فکر و نظر
پاکستان۔ جس کے قیام کا مقصد ''لا إلٰہ إلا اللہ'' کی عملی تعبیر تھا اور جسے صحیح معنوں میں نمونہ کی اسلامی ریاست اور اسلام کا مضبوط حصار ہونا چاہئے تھا۔ اول روز ہی سے لا دین قوتوں کی ہوسِ اقتدار کی بدولت اپنی اصلی راہ پر گامزن نہ ہو سکا۔ جب کبھی اصلاح احوال کی تھوڑی سی امید پیدا ہوئی یہ قوتیں حرکت میں آگئیں اور انہوں نے ایسے حربے استعمال کئے جن سے مقصد کا حصول تو کجا منزل اور بھی دور ہو گئی۔ ۲۳ سال اسی انتظار میں گزر گئے، اب حالات اتنے پریشان کن ہیں کہ صحیح اسلامی نظام حکومت قائم ہونا تو ایک طرف پاکستان کا اساسی نظریہ اور سالمیت بھی خطرہ میں پڑ گئی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ کسی ریاست کو ''لا إلٰہ إلا اللہ'' کی بنیاد پر ایک ''مثالی اسلامی ریاست'' بنانے کے لئے جس قسم کے کردار اور سیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ روز بروز اس میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ کیا لیڈر اور کیا عوام سب لا دینیت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر لیڈر ہوسِ اقتدار میں مگن ہیں تو عوام مادیت اور عیش پرستی میں غرق۔ اور اسلام کی حیثیت فقط ایک نعرہ کی رہ گئی ہے۔
دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں کہ یہ مملکت خداداد جو خالص اسلام کے نام پر منصۂ شہود پر آئی تھی کیسا اسلامی نمونہ پیش کرتی ہے اور کیسے ثابت کرتی ہے کہ دورِ حاضر کے لئے بہترین ضابطۂ حیات اور انسانی مشکلات کا واحد حل اسلام ہے؟ دیکھنے والے کی نظر صاحب فکر کے کردار پر ہوا کرتی ہے جس سے وہ فکر و نظر کی صحت کا اندازہ لگایا کرتا ہے اور نتیجہ کار ہی اس کی صحت و عظمت تسلیم کرواتا ہے لیکن بد قسمتی کہئے یا حالات کی ستم ظریفی کہ ہم نے اسلام کا نام لے کر اسلام کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ۲۳ سال میں ہم نے کیا پایا ہے؟ یہی کہ آج تک اس کے بنیادی نظریہ اور سالمیت کے خلاف کسی کو آواز اُٹھانے کی جرأت نہ ہو سکی تھی لیکن اب نہ صرف یہ کہ اس کے بنیادی نظریہ کے خلاف ہر کس و ناکس کو زبان کھولنے کی اجازت مل گئی ہے بلکہ اس کی سالمیت اور استحکام کے خلاف بھی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں۔
قوم فرسودہ نظام تعلیم، اندھا دھند مغربی تقلید، فحاشی اور بے حیائی کی بدولت خدا سے غافل ہو کر جس طرح عیش کی دلادہ ہو رہی تھی، اقتدار پسند لیڈروں نے اصلاحِ حال کی طرف توجہ دینے کی بجائے ان کی ذہنی کج روی اور سفلی جذبات سے پورا فائدہ اُٹھایا اور اصلاحی اور فکر انگیز تحریکوں کے علی الرغم ہوسِ اقتدار میں ان کو شدید جذباتی بنا دیا۔ اس طرح ان کے لئے اقتدار کی راہیں تو کھل گئیں لیکن قوم ان جذبات میں اپنا سب کچھ کھو بیٹھی اور حسد و بغض کی آگ اور مادہ پرستی کے جذبات میں اپنی متاع حیات اسلام اور استحکام پاکستان سے غافل ہو گئی۔ جبکہ ان ہوس مندوں نے اسے قوم کی عظیم بیداری کا نام دیا۔
چونکہ حالیہ انتخابات میں طبقاتی اور علاقائی منافرت کے جذبات سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھایا گیا تھا اس لئے انتخابات کے بعد آئین سازی کے لئے جس اتحاد و یگانگت اور رواداری کی ضرورت تھی وہ مفقود ہے اور انتخاب میں کامیاب ہونے والی دو بڑی پارٹیوں کے لیڈر آئینی گتھیوں کو سلجھانے کیلئے بھی جذبات کی اسی ۔۔۔ آگ کو ابھی تک بھڑکاتے چلے جاتے ہیں حالانکہ اب آئین سازی کیلئے ٹھنڈے دِل و دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت قوم میں علاقائی اور طبقاتی سفلی جذبات اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ انتخابات میں عظیم اکثریت سے کامیاب ہونے والے لیڈر ملک کو تباہی کے کنارے پر لے آئے ہیں۔ صدر یحییٰ خاں نے اگرچہ لیگل فریم ورک آرڈر میں اسلام اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لئے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا تھا اور یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ ملک کی سالمیت کے منافی آئین منظور نہیں کیا جائے گا لیکن انتخابات میں کامیابی کے بعد اب تک جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے اور جس قسم کے نکات پر اصرار کیا جا رہا ہے وہ واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ لوگ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد کو نظر انداز کر کے من مانی کرنے پر تلے ہوئے ہیں، حالت یہ ہے کہ قوم اسمبلی کے اجلاس کے صرف چند روزہ التوا کے اعلان سے حالات اتنے مخدوش ہو رہے ہیں کہ پاکستان کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
یہ صورتِ حال جہاں پاکستانی عوام کے لئے پریشان کن ہے وہاں پاکستان کے دشمنوں کے لئے مژدۂ جانفزا ہے وہ حالات کو اور بگاڑنے کے لئے اپنی اپنی تدابیر میں مصروف ہیں۔ خصوصاً ہندوستان اس سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے اور اس نے پاکستان کو اس اندرونی خلفشار میں مبتلا دیکھ کر مختلف بہانوں سے پاکستانی سرحدوں پر اپنی فوجیں جمع کر دی ہیں، ہماری فوجیں جن پر ہم ہر قسم کے حالات میں اعتماد کر سکتے ہیں اور وہ خدا کے فضل سے دشمنوں سے ہر محاذ پر نپٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس وقت ان پر دوہری ذمہ داریاں آن پڑی ہیں کہ جہاں وہ پاکستان کے بیرونی دشمنوں کا دفاع کریں وہاں اندرونی انتشار پسندوں کے مذموم ارادے خاک میں ملا دیں۔
ان حالات میں پاکستان کے ہر بہی خواہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور پاکستان میں اندرونی اصلاح حال کے لئے اپنی کوششیں تیز تر کر دے اور فتنوں کے سد باب کا تہیہ کرے تاکہ بیرونی دشمنوں کے ناپاک عزائم کا قلع قمع کیا جا سکے۔
ہم اس وقت جس داخلی انتشار اور بیرونی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں اس کا واحد سبب ہماری وہ کوتاہی ہے جو ہم سے اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے اس ملک میں اس کے نظریے کو عملی صورت نہ دینے میں سرزد ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ایک فرد کو تو مدتوں تک ڈھیل دے دیتے ہیں لیکن قوم کو نہیں، یہ صورتِ حال د راصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انتباہ ہے وہ شاید ہمیں جھنجھوڑنا چاہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے ہم اُٹھیں اس کی طرف رجوع کریں اور خدا و خلق کے آگے ہم نے تحریک پاکستان چلاتے وقت جو عہد و پیمان باندھے تھے ان کو پورا کریں۔ ہمیں اس وقت اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو یہی ہے کہ ہم علاقائی تعصبات کو خیر باد کہیں اور اسلام کی بنیادوں پر مل بیٹھیں اور اس جال کو تار تار کرنے کی کوشش کریں، جو خود ہم نے نظریۂ پاکستان سے عملاً انحراف کر کے اپنے ارد گرد پھیلا لیا ہے۔
سالمیت اسلام
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءأمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ وَلا تَموتُنَّ إِلّا وَأَنتُم مُسلِمونَ ١٠٢ وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَميعًا وَلا تَفَرَّقوا ۚ وَاذكُروا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم إِذ كُنتُم أَعداءً فَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِكُم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ إِخوٰنًا...١٠٣﴾... سورة آل عمران
اے ایمان والو! مقدور بھر اللہ کے لئے پرہیز گاری اختیار کرو اور تمہاری موت اسلام پر ہی ہونی چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ کی نعمت یاد رکھو کہ تم آپس میں دشمن تھے، اس نے تمہارے دِلوں میں اُلفت ڈال دی، پس تم اس کے احساس سے (باہم) بھائی بھائی بن گئے۔