حاجی حضرات کے لئے چند رہنما تجاویز

حج اسلام کا ایک اہم فریضہ اور ایسی عبادت ہے جس میں بے شمار حکمتوں اور فوائد کے خزانے بھرے پڑے ہیں جن کو سمیٹ کر انسان دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوسکتا ہے۔ اللہ عزوجل اس حقیقت کا اظہار یوں فرماتے ہیں: ﴿لِيَشهَدوا مَنـٰفِعَ لَهُم...٢٨ ﴾... سورة الحج
"لوگوں کو چاہئے کہ یہاں آکر دیکھیں کہ حج میں ان کیلئے کیسے کیسے دینی اور دنیاوی فوائد ہیں"
حج بلا شبہ ایک بابرکت اور باعث ِاجر و ثواب سنت ؟؟ہے۔ لیکن اس صورت میں جب ان تعلیمات کو پیش نگاہ رکھا جائے جو رسول اللہﷺ نے اُمت کے لئے بیان فرمائی ہیں۔ بعض اوقات ؟؟
یہ صورتِ حال انتہائی اندوہناک ہے کہ لوگوں کو اپنی غلطیوں اوربعض اوقات دوسروں کی غلطیوں کی وجہ سے بہت سی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ تو جزع فزع کرکے اپنا اجروثواب ضائع کربیٹھتے ہیں تو دوسری طرف حج کے مطلوب مقاصد تزکیہٴ نفس، حصولِ تقویٰ اور روحانی سکون سے محروم رہتے ہیں اورانہیں سوائے سفر کی صعوبتوں کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس افسوسناک صورتِ حال سے بچنے کے لئے ہم بعض ایسی ہدایات نقل کررہے ہیں جن پرعمل پیرا ہوکر حجاجِ کرام جہاں حج کے بے پناہ فوائد کو سمیٹ سکتے ہیں، وہاں وہ بہت سی پریشانیوں سے بھی بچ سکتے ہیں۔
(1) ہر عازمِ حج کو چاہئے کہ اللہ کے گھر کی طرف روانگی سے قبل لوگوں کے حقوق اور امانتیں ادا کردے۔ کسی پر ظلم یا زیادتی کی ہے تو اس سے معاف کروالے۔ فرض ادا کردے اور جن سے لاتعلقی اختیار رکھی ہے، صلہ رحمی کا ثبوت دیتے ہوئے ان سے صلح کرلے، نا معلوم واپس آنا نصیب ہو کہ نہ ہو۔
(2) سفر حج پر روانگی سے قبل خلوصِ نیت کے ساتھ سابقہ گناہوں سے توبہ کرلے۔ یعنی اب کسی بھی گناہ سے اپنے دامن کو آلودہ نہ کرے۔مصمم ارادہ کرے کہ آئندہ اپنے دامن پر گناہوں کی غلاظت کا چھینٹا تک نہ پڑنے دے گا اور سابقہ گناہوں پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے گڑگڑا کر اللہ سے معافی مانگ لے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿وَتوبوا إِلَى اللَّهِ جَميعًا أَيُّهَ المُؤمِنونَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ٣١ ﴾... سورة النور
"اے ایمان والو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ تائب ہوجاؤ، تاکہ تم فلاح پاسکو۔"
(3) ہر عازمِ حج کو چاہئے کہ اللہ کا تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرے اور حتیٰ الامکان کوشش کرے کہ سفر حج اور ادائے مناسک ِحج کے دوران اپنے دامن کو کسی ایسے گناہ سے داغدار نہ ہونے دے جسے اللہ اور اس کے سولﷺ نے بحالت ِاحرام، حرام ٹھہرایا ہے۔ خصوصاً بیہودہ گوئی، شہوانیت پرستانہ افعال، لڑائی جھگڑا، سگریٹ نوشی، دیگر فسق و فجور کے اُمور، خاص طور پر جھوٹ اور غیبت سے بچے۔ اللہ کے دربار میں حاضر ہونے والے کو یہ کام زیب نہیں دیتے۔ اللہ کا فرمان ہے:
﴿فَمَن فَرَ‌ضَ فيهِنَّ الحَجَّ فَلا رَ‌فَثَ وَلا فُسوقَ وَلا جِدالَ فِى الحَجِّ وَما تَفعَلوا مِن خَيرٍ‌ يَعلَمهُ اللَّهُ...١٩٧ ﴾... سورة الحج
"جو حج کا احرام باندھے تو پھر شہوت کی باتیں کرنا، گناہ اور لڑائی جھگڑا کرنا اسے زیب نہیں دیتا"
٭ بیت اللہ اور روضہٴ رسولﷺ پر حاضری سے قبل اپنے چہرے کو پیغمبر کی سنت سے سجالے اور پختہ عہد کرے کہ آئندہ پیغمبر کی سنت ِمطہرہ کو کاٹ کاٹ کر گندی نالیوں میں نہیں پھینکے گا۔
(4) پھر حج و عمرہ جیسے جلیل القدر عمل کو ریا کاری، شہرت کا ذریعہ ہرگز نہ بنایا جائے۔ بلکہ حاجی کو چاہئے کہ روانگی کے وقت اپنے دل کو خلوص اور للہیت کے زیور سے آراستہ کرلے، کیونکہ خلوص ہر عمل کے لئے بنیادی شرط ہے۔
(5) ہر وہ شخص جو حج کا ارادہ رکھتا ہو، اُسے اپنے ذریعہ معاش کو ایک نظر دیکھ لینا چاہئے۔ حرام کمائی سے کیا ہوا حج یقینا اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگا۔ پیغمبر نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا: «يطيل السفر أشعث  أغبر...؟... لذالك»مسلم:حديث2343
"جو طول طویل سفر کرکے آتا ہے، اس کے بال پراگندہ ہیں،جسم گردوغبار سے اَٹا ہوا ہے۔ وہ آسمان کی طرف اپنے ہاتھ پھیلا کر یاربّ یاربّ کی صدا لگاتا ہے۔ ربّ سے دعائیں مانگتا ہے۔ لیکن اس کا کھانا حرام کا، پینا حرام کا، اس کاپہنا حرام، اس کی ساری غذا حرام سے، بھلا ایسے شخص کی دعائیں کہاں سنی جائیں گی؟"
یہ با ت بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ وہ مال کبھی پاکیزہ نہیں ہوسکتا جس سے زکوٰة ادا نہ کی جائے۔
(6) یہ بات کس قدر افسوس ناک ہے کہ بعض لوگ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اپنا بیشتر وقت خریداری اور ہوٹلوں میں سگریٹ نوشی میں ضائع کردیتے ہیں۔ اس سے تلاوتِ قرآن، ادعیہ واذکار، توبہ و استغفار اور اللہ کو راضی کرنے کے بہت سے قیمتی لمحات تو ضائع ہوتے ہی ہیں، اس کے ساتھ حرم شریف کی لاکھ درجہ فضیلت رکھنے والی نمازِ باجماعت سے بھی اپنے آپ کو محروم کرکے وہ اپنے لئے بدبختی کا سامان کرتے ہیں۔ او ربعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن بے چاروں کو نماز تک نہیں آتی۔ سفر حج کے روانہ ہونے سے پہلے انہیں نماز سکھانا بھی ہمارا دینی فریضہ ہے۔
(7) اََن پڑھ حضرات کو چاہئے کہ وہ سفر حج پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے کسی پڑھے لکھے عزیز کے ذریعے کاغذات کی فائل بنوالیں تاکہ بعد میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس غرض کے لئے ماسٹر ٹرینر کو کاغذات مرتب کرنے کا طریقہ تحریری دے دیا جائے۔
عازمین حج کو چاہئے کہ حجاج کیمپ، حج ٹرمینل، طیارے پر چڑھتے ، اُترتے ، غرض ہر مقام پر نظم ونسق اور ڈسپلن کا مظاہرہ کریں اور جدہ ایئر پورٹ پر جہاں بٹھایا جائے، وہاں سے اِدھر اُدھر نہ ہوں۔
(8) ایسے بھی ہوتا ہے کہ بعض خواتین غیر محرم مردوں کو عارضی طور پر اپنا 'محرم' بنا کر حج پر روانہ ہوجاتی ہیں۔ ایسا کرنے سے خواتین کو کس قدر تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے، اگر اس کا اندازہ اُنہیں آغازِ سفر سے پہلے ہوجائے تو وہ کبھی ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہوں۔علاوہ ازیں شریعت مطہرہ کی خلاف ورزی بھی اس پر مستزاد ہے۔ اللہ کے ایک حکم کی نافرمانی کرکے حج جیسا دوسرا عمل بجا لانے کی کوشش اپنے آپ کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔
(9) دورانِ سفر اپنے سارے کام خود انجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دوسروں پر بوجھ سے حتیٰ الوسع گریز کیا جائے۔ بوڑھوں، عورتوں او ربیماروں کو بروقت اپنے دست ِتعاون کا مستحق سمجھئے۔ رفقاءِ سفر سے گلے شکوے اوران کی غیبت سے بھی ہرممکن گریز کیجئے۔ جو شخص کسی کی مصیبت کو دور کرتا ہے، اللہ روزِ قیامت اس کی مصیبتوں کو دور فرمائے گا۔ لہٰذا حجاج کی خدمت کو اپنا فرض سمجھئے، بیماروں کی عیادت کیجئے۔ ان کا علاج کروائیے۔ جو کمزور ہیں، طواف کرنے اور دیگر اُمورِ حج میں ہر ممکن ان کا تعاون کیجئے۔
طواف کے دوران اِن بوڑھوں اور عورتوں کے لئے راستہ چھوڑ دیجئے۔ ان باتوں پرعمل کرنے سے ہی انسان اس حدیث کا صحیح مصداق بن سکتا ہے جس میں آتا ہے کہ "حج سے واپسی کے بعد انسان گناہ کی غلاظتوں سے اس طرح پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔"
٭ یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہئے کہ حج کا سفر سیروسیاحت یا تجارت کا سفر نہیں بلکہ اللہ سے دعائیں مانگنے، گناہوں سے توبہ کرنے سے، ندامت کے آنسو بہانے، بارہا اللہ سے استغفار کرنے اور مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کرنے کا سفر ہے۔ لہٰذا رو رو کر کثرت سے یہ دعا کیجئے
«اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ الَّذِيْ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ هُوَالْحَيُّ الْقَيُّوْمُ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ، اَللّٰهُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌ کَرِيْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ»
"میں اللہ سے استفار کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ ہردم بیدار اور قائم رہنے والا ہے۔ اے اللہ ! تو معاف کرنے والا مہربان ہے، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، مجھے معاف فرمادے۔"
او راُٹھتے بیٹھتے درود شریف کا بھی التزام کیجئے، مسنون درود شریف احادیث میں یوں آتا ہے
«اللهم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صليت علی إبراهيم وعلی آل إبراهيم إنك حميد مجيد ... اللهم بارك علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی إبراهيم وعلی آل إبراهيم إنك حميد مجيد»
درود کی عام طور پر مروّج دیگر صورتیں نبی کریم سے ثابت نہیں، ان سے احتراز ہی بہتر ہے۔
(10) حجاج کرام کو رفقاءِ سفر کی تکلیف کا خاص طور پر احساس کرنا چاہئے۔ ہر اس کام سے احتراز کریں جس سے دوسرے ساتھی کو تکلیف پہنچ سکتی ہو: المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده رفع حاجت کے بعد فلش چلا دیجئے تاکہ بعد میں آنے والوں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایسے موقع پر ایثار سے کام لیتے ہوئے بوڑھوں او رکمزوروں کو پہلے موقع دیں اور لیٹرین، غسل خانہ کو جلد از جلد فارغ کرنے کی کوشش کریں۔ عام استعمال کی چیزوں میں بخل سے کام نہ لیں۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ نے ہلاکت کی وعید سنائی ہے۔ وہاں اگر کہیں کھانا وغیرہ تقسیم ہو تو بعض لوگ بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں اور پھر ذخیرہ اندوزی کے لئے دوبارہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ چیز اسلامی آداب کے منافی اور وقار وشائستگی کے بھی خلاف ہے جو کم از کم ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔
(11) سفر حج کے دوران آب و ہوا اور موسم کی تبدیلی کی وجہ سے حجاج کو کم از کم ایک باربیماری کے تجربہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا حسب ِضرورت ادویات گھر سے لے کر نکلئے، مکہ مکرمہ او رمدینہ منورہ قیام کے دوران پاکستان ہاؤس میں پاکستانی سفارتخانہ کے زیرنگرانی عملہ چوبیس گھنٹے کام کرتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر وہاں بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسجد ِحرام کے بالکل نزدیک 'اجیاد ہسپتال' بھی موجود ہے جہاں حکومت ِسعودیہ کی طرف سے حجاج کرام کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔
(12) سعی اور طواف کے دوران ہجوم کی وجہ سے اکثر حاجی اپنے گروپ سے بچھڑ جاتے ہیں، یہ لمحہ کافی پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ حرم شریف کے اندر ہی کوئی ایسی خاص جگہ متعین کرلی جائے تاکہ سعی اورطو اف کے بعد تمام افراد وہاں جمع ہوسکیں۔ علاوہ ازیں سعی اور طواف کے لئے بڑے گروپ کی بجائے اگر دو تین افراد کا ایک گروپ بنا لیا جائے تو بچھڑنے کا خطرہ کافی کم ہوجاتا ہے۔
(13) رمی جمار ایک خاصا مشکل مرحلہ ہوتا ہے جہاں بعض افراد بد احتیاطی کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ذاتی تحفظ اور سلامتی کے لئے درج ذیل چند ہدایات کو پیش نظر کافی مفید ہوگا:
(ا) اضافی اشیا مثلاً چھتری، گھڑی، عینک وغیرہ ساتھ لے کر نہ جائیں،بہتر ہے کہ جوتے بھی اُتار لئے جائیں
(ب) 'رمی' کرنے کیلئے منیٰ سے مکہ کی سمت کا راستہ اختیار کریں اور واپسی پر کوئی متبادل راستہ اختیار کریں
(ج) رمی جمار کیلئے پل کے اوپر اور نیچے دو راستے ہیں۔ پل کے اوپر سے رمی کرنا آسان اور زیادہ محفوظ ہے
(د) اگر ہجوم او ربدنظمی کی وجہ سے نازک صورتحال پیش آنے کا خدشہ ہو تو خواتین کو چاہئے کہ وہ خود رمی کرنے کی بجائے یہ کام اپنے محرموں کے ذمہ لگا دیں۔
(14) عازمین حج کو چاہئے کہ وہ سفر پر روانگی سے قبل حج کے ضروری مسائل و اَحکام ضرور سیکھ لیں۔ خصوصاً قرآنی و نبوی دعائیں ضروریاد کرنی چاہئیں اور ہوسکے تو ان دعاؤں کا ترجمہ بھی یاد کرلینا چاہئے۔
اللہ سے دُعا ہے کہ وہ ہمارے حج قبول فرمائے اور اسے اُمت ِمسلمہ پر اپنی رحمتوں کا ذریعہ بنائے۔ آمین !

٭٭٭٭٭