ہند میں علم حدیث کی طرف توجہ کم رہی!

شروع سے ہند کی طرف مسلمانوں کی نگاہیں اُٹھ رہی تھیں، چنانچہ ۱۵ ؁ھ / ۶۳۶ع میں عمان اور بحرین کے گورنر کے ایما پر حکم شفقی نے بمبئی کی سرزمین (تھانہ) پر حملہ کیا اور ۹۳ ؁ھ میں محمد بن قاسم نے اپنی مشہور منجنیق ''العروس'' کے ذریعے حملہ کر کے دیبل (ٹھٹھ) کا قلعہ فتح کیا اور ہند میں اپنے قدم جما لئے۔ اس کے بعد بتدریج مسلمانوں کی آمدورفت بڑھتی رہی اور علاقے کے علاقے مسلمان ہوتے چلے گئے۔ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان تاجر شاہزادگی کے بجائے اسلامی فریضۂ تبلیغ کی خدمات انجام دیتے اور زندگی کا کوئی اسوۂ حسنہ دکھاتے تو ہند میں آج مسلمان اقلیت کے بجائے اکثریت میں ہوتے، بلکہ ہو سکتا ہے کہ سارا ہند ہی حلقہ بگوش اسلام ہوتا۔

جب مسلمانوں نے یہاں قدم جما لئے تو علما اور صلحائے اُمت نے قرآن علم و عمل کا فیضانِ عام کیا اور بہت سے دینی علوم کی بھی خاص نشر و اشاعت کی مگر افسوس! دسویں صدی ہجری تک علم حدیث کی طرف مناسب توجہ نہ دی گئی۔ اِس کے اسباب کیا تھے؟ ذیل کی تاریخی سطور میں ان کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں، یہ اقتباس ایک ایسی تاریخی کتاب سے لیا گیا ہے جو ندوی افاضل کی زیر نگرانی مرتب ہوئی تھی۔ اس کے مصنف مولانا ابو الحسنات ندوی ہیں، وہ لکھتے ہیں ''جیسا کہ ہمارے زمانہ میں منطق و فلسفۂ معیار فضیلت ہے۔ ویسا ہی اس زمانہ میں حنفی فقہ اور اُصولِ فقہ معیارِ فضیلت تھا، حدیث میں صرف مشارق الانوار کا پڑھ لینا کافی سمجھا جاتا تھا، اور جس خوش نصیب کو مصابیح ہاتھ آجاتی تھی وہ امام الدنیا فی الحدیث کے لقب کا مستحق ہو جاتا تھا۔

اصل یہ ہے کہ اُس زمانہ کے نصابِ تعلیم میں جو خصوصیات نظر آتی ہیں وہ فاتحین کے مؤثر ذوق کا نتیجہ تھا۔

ہندوستان میں اسلامی حکومت کا تخت جس قوم نے بچھایا وہ غزنی اور غور سے آئی، یہ وہ بلاد ہیں جہاں فقہ اور اصول فقہ کا ماہر ہوتا۔ علم و فن کا طغرائے امتیاز تھا۔ یہی سبب ہے کہ فقہی روایات کا پایہ بلند تھا، علم حدیث کی طرف کوئی توجہ نہیں تھی اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہو سکتا ہے کہ:

''غیاث الدین تغلق کے دربار میں مسئلہ ''سماع'' کی نسبت مناظرہ پیش آیا، ایک طرف شیخ نظام الدین اولیاؒ اور دوسری طرف تمام علمائے دہلی تھے۔''

شیخ فرماتے ہیں کہ میں جب کوئی حدیث استدلالاً پیش کرتا تھا تو وہ لوگ بڑی جرأت سے کہتے تھے، کہ اس شہر میں حدیث پر فقہی روایات مقدم سمجھی جاتی ہیں۔ کہیں کہتے تھے کہ یہ حدیث شافعی کی متمسک بہ ہے۔ اور وہ ہمارے علما کا دشمن ہے۔ ہم ایسی حدیثیں نہیں سننا چاہتے۔ شیخ فرماتے ہیں کہ جس شہر کے علما میں اس درجہ مکابرہ و عناد ہو وہ کیونکر آباورہ سکتا ہے۔ وہ تو اس قابل ہے کہ بالکل تباہ و برباد ہو جائے۔''

ضیا برنی نے اپنی تاریخ میں علاؤ الدین خلجی کے عہدِ حکومت کا واقعہ نقل کیا ہے کہ:۔

مولانا شمس الدین ترک ایک مصری محدث ہندوستان میں علم و حدیث کی ترویج کے لئے ارادہ سے ملتان تک آکر واپس چلے گئے، مگر چلتے وقت بادشاہ کو ایک رسالہ لکھ کر بھیج دیا جس میں اس پر بہت غیرت دِلائی تھی کہ ہندوستان میں حدیث کی طرف سے علما میں بڑی بے اعتنائی پھیلی ہوئی ہے۔ دنیا ساز مولویوں نے بادشاہ تک اِس رسالہ کو بھی نہ پہنچنے دیا۔'' (ہندوستان کی قدیم اسلامی درسگاہیں صفحہ ۹۲)

مولانا ابو الحسنات نے ایک اور مقام پر ترویجِ حدیث کے سلسلے میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی مساعی کا ذِکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

''وہ ہندوستان سے عرب گئے، اور وہاں تین برس رَہ کر علمائے حرمین شریفین سے فن حدیث کی تکمیل کی اور یہ تحفہ ہندوستان کے لئے لائے، انہوں نے اور ان کی اولاد نے برابر اس کی اشاعت کی مگر افسوس ہے کہ ناکامی ہوئی۔'' (ایضاً صفحہ ۹۴)

ہمارے نزدیک اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ ہندوستان میں اکثر مقلد تھے، کیونکہ مقلد تو شوافع حنابلہ اور مالکی بھی تھے مگر احادیث کے سلسلہ میں ان کی جو خدمات ہیں وہ ان کی بہ نسبت کافی وزنی اور معروف ہیں، اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ''اصحاب الرائے'' تھے۔ اور اصحاب الرائے کے مقلد تھے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اسلافِ احناف احادیث کے بالکل کورے تھے، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ رائے و قیاس کا میدان ان کی افتاد طبع کے لحاظ سے ان کے لئے زیادہ سازگار تھا۔ اس لئے اس میدان میں وہ خوب چمکے اور پھلے پھولے، لیکن حدیث کے سلسلہ میں واجبی سا واسطہ رکھا، وہ بھی فقہی انداز کا، ایک محدث کی طرح فنی نہیں تھا۔ بلکہ احناف کے بعض اکابر کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بعض اوقات احادیث کی طرف محض اس لئے توجہ دی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حدیث نہیں جانتے یا محض اپنے مسلک کی حمایت کے لئے ان کو اس باب میں کچھ کام کرنا پڑا۔

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ''مرقات شرح مشکوٰۃ'' کے لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ چونکہ اس باب میں زیادہ کام شافعیوں نے کیا ہے۔ اس لئے اس سے احناف کے سلسلے میں غلط تاثر پیدا ہو گیا ہے۔ اس لئے مرقات لکھ کر اس میں اِس تاثر کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں، ان کی عبارت یہ ہے:۔

«وأیضا من البواعث إن غالب الشراح کانوا شافعیة في مطلبھم وذکر والمسائل المتعلقة بالکتاب علی منهاج مذھبهم ۔۔۔۔ وسمو الحنفیة أصحاب الرأي علی ظن أنھم ما یعملون بالحدیث بل ولا یعلمون الروایة والحدیث لا في القدیم ولا في الحدیث ۔۔۔۔ فأجبت أن أذکر أدلتهم وأبین مسائلهم وأدفع مخالفتهم لئلا یتوهم العوام الذین لیس لهم معرفة بالأدلة الفقهیة أن المسائل الحنفیة تخالف الدلائل الحنفیة» (مقدمہ مرقات ص ۳)

لیکن یہ ایک عجیب لطیفہ ہے، مگر ساتھ ہی اس مشغلہ کا ذِکر بھی کر گئے ہیں، جو ایک محدث سے زیادہ اصحاب الراہی کا ہو سکتا ہے۔ وہ یہ کہ احناف ظواہر حدیث پر قناعت نہیں کرتے بلکہ بڑی دِقت نظر سے کام لیتے ہیں اور خوب باریکیاں پیدا کرتے ہیں۔ عبارت یہ ہے:۔

«نعم من رأي  ثاقبھم الذي ھو معظم مناقبهم أنهم ما تشبشوا بالظواھر بل دققوا لنظر فیھا بالبحث عن السرائر وکشفوا عن وجوہ المسائل نقاب الستائر» (مقدمہ ص۳)

غور فرمائیے! جس الزام سے وہ بھاگتے تھے اسے خود ہی ثابت کر دیا ہے، جس خوبی کا انہوں نے ذِکرکیا  وہ واقعی ایک خوبی ہے لیکن یہ ایک محدث کی فنی خوبی نہیں بلکہ ایک فقیہ اور صاحب الرائے کی ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ نے لکھا ہے کہ حسب ضرورت ان کے پاس احادیث نہیں تھیں اور سارا کام انہوں نے اپنے آئمہ سے حسنِ ظن کی بنیاد پر ان کے افکار کے مطالعہ سے چلایا۔

«وذلك أنه لم یکن عندھم من الأحادیث والآثار ما یقدرون علی استنباط علی الأصول التي اختارھا أھل الحدیث ولم تنشرح صدورھم للنظر في علماء البلدان وجمعھا والبحث عنھا واتھموا أنفسهم في ذلك وکانوا اعتقدوا في أئمتهم أنهم في درجة الأولیاء من التحقیق» (حجۃ اللہ البالغہ ص ۱۲۱)

خدمتِ حدیث تو بڑی دولت ہے، حضرت امام بخاریؒ کو تو اصحاب الرائے سے یہ بھی شکایت ہے کہ وہ ایسی حدیثوں کو چھپانے کی بھی کوشش کرتے ہیں، جو ان کے خلاف پڑتی ہیں۔

«الرد علی من أنکر رفع الأیدي في الصلوٰةةعند الرکوع وإذا رفع رأسه من الرکوع وأبھم علی العجم في ذلك تکلفا لما لا یغنیه فیما ثبت عن رسول اللہﷺ فیه فعله (روایة من اصحابه» (جز ءرفع الیدین ص ۳)

اصل بات یہ ہے کہ فقہ اور حدیث دونوں شعبے ہیں۔ دونوں جداگانہ فن ہیں اور اپنی اپنی جگہ دونوں کی ضرورت ہے۔ لکل فن رجال اس لئے اگر کسی ایک میں کچھ کمی ہے تو کوئی بات نہیں۔ اس لئے جو بزرگ حدیث کے سلسلے میں ''فنی مہارت'' کے فقدان پر غم کھاتے ہیں، غلط کرتے ہیں، یا اگر اتنی احتیاط برت لی جائے کہ جب حدیث اہل فن کی شہادت کی رو سے صحیح ثابت ہو جائے تو اس کا خلاف نہ کیا جائے، تو پھر طعنے دینے والی بات ہی نہیں رہتی جو جس کے قابل ہے وہ اس میں اپنی محنت کا حق ادا کرے اور جس باب میں کوئی دوسرا سند ہے۔ اس میں اس کی طرف رجوع کیا جائے، قرآن و حدیث کی بنیاد پر اجتہاد ہوتا ہے، اس لئے جس حدیث میں بحث کرنا مقصود ہو، اگر خود کو اس سلسلہ میں اعتماد نہ ہو تو اہل فن سے پہلے اس حدیث کے مقام و مرتبہ کا یقین کر لیا جائے تاکہ وقت اور محنت ضائع نہ ہو۔