آئینہ توحید

سوال: اگر آپ یہ سوال کریں کہ کیا یہ لوگ جو اولیاء کی قبور اور فاسق لوگوں کے متعلق ایسا عقیدہ رکھتے ہیں۔ کیا یہ ایسے مشرک ہیں جیسے بتوں کے متعلق عقیدہ رکھنے والے تھے؟
جواب: تو ميں کہتا ہوں ہاں۔کیونکہ ان لوگوں نے بھی ایسے کام کیے جو ان لوگوں نے کیے او ریہ امور شرکیہ میں ان کے برابرہوگئے۔بلکہ ایسا فاسد عقیدہ رکھنے او ران کے مطیع ہونے او رعبادت کرنے میں ان سے بھی چند قدم اگے نکل گئے، تو ان میں کوئی فرق نہیں۔

سوال: اگر آپ یہ کہیں کہ اہل قبور کہتے ہیں کہ ہم اللہ کا کوئی شریک نہیں بناتے، ہم تو اولیاء کی قبروں پر جاکر اللہ کی بارگاہ میں دعا اور التجا کرتے ہیں او راسے شرک سے تعبیر کرنا ناروا ہے؟
جواب : تو میں کہتا ہوں، وہ منہ سے ایسی باتیں کرتےہیں جو ان کے دلوں ميں نہیں ہوتیں۔ یہ ان کی سراسر جہالت ہے۔ درحقیقت انہیں شرک کے مفہوم سے آگاہی نہیں، کیونکہ اولیاف کی قبور پر جاکر ان کی تعظیم کرنا، وہاں پر دعائیں کرنا اور قربانیاں کرنا شرک ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمانہے: ''فصل لربک وانحر'' یعنی اللہ کے لیے قربانی کرو اور اس کے ماسوا کسی کی قربانی مت کرو۔ جیساکہ ظرف کی تقدیم اس پر دلالت کرتی ہے۔ نیز اللہ کا فرمان ہے:
﴿فَلَا تَدْعُوامَعَ ٱللَّهِ أَحَدًا ﴿١٨...سورۃ الجن'' ''تم اللہ کا کسی کو شریک مت ٹھہراؤ''

آپ پہلے جان چکے ہیں جیسا کہ ہم نے گذشتہ سطور میں ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ریاکاری کو بھی شرک سے تعبیر فرمایا ہے تو پھر جس کے متعلق ہم نے ذکر کیا ہے اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ اور جو کچھ یہ لوگ اپنے اولیاء کی خاطر کرتے ہیں وہی کام مشرک کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے ان پر مشرک ہونے کی مہر ثبت ہوگئی۔ ان کا یہ کہنا کہ ہم اللہ کا کسی کو شریک نہیں بناتے، اس کی کچھ وقعت نہیں، کیونکہ ان کا فعل ان کے قول کی تکذیب کرتا ہے۔

سوال: اگر کوئی یہ کہے کہ وہ تو جاہل ہیں او ران کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ اپنے اس کام کی وجہ سے مشرک ہیں؟
جواب:تو ميں کہتا ہوں، فقہاء نے کتب فقہ ''باب الردة'' میں ذکر کیا ہے کہ جو شخص کلمہ کفر کہتا ہے وہ کافر ہوجاتا ہے خواہ اس کے معانی اور اس کا مفہوم اس کے پیش نظر نہ ہو اور یہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اسلام کی حقیقت اور توحید سے آگاہ نہیں تو اس صورت میں حقیقتاً کافر ہوئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی عبادت کو فرض قرار دیا ہے او رحکم دیا ہ ےکہ اس کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں او ریہ عبادت اللہ کے لیے خالص کریں، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:
﴿وَمَآ أُمِرُ‌وٓاإِلَّا لِيَعْبُدُواٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ...﴿٥﴾...سورۃ البینہ
''ان کو تو یہی حکم ملا تھا کہ اللہ کی عبادت کریں او ریہ عبادت اسی کے لیے خالص ہو، اس میں کسی کو شریک نہ کریں۔''

جو شخص اللہ تعالیٰ کو، رات دن اعلانیہ طور پر او رپوشیدہ طور پراس سے ڈرتا ہوا اور اس کی رحمت کی امید کرتا ہوا پکارتا ہے، پھر اس کے ساتھ کسی او رکو بھی پکارتا ہے تو وہ اللہ کی عبادت میں شرک کرتا ہے کیونکہ دعا ء بھی عبادت ہے ، اللہ نے اسے عبادت سے تعبیر کیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
﴿ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ...﴿٦٠﴾...سورۃ المومن''  ''تم مجھے پکارو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔''

اس کے بعد فرمایا:
﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسْتَكْبِرُ‌ونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِ‌ينَ ﴿٦٠...سورۃ الغافر'' 1
''جو لوگ میری عبادت سے انکار کرتے ہیں، وہ عنقریب ذلیل و رسوا ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔''

سوال: اگر آپ یہ کہیں کہ ایسی صورت میں ان مشرکوں کے خلاف جہاد واجب ہے اور ان سے ایسا سلوک کرنا چاہیے جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے مشرکوں سے کیاتھا؟
جواب: میں کہتا ہوں، اہل علم کی ایک جماعت کا یہی نظریہ ہے۔ وہ کہتے ہیں ، سب سے پہلے ان کو توحید کی دعوت دی جائے اور اس با ت کی وضاحت کی جائے کہ جن کے متعلق وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ مصائب و شدائد کے موعہ پر وہ ان کے کام آئیں گے اور ان کی دستگیری کریں گے، وہ اللہ کے ہاں ان کے کسی کام نہیں آئیں گے او روہ جو ان کی مانند عاجز اور بے اختیار ہیں، ان کے متعلق یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ ان کے کام آئیں گے ، شرک ہے۔ ایمان کی تکمیل اس وقت ہوگی جب انسان اس قسم کے شرک سے باز آئے او رتوبہ کرے او ررسول اکرم ﷺ جو کچھ لائے ہین اس کی پیروی کرے اور اعتقادی اور عملی طور پر ایک اللہ کا اقرار کرے۔ یہ کام علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو بتلائیں کہ یہ اعتقاد ، جس کی وجہ سے لوگ قبروں پر جاکر قربانیاں دیتے، منتیں مانتے او رطواف کرتے ہیں، یہ وہی شرک ہے جو بتوں کے پجاری بتوں کےمتعلق عقیدہ رکھتے تھے۔ جب علماء اور ائمہ بادشاہوں کے سامنے اس کی وضاحت کریں توان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دور دراز علاقوں میں ایسے داعی بھیجیں جو خالص توحید کی دعوت دیں۔ تو جو شخص ان کی دعوت پر توحید کا اقرار کرے، اس کی جان و مال اور اولاد کی حفاطت مسلمانوں پر واجب ہوگی۔ لیکن اگر وہ شرک پر اصرار کرے تو اللہ نے اس کی ہر وہ چیز مسلمانوں کے لیے مباح قرار دی ہے جیساکہ رسول اکرم ﷺ نے مشرکوں کی اشیاء مباح قرار دی تھیں۔

سوال: اگر کوئی یہ سوا لکرے کہ استغاثہ حدیثوں سے ثابت ہے کیونکہ یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ قیامت کے روز لوگ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیںگے ، تاکہ ان کی سفارش کریں، لیکن وہ اس سے انکاری کریں گے، پھر لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام او رحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن یکے بعد دیگرے سب سفارش کرنے سے انکار کریں گے۔ سب سے آخر میں لوگ حضرت محمد ﷺ کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوکر عرض کریں گے تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ غیر اللہ سے استغاثہ جائز ہے۔
جواب : یہ دھوکا اور فریب ہے۔کیونکہ اللہ کی مخلوق سے ایسا استغاثہ جس پر وہ قادر ہے، کوئی انکار نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں جو اسرائیلی اور قبطی کے ساتھ پیش آیا، فرمایا:
﴿فَٱسْتَغَـٰثَهُ ٱلَّذِى مِن شِيعَتِهِۦ عَلَى ٱلَّذِى مِنْ عَدُوِّهِ...﴿١٥﴾...سورۃ القصص
''جو حضرت مویٰ علیہ السلام کی قوم کا آدمی تھا، اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے امداد طلب کی تاکہ اس کا دشمن زیر ہوجائے۔''

یہاں تو بات صرف اہل قبور سے استغاثہ کی ہے یعنی لوگ جو اپنے فوت شدگان سے ایسے امور کا مطالبہ کرتے ہیں جن کےکرنے پر وہ قادر نہیں، جن پر صرف اللہ تعالیٰ کا کنٹرول ہے او ریہ اسی کی مشیت میں ہیں جیسے کسی مریض کو صحت عنایت کرنا وغیرہ۔ اس سے زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ قبرپرست اور ان کے ہم خیال اپنی اولاد میں ان فوت شدگان کے لیے حصہ مقرر کرتے ہیں اگر وہ زندہ رہے، او ربعض تو ماں کے پیٹ میں ہی بچے کو خرید لیتے ہیں تاکہ وہ زندہ رہے او رایسے ایسے برے کام کرتے ہیں جن کو دیکھ کر مشرک بی انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔

مجھے کسی آدمی نے خبر دی ، جواہل قبور کے نذرانے وصول کرنے پر متعین تھا کہ کوئی آدمی کچھ سیم و زر لے کر میرے پاس آیا او رکہنا لگا، یہ فلاں صاحب کی منت ہے او را س کی نذر ہے۔ اس سے اس کی مراد قبر میں جو مدفون تھا۔کہنے لگا یہ میری بیٹی کا نصف حق مہر ہے کیونکہ میں نے اس کا نکاح کردیاہے اور باقی نصف مہر کسی اور آدمی کو دے دیا ہے او راس کی مراد کوئی او رقبر میں مدفون آدمی تھا۔ یہ مالی نذر ہے۔اس کا ایک حصہ صاحب قبر کے لیے اس نے وقف کیا ہوا تھا۔ جیسا کہ کھیتی میں کچھ حصہ مشرک لوگ مقرر کرتے ہیں ۔ اس کو وہ (نذرانہ) کہتے ہیں۔چنانچہ اہل یمن او ربعض اور لوگ ایسے شرکیہ امور کرتے ہیں۔ یہ وہی شے ہے جو بتوں کے پجاری بتوں کے نام پرکرتے تھے او ریہ اللہ کے اس فرمان میں داخل ہے۔
﴿وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِّمَّا رَ‌زَقْنَـٰهُمْ ۗ...﴿٥٦﴾...سورۃ النحل
''جو ہم نے لوگوں کو رز ق دیا، اس ميں سے ایسے لوگوں کا حصہ مقرر کرتے ہیں، جن کو وہ جانتے بھی نہیں۔''

ہاں البتہ قیامت کے روز لوگوں کا انبیاؑء سے درخواست کرنا کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ بندوں کے حساب کتاب کا معاملہ وہ جلد ختم کرے تاکہ انہیں موقف کے ہول سے رہائی حاصل ہو، اس کے جائز ہونے کے متعلق کوئی شبہ نہیں۔ یعنی اللہ کی بارگاہ میں دعاء کرنے کے لیے بعض کا بعض کو پکارنا جائز ہے بلکہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا، جب وہ عمرہ کرنے کے ارادہ سے گھر سےنکلے:
''لا تلسنا یا اخی فی دعائک '' ''اے میرے بھائی، اپنے لیے جب دُعا کرو تو مجھے بھی یاد رکھنا۔''

اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ مومنوں کے لیے بخشش کی دعا کریں او روہ یوں کہ:
﴿رَ‌بَّنَا ٱغْفِرْ‌ لَنَا وَلِإِخْوَ‌ٰنِنَا ٱلَّذِينَ سَبَقُونَا بِٱلْإِيمَـٰنِ...﴿١٠﴾...سورۃ الحشر
''ہمارے پروردگار ! ہمیں بخش اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش جو ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گزر گئے ہیں۔''

حضرت اُم سلیم نے آنحضتﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کی کہ اپنے خادم انسؓ کے حق میں دعا فرمائیے:
جب رسول اکرم ﷺ اس جہان فانی میں تشریف فرما تھے تو صحابہ کرام ؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دعا کرنے کی درخواست کرتے تھے۔ اس کے جواز ميں کوئی شائبہ نہیں۔ ہاں البتہ قابل اعتراض او رمشکوک بات یہ ہے کہ قبر پرست مردوں سے طلب کرتے ہیں یا زندہ لوگوں سے ایسی درخواستیں کرتے ہیں جن کو اپنے نفع و نقصان کا اختیار نہیں جو زندگی او رموت کے معاملہ میں بے بس ہیں، جو مریض کا مرض دور کرنے سے قاصر ہیں، جو بھاگے ہوئے غلام وغیرہ کو واپس لانے کی ہمت نہیں رکھتے، ج وحمل کی حفاطت کرنے، کھیتی کو سرسبز و شاداب کرنے، مویشیوں کے تھنوں میں وافر دودھ پیدا کرنے او رکسی کو نطر بد لگنے سے محفوظ رکھنے کی ہمت نہیں رکھتے کیونکہ ان تمام امور پر اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے او راس کے سوا ان پر کوئی قادر نہیں۔ ایسے ہی لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ‌كُمْ وَلَآ أَنفُسَهُمْ يَنصُرُ‌ونَ ﴿١٩٧...سورۃ الاعراف
''اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے سے عاجز ہیں وہ تو اپنی مدد بھی نہیں کرسکتے۔''

اسی مقام پر فرمایا:
﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ...﴿١٩٤﴾...سورۃ الاعراف
''اللہ کو چھوڑ کر جن کو تم پکارتے ہو ، وہ تم جیسے بندے ہیں (وہ تمہاری مدد کیسے کرسکتے ہیں؟'')

تو ایک بے جان سے کیونکر کچھ طلب کیا جاسکتا ہے؟ یا ایسے جاندار سے، جس سے غیر ذی روح اچھا ہے، کیونکہ وہ کسی بات کا مکلف نہیں، کیسے کچھ طلب کرنا جائز ہوسکتا ہے؟ یہی تو وہ کام ہیں جو مشرک لوگ کیا کرتے تھے جن کا اللہ نے اپنی مقدس کتاب میں یوں ذکر فرمایا ہے:
﴿وَجَعَلُوالِلَّهِ مِمَّا ذَرَ‌أَ مِنَ ٱلْحَرْ‌ثِ وَٱلْأَنْعَـٰمِ نَصِيبًا فَقَالُواهَـٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـٰذَا لِشُرَ‌كَآئِنَا...﴿١٣٦﴾...سورۃ الانعام
''مشرک لوگوں نے اللہ کی پیدا کردہ کھیتی اور مویشیوں میں سے کچھ اللہ کا حصہ مقرر کیا ہوا تھا او رکچھ اُن لوگوں کے لیے جو انہوں نے اللہ کے شریک بنائے ہوئے تھے اور وہ کہتے کہ یہ تو اللہ کا حصہ ہے او ریہ ہمارے شرکاء کا ہے۔''

نیز فرمایا:
﴿وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِّمَّا رَ‌زَقْنَـٰهُمْ ۗ تَٱللَّهِ لَتُسْـَٔلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَفْتَرُ‌ونَ ﴿٥٦...سورۃ النحل
''ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے مشرک لوگ ان لوگوں کا حصہ مقرر کرتےہیں جن کو وہ جانتے ہی نہیں۔ بخدا (قیامت کے روز) تم سے اس کی باز پُرس ہوگی جو تم نے جھوٹ سے کام لیا۔''

یہ قبر پرست او ر زندہ جاہل لوگوں کے متعلق حسن عقیدت کا اظہار کرنے والے او ران کی گمراہی کو درست تصور کرنے والے بعینہ مشرکوں کی راہ پر چل پڑے۔ ان لوگوں نے ان کے متعلق ایسا عقیدہ رکھا جو اللہ کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں اور ان کے لیے اپنے مال کا ایک حصہ مقرر کیا اور اپنے گھروں سے ان کی قبروں کی زیارت کی غرض سے نکلے اور قبروں کے گرد طواف کیا، قبروں کے پاس عاجزی او رانکسار سے قیام کیا، سختی اور مصیبت کے موقعہ پر ان کو پکارا او ران کا قرب حاصل کرنے کے لیے ان کے نام کی قربانی دی ۔ یہ تمام عبادت کی اقسام ہیں جو میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں۔مجھے اس بات کا علم نہیں کہ آیا ان کو کوئی سجدہ بھی کرتا ہے یا نہیں۔(2) لیکن ایسا کرنا اس سے کوئی بعید امر نہیں بلکہ مجھے ایک آدمی نے بتلایا، جو قابل اعتماد تھا، کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو باب مشہد کی دہلیز پر گرا ہوا ایک ولی کو سجدہ کررہا تھا، وہ اسے اس کی تعظیم او رادب تصور کرتا تھا، نیز یہ لوگ ان کے نام لے کر قسمیں کھاتے ہیں۔ بلکہ جب کوئی شکص جس سے قسم لینا مقصود ہو، اللہ کا نام لے کر قسمیں کھائے تواسے قبلو نہیں کرتے۔ لیکن اگر کسی ولی یا بزرگ کے نام کی قسم اٹھائے تو اسے فوراً قبول کرلیتے ہیں او را س کی تصدیق کرتے ہیں۔ بتون کے پجاری بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذَا ذُكِرَ‌ ٱللَّهُ وَحْدَهُ ٱشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْءَاخِرَ‌ةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ‌ ٱلَّذِينَ مِن دُونِهِۦٓ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُ‌ونَ ﴿٤٥...سورۃ الزمر
''جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے جب ان کے سامنے اللہ وحدہ لا شریک کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل تنگ ہوتے ہیں (یعنی ناک بھوں چڑھاتے ہیں) اور جب اللہ کے ماسوا اور لوگوں کا ذکر ہوتا ہے تو وہ خوشی سے جامے میں پھولے نہیں سماتے۔''

ایک صحیح حدیث ميں مذکور ہے:
''من کان حالفا فلیحلف باللہ أولیصمت''''جو شخص قسم اٹھانا چاہے تو اللہ کی قسم اٹھائے یا پھر خاموش رہے۔''
آنحضرتﷺ نے ایک آدمی کو لات کی قسم کھاتے ہوئے سنا۔ آپؐ نے اسے ارشاد فرمایا: ''لا إلٰه إلا اللہ'' پڑھو۔

یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ وہ لات کی قسم کھانے کی وجہ سے مرتد ہوگیا تھا۔ اسی لیے آپؐ نے اسے اپنے ایمان کی تجدید کا حکم فرمایا ، کیونکہ وہ کلمہ توحید سے کفر کرچکا تھا۔

سوال: اگر آپ کہیں کہ وہ کفار کے برابر نہیں کیونکہ ان لوگوں نے ''لا إلٰه إلا اللہ'' پڑھ ہے او ررسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے۔ جب تک وہ ''لا إلٰه إلا اللہ'' نہیں پڑھتے۔جب یہ کلمہ پڑھ لیں تو ان کے جان و مال محفوظ ہوگئے، ہاں البتہ اگر اسلام کا کوئی حق ہے تو اس کی سزا دی جائے گی۔اسامہ بن زیدؓ کو آنحضرتﷺ نے ڈانٹتے ہوئے فرمایا تھا:''تو نے اسے ''لا إلٰه إلا اللہ'' پڑھنے کے بعد کیوں قتل کیا؟'' او ریہ لوگ نماز پڑھتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں او رحج کرتے ہیں لیکن مشرک ایسا کوئی کام نہیں کرتے۔
جواب:میں کہتا ہوں کہ حضور اکرم ﷺ نے ''إلا بحقها'' فرمایا ہے ۔ حق سے مراد اللہ تعالیٰ کو الوہیت اور عبودیت ميں ایک تسلیم کرنا ہے لیکن اہل قبور عبادت میں اللہ کو واحد تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ اور لوگون کی عبادت کرتے ہیں۔ بدیں وجہ کلمہ شہادت کا انہیں کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ کلمہ شہادت اس شخص کو فائدہ دے گا جو اس کے معانی کے مطابق عمل کرے گا۔ یہود کے لیے بھی کلمہ سود مند نہ ہوا کیونکہ انہوں نے بعض ا نبیاؑء کے ماننے سے انکار کردیا۔ اسی طرح جس نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسول حضرت محمدﷺ کے ماسوا کسی اور کو رسول تسلیم کیا تو اسےبھی کلمہ شہادت فائدہ نہیں دے گا۔کیا آپ کو معلوم نہیں کہ بنو حنیفہ ''لا إلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ'' کا اقرار کرتے تھے او رنماز پڑھتے تھے لیکن انہوں نے مسیلمہ کو نبی تسلیم کیا تو صحابہ کرامؓ نے ان سے جنگ کی او ران کو قید کیا تو اس آدمی کا کیا ہوگا جو کسی ولی کو الوہیت میں خاص کرتا ہے اور مشکل امور میں اسے پکارتا ہے۔

یہ حکم بعثت او ررسالت کے منکرکا ہے۔ تو جو شخص اللہ کی عبادت میں او را س کی الوہیت میں کسی کو اس کا شریک بناتا ہے ، اس کا کیا حال ہوگا؟

سوال: اگر آپ یہ کہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ کا ایک آدمی کو قتل کرنا برا محسوس فرمایا کیونکہ اس نے لا إلٰه إلا اللہ کی شہادت دی تھی جیسا کہ حدیث اور سیرت کی کتب میں مذکو رہے۔
جواب: میں کہتا ہوں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کافر ''لا إلٰه إلا اللہ'' پڑھ لے اس کی جان و مال مسلمانوں پر حرام ہوگئے حتیٰ کہ اس کی زبان سے ایسی بات سرزد نہ ہو جو اس قول کے خلاف ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس قصہ کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی۔
﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاإِذَا ضَرَ‌بْتُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَتَبَيَّنُوا...﴿٩٤﴾...سورۃ النساء

''تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حکم فرمایا ہے کہ جو کلمہ توحید پڑھتا ہے اس کی تحقیق کرو اگر وہ کلمہ پر پختہ نہ رہے تو صرف کلمہ پڑھنے سے اس کے جان و مال محفوظ نہیں ہوں گے۔ اسی طرح جو شخص توحید کا اظہار کرتا ہے ، اس کے جان و مال کا نقصان کرنے سے رُکنا ضروری ہے۔ حتیٰ کہ یہ بات واضح ہوجائے کہ وہ کلمہ کے معانی کی مخالفت کرتاہے۔جب یہ بات واضح ہوجائے تو یہ کلمہ اس کے کسی کام نہیں آئے گا اسی لیے یہود اور خوارج کو یہ کلمہ سود مند نہ ہوا۔ حالانکہ وہ ایسی عبادت کرتے تھے کہ ان کے مقابلہ میں صحابہ کرامؓ اپنی عبادت کو حقیر تصور کرتے تھے بلکہ رسول اکرم ﷺ نے ان کے قتل کرنے کا حکم فرمایا:
''لوأنا أدرکتهم لأ قتلنهم قتل عاد'' ''اگر ایسے لوگ میرے زمانہ میں ہوئے تو ان کو قوم عاد کی طرح قتل کردوں گا۔''

یہ اس لیے فرمایا کہ انہوں نے شریعت کے بعض احکام کی خلاف ورزی کی اور آسمان کے نیچے سب سے بُرے متول وہ تھے جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہے ، تو معلوم ہوا کہ مجرد کلمہ توحید شرک کے ثبوت سے مانع نہیں کیونکہ بعض اوقات مشرک ایسے کام کرتا ہے جو اس کلمہ کے خلاف ہوتے ہیں یعنی غیر اللہ کی عبادت کرتا ہےـ


حوالہ جات
1. ایضاً
2. آج کل تو یہ بیماری عام ہے|۔ ہر پکی قبر کے سامنے مشرک لوگ اپنی جبین رگڑتے ہیں او راسے بزرگوں کی تعظیم تصور کرتے ہیں۔ (الفلاح بی۔ اے)