محدّث
دل ہے کہ ہوا جاتا ہے قربانِ محدث دل ہے کہ ہوا جاتا ہے قربانِ محدث
اُبھرا افق علم سے اِک اور مجلہّ دامن میں لیے سروِ چراغانِ محدث
تنویر ہی تنویر، تبسم ہی تبسم یہ خلد بریں ہے کہ گلستانِ محدث
کیسے، معطر ہو مشامِ دل و ایماں ہیں مشک فشاں سنبل و ریحانِ محدث
اس شان کتابت پہ ہے یہ رنگ طباعت اللہ رے یہ حسنِ فراوانِ محدث
چندہ بھی مناسب ہے ضخامت بھی مناسب ہر چیز سے ہر شے سے عیاں شانِ محدث
ہر ذوق کی تکمیل ہے، ہر شوق کا حاصل پھر کیوں نہ زمانہ ہو ثنا خوانِ محدث
چھٹ جائے گا ہر جہل و تغافل کا اندھیرا روشن ہے چراغِ رخِ تابانِ محدث
ہوتی ہے سحر بطنِ شبِ تار سے پیدا مایوس نہ ہوں حوصلہ مندانِ محدث
اوراقِ محدث پہ ہیں بکھرے ہوئے موتی آئیں بھریں داماں عزیزانِ محدث
خود آپ پڑھیں اپنے احبا کو پڑھائیں ہر لفظ محدث کا، محبّانِ محدث
ہوتا رہے سیراب ہر اک علم کا جو یا جاری رہے یہ چشمۂ فیضانِ محدث
ہو جائے گی ہر مشکلِ رہ خود بخود آساں رہ بر ہے اگر شوقِ فراوانِ محدث
الحاد کے اِس دور میں عاجزؔ کی دُعا ہے وہ ذاتِ مقدس ہو نگہبانِ محدث