امراء کے لیے صدقہ و خیرات اور بلاقصد دی جانے والی طلاق

٭ اُمرا کے لئے صدقہ وخیرات کے استعمال کا حکم

٭ بلا قصد دی جانے والی طلاق کا حکم ٭ طہارت کے مسائل

٭ سوال: کیا کھانے پینے کی چیز ایصالِ ثواب کے لئے تقسیم کرنااور متوسط طبقہ کے لوگوں کے لئے اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: کسی بھی چیز کو میت کی طرف سے صدقہ وخیرات کیا جاسکتا ہے، عام صدقہ سے تو متوسط طبقہ کے لوگ کھاپی سکتے ہیں لیکن واجب صدقہ سے ان کا کھانا پینا درست نہیں مثلاً میت نے کوئی نذر مانی تھی یا اس کے ذمہ کوئی قرض یا کفارہ تھا۔

٭ سوال: اَولیاء کرام کو ایصالِ ثواب کے لئے کچھ اللہ کی راہ میں دینا درست ہے یا نہیں؟

جواب: ایصالِ ثواب کے لئے عمومی صدقہ کرنا مجموعی طور پر ثابت ہے اور مخصوص شخصیت کی طرف سے صدقہ خیرات کرنے سے عوام کا مقصود ان کا تقرب حاصل کرنا ہوتا ہے جو درست عمل نہیں۔ کیونکہ فوت شدہ اولیا کا تقرب حاصل کرنا، اور اس کے بعد ان سے مرادیں مانگنا، اور انہیں وسیلہ بنانا وغیرہ سارے شرکیہ افعال ہیں۔

٭سوال: ہم سوئم، چہلم وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے۔ بعض اوقات ان رسومات پر تقسیم شدہ کھانا آجاتا ہے، کیا اسے پھینک دیں یا کھا سکتے ہیں؟ اس کا کھانا حرام ہے یا مکروہ؟ اس صورت میں کہ ایسی محافل کی حوصلہ افزائی کا کسی قسم کا شائبہ تک موجود نہ ہو۔

جواب: ایسا کھانا جانوروں کو کھلا دیا جائے، اس کا کھانا کراہت سے خالی نہیں۔

٭ سوال: اولیاء کرام کے مزاروں پر چڑھائے جانے والے نذرانے محکمہ اوقاف میں جمع ہوتے ہیں۔ محکمہ اوقاف کے کسی فلاحی شعبہ مثلاً ہسپتال وغیرہ سے استفادہ کرنا جائز ہے؟

جواب: جس شعبہ کے بارے میں یقین ہو کہ یہاں خالصتاً مزاروں کے نذرانے ہی صرف ہورہے ہیں تو وہاں استفادہ سے بچنا چاہئے۔اگر یقین نہ ہو تو استفادہ جائز ہے لیکن پھر بھی کراہت سے خالی نہیں۔

٭ سوال: عیدالاضحی میں قربانی کرنے والا جس قدر گوشت اپنے لئے رکھنا چاہے، رکھ سکتا ہے یا تیسرے حصے سے زیادہ نہیں رکھ سکتا؟

جواب: قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا اہل علم کے نزدیک مستحب ہے، واجب نہیں۔ ضرورت کی بنا پر اگر کوئی زیادہ بھی رکھ لے تو کوئی حرج نہیں۔ (تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو : مرعاۃ المفاتیح:۲؍۲۶۹)

٭ سوال: بعض علما کہتے ہیں کہ جماع کرکے رمضان کا روزہ توڑنے کی صورت میں کفارہ واجب ہے لیکن رمضان کے روزہ کے دوران دانستہ کھا پی لینے سےقضا ہی واجب ہے، کفارہ کا ذکر اس صورت میں حدیث میں نہیں ملتا، کیا یہ درست ہے؟

جواب: اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں دانستہ کھانے پینے سے کفارہ نہیں، صرف قضا لازم ہوگی، نیل الاوطار میں ہے : «وقالوا لا کفارة إلا في الجماع» ''جماع کے علاوہ کسی صورت میں بھی کفارہ نہیں۔''

٭ سوال: ہمارے ایک دوست جب فصل (گندم ؍مونجی) اٹھاتے ہیں تو اسی وقت آڑھتی کو وزن کر کے دے دیتے ہیں لیکن قیمت اس وقت وصول کرتے ہیں جب سیزن میں سب سے زیادہ بھاؤ سے جنس فروخت ہو ۔ ایسا کرنا شرعاً کیسا ہے؟

جواب: جنس کا بھاؤ پہلے مقرر ہونا چاہئے ،بعد والے ریٹ پر چھوڑنا درست نہیں۔

٭ سوال: سفر کے دروان رہ جانے والی نماز اگر گھر میں آکر پڑھی جائے تو پوری پڑھی جائے یا قصر ہی پڑھنا ہو گی؟ (عبدالستار، ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول،گوجرانوالہ)

جواب: سفر میں فوت شدہ نماز بحالت ِاقامت پوری پڑھنی چاہیے، کیونکہ راجح مسلک کے مطابق سفر میں قصر کرنا صرف افضل ہے، واجب نہیں۔

٭ سوال: آدمی پر جنابت یا احتلام کے باعث غسل فرض ہو گیا لیکن اس کے گھر میں پانی نہیں۔ جبکہ فجر کا وقت ہو چکا ہے۔ آیا وہ وضو کرکے نماز باجماعت ادا کرے یا تیمم کر کے نماز اَدا کرے ؟

جواب: ایسی حالت میں پہلے پانی تلاش کرنا چاہئے اور اگر پانی نہ مل سکے اور نماز کے وقت کے فوت ہونے کا ڈر ہو یا خوف کی وجہ سے پانی تک پہنچنے کی قدرت نہ ہو تو ایسی صورت میں تیمم کر کے نماز پڑھی جا سکتی ہے، ورنہ نہیں۔ صحیح بخاری میں ایک باب کا عنوان یوں ہے :

«باب التييم في الحضر إذا لم يجد الماء وخاف فوت الصلاة وبه قال عطاء» '' مقیم ہونے کی حالت میں جب آدمی کو پانی نہ ملے اور نماز فوت ہونے کا ڈر ہو تو تیمم کابیان''

٭ سوال: مذی نکلنے پر وضو فرض ہو جاتاہے جن کپڑوں پر یہ قطرے گرے ہوں، انہیں تبدیل کیا جائے یا بغیر دھوئے صرف پانی کے چھینٹوں پر اکتفا کیا جائے؟

جواب: اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ امام شافعیؒ اور امام اسحق بن راہویہؒ کپڑے دھونے کے قائل ہیں اور بعض علما مثلاً امام احمد وغیرہ کہتے ہیں کہ صرف چھینٹے مارنا ہی کافی ہے۔ امام شوکانی ؒنے نیل الاوطار میں اس بات کو ترجیح دی ہے کہ صرف چھینٹے لگانا کافی ہے۔ کپڑا دھونے کی ضرورت نہیں ۔

(عون المعبود: ۱؍۸۵)

٭ سوال: مسواک کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ اس کاسائز،پکڑنے کا طریقہ اور دانتوں میں کرنے کی پوری کیفیت ذکر فر مائیں۔ (ابو عمار کراچی)

جواب: مسواک لمبائی میں زبان کے مختلف اطراف پر ہونی چاہیے اور چوڑائی میں اسے دانتوں پرمسواک کرنا مسنون ہے ۔مسواک اس آلے کا نام ہے جس کو دانتوں پر پھیرا جاتا ہے ۔شرع میں لمبائی چوڑائی کی کوئی حد مقر ر نہیں،جیسے ممکن ہو پکڑ لے ۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ مسواک وَن کے درخت کی ہو اور یہ بھی مستحب ہے کہ منہ کی دائیں جانب میں عرض سے مسواک کا آغاز کیا جائے نہ کہ طول میں تا کہ دانتوں کے گوشت سے خون نکلنے نہ پائے۔ (عون المعبود: ۱؍۱۷) مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ (المغنی: ۱؍۱۳۳،۱۳۸)

٭ سوال: ایک شخص نے آج سے چار سال قبل اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں ایک بار طلاق دی۔ یہ طلاق بھی اس نے اپنی بیوی کو محض دھمکانے کے لیے دی۔ اس کے بعد وہ شخص بھول گیا اور اب اس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں دو بار طلاق دی۔ اس کی بیوی نے کہا کہ تم نے آج سے چار سال قبل مجھے ایک طلاق دی تھی اور اب دو طلاقیں دی ہیں، لہٰذا تین طلاقیں مکمل ہو چکی ہیں اور طلاق واقع ہو چکی ہے ۔

خاوند کا کہنا ہے کہ نہ میری نیت طلاق دینے کی تھی اور نہ ہی میں نے طلاق دی تھی۔ مگر بیوی کہتی ہے کہ طلاق واقع ہو چکی ہے ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ (عدیل اختر)

جواب : صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ پہلی طلاق رَجعی تھی اور پھر بعد میں ایک مجلس کی دو طلاقوں کا حکم بھی ایک طلاقِ رجعی کا ہے ۔لہٰذا ایسی صورت میں عدت کے اندر رجوع ہو سکتا ہے اور عدت گزرنے کی صورت میں دوبارہ عقد ِنکاح کا جواز ہے۔ نیز واضح ہو کہ لفظ طلاق بولنے سے خاوند کی نیت طلاق کی نہ بھی ہو تو پھر بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے کیونکہ لفظ 'طلاق' طلاق میں صریح ہے جس میں تاویل کی گنجائش نہیں۔

٭ سوال: مباشرت کے بعد عورت نے ابھی غسل نہیں کیا اور حیض جاری ہوگیا۔ اب کیا اسے جنابت کا غسل فورا کرنا چاہئے یا حیض ختم ہونے کے بعد... یا دونوں کے لئے ایک ہی غسل کافی ہے؟

جواب: غسل جنابت ہی غسل جمعہ کے لئے کافی ہے بشرطیکہ اس کی حدود کے اندر،یعنی طلوعِ فجر کے بعد ہو کیونکہ غسل سے مقصود بدن کی نظافت اور بد بو کا ازالہ ہے، سو وہ حاصل ہے۔

امام بخاری ؒنے اپنی صحیح میں یو ں باب قائم کیا : باب فضل الغسل یوم الجمعة اور امام شوکانیؒ الدراری (۱؍۷۴) اور نیل الاوطار (۱؍۲۷۴) میں جمعہ کے لیے وجوبِ غسل کے قائل ہیں لیکن السیل (۱؍۱۲۲) میں انہوں نے وجوب سے رجوع کر کے کہا ہے کہ ''یہ صرف مستحب ہے۔'' جب کہ غسل جنابت بلا اختلاف واجب ہے، لہٰذا غیر واجب کے واجب کے ضمن میں داخل ہونے میں کوئی اشکال نہیں۔

اس حالت میں عورت کے لیے ضروری ہے کہ فوری غسل جنابت کرے اور حیض کا غسل اس وقت کرے گی جب حیض سے فارغ ہو گی، دونوں غسلوں کے احکام شریعت میں بسط وتفصیل سے موجود ہیں ان کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

٭٭٭٭٭