خرید وفروخت کے زرّیں اسلامی اُصول

قیمت کے متعلق ہدایات

یہ بات تو مسلم ہے کہ بیع اسی صورت میں منعقد ہوگی جب مشتری فروخت کنندہ کو بدلے میں کوئی قیمت ا داکرے گا، اس کے بغیر بیع وجود میں نہیں آسکتی تاہم شریعت ِ مطہرہ نے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ اس کے متعلق بھی ہماری مکمل رہنمائی کی ہے۔

1.اس سلسلہ میں پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ معاوضہ کرنسی کی شکل میں ہوناضروری نہیں بلکہ ہر اس چیز کی بنیاد پر لین دین ہو سکتاہے جو شریعت کی رو سے جائز اور معاشرہ میں بطورِ معاوضہ قبول کی جاتی ہو۔ جو چیزیں شرعاً جائز نہ ہوں جیسے شراب، مردار اور خنزیر وغیرہ ہے، یا وہ اشیا جو معاشرہ میں آلہ مبادلہ کی حیثیت سے رائج نہ ہوں، وہ قیمت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔

2.قیمت معلوم ہو

قیمت کے بارے میں دوسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ فریقین مکمل تفصیلات طے کر کے معاملہ کریں،مثلاً قیمت کیا ہو گی، ادائیگی فوری ہو گی یاتاخیر سے، اگرتاخیر سے ہو گی توکتنی مدت بعد،اور ادائیگی کا طریقہ کیا ہو گا؟ یکمشت ہوگی یا قسطوں میں،یہ تمام اُمور پہلے طے کرنا ضروری ہیں بصورتِ دیگر بیع منعقد نہیں ہو گی۔یہی وجہ ہے کہ فقہاے کرام بیع کی شرائط میں ایک شرط یہ بیان کرتے ہیں:

«أن یکون الثمن معلومًا للمتعاقدین أیضًا کما تقدَّم لأنه أحد العوضین فاشترط العلم به کالمبیع»[الروض المربع: ص۲۸۰،۲۸۱]

''فریقین کو قیمت بھی معلوم ہو جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کیونکہ ایک عوض یہ قیمت ہے لہٰذا فروخت کی جانے والی چیز کی طرح اس کا بھی علم ہونا چاہیے۔''

قیمت مجہول ہونے کی ایک شکل یہ ہے کہ چیز خریدتے وقت قیمت کاتذکر ہ ہی نہ ہواور دوسری صورت یہ ہے کہ تذکر ہ تو ہو مگر اس طرح کہ فریقین میں سے کسی کو متعین قیمت کا علم نہ ہو۔ مثلاً یوں کہا جائے کہ میں فلاں چیز کو اس کی بازاری قیمت پرخریدتا ہوں یا اس قیمت پر خریدتا ہوں جو اس پر درج ہے جبکہ اُسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی بازاری قیمت یا اس پر درج شدہ قیمت کیا ہے۔ چنانچہ علامہ بہوتی ؒفرماتے ہیں:

«فإن باعه برقمه أي ثمنه المکتوب علیه وهما یجهلانه أو أحدهما لم یصح للجهالة» [الروض المربع: ص۲۸۱]

''اگر اس کو اوپر لکھی ہوئی قیمت پر بیچے جبکہ وہ دونوں یا ان میں سے ایک بھی لکھی ہوئی قیمت سے نا واقف ہو تو قیمت مجہول ہونے کی بناپر بیع صحیح نہیں ہو گی۔''

اسی طرح یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ جس قیمت پر فلاں شخص نے فروخت کی ہے یا جس قیمت پر لوگ فروخت کر رہے ہیں، اسی قیمت پر میں آپ کو بیچتا ہوں لیکن فریقین اس قیمت سے واقف نہ ہوںیا یہ کہناکہ جو قیمت آپ کو پسند ہو وہ دے دینا یا جس قیمت پر میں نے خریدی ہے، اسی پر آپ کو بیچتا ہوں جبکہ خریدار کو قیمت ِخرید کا علم نہ ہو، کیونکہ ان صورتوں میں قیمت مجہول رہتی ہے جو نزاع کا باعث بن سکتی ہے جبکہ شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ قیمت پہلے طے ہونی چاہیے تا کہ جھگڑے کا خطرہ نہ رہے۔ البتہ اگر مجلسِ عقد کی برخاستگی سے قبل حتمی قیمت کاعلم ہو جائے تو پھر بیع جائز ہو گی۔

3. نقد اور اُدھار قیمت میں فرق

یہ امر تو طے ہے کہ خرید وفروخت جس طرح نقد جائز ہے، ادھار بھی جائز ہے بشرطیکہ ادائیگی کی مدت معلوم ہولیکن کیا اُدھار کی صورت میں نقد کے مقابلہ میں زائد قیمت رکھنا جائز ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جو قیمت پر گفتگو کرتے ہوئے پوری شدت سے اُبھر کر سامنے آتا ہے کیونکہ عصر حاضر میںقسطوں پر لین دین کا رواج ہے اور اس میں ہمیشہ نقد کی نسبت زیادہ قیمت رکھی جاتی ہے۔ بعض علما اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں لیکن اگر دلائل کی روشنی میں غور کیا جائے تو ان کی رائے صائب معلوم نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ بیشتر فقہاے محدثین اُدھارکی وجہ سے قیمت میں اضافہ جائز سمجھتے ہیں، چنانچہ امام شوکانی ؒلکھتے ہیں:

«قَالَتِ الشَّافِعِیَّة وَالْحَنَفِیَّة وَزَیْدُ بْنُ عَلِيٍّ وَالْمُؤَیَّدُ بِاﷲِ وَالْجُمْهورُ: إنَّهُ یَجُوزُ لِعُمُومِ الْأَدِلَّةِ الْقَاضِیَةِ بِجَوَازِهِ وَهُوَ الظَّاهِرُ» [نیل الاوطار: ج۸؍ص۲۰۱]

''شافعیہ، حنفیہ، زید بن علی، مؤید باللہ اور جمہور نے جواز کے عمومی دلائل کی بنا پر اسے جائز قرار دیا ہے اور ظاہر بھی یہی ہے۔''

٭امام شوکانی ؒنے اس کے حق میں ایک رسالہ بھی لکھا ہے جس کا نام ہے:

«شِفَاءُ الْغَلِیلِ فِي حُکْمِ زِیَادَةِ الثَّمَنِ لِمُجَرَّدِ الْأَجَلِ»

اس رسالہ میں اُنہوں نے زیر بحث مسئلہ کے متعلق بڑی عمدہ تحقیق پیش فرمائی ہے چنانچہ وہ خودفرماتے ہیں:

'' ہم نے اس میں ایسی تحقیق پیش کی ہے جو ہم سے پہلے کسی نے نہیں کی۔ ''[ ایضاً: ص۲۰۲]

٭ اہل حدیث اکابر علماء سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی، نواب صدیق حسن خان،مولانا ثناء اللہ امرتسری اور حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہم اللہ کا موقف بھی یہی ہے کہ اُدھار میں زائد قیمت رکھی جا سکتی ہے۔ [فتاویٰ نذیریہ :ج۲؍ ص۱۶۲، الروضۃ الندیۃ: ج۲؍ص۸۹، فتاوی ثنائیہ:ج۲؍ص۳۶۵، فتاویٰ اہل حدیث :ج۲؍ ص۲۶۳،۲۶۴]

ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ قرآن حکیم کی آیت:﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ...٢٧٥ ﴾... سورة البقرة ''اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے ''سے پتہ چلتا ہے کہ سوائے ان شکلوں کے جن کی حرمت قرآن و حدیث میں بیان کر دی گئی ہے، خرید وفروخت کی تمام صورتیں جائز ہیں،چونکہ قرآن کی کسی آیت یا حدیث ِنبوی سے یہ واضح نہیں کہ اُدھار میں زائد قیمت لینا غلط ہے، اس لیے یہ جائز ہے۔

جن علما کے نزدیک نقد اور اُدھار کی صورت میں علیحدہ علیحدہ قیمت رکھنا ناجائز ہے، وہ ان روایات سے استدلال کرتے ہیں:

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع سے منع فرمایا۔ '' [جامع ترمذی :کتاب البیوع باب ما جاء في النھي عن بیعتین في بیعۃ]

''نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو ایک بیع میں دو بیع کرے، اس کے لیے کم قیمت ہے یا سود۔ '' [سنن ابی داؤد:باب فیمن باع بیعتین فی بیعۃ]

ان حضرات کے خیال میں 'ایک بیع میں دو بیع 'کا مطلب نقد اور اُدھار کی قیمت میں فرق ہے لیکن اگراس کی تشریح میں محدثین کے اَقوال کو سامنے رکھا جائے تو یہ مفہوم درست معلوم نہیں ہوتا۔ امام ترمذیؒ لکھتے ہیں:

«وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهلِ الْعِلْمِ قَالُوا: بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَة أَنْ یَقُولَ أَبِیعُکَ هذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشَرَة وَبِنَسِیئَة بِعِشْرِینَ وَلاَ یُفَارِقُهُ عَلَی أَحَدِ الْبَیْعَیْنِ فَإِذَا فَارَقَهُ عَلَی أَحَدِهِمَا فَلاَ بَأْسَ إِذَا کَانَتِ الْعُقْدَةُ عَلَی وَاحِدٍ مِنْهُمَا۔»

«قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَمِنْ مَعْنَی نَهيِ النَّبِي ﷺ عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَة أَنْ یَقُولَ أَبِیعُکَ دَارِي هذِہِ بِکَذَا عَلَی أَنْ تَبِیعَنِي غُلاَمَکَ بِکَذَا» [سنن ترمذي: باب ما جاء في النهي عن بیعتین في بیعة]

''بعض اہل علم نے ''ایک بیع میں دو بیع ''کا مفہوم یہ بیا ن کیا ہے کہ فروخت کنندہ یوں کہے کہ میں یہ کپڑا تجھے نقد دس اور اُدھار بیس کا فروخت کرتاہوں، اور فریقین کوئی ایک قیمت طے کئے بغیر جدا ہوں جائیں، لیکن جب ایک قیمت پر متفق ہو کر جدا ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

امام شافعی ؒفرماتے ہیں:ا س کا مطلب ہے کہ فروخت کنندہ یہ کہے کہ میں اپنا یہ گھر آپ کو اتنے میں اس شرط پر بیچتا ہوں کہ آپ اپنا غلام اتنے میں مجھے فروخت کریں گے۔''

٭ امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں :

''ہمارے استاد (ابن تیمیہ)کا قول ہے کہ '' جوایک بیع میں دو بیع کرے، اس کے لیے کم قیمت ہے یا سود ''سے مراد بعینہٖ بیع عِیْنَہ ہے۔ ''[تہذیب :ج۵؍ ص۱۰۰]

بیع عِیْنَہ یہ ہے کہ کوئی چیزاُدھارزائدقیمت پربیچ کر دوبارہ نقد کم قیمت پر خرید لی جائے۔ مثلاًایک شخص نے ایک سو دس روپے میں کتاب خریدی اور ادائیگی ایک ماہ بعد طے پائی،اب فروخت کنندہ اسی شخص سے یہی کتاب ایک سو روپے میں نقد دوبارہ خرید لیتا ہے تو یہ بیع عینہ ہے جو سودی معاملہ ہونے کی وجہ سے حرام ہے کیونکہ فروخت کنندہ نے دیا تو ایک سو روپیہ ہے مگر وصول ایک سو دس پانے ہیں یہی سود ہے۔

٭ دوسری جگہ فرماتے ہیں :''علماء نے اس کے دو مفہوم بیان کئے ہیں:

1. فروخت کنندہ یہ کہے کہ میں آپ کو نقد دس کی یا اُدھار بیس کی بیچتا ہوں۔یہ مفہوم امام احمدؒ نے سماکؒ سے بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ نبی 1نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع فرمایا، کی تشریح سماکؒ نے یوں کی ہے کہ فروخت کنندہ یہ کہے کہ اُدھار اتنے کی اور نقد اتنے کی۔ مگریہ تشریح کمزور ہے کیونکہ اس صورت میں نہ تو سود شامل ہے اور نہ ہی دو سودے ہوئے ہیں،صرف دو قیمتوں میں سے ایک قیمت کے ساتھ سودا طے پایاہے۔

2. اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ فروخت کنندہ یوں کہے کہ میں آپ کو یہ چیز ایک سا ل کی مدت کے لیے ایک سو کے بدلے اس شرط پر فروخت کرتا ہوں کہ میں آپ سے اَسّی کی نقد خرید لوں گا، حدیث کا اس کے علاوہ دوسرا کوئی معنی نہیں ہے۔'' [تہذیب :۵؍۱۰۵،۱۰۶]

اس تفصیل سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو گئی کہ نقداور اُدھار کے لیے دو علیحدہ علیحدہ قیمتیں مقرر کرنے سے اس حدیث کی مخالفت نہیں ہوتی جس میں نبی1نے ایک بیع میں دو بیع سے منع فرمایا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے اَحقر کی کتاب '' دورِ حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم '' ملاحظہ فرمائیے۔

4.  اَدائیگی عمدہ طریقے سے کی جائے

ادھار میںبیع مکمل ہوتے ہی قیمت مشتری کے ذمے دَیْن(Debt) ہو جاتی ہے لہٰذا مشتری کا فرض ہے کہ وہ طے شدہ مدت کے اندر ادائیگی یقینی بنائے، لیت ولعل یا پس و پیش نہ کرے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کی ادائیگی پر قادر مقروض کی طرف سے ٹال مٹول کو ظلم سے تعبیر فرمایاہے۔ فروخت کنندہ کو بھی چاہیے کہ وہ طے شدہ مدت سے قبل ادائیگی کا مطالبہ نہ کرے۔ اگر خریدار تنگ دست ہو تو قرآنی حکم کے مطابق اس کو فراخ دستی تک مہلت دی جائے، اور اگر کسی وجہ سے بر وقت ادائیگی نہ کرسکے تو جرمانہ وصول نہ کیا جائے، کیونکہ یہ سود کے زمرے میں آتاہے۔

5. مارکیٹ ریٹ خراب نہ کریں اور قیمت کا تقرر

بلاشبہ انسان اپنی چیز جس قیمت پر چاہے، فروخت کر سکتا ہے شریعت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جس طرح استحصال اور ظالمانہ منافع خوری منع ہے، اسی طرح نامناسب حد تک قیمتیں کم کر کے مارکیٹ کا توازن خراب کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ چنانچہ امام مالکؒنے اپنی شہرہ آفاق تالیف مؤطا میں حضرت عمر ؓ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے :

«أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مَرَّ بِحَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ وَهُوَ یَبِیعُ زَبِیبًا لَهُ بِالسُّوقِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِمَّا أَنْ تَزِیدَ فِي السِّعْرِ وَإِمَّا أَنْ تُرْفَعَ مِنْ سُوقِنَا» [موطأ:کتاب البیوع،باب الحکرة والتربص]

''عمر بن خطاب ؓ حاطب بن ابی بلتعہؓ کے پاس سے گزرے اور وہ بازار میں اپنا منقیٰ بیچ رہے تھے، تو حضرت عمر ؓنے ان سے کہا: یا تو قیمت میں اضافہ کرو یا ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ۔''

مارکیٹ ریٹ سے بہت کم قیمت رکھنا بھی در اصل اجارہ داری قائم کرنے اور دوسرے تاجروں کا راستہ روکنے کا ایک حربہ ہے، بالخصوص چھوٹے تاجر اس سے بہت زیادہ متأثر ہوتے ہیں اسی وجہ سے حضرت عمر ؓحاطب بن ابی بلتعہ کو انتہائی کم نرخ پر بیچنے سے منع فرمادیا۔

جو حضرات قیمتوںمیں عدم مداخلت کے قائل ہیں، وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ سیدناعمر ؓنے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھاجیساکہ سنن بیہقی میں ہے کہ جب حضرت عمرؓ بازار سے واپس آئے تو اپنا محاسبہ کیااور حاطب بن ابی بلتعہؓ کے گھر تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: یہ میرا فیصلہ نہیں ہے۔ میرا مقصد تو شہر والوں کی بھلائی تھا، ورنہ آپ جہاں چاہیں اور جیسے چاہیں بیچیں۔ [موطا:ج۶؍ص۲۹]

لیکن یہ روایت ثابت نہیں کیونکہ اس کو حضرت عمرؓسے قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں جن کی حضرت عمر سے ملاقات ثابت نہیں۔ [السنن الکبریٰ :ج۷؍ ص۳۸۳، فتح الباری :ج۹؍ص۴۷۸]

باقی جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے کہ ایک مرتبہ نبی 1سے سرکاری طورپر اشیا کے ریٹ مقرر کرنے کی درخواست کی گئی تو آپ نے اتفاق نہ کیااور فرمایا :

«إِنَّ اللَّہَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ »[سنن أبو داود:باب في التسعیر،سنن الترمذي :باب ما جاء في التسعیر]

''اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والا، تنگی، کشادگی کرنے والا اور رازق ہے۔ ''

تو یہ اس تناظر میں فرمایا جب قیمتوںمیں اضافہ فطری اُصول کے تحت ہو رہا ہو، اس میں ناجائز منافع خوری کا عمل دخل نہ ہو۔لیکن اگر تاجرصارفین کے ساتھ صریح زیادتی کر رہے ہوں تو پھر حکومتی مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہے،ایسی صورت میں عوام کو تاجروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا مناسب نہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں: ''تاجروں کی ظالمانہ منافع اندوزی کو کنٹرول کرنا جائز ہے کیونکہ یہ فساد فی الارض ہے۔''[حجۃ اللہ البالغہ:ج۲؍ ص۱۹۹]

٭٭٭٭٭