ہے:

1۔ اشعت اللمعات فی شرح المشکوٰة،2۔ لمعات التنقیح فی شرح مشکوٰة المصابیح ،3۔ جامع البرکات منتخب شرح المشکوٰة ،4۔ماثبت بالسنة فی ایام السنتہ، 5۔ الاکمال فی اسماء الرجال اور 6۔شرح سفر السعادت۔

اشعت اللمعات فی شرح المشکوٰة :

فارسی زبان میں مشکوٰة کی نہایت جامع اور مکمل شرح ہے۔ شیخ محدث نے 1019ھ میں لکھنی شروع کی اور 1025 ھ میں 6 سال میں شرح مکمل ہوئی۔ اور اس شرح کا لکھنے کا خیال جن حالات میں پیدا ہوا اس کے متعلق حضرت شیخ فرماتے ہیں:

''بعد از رجوع از حرمین شریفین زاد ہما اللہ تشریفاً و تعظیماً و حصول اجازت روایت حدیث از مشائخ آں دیار شریف چوں توفیق و تائید الٰہی تعالیٰ دستگیری کرد و در خدمت ایں علم شریف در مقام استقامت بنشا ند خواست کہ کتاب مشکوٰة المصابیح را کہ دریں روز گار بسمت تداول و اشتہار موسوم است شرح کندو از خواہد آنچہ کہ درکتب قوم دیدہ و ازمشائخ وقت شنیدہ بابخاطر فاتروے رسیدہ بطالبان برساند''7

اشعت اللمعات4 جلدوں میں مطبع نولکشور لکھنؤ سے شائع ہوچکی ہے، ان چار جلدون میں مضامین کی ترتیب یہ ہے:

جلداوّل میں علم حدیث و محدثین پر 39 صفحات کا ایک مقدمہ ہے ۔جس میں علم حدیث اور اقسام حدیث پرنہایت عالمانہ اور بصیرت افروز انداز میں تبصرہ کیاگیا ہے اور امام بخاری (م256ھ)، امام مسلم(م261ھ)، امام ابوداؤد سجستانی(م275ھ)، امام ترمذی(م279ھ)، امام نسائی (م303ھ)، امام ابن ماجہ(م273ھ)، امام مالک(م179ھ)، امام شافعی(م204ھ)، امام احمد بن حنبل(م241ھ)8، امام دارمی(م255ھ)، امام دارقطنی (م385ھ)، امام بیہقی(م318ھ)، امام رزین (م.....ھ)، امام نووی(م676ھ) اور امام ابن جوزی(م598ھ) کے مختصراً حالات لکھے ہیں۔9

اس مقدمہ کے علاوہ پہلی جلد میں مشکوٰة کی مندرجہ ذیل پانچ کتابوں کا ترجمہ ہے:

1۔ کتاب الایمان، 2۔ کتاب العلم، 3۔ کتاب الطہارة، 4۔ کتاب الصلوٰة، 5۔ کتاب الجنائز۔

جلد دوم میں چھ کتابیں ہیں۔

1۔ کتاب الزکوٰة، 2۔ کتاب الصوم، 3۔ کتاب فضائل القرآن، 4۔کتاب الدعوات، 5۔ کتاب اسماء اللہ تعالیٰ، 6۔ کتاب المناسک۔

جلد سوم میں 9 کتابیں ہیں:

1۔ کتاب البیوع، 2۔ کتاب العتق، 3۔ کتاب الحدود،4۔ کتاب الامارة والقضاة، 5۔ کتاب الجہاد، 6۔کتاب الصید والذبائح، 7۔کتاب الاطعمہ، 8۔ کتاب اللباس ، 9۔ کتاب الطب والرتی۔

جلد چہارم میں دو کتابیں ہیں:

1۔ کتاب الآداب ، 2۔ کتاب الفتن

چاروں جلدیں 2655 صفحات پرمشتمل ہیں اور اس میں حضرت شیخ نے مشکوٰة کی شرح کا حق پوری طرح ادا کیا ہے۔

اشعت اللمعات کے قلمی نسخے حبیب گنج علی گڑھ ، اسلامیہ کالج پشاور، ایشاٹک سوسائٹی کلکتہ، بانکی پور اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں موجود ہیں۔ ان سب نسخوں میں سب سے قدیم نسخہ گنج علی گڑھ مولانا حبیب الرحمٰن خان شروانی (م1370ھ) کے کتب خانہ میں موجود ہے۔

لمعات التنقیح فی شرح مشکوٰة المصابیح:

یہ مشکوٰة کی عربی زبان میں شرح ہے۔

پروفیسر خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں:

''شیخ محدث جب اشعة اللمعات کی تصنیف میں مصروف تھے تو بعض مضامین ایسے پیش آئے جن کی تشریح کو فارسی میں مناسب نہ سمجھا۔ فارسی عوام کی زبان تھی۔ بعض مباحث میں عوام کو شریک کرنا مصلحت کے خلاف تھا۔ لہٰذا جو باتیں فارسی میں قلم انداز کردی تھیں وہ عربی میں بیان کردیں۔''10

حضرت شیخ نے 1025ھ میں لمعات التنقیح مکمل کی تھی۔ اشعت اللمعات کی طرح اس کا بھی عربی میں ایک مقدمہ تحریرکیا ہے۔ لمعات التنقیح تو ابھی تک غیر مطبوعہ ہے مگر اس کا مقدمہ علیحدہ طبع ہوچکا ہے۔

جامع البرکات منتخب شرح المشکوٰة :

یہ فارسی زبان میں شرح مشکوٰة کا خلاصہ ہے اور اس کے متعلق حضرت شیخ خود فرماتے ہیں:

''مجموعہ آمدہ است شامل فوائد کثیر ''دعوائد عزیزہ درہر باب یک دو متن ذکر کردہ باقی احادیث برمضامین آں اختصار کردہ و اختصار نمودہ شدہ است۔''11

ماثبت بالسنة فی ایام السنة:

یہ رسالہ عربی میں ہے اور اس میں ماہ محرم سے ذی الحجہ تک کے ان تمام مناسک کا تفصیلی ذکر ہے جو حدیث سے ثابت ہیں۔عاشورا محرم کے بارے میں جو صحیح احادیث ہیں ان کو نقل کیاگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان تمام بدعات کا ردّ کیا گیا ہے جو محرم میں ہوتی ہیں اور ان تمام احادیث پر تنقید و تبصرہ کیا گیا ہے جو حضرت امام حسین ؓ کی شہادت سے متعلق ہیں۔

شعبان، رمضان، شوال اور ذوالحجہ میں روزہ، تراویج، عیدالفطر، حج وغیرہ کے متعلق سب احادیث کو جمع کردیا گیاہے اور ماہ ربیع الاوّل کے مذہبی مناسک میں آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ پر ایک مختصر نوٹ درج کیا گیا ہے۔

یہ کتاب 1253ھ میں کلکة سے، 1307ھ میں لاہور سے اور 1309ھ میں دہلی سے شائع ہوئی۔

الاکمال فی اسماء الرجال اور اسماء الرجال و الرواة المذکورین فی کتاب المشکوٰة :

حضرت شیخ کی یہ کتاب عربی میں ہے۔ اس کتاب میں مشکوٰة کے سب راویان حدیث کے نام یکجا کردیئے گئے ہیں۔ شروع میں خلفائے راشدین کا ایک طویل تذکرہ ہے اس کے بعد اہل بیت کا ذکر ہے۔

پھر راویان حدیث کے حالات بہ حروف تہجی ترتیب دیئے گئے ہیں۔ یہ کتاب ابھی تک غیر مطبوعہ ہے اور اس کا قلمی نسخہ بانکی پور کے کتب خانہ میں موجود ہے۔

شرح سفر السّعادة :

سفر السعادة مولانا مجد الدین فیروز آبادی صاحب قاموس کی تصنیف ہے۔اس میں آنحضرتﷺ کی وہ احادیث ، جو عبادات احوال و معاش سے متعلق ہیں جمع کی گئی ہیں۔

شرح سفر السعادت 3 حصوں پر منقسم ہے۔

پہلے حصہ میں مولانا فیروز آبادی کی بیان کردہ احادیث پر محدثانہ انداز میں بحث کی گئی ہے اور ہر ایک حدیث کے اسناد و رجال کو معلوم کیا گیاہے۔

دوسرے حصہ میں مجتہدین پربحث ہے اور یہ کتاب کا خاص حصہ ہے۔

تیسرے حصہ میں شرعی احکام کو تفصیل سے بیان کیاگیا ہے۔

جس وقت شیخ نے یہ شرح لکھنی شروع کی تھی۔ یہ خیال تھاکہ شاید زندگی وفا نہ کرے اور میں یہ شرح مکمل نہ کرسکوں اس لیے اپنے فرزند شیخ نورالحق کو وصیت کی۔

''وصیت می کنم فرزند عزیز نوریدہ دانش و بینش نورالحق راکہ وجود ثانی و مقصود اولیٰ من است این مہم راصورت ریزی''12

شرح سفر السّعادة 1836ء؍1252ھ میں کلکة سے، اور 1875ء، 1885ء اور 1903ء میں لکھنؤ سے شائع ہوئی۔13

وفات :

21۔ ربیع الاوّل 1052ھ کو آپ نے 94 سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ...............(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔:::::::۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1. اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں صفحہ197

2. امام شوکانی صفحہ 6

3. تاریخ اہل حدیث صفحہ 389

4. منتخب اللباب صفحہ 551 بحوالہ جات، شیخ عبدالحق صفرحہ 283

5. تذکرہ ابوالکلام

6. اتحاف النبلاء

7. اشعت اللمعات صفحہ 2 مطبع نولکشور لکھنؤ

8. سیرة ائمہ اربعہ ، صفحہ 3

9. یہ مقدمہ علیحدہ بھی 1305ھ میں مطبع اعظم جون پور سے شائع ہوا۔

10. حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی صفحہ 168

11. فہرس التوالیف بحوالہ حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی صفحہ170

12. شرح سفر السّعادة صفحہ 3

13. حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی صفحہ 174

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

i. حیات شخ عبدالحق محدث صفحہ 125