نکاح شغار۔ وٹہ سٹہ

ماہنامہ ''محدث'' لاہور شیخ التفسیر حافظ محمدحسین روپڑی، شیخ الحدیث حافظ عبد اللہ روپڑی اور خطیب ملت حافظ محمد اسماعیل روپڑی رحمہم اللہ اجمعین کے باقیات الصالحات سے ہے۔ اس لئے ادارۂ ''محدث'' گاہے بگاہے ان کے علمی اور تحقیقی مضامین شائع کرتا رہے گا تاکہ مرحومین کا فیض جاری رہے۔ زیر نظر مضمون شیخ التفسیر حافظ صاحب مرحوم کا ایک قلمی رسالہ ہے جو انہوں نے محققِ شہیر مولانا عبد القادر عارف حصاری کے مطالبہ پر تحریر کیا تھا لیکن مرحوم اپنی علالت کی وجہ سے اس پر نظرِ ثانی نہ فرما سکے۔

ادارہ ''محدث'' نے مسودہ سے ضروری نکات جمع کر کے اسے مرتب کیا ہے اور مجلس التحقیق الاسلامی لاہور کے فاضل رکن حافظ ثنا اللہ مدنی نے بعض مقامات پر تعلیق کا اہتمام کیا ہے۔

یہ مضمون اگرچہ خاصا علمی ہے لیکن امید ہے کہ تحقیق و علم کے شائقین اس سے ضرور مستفید ہوں گے۔ (ادارہ)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ الحمد للّٰه الذی لم یتخذ ولدا ولم یکن له شریك فی الملك وخلق کل شیٔ فقدره تقدیرا وصلی اللّٰه علی محمد النبی الأمی المرسل إلی الناس کافة بشیرا و نذیرا وعلی أله وصحبه وسلم تسلیما کثیرا۔

یہ رسالہ نکاح شغار میں ہے جسے پنجاب میں'نکاح وٹہ سٹہ ' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

شغار:

یہ عربی لفظ ہے جو شرعاً نکاحِ باطل کی ایک قسم کے لئے مستعمل ہے جس کی تعریف یہ ہے کہ ایک شخص اپنی متعلقہ عورت کا دوسرے شخص کو اس شرط پر نکا دے کہ وہ بھی اسے اپنی متعلقہ کا نکا ح دے۔۔۔ خواہ تقرر مہر ہو یا نہ۔

شغار کی لفظی تحقیق:

لغت میں اس کے اصلی معنی رفع یعنی اُٹھانے کے ہیں۔ کہا جاتا ہے، شغر الکلب إذا رفع رجلھا لیبول (کتنے نے پیشاب کے لئے ٹانگ اُٹھائی) اور جب باب مفاعلہ سے ہو تو رفع میں مشارکت ہو گی۔ شغار باب مفاعلہ کا مصدر ہے جس کی تائیدابی ریحانہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ لفظ یہ ہیں:۔

«أن النبی (صلی اللّٰه علیه وسلم) نھٰی عن المشاغرة» (أخرجہ أبو الشیخ فی کتاب النکاح)

یعنی حدیث میں شغار اور مشاغرہ دونوں لفظ آئے ہیں جو باب مفاعلہ کی مصدر ہیں۔ امام اللغۃ ابن قتیبہؒ  شغارکے معنی میں فرماتے ہیں:

''کل واحد منھما یشغر عند الجماع''

شغار شرعی اسی محاورہ سے ماخوذ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ

''شغر البلد إذا خلا'' (یعنی شہر محافظ سے خالی ہو گیا۔) سے ماخوذ ہے۔

اور اس کا اصل معنی بعد اورخلو ہے اور شغار کو مہر سے خالی ہونے کی وجہ سے شغار کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ مرجوح ہے کیوں کہ شغار (شرع میں) منقول ہے اور شغار لغوی منقول عنہ۔ منقول کی اپنے منقول عنہ سے مناسبت ضروری ہوتی ہے۔

اگر غور کیا جائے تو مناسبت تامہ پہلے محاورہ سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں فریقین میں رفع رجل للجماع میں مشارکت مراد ہو گی جو شغر الکلب لیبول سے بہت مناسب ہے اور لغۃ میں شغر الرجل المرأة بھی مستعمل ہے لیکن شغر البلد سے ایسی مناسبت حاصل نہیں کیونکہ نکاح کے مہر سے خالی ہونے کی حیثیت ثانوی ہے۔

شغار کی معنوی تحقیق:
شغار کی دو صورتیں ہیں: (1) شغار بہ تقرر مہر۔ (2) شغار بلا تقرر مہر۔
حدیث نمبر 1:
رسول اللہ (ﷺ) نے شغار سے مطلقاً منع فرمایا ہے۔ مسند احمد اور صحیح مسلم میں ابو ہریرہؓ سے روایت ہے:۔
«نھی رسول اللّٰه (صلی اللّٰہ علیه وسلم) عن الشغار، والشغار أن یقول الرجل زوجنی ابنتک وأزوجك ابنتی أو زوجنی أختك وأزوجك أختی۔»
رسول اللہ (ﷺ) نے شغار سے منع فرمایا اور شغار یہ ہے کہ ایک شخص (دوسرے سے) کہے کہ میں تجھے اپنی بیٹی یا بہن کا نکا ح دیتا ہوں (اس شرط پر) کہ تو مجھے اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح دے۔
اس حدیث میں رسول اللہﷺ سے ابو ہریرہؓ نے نکا ح شغار کی جو تفسیر روایت کی ہے، اس میں آپ نے تقرر اور عدم تقرر مہر کی کوئی شرط نہیں لگائی۔
شبہہ:
اگر کوئی کہے کہ شغار کی یہ تفسیر حضرت ابو ہریرہ کی ہے خود آنحضرتﷺ کی نہیں۔
ازالہ شبہہ:
جواب دو طرح سے ہے:
اولاً:
یہ ظاہر کے خلاف ہے کیونکہ جب حدیث کا پہلا حصہ مرفوع ہے تو دوسرا (تفسیر شغار) بھی مرفوع ہوگا دوسرے حصہ کو موقوف ثابت کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے جو موجود نہیں۔ اگر یہ شبہہ اس وجہ سے وارد ہوا ہے کہ تفسیرِ شغار کے الفاظ ابو ہریرہؓ کے بھی ہو سکتے ہیں، جیسا کہ پہلا حصہ ان کے الفاظ ہیں جس کا مفہوم رسول اللہ (ﷺ) سے ہی ہےے تو اس کی وضاحت یوں ہے کہ مرفوع حدیث کے لئے صرف مفہوم رسول اللہ (ﷺ) سے ہونا ضروری ہوتا ہے۔ الفاظ کبھی صحابیؓ کے ہوتے ہیں اور کبھی رسول اللہ (ﷺ) کے۔ صحابی اس مفہوم کے لئے اگر اپنے الفاظ بھی استعمال کرے تو حدیث مرفوع ہی ہو گی۔ جیسا کہ پہلے حصہ حدیث میں مسلم ہے۔ نیز دوسرے حصہ کے لئے کوئی ایسا اشارہ بھی نہیں جس سے ثابت ہو کہ ابو ہریرہؓ نے رسول اللہ (ﷺ) کے الفاظ نقل نہیں کیے بلکہ لفظوں میں شغار کی تفسیر کی ہے۔ اس قسم کے کمزورشبہات سے اس کو ابو ہریرہؓ پر موقوف نہیں بنایا جا سکتا۔

ثانیا: اگر بالفرض یہ تفسیر لفظاً موقوف ہو پھر بھی حکماً ہے کہ کیوں کہ ابو ہریرہؓ اہلِ لسان ہیں۔ ان دونوں کے مروجہ شغار سے خوب واقف تھے اور صحابی کے لئے غالب خیال یہی ہوتا ہے کہ اس نے یہ معنی نبی (ﷺ) سے سمجھے ہیں۔ اسی بنا پر ایسی موقوف حدیث حکماً مرفوع سمجھی جاتی ہے۔ کما تقرر فی الأصول۔

حدیث نمبر 2:

مسلم میں ابن عمرؓ اور ابن حبان میں انسؓ سے روایت ہے:۔
«لا شغار فی الإسلام »(یعنی اسلام میں شغار نہیں ہے۔)
اس حدیث میں لائے نفی جنس اسلام میں ایسے شغار کے وجود اور انعقاد کی نفی کر رہا ہے اور اس حدیث میں ان لوگوں کی صاف تردید ہے جو ناجائز تو کہتے ہیں مگر نکاح کے واقع ہو جانے کے قائل ہیں۔

لائے نفی جنس بطلان کی دلیل ہے:

جمہور نحاۃ کے نزدیک لائے نفی جنس حرف ہے جو کسی شے کی جنس کی نفی کرنے کے لئے آتا ہے اور اس معنی کے لئے نص ہے۔ بنو تمیم اسے فعل منفی (انتفی) کے معنی میں لیتے ہیں اور ''لا'' کی خبر کو صفت بناتے ہیں.
دونوں صورتوں میں لا شغار فی الإسلام کے الفاظ شغار کے بطلان کی دلیل ہیں۔ جو سلب کلی کا صور (علامت) کی وجہ سے شغار کے ہر فرد شغار بہ تقرر مہر اور شغار بغیر تقرر مہر کو باطل قرار دیتا ہے۔

بعض لوگ نکاح شغار کو معتبر قرار دینے کے لئے لا کی خبر کی تقدیر ایسی کرتے ہیں جس سے حرام ہونے کے باوجود نکاح منعقد ہو جائے۔ حالانکہ وہ عربیت سے ناواقف ہیں، کیونکہ لائے نفی جنس کی تقدیر ہی خبر کا قانون حسب ذیل ہے:

''خبر یا تو مطلق (افعال عامہ سے) ہو گی یا مقید، مقید کی دو صورتیں ہیں یا تو مقید بر ظرف ہو گی یا مقید بغیر ظرف یعنی افعالِ خاصہ سے ہو گی۔ افعال خاصہ کی صورت میں اس کا حذف منع ہے باقی صورتوں میں حذف بہت ہے۔''

اب وجود شغار باقی رکھنے کے لئے لا شغار فی الإسلام میں خبر افعال خاصہ سے بنانی عربیت کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اس صورت میں حذف خبر منع ہے۔ حالانکہ یہاں خبر محذوف ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ یہاں خبر افعالِ عامہ سے ہے۔

لائے نفی جنس کی طرح نہی بھی تحریم اور بطلان کے لئے ہے:

نہی میں اصل تحریم ہے ،جیسا کہ خطابی نے ''معالم السنن'' میں کہا ہے اور اس نکاح کو ایسےہی باطل قرار دیا ہے جس طرح نکاحِ متعہ اور لڑکی پر اس کی خالہ اور پھوپھی کا نکاح باطل ہے۔ امام شافعیؒ نے ''کتاب الأم'' میں شغار اور متعہ میں صحۃ اور عدمِ صحۃ کا فرق کرنے والوں کی کلام کا تفصیلی معارضہ پیش کیا ہے اور امام بخاریؒ نے اسے ناجائز حیلہ قرار دیا ہے۔
اس نہی کو اصل معنی تحریم اور بطلان سے پھیرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اسی طرح لائے نفی جنس کو اصلی معنی سے پھیر کر مبالغہ قرار دینا بے دلیل ہے۔

تحریم شغار اور اجماع علماء:

مذکورہ بالا احادیث سے مطلق شغار کی ممانعت نبی (ﷺ) سے ثابت ہو چکی ہے۔ نبیﷺ نے بہ تقرر مہر اور بغیر تقررمہر کا کوئی فرق نہیں کیا ،لیکن بعض علماءنے شغار کی مذکورہ بالا نبوی تفسیر سے واقف نہ ہونے کی بناء پر اس کی تعریف میں اختلاف کیا ہے جبکہ شغار کی حرمت پر سب کا اتفاق ہے۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں:۔

''اس پر سب متفق ہیں کہ نکاح شغار ناجائز ہے۔''

شغار کی تعریف بعض علما کی غلطی کی وجہ سے میں رسول اللہ (ﷺ) سے مطلقاً ممانعت ذکر کرنے کے بعد الگ الگ احادیث سے بھی شغار کی دونوں صورتوں کی حرمت بیان کر رہا ہوں جو حسب ذیل ہے:

نکاحِ شغار بہ تقرر مہر:

«عن عبد الرحمن بن ھرمز الأعرج إن العباس ابن عبد اللّٰه بن العباس أنکح بن الحکم ابنته وأنکحه عبد الرحمٰن بنته وقد کانا جعلا صداقا فکتب معاویة بن أبی سفیان إلی مروان بن الحکم یامره بالتفریق بینھما وقال فی کتابه: ھذا الشغار الذی نھی عنه رسول اللّٰه (صلی اللّٰہ علیه وسلم) أخرجه أحمد و أبو داود»

عبد الرحمن الأعرج سے روایت ہے کہ عباس بن عبد اللہ بن عباس نے عبد الرحمن بن الحکم کو اپنی بیٹی کا نکاح دیا اور عبد الرحمن بن الحکم نے عباس بن عبد اللہ کو اپنی بیٹی کا اور دونوں نے مہر بھی رکھا پس معاویہؓ نے مروان بن الحکم کو ان کے درمیان جدائی کرا دینے کا حکم لکھا اور اپنی چٹھی میں لکھا کہ یہ وہی شغار ہے جس سے رسول اللہ (ﷺ) نے منع فرمایا تھا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح مبادلہ بہ تقرر مہر شغار ہی ہے۔

شبہہ:

اگر کوئی کہے کہ منتقی مع شرح نیل الأوطار میں وقد کانا جعلا صداقا کی جگہ وقد کانا جعلاہ صداقا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں جعل مرکب ہے جس کا پہلا مفعول (ضمیر) محذوف ہے اور معنی یہ ہے کہ انہوں نے اسی نکاح کو مہر قرار دیا تھا جو عدم تقرر مہر ہی کی صورت ہے۔

ازالہ شبہہ:

وقد کانا جعلاہ صداقا (ضمیر کے ساتھ) نقل کی غلطی ہے۔ منتقی متن کے نسخوں، مسند أحمد اور ابو داؤد اصل کتابوں میں وقد کانا جعلا صداقا (بغیر ضمیر کے) ہے۔ نیز اسے محذوف جاننا قواعد عربیہ کے خلاف ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ:

''جعل دو قسم کا ہوتا ہے: بسیط + مرکب۔ جعل مرکب مبتدا خبر کے افعال سے ہے اور فعل تحویل کہلاتا ہے۔ اگر بغیر قرینہ کے اس کا مفعول حذف کیا جائے تو تحویل کے معنی واضح نہ ہوں گے۔ نیز پہلا مفعول معنی مبتدا ہے جس کا تعین و تخصص ہونا چاہئے اور حذف میں ابہام پایا جاتا ہے۔ حذف سے جعل (مرکب) کا جعل (بسیط) سے التباس بھی لازم آئے گا جو مانع حذف ہے۔ نیز ضرورت کے بغیر حذف فصاحت و بلاغت کے خلاف ہے۔ خصوصاً جب کہ التباس ہو۔ اس لئے یہاں کوئی مفعول (ضمیر) محذوف نہیں بلکہ جعل (بسیط) ہے اور وقد کانا جعلا صداقا کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں نے مہر رکھا تھا۔''

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ نے شغار مع تقرر مہر سے منع فرمایا ہے اور حضرت معاویہؓ نے جو تفریق کا حکم دیا وہ نبیﷺ کے فرمان کے مطابق تھا۔ ''نہیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ'' کے الفاظ اس کے مرفوع ہونے کی دلیل ہیں۔ باقی رہا یہ وہم کہ شاید حضرت معاویہؓ نے یہ اپنی طرف سے کیا ہے، قابلِ التفات نہیں کیوں کہ جس طرح صحابی رسول اللہﷺ کے الفاظ نقل کرے تو حدیث مرفوع ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ مفہوم بیان کرے تو بھی مرفوع ہو گی۔ یہاں امیر معاویہؓ نے اپنا مفہوم بیان کیا ہے۔

وضاحت:

حدیث کے الفاظ ''ہذا الشغار'' میں مبتدا خبر دونوں معرفہ ہیں اور ایک معرف باللام ہے۔ اس لئے معرف باللام محصور ہے اور یہ حصرا دعائی ہے جس سے مبالغہ مراد ہے یعنی اس صورت (مع تقرر مہر) کا شغار میں داخل ہونا ایسا یقینی ہے۔ جیسا کہ صرف یہی شغار (ممنوعہ) ہے۔ اس مبالغہ سے مقصد حضرت معاویہؓ   کا یہ ہے کہ اس صورت کے شغار سے خارج ہونے کا کسی قسم کا شبہ نہ کیا جائے۔

نکاح شغار بلا تقرر مہر:

«حدثنی نافع عن ابن عمر أن رسول اللّٰه (صلی اللّٰہ علیه وسلم) نھی عن الشغار، قلت لنافع: ما الشغار؟ قال ینکح ابنة الرجل وینکحه ابنته بغیر صداق، وینکح أخت الرجل وینکحه أخته بغیر صداق أخرجه البخاری (فی کتاب الحیل وفی باب الشغار) ومسلم وأحمد وأبو داود والترمذی والنسائی وابن ماجه ولفظ أبی داود زاد مسددفی حدیثه قلت لنافع وما الشغار؟ (الحدیث)»

عبید اللہ روایت کرتے ہیں کہ نافع نے مجھے عبد اللہ بن عمر سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہﷺ نے شغار سے منع فرمایا ہے۔ میں نے نافع سے کہا، شغار کیا ہے؟ کہا، ایک شخص دوسرے کی بیٹی سے نکاح کرتا ہے اور اسے بغیر مہر کے اپنی بیٹی کا نکاح دیتا ہے اور کسی کی بہن سے نکاح کرتا ہے اور اسے اپنی بہن کا نکاح بغیر مہر کے دیتا ہے۔ اسے جماعت نے روایت کیا اور ابو داؤد کے لفظ یہ ہی۔ زاد مسدد فی حدیثہ قلت لنافع: ما الشغار؟ یعنی مسدد نے (شغار کی ممانعت کے ذکر کے بعد اور شغار کی تعریف سے قبل) زیادہ کیا ہے۔ میں نے نافع سےپوچھا: شغار کیا ہے؟'' یعنی بعد والی شغار کی تعریف نافع نے کی۔

یہ تعریف جو نافع نے کی ہے۔۔۔ شغار کی وہ صورت ہے جس میں مہر مقرر نہیں ہوتا۔ یہ تفسیر شغار اگرچہ نافع کی ہے، لیکن نبیﷺ کا شغار مطلق (بہ تقرر مہر و بلا تقرر مہر) سے منع کرنا حدیث ابی ہریرہ میں گزر چکا ہے۔ اس لئے نافع کی بیان کردہ صورت بھی شغار ممنوعہ کی ایک شکل ہے۔

طبرانی وغیرہ کتب حدیث میں نکاح شغار کے بیان میں جن احادیث میں ''لا صداق بینھما'' یا ''بغیر صداق'' وغیرہ الفاظ آئے ہیں وہ سب شغار کی مذکورہ بالا منہی عنہ صورت کا بیان ہے اگرچہ وہ احادیث ضعیف ہیں۔

تفریق:

مندرجہ بالا دلائل سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ نکاح شغار باطل ہے اور اگر ایسا نکاح ہو جائے تو منعقد نہیں ہو گا اور تفریق (جدائی) کرائی جائے گی۔ جیسا کہ حضرت معاویہؓ نے کرائی۔ رسول اللہﷺ کے فرمان لا شغار فی الإسلام کا یہی مطلب ہے۔

نوٹ: نکاح شغار، نکاح مبادلہ اور نکاح وٹہ سٹہ ایک ہی ہیں اور نکاح میں ایسی شروط نکاح کو باطل کر دیتی ہیں۔ خواہ وہ نکاح کے وقت ہوں یا اس سے قبل کیونکہ نکاح سے قبل کی ہوئی شرط بھی نیت میں ہوتی ہے۔ ھذا ما عندی واللّٰہ أعلم بالصواب


نوٹ

امام ابن حزمؒ نے المحلی (۶۲۶:۹) میں یہی تعریف ذکر کی ہے اس کے بعد امام مالک سے نقل فرماتے ہیں:۔

لا یجوز ھذا النکاح ویفسخ دخل بھا أولم یدخل وکذلک لوقال: أز وجک ابنتی علی أن تزوجنی ابنتک بمأة دینار فلا خیر فی ذلک۔ کہ یہ نکاح ناجائز ہے اور فسخ ہوگا خواہ زوجین جمع ہو چکے ہوں یا نہ اور یہی حکم ہے اس نکاح کا کہ کہےمیں تجھے اپنی بیٹی کا نکا ح دیتا ہوں اس شرط پر کہ تو مجھے سو دینار مہر سے اپنی بیٹی کا نکاح دے۔ اس میں کوئی خیر نہیں۔

امام ترمذی اپنی جامع میں فرماتے ہیں:

وقال بعض أھل العلم: نکاح الشغار مفسوخ ولا یحل وإن جعل لھما صداق وھو قول الشافعی وأحمد وإسحاق کہ بعض اہل علم نے فرمایاَ: نکاح شغار فسخ ہوگا اور منعقد نہیں ہو گا۔ اگرچہ دونوں کے لئے مہر کا تقرر ہو اور یہ شافعی، احمد اور اسحاق کا مذہب ہے۔

عن ابن درید: شغر الرجل المرأة إذا رفع برجلیھا للنکاح (تاج العروس) قاموس میں ہے شغر، کمنع الرجل المرأة شغورا رفع رجلھا للنکاح۔ شغر۔ رفع کے معنی میں ہو تو منع باب سے استعمال ہوتا ہے اور خلوّ کے معنی میں ہو تو نصر سے۔ ۱۲

حافظ صاحبؒ نے اس حدیث کو بطور لغوی شاہد کے ذکر فرمایا ہے کیونکہ الفاظ حدیث لغوی طور پر ٹھیک ہیں، لیکن حدیث سند اضعیف ہے۔

بعض علما ءمیں جو شغر المہر کا محاورہ مشہور ہے۔ یہ عربی لغت میں مستعمل نہیں اس لئے شغار میں فریقین سے مہر کا رفع مراد لینا غلط ہے۔ ۱۲

افعال عامہ۔ وجود، ثبوت، کون، حصول اور استقرار ہیں۔ ۱۲

بعض لوگ کہتے ہیں کہ لائے نفی جنس۔۔۔ وجود شے کی نفی تو کرتا ہے لیکن کبھی نفی وجود سے مقصد مبالغہ ہوتا ہے۔ حافظ صاحب اسی کی تردید کر رہے ہیں کہ یہ مجاز کی قسم سے ہے جو یہاں نہیں بن سکتی کیونکہ حقیقی معنی سے مجازی کی طرف مجبور کرنے والی یہاں کوئی دلیل نہیں جس کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ۱۲

حافظ ابن عبد البر سے بھی یہی منقول ہے۔ مبسوط للسرخسی اور ہدایہ وغیرہ کی عبارات سے یہ وہم ہوتا ہے کہ حنفیہ شغار کی حرمت کے قائل نہیں جس کی وضاحت یوں ہے کہ متقدمین حنفیہ اس کے ناجائز ہونے میں تو دوسرے علما ءسے متفق ہیں ،لیکن اس کی صحت و انعقاد کے قائل ہیں اور نکاح شغار کو (جب کہ وہ کر لیا جائے) صحیح قرار دے کر مہر مثل واجب کرتے ہیں اور فرمانِ نبویﷺ کی تاویل اس طرح کرتے ہیں کہ جب مہر مثل واجب ہو گیا تو نکاحِ شغار نہ رہا کیوں کہ ان کے نزدیک شغار وہ ہوتا ہے جو نکا ح بلا مہر ہو۔ لیکن یہ حیلہ عملی طور پر یہ صورت اختیار کر گیا ہے کہ ا ن کے نزدیک شغار جائز نظر آتا ہے۔ اس لئے ان کی عبارتیں اکثر جواز کا وہم ڈالتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے حیلوں سے بچائے جو نام کے پھیر سے حرام کا مرتکب بنائے۔ آمین

اگر کہا جائے کہ اس روایت میں محمد بن اسحاق مدلس ہے تو جواب یہ ہے۔ اس نے یہ روایت ''حدثنی'' سے کی ہے، لہٰذا یہ روایت صحیح ہے۔ ۱۲
مالکی فقہ کی معتبر کتاب مختصر الخلیل ص 86 میں ہے۔

اوکزوجنی أختک بمأة علی أن أزوجک أختی بمأة وھو وجه الشغار

یا مجھے اپنی بہن کا ایک سو (مہر) میں نکا دے (اس بدلہ میں) کہ میں تھے ایک سو (مہر) میں اپنی بہن کا نکاح دیتا ہوں۔ یہ شغار ہی کی ایک صورت ہے۔۔۔ قاضی ابو بکر بن العربی نے بھی عارضۃ الأحوذی میں نکاح بہ تقرر مہر کو شغار منہی عنہ ہی کی ایک صورت لکھا ہے۔

علامہ خلیل احمد سہارنپوریؒ حنفی بذل المجہود (شر ابی داؤد (۱۷:۳) میں رقمطراز ہیں۔

ھٰکذا فی جمیع نسخ أبی داود بغیر الضمیر وکذا فی النسخة المصریة لمسند إمام أحمد مثل مافی أبی داود ووجدت فی ما کتب الشوکانی من نسخة منتقی الأخبار وقد کانا جعلاه صداقا بالضمیر ولم أجده

طبرانی میں ابی بن کعب سے جو مرفوع روایت ہے اس میں یوسف بن خالد السمی ہے جو ضعیف ہے اور سند بھی منقطع ہے (مجمع الزوائد ۱۹/۲۶۶/۴) ھافظ ابن حجر تہذیب التہذیب (۴۱۲،۴۱۱/۱۱) میں لکھتے ہیں۔ قال معاویہ بن صالح عن ابن معین: ضعیف، وقال عبد اللہ بن أحمد عن ابن معین کذاب خبیث عدو اللّٰہ تعالیٰ، وقال الدوری عن ابن معین: کذاب زندیق لا یکتب حدیثه، حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری اور تلخیص الحبیر میں اس تفسیر کے متعلق جو فرمایا ہے، یستأنس بہٖ فی ہذا المقام وہ اس وقت درست تھا جب نافع کی تفسیر مرفوع ہوتی اور اس حدیث کی تائید کرتی ۱۲ منہ

شغار کی تفسیر میں بعض رواہِ حدیث اور ائمہ لغت لا صداق بینھما وغیرہ کی جو قید ذکر کرتے ہیں۔ یہ قید اتفاقی ہے احترازی نہیں۔ کیونکہ عام طور پر نکاح شغار بغیر مہر کے ہی ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نکاح میں اصل تبادلہ عورت ہے۔ مہر کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔