اِسلامی ریاست کے اختیارات کامسئلہ

اللہ تعالیٰ کی وحی کی روشنی میں نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم احکامِ اسلامی کی تشکیل وتعبیر کرتے رہے،جنہیں کتاب وسنت بھی کہا جاتا ہے۔یہی شریعت اور اس کا نفاذ ہے جبکہ جدید سیاسیات میں قانون سازی مقننہ،اس کی تشریح وتعبیر عدلیہ اور اس کا نفاذ حکومت کرتی ہے۔ 'نفاذ' کا لفظ ذو معنی ہے۔ چنانچہ قانون کا جاری ہونا اور اس کی عملداری دونوں کو 'نفاذ'کہتے ہیں۔شریعت کی عرف میں 'کتابت' کا مفہوم نفاذ کے قریب ہے۔ جس کا تفصیلی نقشہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم مہیا کرتی ہے۔ گویا اُمت کتاب اللہ کے علاوہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی پابند ہوتی ہے جس کی حیثیت تا قیامت اَبدی ہے، البتہ اگر نبی حکمران بھی ہو جس طرح بنی اسرائیل میں پہلی دفعہ سیدنا داؤد صلی اللہ علیہ وسلم میں شریعت اور حکومت جمع ہو گئی تھیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انفرادی اور اجتماعی طور پر اجتہاد وتدبیر بھی کرتے رہے جسے سیرت بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شارع کے علاوہ حکمران بھی تھے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت سے خلافت کا دور شروع ہوا جس کی اُمت مسلمہ نگران ہے۔ نفاذ کی تکمیل تو محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کر چکے،اب اُمت مسلمہ کا کام اس کی نگرانی اور عملداری ہے۔ اسی سلسلہ میں انفرادی سطح پر ہر مسلمان شریعت کا مکلف ہے تو اجتماعی سطح پر ملت اسلامیہ اس کی حفاظت اور نگرانی کی ذمہ دار ہے جس میں نماز، روزہ کے علاوہ تمام اسلامی احکام آجاتے ہیں، کیونکہ اسلام جامع دین وشریعت ہے جس میں عقیدہ' عبادات اور خاندانی رسوم ورواج کے علاوہ تہذیب ومعاشرت، معیشت واقتصاد اور سیاست وحکومت سبھی شامل ہیں۔اسلامی حکومت کی جہاں یہ ذمہ داری ہے کہ دین کی عملداری میں اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ وغیرہ کی عملداری کا دھیان رکھے، وہاں یہ بھی ذمہ داری ہے کہ زندگی کے دوسرے اجتماعی میدانوں میں شریعت کی ہر خیر وبرکت کو فروغ دینے اور شر وظلم کو مٹانے کی سعی بجا لائے جس کے لیے شریعت کی اصطلاح امر بالمعروف، نہی عن المنکر ہے۔

امر بالمعروف، نہی عن المنکر کا تصور قانون سے زیادہ وسیع اور بلند تر ہے جس میں دعوت وتبلیغ کے علاوہ خیر وعدل کی عملداری اور شر وظلم کا صفایا دونوں شامل ہیں۔

چونکہ قانون کا مزاج زیادہ تر منفی ہوتا ہے اس لیے اصل قانون وہ ہے جس کی سزا مقرر ہو ورنہ توجیہی قوانین Directive Laws زیادہ تر مقننہ کی خواہشات (Will) کا اظہار ہوتے ہیں' اسی بناء پر بعض دانشوروں کو یہ مغالطہ ہوا ہے کہ شریعت کے مثبت احکام' ریاست وحکومت کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکاۃ کے علاوہ امر بالمعروف، نہی عن المنکر دونوں کو حکومت کی بھی ذمہ داری قرار دیا ہے، لیکن بعض متجددین معروف کو حکومت کی ذمہ داری سے نکالنا چاہتے ہیں' تا کہ شریعت بھی محض قانون بن کر رہ جائے۔ زیر نظر مقالہ اسی قسم کے مغالطوں کی نشاندہی کر رہا ہے جو ہدیۂ قارئین ہے۔ (محدث)

.........


غامدی صاحب کی تجدد پسندی اور اسلام سے جہالت کا حال یہ ہے کہ وہ اسلامی ریاست کو اُس کے بنیادی فرائض اور ذمہ داریوں سے روکتے ہیں اور اُسے اُن اختیارات سے بھی محروم دیکھنا چاہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اُس کو عطا فرمائے ہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:

''ریاست اپنے مسلمان شہریوں کو کسی جرم کے ارتکاب سے روک سکتی اور اُس پر سزا تو دے سکتی ہے لیکن دین کے ایجابی تقاضوں میں سے نماز اور زکوٰۃ کے علاوہ کسی چیز کو بھی قانون کی طاقت سے لوگوں پرنافذ نہیں کرسکتی۔ وہ مثال کے طور پر، اُنہیں روزہ رکھنے کا حکم نہیں دے سکتی۔ اُن میں سے کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم ہوجانے کے باوجود کہ وہ صاحب ِ استطاعت ہے، اُسے حج پر جانے کے لیے مجبور نہیںکرسکتی۔ جہاد و قتال کے لیے جبری بھرتی کا کوئی قانون نافذ نہیں کرسکتی۔ مختصر یہ کہ جرائم کے معاملے میں اُس کا دائرۂ اختیار آخری حد تک وسیع ہے، لیکن شریعت کے اَوامر میں سے ان دو'نماز اور زکوٰۃ'کے سوا باقی سب معاملات دائرۂ اختیار میں نہیں ہے۔'' (میزان: ص۴۹۲،۴۹۳، طبع سوم، مئی ۲۰۰۸ء ، لاہور)

اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ اسلامی ریاست مسلمانوں کو نماز اور زکوٰۃ کے سوا، دین کے کسی اور ایجابی تقاضے یا کسی شرعی امر کا حکم نہیں دے سکتی۔ لہٰذا وہ:

٭ مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم نہیں دے سکتی۔

٭ اُن لوگوں کو جن پر حج فرض ہو، حج پر جانے کے لیے مجبور نہیں کرسکتی۔

٭ جہاد و قتال کے لیے جبری بھرتی کاکوئی قانون نافذ نہیں کرسکتی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ غلط اور غیر اسلامی ہے۔یہ اُن کی جہالت، تجدد پسندی اور اسلام دشمنی کا شاخسانہ ہے اوراُن کے اپنے 'استاد امام' کے اس بارے میں موقف کے بھی خلاف ہے۔

اب ہم اُن کے اس دعوے کا علمی جائزہ لیں گے:

1.قرآنِ مجید اور ریاست کی اطاعت

قرآنِ مجید میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بعد 'اُولوا الامر' یعنی حکمرانوں کی اطاعت کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَأُولِى الأَمرِ‌ مِنكُم ۖ فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّ‌سولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ ۚ ذ‌ٰلِكَ خَيرٌ‌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ٥٩ ﴾... سورة النساء

''اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی،اطاعت کرو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اُن کی جو تم میں سے اہلِ اقتدار ہیں۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیر دو،اگر تم واقعی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اس کا انجام بہت اچھا ہے۔''

اس آیت میں اہل ایمان کو پہلے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا، پھر اولوا الامر یعنی مسلمانوں کے خلیفہ اور حکمران کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔اس آیت سے یہ بھی واضح ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تو ہر حال میں ہے اور غیر مشروط ہے جب کہ اولوا الامر کی اطاعت مشروط ہے اس سے کہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کے خلاف نہ ہو اور اُن کی اطاعت کے تابع ہو۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی ریاست کی اطاعت صرف معروف میں ہے اور منکر یا معصیت کے کاموں میں نہیں ہے۔ اسلامی ریاست جب کسی معروف کا حکم دے تو مسلمان شہریوں پر اُس کی اطاعت لازم ہوجاتی ہے۔

2. اَحادیث اور اسلامی ریاست کی اطاعت

صحیح احادیث میں بھی مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ معروف میں اپنے حکمرانوں کی اطاعت کریں اور معصیت میں اطاعت نہ کریں:

ایک متفق علیہ حدیث یہ ہے کہ

«السمع والطاعة علی المرء المسلم فیما أحب أو کره ما لم یؤمر بمعصیة فإذا أمر بمعصیة فلا سمع ولا طاعة»

''ایک مسلمان پر اپنے امیر کا حکم سننا اور ماننا فرض ہے خواہ اس کا حکم اسے پسند ہو یا ناپسند ، جب تک کہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ اور جب معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر کوئی سمع و طاعت نہیں۔'' (صحیح بخاری: ۷۱۴۴، صحیح مسلم:۴۷۶۳)

ایک اور حدیث میں ہے کہ

«إنما الطاعة في المعروف» (صحیح بخاری:۷۱۴۵)

''اطاعت صرف معروف (کے کاموں) میں ہے۔''

3. حضرت ابوبکرؓ کا پہلا خطبۂ خلافت

مسلمانوں کے خلیفۂ اوّل سیدنا ابوبکر ؓ نے خلیفہ ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں یہ اعلان فرما دیا تھا کہ

«أطیعوني ما أطعت اﷲ وَرسوله فإذا عصیت اﷲ ورسوله فلا طاعة لي علیکم» (کنزالعمال: ج۵؍ حدیث ۲۲۸۲)

''میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا رہوں اور جب میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پرنہیں ہے۔''

اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں حکمرانوں کی اطاعت صرف معروف اور جائز کاموں میں ہے، منکر اور معصیت کے کاموں میں نہیں ہے۔

4. اسلامی ریاست کے فرائض اور اختیارات

قرآنِ حکیم میں اسلامی حکومت کے درج ذیل فرائض بیان ہوئے ہیں:

﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَر‌ضِ أَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ وَأَمَر‌وا بِالمَعر‌وفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ‌ ۗ وَلِلَّهِ عـٰقِبَةُ الأُمورِ‌ ٤١ ﴾... سورة الحج

''یہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو سرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز کا اہتمام کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور انجام کار کا معاملہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔''

دوسرے مقام پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ

﴿وَلتَكُن مِنكُم أُمَّةٌ يَدعونَ إِلَى الخَيرِ‌ وَيَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ ۚ وَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ١٠٤ ﴾... سورة آل عمران

''اور چاہئے کہ تم میں ایک گروہ ایسا ہو جو نیکی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔''

یاد رہے کہ ان دونوں آیات کا ترجمہ ہم نے دانستہ طور پر غامدی صاحب کے 'اُستاد امام ' مولانا اصلاحی کی تفسیر 'تدبر قرآن' سے لیا ہے اور خود غامدی صاحب نے بھی اپنی کتاب 'میزان' میں ان دونوں آیات سے اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں ثابت کی ہیں۔ (ص:۴۸۹،۴۹۰)

مذکورہ آیات کو جو شخص بھی کھلے ذہن کے ساتھ پڑھے گا اُسے معلوم ہوجائے گا کہ اسلامی حکومت ہر 'معروف' کا حکم دینے اور ہر 'منکر' سے روکنے کے لیے قانون بنانے کا اختیار رکھتی ہے۔ قرآن مجید میں یہ دونوں چیزیں معروف اور منکر 'عام' استعمال ہوئے ہیں اور ان کو 'خاص' نہیں کیا جاسکتا۔ یوں نہیں کہا جاسکتا کہ اسلامی حکومت بعض معروف کا حکم دے سکتی ہے اور بعض کا نہیں دے سکتی، کیونکہ خود قرآن نے اس کی کوئی تحدید یا تخصیص نہیں کی۔

البتہ قاعدہ یہی ہے کہ اسلامی حکومت نماز اورزکوٰۃ سمیت ہر 'معروف' کام کا حکم پہلے اخلاقی طور پر تعلیم و تبلیغ اور ترغیب و تلقین کے ذریعے دے گی۔ اس کے نتیجے میں اگر لوگ خوشی سے اور رضاکارانہ طور پر معروف کی پابندی کرلیں گے تو قانون ان سے کوئی تعرض نہیں کرے گا، لیکن اگر اس کے باوجودجو لوگ 'معروف' پر عمل نہیں کریں گے تو اسلامی حکومت قانون کی طاقت سے اُن کو 'معروف' کا پابند کرے گی،کیونکہ قرآن کی رُو سے جس طرح جرائم کے خاتمے اور منکرات کے سد ِباب کے لیے اسلامی ریاست وسیع اختیارات رکھتی ہے، بالکل اسی طرح 'معروف' کی پابندی کرانے کے لیے بھی اُسے ویسے ہی وسیع اختیارات حاصل ہیں۔

یاد رکھئے شریعت کے تمام اَوامر و نواہی کے بارے میں اسلامی ریاست کا یہی دستور العمل ہے،کیونکہ وہ محض واعظ اور ذاکر نہیں ہوتی بلکہ اور دنیا کی ہر حکومت کی طرح صاحب ِاختیار و اقتدار حکمران ہوتی ہے۔

5. روزے کا حکم اور اسلامی ریاست

روزہ رکھنا دین کا ایک ایجابی تقاضا اور ایک شرعی امر ہے اور اسلامی حکومت جو ہر معروف کا حکم دے سکتی ہے، روزے کے معروف کا بھی حکم دے گی۔ وہ پہلے نصیحت اور ترغیب کے انداز میں مسلمانوں کو اس معروف کی تلقین کرے گی اور اگر لوگ اُس کی اس اخلاقی تبلیغ ہی سے روزے کی پابندی کرلیں گے تو وہ قانون کو حرکت میں نہیں لائے گی۔ لیکن جو لوگ اُس کی اس نصیحت اور تلقین پر عمل نہیں کریں گے اور رمضان المبارک میں سرعام روزہ خوری کریں گے تو اسلامی حکومت اُن کو قانون کی طاقت سے روزہ رکھنے پر مجبور کرے گی اور بعض حالات میں مناسب سزا بھی دے گی۔

غامدی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس بارے میں خود اُن کے 'استاد امام' امین احسن اصلاحی کا موقف بھی اُن کے خلاف ہے اور اُن کا موقف یہ ہے کہ خلیفۂ وقت روزے کے شرعی حکم سمیت اللہ تعالیٰ کے تمام منصوص احکام و مسائل کو طاقت کے زور سے نافذ کرسکتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب 'اسلامی ریاست' میں لکھتے ہیں:

''حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب کے جو قبائل مرتد ہوگئے تھے، ان میں ایک گروہ اُن لوگوں کا بھی تھا جو کہتے تھے کہ ہم نماز تو پڑھیں گے لیکن زکوٰۃ نہیں ادا کریں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اُن کو بزورِ شمشیر ادائیگی زکوٰۃ پر مجبور کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ معاملہ اُن کے نزدیک شریعت کے اُن واضح اور منصوص مسائل میں سے تھا جن کے بارے میں دو رائیں نہیں ہوسکتی تھیں۔ اس وجہ سے اس میں اُنہوں نے شوریٰ سے مشورہ حاصل کرنے کا اپنے کو پابند نہیں سمجھا بلکہ روزہ، نماز، حدود، تعزیرات اور اس قسم کے دوسرے مسائل کی طرح اس میں بحیثیت خلیفہ کے اپنی ذمہ داری خدا کے قانون کی تنفیذ سمجھی۔ چنانچہ اُنہوں نے اپنے اس نقطۂ نظر کے مطابق یہ فیصلہ کرلیا کہ اگر یہ اسلامی بیت المال کو زکوٰۃ ادا نہ کریں تو ان کو طاقت کے زور سے اطاعت پر مجبو رکیا جائے۔'' (اسلامی ریاست: ص۴۰، طبع ۲۰۰۶ء دارالتذکیر، لاہور)

اس سے معلوم ہوا کہ مولانا اصلاحی کا موقف یہ ہے کہ اسلامی حکومت مسلمانوں کو نہ صرف روزہ رکھنے کا حکم دے سکتی ہے بلکہ وہ شریعت کے تمام واضح اور منصوص اوامر و مسائل، جن میں نماز، زکوٰۃ، حج، قربانی اور جہاد وغیرہ شامل ہیں، کے نفاذ کے لیے قانون کی طاقت استعمال کرسکتی ہے۔

6. حج کا حکم اور اسلامی ریاست

حج بھی دین کا ایک ایجابی تقاضا اور شرعی امر ہے۔ اسلامی حکومت اپنے عمال سمیت تمام صاحب ِاستطاعت لوگوں کو حج کرنے پر مجبور بھی کرسکتی ہے۔ یہ معاملہ بھی پہلے تعلیم و ترغیب اوروعظ و نصیحت سے شروع ہوگا اور جو لوگ استطاعت کے باوجود حج کرنے میں کوتاہی کریں گے، اسلامی ریاست اُن کو اس فریضے کی ادائیگی کے لیے قانون کی طاقت استعمال کرے گی۔ خلافت ِراشدہ کے دور میں اس کی نظیر موجود ہے۔چنانچہ خلیفۂ دوم حضرت عمر ؓ کا قول ہے کہ

«لو ترك الناس الحج لقاتلتهم علیه کما نقاتلهم علی الصلاة والزکوٰة »

''اگر لوگ (استطاعت کے باوجود) حج کرنا چھوڑ دیں تو میں ان سے جنگ کروں گا جیسے ہم نماز اور زکوۃ چھوڑنے والوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔'' (درّ منثور:۲؍۳۹۳)

اسی طرح امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کا یہ قول بھی ہے کہ:

« لقدهممت أن أبعث رجالا إلی هذه الأمصار فلینظروا کل من کان له جدة،ولم یحج،فیضربوا علیهم الجزیة،ما هم بمسلمین،ما هم بمسلمین» (فتح القدیر:۲؍۲،ابن کثیر:۲؍۸۵،کنز العمال،رقم الحدیث:۱۲۴۰۰)

''میں چاہتا ہوں کہ تمام شہروں اور علاقوں میں کچھ آدمی بھیجوں جو ان لوگوں کا پتہ چلائیں جو استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتے،تا کہ وہ ان پر جزیہ ادا کریں،کیونکہ ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں،ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں۔''

اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست صاحب ِاستطاعت مسلمانوں کو حج کرنے کے لیے قانونی طاقت بھی استعمال کرسکتی ہے۔

7. جہاد و قتال کا حکم

جہاد و قتال بھی دین کا ایک ایسا ایجابی تقاضا اور شرعی امر ہے جس کے بارے میں علماے اسلام کا اتفاق اور اجماع ہے۔

غامدی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ جس طرح دنیا کی کوئی حکومت اپنے ملک کے دفاع سے غفلت نہیںبرت سکتی اور ہنگامی صورتِ حال میں جبری بھرتی کا قانون نافذ کرسکتی ہے۔ اسی طرح اسلامی ریاست بھی اپنے ملک کے دفاع، جسے اسلامی اصطلاح میں جہاد و قتال کہتے ہیں،سے قطعاً غافل نہیں رہ سکتی۔ اسلام میں جہاد و قتال دین کا ایجابی تقاضا بھی ہے اور فریضہ بھی۔ اس کے لیے اسلامی ریاست اپنی تعلیم گاہوں میں نوجوانوں کے لیے جہاد و قتال کی خاطر فوجی تربیت کا حصول لازمی قرار دے سکتی ہے۔ غیر معمولی اور ہنگامی حالات میں جبری بھرتی کا قانون نافذ کرسکتی ہے اور جب وہ نفیر عام (عام لام بندی) کا حکم جاری کردے تو اس کی اطاعت ہر صحت مند جوان مسلمان مرد پر لازم ہوجاتی ہے۔ پھر جو لوگ شرعی عذر کے بغیر ایسے موقع پر جہاد و قتال میں شرکت نہ کریں، اُن کو وہ مناسب سزا بھی دے سکتی ہے۔

قرآن مجید کی سورہ التوبہ میں اُن تین بدری صحابہ کرامؓ کا واقعہ موجود ہے جو غزوۂ تبوک میں شرکت نہیں کرسکے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُن تینوں صحابہ کو معاشرتی مقاطعہ(Social Boycott) کی سزا دی تھی اور اُن کی منکوحہ بیویوں کو بھی اُن سے الگ رہنے کا حکم جاری فرمایا تھا۔ یہ واقعہ صحیح بخاری کتاب التفسیر رقم:۴۶۷۷ میں اور صحیح مسلم: کتاب التوبہ رقم: ۷۰۱۶ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ غامدی صاحب سرے سے جہاد و قتال کے حکم ہی کے منکر ہیں اور اُن کے نزدیک یہ کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ لیکن کیا اُن کے نہ ماننے سے شریعت کا کوئی حکم بدل سکتا ہے؟ع حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں جاتی۔

8. جبری تعلیم اور اسلامی ریاست

آج کی اکثر 'مہذب ریاستوں' میں جبری تعلیم کا قانون موجود ہے جس کی خلاف ورزی پر والدین کے لیے سزا بھی رکھی گئی ہے اور کوئی معقول شخص اس قانون کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ اسلام میں بھی حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے ۔ حدیث میں ہے کہ

«طلب العلم فریضة علی کل مسلم» (ابن ماجہ، رقم :۲۲۴)

''(دین کا) علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔''

اسلامی ریاست بھی اپنے مسلمان شہریوں کو وعظ و نصیحت کے انداز میں لوگوں کو دینی تعلیم کے حصول کے لیے ترغیب دیتی ہے، لیکن جہاں ضرورت ہو، وہاں وہ دین کی بنیادی تعلیم کو جبری طو رپر بھی نافذ کرسکتی ہے۔ خلافت ِراشدہ سے اس کا ثبوت بھی مل جاتا ہے۔

چنانچہ اس بارے میں علامہ شبلی نعمانی ؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب 'الفاروق' میں امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں لکھتے ہیں:

''خانہ بدوش بدؤوں کے لیے قرآنِ مجید کی تعلیم جبری طو رپر قائم کی، چنانچہ ایک شخص کو جس کا نام ابوسفیان تھا، چند آدمیوں کے ساتھ مامور کیا کہ قبائل میں پھر پھر کر ہر شخص کا امتحان لے اور جس کو قرآنِ مجید کا کوئی حصہ یاد نہ ہو اُس کو سزا دے۔'' (الفاروق: ص۲۴۸، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ، لاہور بحوالہ 'اغانی' ج ۱۶؍ ص ۱۵۸، نیز الاصابہ فی احوال الصحابہ میں بھی یہ واقعہ منقول ہے)

اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست دین کی جبری تعلیم قانون بھی نافذ کرسکتی ہے۔ اس کا سبب ظاہر ہے کہ دین کا علم حاصل کرنا دین کا ایک ایجابی تقاضا ہے، ایک شرعی امر ہے اور ایک معروف کام ہے اور یہ اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں ہے کہ وہ اپنے مسلمان شہریوں کو معروف کا حکم دے اور اس کی اُن سے پابندی کرائے۔

9. سرکاری منصب اور اسلامی ریاست

اسلامی ریاست کسی ایسے فرد کو سرکاری عہدہ و منصب قبول کرنے کا حکم بھی دے سکتی ہے جو اُس کے نزدیک اس کا اہل ہو، چنانچہ مصنف عبدالرزاق ج۱۱؍ ص۳۴۸ میں ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے مشہور صحابی سعید بن عامر جمحی ؓ کو شام کے علاقے حمص کا والی(گورنر) بنانا چاہا تو اُنہوں نے انکار کردیا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ نہیں ہوسکتا کہ تم لوگ خلافت کی ساری ذمہ داری کا بوجھ میری گردن پر ڈال دو اور خود اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھ جاؤ۔

یہ جواب سن کر سعید بن عامر ؓ نے وہ عہدہ قبول کرلیا اور اُن کو حمص (شام) کا گورنر بنایا گیا جہاں پر کئی برس تک اس عہدے پر فائز رہے۔ (بحوالہ فقہ عمر: ص۱۱۸،نیز یہ واقعہ صور من حیاۃ الصحابۃ از ڈاکٹر عبدالرحمن رافت پاشا، ص۱۰ پر بھی موجود ہے۔ اس کتاب کا اُردو ترجمہ' حیاتِ صحابہ کے درخشاں پہلو' کے نام سے موجود ہے)

اس مقام پر کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ یہ سرکاری عہدہ قبول کرنے کا معاملہ کوئی دینی کام نہیں تھا یا یہ 'دین کا کوئی ایجابی تقاضا' نہ تھا، کیونکہ اوّل تو اسلام میں دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ ع      جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

دوسرے یہ کہ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ امانتیں اُن کے حق داروں کو پہنچائے اور اسلام میں سرکاری عہدہ و منصب ایک امانت ہے اور یہ امانت صرف اس کے اہل اور باصلاحیت لوگوں ہی کے سپرد کی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ

﴿إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُ‌كُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كانَ سَميعًا بَصيرً‌ا ٥٨ ﴾... سورة النساء

''بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُن کے حق داروں کو پہنچا دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو ۔ اللہ تمہیں کتنی اچھی نصیحت کرتا ہے ۔ بے شک اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔''

10. مسلمان عورت کا شرعی پردہ

مسلمان عورت کا شرعی پردہ بھی دین کا ایک ایجابی تقاضا اور شرعی امر ہے۔ اسلامی ریاست مسلمان خواتین کو شرعی پردے کا پابند کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں تعلیم و تلقین اور نصیحت و ترغیب سے کام لے گی۔اگر اسی سے اُس کا مقصد پورا ہوجائے گا تو وہ قانون کی طاقت استعمال نہیں کرے گی۔ لیکن وعظ و نصیحت کے باوجود جو مسلمان خواتین شرعی پردے کی پابندی نہیں کریں گی، اُن کے خلاف قانون کی طاقت استعمال کی جائے گی۔

اگرچہ غامدی صاحب سرے سے مسلمان عورت کے لیے شرعی پردے ہی کو نہیں مانتے اور اسے محض رسم و رواج قرار دیتے ہیں مگر ساری اُمت کی طرح اُن کے اپنے 'استاد امام' اسے شریعت کا ایک ضروری حکم مانتے ہیں اور اس بارے میں اُن کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ

''جس طرح دنیا کی کوئی حکومت بھی اپنی حدود کے اندر کسی ایسی چیز کو روا نہیں کرسکتی جو معاشرے کی اجتماعی زندگی کو ریاست کے بنیادی اُصولوں کے خلاف متاثر کرنے والی ہو، اسی طرح اسلامی حکومت اپنی حدود کے اندر کسی بھی اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ قحبہ گری یا سودی لین دین کا پیشہ کرے، اگرچہ یہ کسی شخص یا گروہ کے نزدیک جائز اور کارِثواب ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ ملک کی اجتماعی زندگی کے اخلاقی اور معاشی نظام کو بگاڑنے والی چیزیں ہیں۔ اسی طرح غیر مسلم عورتوں کو اگرچہ پردے کی شرعی حدود کا قانوناً پابند نہیں کیا جائے گا لیکن بہرحال اُن کو اس بات کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ مغرب زدہ عورتوں کی طرح لوگوں کے اخلاق بگاڑتی پھریں۔'' (اسلامی ریاست: ص۲۱۹،۲۲۰، طبع ۲۰۰۶ء لاہور)

مولانا اصلاحی کے اس بیان سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ اُن کے نزدیک اسلامی حکومت مسلم خواتین کو نہ صرف قانونی طور پر شرعی پردے کا پابند کرسکتی ہے بلکہ وہ غیر مسلم عورتوں کو بھی ایک مناسب حد تک پردے کا پابند کرکے اُن کو کھلے عام بے پردگی سے روک سکتی ہے۔

11. جو چیز قانون ہے، اُس کا نفاذ کیوں نہ ہو؟

غامدی صاحب اپنی کتاب 'میزان' طبع سوم، مئی ۲۰۰۸ء میں 'قانونِ عبادات' کے عنوان کے تحت روزے،قربانی سمیت تمام اسلامی عبادات کو 'قانون' قرار دیتے ہیں، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ

1. ''روزے کا یہ قانون مسلمانوں کے اِجماع اور تواتر عملی سے ثابت ہے۔'' (ص:۳۶۹)

2. ''قربانی کا جو قانون مسلمانوں کے اجماع اور تواتر عملی سے ہم تک پہنچا ہے ، وہ یہ ہے...'' (ص:۴۰۵)

مزید ''قربانی کا قانون یہی ہے'' (ص:۴۰۶)

3. ''قانونِ عبادت میں نماز، زکوٰۃ، قربانی، عمرہ، حج، روزہ اور اعتکاف شامل ہیں۔'' (ص:۲۶۳ تا۴۰۵)

4.''زکوٰۃ کا قانون مسلمانوں کے اجماع اور تواتر عملی سے ہم تک پہنچا ہے۔'' (ص:۳۵۰)

اب سوال یہ ہے کہ جب روزہ قانون ہے، حج قانون ہے اور قربانی قانون ہے تو ایک اسلامی حکومت اپنے ان 'قوانین' کو نافذ کیوں نہیں کرسکتی۔ سب جانتے ہیں کہ قانون چیز ہی ایسی ہوتی ہے جسے ہرریاست طاقت کے زور سے نافذ کرتی ہے۔ پھر کیا اسلامی ریاست اپاہج اور اتنی بے بس ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے احکام و قوانین کی تنفیذ نہیں کرسکتی اور اس کے لیے طاقت استعمال نہیں کرسکتی۔

پھر اگر غامدی صاحب کی منطق درست مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر اسلامی حکومت منافق ہوتی ہے یا اُسے منافق ہونا چاہئے کہ وہ اپنے ملکی قوانین میں سے جس قانون کو چاہے، طاقت سے نافذ کردے اور جس قانون کو چاہے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دے اور اس کے لیے نہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہو اور نہ بندوں کے سامنے۔ غور کیجئے یہ کتنا بھیانک تصور ہے اسلامی ریاست کے بارے میں جو غامدی صاحب کی کھوپڑی سے برآمد ہوا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بے اصل اور خلافِ اسلام ہے کہ ایک اسلامی ریاست نمازاور زکوٰۃ کے سوا کسی شرعی کام یا دین کے کسی ایجابی تقاضے کا حکم نہیں دے سکتی۔ البتہ اسلامی حکومت امر بالمعروف اور نہی عن المنکردونوں کے معاملے میں پہلے مرحلے میں تعلیم و تبلیغ اور ترغیب و تلقین سے کام لے گی لیکن جو لوگ اس سے اِصلاح پذیر نہ ہوں، اُن کی اصلاح کے لیے قانون کی طاقت استعمال کرے گی اور جس طرح کسی منکر کو مٹانے کے لیے وہ وسیع انتظامی اور صوابدیدی اختیارات رکھتی ہے، اُسی طرح معروف کا حکم دینے میں بھی اُسے وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ آج کے مہذب معاشروں کی حکومتوں کے مقابلے میں کم اختیارات کی حامل نہیں ہوتی۔

٭٭٭٭٭