اِشتراکی مغالطے اور اُنکا دفعیہ

اغنیاء صحابہ پر شرمناک بہتان

قسط نمبر2

قسط نمبر1

مسعود صاحب اپنے مضمون کی چوتھی قسط یوں شروع کرتے ہیں۔

''یہ سمجھنا محض سادگی ہے کہ حضرت عمرؓ کو ان کے ملازم نے محض ذاتی عناد کی بنا پر شہید کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ ثانی مال داروں کی سازش کے نتیجے میں شہید ہوئے۔ اور وہ اس لئے کہ حضرت عمرؓ سماجی معاہدے کے تحت مال داروں کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں ان پر سختی کی روش کے قائل تھے۔''

اولاً ان صاحب کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ حضرت عمرؓ کا قاتل خود ان کا ملازم نہیں تھا، جیسا کہ صاحب مضمون نے کہا ہے، بلکہ قاتل مغیرۃؓ بن شعبہ کا غلام تھا۔ اگر مسعود صاحب براہِ راست عربی مآخذ سمجھنے سے قاصر ہیں تو کم از کم اردو میں لکھی گئی حضرت عمرؓ کی سیرت ''الفاروق'' ہی دیکھ لیتے، اسی سے انہیں قاتل کا صحیح علم ہو جاتا، ہم شہادتِ عمرؓ کا وہ واقعہ شبلیؒ کی ''الفاروق'' سے نقل کرتے ہیں۔

شہادتِ عمرؓ کا واقعہ:

''مدینہ منورہ میں فیروز نام کا ایک پارسی غلام تھا۔ جس کی کنیت ابو لؤلؤ تھی۔ اس نے ایک دن حضرت عمرؓ سے آکر شکایت کی کہ میرے آقا مغیرہؓ بن شعبہ نے مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کیا ہے۔ آپ کم کرا دیجئے۔ حضرت عمرؓ نے تعداد پوچھی اس نے کہا روزانہ دو درہم (سات آنے) حضرت عمرؓ نے پوچھا تو کون سا پیشہ کرتا ہے؟ بولا: نجاری، نقاشی اور آہنگری، فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلے میں یہ رقم بہت نہیں ہے، فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا گیا۔

دوسرے دن حضرت عمرؓ صبح کی نماز کے لئے نکلے تو فیروز خنجر لے کر مسجد میں آیا۔۔۔ جونہی نماز، شروع کی فیروز نے دفعۃً گھات میں سے نکل کر چھ وار کئے: ۔۔۔ عبد الرحمن بن عوفؓ نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عمرؓ سامنے بسمل پڑے تھے، فیروز نے لوگوں کو بھی زخمی کیا۔ لیکن بالآخر پکڑ لیا گیا اور ساتھ ہی اس نے خود کشی کر لی، حضرت عمرؓ کو لوگ اُٹھا کر گھر لائے۔ سب سے پہلے انہوں نے پوچھا کہ ''میرا قاتل کون ہے۔'' لوگوں نے کہا کہ فیروز۔ فرمایا کہ ''الحمد للہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا تھا۔''

تاریخ طبری میں یوں ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا، «الحمد لله الذي جعل ميتتي على يد رجل لم يسجد لله سجدة»

یعنی اللہ کا شکر ہے کہ میری موت ایسے شخص کے ہاتھوں نہیں ہوئی جس نے اللہ کو ایک بار بھی سجدہ کیا ہو۔''

تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ لیکن تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اگر یہ سازش بھی تھی تو غیر مسلم ایرانی غلاموں کی سازش تھی جو پرولتاری پیشہ رکھتے تھے۔ یہ ہرگز مالدار اصحاب کی سازش نہ تھی۔ پھر دیکھئے کہ طبقات ابن سعد کی متعدد روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اس موقع پر حضرت عمرؓ سمیت تقریباً ایک درجن کے قریب نمازی زخمی کئے گئے تھے۔ اور ان میں سے نصف درجن اپنے خالق حقیقی سے جا ملے پس یہ تمام مسلمانوں کے خلاف ایک سازش تھی۔

ہرحال واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کو کسی سرمایہ دار نے نہیں بلکہ ایک مزدور یعنی پرولتاری نے، آمدنی میں اضافہ نہ ہونے پر شہید کیا۔ اور یہ بدنما داغ قیامت تک کے لئے پرولتاریوں (صنعتی مزدوروں) کو لگا دیا۔

ہم مسعود صاحب سے پوچھتے ہیں کہ آخر کن مالداروں نے آپ کو شہید کیا یا کروایا۔ اور بتائیں اس وقت کون کون مالدار مدینہ میں تھے، مدینہ میں اس وقت ایک بھی یہودی نہ تھا۔ سب مالدار صحابۂ کرام تھے ان میں سب سے زیادہ مالدار حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ تھے، حضرت عثمانؓ تو غنی مشہور ہی اپنی دولتمندی اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے تھے، پھر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ تھے، جن کے متعلق بخاری کی روایت ہے کہ ۵ کروڑ سے زائد مالیت کی جائیداد چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ پھر حضرت عثمانؓ نے اپنی ایک لڑکی کو لاکھ درہم کا جہیز دیا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ اس زمانے میں جو بھی دولت مند تھے، وہ سب کے سب کبار صحابہؓ میں سے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ان لوگوں کے بڑے بڑے وظیفے مقرر کر رکھے تھے، یعنی دس دس ہزار،(۲) حضرت عمرؓ کے بعد صرف عشرہ مبشرہ ہی میں سے خلیفہ بنے تھے، اس لئے مسعود صاحب کا، اشارہ ان ہی اصحاب رضی اللہ عنہم کی طرف ہو سکتا ہے۔ پھر غور فرمائیے کہ حضرت عثمانؓ نے خلیفہ بننے کے بعد حضرت عمرؓ کی شہادت پر کسی بھی دولت مند کو سزا نہیں دی اور نہ کسی پر الزام لگایا، جب حضرت عثمانؓ نے کسی دولت مند صحابی پر شک ظاہر نہیں کیا اور نہ کسی مورخ نے آج تک اشارہ کیا تو آخر مسعود صاحب ۱۴۰۰ سال بعد یہ الزام کس بنا پر عائد کر رہے ہیں، کیا یہ کبارِ صحابہؓ اور عشرہ مبشرہ کی توہین نہیں؟ کیا ان کے خیال میں حضرت عثمانؓ نے قاتلوں کے فعل پر پردہ ڈالا؟

حقیقت یہ ہے کہ مسعود صاحب مارکس کے فلسفلے کو ثابت کرنے کے لئے ان صحابہؓ پر گھناؤنا الزام لگا رہے ہیں، جن کے جنتی ہونے کی بشارت خود رسول اللہ ﷺ نے دی تھی۔

اشتراکیوں کی نظر میں رسول اللہ ﷺ کی حیثیت:

کیونکہ مارکس کا فلسفہ ہے کہ دنیا کے سب انقلابات کی وجہ اقتصادی ہوتی ہے، بلکہ اس کے نزدیک رسول اللہ ﷺ پر وحی نہیں آئی تھی اور نہ ہی آپ کوئی روحانی انقلاب لانا چاہتے تھے، بلکہ آپ ﷺ نے (نعوذ باللہ) سب کچھ جنوبی عرب کی تجارت کی بحالی کے لئے کیا تھا۔ اینجلز مارکس کے نام خط میں لکھتا ہے۔''

''میں یہاں بھی یہی سمجھتا ہوں وجہ یہی تھی کہ جنوبی عرب کی تجارت برباد ہو گئی تھی اور اس بربادی کو تم صحیح طور پر اسلامی انقلاب کی اہم وجوہات میں سے بڑی وجہ قرار دے سکتے ہو۔۔۔۔ اسلامی انقلاب دراصل بڑے شہروں کے فلاحین کے خلاف بدوؤں کی جوابی کارروائی تھی۔''

جب مسعود صاحب نے تاریخ میں پڑھا کہ خلیفۂ ثانیؓ کو ایک پرولتاری طبقے کے غلام نے شہید کیا تو انہیں فکر لاحق ہوئی کہ ایک پرولتاری بدنام ہو رہا ہے، چنانچہ انہوں نے یہ کہنے کی بجائے کہ مغیرہؓ بن شعبہ کے غلام فیروز جو پرولتاری طبقہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے خلیفۂ ثانیؓ کو شہید کیا۔ ناظرین کے سامنے یہ جھوٹ بولا کہ حضرت عمرؓ کے ذاتی ملازم نے ان کو شہید کیا تھا۔ اس طرح پرولتاری طبقے کو اپنے زعم میں بچا لیا۔ پھر دوسرا جھوٹ یہ بولا کہ سازش دولت مندوں نے کی تھی۔ حالانکہ کسی ضعیف سے ضعیف روایت یا کسی بھی تاریخ کی کتاب میں ان دونوں باتوں میں سے ایک کا بھی اشارہ تک نہیں۔ سارا قصہ مسعود صاحب نے اپنی مطلب بر آری کے لئے گھڑا ہے، ۔۔۔ اور صحابۂ کرام کا بھی کچھ لحاظ نہ کیا۔ بھلا ایک کمیونسٹ کسی کا کیا لحاظ کر سکتا ہے اور کمیونسٹوں کے نزدیک جھوٹ بول کر پروپیگنڈہ کرنا تو بہت اچھا کام ہے، اس طرح، مسعود صاحب نے اپنے کمیونسٹ ہونے کا پورا پورا ثبوت دے دیا۔

شاہ ولی اللہؒ کے متعلق جھوٹ:

پھر مسعود صاحب فرماتے ہیں ''حضرت امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے بھی زمینداری کی مخالفت کی ہے۔''

اب ہم ناظرین کے لئے شاہ صاحب کا قول نقل کرتے ہیں تاکہ اس جھوٹ کا بھی پول کھل جائے۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں۔

''بڑے بڑے تابعین شرکت مزارعت کیا کرتے تھے اور اس کے جواز پر اہل خیبر کے معاملے والی حدیث دلالت کرتی ہے اور جن احادیث میں اس سے نہی پائی جاتی ہے وہ احادیث، نہروں کے اوپر پیداوار یا کسی خاص قطعہ کے بدلے کرایہ دینے پر محمول ہے اور رافعؓ کا یہی قول ہے۔''

یہ تو مزارعت کا معاملہ تھا۔ جہاں تک نقد ٹھیکہ یا پٹہ پر دینے کا سوال ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے موطا امام مالک کا جو انتخاب اور شرح کی ہے اس میں کئی اصحابؓ رسولﷺ، مثلاً عبد الرحمن بن عوفؓ کی روایات اور عمل سے اس کا جواز ثابت کیا ہے اور یہ بھی حدیث روایت کی ہے کہ نقد ٹھیکہ کو خود رافعؓ بن خدیج بھی جائز سمجھتے تھے۔

مندرجہ بالا اقوال کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ شاہ ولی اللہؒ نے زمینداری کی مخالفت کی ہے، سراسر جھوٹ ہے اور دھوکہ بھی، کیونکہ شاہ ولی اللہ نے تو زمینداری کے حق میں دلائل بھی دیئے ہیں اور احادیث بھی بیان کی ہیں۔

دراصل کمیونسٹوں کا کام یہ ہے کہ وہ جو لیڈر اور علما عوام میں مقبول ہوتے ہیں۔ ان کا نام لے کر مارکس کے خیالات کی تبلیغ کیا کرتے ہیں، جس طرح آج کل بیچارہ اقبالؒ بطور خاص ان کی مشق ستم کا نشانہ بنا ہوا ہے۔

شاہ عبد العزیزؒ پر جھوٹ:

مسعود صاحب پھر لکھتے ہیں۔

''امام عبد العزیز (شاہ ولی اللہ کے فرزند) نے بھی فتاویٰ عزیزی میں زمینداری سسٹم کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔'' (حوالۂ مذکور)

راقم الحروف نے خاص طور پر فتاویٰ عزیز یہ خرید کر پڑھا لیکن وہاں کہیں بھی مزارعت یا نقد ٹھیکہ کے خلاف کوئی رائے نہیں بیان کی گئی۔

ناظرین غور فرمائیں کہ دھوکہ دینے کے لئے کبھی امام ہند کہا جاتا ہے۔ پھر شاہ عبد العزیز کو بھی امام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے تاکہ سننے والے سمجھیں کہ یہ صاحب ان کے بہت معتقد ہیں، پھر ان پر جھوٹ بول کر مارکس کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔

مزارعت سے متعلق رسول اللہؐ، صحابہ کرامؓ اور علمائے اُمت کا عمل:

مسعود صاحب لکھتے ہیں۔

''حقیقت یہ ہے کہ مزارعت کا طریقہ خواہ اس کی شکل کچھ ہو، نا انصافی کو جنم دیتا ہے۔'' (مشرق ۲۰، فروری ۶۸ ؁) اس قسط کا عنوان ہے، ''ہر شخص اپنی زمین رکھ سکتا ہے، جس پر وہ کاشت کر سکے۔''

گویا جس زمین پر کوئی کاشت کرتا ہو اور وہ اسی کی ہو کر بھی وہ اس کا مالک نہیں کہلا سکتا۔ مطلب وہی عمل فرعون اور قول مارکس یعنی سب زمین حکومت کی ملکیت میں ہونی چاہئے۔

آپ شاہ ولی اللہؒ کا قول مزارعت کے متعلق پڑھ چکے ہیں، جس میں اپنے رسول اللہ (صلعم) کے اہل خیبر کو بٹائی پر زمین دینے کی حدیث کی دلیل سے اور رسول اللہ ﷺ کے عمل اور پھر صحابہؓ و تابعینؒ کے عمل متواتر سے بھی ٹھیکہ و مزارعت کا جواز ثابت کیا ہے۔

ابن حزمؒ کی صراحت:

اب سنئے ابن حزمؒ جن کو اسلامی سوشلسٹ رحمت اللہ طارق مصنف ''زمینداری، جاگیرداری اور اسلام'' نے اپنی کتاب کے صفہ ۲۲۰ پر مجتہد اعظم اور لافانی ابن حزمؒ کا خطاب دیا ہے۔ وہ کیا فرماتے ہیں، ابن حزم محلی جلد نمبر ۸ باب المزارعت میں بخاری اور مسلم وغیرہ، کی بہت سی احادیث ثبوت کے طور پر ذکر کرنے کے بعد آخر میں نافع کی سند سے عبد اللہ بن عمرؓ کی حدیث روایت کرتے ہیں جس میں خیبر کی زمین یہودیوں کو مزارعت پر دینے کا ذِکر ہے پھر فرماتے ہیں:

«فَفِي ھٰذَا أَنَّ آخِرَ فِعْلِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اِلٰی أَنْ مَّاتَ کَانَ إعْطَاءُ الْأَرْضِ بِنِصْفِ مَا یَخْرُجُ مِنْھَا مِنَ الزَّرْعِ وَمِنَ الثَّمَرِ وَمِنَ الشَّجَرِ وَعَلٰی ھٰذا مَضٰی أبُوْ بَکْرٍؓ وَّ عُمَرؓ وَجَمِیْعُ الصِّحَابَة رَضِی اللہُ عَنْھُمْ ۔۔۔۔ عَامَلَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَھْلَ خَیْرَ بِالشَّطْرِ ثُمَّ أبُوْ بَکْرٍؓ وَّ عُمَرؓ(1)وَعُثْمَانٌؓ وَعَلِیٌّؓ ۔۔۔۔ أنَّه سَمِعَ طَاؤُساً یَّقُوْلُ: قَدِمَ َعلَیْنَا مُعَاذُ ابنُ جَبَلٍ فَأَعْطَیٰ الأرْضَ عَلَی الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ فَنَحْنُ نَعْمَلُھَا إلَی الْیَوْمِ قَالَ اَبُوْ مُحَمَّدٍ: مَاتَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ومُعَاذٌ بِّالْیَمَنِ عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ ۔۔۔۔ خَبَّابُ بْنُ الأَرَتِّ وَحُذَیْفَةُ ابْنُ الْیَمَانِ وَابْنُ مَسْعُوْدٍ کَانُوا یُعْطُوْن أرْضهُمْ الْبَیَاضَ عَلٰی الثُلَّثِ وَالرُّبُع، فَھٰؤلَاء أبُوْ بَکْرؓ وَّعُمَرؓ وَعُثْمَانٌؓ وَعَلِیٌّؓ وَسَعْدٌ وَّابْنُ مَسْعُوْدٍ وَخَبَّابٌ وَّحُذَیْفَةُ وَمُعَاذٌ بِحَضْرَةِ جَمِیْعِ الصَّحَابَةِ (رضوان اللہ علیهم أجمعین)»

ترجمہ: ''اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا آخری فعل وصال مبارک تک یہ تھا کہ وہ زمین اور اس کی پیداوار کو نصف بٹائی پر دیتے تھے۔ اور اسی پر حضرت ابو بکر و عمر اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عمل کرتے رہے ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے خیبر میں نصف بٹائی پر زمین دی پھر ابو بکر و عمر و عثمان و علی (رضی اللہ عنہم) نے دی۔۔۔ راوی نے حضرت طاؤسؓ کو کہتے سنا کہ ہمارے پاس معاذؓ یمن میں آئے اور زمین نصف اور چوتھائی بٹائی پر دی اور اِسی پر ہم آج تک عمل کر رہے ہیں۔

امام ابو محمد کہتےہیں: حضور ﷺ وصال پا گئے تو یمن میں حضرت معاذؓ مزارعت پر زمین دیتے تھے۔۔۔ خباب بن الارتؓ و حذیفہ بن الیمانؓ وابن مسعودؓ اپنی اپنی سفید زمینوں کو ثلث اور چوتھائی پر مزارعت کے لئے دیا کرتے تھے، یہ تمام کے تمام حضرات اور ابو بکر و عمر و عثمان و علی و سعد و ابن مسعود و خباب و حذیفہ و معاذ رضی اللہ عنہم تمام صحابہؓ کے سامنے اپنی زمینوں کو مزارعت پر دیا کرتے تھے۔'' دیکھئے! یہ بیان اس شخص کا ہے جسے سوشلسٹوں نے بھی عظیم اور لاثانی مجتہد کا خطاب دیا ہے۔ ایک دوسری کتاب میں ابن حزم نے دعویٰ کیا ہے کہ مزارعت کے جواز پر اجماع ہو چکا ہے۔

امام بخاریؒ کی صراحت:

امام بخاری نے اپنی صحیح میں عبد اللہ بن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں کو مزارعت سے منع نہیں فرمایا تھا ، امام بخاری نے یہ بھی لکھا ہے کہ خیبر سے یہود کے اخراج کے بعد حضرت عمرؓ نے ازواج مطہرات کو اختیار دیدیا تھا کہ ان میں سے جو چاہے وہ پیداوار حسب سابق لیتی رہیں اور جو چاہے اپنے حصے کی زمین لے لیں پس حضرت عائشہؓ نے زمین لے لی ۔ امام بخاری نے یہ بھی روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمرؓ اپنی زمین بٹائی پر دیتے تو مختلف طریقوں سے دیتے، کبھی اپنے پاس سے بیج بھی دیتے اور کبھی مزارع ہی بیج فراہم کرتا۔

پھر امام بخاری اپنی صحیح میں فرماتے ہیں:

''ما بالمدینة أھل بیت هجرة إلا یزرعون علٰی ثلث وربع وزارع علی وسعد بن مالک و عبد اللہ ابن مسعود وعمر بن عبد العزیز والقاسم وعروة وآل أبي بکر وآل عمر وآل علي وابن سیرین۔''

ترجمہ: ''مدینہ میں مہاجرین کا کوئی ایسا گھر نہ تھا جو ثلث یا ربع پر مزارعت نہ کرتا ہو، جو حضرات علی وسعد بن مالک و عبد اللہ بن مسعود و عمر بن عبد العزیز وقاسم وعروۃ اور آل ابی بکر و آل عمر و آل علی وابن سیرین رضی اللہ عنہم سب کے سب اپنی زمینوں کو بٹائی پر کاشت کے لئے دیا کرتے تھے۔''

اب ہم پوچھتے ہیں کہ مسعود صاحب جو بلا استثناء ہر قسم کے مزارعت کے طریقے کو نا انصافی قرار دے رہے ہیں تو کیا وہ اس طرح رسول اللہﷺ خلفائے راشدین اور اصحاب کبار رضی اللہ عنہم کی توہین اور برائی نہیں کر رہے کہ انہیں بالواسطہ نا انصافی کو جنم دینے والا کہا جا رہا ہے۔ (مسلسل)


حوالہ جات

یہ لوگ بیشک بہت مال دار تھے۔ لیکن اس آمدنی سے فضول خرچی یا عیاشی نہیں کیا کرتے تھے، جیسے آج کل کے سرمایہ دار کرتے ہیں، قرونِ اُولیٰ کے مالدار اپنا روپیہ نیک کاموں میں صرف کرتے تھے۔

PP. III, II "Marx and Engels on Religion Moscow edition. 1966

صفحہ ۳۴۴ حجۃ اللہ البالغہ معہ ترجمہ، جلد دوئم مطبوعہ نور محمد کراچی

صفحات ۶۲۔۶۳ المُسَوّیٰ مِن اَحادیث الموطا

یاد رہے کہ مسلم کی روایت کے مطابق حضرت عمرؓ نے یہود کو خیبر سے جلا وطن کر کے وہاں کی زمین صحابہؓ میں تقسیم کر دی تھی، اس کے بعد جو وہاں کی زمین مزارعت یا نقد ٹھیکہ پر دیتا تھا، وہ اپنی ذاتی حیثیت سے ایسا کرتا تھا۔

الاحکام فی اصول الاحکام، جلد اوّل، صفحہ ۵۳۰،

فتح الباری، جلد ۵، صفہ ۴۱۱، طبع مصر ۱۹۵۹،

حوالۂ مذکور صفحہ ۴۱۰، صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے خیبر کی زمین کو تقسیم کر دیا اور ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ چاہے وہ پیداوار کا حصہ لے لیا کریں یا پھر ان کو زمین کے قطعات دیدئے جائیں گے، بعض نے سالانہ پیداوار لینا پسند کیا۔ لیکن حضرت عائشہ اور حفصۃ رضی اللہ عنہما نے زمین لے لی (صفحہ ۲۱۰، صحیح مسلم شرح نووی)

حوالۂ مذکور صفحہ ۴۰۸،

حوالۂ مذکور صفحہ ۴۵۷،

فَفِیْ ھٰذَا أَنَّ آخِرَ فِعْلِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اِلٰی أَنْ مَّاتَ کَانَ اِعْطَاءُ الْأَرْضِ بِنِصْفِ مَا یَخْرُجُ مِنْھَا مِنَ الزَّرْعِ وَمِنَ الثَّمَرِ وَمِنَ الشَّجَرِ وَعَلٰی ھٰذا مَضٰی اَبُوْ بَکْرٍؓ وَّ عُمَرؓ وَجَمِیْعُ الصِّحَابَة رَضِی اللہُ عَنْھُمْ ۔۔۔۔ عَامَلَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَھْلَ خَیْرَ بِالشَّطْرِ ثُمَّ اَبُوْ بَکْرٍؓ وَّ عُمَرؓ [1] وَعُثْمَانٌؓ وَعَلِیٌّؓ ۔۔۔۔ اَنَّه سَمِعَ طَاؤُساً یَّقُوْلُ: قَدِمَ َلَیْنَا مُعَاذُ ابنُ جَبَلٍ فَأَعْطَیٰ الْاَرْضَ عَلَی الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ فَنَحْنُ نَعْمَلُھَا اِلَی الْیَوْمِ قَالَ اَبُوْ مُحَمَّدٍ: مَاتَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ومُعَاذٌ بِّالْیَمَنِ عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ ۔۔۔۔ خَبَّابُ بْنُ الأَرَتِّ وَحُذَیْفَةُ ابْنُ الْیَمَانِ وَابْنُ مَسْعُوْدٍ کَانُوا یُعْطُوْن أرْصَنُهُمْ الْبَیَاضَ عَلٰی الثُلَّثِ وَالرُّبُع، فَھٰؤلَاء أبُوْ بَکْرؓ وَّعُمَرؓ وَعُثْمَانٌؓ وَعَلِیٌّؓ وَسَعْدٌ وَّابْنُ مَسْعُوْدٍ وَخَبَّابٌ وَّحُذَیْفَةُ وَمُعَاذٌ بِحَضْرَةِ جَمِیْعِ اصَّحَابَةِ (رضوان اللہ علیهم اجمعین)



[1]  یاد رہے کہ مسلم کی روایت کے مطابق حضرت عمرؓ نے یہود کو خیبر سے جلا وطن کر کے وہاں کی زمین صحابہؓ میں تقسیم کر دی تھی، اس کے بعد جو وہاں کی زمین مزارعت یا نقد ٹھیکہ پر دیتا تھا، وہ اپنی ذاتی حیثیت سے ایسا کرتا تھا۔