سُودکا مقدّمہ نیا رُخ یا واپسی؟
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایامِ گذشتہ کا منظرنامہ دیکھئے تو 'وطن عزیز کی آئینی تاریخ' اور 'حرمت ِسود' کا مسئلہ روزِ اوّل ہی سے پہلو بہ پہلو سفر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے پہلا آئین ۱۹۵۶ء میں نافذ ہوا اور دوسرا ۱۹۶۲ء میں تشکیل دیا گیا۔ ان دونوں دساتیر میں صاف اور غیر مبہم طور پر یہ بات درج تھی کہ حکومت، پاکستان کے نظامِ معیشت سے سود کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے بھرپور مساعی کرے گی۔ اس کے بعد ۱۹۷۳ء کا آئین عالم وجود میں آیا جو اَب تک متفقہ طور پر قوتِ نافذہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس آئین کے آرٹیکل۳۸ کی ذیلی دفعہ (F) میںاس مسئلہ کو ان الفاظ میں اُجاگر کیا گیا ہے :
''حکومت جس قدر جلد ممکن ہو سکا ربٰوکو ختم کرے گی۔''
۱۹۶۲ء میں تشکیل آئین کے علاوہ قومی سطح پر 'اسلامی نظریاتی کونسل' کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔ جس میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے مستند علمائِ کرام کو نمائندگی دی گئی اور اس ادارے میں ایسی تجاویز مرتب کرنے کی درخواست کی گئی جن پر عمل کرکے پاکستان کی عمومی زندگی کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جاسکے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ۶۶-۱۹۶۴ء کے دوران سود کے معاملے کا جائزہ لیا اور قرار دیا کہ سودی معیشت اسلام میں ممنوع ہے اور موجودہ بنکنگ نظام بھی چونکہ سودی بنیادوں پر استوار ہے، اس لئے بنکوں کا لین دین ہی غیر اسلامی ہے۔ ۳؍ دسمبر ۱۹۶۹ء کو اپنی رپورٹ میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اتفاقِ رائے سے ایک بار پھر اس امر کا اظہار کیا کہ
ربوٰ اپنی ہر صورت میں حرام ہے اور شرحِ سود کی کمی بیشی، سود کی حرمت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ موجودہ بنکاری نظام کے تحت افراد، اداروں اور حکومتوں کے درمیان قرضہ جات اور کاروباری لین دین میں اصل رقم پر جو بڑھوتری لی یا دی جاتی ہے، وہ ربوٰ کی تعریف میں آتی ہے۔ سیونگ سر ٹیفکیٹ پر جو سود دیا جاتا ہے، وہ بھی ربوٰ میں شامل ہے۔ پراویڈنٹ فنڈ اور پوسٹل بیمہ زندگی وغیرہ میں جو سود دیا جاتا ہے، وہ بھی ربوٰ میں شامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبوں ، مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیے گئے قرضوں پر بڑھوتری بھی سود ہی کی ایک قسم ہے۔ لہٰذا یہ تمام صورتیں حرام اور ممنوع ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی مذکورہ بالا رپورٹ کے آٹھ سال بعد ستمبر ۱۹۷۷ء میں صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے کونسل سے رجوع کیا اور کہا کہ کونسل ایسے طریقے بھی تجویز کرے جن کواپناکر سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جاسکے۔ جس پر اسلامی نظریاتی کونسل نے بنک ماہرین، اقتصادیات کے ماہرین اور علما سے طویل مباحث اور عالمی سطح پر اس مسئلے کی پیچیدگیوں کے گہرے مطالعے کے بعد اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دی اور ۲۵؍ جون ۱۹۸۰ء کو یہ رپورٹ صدرِ پاکستان کے سامنے پیش کردی۔ اس رپورٹ میں سود کوختم کرکے اس کے متبادل نظام کی تفصیلات درج تھیں اور کہا گیا تھا کہ ان تجاویز پر عمل درآمد سے دوسال کے اندر اندر پاکستان کی معیشت سود سے مکمل طور پر پاک ہوسکتی ہے۔
اس رپورٹ کے وصول ہونے پر صدر ضیاء الحق نے بین الاقوامی سطح کے ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ جس کا عنوان تھا 'اسلام کا اقتصادی نظام' ... اس سیمینار کے شرکا نے اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کو نہ صرف سراہا بلکہ اسے دیگر اسلامی ممالک کے لئے بھی مشعل راہ قرار دیا۔ اس رپورٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کنگعبدالعزیز یونیورسٹی، جدہ نے اس کا عربی زبان میں ترجمہ کرکے اپنی حکومت اور عوام کے استفادہ کے لئے شائع کیا۔ لیکن افسوس کہ اس رپورٹ پرافسر شاہی نے پوری طرح سے عمل نہ کیا۔ بنک کھاتوں کو نفع نقصان کی بنیاد پر ازسر نو ترتیب دیا گیا اور اقتصادی نظام میں مشارکہ اور مضاربہ کی اصناف متعارف کروائی گئیں۔ لیکن یہ سب کچھ نیم دلانہ انداز اور بہت محدود پیمانے پر ہوا۔ نتیجہ یہ کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی ایک اور رپورٹ میں مندرجہ ذیل الفاظ میں اظہارِ افسوس کیا :
''کو نسل نے ۸۱؍۱۹۸۰ء میں کئے جانے والے ان اقدامات کاجائزہ لیا جو حکومت نے اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ کے سلسلے میں انجام دیئے ہیں۔ ان میں خاتمہ سود کے لئے کئے جانے والے اقدامات، ان سفارشات کے بالکل برعکس ہیں جو کونسل نے تجویز کئے تھے ... حکومت نے وہ طریقہ اختیار کیا جو مقصد کو فوت کرنے کا سبب بن گیا۔''
کونسل کی مذکورہ بالا رائے اور انتباہ حکومت کے 'مردانِ ناداں' پر کلامِ نرم و نازک کی طرح بے اثر ثابت ہوا۔ ان حالات میں ۱۹۹۰ء کے دوران پاکستان کے ایک شہری محمو د الرحمن فیصل نے وفاقی شرعی عدالت میں پٹیشن نمبر 30/I داخل کی۔ اور استدعا کی کہ عدالت رائج الوقت سودی نظامِ معیشت کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردے اور حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ پاکستان کے معاشی نظام سے سود کا چلن ختم کردے۔ عدالت نے سود کے کیس کی سماعت شروع کی تو بہت سے دوسرے ادارے، اشخاص، قانون دان اور خود حکومت اس طرف متوجہ ہوئی اور عدالت کے پاس سودی مسئلہ پر کل ملا کر ۱۱۵ مقدمات جمع ہوگئے۔ وفاقی شرعی عدالت نے ان سب مقدمات کی مشترکہ سماعت کی اور اکتوبر ۱۹۹۱ء میں ۱۵۷ صفحات پر مشتمل اپنا تاریخی فیصلہ سنایا۔ وفاقی شرعی عدالت چیف جسٹس تنزیل الرحمن،جسٹس فدا محمد خان اور جسٹس عبیداللہ خان پر مشتمل تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں نہ صرف یہ کہ سود کی تعریف متعین کی بلکہ ملک میں رائج تمام قوانین کا جائزہ لے کر بنکاری سمیت تمام سودی لین دین کو حرام قرار دے دیا اور حکومت اور تمام صوبوں سے کہا کہ وہ ۳۰؍ جون ۱۹۹۲ء تک متعلقہ قوانین میںتبدیلی کرلے۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ یکم جولائی ۱۹۹۲ء سے تمام سودی کاروبار غیر اسلامی ہونے کے ناطے ممنوع قرار پاجائے گا۔
وفاقی شرعی عدالت کے مذکورہ فیصلے کو عوامی سطح پر زبردست پذیرائی ملی لیکن بنکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ حکومت کو فکر لاحق ہوگئی کہ اگر سودی نظام ممنوع قرار پاگیاتو بین الاقوامی سطح پر قرضوں کے حصول میں مشکلات پیدا ہوجائیں گی اور عالمی منظر میں تجارتی سرگرمیوں پراثر پڑے گا۔ نتیجہ یہ کہ جون ۱۹۹۲ء کے آتے آتے مالیاتی اداروں اور بنکوں کی جانب سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف شریعت اپلیٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ۱۱۸ کے لگ بھگ اپیلیں دائر کردی گئیں۔
شریعت اپلیٹ بنچ نے ان اپیلوں کی کئی ماہ تک مسلسل سماعت کی۔ اس فاضل بنچ میں مسٹر جسٹس خلیل الرحمن خان بطورِ چیئرمین شریک تھے۔ جبکہ مسٹر جسٹس وجیہ الدین احمد، مسٹر جسٹس منیر اے شیخ، مسٹر جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی اور مسٹر جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی بطورِ ممبر شامل تھے۔ مقدمے کی سماعت جولائی ۱۹۹۹ء میں اپنے انجام کو پہنچی۔ معزز عدالت نے اس دوران مقدمہ میں زیر بحث آنے والے اہم فقہی مسائل اور سوالات پر رہنمائی حاصل کرنے کے لئے فریقین کے وکلا حضرات کے علاوہ بینکنگ کے ماہرین، معاشیات کا درک رکھنے والے سکالرز اور علمائِ کرام سے اپیل کی کہ وہ عدالت کی معاونت کریں۔ عدالت نے از خود بھی اسلامی بنکاری سے متعلق ایک درجن سے زیادہ قانون دانوں، معاشی ماہرین، محققین اور علما سے رابطہ کیا جن میں ڈاکٹر وقار مسعود، ڈاکٹر ارشد زمان، عمر چھاپرا، پروفیسر خورشیداحمد، مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی، عبدالجبار خان، خالد ایم اسحق، ابراہیم سادات، ڈاکٹر نواب حیدر نقوی، سید طاہر، مولانا گوہر رحمن، ایس ایم احسن،خالد مجید، صبغت اللہ، ڈاکٹر ضیاء الدین احمد اور ایس ایم ظفر جیسے ممتاز ماہرین شامل تھے۔
اس موقع پر فاضل عدالت نے اپنے وکلا اور سکالرز کی سہولت کے لئے کم از کم ۱۰ سوالات بھی مرتب کئے جو زیر سماعت ۱۱۸؍ اپیلوں میں اُٹھائے گئے نکات میں سے اخذ کئے گئے تھے۔ ان سوالات کے سرسری مطالعے سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی تھی کہ ان کے جوابات ہی دراصل سود سے متعلق اس اہم مقدمے میں بنیادی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس مقدمے کی سماعت اور بحث کے دوران عدالت کے سامنے فریقین کی طرف سے ۵۰۰ سے زائد کتب کے حوالہ جات پیش کئے گئے۔
جدید اور قدیم معاشی کتب و جرائد کے بے بہا ذخیرے میں سے اہم اقتباسات کی نقول عدالت کے ریکارڈ پر لائی گئیں اور ڈیڑھ ہزار سال میں لکھی جانے ولی قرآنی تفاسیر اور فقہی آرا کے ہزاروں صفحات پر مشتمل سود سے متعلق مباحث کو عدالت کے علم میں لایا گیا۔ قرآنِ مجید کے حوالوں کے علاوہ تقریباً دو ہزار احادیث بھی سند کے طور پر پیش کی گئیں۔ اس سارے مواد کی چھان پھٹک، عمیق مطالعے اور علماء ووکلا کی بحث سماعت کرنے کے بعد شریعت اپلیٹ بنچ نے وفاتی شرعی عدالت کے فیصلے کو عمومی طور پر درست قرار دیتے ہوئے جدید بنکاری سمیت تمام دیگر سودی قوانین کو اسلام کی روشنی میں ممنوع اور حرام قرار دے دیا اور حکومت کو مزید مہلت دیتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ وہ جون ۲۰۰۱ء تک تمام غیر اسلامی قوانین کو تبدیل کرکے سود سے پاک کردے۔ جون ۲۰۰۱ء سے قبل حکومت نے دوبارہ ایک درخواست شریعت بنچ کے سامنے دائر کی اور سودی نظام کو ختم کرنے کے لئے مزید دو سال کی مہلت طلب کی۔ عدالت نے درخواست کی سماعت کے بعد حکومت کی استدعا منظور کرتے ہوئے دو سال کے بجائے ایک سال کی مہلت دے دی اور ہدایت کی کہ جون ۲۰۰۲ء تک تمام قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے اور سود کو ختم کرنے کے اقدامات مکمل کرلئے جائیں۔
انصاف اور ایمان داری کا تقاضا تو یہی تھا کہ حکومت کی اپنی استدعا پر حاصل ہونے والی مہلت میں خلوصِ نیت سے سودی قوانین کی تبدیلی کا کام مکمل کیا جاتا۔ لیکن عملاً کوئی نظر آنے والی پیش رفت نہ کی گئی بلکہ حسب ِمعمول سود کی بنیاد پر نئی اسکیمیں اور نئے قرضے حاصل کئے جاتے رہے اور جب عدالت کی دی ہوئی مہلت ختم ہونے کو آئی تو یونائٹیڈ بنک آف پاکستان نے (جو حکومت کے زیر انتظام چلنے والا بنک ہے) ایک نظرثانی کی درخواست عدالت میں داخل کردی جس میں کہا گیا کہ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپلیٹ بنچ کے فیصلوں میںبہت سے قانونی نقائص رہ گئے ہیں اور یہ کہ عدالت کے سامنے پیش ہونے والے مواد کو درست طور پر پڑھا اور صحیح طور پر سمجھا نہیں گیا ہے، اس لئے اس فیصلے پر نظرثانی کی جانی چاہئے۔ عین انہی ایام میں ایک اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ شریعت اپلیٹ بنچ کے فاضل رکن جسٹس محمد تقی عثمانی کو ...جوسود سے متعلق اپیل کا فیصلہ لکھنے والے ججوں میں شامل تھے... بغیر کوئی وجہ بتائے اپلیٹ بنچ سے فارغ کردیا گیا اور بنچ میں جناب ڈاکٹر خالد محمود اور جناب رشید احمدجالندھری کو علما ججوں کی حیثیت سے شامل کرلیا گیا۔ اس طرح نظرثانی کی درخواست کی سماعت جس بنچ نے کی، ان میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس شیخ ریاض احمد، جسٹس منیر اے شیخ، جسٹس قاضی محمد فاروق، جسٹس ڈاکٹر خالد محمود اور جسٹس ڈاکٹر رشید احمد جالندھری شامل تھے۔
1۔نظرثانی کی اس درخواست پر سب سے پہلے یونائٹیڈ بنک کے وکیل راجہ محمد اکرم نے ۱۲؍ جون ۲۰۰۲ء کو بحث کا آغاز کیا۔ راجہ اکرم نے موقف اختیار کیا کہ قرآنِ کریم میں 'بیع' سے مراد تجارت، سرمایہ کاری، کاروبار اور سوداکاری ہے۔ بیع سے مراد 'صرف' نہیں ہے جیساکہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے استدلال کیا کہ قرآنِ کریم نے ربوٰ کو حرام قرار دیا ہے لیکن 'بیع'کو جائز کہہ کر اس کی اجازت دی گئی ہے۔ اور جدید بینکنگ کا نظام بیع کے وسیع مفہوم پر پورا اُترتا ہے۔ اس لئے بنکاری کے ذریعے لین دین کو ، ربوٰ قرار دے کر ممنوع کردینا درست نہیں ہے۔
راجہ محمد اکرم نے کہا کہ 'مشارکہ' کی اصطلاح حصہ داری (پارٹنر شپ) کا مفہوم ادا کرتی ہے۔ اس لئے قرض کی وہ رقم جو کاروبار میں لگائی گئی ہو، اس پرمنافع لینا بھی بیع کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح فکسڈ ڈیپازٹ پرمنافع حاصل کرنا بھی بیع ہی کی تعریف میں آئے گا کیونکہ فکسڈ ڈیپازٹ کی رقم بھی کاروبار میں لگائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے کاروباروں کی طرح بنک اور مالیاتی ادارے نفع کے ساتھ ساتھ نقصان میں بھی جاتے رہے ہیں اور وہ دیوالیہ بھی ہوجاتے ہیں لہٰذا دونوں صورتیں پیش آتی رہتی ہیں جوکہ اسلام کے جائز اصولِ تجارت کے عین مطابق ہے۔
راجہ محمد اکرم نے کچھ قرآنی آیات کی تفسیربھی پیش کی۔ انہوں نے آیت ۳:۱۳۰ ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلُوا الرِّبوٰا۟ أَضعـٰفًا مُضـٰعَفَةً...١٣٠﴾... سورة البقرة"کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس آیت میں سود سے متعلق أضعافا مضاعفۃکے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور لوگوں کو دوگنا چوگنا سود وصول کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اگر سود کی رقم دوگنی چوگنی رفتار سے بڑھتی نہیں ہے تو ایسے سود کی اسلام میں اجازت ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کے نزدیک سود کی ظالمانہ شرح ہی ناجائز ہے۔ راجہ محمد اکرم نے یہ بھی موقف اختیار کیا کہ سود کے متعلق ہدایات دراصل قانونی درجہ نہیں رکھتیں بلکہ اخلاقی درجہ میں ہیں۔ اس لئے سود کی حرمت کو پاکستان کے عوام پر بذریعہ قانون نافذ کرنا قرین انصاف نہیں ہے۔
2۔ حکومت ِپاکستان کے وکیل رضا کاظم نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ حکومت یونائٹیڈ بنک کی درخواست اور معروضات سے پوری طرح اتفاق کرتی ہے۔ شریعت اپلیٹ بنچ اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد ناممکن ہے اور اگر ایسا کیا گیا تو ملک میں انارکی پھیل سکتی ہے۔ حکومت دسمبر ۱۹۹۹ء سے ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ سود سے پاک نظام قائم کرے مگر اس میں کامیابی نہیں ہو پا رہی۔ اگر ایک متوازی نظام قائم کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اسے موجودہ نظام کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے۔ رضا کاظم نے عدالت کے اختیارِ سماعت سے متعلق آئینی نکات بھی اٹھائے اور موقف اختیا رکیا کہ وفاقی شرعی عدالت کو آئین کے باب '۳' کے تحت سود سے متعلق معاملے کو سماعت ہی نہیںکرنا چاہئے تھا۔ آئین میں ربوٰ کے خاتمے کے لئے الگ سے شق موجودہے اور اس معاملے کو طے کرنے کے لئے اقدامات کرنے کو بھی کہا گیا ہے۔ پھر اس نکتے کودوبارہ اٹھانے یا الگ سے انتظامات کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور نہ ہی معاملہ عدالت کے دائرئہ اختیار میں باقی رہتا ہے۔ یہی ملک، قوم اور عدلیہ کے بہتر مفاد میں ہے۔
رضا کاظم نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل ۳۸ کے تحت مشروط طور پر ربوٰ کی اجازت دی گئی ہے جبکہ زیر بحث فیصلے میںاس آرٹیکل کونظر انداز کیا گیا ہے۔ دراصل وفاقی شرعی عدالت کو آئین میں طے شدہ معاملات یا آئین سے متصادم کسی معاملے کی سماعت کا اختیار ہی حاصل نہیں ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے سے سنگین نتائج برآمد ہونے کا خدشہ ہے، اس لئے فاضل عدالت ملک کو تباہی سے بچائے۔ اگر رائج الوقت سودی نظام بند کردیا گیا تو ملک کا معاشی ڈھانچہ منہدم ہوجائے گا جس کا لازمی نتیجہ پاکستان کی تباہی کی صورت میں سامنے آئے گا۔
رضا کاظم ایڈووکیٹ نے شریعت اپلیٹ بنچ کے فیصلے پرنکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو آرٹیکل ۲۰۳ ڈی، کے تحت صرف اس قدر اختیارات حاصل ہیں کہ وہ کسی موجود قانون کے قرآن و سنت کے خلاف ہونے یا نہ ہونے سے متعلق فیصلہ کرے لیکن فاضل بنچ نے سود کو حرام قرار دینے کے ساتھ ساتھ حکومت اور متعلقہ اداروں کو اپنے فیصلہ پر عمل درآمد کے لئے ہدایات جاری کردیں، جس کا اختیار فاضل عدالت کو حاصل نہیںتھا۔ اس طرح شریعت اپلیٹ بنچ کا فیصلہ اپنی قانونی حدود سے باہر سفر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ غیر قانونی پہلو بھی فیصلے پر نظرثانی کا متقاضی ہے۔
رضا کاظم نے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ بنکوں میں جمع رقوم کا ساٹھفیصدی غریب عوام کی جمع پونجی پر مشتمل ہے جو اِن رقوم پرحاصل ہونے والے منافع سے اپنی ماہانہ گزر اوقات کرتے اور اخراجات چلاتے ہیں۔ اگر اس سسٹم کو تبدیل کردیا گیا اور غریب عوام کو اپنی رقم ڈوبنے کے تذبذب میں ڈال دیا گیا تو قومی معیشت میں زَر کی آمد بالکل رُک جائے گی لہٰذا ملک ایک عظیم مالی بحران سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے بھی شریعت اپلیٹ بنچ کے فیصلے پر نظرثانی کا جواز موجود ہے۔
کاظم رضا ایڈووکیٹ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ حکومت نے غیر سودی نظام نافذ کرنے کے سلسلے میں رہنمائی کے لئے ۵۳ اسلامی ممالک سے رابطہ کیا اور ایران اور سوڈان کے بینکنگ سسٹم کا جائزہ لیا لیکن تمام ممالک نے بلا تخصیص یہی مشورہ دیا کہ سود سے پاک بینکنگ نظام کا قیام ناقابل عمل ہے بلکہ یہ کہ یہ معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا، اس طرح ہم بین الاقوامی برادری سے کٹ جائیں گے اور ہمارا زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔ اس مرحلے پر اپنی بحث کو سمیٹتے ہوئے رضا کاظم ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس مسئلے کے کچھ مزید پہلوؤں پر میرے ساتھی وکیل ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی بھی عدالت کے سامنے اپنی معروضات پیش کریں گے۔
3۔ ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی نے اپنے دلائل کا آغاز سنسنی خیز، ڈرامائی انداز میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ سود کے کیس میں فیصلے کرتے ہوئے سابقہ بنچ نے قرآن اور سنت کے متعدد احکامات سے انحراف کیاہے ۔ زیر بحث فیصلے میں امام ابوحنیفہؒ، ائمہ کرامؒ اور فقہاؒ کے نظریات کومسخ کرکے قرآن و سنت کے واضح احکامات سے روگردانی کی گئی ہے۔ جبکہ بہت سے مکاتب ِفکر کے علما کی رائے کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیربحث فیصلے میں پاکستان کے سب شہریوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا گیا ہے۔ مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں کی گئی۔
ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی نے اپنی طویل بحث کے دوران شریعت اپلیٹ بنچ کے فیصلے پرجو اعتراضات اٹھائے ان کا خلاصہ حسب ِذیل ہے:
1) متنازعہ فیصلے میں سود سے متعلق قانونی اور اخلاقی پہلوؤں کو گڈ مڈ کردیا گیا ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کی الگ الگ تشخیص میں ناکامی کے باعث پورا فیصلہ قرآنِ حکیم کے بتائے ہوئے اسلامی اصولوں، رسول اکرم ﷺ کی سنت، امام ابوحنیفہؒ اور دیگر فقہا کی رائے سے متصادم ہوتا چلا گیا ہے۔
2) ربوٰ کی مکروہ اقسام کو حکومتی اداروں کے ذریعے نافذ العمل کرنا سنت ِرسول ﷺ کے خلاف ہے۔
3) مکروہ اور حرام ربوٰ کو سود کی تعریف میں یکجا کردیا گیا ہے جوعدالت کے اختیار میں نہیںہے۔
4) عدالت نے ربوٰ کی تعریف متعین کرتے ہوئے جو طریقہ اپنایا ہے، وہ تفسیر کے اُصولوں کے خلاف ہے۔ صحابہؓ اور تابعین کی بہت سی روایات کو سود کی تعریف متعین کرتے ہوئے نظر انداز کردیا گیا ہے۔
5) سود کا فیصلہ دیتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت نے جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ کیونکہ مسٹر جسٹس تنزیل الرحمن نے بطورِ جج وفاقی شرعی عدالت سود کو حرام قرار دیتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک رپورٹ پر بھی انحصار کیا ہے۔ یہ رپورٹ خود ان کی زیر نگرانی تیار ہوئی تھی۔ کیونکہ جب یہ رپورٹ مرتب ہوئی، ڈاکٹر تنزیل الرحمن خود اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے۔ شریعت اپلیٹ بنچ نے بھی اپنے فیصلے میں اس رپورٹ پر انحصار کیا ہے۔ اس طرح فیصلے کے آداب و مقاصد کی نفی کا ارتکاب کیا گیا ۔
6) شریعت اپلیٹ بنچ نے فیصلہ کرتے ہوئے صرف ایک مخصوص نقطہ نظر کے ماہرین اور سکالرز کی آرا کو اہمیت دی ہے۔ ان میں زیادہ تر وہی ہیں جن کا حوالہ جسٹس تنزیل الرحمن نے اپنے فیصلے میں دیاتھا۔ لیکن شیخ محمد عبدہ، شیخ راشد رضا، عبدالرزاق سنہوری، محمود شلتوت سابق شیخ الازہر قاہرہ اور موجودہ شیخ الازہر ڈاکٹر محمد سعید طنطاوی جیسے ممتاز فقہا کی آرا کو اہمیت نہیں دی گئی۔
7) شریعت اپلیٹ بنچ نے اپنے فیصلے میں سود کو ختم کرنے کا جو متبادل اقتصادی نظام تجویز کیا ہے، وہ ناقابل عمل ہے اور حکومت کے مطابق اس میں اتنی صلاحیت نہیں کہ اسے نافذ کیا جاسکے۔
8) وفاقی شرعی عدالت نے ربوٰ الفضل کے سوال اور اس کے نفاذ کے معاملہ کو ویسے ہی چھوڑ دیا اور اس کے اثرات کو نظر انداز کردیا تھا۔ شریعت اپلیٹ بنچ بھی اس امر کا نوٹس لینے میں ناکام رہی ہے۔
9) شریعت اپلیٹ بنچ نے قرض کے معاہدات پر مال کی واپسی کے وقت بڑھوتری کو سود قرار دیا ہے جبکہ امام رازی کی مشہور تفسیر الکبیر میںدرج ہے کہ ربوٰ کا معنی بڑھوتری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر طرح کی بڑھوتری کی وصولی ربوٰ کے زمرے میں آتی ہے یعنیغیر قانونی ہے۔
10) جس ربوٰ کو اسلام میں ممنوع قراردیا گیا ہے، وہ قرض کے وہ معاہدات ہیں جنہیں عربی میں ربوٰ النسیئہ کہا جاتا ہے۔ ان معاہدات میںقرض کی رقم بروقت ادا نہ کرنے پر بڑھوتری طے کی جاتی تھی ۔
11) شریعت اپلیٹ بنچ نے وفاقی شرعی عدالت کے برعکس ربوٰ الفضل پرنہ صرف بحث کی ہے بلکہ اس کی ۳ مختلف اقسام بھی گنوائی ہیں اور قرار دیا ہے کہ ربوٰ القرآن اور ربوٰ الفضل کی پہلی قسم موجودہ اور جدید تجارت کے اُصولوں کے نزدیک تر ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے چونکہ اس ایشو پر کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا، ا س لئے شریعت اپلیٹ بنچ کا اس ضمن میں دیا گیا فیصلہ ضابطہ کے خلاف ہے۔
12) تمام رائج الوقت اسلامی بینکنگ سسٹم اس بات پر متفق ہیں کہ شریعت اپلیٹ بنچ کا فیصلہ Misnomer (نام کی غلطی) ہے اور مشارکہ کے علاوہ جو بھی معاشی طریقے اس میں تجویز کئے گئے ہیں، وہ ماسوائے حیلہ کاری کے، اور کچھ نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ اگر ان طریقوں پرعمل کیا جائے تو اس سے سرمایہ لگانے والے فریق پر دباؤ زیادہ بڑھ جائے گا۔ یعنی اس میں 'ظلم' کا عنصر بھی شامل ہوجائے گا لہٰذا موجودہ سودی نظام سے بھی بدتر صورتِ حال پیدا ہوجائے گی۔
13) شریعت اپلیٹ بنچ اس امر کا ادراک کرنے میں بھی ناکام رہا کہ وہ جو متبادل اقتصادی نظام تجویز کر رہا ہے، اس پر اتفاقِ رائے نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض ممتاز فقہا مثلا عبداللہ بن عمرؓ اور عبداللہ بن عباسؓ اس کے سختی سے مخالف ہیں۔
14) عدالت لفظ 'قرض'کی درست تشریح کرنے میں ناکام رہی ہے اور صرف اس وجہ سے بھی پورے متنازعہ فیصلے کا رنگ شریعت کے خلاف ہوگیا ہے۔ انگریزی زبان کا لفظ 'Loan' وہ معنی نہیں رکھتا جو لفظ 'قرض' سے مراد لئے جاتے ہیں۔
15) عدالت نے متبادل اقتصادی نظام تجویز کرتے ہوئے جعفریہ مکتب ِفکر بالخصوص محمد باقر الصدر جیسے فقہ جعفریہ کے سکالر کے نظریات کونظر انداز کردیا ہے۔ اور بہت سے دیگر فقہا مثلا عبدالوہاب خلاف (Khallaf) اور ڈاکٹر معروف الدوالیبی کے نظریات کو پڑھنے اور سمجھنے میں غلطی کی ہے۔
16) سود کی ممانعت کے اسلامی قانون کو غیر مسلموں پر بھی لاگو کردیا گیا ہے جو کہ بذاتِ خود قرآن اور سنت کے خلاف ہے۔ اسی طرح فقہ جعفریہ کو بھی پامال کیا گیا ہے۔ سود کا نفاذ اگر جائز بھی قرار دیا جائے تو صرف پرسنل لاء کی حد تک تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
17) فیصلے میں انڈیکسیشن کو قرآنِ حکیم یا سنت ِرسول سے کوئی حوالہ دیے بغیر غیراسلامی قرار دے دیا گیا ہے اور اس امر پر فیصلہ کرتے ہوئے سید محمد باقر الصدر، اعلیٰ حضرت احمدرضا خان بریلوی، شیخ الازہر ڈاکٹر سید طنطاوی کی آرا کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
18) 'ظلم' کا عنصر سود کے معاملے میں، ایک ضروری 'علت' ہے۔ فیصلے میںغلط طور پر قرار دیا گیا ہے کہ 'ظلم' سود کے معاملے میں 'علت' نہیں بلکہ 'حکمت' ہے۔ اس طرح براہِ راست قرآنِ حکیم کے علاوہ امام ابن رشد اور مولانا اشرف علی تھانوی کی فقہی آرا کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
19) صرف پہلے سے طے شدہ شرح منافع کی بنیاد پر کسی لین دین کو سود کے زمرے میں داخل نہیںکیا جاسکتا۔ 'ہدایہ' میں درج ہے اور مولانا اشرف علی تھانوی کی رائے بھی یہی ہے کہ پہلے سے طے شدہ منافع، کاروبار میں مضاربہ کی ایک خاصیت ہے۔ فیصلے میںکارپوریٹ بزنس کے حوالے سے اس نقطہ نظر کا نوٹس نہیں لیا گیا۔
20) وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپلیٹ بنچ کے فیصلوں میں بہت سی دیگر خرابیاں اور کمیاں ہیں اور ایسے بہت سے سوالات جن کا سود کی حرمت کے معاملے اور فیصلے پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے، ان پر بحث نہیں کی گئی ہے۔ ریاض الحسن گیلانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ خود انہوں نے عدالت کے سامنے ۳۳ سوالات رکھے تھے جن پر شریعت اپلیٹ بنچ نے غور نہیںکیا۔
4۔ ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی کے بعد اٹارنی جنرل پاکستان مخدوم علی خان نے عدالت کے سامنے اپنی معروضات پیش کیں۔ انہوںنے سابقہ فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپلیٹ بنچ نے مقدما ت کی سماعت کرتے ہوئے آئین پاکستان کے آرٹیکل 81(c),38(f), 30(2), 29 اور 121(c) میں بیان کئے گئے ضوابط کے مطابق، نہ تو اپنے اختیارِ سماعت کاخیال رکھا اور نہ ہی یہ دیکھا کہ وفاقی شرعی عدالت یا شریعت اپلیٹ بنچ کے سامنے یہ مقدمات دائر بھی کئے جاسکتے تھے یا نہیں؟ آئین کے آرٹیکلز ۱۶۱ اور ۲۶۰ میں سود کا ذکر موجو دہے۔ لیکن نہ تو وفاقی شرعی عدالت نے اور نہ ہی شریعت اپلیٹ بنچ نے اس امر کا ادراک کیا کہ انہیں آئین کے بارے میں اختیارِ سماعت حاصل نہیںہے۔ شریعت اپلیٹ بنچ نے آئینی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بجائے 'کنسالی ڈیٹڈ فنڈ' (Consolidated Fund)کے چند ضوابط کو خلافِ اسلام قرار دینے پر اکتفا کیا۔اس کے ساتھ ہی حکومتی وکلا کے دلائل اختتام پذیر ہوئے۔
دوسری طرف سے سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ محمد اسمٰعیل قریشی نے بحث کا آغاز کیا۔ محمد اسماعیل قریشی نے سب سے پہلے اس مقدمے کی سماعت کرنے والے چیف جسٹس شیخ ریاض احمد اور دیگر ممبران پر مشتمل بنچ کی تشکیل پر اعتراض کرتے ہوئے نکتہ اٹھایا کہ یہ بنچ آئین کے ضوابط کے مطابق نہیں بنایا گیاہے۔ دوسرے یہ کہ ڈاکٹر خالد محمود اور جناب ڈاکٹر رشید جالندھری جو کہ بطورِ علما جج بنچ میں شامل کئے گئے ہیں، وہ بطورِ عالم دین، وہ مہارت نہیں رکھتے جو کہ اس عہدہ کے لئے درکار ہے۔ اس لئے عدالت کو نظرثانی کی درخواست سماعت کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
محمد اسماعیل قریشی نے کہا کہ نظرثانی کے معاملے میں عدالت کے اختیارات بہت محدود ہوتے ہیں اور جن قوانین، ضوابط اور حقائق کا جائزہ فیصلہ دینے والی عدالت عظمیٰ تفصیل سے لے چکی ہو، انہیں نظرثانی کے پردے میں دوبارہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ حکومت اور یونائٹیڈ بنک نے قرآن اور سنت سے حاصل کردہ جن حوالوں کو نظرثانی کی بنیاد بنایا ہے، ان سب پر تفصیل سے بحث، سماعت کرنے کے بعد ہی سابقہ فیصلے صادر کئے گئے تھے۔ اس لئے انہی سوالات اور نکات کو مکرر بنیاد بناکر پورے مقدمے اور ایشوز کی ازسر نو سماعت نہیں کی جاسکتی۔ اسماعیل قریشی نے موقف اختیار کیا کہ نظرثانی کے حامی وکلا نے جس طرح قرآن اور سنت کی تفسیر کرنے کی کوشش کی ہے، وہ تفسیر قرآن و حدیث کے اجتماعی طو پر تسلیم شدہ اصولوں پر پوری نہیں اُترتی۔ دراصل ان وکلا نے ۱۴۰۰ سال سے تسلسل کے ساتھ دی جانے والی علما اور فقہا کی اجماعی آرا کی نفی کرنے کے لئے، ان سے اختلاف کرنے والے محض دورِ جدید کے چند سکالرز کی شاذ رائے پراکتفا کیا ہے؛ جبکہ یہآرا اپنی ابتدا ہی سے متنازعہ چلی آرہی ہیں۔
محمد اسماعیل قریشی نے وضاحت کی کہ جس طرح فاضل وکیل ریا ض الحسن گیلانی نے ربوٰ کو مکروہ قرار دے کر حرام اور ممنوع کے دائرے سے نکالنے کی کوشش کی ہے، وہ اسلامی اصول فقہ کی روشنی میں درست نہیں ہے۔ دراصل مکروہ کی تین اقسام ہیں: ایک وہ اشیا ہیں جنہیں قرآن نے مکروہ قرار دیا ہے۔ دوسرے جنہیںاللہ کے رسولؐ نے مکروہ قرار دیا ہے اور تیسرے وہ جنہیں پیغمبر آخر الزماں ﷺنے ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ مکروہ کی پہلی دونوں اقسام اسلامی فقہ میں حرام ہی سمجھی جاتی ہیں۔ جبکہ تیسری قسم اگر کوئی چاہے تو ناپسندیدگی سے اختیار کرسکتا ہے جبکہ سود کا معاملہ قطعاً اس تیسری قسم میں نہیں آتا۔ اسماعیل قریشی نے مزید کہا کہ امام ابوحنیفہؒ کی جس روایت کی بنیاد پر سود کو مکروہ فعل قرار دیا جارہا ہے اور اسے ممانعت (حرام)کے دائرے سے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے، اسے پورے سیاق و سباق کے ساتھ عدالت کے سامنے پیش نہیں کیاگیا۔ امام ابوحنیفہؒ نے واضح الفاظ میں وضاحت کی ہے کہ مکروہ سے ان کی مراد حرام (ممنوع) ہی ہے۔ محمد اسمٰعیل قریشی کی معاونت چوہدری عبدالرحمن ایڈووکیٹ (ماہر قانون اسلامی) نے کی۔ محمد اسماعیل قریشی کو دلائل کے دوران عدالت کی جانب سے بار بار مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔
محمد اسماعیل قریشی نے اپنے دلائل میں کہا کہ شریعت اپلیٹ بنچ سپریم کورٹ نے بڑے بڑے علما کرام اور بنکاروں کو سن کر فیصلہ دیا تھا۔ اب محض دو بیوروکریٹس کے بیاناتِ حلفی کی بنیاد پر نظرثانی کی جارہی ہے جوقرآن کے معنی نہیں سمجھتے بلکہ دنیاوی انداز میں اسلامی احکامات کی تشریح کرتے ہیں۔ محمد اسماعیل قریشی نے دلائل سمیٹتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے جس میں قرآن وسنت سپریم لاء ہے اور ان پر عمل درآمد اور ان کے احکامات کا نفاذ لازم ہے۔ قرآن و سنت سے متصادم قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا کسی فرد کی نہیں بلکہ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔
جماعت ِاسلامی کے وکیل جسٹس (ر) خضر حیات نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی اپنی کتاب میںاس دلیل کو ردّ کرتے ہیں کہ کرنسی نوٹ کی ویلیو کم ہونے کی وجہ سے بڑھوتری وصول کی جاسکتی ہے۔ شیخ خضر حیات نے کہا کہ مکروہ کی تعریف کو صحیح طور پر بیان نہیںکیا گیا ہے۔
جمعیت علمائے پاکستان(نفاذِ شریعت گروپ) کے صدر انجینئر سلیم اللہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پرجزوی عمل ہوچکا ہے، اب اس پر نظرثانی کی قانون اجازت نہیں دیتا۔ اس کے برعکس نظرثانی کی درخواست میں حکومت نے عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کروانے کے بعد یوٹرن لے لیا ہے، اس لئے حکومت کا اقدام توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
آخر میں حشمت علی حبیب ایڈووکیٹ نے بھی عدالت سے مختصر خطاب کیا اور محمد اسماعیل قریشی کے دلائل ، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور شریعت اپلیٹ بنچ کے ۱۹۹۹ء کے فیصلے کی حمایت کی اور ان کے خلاف نظرثانی کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کی۔
وکلا اور دیگر حضرات کے دلائل سماعت کرنے کے فوراً بعد نظرثانی کے لئے تشکیل کردہ بنچ نے ۲۴؍جون ۲۰۰۲ کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے شریعت اپلیٹ بنچ کا فیصلہ مؤرخہ ۲۳؍ دسمبر ۱۹۹۹ء اور وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ مؤرخہ ۱۴؍ نومبر ۱۹۹۱ء منسوخ کردیا اور مقدمہ کو از سر نو سماعت کے لئے دوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں بھیجنے کے احکامات صادر کردیے تاکہ وہ اٹھائے گئے سوالات کی روشنی میں پورے معاملے کو از سر نو دیکھے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فریقین اس عدالت میں اُٹھائے گئے نکات کے علاوہ اس موضوع سے متعلقہ دیگر اور نئے سوالات بھی وفاقی شرعی عدالت کے سامنے اُٹھا سکتے ہیں جبکہ وفاقی شرعی عدالت ازخود بھی اپنی دانست کے مطابق سوالات اُٹھا سکتی ہے۔
نظرثانی کرنے والی عدالت نے اپنے مذکورہ بالا فیصلے کی بنیاد جن معروضات پر رکھی، وہ مختصراً حسب ذیل ہیں:
1. وفاقی شرعی عدالت نے سود کی پابندی کی حد تک غیرمسلموں کے معاملے کو بالکل چھوا تک نہیں تھا۔ لیکن شریعت اپلیٹ بنچ نے نہ صرف یہ کہ اس ایشو پر بحث کی بلکہ امتناعِ سود کے قانون کو غیر مسلموں پر بھی لاگو کردیا۔
2.اسلام میں قرض کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ وہ رقم ہے جواللہ کے نام پر صدقہ یا خیرات کی شکل میں دی جاتی ہے جبکہ موجودہ بینکنگ سسٹم کے 'لون' ا س سے بالکل مختلف ہیں اور حکومت کی مختلف سکیموں میں لگایا جانے والا سرمایہ بھی قرض کی سابق الذکر تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ کیونکہ اس میں 'ظلم' کا عنصر شامل نہیں ہوتا۔
3.یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر موجودہ بینکنگ سسٹم کو ختم کرکے متبادل نظام لایا گیا تو پورے ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔ ایک اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائے جن سے لوگوں کی بھلائی کا پہلو نکلتا ہو اور عوامی مفادات کی حفاظت ہوتی ہو۔ نہ کہ ملک میں افراتفری ،بے یقینی اور انارکی پھیل جائے۔
4.مسٹر خالد اسحق ایڈووکیٹ نے وفاقی شرعی عدالت میں کہا تھا کہ
(i) افراطِ زر (Inflation) کے بارے میں فقہی آرا موجود ہیں کہ افراطِ زر کے مطابق بڑھوتری سود کے زمرے میں نہیں آتی۔
(ii) اس بارے میں بھی فقہی آرا موجود ہیں کہ بنکوں کی طرف سے دیا جانے والا منافع سود کی اس قسم میں شامل نہیں ہے جسے حرام یا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے خالد اسحق کی معروضات کو محض اس لئے نظر انداز کردیا کہ انہوں نے جس مواد پر اپنی رائے قائم کی ہے، اس کی نقول عدالت کو فراہم نہیں کیں۔شریعت اپلیٹ بنچ کے لئے لازمی تھا کہ وہ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں مقدمہ وفاقی شرعی عدالت کو واپس ریمانڈ کردیتی۔ تاکہ ازسرنو ان آرا کی جانچ کرنے کے بعد انہیں قبول یا مسترد کرے۔
5. مندرجہ بالا موجبات کی روشنی میں دیکھا جائے تو بہت سی غلطیاں دونوں متنازعہ فیصلوں کی سطح پر تیرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ا س لئے مقدمہ کا ریمانڈ کیا جانا قرین انصاف ہے۔
6. موجودہ بنچ میں شامل علما پر اٹھائے گئے اعتراض کو ردّ کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ دونوں فاضل ارکان مستند سکالر ہیں۔ عدالت نے مزید قرار دیا کہ ویسے بھی اس اعتراض کو نظرثانی کے ساتھ نہیں اُٹھایا جاسکتا۔
شریعت اپلیٹ بنچ آف سپریم کورٹ کا نظرثانی کی درخواست منظور کرنے والا مذکورہ بالا فیصلہ منظرعام پر آتے ہی ذرائع ابلاغ میں اہل قلم، علمائِ کرام اور قانون دانوں کے بیانات اور مضامین شائع ہونے لگے۔ بہت سے جرائد نے اس حوالے سے خصوصی مضامین اور اہل الرائے کے انٹرویوز شائع کئے۔ عوامی اندازہ تو آغاز ہی سے یہی تھا کہ سپریم کورٹ حکومت کی درخواست کو یقینا پذیرائی بخشے گی اور اسے مزید مہلت عطا کرتے ہوئے سودی نظام کو جاری و ساری رہنے دے گی۔ لیکن وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپلیٹ بنچ کے دونوں فیصلوں کا بیک وقت منسوخ کیا جانا عوام اور دینی حلقوں کے لئے باعث ِحیرت بنا۔ عوامی رائے کے مطابق نہ تو موجودہ بنچ کے فاضل ارکان میں سے کوئی جسٹس (ر) تنزیل الرحمن جیسے علمی مرتبے کا حامل تھا۔ اور نہ ہی موجودہ بنچ میں شامل علماء کرام یعنی ڈاکٹر خالد محمود اور علامہ رشید جالندھری سابقہ شریعت اپلیٹ بنچ کے علماء ارکان مولانا تقی عثمانی اور ڈاکٹر محمود غازی جیسی فقہی استعداد کے حامل تھے۔ عوامی حلقوں کے ردّعمل کو چھوڑتے ہوئے، اختصار کے نقطہ نظر سے ذیل میں سپریم کورٹ کے سابق جج مسٹر جسٹس وجیہ الدین احمد کے ایک انٹرویو کے کچھ اقتباسات یہاں درج کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ یہ انٹرویو ہفت روزہ 'تکبیر' ۴ تا ۱۰؍ جولائی ۲۰۰۲ء کے شمارے میں شامل اشاعت ہے۔ یاد رہے کہ جسٹس وجیہ الدین احمد اس شریعت اپلیٹ بنچ میں بطورِ جج شامل تھے جس نے دسمبر ۱۹۹۹ء میں سود کو حرام قرار دیتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی توثیق کی تھی۔
جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے جون ۲۰۰۲ء کے زیر نظر فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ
''نظرثانی اور اپیل میںایک بنیادی فرق ہوتا ہے۔ اپیل میں نئے سوالات کی محدود حد تک پذیرائی ہوسکتی ہے مگر نظرثانی میں نئے سوالات نہیں اُٹھائے جاسکتے۔ عدالت نے نہ صر ف نئے سوالات اٹھانے دیے بلکہ ان کی بنیاد پر وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپلیٹ بنچ کے فیصلوں کو رد بھی کردیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ عدالت سپریم کورٹ سے بھی بالا کوئی عدالت تھی ... ''
جسٹس صاحب نے مزید کہا کہ عدالت کے سامنے سود کو لوگوں کا پرسنل لاء قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ وفاقی شرعی عدالت پرسنل لاء پر فیصلہ دینے کی اہل نہ تھی۔ حالانکہ سود کسی طرح سے بھی پرسنل لاء کے زمرے میں نہیں آتا۔ یہ پوری قوم اور پورے ملک کا مسئلہ ہے، اسی لئے پرنسپل آف پالیسی میں اسے شامل کیا گیا ہے لہٰذا یہ ایک پبلک مسئلہ ہے۔ حکومت نے آئین کے آرٹیکل ۸ سی کے حوالے سے دلیل دی کہ آئین میں سودکا لفظ استعمال کیا گیا ہے جبکہ سود اور ربوٰ میںفرق ہے۔ لہٰذا سود کے بارے میں تو عدالت فیصلہ نہیں کرسکتی البتہ ربوٰ کے بارے میں کرسکتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سود اور ربوٰ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سابقہ فیصلہ جات میں پوری تحقیق کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ جب بھی اعلیٰ عدالتیں کسی فیصلے کی جانچ کرتی ہیں تو پہلے متنازعہ فیصلے کو عدالت میں پڑھوایا جاتا ہے تاکہ سب کو اس کی تفصیلات سے آگاہی ہوجائے۔
جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ جب ہم نے ربوٰ کا کیس سنا تو چار پانچ رو زتک وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ پڑھوا کر کورٹ میں سنا تھا۔ حالیہ سماعت کے دوران نہ تو وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ سنا گیا، نہ ہی خود شریعت اپلیٹ بنچ کا فیصلہ سنا گیا، اس طرح اس فیصلے کے حیثیت قانونی طور پر مجروح ہوجاتی ہے۔
جہاں تک غیر مسلموں پر سود کے امتناعی فیصلے کے نفاذ کا تعلق ہے تو اس بارے میں پوری چھان بین کی گئی تھی ۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں بھی سود کی ممانعت موجود ہے حتیٰ کہ ہندوؤں کے مذہب میں بھی ایسے سود کی ممانعت ہے جس سے غریب طبقات پس کر رہ جائیں۔ سود صرف اُمت ِمحمدیہ کے لئے ممنوع نہیں ہے بلکہ سابقہ ادیان میں بھی ا س کی نفی ہوچکی ہے اور غیرمسلموں پر اس قانون کے اطلاق کا حکم صریح حضورِ اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ سے بھی ثابت ہے۔
اگر وفاقی شرعی عدالت یا شریعت اپلیٹ بنچ کے فیصلے میں کچھ نقائص رہ گئے تھے تو اعلیٰ ترین عدالت ہونے کے ناطے خود اس عدالت کی ذمہ داری تھی کہ وہ 'اتنے اہم سوالات'کی خود سماعت کرتی اور پھر ان پر اپنا فیصلہ سناتی لیکن جس طرح سابقہ دونوں فیصلوں کی نفی کرتے ہوئے سود کے مقدمہ کو دوبارہ نچلی عدالت میں بھیج دیا گیا ہے، اس کا صاف مطلب تو یہی ہے کہ ایک طویل عرصے کے لئے سود پر مبنی غیر اسلامی نظام کو غیر معینہ مہلت دے دی گئی ہے۔
سود کے مقدمے میں اور عمومی طور پر عدالتوں پر حکومتی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے کہا کہ اب تویہ کہا جارہا ہے کہ اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کے لئے اپنی مرضی کے جج لگائے جائیں۔ اس مقصد کے لئے پی سی او کے تحت حلف لئے گئے اور اس کے بعد نئے ججوں کی بھرتی ہوئی۔ جب یہ عمل مکمل ہوگیا تو ظفر علی شاہ کیس میں اپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کیا گیا۔ قاضی حسین احمد نے ریفرنڈم کے آرڈر کو چیلنج کیا تو فیصلہ دیا گیا کہ ریفرنڈم کو ہم دستور کی کسوٹی پر نہیں دیکھ سکتے کیونکہ دستور میں اس کا کوئی جواز نہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ ریفرنڈم پی سی او کے تحت ہورہا ہے اور پی سی او کے تحت تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا آئین کی روشنی میں ا س مسئلے کا فیصلہ کسی اور وقت اور کسی اور جگہ ہوگا۔
جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے سود والے کیس کے حوالے سے انکشاف کیا کہ ایک ایسے شخص کو ، جس سے حکومت قانونی معاملات میں مشورہ لیتی ہے اور جو اپنی جادو گری سے اس تمام گورکھ دھندے کو چلا رہے ہیں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا فون آیا اور انہوں نے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ شریعت اپلیٹ بنچ میں، میں نے سود والے مقدمے کی سماعت کرنا ہے، کس کس جج کو شامل کروں؟ یوں ان کی منظوری سے یہ بنچ تشکیل پایا۔ اس بنچ کے بارے میں اتنا ہی کہوں گا کہ اس کے ذریعے انصاف کے سودے کو گندا کیا گیا ہے۔ جہاں تک راقم الحروف کی معلومات کا تعلق ہے۔ حکومت یا قانونی گورکھ دھندہ چلانے والی کسی شخصیت نے یا پھر خود محترم چیف جسٹس نے اس بات کی تردید نہیں کی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ اب سود کا مقدمہ ایک مرتبہ پھر اپنے ابتدائی مرحلے میں پہنچ گیا ہے اور اس میں تازہ فیصلے کے ذریعے بہت سے 'نئے مباحث' کا ڈول ڈال دیا گیا ہے۔ سود کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے واضح نقطہ نظر (جس کا ذکر اس مضمون کے آغاز میں کیا گیا ہے) اور آئین کے آرٹیکل ۳۸؍ایف کے بعد جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت جس قدر جلد ممکن ہوسکا، ربوٰ کو ختم کرے گی۔ ہمارے خیال میں سود کے بارے میں حرام اور ناجائز ہونے کی بحث کو تو ویسے ہی ختم ہوجانا چاہئے۔ کیونکہ خود آئین اسے ختم کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ اس لئے اب عقل کی عیاری نئے مباحث کی صورت میں بھیس بدل کر سامنے آئے گی اور دلیل دے گی کہ آئین اور قرآن میں ربوٰ کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور ربوٰ کی تعریف سود اور انٹرسٹ سے بالکل الگ ہے۔ یہ مرحلہ دینی حلقوں کے لئے لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قدرت کی طرف سے ایک بار پھر فکری اور نظریاتی سطح پر سود کے خلاف عدالتی جہاد کی تیاری کے لئے مہلت عطا ہورہی ہے۔ خدا اور سولؐ کے خلاف سودی جنگ میں مخالف طاقتوں کو شکست دینے کا یہ موقع بھی اگر ضائع کردیا گیا تو یہ نظریۂ پاکستان کے ساتھ ایک ناقابل معافی غفلت کے مترادف ہوگا۔
٭٭٭٭٭