نشان و عیش جہاں خواب تھا فسانہ تھا
مریض کھا چکا اس کا جو اب و دآنہ تھا
برائے موت مرض تو فقط بہانہ تھا
مرے نبیؐ کی زباں معرفت کی کنجی تھی
دل حضورؐ معارف کا ایک خزانہ تھا
میں جھومتا تھا بہرگام راہ طیبہ میں
مری زبان پر تری حمد کا ترانہ تھا
بنے وہ فیض نبیؐ سے معلّم توحید
عقیدہ جن کا کہ صدیوں سے مشرکانہ تھا
کوئی محب نبیؐ تھا، کوئی عدوئے نبیؐ
مگر سلوک نبیؐ سب سے مشفقانہ تھا
نثار کردیے مال او رجاں صحابہؓ نے
کہ آنحضورؐ سے پیار اُن کا والہانہ تھا
قفس میں اب بھی چمن کو میں یاد کرتا ہوں
چمن میں میرا بھی چھوٹا سا آشیانہ تھا
نظر کے سامنے رہتے تھے خلد کے جلوے
نظر کے سامنے جب تیرا آستانہ تھا
رنگ تھے ہاتھ نہ انصاف کےلہو سے کبھی
ہمارے ہاتھ میں دستور عادلانہ تھا
پڑے ہیں قبروں میں مجبور بولتے بھی نہیں
جہاں میں طرز عمل جن کا جابرانہ تھا
لحد میں رکھ کے ہمیں سب کے سب وہ لوٹ گئے
ہمارا جن سے تعلق تھا دوستانہ تھا
اُتر کے قبر میں ہم پر یہ آشکار ہوا
نشاط و عیش جہاں خواب تھا فسانہ تھا
وہ وقت آئے گا احباب اس کو مانیں گے
کلام عاجز محزوں کا ناصحابہ تھا