فتاوی

زكوٰة قمتي ِخريد كے اعتبار سے يا قمت فروخت كے اعتبار سے؟قسطوں پر خريد ، شيئرز كا كاروبار، وراثت اور ہبہ كے مسائل
روٴيت ِہلال ميں جديد آلات اور اختلافِ مطالع
سوال: گذشتہ عيد الفطر ميں ہمارے ہاں كچھ اختلاف پيدا ہواكيونكہ حكومت نے چاند ديكهنے كا اعلان تقريباً نو بجے كے قريب كيا اور تقريباً ڈيڑھ دو سو افراد نے پير كو عيد نماز ادا كى- ساتهيوں كے اطميیان كے لئے چند مسائل سے آگاہى مطلوب ہے :
(1) جيسا كہ حضرت ابوہريرہ سے روايت ہے كہ رسول اللہﷺ نے فرمايا: "چاند ديكھ كر روزه ركهو اور اس كو ديكھ كر افطار كرو، اگر تم پر ابر كيا جائے تو شعبان كے 30 دن پورے كرو-"
اب جيسا كہ اس متفق عليہ حديث ِمباركہ سے ثابت ہورہا ہے، اس كے پيش نظر كيا دوربين اور خلائى سياروں سيٹلائٹ كے ذريعے سے حكومتى ادارے اور رؤيت ِہلال والے جو چاند ديكهتے ہيں، ان كى بات درست تسلیم كى جائے يا نہيں؟
(2) حديث ِمباركہ ہے:"بے شك اللہ تعالىٰ نے چاند كى رؤيت ميں تاخير كردى (یعنى نظر نہ آنے ديا) لہٰذا وہ اسى رات كا مانا جائے جس رات كو تم نے اسے ديكها" 1 تو اگر ہم دوربين يا خلائى سياروں سیٹلائٹ سے چاند دیكھیں تو كيا اس حديث پر عمل ہوسكتا ہے-
(3) صحيح مسلم ميں ہے كہ حضرت كريب ايك مرتبہ شام گئے جب وہ واپس مدينہ منورہ آئے تو حضرت عبداللہ بن عباس نے ان سے پوچها: تم نے چاند كب ديكها تها؟ اُنہوں نے كہا: ہم نے جمعہ كو ديكها تها- حضرت ابن عباس نے پوچها: كيا تم نے بهى ديكها تها؟ اُنہوں نے كہا: ہاں (ميں نے بهى ديكها تها) اور لوگوں نے بهى ديكها تها، تمام لوگوں نے روزہ ركها اور (خليفہ وقت) اميرمعاويہ نے بهى روزہ ركها- حضرت ابن عباس نے كہا: ليكن ہم نے تو ہفتہ كى رات كو ديكها تها، لہٰذا ہم تو روزہ كہتے رہيں گے جب تك 30 دن پورے نہ كرليں يا ہم 29 كو چاند نہ ديكھ ليں- حضرت كريب نے كہا: كيا آپ كے لئے حضرت معاويہ كى روٴيت اور ان كا روزہ ركهنا كفايت نہيں كرتا؟ حضرت ابن عباس نے فرمايا: نہيں، ہميں رسول اللہ ﷺ نے ايسا ہى حكم ديا ہے-تو حضرت عبداللہ بن عباس كے فرمان كو سامنے ركهتے ہوئے لاہور والے كراچى كى يا كراچى والے پشاور كى یعنى ملك كے دور ترين علاقے والے ايك دوسرے كى شہادت پر عيد كريں يا نہ كريں؟
(4) احاديث ميں ہے كہ دو عادل مسلمان گواہى ديں تو روزہ ركهو يا موقوف كرو-2
تو كيا كسى مشرك، بدعتى و مقلد كى گواہى پر روزہ ركها يا موقوف كيا جاسكتا ہے- قرآن وحديث سے واضح فرمائيں-اور آپ علماے كرام سے ہى ہميں علم ہوا كہ محدثين كرام  اس آدمى كى روايت اور شہادت قبول نہيں كرتے تهے جس نے زندگى ميں ايك جهوٹ بهى بولا ہوتا۔
(5) اگر طاغوتى حاكم وقت عوام پر كوئى فيصلہ قرآن و حديث كے خلاف پيش كرے تو اسے ماننا چاہئے يا نہيں؟ قرآن و حديث سے واضح فرمائيں- ( خالد محمود سلفى،اوكاڑہ)


جواب: احاديث سے جو بات ثابت ہے وہ يہ ہے كہ اثباتِ رمضان كے لئے ايك عادل مسلمان كى شہادت كافى ہے اور خروجِ رمضان وغيرہ كے لئے دو عادل گواہوں كى گواہى ضرورى ہے- اس سے يہ بات كهل جاتى ہے كہ چاند كو ديكهنے سے مقصود ہر ايك كا ديكهنا نہيں بلكہ شرعى طور پراس كا اثبات ہے- كسى اسلامى ملك ميں شرعى شرائط كے ساتھ رؤيت ِہلال كا اعلان چاہے نئى ايجادات كے ذريعہ ہو، بشرطيكہ اصل رؤيت ميں شبہ نہ ہو تو وہ قابل اعتماد ہے- جس كى سب لوگوں كو تعمیل كرنى چاہئے اور اعلان ميں تاخير ِنزاع كا باعث نہيں ہونى چاہئے- بعض اوقات كوئى معقول وجہ بهى ہوسكتى ہے- سعودى عرب ميں بهى ايك بار ايسے ہوا اور سب علماے كرام نے اسے تسليم كياتها-
(2) اگر چاند نظر نہ آئے تو واقعى يہى حكم ہے اور جديد ايجادات كے ذريعہ رؤيت كى صورت ميں بهى رؤيت قابل اعتبار ہے-
(3) سوال ميں مذكور حديث كى شرح ميں اہل علم نے بہت كچھ لكها ہے، مگر راجح بات يہ ہے كہ ايك ملك كى رويت دوسرے ملك كے لئے كافى نہيں كيونكہ شام دوسرا ملك ہے- ظاہر يہى ہے كہ ابن عباس نے دوسرا ملك ہونے كى وجہ سے اعتبار نہيں كيا، رہا صوبہ سرحد كا معاملہ تو بسبب ِقرب كے وہ ايك ہى ہيں- جب ايك جگہ دوسرى جگہ سے اتنى دور ہو كہ رؤيت ہلال ميں فرق پڑھ سكتا ہو تو اس صورت ايك جگہ كى رؤيت كا دوسرى جگہ اعتبار نہيں- لاہور كراچى يا پشاور كراچى كا رؤيت كے اعتبار سے زيادہ تفاوت نہيں،اس ميں چنداں ترددكى ضرورت نہيں- سعودى عرب رقبہ كے حجم ميں پاكستان سے بڑا ملك ہے ليكن اس ميں ايسا كبهى اختلاف نمودار نہيں ہوا، اس كى وجہ يہ ہے كہ ان كے جملہ اُمور مرتب اور علمى قيادت كے ہاتھ ميں ہيں- زادها الله عزا وشرفا
(4) اثبات اور خروجِ رمضان كے لئے واقعى عادل مسلمانوں كى شہادت ہونى چاہئے، محدثین نے جن شرائط كے تحت اہل بدعت كى روايت كا اعتبار كيا ہے، وہى قريباً رؤيت ِہلال ميں بهى ہونى چاہئيں- ملاحظہ ہو: توضيح الافكار (2/199تا 212)
(5) طاغوتى حاكم كا حديث من رأىٰ منكم منكرًا كى روشنى ميں معارضہ ہونا چاہئے-


زكوٰة قیمت ِخريد كے اعتبار سے قیمت فروخت كے اعتبار سے؟
سوال: پانچ مرلہ كا ايك پلاٹ كاروبارى نيت سے خريد كيا ہے ،كيا زكوٰة موجودہ قیمت كے حساب سے ادا كى جائے يا قیمت ِخريد كے حساب سے؟
جواب : كاروبارى نيت سے خريدے گئے پلاٹ ميں زكوٰة موجودہ قیمت كے حساب سے ہوگى، بشرطیكہ اس پر سال گزر جائے- سنن ابوداود ميں بہ سند حسن سمرة بن جندب سے مروى ہے:
فإن رسول الله ﷺ كان يأمرنا أن نُخرج الصدقة من الذي نُعِدُّ للبيع
"ہر اس چيزسے زكوة نكالنے كا رسول ﷺ ہميں حكم ديتے جس كو ہم سامان تجارت شمار كريں-"
جمہور اَہل علم اسى بات كے قائل ہيں-

سوال: سُود/ ربا كى تعريف آپ كى تحقيق كے مطابق كيا ہے؟
جواب:چند مخصوص اموال ميں زيادتى كا نام سود ہے، اس كى دو صورتيں ہيں:

  1. سود زيادہ (ربا الفضل)
  2.  سود اُدهار (ربا النسيئة)


'سود زيادہ 'يہ ہے كہ اُصولى ربويات (سونا، چاندى، گندم، جو، كھجور اور نمك) ميں سے ايك جنس كا تبادلہ اس جنس كے ساتھ كمى بيشى ميں كرنا-اس كے علاوہ ہر اس جنس پر بهى سود كے احكام نافذ ہوں گے جس ميں علت خوراك اور ذخيرہ كرنا پائى جاتى ہو اور بعض كے نزديك علت ناپ تول ہے جبكہ ديگرنے علت ِطُعم (ذائقہ) قرار دى ہے- جبكہ سونا اور چاندى ميں علت ثمنیّ تهے، يعنى ان كا ديگر چيزوں كے لئے قیمت قرار پانا ہے- جملہ تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو: تفسير أضواء البيان (1/201تا227)

اور سود اُدهار كى دو قسمیں ہيں؛جاہلى دور كا سود، جس كى صورت يہ ہوتى تهى كہ ايك شخص ايك مدت تك اُدهار لے ليتا تها جب ادائيگى كى ميعاد ختم ہوجاتى تو قرض خواہ مقروض سے كہتا كہ رقم ادا كرو ورنہ مزيد مدت كے عوض رقم ميں اضافہ كرتا ہوں- عدم ادائيگى كى صورت ميں اسى طرح اضافہ ہوتا چلا جاتا- جاہلى دور كے سود ميں ايك صورت يہ بهى تهى كہ كوئى شخص ايك مدت كے لئے دس دينار ديتا اور كهتا ميں پندرہ دينار وصول كروں گا- 3

شيئرز كے كاروبار كى حيثيت
سوال: كيا جائز كاروبار والى كمپنى كے شيئرز (Shares) (حصص) لينا جائز ہے؟
جواب: جائز ہے بشرطيكہ كسى شرعى ضابطہ كى خلاف ورزى نہ ہو-

سوال: كيا اسٹاك ایكسچینج ميں حصص (Shares) كى خريدوفروخت جائز ہے؟
جواب:اسٹاك ایكسچینج ميں چونكہ مختلف صورتوں ميں جائز وناجائز دونوں طرح كا كاروبار ہوتا ہے، اسلئے آدمى كو علىٰ وجہ البصیرت يقين ہو كہ يہ شكل خلافِ شرع نہيں تو درست ورنہ نہيں-

قسطوں پر اشيا كى خريد

سوال: آرمى CSD والے سى ڈى موٹر سائيكل نقد -/53500كا اور قسطوں پر تقريبا - /60000 بشمول -/12000 ايڈوانس اور 30 قسطيں بحساب -/1584 ديتے ہيں- كيا قسطوں پر سى ڈى موٹر سائيكل لينا جائز ہے- (پروفيسر سيد مبشر على، بهكر)
جواب: قسطوں پر خريد و فروخت جائز ہے بشرطيكہ معاملہ طے پاجانے كے بعد اس ميں تبديلى نہ ہونے پائے-

سوال: ڈاكٹر عبدالماجد سركارى ملازم تهے، اب ان كى بيوى پنشن لے رہى ہے- ڈاكٹر صاحب كے دو بیٹے جواد ماجد، نويد ماجد اپنا مكان خريد كركے اس ميں رہائش پذير ہيں- ڈاكٹر صاحب كا ايك بهائى ساجد اپنے آپ كو اس مكان اور پنشن ميں حصہ دار كہتا ہے- براہ كرم اسلامى نكتہ نظر كے مطابق فتوىٰ صادر فرمائيں۔
جواب : اس صورت ميں پنشن كے حقدار وہ لوگ ہيں جو تركہ كے وارث بنتے ہيں- وہ اپنے حصص كے اعتبار سے پنشن كے بهى وارث ہيں- موجودہ صورت ميں بيوہ كے لئے آٹهواں حصہ ہے اور باقى كچھ دو بيٹوں كے لئے جبكہ بهائى ساجد محروم ہے كيونكہ بيٹوں كى موجودگى ميں شرعاً وہ وارث نہيں بنتا- تصحیح مسئلہ 16سے ہے، دو بيوہ كے لئے اور سات سات ہر بيٹے كے لئے ہے- كل حصص سولہ ہوئے۔

سوال: ايك شخص كى زرعى زمين اور دكانيں وغيرہ كچھ جائداد ہے- اس كى ايك ہى بيٹى ہے اور والدين، بيوى يا بهائى بہن زندہ نہيں ہيں- دو مرحوم بهائيوں سے بھتیجے بھتیجیاں اور دو مرحوم بہنوں سے بهانجے اور بهانجیاں ہيں- تقسيم وراثت كے سلسلے ميں يہ سوالات ہيں :
(1) كيا وہ اپنى كل جائداد اپنى زندگى ميں اپنى بيٹى كو ہبہ كرسكتا ہے؟
(2) اگر نہيں كرسكتا تو اس كى جائداد كيسے تقسيم ہوگى؟
(3) ايك بھتیجا فوت ہوچكا ہے تو كيا اس كى اولاد كو بهى كچھ ملے گا يا وہ محروم رہے گى؟
(4) ان وارثوں ميں سے كسى كے لئے الگ سے وصيت كرسكتا ہے؟
(5) بهائى كى اولاد كو اور بہن كى اولاد كو دو اور ايك كے حساب سے ديا جائے گا يا تمام بچوں كو مجموعى طور پر مذكر و موٴنث كے لحاظ سے دو اور ايك كے حساب سے تقسيم كيا جائے گا۔
(6) زمين تو كنالوں اور مرلوں ميں تقسيم ہوجائے گى، مگر دكانيں كيسے تقسيم ہوں گى- اسكى آٹھ دكانيں ہيں- چار تو اس كى بيٹى كوچلى گئيں، باقى چار كيسے تقسيم ہوں گى- (غلام حسین ،قصور)
جواب :آدمى كو اس بات كا اختيار ہے كہ بقائمى ہوش و حواس ،صحت و تندرستى ميں كسى ايك كو جتنى چاہے جائداد ہبہ كرسكتا ہے، البتہ اولاد كو ہبہ كى صورت ميں برابرى ضرورى ہے- بايں صورت سارى جائداد لڑكى كے لئے ہبہ ہوسكتى ہے، بشرطيكہ اس كا قبضہ بهى ہو۔ ديگر ورثا ميں سے جس كو چاہے وصيت كرسكتا ہے بشرطيكہ ايك تہائى سے زيادہ نہ ہو- اور عدمِ ہبہ كى صورت ميں صرف زندہ بھتیجے وارث بنتے ہيں، بھتیجیاں اور بھتیجے كى اولاد، بهانجے بهانجياں سب محروم ہيں۔


حوالہ جات

1. صحيح مسلم
2. نسائى، احمد
3. سود کی تعریف، اقسام اور شروط وقیود کے بارے میں تفصیل سے جاننے کیلئے ماہنامہ 'محدث' کا سود نمبر پڑھیں