دینی مدارس اورسرکاری مداخلت
دینی مدارس کی لازمی رجسٹریشن، ان کی غیر ملکی گرانٹ پر پابندی اور ان پر بعض مضامین ہر صورت شامل نصاب کرنے کی لازمی شرط کے نادر شاہی اَحکامات کے اعلان کی واحد و جہ وفاقی وزیراطلاعات نے یہ بیان کی ہے کہ بعض مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جارہی تھی۔
یہ الزام ماضی میں مغربی ذرائع ابلاغ کی طرف سے بھی لگائے گئے تھے اور اس کی تردید وفاقی وزارتِ داخلہ اور وفاقی وزارتِ مذہبی اُمور خود کرتی رہی ہے اور دونوں وزارتوں کے پے در پے یہ بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی مدرسے میں دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ بالفرض اب حکومت اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ دو چار مدارس ایسے ہیں کہ جن میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ ان مدارس کوبے نقاب کرے۔ ان کے نام عوام کے سامنے لائے اور ان مدارس پر پابندی عائد کرے۔ جبکہ ابھی تک کسی ایک مدرسے کا نام بھی اس الزام کے ساتھ سامنے نہیں آیا اور حکومت کسی بھی مدرسے میں دہشت گردی کی تعلیم کو بے نقاب کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے۔ گویا اصل مسئلہ دہشت گردی نہیں، بلکہ اصل مسئلہ خود 'دینی تعلیم' ہے اور یہ مسئلہ ہماری حکومت میں شامل لادین عناصر کا بھی ہے اور ان سے بڑھ کر ان کے مغربی آقاؤں کا... او ریہ خواہش بھی نئی نہیں ہے۔ مغرب کی یہ دیرینہ خواہش و کوشش رہی ہے کہ
وہ فاقہ کش کی موت سے ڈرتا نہیں ذرا روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
اور
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اپنے ان ہی اہداف کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جو اقدامات روبہ عمل لائے جارہے ہیں، ان میں دینی مدارس کو سرکاری کنٹرول میں لانا سرفہرست ہے۔
دینی مدارس کی لازمی رجسٹریشن
قریباً تمام دینی مدارس کو چلانے والی تنظیمیں اور انجمنیں پہلے سے ہی سوسائٹیزایکٹ یا جائنٹ سٹاک کمپنیز ایکٹ کے تحت یا سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے پاس رجسٹرڈ ہیں اور اگر کوئی دینی مدرسہ اس رجسٹریشن کے بغیر ہے تو اس کی وجہ وہ دینی مدرسہ نہیں بلکہ خود حکومت ہے کہ اس نے گذشتہ کئی برسوں سے نئی سوسائٹی یا انجمن کی رجسٹریشن پرپابندی عائد کررکھی تھی۔ اس رجسٹریشن کے بعد کسی نئی رجسٹریشن کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔
مدرسہ ایجوکیشن بورڈ دینی تعلیم کے لئے قائم کیا جانے والا ایک تعلیمی بورڈ ہے۔ اس بورڈ نے ابھی پوری طرح اپنے سفر کا آغاز بھی نہیں کیا۔ ابھی خود بورڈ کے لئے بھی بجٹ اور گرانٹ مختص نہیں کی گئی۔ بورڈ کے تحت مجوزہ ماڈل دینی مدارس بھی قائم نہیں ہوئے۔ بورڈ کے قواعد و ضوابط بھی پوری طرح وضع نہیں کئے گئے۔ بورڈ کے علاقائی دفاتر بھی قائم نہیں ہوئے۔ اسی طرح بورڈ کی اپنی کوئی کارکردگی بھی سامنے نہیں آئی۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ جس بورڈ نے ابھی خود پوری طرح کام کرنا شروع نہیں کیا، اس کے ساتھ ملک بھر کے کم و بیش دس ہزار مدارس اور کم و بیش دس لاکھ طلبہ کو محض چھ ماہ کی مدت میں وابستہ ہونے کی لازمی شرط عائد کی جارہی ہے ۔
اور یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ لازمی رجسٹریشن کا ایسا قانون کسی دوسرے شعبے میںاس طرح موجود نہیں کہ جو رجسٹریشن نہیں کرائے گا، اسے بند کردیا جائے گا۔ پورے ملک میں ہزاروں سکول، کالج، ٹیوشن سنٹرز اوراکیڈمیاں موجود ہیں، ان پر کسی بورڈ یا یونیورسٹی سے لازمی رجسٹریشن کی پابندی عائد نہیں۔ یہ پابندی ان پر صرف اس وقت لازمی بنتی ہے کہ جب وہ کسی بورڈ یا یونیورسٹی کے تحت اپنے طلبہ کو ریگولر امتحانات دلوانا چاہتے ہیں۔ جبکہ دینی تعلیم کے امتحانات کے لئے ان کے اپنے بورڈ پہلے سے موجود ہیں۔ ان میں وفاق المدارس العربیہ، وفاق المدارس السلفیہ ،تنظیم المدارس، رابطۃ المدارس اور وفاق المدارس شیعہ، باقاعدہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن سے منظور شدہ ہیں۔ ان کو ڈگری جاری کرنے کے باقاعدہ اختیارات حاصل ہیں۔ ان کے ساتھ کم و بیش تمام مدارس وابستہ ہیں۔ ان وفاقوں کے تحت باقاعدہ امتحانات کا سلسلہ قریباً گذشتہ پندرہ بیس برس سے جاری ہے۔ ان کے امتحانات کانظام حکومتی تعلیمی بورڈوں کے لئے قابل رشک بھی ہے اور قابل تقلیدبھی!!
یہ تو ممکن ہے کہ جو مدارس مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا نصاب اپنانا اور ان کے تحت اپنے طلبہ کو امتحان دلانا چاہتے ہوں، ان پر مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ساتھ الحاق یا رجسٹریشن کی لازمی شرط رکھی جائے، لیکن تمام مدارس کو لازمی رجسٹریشن کا پابند بنانا غیرقانونی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ نیز یہ آئین پاکستان میں دیے گئے انجمن سازی کے بنیادی حق کے منافی بھی ہے۔
حکومتی مراعات کا لالچ
یہ بھی کہا گیا ہے کہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے تحت رجسٹر ہونے والے اداروں کو حکومت گرانٹ اور مراعات دے گی۔ حکومت یا نام نہاد سیکولر عناصر کوسرے سے خبر ہی نہیں کہ یہ مدارس کتنی بڑی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس ملک کی سب سے بڑی این جی او ہیں کہ جو صدیوں سے لاکھوں طلبہ کو نہ صرف زیورِ علم سے مزین کررہے ہیں بلکہ ان کو قیام و طعام کی سہولتیں بھی فراہم کررہے ہیں۔ یہ کروڑوں کا نہیں، اربوں کا معاملہ ہے جو سراسر اعتماد، دینی جذبے اور احساسِ جوابدہی کی بنیادوں پر چل رہا ہے۔
اگر دینی مدارس میں زیرتعلیم طلبہ کی تعداد پانچ لاکھ شمار کی جائے اور ان کے قیام و طعام اور تدریس پر ماہانہ ایک ہزار روپے (بہت ہی کم) اور سالانہ بارہ ہزار روپے شمار کئے جائیں تو یہ چھ ارب روپے بنتے ہیں۔ تعمیرات، اساتذہ کی تنخواہیں، یوٹیلٹی بلز وغیرہ شامل کئے جائیں تو یہ رقم بارہ ارب روپے سالانہ بنتی ہے۔ ہماری وہ حکومت جو پورے ملک میں تعلیم کی مد پر صرف ۷ ارب ۶۷کروڑ روپے خرچ کررہی ہے، وہ ان دینی مدارس کو کتنی گرانٹ جاری کرسکتی ہے او رکیا مراعات دے سکتی ہے؟
یہ اہل خیر ہی ہیں کہ جو ان مدارس کی کفالت کررہے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ اہل خیر، اہل مدارس سے مطمئن ہیں تب ہی ان کے سپرد اپنی امانتیں کردیتے ہیں!!
حسابات آڈٹ کرانے کی پابندی
حسابات رکھنے اور انہیں آڈٹ کرانے کی پابندی بالکل ایک درست اور اخلاقی پابندی ہے۔ جس سے کوئی ادارہ بھی انکار نہیں کرے گا بلکہ بیشتر ادارے پہلے ہی اپنے حسابات آڈٹ کراتے ہیں، تاہم خدشہ یہ ہے کہ حکومتی ادارے معاونین کی فہرستیں بھی طلب کریں گے اور اب معاونین پر بھی منفی دباؤ ڈالیں گے اور یہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ حکومتی اداروں کی مداخلت کی و جہ سے معاونین دینی مدارس کی معاونت سے ہاتھ کھینچ لیں گے اور اس طرح صدیوں سے چلنے والا یہ نظام متاثر ہوگا جبکہ غیر ملکی استعمار بھی تمام تر کوشش کے باوجود مداخلت کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا تھا۔
غیر ملکی گرانٹ پر پابندی
سینکڑوں این جی اوز جنہیں سرکاری افسران او ران کی بیگمات و دیگر مغرب زدہ خواتین چلا رہی ہیں جن کو یورپ و امریکہ کی یہودی تنظیمیں بھاری گرانٹ دیتی ہیں۔ جن تنظیموں کے ظاہری روپ او رباطنی مقاصد میں زمین آسمان کا فرق ہے اور جنہیں ہمارے پسماندہ علاقوں اور ان کی خواتین سے ہمدردی نہیں بلکہ ان کے اپنے مقاصد اور اہداف ہیں اورجن این جی اوز کی آڑ میں ملک دشمنی و جاسوسی کے کتنے ہی پروجیکٹ پروان چڑھ رہے ہیں، ان این جی اوز کی گرانٹ لینے پر کوئی پابندی نہیں۔ وہ کروڑوں ڈالرز کی غیر ملکی گرانٹ لیتی ہیں۔ ان پر حسابات آڈٹ کرانے کی بھی کوئی پابندی نہیں جبکہ دینی مدارس کی غیر ملکی گرانٹ پر بلا جواز اور بلا تحقیق پابندی عائد کی جارہی ہے۔
ظاہر ہے کہ ان دینی مدارس کو یورپ و امریکہ کی کوئی این جی اوز تو گرانٹ نہیں دے سکتی۔ اگر چند مدارس کی مدد ہورہی ہے تو وہ یا تو بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کررہے ہیں یا اسلامی ممالک کے سرکاری و نیم سرکاری ادارے، مثلاً خلیجی ممالک کی وزارتِ اوقاف ومذہبی اُمور، رابطہ عالم اسلامی،مکہ مکرمہ وغیرہ۔
ایسے ادارے دنیا بھر میں غریب مسلمان ممالک میں تعلیمی اداروں اور مساجد کی مدد کررہے ہیں۔ یہ خفیہ نہیں، اعلانیہ امداد ہے جو حکومت کے مکمل طور پر علم میں ہے۔ بینکوں کے ذریعے رقوم منتقل ہوتی ہیں۔ سٹیٹ بینک کے علم میں رہتی ہیں۔ اس تعاون کے مقاصد خالص علمی و اسلامی ہیں۔ آخر حکومت ِپاکستان کس جواز کے تحت اس گرانٹ پر پابندی عائد کرسکتی ہے؟ ہاں اگر کوئی گرانٹ خفیہ ہے تو اسے بے نقاب کیا جائے۔ کوئی گرانٹ تخریب کاری کے مقاصد کے لئے دی جارہی ہو تو اس پر کڑی گرفت کی جائے۔ دینے اور لینے والوں کے نام سامنے لائے جائیں، لیکن محض اغیار کے دباؤ کے تحت، یہودی عناصر کے مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے ہی مسلمان ممالک او راداروں کے ذریعے اپنے ہی ملک میں دینی اداروں اور غریب طلبہ کی کفالت کے نظام اور زرِمبادلہ کے حصول کے سلسلہ کو بند کرنا ہر لحاظ سے بلا جواز، غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر منصفانہ اور غیر آئینی ہے۔
نصاب میں ترمیم و اضافہ
اکثر دینی مدارس کے نصاب میں انگریزی، حساب، سائنس و کمپیوٹر کے مضامین پہلے ہی شامل ہیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم کی ہم آہنگی کا پہلا اور اہم قدم تو یہ ہے کہ حکومت سکولوں اور کالجوں میں دینی تعلیم کو لازمی قرار دے۔ ہر سطح پر قرآن و سنت کی تعلیم دی جائے۔ جب حکومت یہ کام کرے گی تو پھر اسے دینی مدارس میں بھی دنیاوی علوم کو شامل کرانے کا حق پہنچے گا۔
٭٭٭٭٭