معراج النبی ؐپر کئے گئے اعتراضات کا علمی جائزہ!

زیر نظر مضمون ، آج سے تقریباًآٹھ نو ماہ قبل ''پاکستان ٹائمز'' میں چھپنے والے ایک مضمون (Mairaj-un-Nabi.Man at Spiriturel Summit)کے جواب میں ہے،........ مضمون کے آغاز میں ''پاکستان ٹائمز'' کے مذکورہ مضمون کا خلاصہ چند نکات کی صورت میں درج تھا، جس کی ابتدائی سطور پڑھ کر ہی ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ چنانچہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اصل مضمون کو منگوا کر اس کا مطالعہ کیا جائے تاکہ پوری ذمہ داری سے بات کی جاسکے۔ الحمدللہ یہ شمارہ دستیاب ہوگیا اور اس کو پڑھ کر ہم جس نتیجے پر پہنچے ہیں وہ یہ ہےکہ یہ ایک انتہائی گستاخانہ مضمون ہے جس میں نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ پر رکیک حملے کئے گئے اور احادیث رسول اللہ ﷺ کا مذاق اڑایا گیا ہے، بلکہ اس کے ذریعے واقعہ معراج سے متعلق عامة المسلمیں کے اعتقادات پر بھی کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ تعجب ہے کہ یہ اخبار، جس میں یہ مضمون چھپا ہے، ایک مسلمان ملک کا ممتاز روزنامہ ہے او راس کے متعقلین بھی یقیناً اپنے آپ کو مسلمان ہی کہلواتے ہیں اورمزید تعجب اس بات پر ہے کہ ملک کے دینی جرائد پر تو سنسر کی پابندیاں برقرار ہیں ، لیکن اخبارات اگر اس سے مستثنیٰ ہیں تو یہ مضمون جو یقیناً لاکھوں کی تعداد میں چھپا، حکومت کے نوٹس میں نہ آیا او رنہ ہی اس پر کسی ردّعمل کا اظہار ہوسکا ہے۔ آہ! ''بدأ الإسلام غریبا و سیعود کما بدأ'' رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشین گوئی تو یقیناً سچی ہے اور جس کے آثار بھی ظاہر ہیں ، لیکن افسوسناک امرتو یہ ہے کہ یہ سب کچھ آج ہمارے اس زمانہ میں لاکھوں ، کروڑوں مسلمانوں کی موجودگی میں ہورہا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہماری دینی غیرت مرچکی، اسلام ہماری نظروں میں واقعی اجنبی ٹھہر چکا او رہم اس کی تعلیمات کو یکسر فراموش کرچکے ہیں ! ''إِنَّ فِى ذَ‌ٰلِكَ ﴿لَذِكْرَ‌ىٰ لِمَن كَانَ لَهُۥ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى ٱلسَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ﴿٣٧...سورۃ ق''

جناب عبدالرؤف ظفر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے دینی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اس زہر کا تریاقی مہیا کرنے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے، جس نےلاکھوں مسلمانوں کے ذہنوں کو مسموم کرنے کی جسارت کی ہے۔ او راس مضمون کو ''محدث'' کے صفحات میں شائع کرکے ہم بھی اپنے فریضہ سے سبکدوش ہوتے ہیں ۔ فلله الحمد۔ (ادارہ)



22 مئی 1982ء بمطابق 27 رجب 1402ھ کے ''پاکستان ٹائمز'' میں شاکر رضوانی صاحب کا ایک مضمون بعنوان ''معراج النبیؐ ، انسان روحانی عظمت پر'' شائع ہوا۔ صاحب مضمون نے لکھا ہے کہ (معراج کے سلسلہ میں ) بیت المقدس تک کے سفر کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ آسمانی سفر کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے۔

آنحضرتؐ کا بیت المقدس تک کا روحانی سفر درست ہے۔ لیکن آسمانوں تک اپؐ کا تشریف لے جانا اسرائیلیات سے ماخوذ ہے او ریہود کی اختراع ہے۔ اس مضمون میں پورے واقعہ معراج النبیؐ کو احادیث میں اپنی مرضی سے ردّوبدل کرکے درج کیا گیاہے۔ پھر مختلف قسم کے اعتراضات کرکے واقعہ معراج کو من گھڑت ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ پورا مضمون تضادات کامجموعہ ہے۔معراج النبیؐ کو کہیں وہ افسانہ لکھتے ہیں ، کہیں روحانی واقعہ او رکہیں خواب کا واقعہ بتاتے ہیں ۔ ہم ان کے مضمون کا خلاصہ درج ذیل نکات میں سمیٹتے ہیں ، اور بعد میں ان کا تجزیہ کریں گے۔
1۔ معراج کا ذکر سورہ بنی اسرائیل میں اسراء کے ذکر کے ساتھ نہیں ہے۔ لہٰذا قرآن مجید سے معلوم ہوا کہ آسمانی معراج کا پورا واقعہ ایک افسانہ ہے۔
2۔ معراج جیسے غیر معمولی واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں لازماً ہونا چاہیے تھا۔ اس کی تفصیلات جزئیات نہ سہی، اہم نکات ہی درج ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ کلام پاک میں لفظ معراج ہی نہیں ہے۔
3۔ بیت المقدس تک کا سفر بھی ایک روحانی سفر تھا، جسمانی نہیں جیسا کہ اسی سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر60﴿وَمَا جَعَلْنَا ٱلرُّ‌ءْيَا ٱلَّتِىٓ أَرَ‌يْنَـٰكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ...﴿٦٠﴾...سورۃ بنی اسرائیل'' ''او رہم نے جو منظر آپکو دکھایا تھا اُسے ہم نےلوگوں کی آزمائش کا سبب بنا دیا۔''(ترجمہ ماجدی) سے معلوم ہوتا ہے ۔
4۔ آسمانی سفر کا ذکر آنحضرتؐ کی وفات کے تقریباً سو سال بعد سیرت ابن اسحاق میں ملتا ہے۔بعد ازاں 200 یا 300 سال بعد مدوّن ہون ےوالی کتب احادیث میں ہے۔ سیرت ابن اسحاق میں اس واقعہ کو وضعی ثابت کرنے والی ایک روایت زیاد بن عبداللہ سے مروی ہے کہ جب آنحضرتؐ بیت اللہ سے بیت المقدس گئے تو اس وقت قبیلہ قریش اور دیگر قبائل میں السام پھیل چکا تھا، حالانکہ ایسا نہیں تھا۔
5۔ روایات میں آنحضرت ؐ کو فرشتے کا ٹھوکر مار کر اٹھانا نہایت ہتک آمیز ہے جس کا تصور ہی محال ہے۔
6۔ تاریخ معراج میں اختلاف ہے۔ بعض اس کو 27 رجب بتاتے ہیں ، بعض اسراء اور معراج کو دو الت الگ واقعات بتاتے ہیں ۔پہلا 17 ربیع الاوّل کو، دوسرا 17 رمضان المبارک کو، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ معراج کئی دفعہ ہوا۔ یہ مختلف فیہ روایات اس بات کی شاہد ہیں کہ یہ واقعہ ہی من گھڑت ہے۔
7۔ آنحضرتؐ کے مقام اسراء اور وقت اسراء میں بھی اختلاف ہے۔ بعض روایات میں ہے، آپؐ گھر پربستر میں تشریف فرما تھے۔ بعض میں ہے، آپؐ صحن کعبہ میں تھے او ربعض میں ہے کہ حرم کی دیوار پر تھے۔
آنحضرتؐ کا شق صدر مشکوٰة المصابیح کے مطابق اسراء سے تھوڑی دیر قبل کا واقعہ ہے جبکہ دیگر روایات شق صدر کو بچپن کا واقعہ بتاتی ہیں ۔
9۔ مسجداقصیٰ کے اصل مقام کا کسی کو علم نہیں ۔اس نام کی مسجد معراج کے وقت یروشلم میں موجود نہیں تھی۔ اس مسجد کو آنحضرتؐ کے 8 سال بعد حضرت عمرؓ نے تعمیر کیا تھا۔ بعض لوگ کیال کرتے ہیں کہ مسجد نبویؐ ہی دراصل مسجد اقصیٰ ہے۔ بعض مسجد اقصیٰ کا مقام جنت قرار دیتے ہیں ۔ اس صورت میں یروشلم تک کے جسمانی سفر کی کووی حقیقت نہیں بلکہ سیدھاآسمانی سفر ہوا اور وہ بھی روحانی طور پر۔
10۔ احادیث رسولؐ سے واقعہ معراج کو بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات ہوئی۔ سات ہزارفرشتے اُڑتے اور غائب ہوتے ہوئے نظر آئے۔ خدا تعالیٰ نے آپؐ سے تقریباً ستر ہزار باتیں کیں ۔ ان باتوں میں پانچ نمازوں تک پچاس کو محدود کرکے ایک دن میں ادا کرنا مذکور ہے۔مسلم شریف کی ایک روایت اس طرح بیان کی گئی ہے کہ''ابن شہاب ابوذر سے روایت کرتے ہیں ۔ آنحضرتؐ کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، پانچ یا پچاس برابر ہیں ۔ خدا تعالیٰ جو ایک دفعہ کہہ دے بدلتا نہیں ہے۔''
11۔ معراج النبیؐ کو خواب کا واقعہ ثابت کرنے کے لیے دو احادیث سے استشہاد کیا گیا ہے۔
(الف) بخاری شریف میں ہے: ''آنحضرتؐ نے فرمایا کوئی ایسی چیز نہیں جو میں نے نماز میں اس جگہ نہ دیکھی ہو، یہاں تک کہ جنت اور دوزخ بھی دیکھے۔''
(ب) ترمذی میں ہے: ''میں رات کو جاگا، نماز پڑھی، پھر غیر متوقع طور پراللہ تعالیٰ کو خوبصورت شکل میں دیکھا، اس کی انگلیوں کا احساس میرے کندھوں کے درمیان ہوا اور اس کے چھونے کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی۔''
12۔ آسمانی معراج کی روایات کے مطابق آنحضرت ؐ نے ایک عام آدمی کی سمجھ(Commensense)سے بھی کام نہ لیا کہ ایک دن میں پچاس نمازوں پر کیسے ہاں کرلی؟ جبکہ ایک نماز پر کم از کم بیس منٹ صرف ہوتے ہیں ، حضرت موسیٰ ؑ کے مشورہ پر کان دھرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس طرح تو ثابت ہوتا ہے ۔ موسیٰ ؑ آپؐ سے زیادہ سوجھ بوجھ کے مالک تھے۔
13۔ قرآن مجید میں کسی جگہ نمازوں کے وقت کے تعین کا ذکر نہیں ہے۔ صرف سورج کے طلوع و غروب سے اشارہ کیا گیااور وہبھی سورة اسراء کی بجائے دیگر سورتوں میں ہے۔ نماز کا تعلق واقعہ معراج سے ہوتا تو سورة بنی اسرائیل میں اس کا تذکر ہوتا۔
14۔ پورا واقعہ معراج یہود کی اختراع ہے ، وہ آنحضرتؐ کو یہودی پیغمبر کا محتاج ثابت کرنا چاہتے تھے او ران کے مشن کا مذاق اڑا کر ان کی توہین کرنا چاہتے تھے او ریہ مقصد انہوں نےمعراج جیسے واقعہ کو گھڑ کر حاصل کرلیا (وغیرہ)


ان تمام اعتراضات کا جواب لکھنے سے قبل چند اہم باتیں درج کی جاتی ہیں جن کاذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
1۔ وحی کی دو قسمیں ہیں ۔ وحی کی ایک قسم وہ ہے جس کے الفاظ او رمعانی دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں ، اس کا نام قرآن مجید ہے:
﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْقُرْ‌ءَانَ تَنزِيلًا ﴿٢٣...سورۃ الانسان
''ہم نے آپ پر قرآن مجید نازل فرمایا ہے۔''

دوسری وحی کی قسم وہ ہے جس کے معانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں ۔ لیکن آنحضرتؐ ان معانی الہٰی کو اپنے الفاط کا جامہ پہنا دیتے ہیں ۔
ارشاد ربانی ہے:
﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلْهَوَىٰٓ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَىٰ ﴿٤...سورۃ النجم
''وہ اپنی نفسانی خواہشوں سے باتیں نہیں بناتے ، ان کا کلام تو تمام تر وحی ہے جو ان پربھیجی جاتی ہے۔''

اس دوسری قسم کی وحی کو حدیث رسولؐ کہتے ہیں :
2۔ قرآن فہمی کے لیے ضرورت ہے کہ عربی زبان پر عبور حاصل ہو۔ قرآن مجید کے سیاق و سباق کا علم ہو، حدیث رسولؐ پر گہری نظر ہو۔آثار صحابہؓ اور تابعین کا جاننا بھی ضروری ہے۔ قدیم تفاسیر۔ تفسیر ابن جریر، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر فتح القدار، تفسیر خازن، تفسیر روح المعانی، فتح البیان او رمستند کتب تاریخ البدایہ والنہایہ وغیرہ کو مدنظر رکھا جائے ، اُردو دان حضرات کے لیے تفسیر ثنائی ، تفسیربیان القرآن، تفہیم القرآن اور معارف القرآن بہت مفید ہیں ۔ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے لَو لگانا بھی ضروری ہے۔
بقول علامہ اقبال: ؎

تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

3۔ قرآن مجید کے کلام خدا ہونے کا علم ہی ہمیں زبان رسولؐ سے ہوا ہے۔ احادیث رسولؐ اللہ کو الگ کرکے قرآن مجید سمجھ میں نہیں آسکتا۔ صلوٰة، صوم، زکوٰة اور دیگر کئی اصطلاحات قرآن کی تشریح بھی احادیث کے بغیر ناممکن ہے۔ قرآن مجیدنے حدیث رسولؐ کی حجیت پربہت زیادہ زور دیا ہے۔آیات قرآنی ملاحظہ ہوں :
﴿وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ...﴿٤٤﴾...سورۃ النحل
''ہم نے آپ پر ایک ذکر اتارا ہے تاکہآپ لوگوں پر اسے وضاحت سے بیان فرما دیں جو ان کی طرف بھیجا گیا ہے۔''

﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَ‌سُولِ ٱللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ...﴿٢١﴾...سورۃ الاحزاب
''تمہارے لیے رسول اللہ ؐ کی ذات ایک عمدہ نمونہ ہے۔''

﴿وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا...﴿٧﴾...سورۃ الحشر
''رسول اللہ ؐ تمہیں جو کچھ دیں لے لو اور جس سے وہ تنہیں روک دیں رُک جاؤ''

نزول قرآن مجید کے زمانہ میں لفظ ''ظلم'' کے معنی صحابہ کرامؓ کی سمجھ میں نہیں آئے تھے۔ آنحضرتؐ کے بتانے پر انہیں معلوم ہواکہ یہاں پر خدا تعالیٰ نے ظلم سے شرک مراد لیاہے۔ 1

جب کوئی آدمی خدا تعالیٰ کے کلام کی شرح اپنی مرضی سے کرنا چاہتا ہے تو ہدایت کی بجائے گمراہی پھیلتی ہے۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک درخت کے قریب جانے سے روک دیا تو شیطان نے اس کلام الٰہی کی یہ تفسیر بیان کی:
﴿وَقَالَ مَا نَهَىٰكُمَا رَ‌بُّكُمَا عَنْ هَـٰذِهِ ٱلشَّجَرَ‌ةِ إِلَّآ أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ ٱلْخَـٰلِدِينَ ﴿٢٠...سورۃ الاعراف
''شیطان کہنے لگا تمہارے رب نے تمہیں درخت سےمحض اس لیے روکا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتے نہ بنا جاؤ یاکہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے نہ ہوجاؤ۔''

پھر جو کچھ ہوا ہمارے سامنے ہے۔

حلت و حرمت کا معاملہ بھی حدیث رسول اللہ ؐ سے ہی حل ہوتا ہے، قرآن مجید میں ہے:
﴿حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةُ وَٱلدَّمُ وَلَحْمُ ٱلْخِنزِيرِ‌ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيْرِ‌ ٱللَّهِ بِهِ...﴿٣﴾...سورۃ المائدہ
''تم پر حرام کیے گئے ہین مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور جو جانور غیر اللہ کے لیےنامزد کردیئے گئے ہوں ۔''

اس قرآنیآیت کو سامنے رکھ کر اگر کوئی مکڑی اور مچھلی کو حرام قرار دے دے تو پوری اُمت کی رائے اس کے خلاف ہوگی کیونکہ آنحضرتؐ نے اس عام حکم کومخصوص فرما دیا، فرمایا:
''أحلت لنا میتتان و دمان فأما المیتتان ، فالحوت والجراد وأما الدمان فالکبد والطحال'' 2
''ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کیےگئے ہیں ۔ مردار تو مچھلی او رمکڑی ہیں ، خون کلیجہ اور تلی ہیں ۔''

نکاح میں لے جانے والی عورتوں کی حرمت کا ذکر قرآن مجید نے فرمایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے علاوہ بروایت ابوہریرہؓ یہ بھی فرمایا:
''لا یجمع بین المرأة وعمتها ولا بین المرأة و خالتها'' 3
'' عورت کو اس کی پھوپھی کے ساتھ نکاح میں اکٹھا نہ رکھا جائے اور نہ ہی خالہ اور بھانجی کواکٹھا رکھا جائے۔''

ان مثالوں کے علاوہ کئی مقامات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید اور احادیث رسول اللہ ﷺ لازم و ملزم ہیں ۔ حضرت امام ابو حنیفہ نے کیا خوب فرمایا ہے:
''لولا السنة ما فهم أحد منا القرآن'' 4
کہ '' اگر سنت رسولؐ نہ ہوتی تو ہم میں سے کوئی بھی قرآن مجید نہ سمجھ سکتا۔''

احادیث رسولؐ کی حیثیت عام کتب تاریخ کی نہیں بلکہ یہ بھی قرآن مجید کی طرح محفوط و مصئون ہیں ۔کتابت حدیثآنحضرتؐ کے زریں دور سے شروع ہوگئی تھی چنانچہ ایک انصاری کے پوچھنے پرجو بھول جاتا ہے، آپؐ نے ارشاد فرمایا:
''استعن بیمینك أومأ بیدہ الخط'' 5
''اپنے دائیں ہاتھ سے مدد لو، آپؐ نے ہاتھ سے لکھنے کااشارہ فرمایا''

اسی طرح حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن عاص کو قریش نےآنحضرتؐ کی ہر بات لکھنے سے منع کیا کہ بعض اوقات آپؐ غصہ کی حالت میں ہوتے ہیں ۔ آنحضرتؐ کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا توآپؐ نے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
''اکتب فوالذي نفسي بیدہ ما یخرج منہ إلاحق'' 6
''لکھو، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ اس زبان سے صرف حق ہی نکلتا ہے۔''

اسی طرح حرم کی حرمت کے متعلقآنحضرتؐ نے خطبہ دیا تو یمن کے ایک شخص نے عرض کیا، کہ مجھے یہخطبہ لکھ دیں تو آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا:
''اکتبوا لأبي شاہ'' 7
''ابوشاہ کو لکھ دو''

اس سے معلوم ہوا کہ تمام احادیث رسولؐ کوآنحضرتؐ سے صحابہ کرامؓ لکھ لیتے تھے بلکہ ایک روایت میں یہ بھی ہے : حضرت انسؓ نے فرمایا کہ میں لکھ کر آنحضرتؐ سے نظرثانی بھی کرالیتا تھا۔'' 8

آنحضرتؐ کے بعد صحابہ کرامؓ پوری تحقیق سے بیان فرماتے ہیں ، پھر محدثین نے جہاں سے احادیث کو درج کیاوہاں سے آنحضرتؐ تک راویوں کی پوری سند چھان پھٹک کر لکھی، ان کے حالات زندگی لکھے گئے۔ سند کے بغیر کسی چیز کو قبول نہیں کیا۔

امام سفیان ثوری کا قول ہے:
''الإسناد سلاح المؤمن فإذا لم یکن معه سلاح بأي شيء یقاتل'' 9
''سند مومن کا ہتھیار ہے، اگرہتھیار ساتھ نہ ہو تو کس چیز سے لڑے گا؟''

امام عبداللہ بن مبارک کا قول ہے:
من الدین ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء'' 10
''اسناد دین سے ہیں ، اگر سندیں نہ ہوتیں تو جس شخص کے جو جی میں آتا، کہہ دیتا۔''

''والإسناد حکایة طریق المتن'' 11
''اسناد متن کے طرق کے بیان کو کہتے ہیں ۔''

چنانچہ آنحضرتؐ کی زندگی کے شب و روز ہمارے سامنے ہیں ، محدثین نے اس کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں ۔ چنانچہ صرف بخاری شریف کو امام بخاری نے 16 سال میں مرتب کیا۔ ہر حدیث کو درج کرنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھی۔ 12

محدثین نے علم جرح و تعدیل پر مبسوط کتابیں قلمبند کیں جن کی گواہی غیر مسلم بھی دیتے ہیں ( میزان الاعتدال، لسان المیزان، تقریب التہذیب، تہذیب التہذیب اور تذکرة الحفاظ مشت نمونہ از خروارے ہیں ۔مولانا حالی نے (مسدس حالی) میں ان محدثین کو یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے: ؎


گروہ ایک جو یا تھا علم نبی کا ......... لگا یا پتہ جس نے ہر مفتری کا !
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا ......... کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا!
کئےجرح و تعدیل کے وضع قانون .........نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوں
اسی دھن میں آساں کیا ہر سفر کو ......... اسی شوق میں طے کیا بحر و بر کو،
سناخازن علم و دیں جس شہر کو ......... لیا اس سے جاکر خبر او راثر کو
پھر آپ اس کو پرکھا کسوٹی پر رکھ کر .........دیا اور کو خود مزا اس کا چکھ کر
کیا فاش راوی میں جو عیب پایا، ......... مناقب کو چھانا، مثالب کو تایا!
مشائخ میں جو قبح نکلا جتایا ......... ائمہ میں جو داغ دیکھا بتایا
طلسم ورع ہر مقدس کا توڑا ......... نہ ملا کو چھوڑا، نہ صوفی کو چھوڑا
رجال اور اسانید کے جو ہیں دفتر ......... گواہ ان کی آزادی کےہیں پیکر
نہ تھا اُن کا احساں یہ اک اہل دیں پر ......... وہ تھے ان میں ہر قوم و ملت کے رہبر

جب تک مندرجہ بالا چیزوں پر پوری نظر نہ ہو ، احادیث رسول اللہﷺ پر قلم اٹھا کر ٹھوکریں کھانے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔

4۔ محدثین نے کتب احادیث کی درجہ بندی کی ہے جس طرح دیگ رعلوم میں ماہرین کے درجات ہوتے ہین اسی طرح محدثین بھی اپنے ورع و تقوے کے لحاظ سے مختلف مقام رکھتے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ او ردیگر محدثین نے کتب احادیث کے پانچ طبقات شمار کیے ہیں ۔ پہلے نمبر پر بخاری اور مسلم ہیں ۔پھر دوسرے نمبر پر دیگر کتب صحاح ستہ ہیں ۔ اسی طرح پھر تیسرا چوتھا او رپانچواں طبقہ ہیں 13

کسی بھی حدیث کو دیکھنے کے لیے اس ترتیب کو مدنطر رکھنا ضروری ہے۔ پھر ان کتابوں میں بھی حدیث کے سیاق و سباق سے الگ پڑھنے کا وہی نتیجہ ہوگا جو آیت ﴿لَا تَقْرَ‌بُواٱلصَّلَو‌ٰةَ وَأَنتُمْ سُكَـٰرَ‌ىٰ...﴿٤٣﴾...سورۃ النساء'' ''اے ایمان والو! نماز کے قریب نہ جاؤ اس حال میں کہ تم نشہ میں ہو۔'' کو سیاق و سباق قرآن سے الگ کرکے پڑھنے سے نکلے گا۔

5۔ قرآن مجید کے حقائق یا احادیث رسول اللہ ﷺ کی تصدیق اگر کسی پہلی کتاب سے ہوجائے تو اس سے ان کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے نہ کہ یہ ان کی تکذیب کا باعث ہے۔ تورات او رانجیل کی تحریف کے باوجود ان میں آنحضورؐ او رصحابہؓ کرام کی صفتوں کا ذکر موجود ہے۔ ﴿ذَ‌ٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِى ٱلتَّوْرَ‌ىٰةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِى ٱلْإِنجِيلِ...﴿٢٩﴾...سورۃ الفتح'' ''ان کے یہ اوصاف تورات میں بھی مذکور ہیں او رانجیل میں بھی۔''

ان کتابوں میں ذکر ہونے والی کوئی چیز قرآن و حدیث میں ہو تو ہم اس کا انکار نہیں کریں گے بلکہ اس کی تصدیق مزید ہوگی۔ کیونکہ قرآن مجید تو''مُهَيْمِنًا عَلَيْهِ'' 14 (ان پر محافظ ہے) اسی طرح آنحضرتؐ کے متعلق ارشاد خداوندی ہے:
﴿يَـٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَ‌سُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرً‌ا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ ٱلْكِتَـٰبِ...﴿١٥﴾...سورۃ المائدہ
''اےاہل کتاب تمارے پاس ہمارے(یہ) رسول آئے ہیں تاکہ تمہارے سامنے کتاب الٰہی کے وہ مضامیں کثرت سے کھول دیں جن کو تم چھپاتے رہے ہو۔''

6۔ قرآن مجید کتاب ہدایت ہے، اس کامقصد واقعات کو تسلسل کے ساتھ بیان کرنا نہیں ، یہی وجہ ہے کہ ایک چیز کو مختلف مقامات پر مختلف انداز میں بیان کیا گیاہے لیکن ہر جگہ مقصد ہدایت کا نیا نکتہ ہے۔آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں کوی جگہ ہے، لیکن ہر جگہ انداز الگ الگ ہے۔ نماز کا ذکر کئی جگہ آتا ہے، کہیں ''يُقِيمُونَ ٱلصَّلَو‌ٰةَ'' 15 (وہ نماز قائم کرتے ہیں ) کہیں ''ٱلْمُقِيمِينَ ٱلصَّلَو‌ٰةَ''16(نماز کے پابند) کہیں ''أَقَامُواٱلصَّلَو‌ٰةَ''17(انہوں نے نماز کی پابندی کی) کہیں ''أَقِيمُواٱلصَّلَو‌ٰةَ''18 (اور نماز کی پابند رکھو) کہیں ''حَـٰفِظُواعَلَى ٱلصَّلَوَ‌ٰتِ''19(نمازوں کی حفاطت کرو) اور کہیں ''هُمْ فِى صَلَاتِهِمْ خَـٰشِعُونَ''20 (وہ اپنی نمازوں میں خشوع رکھنے والے ہیں) کے الفاظ ہیں ۔ نماز سے متعلق دیگر چیزوں کا ذکر دوسری مختلف جگہوں پر ہے۔ اسی طرح زکوٰة ، حج اور دیگر چیزوں کے احکام ایک جگہ پر مکمل نہیں ۔ بعض مقامات پر واقعات مجمل ہیں بعض پر مفصل ہیں ۔﴿وَلَقَدْ جَآءَكُمْ يُوسُفُ مِن قَبْلُ...﴿٣٤﴾...سورة المومن'' ''تمہارے پاس پہلے یوسف علیہ السلام آئے تھے۔'' پڑھ کر ذہن خود بخود سورہ یوسف کی طرف گھوم جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کسی کا پابند نہیں کہ وہ ایک جگہ پر سب کچھ بیان کرتا۔ مختلف سورتوں کی مختلف آیتیں مختلف مواقع پرنازل ہوئیں ۔ آنحضرتؐ کاتبین وحی کو بتلاتے کہ ان آیتوں کو فلاں سورة میں ، انآیتوں کے بعد درج کرو۔ حضرت عثمان ؓ سے روایت ہے کہ بعض اوقات متعدد سورتوں کی آیات بیک وقت نازل ہوتیں توآنحضرتؐ کسی کاتب کوبلا کر فرماتے۔
''ضعوا ھؤلاء الآیات في السورة التي یذکر فیها کذا'' 21
''ان آیات کو فلاں فلاں سورت میں فلاں فلاں جگہ لکھو۔''

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے ،آنحضرتؐ فرماتے ہیں :
''ضعوا ھٰذا السورة في الموضع الذي یذکر فيه کذا وکذا'' 22
''اس سورت کو اس جگہ رکھو جہایں اس اس طرح سے ذکر ہے۔''

مسند امام احمد میں حضرت عثمان ؓ بن ابی العاص سےمروی ہے ، آنحضرتؐ نے فرمایا:
''أتاني جبریل وأمرني أن أضع ھٰذا الآیة بھٰذا الموضع من ھذہ السورة إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُ‌ بِٱلْعَدْلِ وَٱلْإِحْسَـٰنِ'' 23
''میرے پاس جبرائیل آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ اسآیت کو، جو فلاں موضوع سے متعلق ہے، اس سورة میں رکھو۔ یعنی آیت''إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُ‌ بِٱلْعَدْلِ وَٱلْإِحْسَـٰنِ'' کو!''

بعض سورتیں مکی ہیں لیکن ان کی بعضآیات مدنی ہیں ۔مثلاً سورة اعراف مکی ہے، لیکن آیت﴿وَسْـَٔلْهُمْ عَنِ ٱلْقَرْ‌يَةِ ٱلَّتِى كَانَتْ حَاضِرَ‌ةَ ٱلْبَحْرِ‌...﴿١٦٣﴾...سورۃ الاعراف'' مدنی ہے۔ اسی طرح بعض مدنی سورتوں کی کچھ آیات مکی ہیں ۔ سورہ حج مدنی ہے لیکن چار آیات ''وَمَآ أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّ‌سُولٍ وَلَا نَبِىٍّ'' سے لےکر ''عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ'' تک مکی ہیں ۔24

اسی طرح مکی ''سور اسراء'' کی آیت نمبر 76 تا 80 مدنی ہیں ۔ اسی طرح واقعات کا اجمال اور تفصیل بھی خلاف عقل نہیں ۔ ہم عام زندگی میں بعض اوقات واقعات کو بیان کرتے ہیں ان کی جزئیات کو حذف کردیتے ہیں او ربعض اوقات انہیں شرح و بسط سے بیان کرتے ہیں ۔

7۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے سےمعلوم ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے صریحاً نبی کریمﷺ کو ایسے احکامات بھی دیئے ہیں جو قرآن کے علاوہ ہیں ۔ سورہ اعراف میں ہے:
﴿أْمُرُ‌هُم بِٱلْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَىٰهُمْ عَنِ ٱلْمُنكَرِ‌ وَيُحِلُّ لَهُمُ ٱلطَّيِّبَـٰتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيْهِمُ ٱلْخَبَـٰٓئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَ‌هُمْ وَٱلْأَغْلَـٰلَ ٱلَّتِى كَانَتْ عَلَيْهِمْ...﴿١٥٧﴾...سورۃ الاعراف
''وہ ان کو معروف کا حکم دیتا ہے اور منکر سے روکتا ہے ، ان کے لیے پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے او ران پرناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے او ران پر سے بوجھ اور بندھن اتارتا ہے۔''

اس آیت سے معلوم ہوا کہ صرف قرآن کا حلال یا حرام کردہ ہی حلال و حرام نہیں بلکہ جس چیز کوآنحضرتؐ نے حرام یا حلال قرار دیا، یا اس سے منع کیا، یااس کا حکم دیا ہے وہ بھی قانونخداوندی ہے۔ اس کی مثال مکڑی اور مچھلی کی حلت اور پھوپھی اور بھتیجی یا خالہ اور بھانجی کا ایک ہی نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت ہے جس کے متعلق حدیث نبویؐ کی طرف ہی رجوع کرنا پڑتا ہے۔

خود آنحضرتؐ نے بھی ارشاد فرمایا:
''ألا إني أوتیت القرآن و مثله معه'' 25
''خبردار! مجھے قرآن مجید اور اس کی مثل اس کے ساتھ دیا گیا ہے!''

سورة الحشر میں اس کی صراحت یوں کی گئی:
﴿وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا ۚ وَٱتَّقُوا ٱللَّهَ ۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ ﴿٧...سورۃ الحشر
''جو رسولؐ تمہیں دے دیں اُسے لے لو اور جن چیزوں سے منع فرمائیں ، ان سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔''

ان دونوں آیتوں میں کسی تاویل کی ضرورت نہیں ، یہاں امر و نہی کو رسول اللہ ﷺ کا فعل قرار دیا گیاہے ۔ خود قرآن مجید کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ پر قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی نازل ہوتی تھی۔ یہاں پر وہ آیات درج کی جاتی ہیں جن سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے۔

1۔ ﴿وَمَا جَعَلْنَا ٱلْقِبْلَةَ ٱلَّتِى كُنتَ عَلَيْهَآ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ ٱلرَّ‌سُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ...﴿١٤٣﴾...سورۃ البقرۃ''
''ہم نے وہ قبلہ جس پر آپ اب تک تھے، اس لیےمقرر کیا تھا تاکہ یہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے او رکون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔''

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا قبلہ بھی خدا تعالیٰ کامقرر کیا ہوا تھا، لیکن قرآن مجید میں یہ آیت کسی جگہ موجود نہیں جس میں اس قبلے کی طرف منہ کرنے کا ابتدائی حکم دیا گیا ہو جو اس آیت کا واضح ثبوت ہے کہ حضورؐ کو ایسے احکامات بھی ملتے تھے جو قرآن مجید میں مذکور نہیں ہیں :
2۔﴿وَإِذْ أَسَرَّ‌ ٱلنَّبِىُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَ‌ٰجِهِۦ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِۦ وَأَظْهَرَ‌هُ ٱللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّ‌فَ بَعْضَهُۥ وَأَعْرَ‌ضَ عَنۢ بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِۦ قَالَتْ مَنْ أَنۢبَأَكَ هَـٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِىَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْخَبِيرُ‌ ﴿٣...سورۃ التحریم''
''اب جب نبیؐ نے اپنی ایک بیوی سے راز کی بات کہہ دی او راس بیوی نے اس کی (دوسروں کو )خبر دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کو اس پرمطلع کردیا، تو نبیؐ نے اس بیوی کو اس کے قصور کا ایک حصہ تو جتا دیا اور دوسرے حصے سے درگزر فرمایا۔ پس جب نبیؐ نے اس بیوی کواس کا قصور بتایا تو اس نےپوچھا، ''آپ کو کس نے اس کی خبر دی؟'' نبیؐ نے کہا، ''مجھے علیم وخبیرخدا نے اس کی اطلاع دی ہے۔''

قرآن مجید کی وہ کون سی آیت ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو یہ اطلاع دی تھی کہ آپؐ کی زوجہ محترمہ نےآپ کا راز دوسروں پر آشکارا کردیا ہے؟ ثابت ہوا کہ قرآن مجید کے علاوہ بھی آنحضرتؐ پر خدا تعالیٰ کے پیغامات آتےر ہے ہیں ۔ .......( باقی)


حوالہ جات
1. صحیح بخاری ج2 ص666
2. ابن ماجہ: ج2 ص313
3. بخاری: ج2 ص766
4. قواعد التحدیث بحوالہ مقدمة المیزان للشعراني ص62
5. جامع ترمذی ج2 ص107
6. سنن ابوداؤد صفحہ 514
7. بخاری: ج1 ص23
8. مستدرک حاکم
9. حاکم، المدخل فی الحدیث ص5
10. صحیح مسلم: ج1 ص32
11. ابن حجر شرح نخبة الفکر ص9
12. مقدمہ صحیح بخاری ص4
13. حجة اللہ البالغہ ج1 ص132، مقدمة تحفة الأحوذي شرح ترمذي، ص29، العجالة النافعة ص22
14. المائدة :48
15. البقرہ :3
16. النساء :162
17. البقرہ : 277
18. البقرہ۔ 110
19. البقرہ: 238
20. المومنون:3
21. بحوالہ تاریخ القرآن ص44از عبداللہ سلیم ، دارالحدیث راجووال
22. مناھل العرفان، فی علوم القرآن ج1 ص240
23. مسند احمد ج4 ص218
24. مناہل العرفان، ج1 ص192
25. مشکوٰة ص29