تھرڈ ورلڈ ازم اور مسلم قوم پرستی
تمہید اَز مدیر: بیسویں صدی کا پہلا نصف مغربی اَقوام کی آپس میں اور دوسرا نصف مغربی اَقوام کی اشتراکیت کے ساتھ مخاصمت وکشمکش کا دور ہے۔ اس دور کی عالمی سیاست میں اسلام کے حوالے سے عالم اسلام کا کوئی نمایاں کردار نظر نہیں آتا۔ بلکہ یہ صدی مسلم شعور کی انگڑائی اور عوامی تحریکوں کی شکل میں ملی اِحیا پر ہی مشتمل ہے۔ سرخ اور سبز، بائیں بازو اور دائیں بازو کی اصطلاحات پر مبنی امریکہ اور روس کی سرد جنگ کا پلڑا آخرکار اہل اسلام کی قوت سے ایک کے حق میں جھک چکا ہے۔
زوالِ سوویت یونین کے بعد کا دور درحقیقت سرمایہ داریت اور اشتراکیت کی نظریاتی مخاصمت کی بجائے اب اسلام اور سیکولرزم کی نظریاتی کشمکش میں تبدیل ہوچکا ہے۔ عالمی سیاست میں تبدیلی کے اسی اہم مرحلہ پر نیوورلڈ آرڈر اور تہذیبوں کا تصادم جیسے نظریات متعارف ہوتے نظر آتے ہیں۔ اسلام اور سیکولرزم یا لبرل ازم (اباحیت ِمطلقہ ) کے درمیان دہشت گردی، انتہا اور شدت پسندی کے نام پر پرپیچ جنگ لڑی جارہی ہے، جس میں تاحال یورپی ممالک امریکہ کی حاشیہ نشینی سے بڑھ کر اپنا جداگانہ کردار متعین کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یورپ میں بھی انہی چند برسوں میں شعائر ِاسلامیہ (نبی ٔرحمت صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن، پردہ، مینار، حجاب و نقاب، داڑھی اور مدارس)کے نام پر آہستہ آہستہ اسلام کے خلاف ردّ عمل قوت پکڑ رہا ہے۔یورپ کے مختلف ممالک میں ان اسلامی شعائر کے خلاف میڈیا، فلم انڈسٹری، عوام اور قانون ساز اداروں کے رجحانات کا مطالعہ خصوصی اہمیت رکھتاہے۔
یہ توعالمی سیاست کا وہ منظر نامہ ہے، جو اَدیان وملل اور تہذیب وثقافت کے پس منظر میں تشکیل پا رہا ہے۔ ایک منظر نامہ دینی فکرسے قطع نظر خالصتاً مادی ویک دنیوی نظریات کی بنا پر بھی تشکیل پذیرہے جس میں ہردو فریق کے اہداف ومقاصد زیادہ سے زیادہ دنیوی منفعت کے حصول تک محدود ہیں، البتہ اس ضمن میں ان کی ترجیحات اور لائحہ عمل کے اختلاف کے ساتھ علاقائی اور تاریخی مناسبتوں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ روس کے ٹوٹ جانے کے بعد کے اشتراکی ایک اور پس منظر میں بھی اپنی جدوجہد کو منظم کررہے ہیں، اور اس مقصد کے لئے اشتراکیت نے کسی قوم کی داخلی مساوات کے اشتراکی نظریہ کی بجائے اقوام عالم کی مساوات کے دعویٰ کو پروان چڑھانا شروع کیا ہے۔ تھرڈ ورلڈ ازم اسی پس منظر میں متعارف کرائی گئی ایک اصطلاح ہے، جس کا مقصد مزعومہ تیسری دنیا کے ممالک کو بھی فرسٹ ورلڈ (امریکہ) اورسیکنڈ ورلڈ(یورپ و ترقی یافتہ ممالک) کے ساتھ دنیوی مفادات میں مساوات پر مبنی حصہ دلانے کی کوشش ہے۔ زیر نظر مضمون ماضی کے اسی اشتراکی اور سرمایہ دارانہ مخاصمت کے نئے رخ اور مجوزہ اَہداف وترجیحات کی نشاندہی پر مشتمل ہے۔ظاہر ہے کہ ہر دو عناصر لادینی نظریات کے حامل اور وطن و قوم پرستی کے نظریے کے علم بردار ہیں، اور مزاحمت کرنیوالے بھی اسی نظریۂ قوم پرستی کی تائید سے نئی جدوجہد بپا کرنا چاہتے ہیں، تو ایسی صورتحال میں اس مخاصمت سے اسلام اور اہل اسلام کے نظریاتی اہداف کیونکر حاصل ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس مضمون میں اسی خطرہ کی طرف نشاندہی کی گئی ہے کہ مسلم احیا کی تحریکوں کو قوم پرستی پر مشتمل تھرڈ ورلڈ ازم کے خاتمے کی اس دعوت کے حدود اربعہ سے باخبر رہ کر اس سے تعامل کرنا چاہئے۔
اسلام اور سیکولرزم کی اس حالیہ کشمکش میں اسلام کا کردار تاحال اِنفعالی ومفعولی نوعیت کا ہے۔اسلام کی فکری و نظریاتی اور اہل اسلام کی عددی، مالی، تاریخی، جغرافیائی اور ذہنی صلاحیتوں کی بنا پر مغرب کا قائد امریکہ بیداری سے قبل ہی اُمت ِمسلمہ کی قوت کو منتشر کردینے کے درپے ہے۔ لیکن اہل اسلام ابھی تک غافل پڑے سوتے ہیں اور اُمت کی سیاسی قیادت میں کسی نوعیت کی بیداری یا فکرمندی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ اُمت ِمسلمہ میں کس طرح اتحاد واتفاق پیدا کیا جائے، عالمی مسائل میں ان کا موقف کیونکر ایک ہو، ان کے مابین تجارت ومعیشت اور تعلیم و ابلاغ کا براہِ راست قومی ارتباط کیونکر وجود میں آئے؟ یورپ تو چند چھوٹی اور مختلف نظریاتی پس منظر رکھنے والی اَقوام پر مشتمل ہونے کے باوجود امریکہ کے بالمقابل یورو کے نام سے ایک کرنسی وجود میں لا چکا ہے، آپس میں تجارت، عدالت، سیروسیاحت، صنعت وحرفت اور کتنے ہی ایسے اُمور ہیں، جن میں قوم پرستی کی مقدس لکیریں مٹائی جاچکی ہیں، لیکن اُمت ِمسلمہ ایک قرآن، ایک رسول، ایک دین، ایک مرکز، ایک تاریخ اور ایک نظریۂ حیات کے باوجود لاتعداد تقسیم بندیوں کا شکار ہے اور غیروں کی بدترین جارحیت کا شکار ہونے کے باوجود عالمی سیاست میں اس حد تک قابل رحم کیفیت سے دوچار ہے کہ افغانستان وعراق میں امریکی دہشت گردانہ جنگ کی تائید مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی سے صادر ہوتی ہے۔ اُمت اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے غافل مست پڑی سو رہی ہے، نہ اپنے مقام کا شعور، اور نہ ہی اپنی عالمی ذمہ داری کی پروا جب کہ دنیا کے ظالم وجابر حکمران اسے اپنی چالبازیوں اور مکاریوں کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ بہرحال آپ اوپر درج شدہ موضوع پر زیر نظر مضمون ملاحظہ فرمائیں۔ ح م
...... ٭ ......
تحریکاتِ اسلامی میں استعمار مخالفت کی بنیاد پر قوم پرستانہ جدوجہد کا جواز جہاں ایک المیہ ہے، وہیں یہ ایک خطرناک رویہ بھی ہے۔ خطرناک اس لئے کہ یہ رویہ احیاے اسلام کی جدوجہد کی عین ضد ہے۔ اس مختصر مضمون میں ہم ان خطرات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کریں گے جو تحریکاتِ اسلامی کی حکمت ِعملی کو تھرڈ ورلڈ ازم اور مسلم قوم پرستی سے لاحق ہیں۔ تھرڈ ورلڈ ازم تیسری دنیا کی ایک اُبھرتی ہوئی فکری تحریک ہے جس کی بنیادیں انارکزم اور اشتراکیت سے جا ملتی ہیں۔ درحقیقت یہ ایک عالمگیریت مخالف (anti-globalization) تحریک ہے جس کا مقصد مقامی قوم پرستانہ تحریکوں کو فعال بنا کر لبرل سرمایہ داری کے عالمگیر غلبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔ اس تحریک کے کلیدی وکیلوں میںFrantz Fanon, Ahmed Ben Bella, Camal Abdel Nasser, Andre Gunder Frank, Samir Amin and Simon Malley نامی مفکرین شامل ہیں۔ تھرڈ ورلڈ ازم کو اس کی بنیادی خصوصیات کے ضمن میں سمجھا جا سکتا ہے :
استعمار مخالفت
اس تحریک کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام میں استحصال ایک طبقہ کسی دوسرے طبقے کا نہیں کرتا جیسا کہ اشتراکیوں کا خیال ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک تیسری دنیا کے ممالک کا استحصال کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملک کا مزدور تیسری دنیا کے مزدور کے استحصال میں ان معنی میں شامل ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے سرمایہ دار تیسری دنیا کے ذرائع پر قبضہ کرکے جو مادی فوائد اپنے ممالک کے لئے حاصل کرتے ہیں، ترقی یافتہ ممالک کا مزدور بھی ان فوائد سے پوری طرح بہرہ ور ہوتاہے۔ چنانچہ تھرڈ ورلڈ ازم کے خیال میں سرمایہ دارانہ مظالم سے جنم لینے والی اصل کشمکش طبقات کے درمیان نہیں، بلکہ تیسری دنیا کے ممالک اور استعمار کے درمیان برپا ہوتی ہے۔ ان معنی میں 'تھرڈ ورلڈ ازم' ایک استعمار مخالف فکری رویے کا نام ہے۔
قوم پرستی کی حمایت
لہٰذا یہ تحریک قومی آزادی کے لئے برپا کی جانے والی تحریکوں (national liberation movements) کی بھرپور حمایت کرتی ہے اور تیسری دنیا کے ممالک کو یہ دعوت دیتی ہے کہ وہ اپنے ممالک سے امریکی و یورپی استعمار کو بے دخل کرنے اور قومی خود مختاری کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کریں، تاکہ یہ اپنے ملک و قوم کے فیصلے اپنے 'مقامی قومی مفادات ' کے تناظر میں کرسکیں۔ اس تحریک کے مفکرین کے خیال میں استعمار اور ترقی یافتہ ممالک عالمی منڈی اور عالمی تقاضوں کی روشنی میں جو فیصلے تیسری دنیا پر مسلط کرتے ہیں در حقیقت وہ ان ترقی یافتہ ممالک کے اپنے قومی مفادات ہی کا مظہر ہوتے ہیں کیونکہ عالمی منڈی انہی ممالک کے تانے بانے کا دوسرا نام ہے اور صرف یہی ممالک اس عالمی نظام سے عملاً مستفید ہوپاتے ہیں ۔
اشتراکیت سے تعلق
اس تحریک کا اشتراکیت کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے اور بہت سے اشتراکی مفکرین ان تحریکوں کا ساتھ دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اشتراکی مفکرین کے خیال میں تھرڈ ورلڈازم کی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ قوم پرستانہ تحاریک کی کامیابی سے دو فائدے حاصل ہوتے ہیں :
1. ان کے نتیجے میں نظامِ اقتدار پر استعماری نظام کا قبضہ کمزور ہوجاتا ہے، یعنی استعمار کی یہ صلاحیت کم ہوجاتی ہے کہ وہ سرمائے کی تنظیم کے فیصلے سرمائے کے عالمی مراکز اور عالمی مفادات کے تناظر میں نافذ کرواسکے، کیونکہ 'طاقتور قوم پرستانہ ممالک تنظیم' سرمائے کے فیصلے عالمی منڈی و نظام کے مفادات نہیں بلکہ قومی مفادات کی روشنی میں کرتے ہیں (مثلاً ان کی تجارتی و زری پالیسیاں آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک وغیرہ کی تجاویز سے طے نہیں پاتیں بلکہ ان پالیسیوں کو وضع کرتے وقت وہ ان کے ذریعے سرمائے کے اپنے ملک میں مرتکز ہونے کے امکانات کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں، نہ کہ عالمی منڈی کے مفادات کو)۔ اشتراکیوں کے ایک گروہ کے مطابق اشتراکیت کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ہم طویل المدتی مقاصد کے حصول کے لئے جو بھی قلیل المدت حکمت عملی اپنائیں، وہ عوامی اکثریت کے خلاف نہیں ہونی چاہئے، یعنی اگر پاکستانی عوام کسی مخصوص وقت میں 'پاکستانی قوم پرستی' سے مغلوب ہوکر امریکی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے پر آمادہ ہوں تو ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہئے نہ کہ اس کی مخالفت۔
2. ایسے قوم پرستانہ ممالک جو لبرل استعمار سے آزاد ہوں، وہاں اشتراکیت کے اثر و رسوخ کو بڑھانا نسبتاً ان ممالک کے مقابلے میں آسان ہے کہ جہاں یا تو استعمار بالفعل قابض ہو (مثلاً افغانستان یا عراق) یا جن کی حیثیت محض استعمار کی باج گزار ریاست کی ہو (مثلاً پاکستان) ۔
چونکہ 'لبرل عالمگیری استعمار' اشتراکیت کی راہ میں حائل ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے اور قوم پرستانہ تحریکیں اسے کمزور کرنے کا اہم ذریعہ ہیں لہٰذا اشترکیوں کے خیال میں ہمیں قوم پرستانہ تحریکوں کا بھر پور طریقے سے ساتھ دینا چاہئے کہ ان کی کامیابی اشتراکیت کے فروغ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ البتہ اشتراکیوں میں اس امر پر اختلاف بھی پایا جاتا ہے کہ کیا قوم پرستانہ جدوجہد طبقاتی کشمکش کو ختم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے یا نہیں؟
حصولِ جمہوریت و مساوات کی جدوجہد
تھرڈ ورلڈ ازم کی تحریکات کا اصل مقصد 'حقیقی جمہوریت' اور 'حقیقی مساوات' کا حصول ہے، جن کا مطلب یہ ہے کہ
1. لبرل سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا اُفقی (vertical or hirarchical) نظامِ اقتدار تشکیل دیتا ہے جس میں قوت ہمیشہ کم سے کم لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتی چلی جاتی ہے اور نتیجتاً عوامی شمولیت بے معنی اور غیر مؤثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس اُفقی نظامِ اقتدار کو قومی سطح سے اوپر اُٹھ کر عالمی نظام میں تبدیل ہونے سے جتنا ممکن ہو روکا جا ئے تاکہ قومی مسائل کا حل عوامی اُمنگوں کے مطابق تلاش کرنے کے زیادہ مواقع میسر آسکیں نیز حقیقی جمہوریت (عوامی حاکمیت) کو بھی فروغ ملے۔
2. استعماری طاقتیں جن حقوق کی فراہمی اپنے ممالک کی عوام کے لئے یقینی بناتی ہیں تیسری دنیا کے عوام کو عین انہی حقوق سے محروم کرتی ہیں۔ پس اپنے عوام کے لئے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لئے استعمار کے اثر و رسوخ کو کم کرنا لازمی امر ہے۔
پسماندہ طبقوں کے حقوق کی حمایت
درج بالا مقاصد (جمہوریت، مساوات اور قومی ترقی) کے حصول کے لئے ایسے گروہوں کو بھی اپنے اپنے حقوق کی جدوجہد کے لئے متحرک کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے جنہیں موجودہ نظام میں شمولیت کے مواقع نہایت کم مل سکے ہیں یا جو غیر مؤثر سمجھے جاتے ہیں، مثلاً عورتیں، مذہبی طبقات، جنس پرست طبقات وغیرہ۔ ان حقوق کی جدوجہد کے لئے جہاں حکمران طبقے پر عوامی دباؤ کے حربے کو مؤثر طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے، وہیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرنات اثرات، پر اَمن دنیا کے حصول جیسے افکار کو بھی حصولِ جمہوریت و مساوات کے لئے بطورِ دلیل پیش کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح یہ مفکرین 'ترقی' (growth) کے بجائے 'عادلانہ تقسیم دولت' کے نعرے کی اہمیت اُجاگر کرنے اور حکمران طبقے کا اس کی طرف میلان پیدا کرنے کو بھی نہایت ضروری قرار دیتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ہی حقیقی مساوات کا حصول ممکن ہوسکے گا۔
ان تفصیلات سے واضح ہوجانا چاہیے کہ 'تھرڈورلڈ ازم' سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت نہیںبلکہ اس کے مظالم کم کرنے نیز تیسری دنیا کے ممالک کو اس کا عدل فراہم کرنے کی ایک جدوجہد کا نام ہے۔ اس کا مقصد سرمایہ دارانہ مقاصد (آزادی، مساوات و ترقی) کا ہی حصول ہے، جس کے لئے یہ تین جہاتی حکمت ِعملی تجویز کرتی ہے:
(الف) استعماری طاقتوں کی مخالفت
(ب) قوم پرستی کی بھر پور حمایت
(ج) پسماندہ طبقوں کو حقوق کی جدوجہد کی خاطر منظم کرنا
تھرڈ ورلڈ ازم آزادی و ترقی کا انکار نہیں کرتی بلکہ یہ کہتی ہے کہ آزادی و ترقی میں تیسری دنیا کے ممالک کو بھی شرکت وحصہ ملنا چاہئے۔ پس اس قسم کی تحریکوں کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیںبلکہ یہ اسلام مخالف و دشمن تحریکات ہیں ۔
اس بحث سے دوسری چیز یہ بھی واضح ہوتی ہیکہ کسی تحریک کا محض استعمار مخالف ہونا اس کے سرمایہ داری کے خلاف ہونے کی لازمی دلیل ہی نہیں ہوتی، جیسا کہ تھرڈ ورلڈ ازم کی مثال سے واضح ہے۔ استعمار مخالف تحریکیں اکثر و بیشتر اسلامی تحریکات کے لئے غلط فہمیوں کا باعث بن جاتی ہیں کہ ہم ان کی استعمار مخالفت دیکھ کر اُنہیں اپنا ساتھی سمجھنے لگتے ہیں۔
یاد رہنا چاہئے کہ تھرڈ ورلڈ ازم سے متاثر تحریکات امریکہ کی مخالفت اس بنیاد پر کرتی ہیں کہ استعمار تیسری دنیا کے ان حقوق کو سلب کررہا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام اُنہیں دینے کا مکلف ہے،گویا وہ استعمار کو سرمایہ دارانہ عدل کی راہ میں ایک رکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔ یعنی ان کی مخالفت کی بنیاد یہ نہیں کہ استعمار ہیومن رائٹس وغیرہ پر مبنی جس نظام کو ان پر مسلط کرنا چاہتا ہے وہ نظام ہی باطل و ظلم ہے، بلکہ ان کا شکوہ یہ ہے کہ استعمار تیسری دنیا کے ممالک میں ان ہیومن رائٹس کو پامال کررہا ہے جو ان لوگوں کا حق ہیں، یہ تیسری دنیا کے ممالک کے ذرائع پر قبضہ کرکے ان کا استحصال کررہا ہے جس کی وجہ سے یہ ممالک سرمایہ داری سے مستفید نہیں ہو پارہے۔ یہ اُن ممالک کی قومی پالیسیوں پر اثر انداز ہوکر وہاں کے عوام کی اُمنگوں کے مطابق فیصلے نہیں ہونے دیتا وغیرہ۔ ظاہر ہے ان میں سے کوئی بھی دعویٰ ایسا نہیں جو اسلامی تحریکات کے لئے استعمار مخالفت کی بنیاد بنے، کیونکہ ہماری جدوجہد کی اصل بنیاد یہ نہیں کہ استعمار ہمارے لوگوں کے حقوق غصب کررہا ہے یا یہ ہماری قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، بلکہ یہ ہے کہ استعمار ہیومن رائٹس، جمہوریت و ترقی کے نام پر جو کچھ ہم پر مسلط کررہا ہے، وہ ظلم کی ہی دوسری شکل ہے۔ اگر اسلامی تحریکات کے لئے بھی 'قومی سلامتی'، 'ملکی خودمختاری' اور 'عوامی حاکمیت' جیسے تصورات اصل مقاصد بن جائیں اور وہ انہی کی بنیادوں پر اپنی حکمت ِعملی استوار کرنے لگیں تو ایک طرف وہ اپنا اسلامی تشخص کھو دیتی ہیں اور دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کا باعث بنتی ہیں۔ لہٰذا کارکنانِ تحریکاتِ اسلامیہ کے لئے لازم ہے کہ وہ ایسی استعمار مخالف تحریکوں کی حقیقت اچھی طرح پہچان لیں۔
استعمار کی مخالفت کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ حقوق کی جدوجہد استوار کرنے کی ایک وجہ اسلامی تحریکات پر مسلم قوم پرستی کا اثر و نفوذ ہوناہے۔ برصغیر پاک وہند میں مسلم قوم پرستی کی جڑیں نہایت گہری ہیںجس پر مختصراً گفتگو کرنا موجودہ ضمن میں نہایت ضروری ہے :
٭ اُنیسویں صدی میں استعماری غلبے اور اپنی آزادی چھن جانے کے بعد مسلم مفکرین کے پاس فرصت کے اتنے طویل لمحات میسر نہ تھے کہ وہ اپنے زوال کی وجوہات پر گہرے اور علمیاتی منہج پر مبنی غور و فکر کے بعد مستقبل کے لئے کوئی پائیدار لائحہ عمل مرتب کرتے۔ وقت کا تقاضا یہی تھا کہ فوری حل پیش کیا جائے اور ابتری کی اس حالت میں اُنہیں سر سید احمد خاں جیسے مفکرین کی یہ بات معقول نظر آئی کہ مسلمانوں کے زوال کی اصل وجہ سائنس و ٹیکنالوجی اور مادی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانا ہے اور پورپی اَقوام کے عالمی تسلط کاراز اس کی زبردست سائنسی علمیت اور قوت میں پنہاں ہے جس کے ذریعے وہ تسخیر کائنات اور تمتع فی الارض میں کامیاب ہوگئے۔
٭ مسلمانانِ برصغیر میں بڑی حد تک قبول عام حاصل کرنے والی اس فکر سے جو حکمت عملی مرتب ہوئی، اس کا حاصل یہ تھا کہ مسلمانوں کو استعمار کے نافذ کردہ 'نظام کے اندر ' ہی اپنا مقام پیدا کرنا چاہئے اور اس مقصد کے حصول کے لئے کرنے کا اصل کام سائنسی علمیت اور ٹیکنالوجی میں جلد از جلد مہارتِ تامہ حاصل کرنا ہے تاکہ مسلمان بھی زیادہ سے زیادہ معاشی ترقی یعنی تمتع فی الارض کے قابل ہوکر اپنے دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کر سکیں۔
٭ اس تجزئیے کے پیچھے دو مفروضات کار فرما تھے: اوّلاً مسلمانوں کے زوال کا مطلب ان کا معاشی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانا ہے، دوم مسلمان انہی معنی میں ایک قوم ہیں جن معنی میں دیگر اَقوام ہیں کہ ہمارے بھی ان کی طرح کچھ 'اجتماعی مادی حقوق ' ہیں جن کی خاطر ہمیں جدوجہد کرنا ہے، اتنے فرق کے ساتھ کہ ہماری قدرِ مشترک (uniting factor) اسلامیت ہے۔
٭ اس حکمت ِعملی کو شرمندئہ تعبیر کرنے کیلئے مسلم متجددین کو تین محاذوں پر کام کرنا پڑا:
اوّل: اُنہوں نے اسلام کی تعبیر و تشکیل نوع کا بیڑا اٹھایا کیونکہ 'ملا کے اسلام' میں ہر گز یہ گنجائش موجود نہ تھی کہ وہ سائنسی علمیت کا اسلامی جواز فراہم کرسکے، لہٰذا ضرورت اس امرکی تھی کہ اسلام کی معتبر تاریخ اور اجماعی تعبیر کو ردّ کرکے الٰہیات کی ایسی نئی تعبیر و تشکیل کی جائے جو 'موجودہ زمانے کے تقاضوں ' سے ہم آہنگ ہو، ماورا اس سے کہ وہ تقاضے بذاتِ خود اسلام میں جائز ہیں یا ناجائز؟ گویا اس تحریک کے ہم نواؤں کے خیال میں مسلمانوں کے زوال کی اصل وجہ ان کی عملی کوتاہیاں نہیں بلکہ اس اسلامی علمی (epistemological) تعبیر کی خرابی تھی جو اُنہیں اسلاف سے ورثے میں ملی، لہٰذا کرنے کا اصل کام مسلمانوں کی اصلاح و ارشاد نہیں بلکہ اسلامی علمیت کی تشکیل نوع(Reconstruction) و اصلاح (Reformation) ٹھہری ۔
دوم: مسلمانوں میں سائنسی تعلیم کے فروغ کے لئے جدید تعلیمی اداروں کا جال پھیلانا ، اور
سوم: مسلم قوم پرستی کے جذبات کی آبیاری کے لئے 'مسلمانوں کے (سرمایہ دارانہ) حقوق، (مثلاً سرمایہ دارانہ نظم میں ان کے معاشرتی، معاشی، تعلیمی و سیاسی حقوق کے تحفظ ) پر مبنی سیاسی جدوجہد مرتب و منظم کرنا ( یہی مسلم قوم پرستی درحقیقت 'تحریک ِپاکستان' کی اصل بنیاد تھی جیسا کہ مولانا مودودیؒنے اچھی طرح بھانپ لیا تھا کہ یہ خالصتاً ایک 'مسلم قوم پرستانہ تحریک ' ہے اور اسی بنیاد پر وہ اس تحریک سے علیحدہ رہے۔ )
قوم پرستی یہی ہے کہ ایک مخصوص گروہ کے سرمایہ دارانہ مفادات کا تحفظ کیا جائے اور مسلم قوم پرستی کا مطلب مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے (یاد رہنا چاہئے کہ قوم پرستی سرمایہ داری کی مختلف تعبیرات میں سے ایک تعبیرہے)۔ جب یہ اَصل الاصول مان لیا جائے کہ 'ترقی ' ہی معاشرتی و ریاستی عمل کی بنیاد ہے تو اس کے پھیلاؤ کے لئے قوم پرستی کا نظریہ اپنایا جاتاہے، یعنی یہ اُصول کہ ترقی تو ہو مگر میری قوم کی، ارتکازِ سرمایہ ہو مگر میرے ملک و قوم میں۔
مسلم قوم پرستانہ دعوت کی دو بنیادی خصوصیات ہیں:
(الف) سرمایہ دارانہ ریاستی نظام میں مسلمانوں کی شمولیت کا جواز اور اِصرار ('اسلامی جمہوریت ' اور 'اسلامی بینکاری ' اسی فکر کے شاخسانے ہیں جن کا مقصد مسلمانوں کو سرمایہ دارانہ نظم ریاست و معیشت کے اندر سمونا ہے۔)
(ب) مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ: مسلم قوم پرستانہ تحریکوں کو مسلمانوں کی اصلاح و ارشاد کی نہیں بلکہ ان کے مفادات کی فکر لاحق ہوتی ہے، وہ سرمایہ دارانہ اداروں کو مسلمانوں کی ترقی کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہیں، ان کی دعوت کا خلاصہ یہی ہوتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کے حقوق اور مادی مفادات کا ضامن ہے اور اصلاً تمام سرمایہ دارانہ اقدار اسلام ہی کی عکاس ہیں (جیسا کہ مفکر ِپاکستان علامہ اقبالؒ اور قائد پاکستان محمد علی جناح کا خیال تھا)۔
یہ تحریکیں سرمایہ دارانہ انفرادیت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ مسلم دل کی دھڑکن بھی آزادی، ترقی، جمہوریت وغیرہ بن جائے، وہ اسلام کو ایک ثقافتی نشانی (cultural symbol) کے طور پر تو استعمال کرتی ہیں مگر اس کی حاکمیت کے خلاف ہوتی ہیں۔ اس تحریک میں اسلام کا کردار حصولِ ترقی کے لئے محض قوتِ متحرکہ و رابطہ (motivating and binding force) فراہم کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ قوم پرستی استعمار مخالف ہوتی ہے لہٰذا مسلم قوم پرست بھی پورے خلوص کے ساتھ استعمار کی مخالفت کرتا ہے۔
قوم پرستانہ جدوجہد کے جواز اور اس کی دلیل کے بنیادی مقدمات یہ ہوتے ہیں کہ 'مغرب ہم پر غالب ہے، ہمارے زوال کی اصل وجہ سائنسی علمیت کا نہ ہونا ہے، سائنسی علمیت اصلاً ہماری ہی علمیت ہے، اگر سائنسی علمیت غلط ہوتی تو مغرب ہم پر غالب نہ آتا۔ ان تحریکوں کا اعتراض یہ نہیں ہوتا کہ ہم پر ایک غیر قوم کی علمیت کیوں مسلط ہے بلکہ اس کی پکار یہ ہوتی ہے کہ اس علمیت سے نکلنے والے عدل اور حقوق ہمیں کیوں فراہم نہیں کئے جا رہے؟ ہمارے ذرائع پر غیروں کے بجائے ہماراقبضہ کیوں نہیں؟ ہمارے مزدور کو کم اُجرت کیوں ملتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
خیال رہے کہ ہم یہاں کسی کے خلوص پر شک نہیں کررہے، اُنیسویں صدی کے حالات میں جو ممکن نظر آیا، ان حضرات نے اپنے تئیں پورے خلوص کے ساتھ کیا، البتہ اس حکمت ِعملی سے شریعت اور علومِ اسلامی کا غلبہ ممکن نہیں،کیونکہ قوم پرستانہ اہداف کے ساتھ مسلمانوں کی مادی ترقی اور سرمایہ دارانہ مفادات کا تحفظ تو ممکن ہے مگر اسلام کا عروج نا ممکن ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ پچھلی ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط جدوجہد سے عین واضح ہو چکا۔
٭٭٭٭٭