جہادی تنظیمیں، دینی مدارس اور حکومتی پالیسی

یوں تو گذشتہ کئی برسوں سے یہود و ہنود کی ایجنٹ این جی اوز پاکستان کے دینی مدارس کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کی مہم برپا کئے ہوئے ہیں مگر جنگ ِافغانستان میں طالبان کی عسکری شکست کے بعد سیکولر طبقہ ایک نئے جوش ولولہ کے ساتھ دینی مدارس کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہے۔ سب سے افسوس ناک امر یہ ہے کہ امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں دینی مدارس پر انتہا پسندوں کی آماجگاہیں اور 'دہشت گردوں کی نرسریاں' جیسے بے ہودہ الزامات کی تکرار کی جارہی ہے۔ کبھی صدرِ مملکت جنرل پرویز مشرف پاکستان سے 'انتہا پسندی' کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعلان کرتے ہیں تو کبھی سیکولرزم کو 'دین' کا درجہ دینے والے پاکستان کے وزیرداخلہ جناب معین الدین حیدر دینی مدارس سے فارغ التحصیل علماء اور دینی راہنماؤں کو 'چند قاعدے' پڑھنے والے جاہل افراد کا دل آزار طعنہ دیتے ہیں۔
انگریزی سیکولر پریس اپنے زہریلے مضامین کے ذریعے سیکولر حکومت کو دینی مدارس کے خلاف انتہائی اقدام اٹھانے کے لئے بے حد اشتعال انگیز مہم برپا کئے ہوئے ہے۔ سیکولر صحافی اپنے مضامین میں جنرل پرویز مشرف کو اُکسا رہے ہیں کہ دینی مدارس کے خلاف بھرپور اقدام اُٹھانے کا اس سے زیادہ مناسب موقع پھر ہاتھ نہیں آئے گا کیونکہ طالبان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد پاکستان کا دینی طبقہ اس وقت سخت حزن و ملال اور مایوسی میں مبتلا ہے، وہ اس وقت حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
عید الفطر کے فوراً بعد جہادی تنظیموں اور دینی مدارس کے خلاف حکومت ِپاکستان کی جانب سے وسیع پیمانے پر 'کریک ڈاؤن' کا آغاز کردیا گیا ہے۔ لشکر ِطیبہ کے امیر حافظ محمد سعید اور جیش محمد کے سالار مولانا اظہر مسعود کے علاوہ جہادی تنظیموں سے وابستہ سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ جہادی تنظیموں کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے نیٹ ورک کو تباہ کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ کا بازار گرم نظر آتا ہے، ان کے دفاتر کو جبراً بند کرایا جارہا ہے۔ امریکی ہدایات کی تعمیل میں لشکر ِطیبہ اور جیش محمد کے اکاؤنٹس منجمد کردیئے گئے ہیں۔ اس سے پہلے 'الرشید ٹرسٹ' اور 'الخیر فاؤنڈیشن' جیسے بے ضرر فلاحی اداروں کے اکاؤنٹس بھی منجمد کئے جاچکے ہیں۔ دینی مدارس میں سرکاری کارندے پڑتال کے بہانے گھس کر خوف وہراس پھیلا رہے ہیں۔
اسلامی ریاست پاکستان کا ازلی دشمن بھارت اپنی فوجوں کا جم غفیر پاکستانی سرحدوں پر لے آیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم واجپائی، وزیر دفاع جارج فرنانڈس، وزیرداخلہ لال کشن ایڈوانی اور دیگر بھارتی راہنما پاکستان کے خلاف جارحیت کی کھلم کھلا دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ۱۳/ دسمبر ۲۰۰۱ء کو بھارتی پارلیمنٹ پر 'را' کی طرف سے تیارکردہ سازش (مصنوعی حملہ)کی آڑ میں پاکستان پر کشمیر سے دستبردار ہونے کے لئے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر ۷/اکتوبر کو فوجی یلغار سے پہلے طالبان سے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے راہنماؤں کی حوالگی کا جس انداز میں مطالبہ کیا تھا، بالکل اُسی اسلوب میں بھارت پاکستان سے جہادی تنظیموں کے سربراہوں کی حوالگی کا مطالبہ کررہا ہے۔ اس توہین آمیز مطالبہ کی عدمِ تعمیل کی صورت میں پاکستان کو سنگین ترین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
حکومت ِپاکستان کی جانب سے بزدل بھارتی دشمن کی اس شرانگیزی کا موٴثر اور جرأت مندانہ جواب دینے کی بجائے بے حد حوصلہ شکن اور معذرت خواہانہ انداز اپنا یا جارہا ہے۔ پاکستان پر بھارت کے ممکنہ جارحانہ حملے کے امکانات کو اپنے تئیں کم کرنے کے لئے حکومت ِپاکستان کی طرف سے جہادی تنظیموں اور دینی مدارس کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ پاکستانی پریس کا سیکولر حصہ بھی دینی مدارس اور جہادی تنظیموں کا ذکر اس انداز میں کررہا ہے کہ گویا ان مدارس میں قرآن و سنت کی تعلیمات دینے کی بجائے دہشت گردی کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں پاکستان میں دین پسند طبقات میں مایوسی، غیر یقینی صورتحال اور پریشانی کا پیدا ہونا ایک منطقی امرہے۔ مذکورہ بالاغیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل کی وجہ سے پاکستان میں دینی مدارس کے مستقبل کے متعلق بھی خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
مشرف حکومت اور دینی مدارس کے درمیان بداعتمادی کی فضا پیدا کرنے میں جہاں جنگ ِافغانستان میں امریکہ سے تعاون کی حکومتی پالیسی نے کردار ادا کیا ہے، وہاں بعض حکومتی وزراء کے اشتعال انگیز بیانات نے بھی حالات کو بگاڑنے میں کچھ کم کردار ادا نہیں کیا۔ ان میں وزیرداخلہ جناب معین الدین حیدر کا نام سرفہرست ہے۔ موصوف طالبان کا غصہ بھی دینی مدارس پر نکالنا چاہتے ہیں۔ ۲۰/دسمبر ۲۰۰۱ء کو روزنامہ 'جنگ' کے زیر اہتمام 'دہشت گردی، عالم اسلام کو درپیش چیلنج' کے زیر عنوان ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیرداخلہ نے کہا: "ملکی باگ ڈور چند قاعدے پڑھنے والے جاہلوں کے ہاتھ میں نہیں دے سکتے۔" (جنگ، نوائے وقت: ۲۱/ دسمبر۲۰۰۱ء) اس سے چند روز پہلے وہ دینی راہنماؤں کے متعلق 'خوش گفتاری' کا مظاہرہ ان الفاظ میں کرچکے تھے: "حکومت کسی سٹریٹ پاور سے نہیں ڈرتی۔ جوتا دکھانے والوں کے سر پر جوتے برسائیں گے۔ حکومت دین کی اشاعت کے لبادے میں منافرت پھیلانے والوں سے سختی کے ساتھ نمٹے گی۔" (انصاف : ۱۰ /دسمبر ۲۰۰۱ء) موصوف نے یہ بیان دارالعلوم کورنگی کے موقع پر مفتی رفیع عثمانی ، جسٹس تقی عثمانی اور دیگر علماءِ کرام سے گفتگو کے دوران دیا، گویا کہ ایک رسمی مروّت اور لحاظ کی جو توقع ایسے موقعوں پر کی جاتی ہے، وہ اس کو ملحوظِ خاطر رکھنے سے بھی قاصر رہے۔
اس وقت جبکہ بھارت نے مملکت ِپاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کے لئے سنگین خطرات پیدا کردیے ہیں، حکومت اور دینی حلقوں کے درمیان حالیہ محاذ آرائی کسی بھی اعتبار سے قومی مفاد سے مطابقت نہیں رکھتی۔ غیر ذمہ دارانہ بیانات سے قومی یک جہتی کو تباہ کرنے کے علاوہ کوئی مقصد مطلب حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ شاید اسی بات کا احساس کرتے ہوئے ۲۷/د سمبر ۲۰۰۱ء کو صدر جنرل پرویز مشرف اور علماء کرام کے درمیان وزارت مذہبی اُمور نے ایک ملاقات کا اہتمام کرایا۔ اس ملاقات میں ۳۶ علماء اور جنرل پرویز مشرف کے ہمراہ تقریباً ایک درجن سرکاری اہل کار اور وزراء موجود تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ میں ایک عرصہ سے خواہش رکھتا تھا کہ علماء سے ملاقات کروں لیکن موقع نہ مل سکا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مختلف اُمور، حالاتِ حاضرہ اور حکومتی پالیسی کے متعلق اظہارِ خیال کیا۔ فرد و ملت کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے جنرل مشرف نے پاکستان کی قومی اور بین الاقوامی صورتحال کا تجزیہ پیش کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی طرف سے حقوق اللہ کے بارے میں تنگ نظری اور حقوق العباد کے بارے میں بے اعتنائی کا شکوہ کیا۔ اس طرح قومی سطح پر مسلکی تعصب اور مذہبی دھڑے بندی کی صورتحال پر افسوس کا اظہار بھی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عالم اسلام کی واحد جوہری قوت ہے جس کی طرف پوری اسلامی دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اپنے خطاب میں جنرل پرویز مشرف نے دینی مدارس کے علمی اور رفاہی کردار کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ برصغیر کے مثالی ویلفیئر (فلاحی) اِدارے ہیں جن میں لاکھوں طلباء اور اساتذہ بغیر کسی حکومتی سرپرستی کے دین و علم پھیلا رہے ہیں لیکن دورِ حاضر میں انہیں اعلیٰ مقاصد کے لئے منظم اور دین و دنیا کا جامع بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم نیوکلیئرپاور ضرور ہیں لیکن یہاں بعض مدارس اور مساجد لوگوں میں منافرت پھیلاتے ہیں۔ انہوں نے بعض فرقہ وارانہ تنظیموں کا نام لیتے ہوئے بتایا کہ وہ دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ انہوں نے علماء سے اپیل کی کہ وہ منافرت پھیلانے والوں کے خلاف حکومت سے تعاون کریں۔
جنرل پرویز مشرف نے دینی مدارس کے خلاف شائع ہونے والی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اخبارات میں جو خبریں شائع ہوتی ہیں، وہ غلط ہیں۔ ہم مدارس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ کریک ڈاؤن کی خبریں جھوٹا پراپیگنڈہ ہیں۔ انہوں نے کہا میں تو باہر کے دورے کے دوران بھی خود مدارس کی تعریف کرتا ہوں، میں کہتا ہوں کہ یہ بہترین ویلفیئر ادارے ہیں، مفت میں قوم کے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، دس لاکھ بچوں کی کفالت کرتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ جس طرح دوسری تعلیم کے فضلا ہر سطح پر ملازمت کرتے ہیں، اسی طرح دینی مدارس کے فضلا کو بھی ملازمت کے مواقع حاصل ہوں۔ نئے آرڈیننس کاذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے 'مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس' نافذ کیا ہے، اس کے تحت ماڈل دینی مدارس قائم کئے جائیں گے۔ جو لوگ چاہیں ،اس سے منسلک ہوجائیں اور جو چاہیں آزادانہ طور پر کام کریں۔ جنرل (ریٹائرڈ) معین الدین حیدر کے بیانات کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومتی پالیسی یہ نہیں ہے۔ انہوں نے جنگ ِافغانستان کے متعلق حکومتی پالیسی کا دفاع بھی کیا۔
جنرل پرویز مشرف کے اس تفصیلی خطاب کے بعد چند علماء نے اظہارِ خیال بھی کیا۔ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے مدیر اور محدث کے مدیر اعلیٰ حافظ عبدالرحمن مدنی نے جنرل پرویز مشرف کے خیالات کو عمل سے قطع نظر تجریدی طور پر سراہا اور کہاکہ ان عالی خیالات کے باوصف ہمیں اپنے ملی کردار کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانیوں کا انفرادی کردار اچھا تو نہیں لیکن باقی اسلامی دنیا کے مقابلے میں ان کا اسلامی جذبہ ہمیشہ قابل قدر رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر حلقے جن مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو اُچھالتے رہتے ہیں، وہ مسجد کی حد تک محدود ہیں۔ جہاں تک معاشرے کی اسلامی تعمیر اور ملک میں نفاذِ شریعت کا تعلق ہے، اس میں تمام مسالک اور فرقے ہم آواز ہیں۔ اس لئے ملک میں نفاذِ شریعت کے مسئلہ میں دینی حلقوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لہٰذا حکومت کے ذمہ داروں کو نفاذِ شریعت کے سلسلے میں سیکولر حلقوں کے منفی پراپیگنڈہ کو زیادہ وقعت نہیں دینی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کا عالمی کردار ہماری ملی صورتحال کی کوئی اچھی تصویر کشی نہیں کرتا۔ میں نے گذشتہ دنوں بیرونِ پاکستان چند ممالک کا دورہ کیا ہے، جس میں مجھے اسلامی دنیا کے اہم ممالک کی پاکستان کے بارے میں تشویش کا شدید احساس ہوا۔ انہوں نے اپنے ذاتی مشاہدات کے حوالہ سے بتایا کہ قبل ازیں جس پاکستان کو اسلامی دنیا میں حرمین شریفین کا سا تقدس اور احترام حاصل تھا، اسلامی نیوکلیئر پاور ہونے کی بنا پر پاکستانی کو عالم اسلام کا محافظ سمجھا جاتا تھا مگر جس طرح ہم نے اپنے ہمسایہ مسلمان ملک افغانستان کی اہم حیثیت کو نظر انداز کرکے امریکی سپر پاور کے سامنے سپراندازی کی ہے، اس سے اسلامی دنیا نہایت پریشان ہے کیونکہ پاکستان کے اس کردار کے بعد وہ پاکستان سے اپنے 'محافظ' ہونے کے بارے میں کوئی اچھی اُمید نہیں رکھ سکتے گویا پاکستان کی فوجی ہیبت ختم ہوکر اس کی کمزوری واضح ہوگئی ہے۔ جہاں تک امریکی سپرپاور کی مدد کرتے ہوئے پاکستان کا نام نہاد دہشت گردوں کے خلاف عالمی اتحاد میں شامل ہونے کا تعلق ہے، سیکولر قوتیں اسلامی دنیا کو یہی باور کرانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ یہ کفر اور اسلام کی جنگ نہیں ہے۔ چنانچہ کبھی اسامہ بن لادن کو دہشت گردی کا ہوا بنا کر اور اب پاکستان میں جہادی تنظیموں کو 'دہشت گرد' دکھا کر انہیں کچلنے کے نعرے بلند ہورہے ہیں، حالانکہ حقیقتاً یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے۔
مولانا مدنی نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا: چونکہ پاکستان پہلی مرتبہ اسلام دشمن قوتوں کی بلیک میلنگ میں آچکا ہے، اس لئے اس کا آئندہ کے لئے بلیک میلنگ سے بچنا بہت مشکل ہے۔ ایک طرف اگر یہ درست ہے کہ طالبان اور جہادی تنظیمیں پاکستان کی پروردہ ہیں تو دوسری طرف پاکستان ہی کے ہاتھوں ان کو تباہ کرنے اور کچلنے کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے خدشہ کا اظہار کیا کہ یہ سلسلہ یہاں نہیں رکے گا بلکہ آہستہ آہستہ تمام اسلامی ادارے اور تحریکیں اس کی زد میں آجائیں گی۔ اسلامی ملکوں میں سے بالخصوص وہ ملک پہلا نشانہ بنیں گے جنہوں نے طالبان کو تسلیم کیا تھا۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ابھی ہمارا ازلی دشمن بھارت صرف ڈرا دھمکا کر اپنے ناجائز مطالبات منوا رہا ہے، لیکن بہت جلد وہ وقت بھی قریب آتا دکھائی دیتا ہے جب افغانستان کی طرح پاکستان کو تباہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پھر درجہ بدرجہ دیگر اسلامی ملکوں کی باری آئے گی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں اللہ پر توکل کرتے ہوئے اُصولوں پر سٹینڈ لینا چاہئے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ہماری اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ موجودہ فوجی حکومت کو اسلام کی حفاظت اور نیو کلیرپاور کے تحفظ کی توفیق دے۔
جنرل پرویزمشرف نے حافظ عبدالرحمن مدنی کی ان معروضات کواطمینان سے سنا اور اپنی طرف سے ان اعتراضات کا تفصیلی جواب دیا۔ جنرل صاحب نے کہا کہ آئندہ سال دسمبر میں جب آپ کو پھر بلایا جائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کا یہ تبصرہ اور خوف درست نہیں تھا بلکہ ہماری حکومت کا موجودہ موقف ہی درست ہے۔ انہوں نے علماء سے کہا: "آپ مجھ پر اعتماد کریں۔"
حافظ عبدالرحمن مدنی کے علاوہ شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک نے بھی جنرل پرویزمشرف سے حکومتی پالیسی بدلنے کی پرزور استدعاکی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شریعت میں دہشت گردی یہ ہے کہ ایک ایسا شخص یا ملک جوبے گناہ ہو، اسے شرع اور قانون کی طرف سے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ حاصل ہو، اسے پامال کیا جائییا وجہ بیان کئے بغیر کوئی اس پر چڑھ دوڑے یا کوئی الزام لگا کر اسے قتل کردے، بے خبری میں یا باخبر کرکے ایسا کرے، یہ دہشت گردی کی حقیقتہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس وقت جس دہشت گردی کامسئلہ درپیش ہے وہ عالمی و ریاستی دہشت گردی ہے۔ عدل و انصاف کی بنیاد یہ ہے کہ بے گناہ کو تحفظ حاصل ہو اور مجرم کو جرم کی سزا ملے۔ محض الزام لگا کر بلاثبوت کسی پر حملہ کرنا، اس کے امن کو ختم کرنا دہشت گردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی دہشت گردی کے خلاف 'سٹینڈ' لینے کی ضرورت تھی۔ اس لئے کہ دہشت گردی کے خلاف 'سٹینڈ' نہ لیا جائے توپھر ظلم کا دور دورہ ہوگا۔
امریکہ نے واضح طور پر افغانستان پر بمباری کرکے دہشت گردی کی ہے۔ افغانستان میں چالیس ہزار بے گناہ مسلمان قتل کردیے گئے ہیں۔ ایک جنرل کے دور میں روس سے افغانستان نے تیس لاکھ شہدا کی قربانی دے کر آزادی حاصل کی تھی اور اس وقت امریکہ نے چالیس ہزار مسلمانوں کو شہید کرکے افغانستان پر تسلط جما لیا ہے۔ انہوں نے جنرل مشرف سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ حکمت و تدبر کی بات کرتے ہیں، یہ آپ کا امتحان ہے۔ اگر آپ امریکہ کی دہشت گردی سے نجات کی کوئی راہ نکال سکیں تو یہ اقدام بہت اچھا ہوگا۔ توبہ سے بڑے سے بڑا گناہ معاف ہوسکتا ہے۔ مولانا عبدالمالک نے کہا کہ اس وقت آپ کی فوج مجاہدین کا گھیراؤ کر رہی ہے، انہیں تلاش کرکے گرفتار کررہی ہے۔ مجاہدین نے کوئی جرم نہیں کیا، ملک و ملت کی خدمت کی ہے، ملا عمر اور اسامہ دہشت گرد نہیں ہیں۔ آپ مجاہدین کا گھیراؤ نہ کریں اوردینی جماعتوں سے کشمکش ختم کردیں۔
اس نشست میں مولانا محمد حنیف جالندھری، مفتی رفیع عثمانی، مولانا منیب الرحمن اور چند دیگر علماء نے بھی بات کی۔ چونکہ ان کا عمومی انداز حکومت کے ساتھ مصلحت کیشی اور تعاون کے اظہار پر مبنی تھا، اسی لئے اس کی تفصیلات عام سرکاری ملاقاتوں کی سی ہیں ، البتہ موقع کی مناسبت سے جہاں تمام علما نے متفقہ طور پر حکومت کو بھارت کے خلاف ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا وہاں علما نے نئے آرڈیننس کے حوالہ سے چند تحفظات بھی پیش کئے جومجلس کی حد تک قبول کرلئے گئے۔ علما نے جنرل پرویز مشرف سے معین الدین حیدر کے بیانات کا نوٹس لینے کی درخواست بھی کی جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ بھلے آدمی ہیں، اگر آپ لوگوں کوان سے شکایات ہیں تو انہیں سمجھایا جائے گا۔ علما پر جنرل مشرف صاحب کے خیالات و نظریات کا اس قدر خوشگوار اثر پڑا کہ انہوں نے وقتی طور پر حکومت کے خلاف کسی قسم کا احتجاجی پروگرام بھی ملتوی کردیا۔اسی مجلس میں ایک عالم دین نے یہ انکشاف کرکے سب کو حیران کردیا کہ جنرل مشرف ایک مدرسہ کو چندہ بھی دیتے ہیں۔ طالبان کے حامی علما کی طرف سے اس وسعت ظرفی اور رواداری کا اظہار شاید جنرل مشرف کے لئے بھی حیرت کا باعث بنا ہو۔
مذکورہ بالا خوشگوار ملاقات کے باوجود عملی طور پر دینی حلقوں میں حکومتی پالیسی کے متعلق خدشات کا ابھی تک ازالہ نہیں کیا جاسکا۔ جہادی تنظیموں اور دینی مدارس کے خلاف حکومتی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اخبارات میں یہ خبر بھی شائع ہوئی ہے کہ حکومت نے پہلے مرحلہ کے طور پر تقریباً۱۵۰/ دینی مدارس کو بند کرنے کے لئے فہرست مرتب کرلی ہے۔ یکم جنوری کے بعد تادمِ تحریر (۸/جنوری) شاید ہی کوئی دن ایسا گذرا ہو جب دینی تنظیموں کے دفاتر پر چھاپے اور ان کے سینکڑوں کارکنان کی گرفتاری کی خبریں شائع نہ ہوتی ہوں، مثلاً
1) "کراچی میں دینی مدارس اور جہادی تنظیموں کے دفاتر پر چھاپے، مزید ۱۰۰ گرفتار" (تین کالمی سرخی، نوائے وقت: ۳/ جنوری ۲۰۰۲ء)
2) "جہادی ومذہبی تنظیموں کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن، سینکڑوں گرفتار، کراچی میں مدرسوں کے دو خطیبوں سمیت ۲۴۵/ افراد پکڑے گئے، اندرونِ سندھ ۳۰۰ گرفتار" (نوائے وقت:۵/جنوری ۲۰۰۲ء)
3) "پنجاب میں چھاپے، مذہبی تنظیموں کے درجنوں رہنما اور کارکن گرفتار" ( جنگ: ۴/ جنوری ۲۰۰۲ء)
امریکہ صدر جارج ڈبلیو بش نے مذہبی تنظیموں کے خلاف حکومت کے 'کریک ڈاؤن' پر جنرل پرویز مشرف صاحب کو خصوصاً شاباش دی ہے۔ بھارت نے بھی جہادی تنظیموں کے خلاف اس کارروائی کو 'مثبت قدم' قرار دیا ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ جسونت سنگھ نے کہا
" پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کرکے مطلوب افراد کی فہرست دی گئی، عالمی برادری کو ثبوت دیے اور دباؤ بالآخر ثمر آور ثابت ہوا۔" (نوائے وقت ، یکم جنوری ۲۰۰۲ء)
اگرچہ پاکستانی حکومت کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ حافظ محمد سعید اور دیگر جہادی تنظیموں کی گرفتاری دباؤ کا نتیجہ نہیں (نوائے وقت، یکم جنوری ۲۰۰۲ء) مگر عام پاکستانی ان اقدامات کو امریکہ اور بھارت کے مشترکہ دباؤ کا نتیجہ ہی قرار دیتا ہے۔ بھارت تو شروع ہی سے کشمیر میں جہادی سرگرمیوں کو 'سرحد پار دہشت گردی' قرار دیتا رہا ہے۔ ۱۱/ ستمبر کے بعد تو بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ نے 'جہادِ کشمیر' کو دہشت گردی قرار دینے کے لئے عالمی سطح پر بھرپور ابلاغی مہم شروع کردی۔ امریکہ اور برطانیہ نے بارہا بھارتی موقف کی تائید میں بھی بیانات دیئے ہیں۔ بیرونی ذرائع ابلاغ بھی ان گرفتاریوں کو امریکی دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔
۱۱/ ستمبر کے واقعات کے بعد امریکہ سے تعاون کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ 'کشمیر کاز' کا تحفظ بھی تھا۔ جنرل مشرف بار بار جہاد اور دہشت گردی کے درمیان واضح فرق ملحوظِ خاطر رکھنے کی ضرورت پر زور دے رہے تھے، مگر معلوم ہوتا ہے، امریکہ نے ان کا موقف تسلیم نہیں کیا۔ اب بھارت کو اس ضمن میں خاطر خواہ کامیابی ملی ہے۔ امریکہ سے اس قدر تعاون کے باوجود اگر پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے متعلق اس طرح کے خطرات کا سامنا کرنا پڑا ہے تو آج حکومت کو ٹھنڈے دل سے اپنی پالیسی کے نتائج کا معروضی جائزہ لینا چاہئے۔ آخر پاکستان اپنے اُصولی موقف سے کہاں تک پیچھے ہٹتا چلا جائے گا؟ پاکستان میں جہادی تنظیموں کے خلاف 'کریک ڈاؤن' کا کیا بالواسطہ مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جہادِ کشمیر کو "سرحد پار دہشت گردی" تسلیم کرچکے ہیں؟
اگر حکومت دینی مدارس کی ترقی کا کام دیانت داری سے کرنا چاہتی ہے، تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ مگر جس انداز میں اور جس موقع پر اس 'عظیم کارِخیر' کا حکومت نے بیڑا اُٹھایا ہے، اس کی روشنی میں موجودہ حکومتی اقدامات کے بارے میں شکوک کا اُبھرنا ایک لازمی امر ہے۔ جناب وزیرداخلہ کا دینی مدارس کے بارے میں جب 'حسن ظن' ہی یہ ہے کہ وہاں 'چند قاعدے' پڑھائے جاتے ہیں، تو پھر وہ ان مدارس کے نصاب کے متعلق جس طرح کی اصلاح فرما سکتے ہیں،اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل نہیں ہے۔ دینی مدارس کے بارے میں ان کے 'مبلغ علم' کا جب یہ حال ہے ، تو دیگر حکومتی ذمہ داران کا ذکر ہی فضول ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور سیکولر طبقہ دینی مدارس کے خلاف جو جو لغو اعتراضات وارد کرتا ہے، حکومت بلا چون و چرا ان کی صداقت پر ایمان لے آتی ہے۔ حکومت کے کارپردازان کی جانب سے ان اعتراضات کو صحیح سمجھنے کی ایک و جہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ خود سیکولر سوچ کے حامل ہیں۔ دینی مدارس کے متعلق حکومت کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسی پر صرف دینی راہنما ہی معترض نہیں ہیں بلکہ رائے عامہ سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ حلقے بھی اس بارے میں سخت ذہنی تحفظات کا شکار ہیں۔ موقر روزنامہ 'نوائے وقت' نے ۲۹/ دسمبر ۲۰۰۱ء کے اداریے میں حکومتی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تحریر کیا
"اگر حکومت سنجیدگی سے فرقہ واریت کا خاتمہ چاہتی ہے اور ان دینی مدارس کی کارکردگی مزید بہتر بنانے کی خواہش مند ہے، تو وہ انہیں قرارِ واقعی وسائل مہیا کرے مگر انہیں اپنے کنٹرول میں لانے اور ان کی حریت ِفکر پر قدغن لگانے سے گریز کرے۔ ان کے نصاب پرنظرثانی جید علماءِ کرام اور ماہرین تعلیم کریں۔ دین سے ناواقف سرکاری گماشتوں کو اس کی اجازت نہ دی جائے۔
یہ تخصص اور سپیشلائزیشن کے ادارے ہیں، انہیں کلرک سازی کا کام نہ سونپا جائے، جس طرح میڈیکل کالجوں میں زراعت اور کمپیوٹر سائنسز کی تعلیم نہیں دی جاتی اور انجینئرنگ یونیورسٹی میں درسِ نظامی کے مضامین پڑھانے کی تک نہیں، اسی طرح دینی مدارس میں دنیوی علوم بس اتنے ہی پڑھانے پر توجہ دی جائے جتنی میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں دینیات پڑھائی جاتی ہے تاکہ یہ ادارے یکسوئی سے جید، روشن خیال اور دینی علوم کے ماہر علماء کرام پیدا کرسکیں جو ان کی اصل ذمہ داری ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جو حال سرکاری شعبے میں تعلیمی اداروں اور جامعات کا ہے، دینی مدارس کا اس سے برا نہیں کیونکہ یہ ادارے تو چندے اور عطیات سے چلتے ہیں اور محدود وسائل میں جتنا کام کررہے ہیں، وہ قابل قدر ہے۔"
آخر میں ہماری گذارش ہے کہ اگر حکومت فی الواقع پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ذرا بھر بھی سنجیدہ ہے تو اسے اس افسوسناک مظہر کے حقیقی اسباب کا معروضی جائزہ لینا چاہئے، فرقہ وارانہ تشدد کا حقیقی سبب نہ تو دینی مدارس کا نصاب ہے اور نہ ہی یہ مدارس اس شیطانی کام میں شریک ہیں۔
ہمارے ہاں کے لادین دانشوروں نے درسِ نظامی کے حوالہ سے دینی مدارس کے نصاب پرتنقید کو فیشن اور شغل بنا رکھا ہے۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ذاتِ شریف درسِ نظامی میں شامل ۵۰ سے زائد کتابوں میں سے دو چار کے نام گنوا سکیں۔ ان سیکولر دانش بازوں کی اکثریت درسِ نظامی کے متعلق اتنا ہی علم رکھتی ہے جتنا کہ عام دینی مدارس کے طلبا آئن سٹائن کی تھیوری کے بارے میں جانتے ہیں۔ مگر اس جہالت اور لا علمی کے باوجود وہ دینی مدارس کے نصاب اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے درمیان ربط و تعلق پیدا کرتے ہوئے نہ کسی خوفِ خدا کا لحاظ رکھتے ہیں، نہ ہی مادّہ پرستانہ معاشروں کی وضع کردہ علمی دیانت کا انہیں پاس ہوتا ہے۔
جناب معین الدین حیدر اور دینی مدارس کے متعلق متعصبانہ خیالات رکھنے والے سیکولر دانشور 'علماء کو چند قاعدے پڑھنے والے جاہل' کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے میں آزاد ہیں، مگر تعصب کے اس پراگندہ ماحول سے باہر نکل کر اگر معمولی سا غوروفکر کرنے کے لئے ان کی طبائع کبھی آمادہ ہوں، تو ہم ان کی اطلاع کے لئے بتانا چاہتے ہیں کہ درس نظامی میں ۱۸ مختلف علوم پر مبنی تقریباً ۵۰ کتب شامل ہیں، جن میں احادیث کی دس بنیادی کتب اور تفاسیرکی پانچ معرکة الآرا کتابیں بھی ہیں، محض گرامر کے علم صرف کے متعلق ۱۳ کتابیں اس نصاب کا حصہ ہیں۔ خالصتاً الہامی علوم کے علاوہ علم ہیئت و فلکیات اور فلسفہ پر بھی کافیکتابیں اس کا حصہ ہیں۔ پرانے درسِ نظامی میں اقلیدس (جیومیٹری) کی اہم اساسی جو ضخیم تصنیف شامل تھی، اس کو جدید یونیورسٹیوں کے ریاضی دان بھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
جو لوگ دینی مدارس کے نصاب کو فرقہ وارانہ کشمکش میں اضافہ کا باعث سمجھتے ہیں، وہ بھی سخت غلط فہمی کا شکار ہیں۔ انہیں شاید معلوم نہ ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ درسِ نظامی کا بڑا حصہ صرف و نحو اور منطق وفلسفہ پر مشتمل ہے اور ان علوم کا درسِ نظامی میں شامل زیادہ تر ذخیرہ بالخصوص صرف نحو و فلسفہ کی کتب شیعہ مصنّفین کی تصنیف کردہ ہیں جنہیں 'سنی' بھی اسی شوق سے پڑھتے ہیں۔ درسِ نظامی کی تدوین ہوئے صدیاں گذر گئی ہیں، اگر اس نصاب کی بنیاد پر فرقہ وارانہ تصادم فروغ پاتا تو تاریخ اس کے متعلق کبھی خاموش نہ رہتی۔ کیا یہ ناقابل تردید حقیقت نہیں ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں شیعہ اور سنی مسلمان نہایت امن کے ماحول میں رہے ہیں۔ شیعہ اور سنی مسلمانوں کے بعض گروہوں کے درمیان موجودہ خون ریز تصادم، جن کا ذکر جنرل پرویزمشرف نے بھی تفصیل سے کیا، کی وجوہ داخلی نصاب اور تربیت ہرگز نہیں ہیں۔ بعض جذباتی تنظیموں کا رویہ درحقیقت نتیجہ ہے ماضی قریب کی خارجی سیاست اور بین الاقوامی کشمکش کا جو گذشتہ بیس پچیس برسوں کے دوران پروان چڑھی ہے۔ اربابِ بست و کشاد عالم اسلام میں برپا ہونے والی ان معروضی تبدیلیوں سے لاعلم نہیں ہیں۔ دینی مدارس کو دہشت گردی سے منسلک کرنے والے سیکولر دانشور اور حکومتی ذمہ داران نجانے ان حقائق کو نظر انداز کیوں کردیتے ہیں؟
مزید برآں ملا نظام الدین نے چار سو سال پہلے جس درسِ نظامی کو ترتیب دیا تھا، اس کا منبع و مرکز وسط ایشیا کی ہند کی طرف گزرگاہیں افغانستان اور ایران کے علاقے تھے، جہاں فارسی کا رواج زیادہ تھا۔ پاکستان میں دینی مدارس میں پڑھایا جانے والا درسِ نظامی بہت حد تک پہلے ہی تبدیل کیا جاچکا ہے۔ اب سعودی عرب، عراق، شام ومصر کے مشہور جامعات کی متعدد کتابیں شامل کی جاچکی ہیں۔ امریکہ میں ۱۱/ ستمبر کے واقعات کے بعد اسلام دشمن یہودی لابی نے پراپیگنڈہ شروع کررکھا ہے کہ مذکورہ دہشت گردی کا اصل محرک قرآن مجید کی وہ آیات ہیں جن میں یہودیوں اور نصرانیوں سے مسلمانوں کو دوستی سے منع کیا گیا ہے۔ وہ الزام تراشی کررہے ہیں کہ دینی مدارس اور مساجد میں قرآنی تعلیمات دہشت گردی کے جذبات کو فروغ دے رہی ہیں، وہ تو چاہتے ہیں کہ مسلمان قرآنِ مجید کو یکسر بھلا دیں۔ کچھ ایسا ہی انداز ہمارے سیکولر دانش وروں نے دینی مدارس کے نصاب کے متعلق اپنا رکھا ہے، وہ درحقیقت پاکستان میں دینی مدارس کی تباہی پر مبنی امریکی ایجنڈے پرعملدرآمد کے لئے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ ان شاء اللہ پاکستان کے اسلام پسندیہود ونصاریٰ کی اس ناپاک سازش کو ناکام بنا دیں گے۔
ہم یہ مطالبہ کرنا بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ حکومت دینی مدارس اور جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی محض امریکہ اور بھارت کے دباؤ کے نتیجے میں مت کرے۔ اب تک جس انداز میں 'کریک ڈاؤن' کیا گیا ہے، اس سے تو یہی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ جناب پرویز مشرف صاحب نے علماءِ کرام سے ملاقات کے دوران جو یقین دہانی کرائی تھی، اسے عملی جامہ بھی پہنایا جائے۔ حقیقتاً دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں اور افواجِ پاکستان نظریہٴ پاکستان یعنی اسلام کی محافظ ہیں۔ یہ دونوں ادارے فطری حلیف ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کسی قسم کی محاذ آرائی، خواہ وہ بیرونی دباؤ کا نتیجہ ہو یا کسی اور وجہ سے، ہمارے قومی اور ملی مفاد کے منافی ہے۔

٭٭٭٭٭