آبادى اور ترقى

محدث كے گذشتہ شمارے ميں 'فیملى پلاننگ سے مغربى مفادات' كے موضوع پر ايك مضمون شائع كيا گيا تها، اسى مضمون ميں پيش كردہ بعض نكات كى مزيد تصديق وتكميل كيلئے حسب ِذيل مقالہ خصوصى اہميت ركهتا ہے- اس مقالہ ميں مغربى مفكرين كے خيالات كى روشنى ميں ترقى اور نشو ونما كے باب ميں آبادى كے مثبت كرداركا جائزہ پيش كيا گيا ہے- يہ مختصر جائزہ صاحبانِ فكر ودانش كے لئے واقعتا چشم كشا ہے، اور ہمارے اربابِ اقتدار كو سنجيدہ غور وفكر كى دعوت ديتا ہے-اللہ تعالىٰ ہميں اپنى قومى پاليسياں قومى مفاد ميں بنانے كى توفيق دے- ح م



اسلام كا تصورِ فلاح 'دين ودنيا' دونوں كو شامل ہے !
وَكَأَيِّن مِّن دَابَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِ‌زْقَهَا اللَّـهُ يَرْ‌زُقُهَا وَإِيَّاكُمْ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٦٠...سورۃ العنکبوت
"اور كتنے ہى جاندار (زمين پر) ايسے ہيں جو اپنى روزى اُٹهائے نہيں پهرتے، ان كو بهى الله رزق ديتا ہے اور تم كو بهى- اور وه بہت سننے والا اور جاننے والا ہے۔"

'اسلام' انسانى فلاح و ترقى كا جو تصور پيش كرتا ہے، اس كى اساس انسانى زندگى كے بارے ميں 'يك حياتى' كى بجائے اس كا 'دو حياتى'نقطہ نظر ہے كہ تمام مفادات و وسائل اور منازل كا حصول اگرچہ اس حياتِ دنيوى ميں بهى ا ہم ہے ليكن فلاح و ترقى كى اصل حقيقت حياتِ اُخروى كى حتمى منزل كے ساتھ منسلك ہے- چنانچہ اس دنيا ميں مادّى وسائل كے حصول كى خاطر معاشى جدو جہد كو نہ صرف جائز قرار ديا گيا ہے بلكہ انسانى فطرت كو ملحوظ ركهتے ہوئے معاشى وسائل كو اللہ كا فضل قرار دے كر اس سلسلے ميں محنت و كاوش كى ترغيب بهى دلائى گئى ہے- ليكن چونكہ اصل اور حتمى كاميابى و ترقى كا تعلق دوسرى زندگى سے ہے، لہٰذا مادّى وسائل كى دوڑ اورايسى سرگرميوں كى تحديد بهى كى گئى ہے جو حتمى كاميابى كى راہ ميں ركاوٹ كا باعث ہوں، تاكہ مقصد ِانسانى كا حصول اور منزلِ حقيقى تك رسائى ممكن ہو سكے۔اس طرح دونوں زندگيوں كے امتزاج پر مشتمل تصورِ فلاح كى بنا پر انسانى طرزِ عمل اور جدوجہد ميں ايسا فطرى توازن اور اعتدال پيدا ہو جاتا ہے جس ميں كسى افراط و تفريط كى گنجائش نہيں رہتى۔

ليكن اگر انسانى زندگى اور معاشى جدو جہد سے حیاتِ اُخروى كا عنصر خارج كر ديا جائے تو اس توازن و اعتدال ميں ايسا بگاڑ پيدا ہوتا ہے كہ معاشى مفادات اور مادّى وسائل كے اعتبار سے بلنديوں كو چهو لينے كے باوجود حقيقى فلاح و ترقى سے محرومى انسان كا مقدر بن سكتى ہے- قرآن ميں اسى حقيقت كى نشاندہى كر تے ہوئے سورئہ آلِ عمران كى آيت نمبر 14 ميں مادّى سازو سامان اور وسائل و سہوليات كى ايك لمبى فہرست كا تذكرہ كر كے ان كے فوائد و جواز كے باوجود اصل كاميابى كے مقابلے ميں انہيں كمتر قرار ديا گيا- اور پهر فرمايا :
قُلْ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيْرٍ‌ مِّن ذَٰلِكُمْ...﴿١٥﴾...سورۃ آل عمران 1
"آپ كہہ ديجئے ! كيا ميں تمہیں اس سے بہت ہى بہتر چيز بتاؤں ؟"

ان جائز دنيوى نعمتوں اور مادّى ترقى كى مختلف جہات كے تذكرے ميں البنين یعنى اولاد و احفاد كو مادّى ترقى كى ايك علامت كے طور پر بيان كرتے ہوئے اسے انسان كو فطرى طور پر مرغوب مادّى اشياے وسائل ميں سے ايك قرار ديا گيا ہے- 2

بلكہ سونے چاندى كے ڈھیروں، بهرئے ہوئے خزانوں اور ديگر مادّى مرغوبات پر خواتين واولاد كا ترجيحا ًتذكرہ اس بات كا ثبوت ہے كہ عورتيں اور بچے (يعنى آبادى ) حياتِ دنيوى كى (مادّى) ترقى كا ايك اہم مظہر ہيں- جبكہ رسولِ رحمت ﷺ كے مطابق حياتِ اُخروى ميں بهى انسان كے اعمال منقطع ہو جانے كے باوجود جو تين چيزيں انسان (كو ترقى اور عروج كى منزل تك لے جانے) كے لئے فائدہ پہنچاتى رہتى ہيں ،نيك اولاد و احفادان ميں سے ايك ہيں۔ 3

گويا اسلام كے دو حياتى تصورِ ترقى و فلاح ميں اولاد و آبادى ، نہ صرف يہ كہ ترقى كے مظاہر ميں سے ايك ہے، بلكہ حصولِ منزل كا ايك اہم ذريعہ بهى ہے۔

'آبادى' معاشى ترقى ميں بنيادى حيثيت كى حامل ہے!
اسلامى نقطہ نظر سے قطع نظر، اگر خالص مادّى اور معاشى نقطہ نظر سے ديكها جائے تو بهى آبادى، بنيادى معاشى عوامل و مظاہر ميں سے ايك ہے- معاشيات كى رو سے پيداوار كے تين عامل تسليم كئے جاتے ہيں- زمين، سرمايہ، اور افرادى قوت- زمين اور سرمايہ دونوں مادّى وسائل ہيں- گويا مادّى وسائل (Material Resources) اور انسانى وسائل یعنى افرادى قوت (Human Resources) ہى وہ دو بنيادى عوامل ہيں جن پر انفرادى و اجتماعى معاشى ترقى كا انحصار ہے۔ ' انفارميشن پروجيكٹ فارافريقہ' كے تحت امريكہ سے 1995ء ميں چھینے والى كتاب4d Power, Politics and Population controle: Excessive Forceكى موٴلفہ ايلزبتہ ليا گن (Elizabeth Liagin)نے مختلف تجزيوں كے بعد ثابت كيا ہے كہ گزشتہ دو تين صديوں ميں جس دوران مغربى يورپ اور امريكہ نے پائيدار رترقى اور خوشحالى كى منازل طے كى ہيں، ان كى آبادى ميں شرحِ اضافہ آج كے كچھ ترقى پذير ممالك كى آبادى ميں شرح اضافہ سے بهى زياده تهى اور ان كى اس ترقى ميں بڑھتى آبادى اور افرادى قوت نے نہايت اہم كردار ادا كيا ہے۔ ليا گن امريكى ترقى كى تاريخ كا تجزيہ كر تے ہوئے لكھتى ہے:
"1790ء اور0 184ء كے درميان پچاس برسوں ميں امريكى آبادى 4 ملين سے بڑھ كر اندازاً 18 ملين ہوئى- يہ تقريباً پانچ گنا اضافہ ہے- تين دهائياں بعد یعنى 1870ء ميں يہ آبادى مزيددوگنى سے بهى زيادہ یعنى 5. 38 ملين تهى- اگلے دس برسوں ميں یعنى 1870ء اور0 188ء كے درميان 37 فى صد اور اضافہ ہوا اور آبادى 50 ملين سے زيادہ ہو گئى- صدى اختتام كو پہنچى تو امريكى آبادى 76 ملين تهى- يہ صرف ايك صدى ميں پندرہ گناہ اضافہ ہے۔

اس كے بعد 1900ء سے 1940ء كے درميان چاليس سالوں ميں امريكى آبادى ميں شرحِ افزائش آج كے بہت سے ترقى پذير ممالك سے اونچى تهى اور اس كے نتيجے ميں 56 ملين اضافہ ہوا- بيسويں صدى كے نصف اوّل كے دوران امريكہ ميں آبادى كى اوسط شرحِ نمو 3 فى صد تهى- يہى وہ عرصہ ہے جب امريكہ نے اپنى پيداواريت (Productivity) اور دنيا ميں اپنے مقام و مرتبہ ميں بے حد موٴثر اضافہ كيا۔" 5

ايك اور مغربى تجزيہ نگار پا ل كينيڈى (Paul Kennedy)دنيا كى آبادى كے ايك معاشى سروے كا حوالہ ديتے ہوئے تحرير كر تا ہے كہ
"يہ يورپ كا صنعتى انقلاب تها جس نے اس كے پہلو بہ پہلو آبادى كے عظيم اضافہ كو سہارا ديے ركها اور رسل ورسائل اور فوجى اسلحہ كى ترقى يافتہ شكل پيدا كى اور اس طرح براعظم (يورپ) كو باقى دنيا پر ہلہ بولنے پر اكسايا- 1846ء اور 1890 ء كے درميان يورپ سے نقل مكانى كرنے والوں كى اوسط سالانہ تعداد 377000 تهى- ليكن 1891ء اور 1910ء كے عرصہ ميں يہ اوسط تعداد 911000 سالانہ تك جا پہنچى- درحقيقت 1846ء سے 1930ء تك كے عرصے ميں پانچ كروڑ سے زيادہ يورپى نئى زندگى كى تلاش ميں سمندر پار گئے۔ چونكہ خود يورپ كے اندر بهى اس عرصہ ميں آبادى بڑھ رہى تهى، اس لئے دنيا ميں اس كى آبادى كا تناسب بتدريج بڑھتا گيا- ايك اندازے كے مطابق قفقازى آبادى 1800ء ميں نوعِ انسانى كا 22فى صد تهى اور 1930ء ميں5 3 فى صد- يہ اس منظر كى وہ آبادياتى بنياد تهى جسے بعد ازاں 'مغربيت كا عالمى انقلاب' كا نام ملنا تها- قطع نظر اس بات كے كہ باقى دنيا كو يہ بات پسند تهى يا نہ تهى، وه مجبور تهى كہ مغربى انسان كى توسيع، اس كى پاليسيوں، تصورات اور اقتصاديات كو قبول كيا جائے- ان ميں سے بہت سى آبادياں تو يورپى آباد كاروں (immigrants) كے براہ راست سياسى كنٹرول ميں آگئيں۔" 6

گويا يورپ اور امريكہ كى صنعتى اور مادّى ترقى كا سب سے بڑا سبب آبادى اور افرادى قوت ميں اضافہ ہے- جو كہ ماہرين معاشيات كے نزديك اہم پيداوارى عامل اور انسانى ترقى كے ليے لازم ہے- عددى غلبہ و قوت كو مادّى ترقى اورصنعتى طاقت كا اہم معاشى عامل قرار ديتے ہوئے ايك اور مغربى مفكر يوں تجزيہ پيش كرتا ہے كہ
"يہ حقيقت، جسے 'آبادياتى مرحلہ' كے نام سے جانا جاتا ہے، ايك قوم كى طاقت كو نماياں طور پر متاثر كرتى ہے-صنعتى پيش رفت آبادى ميں اضافے كا سبب بنتى ہے اور يہ زيادہ آبادى مزيد صنعتى پهيلاؤ كا ذريعہ بن سكتى ہے-" 7

عالمى بنك(World Bank) كى 1990ء كى 'ڈويلپمنٹ رپورٹ' ميں بهى آبادى ميں اضافہ كو اقتصادى ترقى كے لئے ضرورى قرار ديا گيا ہے- رپورٹ بتاتى ہے كہ
"اگرچہ فورى طور پر آبادى ميں اضافہ كا نتيجہ كم فى كس شرح آمدنى كى صورت ميں ظاہر ہونا ايك معلوم حقيقت ہے- ليكن پيداوارى كا ركنوں كى زيادہ بڑى تعداد دور رس اثر كے طور پر شرحِ آمدنى كو تيز ى سے بڑها بهى سكتى ہے- يہ دلیل بهى دى جاسكتى ہے، بالخصوص مغرب ميں كہ بعض ممالك كو اپنى موجودہ اقتصادى ترقى كى رفتار كا ساتھ دينے كے ليے زياده تيز اور اونچى شرح آبادى كى ضرورت ہے- كا م كرنيوالى افرادى قوت ميں تيز اضافے كا لازمى نتيجہ بے روزگارى اور غربت نہيں ہو ا كرتا- اگر سرمايہ كارى كا فى ہو رہى ہو تو وسعت پذير معيشت نہ صرف اضافى مزدور قوت كو كهپا سكتى ہے بلكہ ہو سكتا ہے كہ اسى اضافى قوت پر اس كا انحصار ہو-" 8

پال كنيڈى(Paul Kennedy)اپنى كتاب ميں آبادى ميں اضافے كے سياسى مضمرات كا تجزيہ كرتے ہوئے واضح كر تا ہے كہ
"ماضى اور مستقبل كے عالمى سياسى مسائل اور ان كے حل ميں آبادى كى بڑھتى ہوئى شرح كا بنيادى كردار ہے- اس كے خيال ميں جنوبى افريقہ ميں نسلى امتياز كى پاليسى ترك كرنے كے فيصلے ميں بهى آبادى ہى كا اثر تها كہ سفيد آبادى جو كبهى ملكى آبادى كا پانچواں حصہ ہوا كرتى تهى، مسلسل كم ہوتے ہوئے 1980ء كى دهائى كى ابتدا ميں ساتويں حصہ تك رہ گئى تهى اور اس كے خيال ميں 2020ء تك يہ سفيد آبادى، ملكى آبادى كا گيارہواں حصہ رہ جائے گئى-" 9

ايك اور مغربى تجزيہ نگار چيمبرلينChamberlain) )مالتهس كے نظريہٴ آبادى كاجائزہ ليتے ہوئے نتيجہ اخذ كر تا ہے كہ
"آبادى اور خاص طور پر نوجوان آبادى، تبديلى اور انقلاب كى طاقت اور دباؤ كى قوت ہوتى ہے اور مستقبل ميں عالمى تبديليوں كا باعث آبادى كى ہى قوت ہوگى-" 10

فرانس كے قومى مركز برائے مطالعہ آبادى كے سربراہ ژاں كلاڈ چيسنائس (Jean Claude Chesnais) نے بهى 1990ء ميں شائع ہونے والے اپنے ايك مضمون ميں "اگلى چند دہائيوں ميں دنيا كے سياسى جغرافيے كى تبديلى كا سبب اور اقوام كى طاقت كا مظہرزيادہ شرحِ آبادى كو قرار ديا ہے- اس كے خيال ميں بڑى طاقتيں اپنى كم شرح آبادى كے نتيجے ميں زوال كا شكار ہو جائيں گى-" 11

امريكى ايجنسى سى آئى اے(CIA) كى 1977ء اور 1995ء كى رپورٹس ميں بهى مستقبل كے عالمى سياسى منظر نامے كا باعث دنيا كى آبادى كى شرحِ نمو كو ہى قرار ديا گيا ہے- ان رپورٹس كے مطابق "آنے والے دور ميں بين الاقوامى اقتصادى تعلقات اور اقتصادى و سياسى ترقى كا انحصار آبادى كى بڑھتى ہوئى شرح پر ہوگا اور يہى بين الاقوامى اُمور ميں اختيارات كى از سر نو تقسيم كى بنياد ہو گى۔" 12

ان تجزيوں كے مطابق مستقبل ميں ترقى اور غلبے كا انحصار چونكہ آبادى ميں اضافے پر ہوگا، لہٰذا امريكى سينٹرل انٹيلى جنس ايجنسى نے 1990ء ميں 'نوجوانوں كى قلت' (Youth Deficits) كے عنوان سے ايك رپورٹ شائع كى ہے- جس ميں امريكہ كى كم شرح آبادى پر تشويش كا اظہار كر تے ہوئے يہ خدشہ ظاہر كيا گيا ہے كہ آئندہ چند برسوں ميں 15 سے 24 برس كى عمر كى آبادى ميں شديد كمى واقع ہو جائے گى- رپورٹ كے مطابق اس عمر كے افراد كى خصوصى اہميت ہے كيونكہ يہى وہ لوگ ہيں جو نئى كام كرنے والى قوت بنتے ہيں اور اسى پر معاشى ترقى كا انحصار ہو تا ہے- سى آئى اے(CIA) كے تجزيہ كے مطابق 1980 ء تك 5 ملين سے زيادہ آبادى كا كوئى ملك ايسا نہ تها جسے نوجوانوں كى كمى كا سامنا ہو - ليكن 1990ء تك تقريباً 15 ممالك ميں نوجوان آبادى ميں كمى واقع ہو چكى تهى، جو كہ ايك اندازے كے مطابق سال 2010ء تك كم از كم 29 ممالك ميں نو جوانوں كى كمى ہو گى، ان ميں تقريباً سبھى صنعتى ممالك اور بعض اہم ترقى پذير ممالك شامل ہوں گے۔ 13

امريكن انٹر پرائز انسٹيٹيوٹ واشنگٹن ڈى سى كے ايك سكالر ويٹن برگ (Wattenberg) شرحِ آبادى كا تجزيہ كر تے ہوئے اپنى كتاب'قحط الاطفال'(The Birth Dearth) ميں زيادہ آبادى كو ہى دنياپر مغربى غلبے كى بنياد قرار ديتا ہے- اس كے خيال ميں

"مغرب كا دنيا پر غلبہ اس وقت ہوا جب اس كا حصہ دنيا كى آبادى ميں تقريباً22 فى صد تها جو 1987ء تك 15 فى صد رہ گيا تها ليكن مغرب كا غلبہ اب بهى موجود ہے- ليكن جب 2025ء ميں مغربى آبادى دنيا كى آبادى كا 9 فى صد سے بهى كم رہ جا ئيگى ا ور 2100ء ميں صرف 5 فى صد رہ جائے گى، تو اس وقت كى عظيم طاقتيں (Super Powers) تيسرى دنيا كى اقوام ہوں گى جن كو اس وقت آبادياتى فوقيت حاصل ہو گى-" 14


امريكہ كے سابق صدارتى اميدوار اور مفكر پيٹرك جے بكينن (Patrick J. Buchanan) نے آبادياتى عامل كے مختلف النوع اثرات كا جائزہ ليتے ہوئے اپنى كتاب "The Death of the West"ميں مغربى اقوام كى كم شرحِ آبادى كو ان كى' موت' قرار ديا ہے- اور جرمنى ، اٹلى، روس ، انگلستان، امريكہ اور ديگر ممالك كى گھٹتى ہوئى آبادى كو ان كى معاشى ترقى اور سياسى غلبے كے ليے شديد ترين خطرہ قرار ديا ہے- اس كے خيال ميں سال 2050ء تك يہ ترقى يافتہ اقوام اقليتوں ميں بدل چكى ہوں گى اور ان كى جگہ افريقى، ايشيائى اور لاطینى امريكى اقوام اپنى آبادى كى زيادہ شرح كى بنياد پر غلبہ حاصل كر چكى ہوں گى- وہ لكھتا ہے كہ

"ايك اندازے كے مطابق آئس لينڈ (Iceland) سے روس (Russia) تك 47 يورپى اقوام كى آبادى جو كہ سا ل2000ء ميں 728 ملين تهى،2050ء ميں صرف 556ملين رہ جائے گى- اس كے خيال ميں 52-1347ء كے سياہ طاعون (Black Plague) كے بعد تاريخ كايہ سب سے بڑا انسانى دهچكا ہے-"15


وہ مزيد لكھتا ہے كہ اوسط عمر ميں اضافہ كے سبب ترقى يافتہ اقوام ميں آئندہ چند دهائيوں ميں باپ دادا كى صورت ميں بوڑهے تو موجود ہونگے ليكن ان كو معاشى طور پر سنبهالا دينے كے لئے نوجوان نسل كا فقدان ہو گا جس كے نتيجے ميں شديد معاشى بحران پيدا ہوجائے گا- وہ سوال كرتا ہے كہ اس سكڑ تى ہوئى آبادى ميں بقا كا كيا راستہ اختيار كيا جا سكتا ہے؟ پهر كہتا ہے كہ اگر يورپ كو اس سوال كا جواب جلد نہ ملا تو يورپ كى موت واقع ہو جائے گى۔ 16

اس زوال كا سبب اس كے خيال ميں مغرب ميں خاندانى نظام كى تباہى اور كم شرح آبادى كے علاوہ اور كچھ نہيں - خاندانى نظام اور مغربى زوال كے بارے ميں اسى سے ملتا جلتا تجزيہ ايك اور مغربى مفكر وليم جے بينٹ(William J. Benett) نے اپنى كتاب The Broken Hearth ميں كيا ہے ۔ 17

برنارڈ ليوس(Bernard Lewis)نے اپنى كتاب "The Crises of Islam" ميں، اور ہنٹنگٹن(Huntington) نے "The Clash of Civilizations" ميں بهى مستقبل كے منظر نامے ميں آبادى كے كردار كے بارے ميں اسى طرح كا تجزيہ پيش كيا ہے-

روزنامہ ڈان كراچى كى يكم مئى 2005ء كى اشاعت ميں ايك جاپانى كالم نگار نے جاپانى آبادى كى كم شرح پيدائش كو جاپانى معيشت اور اس كى صنعتى ترقى كے لئے شديد خطرہ قرار ديا ہے- اقوامِ متحدہ كے ايك تجزيے كے حوالے سے كالم نگار لكھتا ہے كہ جاپان كى آبادى جو 2004ء ميں 127ملين ہے، 2050ء ميں 109 ملين رہ جائيگى جن ميں ايك بہت بڑى تعداد بوڑهوں كى ہو گى- جبكہ معاشى جدوجہد كرنے والوں كى تعداد بہت كم رہ جائے گى - جس سے جاپانى معيشت اور صنعت كو شديد خطرہ لاحق ہے- اس خطرے كو محسوس كر تے ہوئے جاپانى وزارتِ انصاف نے ايك بڑى تعداد ميں افرادى قوت درآمد كرنے كا فيصلہ كيا ہے۔ 18

ايشيائى آبادى كے بارے ميں اسى قسم كا ايك تجزيہ ايك اور غير ملكى كالم نگار مروان ميكن ماركر (Marwaan Macan Markar) نے روزنامہ ڈان كى اس اشاعت ميں شائع ہونے والے اپنے كالم ميں كيا ہے۔19

يہ تمام تجزيے اس حقيقت كا بين ثبوت ہيں كہ مادّى ترقى اور صنعتى غلبہ آبادى ميں اضافہ كے بغير ترقى ممكن نہيں- اور آبادى كى بلند شرحِ نمو انفرادى و اجتماعى معاشى ترقى كے لئے ہميشہ سے ايك لازمى عامل كے طور پر كردار ادا كرتى آئى ہے- مستقبل ميں بهى ترقى اور غلبے كا فيصلہ اسى بنياد پر ہونا يقينى امر ہے- اس حقيقت كا مكمل ادر اك اور احساس ركهنے كے باوجود ترقى يافتہ اقوام اپنى آبادى ميں مطلوبہ اضافہ كرنے سے اس ليے قاصر ہيں كہ خاندانى نظام كى تباہى، آزاد جنسى ماحول، جديد معاشرتى رجحانات، نئے اخلاقى معيارات، اور اس نوع كے ديگر بے شمار اسباب كى بنا پر ترقى يافتہ معاشروں كى 'آزاد 'عورت سے معاشرتى بندھنوں كى پابند ہو كر اضافہ آبادى كے لئے كسى موٴثر كردار كى توقع نہيں كى جاسكتى ہے۔

اگر بالفرض معاشرتى و اخلاقى ماحول ميں تبديلى كى كوشش كے ذريعے كوئى مثبت لائحہ عمل اپنا بهى ليا جائے تو بهى تيسرى دنيا كى بڑھتى ہوئى آبادى كا مقابلہ كرنا ترقى يافتہ معاشروں كے ليے ممكن نہيں- لہٰذا سالہا سال كے تجزيوں اور اعدادو شمار كے حسابات كے بعد بڑى طاقتيں اس نتيجہ پر پہنچى ہيں كہ اپنے معاشروں ميں اضافہ آبادى كى ترغيبات كے اعلانات كے ساتھ ساتھ تيسرى دنيا كى اقوام ميں شرحِ آبادى ميں اضافہ كو روكنے كے لئے موٴثر پاليسى كے تحت مربوط جدوجہد كى جائے، تاكہ ہر دو طرح كى كوششوں كے ذريعے اس دھماكہ آبادى(Population Explosion) سے اپنى صنعتى مادّى ترقى كا تحفظ اور سياسى غلبے كى بقا ممكن ہو- چنانچہ ايك امريكى بااختيار ادارے كا سكالرويٹن برگ(Wattenberg) اس حقيقت كا ادراك واظہار كرتے ہوئے لكھتا ہے كہ اگر مغرب كى توليدى صلاحيت (Fertility) اگلى دهائيوں ميں واپس اپنى عوضى سطح (Replacemat) تك زيادہ ہو بهى جائے، تب بهى تيسرى دنيا كى آبادى آج كے مقابلے ميں دنيا كى آبادى كابڑا حصہ ہو گى اور تيسرى دنيا كے يہى ممالك نسبتاً زيادہ خوشحال اور طاقتور بهى ہوں گے۔ 20

يہ امكان وتجزيہ مغربى مفكرين اور ان كى حكومتوں كے پاليسى ساز اداروں كو اس كو شش پر مجبور كرتا ہے كہ وہ عالمى معاشى اداروں اور مختلف ترغيبات و ترہيبات كے ذريعے تيسرى دنيا ميں تحديد ِآبادى كى تحريك موٴثر طريقے سے جارى ركهيں اور اپنے مطلوبہ اہداف كے موہوم امكان كو يقينى بنانے كے لئے سر گرم عمل رہيں- مثلاً امريكى پاپولیشن كونسل كے مركز برائے پاليسى سٹڈيز كے ايك وركنگ پيپر ميں، جو 1982ء ميں شائع ہوا ، آباديوں كى شرحِ نمو كے فرق كا تجزيہ كر تے ہوئے اس بات پر زور ديا گيا ہے كہ غلبے اور ترقى كے توازن ميں اس امكانى تبديلى كے آگے بند باندهنے كے لئے 'موٴثر اقدامات' بہت ضرورى ہيں۔ 21

مذكورہ بالا وركنگ پيپر اور اس طرح كى مختلف رپورٹس كا تذكرہ كر تے ہوئے ايلزبتہ لياگن(Alizabeth Liagin) لكھتى ہيں كہ
" اس بات كو يوں بهى كہہ سكتے ہيں كہ جن گروہوں كى توليدى شرح مسلسل نيچے آرہى ہے (یعنى يورپى نسل كے افراد)، اُنہيں سمجھايا جا رہا ہے كہ ايشيائى ، افريقى ، عرب اور لاطینى امريكى قومو ں كے ہاتهوں ان كا 'مكمل صفايا' قضائے مبرم ہے- ہاں اگر شعورى كوشش كى جائے كہ يہ ميلان اور روش بدلے، تب شايد ايسا نہ ہو-" 22

گويا يہ بات اظہر من الشمس ہے كہ آبادى(ميں اضافہ) ايك بہت بڑا معاشى عامل ہے- جو مادّى ترقى اور سياسى غلبے كے لئے مسلمہ طور پر ريڑھ كى ہڈى كى حيثيت ركهتا ہے- لہٰذا يسا عامل جو ترقى كا بہت بڑا ذريعہ (Resource) ہو، جس سے قوم كا روشن مستقبل وابستہ ہو، جس سے قومى اور ملى كاميابى اور عروج و ترقى كى راہيں كھلتى ہوں، اس كى تحديد كى تحريك كسى بهى قوم كے لئے كسى بهى سطح پر مفيد كيونكر ہو سكتى ہے- مادّى وسائل(Material Resources) كى طرح انسانى وسائل (Human Resources) كى وسعت اور توسيع ہى انسانيت اور ملك و ملت كے لئے كاميابى و ترقى كا پيغام ثابت ہو سكتى ہے- يہى وجہ ہے كہ اس كائنات كے سب سے عظيم دانا وحكیم اور محسن انسانيت رسول اكرم ﷺ نے آبادى ميں تو سيع كو خاندانى نظام كى بنيادى حكمت قرار ديتے ہوئے كثرت ِ اُمت كو اپنى ذات عالى مقام كے لئے باعث فخر بتايا ہے- آپ ﷺ كاارشاد اقدس ہے :
( تزوجوا الودود الولود فإني مكا ثر بكم الأمم ) 23
"محبت كرنے والى اور كثرتِ اولاد (كى صلاحيت) والى عورت سے شادى كرو كيونكہ ميں تمہارى كثرت كے سبب دوسرى امتوں پر فخر كروں گا-"

اُصولى اعتبار سے مادّى وسائل(Material Resources) اور انسانى وسائل (Human Resources) ميں اگرعدمِ توازن پيدا ہو جائے تو يہ توازن پورا كرنے كے لئے كم وسائل كو زيادہ اور منظم كرنے كى بجائے زيادہ وسائل كو كم كرنا، منفى اندازِ فكر (Negative approach) او رقنوطيت (Passimism) كے رويے كى عكاسى كرتا ہے- ايسا طرزِ فكر وعمل كبهى ترقى و عروج كے ليے معاون ثابت نہيں ہواكرتا- دنيا ميں فقط وہى اقوام ترقى و غلبے كى منازل حاصل كر تى ہيں جو مثبت طرزِ فكر (Positive approach) كو اپناتے ہوئے پورے تيقن اوراُميد (Optimism) كے ساتھ مثبت انداز ميں جدو جہد كريں- يہى مشورہ امريكى تجزيہ نگار ايلزبتہ لياگن آبادى اور ترقى سے متعلق مختلف تجزيوں كے بعد ترقى پذير ممالك كو ديتى ہے اور اس مثبت طر زِ عمل كے نتيجے ميں روشن مستقبل كى نويد سناتى ہے كہ ترقى پذير ممالك، جن پر آبادى كى كمى كے ليے مسلسل دباؤ ڈالا جارہا ہے، بہتر ہو گا كہ وہ اس سارى صورتِ حال كو مد نظر ركهيں- غريب ترين ممالك كو بهى، زيادہ آبادى سے فائدہ ہى پہنچے گا- جيسا كہ سى ايس آئى ايس (Center for Strategic and International Studies)كے تعارفى كتابچہ ميں درج ہے كہ دنيا بهر ميں شرح آبادى كى تبديلى كا عمل
" اب محض قياس نہيں رہا- يہ ايك ايسا انقلاب ہے جسے ہر حال ميں آنا ہے اور جب يہ انقلاب آئے گا تو كوئى چيز بھى سابقہ حالت ميں نہيں رہے گى-" 24

وسائل وآبادى كے توازن كے معاملے ميں مثبت طور پر جہاں مادّى وسائل كى تنظيم و ترتيب كر كے اُنہيں تمام لوگوں كى ضروريات كے مطابق بنايا جا سكتا ہے، وہاں انسانى وسائل يعنى افرادى قوت كو مفيد بنا كر معاشى ترقى اور سياسى كاميابيوں كے لئے استعمال ميں لايا جا سكتا ہے- تحديد آبادى كى تحريك پر وسائل خرچ كرنے كى بجائے انہى وسائل سے مختلف عملى ميدانوں ميں افراد كى تربيت كا بندو بست كيا جاسكتا ہے- پهر ان تربيت يافتہ افراد كو صنعتى دنيا ميں بهيج كر، جہاں آبادى خطرناك حد تك كم ہو چكى ہے، بہترين زرِمبادلہ حاصل كرنے كے روشن امكانات موجود ہيں- اس طرح افراد كى ترقى كے ساتھ ساتھ قومى ترقى اور ملكى استحكام كو يقينى بنا يا جاسكتا ہے- وگرنہ اگر تحديد ِآبادى كى موجودہ تحريك كو جارى ركها گيا تو شريعت ِاسلاميہ كے مطابق يہ منفى طرزِ عمل نتائج كے اعتبار سے كبهى مفيد ثابت نہيں ہو سكتا اور وسائل كے ضياع كے سوا كسى ہدف كا حصول ممكن نہيں - كيونكہ آبادى ميں اضافہ كا تعلق ان الٰہياتى امور سے ہے جن كو انسانى كا وش سے روك لينا ممكن نہيں- رسول اكرم ﷺ سے جب 'عزل' كے بارے ميں پوچها گيا تو آپ نے فرمايا:
(إذا أراد الله خلق شيء لم يمنعه شيء) 25
"جب اللہ تعالىٰ كسى چيز كو پيدا كرنے كا ارادہ كرلے تو اسے (كائنات كى)كوئى چيز اس سے روك نہيں سكتى-"

اسى طرح ايك اور حديث كے مطابق جب آپ سے يہى سوال پوچها گيا تو آپ نے فرمايا:
(مامن نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلاوهي كائنة ) 26
"( عزل كرو يا نہ كرو )جو روح قيامت تك پيدا ہونے والى ہے ،ہر صورت ميں پيدا ہو كر ہى رہے گى-"

اس كا مطلب يہ ہے كہ مانع حمل وسائل وذرائع بڑها لينے كے باوجود مطلوبہ نتائج كا حصول ممكن نہيں- لہٰذا تحديد ِآبادى كى بے نتيجہ تحريك پر خطير وسائل صرف كرنے كى بجائے اُنہيں آبادى كى فلاح و بہبود اور تعليم و تربيت پر خرچ كر كے ملك و ملت كى ترقى ميں كردار ادا كرنا چاہيے- مسلمان اگراپنے آقائے دو جہاں ﷺ كى ناموس و عزت اور مفاخرتِ اُمم كے لئے آبادى كى توسيع كى تحريك چلا كر تقاضاے ايمانى پورا نہيں كر سكتے تو كم ازكم مادّى وسائل كا رونا روتے ہوئے، تحديد ِآبادى كى تحريك ميں اپنا حصہ ڈال كر خالق و مالك كى ناراضگى كو دعوت تو نہ ديں- جس نے اگر ناراض ہو كر موجودہ وسائل رزق بهى ختم كر ديے تو اس كا چيلنج ہے كہ پهر رزق كے ذرائع اور مادّى وسائل كہاں سے لاؤ گے -فرمايا:
أَمَّنْ هَـٰذَا الَّذِي يَرْ‌زُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِ‌زْقَهُ ۚ بَل لَّجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ‌ ﴿٢١...سورۃ الملک
"اگر اللہ تعالىٰ اپنے وسائل رزق روك لے تو بتاؤ كون ہے جو تمہیں يہ وسائل رزق مہيا كرے گا- بلكہ يہ لوگ تو سر كشى اور بغاوت پر اَڑے ہوئے ہيں-" 27

اس آيت ِكريمہ كے مطابق مادّى وسائل اور معاملاتِ رزق سے متعلق اس قرآنى سوال اور اس سلسلے ميں فرامين رسول ﷺ پر كان نہ دهر نا، سركشى و بغاوت كا رويہ ہے- اللہ تعالىٰ ہم سب كو ايسے رويے اور اطوار و انداز سے محفوظ فرمائے - اللهم و فقنا لما تحب و ترضى

اطلاع برائے قارئين
'محدث' ميں گذشتہ ماہ 'فيملى پلاننگ سے مغربى مفادات' كے نام سے محترمہ عطيہ انعام الٰہى صا حبہ كا جو مضمون شائع ہوا تها، اس كى تيارى ميں لاہور سے شائع ہونے والے 'بيدار ڈائجسٹ' كى رپورٹوں سے بطورِ خاص مدد لى گئى تهى-يہ مضامين اس ڈائجسٹ كے مدير جناب ملك احمد سرور نے تحرير كيے ہيں- مزيد تفصيل كے خواہش مند اس ڈائجسٹ كى طرف رجوع كريں- ادارہ


حوالہ جات
1. آل عمران: 14
2. ايضاً:14 ﴿زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ...﴿١٤﴾...سورۃ آل عمران﴾
3. إن رسول الله ﷺ قال: ( إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة إلا من صدقة جارية أو علم ينتفع به أو ولد صالح يد عوله) (صحيح مسلم:رقم 1631)
4. 2002ءميں انسٹيٹيوٹ آف پاليسى سٹڈيز اسلام آباد نے اس كتاب كو اُردو ترجمے كے ساتھ شائع كيا ہے-
5. ايلزبتہ ليا گن، كتاب مذكور (ترجمہ)، ص7
6. Paul Kennedy, Preparing for the twenty first century, New York 1993, P: 42
7. John G. Stoessinger, the Might of Nations: World Politics in ur time rev. ed., New York, 1965, P: 20
8. World Bank, "World Development Report 1990", Oxford 1990, : 82
9. Prepairing for the twenty first century, P: 40
10. Neil W. Chamberlain, Beyond Malthus: Population and power, New York & London 1970, P: 54, 55.
11. Jean Claude Chesnais, " The Africanization of Europe", The American Enterprise
Institute, no. 3, (May/June 1990) P: 24
12. Central Intelligence Agency," Political Perspectives on Key Global Issues", March 1977 (Jan, 1995) P:4
13. Central Intelligence Agency, Youth Deficits: An emerging population problem,
Aug. 1990, (Dec 1990) P: 801-807
14. Ben Wattenberg, The Birth Dearth, New York 1987, P:97,98
15. Patrick J, Buchanan, The Death of the West: How dying populations and
immigrant invasions imperil our country and civilization, New York 2002, P:2
16. Ibid, P:218
17. William J. Bennett, The Broken Hearth: Reversing the moral ollaps of the
American family, New York 2002.
18. Suvendrini Kakuchi, Old Japanese make way for unskilled oreign workers, The
daily Dawn Karachi, May 1,2005, P:14
19. Marwaan Macan-Markar, Fast growth in Asia's old generation orries experts,
The daily Dawn Karachi, May 1,2005 P:14
20. Ben Wattenberg, The Birth Dearth, New York 1987, P:97
21. Paul Demeny, " International Aspects of Population Policies" y the Population
Council, Centre for policy studies, working paper No.80, New York 1982, P:8
22. ايلزبتہ ليا گن، خاندانى منصوبہ بندى: طاقت ،سياست اور مفادات كا عالمى كهيل (ترجمہ) ،انسٹيٹيوٹ آف پاليسى سٹڈيز اسلام آباد، 2002ء، ص :55
23. سنن نسائى:حديث نمبر3227
24. ايلزبتہ لياگن ، بے اولاد مغرب: شرحِ آبادى ميں تنزل اور معاشى زوال ، ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور،جون 2001ء، ص55
25. صحيح مسلم : 1438
26. صحيح بخارى:2542
27. القرآن الكريم ، الملك : 21