برصغیر پاک و ہند میں علم حدیث اور علمائے اہلحدیث کی مساعی
برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث نے اسلام کی سربلندی ، اشاعت ، توحید و سنت نبوی ﷺ کےلیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے او رعلمائے اہلحدیث نے مسلک صحیحہ کی اشاعت و ترویج میں جو فارمولا پیش کیا اس سے کسی بھی پڑھے لکھے انسان نے انکار نہیں کیا او ربمصداق اس شعر کے ؎
آزاد رَو ہوں اور میرا مسلک ہے صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے !
کا صحیح نمونہ پیش کیا۔
علمائے اہلحدیث نے اشاعت توحید و سنت نبویﷺ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ شرک و بدعت کی تردید میں جو کام کیاہے اور جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ایک سنت میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مؤرخ اسلام حضرت علامہ سید سلیمان ندوی (م1373ھ) لکھتے ہیں:
''اہلحدیث کے نام سے ملک میں اس وقت جو تحریک جاری ہے، حقیقت کی رُو سے وہ قدم نہیں صرف نقش قدم ہے، مولانا اسماعیل شہید جس تحریک کو لے کر اٹھے وہ فقہ کے چند نئے مسائل نہ تھے بلکہ امامت کبریٰ، توحید خالص او راتباع نبیﷺ کی بنیادی تعلیمات تھیں۔'' 1
تدریسی اور تصنیفی خدمات کے سلسلہ میں علمائے اہلحدیث کا درجہ بہت بلند ہے او ربرصغیر پاک و ہند میں اس سلسلہ میں علمائے اہل حدیث کا شمار سب سے پہلے آتا ہے۔
مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
''علمائے اہلحدیث کی تدریسی و تصنیفی خدمات قدر کے قابل ہے۔ پچھلے عہد میں نواب صدیق حسن خاں (م1307ھ) کے قلم او رمولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (م1320ھ) کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا۔ بھوپال ایک زمانہ تک علمائے اہلحدیث کا مرکز رہا۔ قنوج، سہوان او راعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کررہے تھے۔ شیخ حسین عرب یمنی (م327ھ) ان سب کے سرخیل تھے او ردہلی میں مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے ہاں سند درست بچھی تھی اور جوق در جوق طالبین حدیث مشرق و مغرب سے ان کی درس گاہ کا رخ کررہے تھے۔ ان کی درس گاہ سے جو نامور اُٹھے ان میں ایک مولانا محمد ابراہیم صاحب آروی (م1320ھ) تھے۔ جنہوں نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال کیا اور مدرسہ احمدیہ کی بنیادڈالی ۔اس درس گاہ کے دوسرے نامور مولانا شمس الحق صاحب ڈیانوی عظیم ابادی (م1329ھ) صاحب عون المعبود فی شرح ابی داؤد ہیں جنہوں نے کتب حدیث کی جمع اور اشاعت کو اپنی دولت اور زندگی کامقصد قرار دیا او راس میں وہ کامیاب ہوئے۔
اس درسگاہ کے تیسرے نامور حافظ عبداللہ صاحب غازی پوری (م1322ھ) ہیں۔ جنہوں نے درس و تدریس کے ذریعہ خدمت کی، او رکہا جاسکتا ہے کہ مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کے بعد درس کا اتنا بڑا حلقہ او رشاگردوں کامجمع ان کے سوا کسی اور کو ان کے شاگردوں میں نہیں ملا۔
اس درسگاہ کے ایک او رنامور تربیت یافتہ ہمارے ضلع (اعظم گڑھ) میں مولانا عبدالرحمٰن صاحب مبارکپوری (م1353ھ) تھے جنہوں نے تدریس و تحدیث کے ساتھ ساتھ جامع ترمذی کی شرح ''تحفة الأحوذي'' عربی لکھی۔'' 2
پنجاب میں بھی حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کےتلامذہ نے بہترین تدریسی و تصنیفی خدمات سرانجام دیں۔
لکھو کے (فیروز پور۔مشرقی پنجاب) میں مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ 0م1311ھ) نے مدرسہ محمدیہ کی بنیاد رکھی۔ اس مدرسہ سے جن علماوے کرام نے تعلیم حاصل کی اُن کا شمار ملک کے نامور علماء میں ہوتاہے۔مولانا حافظ محمد لکھوی کے علاوہ تدریسی خدمات میں علمائے غزنویہ نے کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔مولانا سید عبداللہ الغزنوی (م1298ھ) نے، جن کا شمار مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے ارشاد تلامذہ میں ہوتا ہے، مدرسہ غزنویہ کے نام سے امرتسر میں ایک مدرسہ قائم کیا۔ اس مدرسہ میں حضرت شیخ الکل کے تلامذہ یعنی مولانا سید عبدالجبار غزنوی (م1331ھ) او رمولانا سید محمد حسین بٹالوی (م1338ھ) نےتدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اس مدرسہ سے بھی جنہوں نے اکتساب فیض کیا، ان کا شمار برصغیر کے ممتاز علمائے کرام میں ہوتا ہے او ریہ مدرسہ غزنویہ جو بعد میں ''تقویة الإسلام'' کے نام سے موسوم ہوا، آج تک قائم و دوائم ہے او رتوحید و سنت کی اشاعت میں مصروف عمل ہے۔
پنجاب میں تدریسی خدمت کے سلسلہ میں مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث و زیر آبادی (م1334ھ) کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔مولانا حافط عبدالمنان صاحب حضرت شیخ الکل کے ارشاد تلامذہ میں سے تھے اور فن حدیث میں اپنے تمام معاصر پر فائز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں 80 مرتبہ صحاہ ستہ پڑھایا۔ آپ کے تلامذہ میں ملک کے ممتاز علمائے کرام کا نام آتاہے او رجن کی اپنی خدمات بھی اپنے اپنے وقت میں ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔مثلا ً
مولانا عبدالحمید سوہدروی (م1330ھ)، شیخ الاسلام مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ صاحب امرتسری (م1367ھ)، مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی (م1375ھ)، مولانا عبدالقادر لکھوی (م1343کھ) اور مولانا محمد اسماعیل السلفی (م1387ھ) وغیرہم!
تصنیفی لحاظ سے بھی علمائے اہلحدیث کاشمار برصغیر پاک و ہند میں اعلیٰ اقدار کا حامل ہے۔ علمائے اہلحدیث نے عربی ، فارسی اور اردو میں ہر فن یعنی تفسیر، حدیث، فقہ،1صول فقہ، ادب تاریخ او رسوانح پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔اس سلسلہ میں مولانا ابویحییٰ امام خاں نوشہروی (م1381ھ) کی تصانیف 'ّتراجم علمائے حدیث ہند'' اور ''ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات'' دیکھی جاسکتی ہیں۔
اس مقالہ میں ، میں نے جن علمائے کرام کی علمی خدمات کا تذکرہ کیا ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ شیخ رضی الدین حسن صغانی لاہوری (م650ھ)
2۔ شیخ علی متقی (م975ھ)
3۔ شیخ محمد بن طاہر پٹنی گجراتی (م986کھ)
4۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی (م1052ھ)
5۔ شیخ نور الحق دہلوی (م1073ھ)
6۔ مجدد الف ثانی (م1034ھ)
7۔ سید مبارک محدث بلگرامی (م 1115ھ)
8۔ شیخ نور الدین احمد آبادی (م1155ھ)
9۔ شیخ محمد افضل سیالکوٹی (م1146ھ)
10۔ حضرت مرزا مظہر جانجاناں شہید (م1195ھ)
11۔ حضرت امام ولی اللہ محدث دہلوی (م1176ھ)
12۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م1239ھ)
13۔ حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (م1242ھ)
14۔حضرت شاہ اسماعیل شہید دہلوی (م1246ھ)
15۔ مولانا شاہ محمد اسحاق فاروقی (م1263ھ)
16۔ مولانا ولایت علی صادقپوری (م1269ھ)
17۔ مولانا شیخ عبدالحق بنارسی (م1286ھ)
18۔ مولانا شاہ عبدالقیوم بڈھانوی (م1299ھ)
19۔ مولانا سید نواب صدیق حسن خان قنوجی (م1307ھ)
20۔ حضرت شیخ الکل مولانا السید محمدنذیر حسین محدث دہلوی (م1320ھ)
21۔ مولانا سید امیر حسن سہسوانی (م1291ھ)
22۔ مولانا سید امیر احمد سہسوانی (م1306ھ)
23۔ مولانا محمدبشیر سہسوانی (م1326ھ)
24۔ مولانا السید عبداللہ الغزنوی (م1298ھ)
25۔ مولانا السید عبدالجبار غزنوی (1331ھ)
26۔ مولانا عبدالاوّل غزنوی (م1313ھ)
27۔ مولانا عبدالغفور غزنوی (1353ھ)
28۔ مولانا حافظ محمد لکھوی (م1310ھ)
29۔مولانا حافظ عبداللہ محدث غازی پوری (م1337ھ)
30۔ مولانا محمد سعید بنارسی (1322ھ)
31۔ مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی (م1329ھ)
32۔ مولانا قاضی محمد مچھلی شہری (م1330ھ)
33۔ استاذ پنجاب مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیر ابادی (م1334ھ)
34۔ مولانا عبدالحمید سوہدروی (م1330ھ)
35۔ مولانا محمد حسین بٹالوی (م1338ھ)
36۔ مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی (1348کھ)
37۔ مولانا سید احمد حسن دہلوی (م1338ھ)
38۔ مولانا نواب وحید الزمان حیدر آبادی (م1338ھ)
39۔ مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری (م1353ھ)
40۔ مولانا عبدالتواب ملتانی (م1253ھ)
41۔ مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری (1367ھ)
42۔ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م1375ھ)
43۔ مولانا حافط عبداللہ روپڑی امرتسری (م1384ھ)
44۔ مولانا ابوسعید شرف الدین محدث دہلوی (م1381ھ)
45۔ مولانا عبدالجبار محدث کھنڈیلوی (م1382ھ)
46۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل السلفی (م1387ھ)
47۔ مولانا عبدالسلام بستوی (1394ھ)
48۔ حضرت العلّا مولانا حافظ محمد گوندلوی حفطہ اللہ تعالیٰ
49۔ مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری حفظہ اللہ تعالیٰ
50۔ مولانا ابوالطیب محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی حفظہ اللہ تعالیٰ
51۔ مولانا محمد داؤد راز دہلوی (م1402ھ)
نوٹ : [ اُمید ہے کہ قارئین محدث یہ مقالہ پورے ذوق و شوق سے پڑھیں گے اور میرے حق میں عائے خیر کریں گے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے سچے مذہب (اسلام) کی خدمت کا موقع دے ۔] دعاگو ................. (عبدالرشید عراقی)
؎ اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن ....... پس حدیث مصطفٰی برجاں مسلّم داشتن
علم حدیث وہ علم ہے جس کے ذریعے آنحضرتﷺ کے اقوال، احوال اور افعال پہچانے جائیں۔ علم حدیث کی اس تعریف سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ فن حدیث کا موضوع آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی سے متعلق ہے۔ اس علم کی غرض و غایت دنیاوی اور اخروی سعادت کی تحصیل ہے۔ احکام شرعیہ اور فقیہ میں کتاب اللہ کےبعد حدیث رسولﷺ حجت ہے۔ اس علم کے اصول و احکام او راس کے قواعد و ضوابط اور اصطلاحات کو علماء اور محدثین و فقہاء نے بڑی وضاحت و تفصیل سے بیان فرمایا ہے اور جو شخص فن حدیث سے آگاہی حاصل کرنا چاہیے اس کے لیے ضروری ہے کہ ان احکام و قواعد و اصطلاحات کو جان لے۔
علم القرآن اگر اسلامی علوم میں دل کی حیثیت رکھتا ہے تو علم حدیث شہ رگ کی۔ آیات کا شان نزول او ران کی تفسیر ، احکام القرآن کی تشریح و تعیین، رجال کی تفصیل، عموم کی تخصیص، مبہم کی تعیین، سب علم حدیث کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے، اسی طرح حامل قرآن محمدﷺ کی سیرت، حیات طیبہ، اخلاق و عادات مبارکہ ، آپؐ کے اقوال و اعمال ، آپ ؐ کے سنن و مستحبات او راحکام و ارشادات اسی علم حدیث کے ذریعہ ہم تک پہنچتے ہیں اسی طرح خود اسلام کی تاریخ ، صحابہ کرام ؓ کے احوال، ان کے اعمال و اقوال او راجتہادات و استنباطات کا خزانہ بھی اسی کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے۔ اس بناء پراگریہ کہا جائے تو صحیح ہے کہ اسلام کے عملی پیکر کا صحیح مرقع اسی علم کی بدولت مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے موجود و قائم ہے او ران شاء اللہ تاقیامت رہے گا۔3
علم حدیث ہندوستان میں:
خلیفہ اموی ولید بن عبدالملک (م96ھ) کے زمانہ میں محمد بن قاسم ثقفی نے سندھ فتح کیا اور وہاں اسلامی سلطنت قائم ہوگئی او راس کے ساتھ ہی بہت سے اہل علم حضرات نے عرب کو خیر باد کہہ کر سندھ میں سکونت اختیار کی اور یہاں علم حدیث رواج پانے لگا۔4
پھر ایک ایسا دور آیا کہ سندھ میں عربوں کی حکومت ختم ہوگئی او ران کے بجائے غزنوی و غوری سلاطین نے جگہ لی تو علم حدیث اس علاقے میں کم ہونا شروع ہوگیا او ردوسرے علم نے اس کی جگہ لینی شروع کی۔
مولانا سید عبدالحئ سابق ناظم ندوة العلماء (م1341ھ) لکھتے ہیں:
''جب سندھ میں عربوں کی حکومت ختم ہوگئی او ران کے بجائے غزنوی و غور ی سلاطین سندھ پرقابض ہوئے اور خراسان ماورا ءالنہر سے سندھ میں علماء آئے۔ تب علم حدیث اس علاقہ میں کم ہوتا گیا، یہاں تک کہ معدوم ہوگیا اور لوگوں میں شعر و شاعری ، فن نجوم، فن ریاصی او رعلوم دینیہ میں فقہ و اصول فقہ کا رواج زیادہ ہوگیا۔ یہ صورت حال عرصہ تک قائم رہی۔ یہاں تک کہ علمائے ہند کا خاص مشغلہ یونانی فلسفہ رہ گیا اور علم تفسیر و حدیث سے غفلت بڑھ گئی ۔مسائل فقیہہ کے سلسلہ سے جو تھوڑا سا تذکرہ کتاب و سنت میں آجاتا تھا، بس اسی مقدار پر قانع تھے۔'' 5
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی لکھتے ہیں:
''جس زمانہ میں اس ملک میں اسلامی حکومت کا سکہ بیٹھا اور اس میں سلطنت اسلامیہ باقاعدہ قائم ہوئی، افسوس ! ہمارا علم حدیث اس کے ساتھ ہی مروج نہ ہوسکا بلکہ اس کی اشاعت بہت زمانہ بعد ہوئی۔''
ملک ہندو پنجاب میں علم سنت مطہرہ بفحوائے حدیث پاک ''بدأ الإسلام غریبا'' (الحدیث) بالکل اجنبیت کی حالت میں آیا اور صدیوں تک اس کے خواہاں خال خال نظر آتے رہے۔ نہ تو دربار شاہی میں اس کو بار ملا کر سلطنت اس کی کفالت کرتی او رنہ مجالس میں امراء و رؤسا میں رسائی ہوئی کہ اس کے تذکرہ سے مجالس گرم ہوتیں اور نہ نصاب مدارس میں دخل ملا کہ علماء اس کی خدمت سے بہرہ اندوز ہوتے۔
ممالک بعیدہ سے انواع و اقسام کے حیوانات و طیور جمع کرنے کا خاص اہتمام تھا۔ بادشاہ سلامت خود تشریف لاکر خاص دلچسپی سے ان کو ملاحظہ فرماتے لیکن حدیث نبویؐ کا کوئی کتب خانہ جمع نہ کیا گیا۔مشاعرہ اور گپ بازی سے مجالس کو رونق دی جاتی۔ ظریفوں ، نقالوں او ربھانڈوں کی تنخواہیں بھی مقرر تھیں اور علاوہ بریں ان پر عطیات ، انعامات بارش کی طرح برسائے جاتے تھے لیکن قال الصحابی، قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدا سے کان غیر مانوس تھے۔ دریاست میں ارسطو کے فرسودہ خیالات اور اقوال الرجال کو منتہائے علم قرار دیا گیا لیکن وحی ربانی و سنت رسولؐ حقانی، جو شریعت حقہ کا مدار اور عقلیات کی مہک صادق ہے، اسے حلقہ درس میں دخل ہی نہ تھا۔''6
ہندوستان میں علم حدیث کی اشاعت و ترویج:
ہندوستان میں علم حدیث کی اشاعت و ترویج میں علمائے کرام نے دو طرح سے اپنے فرض کو ادا کیا ہے۔ (1) تدریسی سلسلہ سے (2) تصنیف و تالیف کے ذریعہ سے۔
اس سلسلہ میں علمائے کرام نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں، اس پر تصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔
شیخ رضی الدین صغانی لاہوری (م650ھ)
شیخ رضی الدین صغانی کی ولادت 577ھ میں ہوئی۔ آپ حضرت فاروق اعظمؓ کی اولاد میں سے ہیں۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔مولانا سید نواب صدیق حسن خاں قنوجی رئیس بھوپال (م1307ھ) نے ''ابجد العلوم'' اور ''اتحاف النبلاء'' میں آپ کے حالات تفصیل سے لکھے ہیں۔
آپ 615ھ میں بغداد گئے اور کئی سال آپ کا قیام بغداد میں رہا جو تدریس و تصنیف میں گزرا۔ اس کے بعد مکہ میں اقامت گزیں ہوگئے۔ 617ھ میں خلیفہ معتصم عباسی نے (م656ھ) آپ کو ہندوستان میں سفیر بناکر بھیجا او رآپ یہاں 7 سال قیام فرما رہے 634ھ میں واپس عراق لوٹے اور اس کے بعد 635ھ میں دوبارہ ہندوستان آئے اور 637ھ تک مقیم رہے اس کے بعد دوبارہ بغداد تشریف لے گئے۔
آپ ذی علم اور دینی تبحر میں مہارت تامہ رکھتے تھے ۔ حدیث ، لغت اور فقہ کے مسلمہ امام تھے۔ آپ کی تصانیف یہ ہیں:
علم لغت میں کتاب ''شوارد'' و ''حباب'' و '''شرح القلادة السمطیة في توضیح الدار الدریة''، ''کتاب الفرائض'' اور ''کتاب العروض''
علم حدیث میں ''مشارق الانوار'' جو تمام دنیا میں مشہور و متداول ہے۔اس کتاب میں آپ نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سے احادیث کو انوکھی ترتیب پر منتخب کیاہے۔ علمائے کرام نے اس کی متعدد مختصر اور مبسوط شروح لکھی ہیں۔
مولانا خرم علی بلہوری (م1260ھ) نےاس کا اردو ترجمہ ''تحفة الاخیار شرح مشارق انوار'' سے کیاہے جو مطبوع ہے۔7
شیخ رضی الدین کی وفات 650ھ میں بغداد میں بزمانہ خلیفہ معتصم عباسی ہوئی۔8
شیخ علی متقی جون پوری (م975ھ)
885ھ میں دکن کے شہر برہان پور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صوفی مشرب تھے۔ اس لیے آپ کا ابتدائی زمانہ صوفیانہ طرز پر بسر ہوا اور مدت تک ظاہری و باطنی فیوض حاصل کرتے رہے۔ 953ھ میں عازم حرمین شریفین ہوئے اور شیخ ابن حجر مکی (م973ھ) صاحب '' الصواعق المحرقة''9 کی صحبت اختیار کی ۔ شیخ ابن حجر مفتی حجاز تھے۔ جامع علوم ظاہری و باطنی تھے۔
حضرت والاجاہ نے ''اتحاف النبلاء'' اور ''ابجد العلوم'' میں آپ کے حالات اور تصنیفی خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔ آپ کی تصانیف ایک سو سے زیادہ ہیں اور آپ کی تصانیف کے بارے میں مرحوم نواب صاحب لکھتے ہیں:
''قد وقفت علیٰ بعض تو الیفه فوجد تھا نافعة مفیدة مستعة تامة''10
''میں آپ کی بعض تصانیف سے واقف ہوا تو ان کو نفع مند اور کامل کارآمد پایا۔''
علم حدیث میں آپ کی قابل قدر خدمت یہ ہے کہ آپ نے امام جلال الدین السیوطی (م911ھ) کی کتاب جمع الجوامع کو فقہی ابواب کی ترتیب پر مرتب کیا اور اس کتاب کے متعلق آپ کے استاد ابوالحسن بکری فرماتے ہیں کہ:
''امام سیوطی کا احسان تمام لوگوں پر ہے او رشیخ علی متقی کا احسان امام سیوطی پر ہے۔''11
یہ کتاب حیدر اباد دکن سے بڑی تقطیع پر چار جلدوں میں طبع ہوچکی ہے۔
شیخ عبدالوہاب شعرانی مصری (م973ھ) حضرت شیخ علی متقی کی نسبت فرماتے ہیں:
''آپ صاحب علم، صاحب ورع، زاہد (بے نفس) تھے۔''12
حضرت شیخ کی وفات975ھ میں مکہ معظمہ میں ہوئی اور اس وقت آپ کی عمر 90 سال کی تھی۔13
دسویں صدی ہجری:
دسویں صدی ہجری میں علم حدیث کی اشاعت پہلے دور کی نسبت بہت زیادہ ہوئی۔ اس صدی میں بہت سےعلمائے کرام ہندوستان تشریف لائے جنہوں نے علم حدیث کی اشاعت و ترویج میں معتدبہ حصہ لیا۔ مثلاً
آپ کی ولادت 912ھ میں ہوئی۔ تحصیل علم کے بعد عازم حرمین شریفین ہووے اور حضرت شیخ علی متقی اور حضرت شیخ عبدالوھاب متقی کی صحبت اختیار کی۔ حضرت نواب صاحب مرحوم لکھتے ہیں:
''رحل إلی الحرمین و صحب الشیخ عبدالوھاب المتقي خلیفة الشیخ علي المتقي واکتسب علم الحدیث وعاد إلی الوطن استقربه ثلثین و خمسین سنة بجمعیة الظاھر و الباطن و نشر العلوم''15
یعنی '' 22 سال کی عمر میں حرمین شریفین کا سفر کیا اور علی متقی کے خلیفہ شیخ عبدالوھاب متقی کی صحبت میں رہے اور ان سے علم حدیث حاصل کیا اور اپنے وطن کی طرف لوٹے اور 52 سال تک ظاہرہ و باطنہ کی جمعیت کے ساتھ ٹھہرے اور علوم کی اشاعت فرماتے رہے۔''
آپ کی تصانیف کی تعداد سو تک پہنچی ہے۔ علم حدیث میں آپ کی خدمات گرانقدر ہیں۔
1۔ اسماء الرجال میں آپ کی کتاب ''المغنی''16ہے۔
2۔ تذکرة الموضوعات: یہ کتاب اپنے موضوع پربڑی جامع اور بہت زیادہ معلومات پر مشتمل ہے۔ امام شوکانی (م1250ھ) او رملا علی قاری (م1014ھ) کی کتاب ''الموضوعات'' سے زیادہ بڑی ضخیم او رجامع ہے۔
3۔ علم حدیث کی حل لغات پر ''مجمع البحار الأنوار''کتاب تصنیف کی جو حدیث کے مشکل الفاظ کی توضیح و تشریح میں بہت عمدہ کتاب ہے۔ یہ کتاب 3 جلدوں میں طبع ہوچکی ہے۔
حدیث کی اشاعت میں آپ نے جو اہم کردار ادا کیا اس پر مصنفین نے آپ کو خراج تحسین پیش کیا ہے:
مولانا سید عبدالحئ 0م1341ھ) لکھتے ہیں:
''شیخ محمد بن طاہر پٹنی 0م986ھ) علم حدیث کی اشاعت کے سلسلہ میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے باقاعدہ اس فن کا درس دیا اور بہت سے علماء ان کے شاگر د ہوئے او ران کی ذات کو اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں حدیث کی نشرواشاعت کا ذریعہ بنایا۔''17
مشہور اور ممتاز اہلحدیث عالم حضرت مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیف بھوجیانی مدیر الاعتصام لکھتے ہیں:
''دسویں صدی ہجری میں علامہ محمد بن طاہر پٹنبی (م986ھ) اور شاہ عبدالحق محدث دہلوی (م1050ھ) حرمین کے علماء حدیث سے فیض حاصل کرکے ہندوستان میں وارد ہوئے تو انہوں نے فن حدیث کی خدمت اور اس کی عام تشریح میں اپنی عمریں صرف کردیں تاکہ کتاب و سنت سےبراہ راست استفادہ کرکے ان فقہاء کے بے دلیل فتوؤں اور صوفیوں کے فریب کارانہ ہتھکنڈوں سے نجات حاصل کرسکیں۔''18
986ھ میں آپ کو اکبر آباد اگرہ میں شہید کردیا۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔ (جاری ہے)
حوالہ جات
1. تراجم علمائے حدیث ہند ص35
2. تراجم علمائے حدیث ہند ص36
3. مقدمہ از تدوین حدیث مولانا مناظر احسن گیلانی (م1375ھ) تحریر علامہ سید سلیمان ندوی (م1373ھ)
4. تاریخ الخلفاء از سیوطی (م911ھ)
5. اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں، طبع اعظم گڑھ 1389ھ ص 195
6. تاریخ ولادت ، مطبوعہ لاہور 1970ء ص379
7. ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات، مطبوعہ دہلی (1356ھ) ص 47
8. تاریخ اہلحدیث، ص383
9. الصواعق المحرقہ خلافت راشدہ کے ثبوت اور ردّ شیعہ میں مقبول خاص و عام ہے۔
10. ابجد العلوم، ص895
11. تاریخ اہلحدیث ، ص385
12. ایضاً ص386
13. ایضاً ص386
14. اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں، ص195
15. بجد العلوم ص901
16. یہ کتاب دہلی سےتقریب التہذیب کے ساتھ طبع ہوچکی ہے اس کے خاتمہ پرایک فصل تواریخ ہے جس میں عموماً آنحضرتﷺ، خلفائے اربعہؓ، ائمہ اربعہ اور بعض دیگر اجلہ محدثین کرام کے سنہ ولادت اور سنہ وفات لکھے ہیں۔ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م1375ھ) نے اس پر اضافہ کرکے ''الشمار التاریخ في تفصیل التواریخ'' کے نام سے ایک کتاب مرتب کی افسوس کہ یہ کتاب ابھی تک طبع نہیں ہوسکی۔
17. ''اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں'' ص196
18. ''امام شوکانی'' مطبوعہ امرتسر 1365ھ ص5