امام ابن جریر طبریؒ

نام اور کنیت:

محمد بن جریر نام، ابو جعفر کنیت، طبرستان کے شہر آمل میں ۲۲۴؁ھ میں آپ کی ولادت ہوئی۔ جب ہوش سنبھالا تو ہر طرف علم و فضل کے چرچے اور زہد و ورع کی حکائتیں عام تھیں، ہوش سنبھالت ہی یہ بھی کسبِ علوم و کمال کی خاطر گھر سے نکل پڑے، دور دراز کے سفر ط کئے اور وقت کے علما و فضلا سے شرفِ تلمذ حاصل کیا، تعلیمی اسفار کے دوران میں آپ کے والد آپ کو باقاعدہ خرچ پہنچاتے رہے۔

اساتذہ و تلامذہ:

آپ کے اساتذہ میں محمد بن عبد الملک بن ابی الشواراب، ابو ہمام سکونی، اسحاق بن ابی اسرائیل، اسماعیل بن موسیٰ سدی، محمد بن حمید رازی، احمد بن منیع، ابو کریب اور ھناد بن سری وغیرہ ہم شامل ہیں۔ ان سے آپ نے حدیث کی سماعت کی، ایک جماعت سے فنِ قراءت سیکھا اور اس میں پورا عبور حاصل کیا۔

آپ سے جن شاگردوں نے سماعِ حدیث کیا، ان میں مخلد باقرحی، احمد بن کامل، ابو القاسم طبرانی، عبد الغفار حضینی اور ابو عمرو بن حمدان وغیرہم نمایاں ہیں۔

علم و فضل:

علم و فضل میں آپ کا جو مقام ہے، وہ محتاجِ تعارف نہیں، آپ اپنے وقت کے بیک وقت عظیم مؤرخ، زبردست فقہیہ و مجتہد، بے مثال مفسر اور محدث تھے، حافظ ابو بکر خطیب آپ کے متعلق فرماتے ہیں۔

''ابن جریر وہ امام ہیں جن کے علم و فضل کے پیش نظر ان کی رائے کی طرف رجوع کیا جاتا اور ان کے قول کے مطابق حکم دیا جاتا ہے، انہوں نے اس قدر علوم و فنون حاصل کئے کہ ان کے زمانے میں کوئی ان کے مقابل نہیں تھا، کتاب اللہ کے حافظ، معانی کے عالم، احکامِ قرآن کے شناسا، حدیث اور اس کی اسانید، صحیح و ضعیف اور ناسخ و منسوخ کی خوب معرفت رکھنے والے، صحابہ و تابعین کے کارناموں سے آگاہ جنگی و تاریخی حالات سے باخبر تھے، تاریخ اُمم میں ایک بہت بڑی مشہور کتاب اور قرآن کی ایک عظیم و بے نظیر تفسیر کے مصنف ہیں، ان کی ایک کتاب ''تہذیب الآثار'' یہ اِتنی مفید کتاب ہے کہ میں نے اس موضوع پر اس جیسی دوسری کتاب نہیں دیکھی، مگر افسوس کہ مکمل نہیں ہو سکی۔ ان کے علاوہ اصول و فروع میں ان کی بے شمار کتابیں ہیں۔ وله اختیار من أقوال الفقھاء

امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں:۔

''میں نے روئے زمین پر ابن جریر سے بڑا عالم کوئی نہیں دیکھا۔''

ابو محمد فرغانی کہتے ہیں:۔

''امام ابن جریرؒ بڑی بڑی ایذا رسانیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کی پروا نہیں کرتے تھے، اہلِ علم اور متدین حضرات آپ کے علم، زہد اور ترکِ دنیا کے معترف تھے۔ آپ طبرستان میں اپنے والد کے چھوڑے ہوئے مال میں سے اپنے حصے پر قانع تھے۔''

تفقہ اور سیرت کے چند گوشے:

کہتے ہیں ایک دفعہ خلیفہ مکتفی نے ایسا وقف نامہ تحریر کرانا چاہا جس پر تمام علما کا اتفاق ہو، کسی کو اس سے اختلاف نہ ہو، اس مقصد کے لئے امام ابن جریرؒ کی خدمات حاصل کی گئیں تو آپ نے ایسی تحریر لکھ دی جو سب کے نزدیک قابل قبول تھی۔ اس پر آپ کی خدمت میں گراں قدر عطیہ پیش کیا گیا، مگر آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا، خلیفہ نے کہا، اپنی کوئی حاجت بیان فرمائیے اسے پورا کر دیا جائے گا، آپ نے فرمایا، میری یہ درخواست ہے کہ جمعہ کے دن لوگوں کو مانگنے سے منع کر دیا جائے، چنانچہ جمعہ کے دِن مانگنا حکماً بند کر دیا گیا۔

اسی طرح ایک دفعہ وزیر سلطنت نے آپ کو فقہ میں کتاب لکھنے کے لئے کہا تو آپ نے ''کتاب الخفیف'' لکھ کر اس کے سامنے پیش کی۔ اس پر اس نے آپ کو ایک ہزار دینار دینا چاہا مگر آپ نے لینے سے انکار کر دیا۔

ایک فقہی اشکال اور اس کا حل:

قائد ابن منجو کہتے ہیں مجھے ابن مزدق کے غلام نے بتایا کہ ایک دفعہ میرے آقا نے ایک لونڈی خرید کر میرے ساتھ اس کا نکاح کر دیا، مجھے اس سے بے حد محبت تھی لیکن اسے مجھ سے نفرت تھی، ایک دن تنگ آکر میں نے اس سے کہہ دیا کہ طلاقِ ثلاثہ کے متعلق جو کچھ تو مجھ سے کہے گی میں وہی کہہ دوں گا، میں تیری اذیتیں کب تک برداشت کروں؟ اس نے فوراً "أنت طالق ثلاثاً" (تجھے تین بار طلاق ہے) کہہ دیا۔ یہ سن کر حیرت سے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا کیونکہ میں اسے طلاق دینا نہیں چاہتا تھا، اب بڑی مشکل میں پھنس گیا، کسی نے کہا امام ابن جریرؒ کی خدمت میں جاؤ اور ان سے اپنی مشکل بیان کرو، چنانچہ میں انکی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا ''تم اپنی بیوی کے سات رہ سکتے ہو کیونکہ تمہارے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ گویا تم نے کہا "أنت طالق ثلاثا إن طلقتك" (تجھے تین بار طلاق ہے اگر میں تجھے طلاق دوں) ابن عقیل نے یہ واقعہ ذِکر کیا ہے اور کہا ہے اِسکا جواب یہ بھی ہے کہ تم بعینہٖ وہی الفاظ کہو جو اس نے کہے ہیں، یعنی "أنت طالق ثلاثا" تا کی فتحہ کے سات یہ خطاب چونکہ مرد کو ہے اس لئے عورت کو طلاق نہیں ہو گی۔

میں کہتا ہوں کہ اگر أنتِ طالق ثلاثا کہا اور ارادہ استفہام کا کرے یا انتِ طالق ثلاثا کہے اور نیت کرے کہ تو میری قید سے آزاد ہے تو طلق یعنی دردزہ میں مبتلا ہے تو ان صورتوں میں طلاق واقع نہیں ہو گی۔

جو لوگ قسم کے سبب اور حالف کی نیت کا اعتبار کرتے ہیں، ان کے نزدیک ایک جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مرد پر وہ بات کہنا لازم نہیں جو عورت نے کہی ہے، کیونکہ قرینہ حال سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ جب عورت اس سے کوئی تکلیف دہ بات کہہ کر اذیت پہنچائے گی تو وہ بھی اسے ایسی ہی تکلیف دہ بات سے اذیت پہنچائے گا چونکہ موجودہ صورت میں طلاق دینا عورت کے لئے تکلیف دہ نہیں بلکہ خوش کن ہے اور مرد کے لئے تکلیف دہ بات ہے۔ لہٰذا بداہتہً طلاق اس سے مستثنیٰ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جب کوئی متکلم کلام کرتا ہے تو اس کے عموم میں سے کچھ چیزیں مستثنیٰ ہوتی ہیں جن کا وہ ارادہ ہی نہیں کرتا، بلقیس ملکہ صنعا کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فرمان۔۔۔ ﴿وَاُوْتِيتْ مِنْ كُلِّ شَيء﴾ (اسے ہر چیز دی گئی تھی) ۔۔۔ میں داڑھی اور مردانہ عضو وغیرہ مستثنیٰ ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فرمان ۔۔۔ تدَمِّرُ کُلَّ شَیٍٔ (آندھی ہر چیز کو برباد کر گئی) میں پہاڑ اور آسمان مستثنیٰ ہیں، اور یہ اندازِ گفتگو فصیح اور کثیر الاستعمال ہے۔ ایسے ہی یہ بھی بدیہی ہے کہ اگر کوئی آدمی حلف کرے کہ عورت جو کچھ کہے گی میں بھی وہی کہوں گا، پھر عورت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرے اور رسولوں کو گالیاں دے لیکن مرد ایسا کہنے سے سکوت اختیار کرے تو وہ حانث نہیں ہو گا الایہ کہ وہ ایسی چیزوں کی بھی اپنے حلف میں نیت کرے (العیاذ باللہ)

موجودہ صورت میں امام داؤد، امام ابن حزم اور شیعہ حضرات کے نزدیک مرد حانث نہیں ہوتا اور عورت بدستور اس کی بیوی رہتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک طلاق کی قسم لغو ہے، قسم صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی ہونی چاہئے اور بس!

ہمارے ہم عصر علما میں سے ایک امام اس طرف گئے ہیں کہ جب کوئی آدمی کوئی کام کرنے پر بیوی کو طلاق دینے کی قسم کھالے تو اس کام کے کرنے پر اسے کفارہ دینا پڑتا ہے، طلاق واقع نہیں ہوتی، ہاں وہ طلاق جو کسی ترغیب یا ترہیب پر معلق نہیں یا اس نے جملہ شرطیہ بولنے سے جزا کا ارادہ کیا ہے قسم کی نیت نہیں کی جیسے یوں کہے اگر تو زنا کرے تو تجھے طلاق ہے یا اگر تو نماز چھوڑ دے تو میری طرف سے تجھے طلاق ہے تو ان کاموں کے سرزد ہونے سے اس کی بیوی کو طلاق واقع ہو جائے گی۔

مگر جہاں تک ہمیں معلوم ہے بعض سلف کے نزدیک غلاموں کو آزاد کرنے یا پیدل حج کو جانے یا سارا مال صدقہ میں دینے کی قسم کھانے پر تو کفارہ ہو سکتا ہے، مگر طلاق کی قسم کھانے پر کسی سے کفارہ منقول نہیں۔

وسعت معلومات اور مسلکِ اجتہاد کا اتباع:

عبد اللہ بن احمد سمسار کا بیان ہے کہ امام ابن جریر نے اپنے تلامذہ سے پوچھا ''تاریخ عالم کا شوق رکھتے ہو تو تحریر کر دوں؟'' بولے ''یہ کتنی جلدوں میں مکمل ہو گی'' فرمانے لگے ''تقریباً تیس ہزار اوراق میں۔'' شاگردوں نے جواب دیا اس قدر ضخیم کتاب کا مطالعہ کرنےسے پہلے عمریں بیت جائیں گی، کہنے لگے إنا للہ ماتت الھمم، لوگ ہمت ہار گئے ہیں، پھر تقریباً ۳ ہزار اوراق میں املا کرائی جو تاریخ طبری کے نام سے مشہور ہے، اس کے بعد جب تفسیر املا کرانے لگے تو پھر تلامذہ سے یہی بات کہی اور بالآخر تاریخ کے برابر املا کرائی جو تفسیر ابن جریر کہلائی، چالیس سال تک آپ کا معمول یہ رہا کہ وہ ہر روز چالیس صفحے لکھتے تھے، ان کے شاگرد ابو محمد فرغانی کہتے ہیں کہ امام ابن جریر کے شاگردوں نے ان کی بلوغت سے لیکر انکی وفات تک حساب لگایا اور انکی تصنیفات کو اس مدت پر تقسیم کیا تو ثابت ہوا کہ وہ ہر روز ۱۴ صفحے لکھا کرتے تھے۔

فرغانی کہتے ہیں، آپ نے بغداد میں دو سال تک امام شافعیؒ کے مذہب کی خوب نشر و اشاعت کی جس کے نتیجہ میں عوام نے اسے بطیب خاطر قبول کر لیا، پھر جوں جوں آپ کا علم وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا، تقلید سے آزاد ہو کر اور اپنے خداداد اجتہاد سے کام لے کر وہ مسلک اختیار کیا جسے اپنی کتابوں میں درج فرمایا ہے آپ کو منصب قضاء پیش کیا گیا لیکن آپ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ کی امامت کا منکر واجب القتل ہے:

امام محمدبن علی بن سہل فرماتے ہیں، میں نے امام ابن جریر سے سنا ہے فرماتے تھے جو شخص یہ کہے کہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ ہدایت کے امام نہیں تھے اسے قتل کر دیا جائے۔

تصانیف:

فرغانی کہتے ہیں آپ کی تصانیف میں سے مندرجہ ذیل کتابیں آپ کے ہاتھ سے پایۂ تکمیل کو پہنچیں۔

(1) تفسیر (المعروف بتفسیر ابن جریر) (2) تاریخ (المعروف بہ تاریخ طبری)

(3) کتاب القراءت (4) کتاب العدد والتنزیل

(5) کتاب اختلاف العلما (6) کتاب تاریخ الرجال

(7) کتاب لطیف القول فی الفقہ اِس میں اپنا پسندیدہ اور اختیار کردہ مسلک درج فرمایا ہے۔

(8) کتاب التبصیر فی الأصول

اِن کے علاوہ کتاب تہذیب الآثار لکھنی شروع کی تھی۔ یہ آپ کی تصانیف میں سے ایک عمدہ ترین تصنیف ہے اگر مکمل ہو جاتی تو یقیناً آپ کا ایک عظیم علمی شاہکار تصور ہوتی۔ اس کو حضرت ابو بکر صدیقؓ کی صحیح صحیح احادیث سے لکھنا شروع کیا تھا، ہر حدیث پر محدثانہ کلام کیا۔ اس کے تمام طرق جمع کئے اِس کی علل کو زیر بحث لائے پھر اس سے استنباط کردہ فقہ، اختلافِ علما اور ان کے دلائلِ و براہین تفصیل وار بیان کئے اور حل طلب لغت کا حل فرمایا، اِس طریق پر عشرہ مبشرہ، اہلِ بیت اور موالی کے مسانید تیار ہوئے مسند ابن عباس کا کچھ حصہ لکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ اِسی طرح ایک اور تصنیف ''کتاب البسیط'' کے نام سے لکھنا شروع کی تھی اس کی صرف کتاب الطہارۃ ہی تقریباً تین ہزار صفحات پر ختم ہوئی، ابھی کتاب الصلوٰۃ کا بیشتر حصہ اور کتاب الحکام والمحاضر والسجلات ہی لکھنے پائے تھے کہ داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ ان کی تفسیر کے متعلق ابو حامد اسفرائینی کہتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی تفسیر ابن جریر حاصل کرنے کیلئے چین تک سفر کرے یہ محنت اس کے مقابلے میں کچھ زیادہ نہیں۔

انتقالِ پر ملال:

ابن کامل کہتے ہیں، امام ابن جریر نے بروز اتوار ۲۸ شوال المکرم ۳۱۰؁ھ عصر کے قریب داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور حبہ یعقوب میں واقع اپنے مکان میں دفن ہوئے۔

صورت و حلیہ:

آپ کا رنگ گندمی تھا اور سیاہی مائل آنکھیں بڑی بڑی اور موٹی تھیں، جسم کے پتلے دراز قد اور بڑے فصیح الکلام تھے، چونکہ بال زیادہ تر سیاہ تھے، اس لئے مہندی وغیرہ کا خضاب نہیں لگاتے تھے۔

جنازہ میں ازدحام:

آپ کے جنازہ میں لوگ اس کثرت سے شریک ہوئے کہ ان کی صحیح تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کئی مہینوں تک دِن رات آپ کی قبر پر نمازِ جنازہ پڑھی جاتی رہی۔

مراثی:

ادباءاور اربابِ دین میں سے بہت سے لوگوں نے آپ کی وفات حسرت آیات پر مرثئے لکھے، ابو سید ابن الأعرابی فرماتے ہیں:

حَدَثٌ مُفْظِعٌ وَّ خَطْبٌ جَلِیْلٌ       دَقَّ عَنْ مِّثْلِه اِصْطِبَارُ الصُّبُوْر


ایک خوفناک حادثہ اور عظیم سانحہ پیش آیا ہے کہ اس میں انتہائی صبر کرنے والے کا صبر بھی جواب دے گیا ہے۔

قَامَ نَاعِي الْعُلُوْمِ جَمِیْعاً لَّمَّا       قَامَ نَاعِي مُحَمَّدِ بْنِ جَرِیْر


جب امام ابن جریرؒ کی موت کی خبر دینے والے نے خبر دی تو اس نے گویا تمام علوم کے مر جانے کی خبر دی۔

علامہ ابن دُرید نے بھی ایک دلگداز مرثیہ کہا جس میں فرماتے ہیں:۔

إنَّ الْمِنَیَّة لَمْ تُتْلِفْ بِه رَجُلاً      بَلْ أتْلَفَتْ َلَماً لِلدِّیْنِ مَنْصُوْبًا


موت نے ایک آدمی کو فنا نہیں بلکہ دین کے ایک مستحکم اور راسخ پہاڑ کو نیست و نابود کر دیا ہے۔

کَانَ الزَّمَانُ بِه تَصْفُوْ مَشَارِبُه      وَالآنَ أصْبَحَ بِالْتَّکْدِْٰرِ مَقْطُوْبًا


انکی زندگی میں زمانہ صاف ستھرے اور شیریں چشمہ کی طرح تا جو اب ان کی موت سے گدلا اور میلا ہو گیا ہے۔

کَلّا واَیّامُه الغُرُّ الَّتِي جَعَلَتْ     لِلْعِلْم نُوْراً وَّ لِلْتَّقْوٰی مَحارِیْبَا


بخدا! ان کے مبارک اور زریں دور نے علم کیلئے روشنی کے مینار اور تقویٰ و پرہیزگاری کیلئے محراب قائم کر دیئے تھے۔

أَوْدٰی أبُوْ جَعْفَرٍ وَّالْعِلْمُ فَاْصطَبَحاً     أعْظَمَ ھٰذَا صَاحِبًا أوْ ذَاکَ مَصْحُوْبا


ابو جعفر اور علم دونوں ایک ساتھ ہلاک ہو گئے، یہ کتنا عظیم ساتھی اور وہ کتنے عظیم رفیق تھے۔

وَدَّتْ بِقَاعُ بِلَادِ اللہِ أوْ جُعِلَتْ      قَبْراً لَّه فَحَبَاہَا جِسْمُه طِیْباً


زمین کا ہر قطعہ خواہشمند تا کہ ان کی قبر بن جائے اور ان کے جسم اطہر سے اس کو سعادت اور خوشبو نصیب ہو

اہل حدیث نمبر


ادارۂ محدث نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر سال کے اختتام پر جلد کا آخری شمارہ، خاص نمبر شائع کیا جائے، جس کی ضخامت معمول سے ڈیڑھ گنا ہو۔

موجودہ سالنامہ اہل حدیث نمبر ہو گا، ان شاء اللہ۔ جس میں تحریک اہلحدیث کا پس منظر، تاریخی حیثیت اور اہل حدیث مکتب فکر سے متعلق علمی و تحقیقی مضامین شائع کئے جائیں گے۔

''محدث'' کے اہل قلم معاونین ان مواضیع پر اپنی علمی نگارشات بھیج کر شکریہ کا موقع دیں۔ ''صرف تحقیقی مضامین ارسال فرمائیں''، (ادارہ)