دینی مدارس اور بنیادپرستی

دینی مدارس ... پس منظر اور مقاصد
پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے طول و عرض میں لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے دینی مدارس ومکاتب کاموجودہ نظام ۱۸۵۷ء کی جنگ ِآزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کانتیجہ ہے۔ اس سے قبل پورے برصغیر میں درسِ نظامی کا یہی نصاب تعلیمی اداروں میں رائج تھا جو مغل بادشاہت کے دور میں اس وقت کی ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کرمرتب کیا گیا تھا اور جو اَب بھی ہمارے دینی مدارس میں بدستور رائج چلا آرہا ہے۔
فارسی اس دور میں سرکاری زبان تھی اور عدالتوں میں فقہ حنفی رائج تھی، اس لئے درسِ نظامی کا یہ نصاب اس دور کی دفتری اور عدالتی ضروریات کو پورا کرتا تھا اور دینی تقاضوں کی تکمیل بھی اس سے ہوجاتی تھی۔ اس لئے اکثر و بیشتر مدارس کا نصاب یہی تھا اور تقریباً تمام مدارس سرکار کے تعاون سے بلکہ سرکار کی بخشی ہوئی زمینوں اور جاگیروں کے باعث تعلیمی خدمات سرانجام دیتے چلے آرہے تھے۔
۱۸۵۷ء کی جنگ ِآزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد جب دہلی کا اقتدار ایسٹ انڈیا کمپنی سے براہِ راست تاجِ برطانیہ کو منتقل ہوا اور باقاعدہ انگریزی حکومت قائم ہوگئی تو سرکاری زبان فارسی کی بجائے انگریزی کردی گئی اور عدالت سے فقہ حنفی کوخارج کرکے برطانوی قوانین نافذ کردیئے گئے، جس سے ہماری تعلیمی ضروریات دو حصوں میں منقسم ہوگئیں۔ دفتری اور عدالتی نظام میں شرکت کے لئے انگریزی تعلیم ناگزیر ہوگئی اور دینی و قومی ضروریات کے لئے درسِ نظامی کے سابقہ نظام کو برقرار رکھنا ضروری سمجھا گیا، جبکہ مدارس و مکاتب کا سابقہ نظام ختم کردیا گیا۔ علماء کی ایک بڑی تعداد جنگ ِآزادی میں کام آگئی، باقی ماندہ میں سے ایک کھیپ کالا پانی اور دیگر جیلوں کی نذر ہوگئی اور پیچھے رہ جانے والے لوگ شکست کے اثرات کو سمیٹتے ہوئے مستقبل کے بارے میں سوچنے میں مصروف ہوگئے۔ مدارس و مکاتب کے لئے مغل حکمرانوں کی عطا کردہ جاگیریں چھین لی گئیں اور اس طرح ۱۸۵۷ء سے پہلے کا تعلیمی نظام مکمل طور پر تتر بتر ہوکر رہ گیا۔
نئے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی ضروریات کے دو حصوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد اہل دانش نے مستقبل کی طرف توجہ دی۔ سرسید احمدخان نے ایک محاذ سنبھال لیا اور دفتری وعدالتی نظام میں مسلمانوں کو شریک رکھنے کے لئے انگریزی تعلیم کی ترویج کو اپنا مشن بنا لیا، جبکہ دینی و قومی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے دینی تعلیم کا محاذ فطری طور پر علماءِ کرام کے حصہ میں آیا اور اس سلسلہ میں سبقت اور پیش قدمی کا اعزاز مولانا محمدقاسم نانوتوی اور ان کے رفقاء کو حاصل ہوا۔ سرسید احمدخان اور ان کے رفقا نے علی گڑھ میں انگریزی تعلیم کے کالجوں کا آغاز کیا اور مولانا محمد قاسم نانوتوی نے مدرسہ عربیہ کی بنیاد رکھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ سرسید احمدخان اور مولانا محمد قاسم نانوتوی دونوں ایک ہی استاذ مولانا مملوک علی نانوتوی کے شاگرد تھے اور دونوں نے مختلف سمتوں پر تعلیمی سفر کا آغاز کیا جو آگے چل کر دو مستقل تعلیمی نظاموں کی شکل اختیار کرگئے۔ ابتدا میں سرسید احمد خان کے انگریزی کالج اور مولانا محمد قاسم نانوتوی کے مدرسہ عربیہ دونوں کی بنیاد عوامی چندہ اور امدادِ باہمی کے طریق کار پر تھی، لیکن بعد میں کالج اور اسکول کے نظام کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی اور رفتہ رفتہ پورا نظام سرکار کی تحویل میں آکر مصارف و اخراجات کے جھنجھٹ سے آزاد ہوگیا، جبکہ دینی مدارس سرکاری سرپرستی سے آزاد رہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے اخراجات و ضروریات کے لئے ہر دور میں عوامی چندہ پر انحصار کرنا پڑا اور آج بھی یہ صورتِ حال بدستور قائم ہے۔ دینی مدارس کے اس آزادانہ اور متوازی نظام کے بنیادی مقاصد درج ذیل تھے:
٭ قرآن و سنت، عربی اور دیگر اسلامی علوم کی حفاظت اور مسلم معاشرہ کا ان سے تعلق برقرار رکھنا۔
٭ مساجد و مدارس کے نظام کو قائم رکھنا اور ان کے لئے ائمہ، خطباء اور مدرّسین کی فراہمی۔
٭ یورپ کی نظریاتی اور تہذیبی یلغار کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی طرزِ معاشرت اور عقائد کی حفاظت․
٭ جدید عقلیت کے پیدا کردہ اعتقادی و نظریاتی فتنوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنا۔
ان مقاصد کے حصول کے لئے ضروری تھا کہ یہ مدارس سرکار کے اثر سے آزاد رہیں اور ایسا تعلیمی نصاب و نظام اختیار کریں کہ اس کے تیار کردہ افراد صرف ان کے مقاصد کے خانہ میں فٹ ہوسکیں۔ اس بات کو زیادہ بہتر طور پر واضح کرنے کے لئے ایک واقعہ بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو میں نے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبدالواحد  کی زبانی سنا۔ ان کی روایت کے مطابق یہ اس دور کا واقعہ ہے جب دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا محمد قاسم نانوتوی کے فرزند مولانا حافظ محمداحمد تھے۔ اس دور میں دارالعلوم کے فارغ التحصیل کچھ نوجوان حیدرآباد دکن کی ریاست میں ملازمتوں پر فائز ہوئے اور کارکردگی اور صلاحیت کے لحاظ سے دوسرے ملازمین سے بہتر ثابت ہوئے۔مولانا حافظ محمداحمد کے دورئہ حیدر آباد کے موقع پر نظام حیدر آباد نے انہیں پیش کش کی کہ اگر دارالعلوم اپنے نصاب میں ہماری ضروریات کے مطابق بعض مضامین کا اضافہ کردے تو ہم فضلائے دارالعلوم کو ملازمتیں دیں گے اور دارالعلوم کے سالانہ اخراجات کا بار، ہم خود اٹھائیں گے۔ مولانا حافظ محمداحمد نے دیوبند واپسی پر یہ پیش کش دارالعلوم کے صدر مدرّس شیخ الہند مولانا محمود حسن کے سامنے رکھی۔ انہوں نے خود کوئی مشورہ دینے کی بجائے حافظ محمد احمد صاحب کو دارالعلوم کے سرپرست حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں بھیج دیا جو اس وقت بقید ِحیات تھے۔ انہوں نے مولانا حافظ محمد احمد سے نظام حیدر آباد کی پیش کش کے بارے میں سن کر جو جواب دیا وہ حضرت مولانا مفتی عبدالواحد صاحب کے الفاظ میں یوں تھا :
"بھاڑ میں جائے حیدر آباد کی ریاست ! ہم اس ریاست کو چلانے کے لئے طلبہ کو نہیں پڑھا رہے۔ ہم تو اس لئے پڑھاتے ہیں کہ مسجدیں اور قرآن کے مکاتب آباد رہیں اور مسلمانوں کو نمازیں اور قرآن کریم پڑھانے والے ائمہ اور استاذ ملتے رہیں۔"
یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس میں انگریزی تعلیم کا داخلہ بند رہا۔ اگر حضرت گنگوہی ہی اس پیش کش کو قبول کرلیتے تو علماء اور دینی طلبہ لازماً سرکاری ملازمت کو ترجیح دیتے اور دینی مدارس سے فارغ ہونے والوں کی ایک بڑی کھیپ بھی اسی طرف منتقل ہوجاتی جس سے دینی مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد فوت ہوجاتا۔ جبکہ دینی مدارس کے نظام کا آغاز کرنے والوں کے ذہن میں سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ ایسی کھیپ تیار ہو جو قرآن پاک کے مکاتب کو آباد رکھے، اس لئے حکمت ِعملی کے تحت عملاً ایسا طریقہ اختیار کیا گیا کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل حضرات مسجد و مدرسہ کے سوا کسی دوسری جگہ نہ کھپ سکیں۔ چنانچہ اس مقصد کے حوالے سے یہ حکمت ِعملی کامیاب رہی۔ اس کے نتیجہ میں برصغیر کے طول و عرض میں دینی مدارس و مکاتب کا جال بچھ گیا اور مساجد میں ائمہ و خطباء کی کھیپ بھی فراہم ہوتی رہی۔
دینی مدارس کے منتظمین نے ان مقاصد کے حصول کے لئے کیا کیا جتن کئے؟ یہ ایک الگ داستان ہے جس کی تفصیلات کی اس مضمون میں گنجائش نہیں ہے تاہم اس قدر عرض کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے سہولتوں کی زندگی ترک کرکے فقر و فاقہ اور تنگی و ترشی کی زندگی اختیار کی۔ لوگوں سے صدقات و خیرات مانگ کر مدارس کو آباد رکھا۔ بلکہ کچھ عرصہ پہلے تک تو محلہ کے ایک ایک گھر سے روٹیاں مانگنے کا سلسلہ بھی قائم رہا۔ اس لئے یہ بات بلا جھجھک کہی جاسکتی ہے کہ علماء کے اس طبقہ نے اپنی 'عزتِ نفس' تک کی قربانی دے کر معاشرہ میں قرآن و حدیث کی تعلیم اور اسلامی عقائد و معاشرت کو برقرار رکھا۔ ورنہ عالم اسباب میں اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو سپین کی طرح برصغیر پاک و ہند میں بھی (نعوذ باللہ) اسلام ایک قصہ پارینہ بن چکا ہوتا۔ صدقہ و خیرات، گھر گھر سے مانگی ہوئی روٹیوں اور عام لوگوں کے چندوں کی بنیاد پر قائم ہونے والا دینی مدارس کا یہ نظام برطانوی استعمار کی نظریاتی، فکری اور تہذیبی یلغار کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لئے ایک مضبوط حصار ثابت ہوا اوراس نظام نے نہ صرف برصغیر پاک و ہند، بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے عقائد و افکار، معاشرت اور اسلامی علوم و فنون کی حفاظت کی بلکہ تحریک ِآزادی اور تحریک پاکستان کو نظریاتی راہنما مہیا کئے جن میں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا سید محمدداود غزنوی، سید عطا اللہ شاہ بخاری اور ان کے ہزارہا رفقا بطورِ خاص قابل ذکر ہیں۔
دورِ غلامی میں دینی مدارس کی حکمت عملی وقتی تھی جس کے لئے انہیں بہت سے تحفظات اختیار کرنے پڑے اور اگر وہ ان تحفظات کے بارے میں سختی اختیار نہ کرتے تو اپنے بنیادی مقاصد کی طرف اس قدر کامیابی کے ساتھ پیش رفت نہ کرپاتے، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد صورت حال خاصی تبدیل ہوگئی اور آزادی کے حوالہ سے نئے تقاضے اور ضروریات سامنے آگئیں جن کے بارے میں دینی مدارس کی تمام تر مجبوریوں اور مشکلات کے باوجود بہر حال یہ کہنا پڑتا ہے کہ نئی ضروریات اور تقاضوں کو اپنے مقاصد میں شامل کرنے کے لئے وہ ابھی تک تیار نہیں ہوئے جس کے نقصانات قومی سطح پر بہت دیر تک محسوس کئے جاتے رہیں گے۔
دینی مدارس ، آزادی ٴوطن کے بعد
قیامِ پاکستان کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ مساجد و مدارس کے لئے رجالِ کار کی فراہمی اور اسلامی علوم کی ترویج و تحفظ کی ذمہ داری ریاستی نظام تعلیم کے سپرد کردی جاتی اور دینی مدارس کے الگ نظام کی ضرورت ہی باقی نہ رہتی، لیکن ریاستی نظام تعلیم نے اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کردیا بلکہ ریاستی نظامِ تعلیم نے قیامِ پاکستان کے بعد آزادی اور ایک اسلامی ریاست کے مقاصد کے حوالہ سے اس قدر مایوس کیا کہ آزاد قوموں کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ریاستی نظام تعلیم کی ذمہ داری تھی کہ وہ :
٭ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی نظریاتی ریاست کی حیثیت دینے اور ایک فلاحی اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے فوج، بیوروکریسی، عدلیہ اور دیگر قومی شعبوں میں اسلامی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور افرادِ کار مہیا کرتا۔
٭ معاشرہ کے عام افراد کو قرآن و سنت کی ضروری تعلیم سے آراستہ کرنے کا اہتمام کرتا۔
٭ مساجد اور دینی مکاتب کا نظام چلانے کے لئے ائمہ اور مدرّسین کی فراہمی کی ذمہ داری قبول کرتا۔
٭ اسلامی تعلیمات و احکام کو عالمی برادری کے سامنے نئے انداز اور اسلوب سے پیش کرنے کے لئے اسکالرز تیار کرتا اور انہیں جدید علوم اور فلسفہ کے چیلنج کا سامنا کرنے کی تربیت دیتا۔
لیکن ریاستی نظام تعلیم نے نہ صرف یہ کہ ان ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا بلکہ عملاً یہ نظام سیکولر اور اسلام مخالف عناصر کی کمین گاہ ثابت ہوا اور پاکستان میں اسلامی احکام و تعلیمات کی ترویج کو روکنے اور اس کی اسلامی حیثیت کو غیر موٴثر بنانے میں اس نظام تعلیم نے مضبوط مورچے کا کام دیا، جبکہ اس کے برعکس دینی مدارس نے جو ذمہ داریاں ۱۸۵۷ء کے بعد قبول کی تھیں، ان پر وہ آج بھی پوری دلجمعی کے ساتھ گامزن ہیں اور ان کے طریقہ کار اور دائرئہ عمل میں کوئی فرق نمودار نہیں ہوا بلکہ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے کہ اسلامی علوم کی حفاظت و ترویج اور مساجدو مدارس کے لئے ائمہ و اساتذہ کی فراہمی کے لئے دینی مدارس کے کردار کا تسلسل کسی خلا اور تعطل کے بغیر بدستور قائم ہے تو ریاستی نظام تعلیم کے تقابل کے تناظر میں دینی مدارس کا یہ کردار بڑے سے بڑے قومی اعزاز کا مستحق ہے، کیونکہ آج بھی ان دو مقاصد کے حوالے سے معاشرہ کی ضروریات یہی دینی مدارس پوری کررہے ہیں اور اگر دینی مدار س اپنا یہ کردار چھوڑ دیں تو مساجد و مدارس کے لئے ائمہ و اساتذہ کی فراہمی اور اسلامی علوم کی ترویج و حفاظت کے شعبہ میں جو خلا واقع ہوگا، وہ کسی باشعور مسلمان کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
دینی مدارس کے موجودہ کردار اور خدمات کے بارے میں عام طور پر شکایات کا اظہار کیا جاتاہے اور شکوہ کرنے والوں میں ہم بھی شامل ہیں، لیکن ان شکایات اور دینی مدارس کی مشکلات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ صحیح صورتِ حال سامنے آسکے۔
دینی مدارس سے سب سے بڑی شکایت یہ کی جاتی ہے کہ ان کے نصاب میں آج کے علوم شامل نہیں ہیں اور وہ اپنے طلبہ کو انگریزی، ریاضی، سائنس، انجینئرنگ اور دیگر عصری علوم کی تعلیم نہیں دیتے۔ یہ شکایت ایسی ہے جسے نہ تو پوری طرح قبول کیا جاسکتا ہے اور نہ مسترد کیا جاسکتا ہے، کیونکہ جہاں تک عصری علوم کی مکمل تعلیم کا سوال ہے وہ نہ تو دینی تعلیم کے نصاب کے ساتھ پوری طرح شامل کی جاسکتی ہے اور نہ ایسا کرنا ضروری ہے۔ شامل اس لئے نہیں کی جاسکتی کہ مستند اور پختہ عالم دین کا مقام حاصل کرنے کے لئے فارسی و عربی، صرف و نحو، قرآن و حدیث ،فقہ و اصول فقہ، معانی و ادب اورمنطق و فلسفہ جیسے ضروری علوم کا ایک مکمل نصاب ہے جسے پوری طرح پڑھے بغیر کوئی شخص 'عالم دین' کے منصب پر فائز نہیں ہوسکتا اور یہ نصاب بایں قدر بھاری بھر کم ہے کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے علم یا فن کے مکمل نصاب کو شامل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اور اگر اس نصاب میں کمی کی جائے تو دینی علوم میں مہارت کا پہلو تشنہ رہ جاتا ہے اور ضروری اس لئے نہیں ہے کہ یہ تخصصات اور سپشلائزیشن کا دور ہے۔ اب ہرشعبہ کے لئے الگ ماہرین تیار ہوتے ہیں اور کسی ایک شعبہ کے ماہر کے لئے ضروری نہیں کہ وہ دوسرے شعبہ کی مہارت بھی رکھتا ہو، مثلاً کسی انجینئر کے لئے قطعی طور پر یہ ضروری نہیں کہ اس نے میڈیکل علم بھی حاصل کررکھا ہو، اسی طرح کسی عالم دین کے لئے بھی یہ ضروری نہیں کہ اس نے میڈیکل سائنس، انجینئرنگ یا کسی اور شعبہ میں بھی مہارت رکھتا ہو۔ تاہم ایک فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے وہ یہ کہ جہاں تک کسی شعبہ میں پوری مہارت اور مکمل تعلیم کا تعلق ہے ، وہ تو کسی دوسرے شعبہ کے فرد کے لئے ضروری نہیں ہے لیکن بنیادی اور جنرل معلومات ہر شعبہ کے بارے میں حاصل ہونی چاہئیں اور اس کی اہمیت و ضرورت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے جس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی ڈاکٹر یا انجینئر کے لئے عالم دین ہونا ضروری نہیں مگر دین کی بنیادی معلومات و مسائل سے آگاہی ان کے لئے لازمی ہے تاکہ وہ اپنے شعبہ میں دینی احکام کے دائرہ کو ملحوظ رکھ سکیں، اسی طرح ایک عالم دین کے لئے ڈاکٹر یا انجینئر ہوناضروری نہیں البتہ ان شعبوں کے بارے میں بنیادی معلومات علماء کو ضروری طور پر حاصل ہونی چاہئیں تاکہ وہ ان شعبوں کے افراد کی دینی راہنمائی صحیح طو رپر کرسکیں۔
اسی طرح انگریز ی آج کی بین الاقوامی زبان ہے، اسلام اور عالم اسلام کے خلاف صف آرا عالمی میڈیا کی زبان ہے اور پاکستان کی دفتری اور عدالتی زبان ہے۔ اس لئے عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان سے کماحقہ بہرہ ور ہونا علماء کے لئے آج کے دور میں ضروری ہے۔ اس بنا پر ہم دینی مدارس کے نصابِ تعلیم میں کسی بنیادی تبدیلی یا تخفیف کی حمایت تو نہیں کریں گے البتہ اس میں انگریزی زبان اور میڈیکل سائنس، جنرل سائنس، انجینئرنگ اور دیگر عصری علوم کے بارے میں بنیادی معلومات کی حد تک نصاب کے اضافے کو ضروری سمجھتے ہیں اور دینی مدارس کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہئے۔
اس سلسلہ میں دینی مدارس کی مشکلات کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ مثلاً ان کی ایک بنیادی مشکل یہ ہے کہ جو طلبہ انگریزی یا دیگر عصری علوم سے آراستہ ہوجاتے ہیں اور سرکاری اسناد حاصل کرلیتے ہیں ان کی اکثریت مساجد اور دینی مدارس کی بجائے ملازمت کے لئے سرکاری اداروں کا رخ کرتی ہے جس کی وجہ سے مساجد و مدارس کو ضرورت اور ان کے معیار کے مطابق ائمہ، خطباء اور مدرّس میسر نہیں آتے۔ ظاہر بات ہے کہ مساجد و مدارس میں مشاہروں اور دیگر سہولتوں کا مروّجہ معیار کسی طرح بھی اس درجہ کا نہیں ہے کہ کوئی خطیب، امام یا مدرّس اطمینان کے ساتھ ایک عام آدمی جیسی زندگی بسر کرسکے۔ پھر یہاں ملازمت کا تحفظ بھی نہیں ہے، ا س لئے جسے سرکاری ملازمت میں جانے کا راستہ مل جاتا ہے وہ لازماً ادھر کا رخ کرے گا اور مساجد و مدارس کے لئے رجالِ کار کے فقدان اور خلا کا مسئلہ پریشان کن صورت اختیار کرجائے گا۔
اس موقع پر حضرت مولانا مفتی محمود کے ساتھ ایک گفتگو کا حوالہ دینا شاید نامناسب نہ ہو۔ یہ اس دور کی بات ہے جب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے وفاقی شرعی عدالت کے قیام کے بعد ضلع اور تحصیل کی سطح پر شرعی قاضی مقرر کرنے کا پروگرام بنایا تھا اور قاضی کورس کے لئے آرڈیننس کے نفاذ کی تیاری ہورہی تھی۔ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب راولپنڈی کینٹ کے ملٹری ہسپتال میں زیرعلاج تھے۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سلسلہ میں اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ مجھے پریشانی یہ تھی کہ پاکستان بھر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر مقرر کرنے کے لئے اس قدر تربیت یافتہ قاضی کہاں سے آئیں گے؟ اگرچہ اس زمانے میں بعض دینی اداروں نے قاضیوں کی تربیت کے لئے چار ماہ یا چھ ماہ اور ایک سال کے کورس شروع کررکھے تھے، لیکن میں ان سے مطمئن نہیں تھا کہ قاضی بہرحال قاضی ہوتا ہے اور سال چھ ماہ کا کورس کسی شخص کو قاضی نہیں بنا سکتا اور اگر ہم نے پاکستان میں قاضی کورٹس کا آغاز اس طرح کے نیم قاضیوں سے کیا تو اسلام کے عدالتی نظام کا پہلا تاثر ہی اپنے نتائج کے لحاظ سے نقصان کا باعث بن سکتا ہے، چنانچہ میں نے مولانا مفتی محمود سے سوال کیا کہ حضرت! یہ قاضی کہاں سے آئیں گے؟ مفتی صاحب نے جواب دیا کہ جن مدرّسین نے دینی مدارس میں 'ہدایہ' کی سطح تک کتابیں چار پانچ سال پڑھائی ہیں وہ نظامِ قضا کے مختصر کورس کے بعد قضا کا منصب سنبھال سکتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں اسے تسلیم کرتا ہوں، لیکن پہلے یہ دیکھ لیجئے کہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر قاضی مقرر کرنے کے لئے پاکستان کے اضلاع اور تحصیلوں کی تعداد کے مطابق اس سطح کے مدرّسین مل جائیں تو انہیں عدالتوں میں بھیج کر دینی مدارس میں 'ہدایہ' کی سطح کی کتابیں کون پڑھائے گا؟ اس سوال کے جواب میں حضرت مفتی محمود صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں ٹال دیا۔ لیکن میں نے ان کے چہرے کی سلوٹوں سے اندازہ لگالیا کہ اس سوال نے خود انہیں پریشان کردیا ہے۔
دینی مدارس کو ابھی تک اپنے وجود کے تحفظ اور اپنے کردار کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے تحفظات کی فضا کا سامنا ہے اور وہ اپنے تیار کردہ افراد کو مسجد و مدرسہ تک محدود رکھنے کے لئے کچھ تحفظات اختیار کئے ہوئے ہیں تو ان کی اس مشکل کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر ایک اور پہلو سے بھی اس مسئلہ کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔ وہ یہ کہ اس وقت پاکستان بھر میں مساجد میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے والے افراد میں 'مستند' کا تناسب کیا ہے؟ اگر اس کا غیر جانبدارانہ سروے کیا جائے تو غیر مستند ائمہ وخطبا کا تناسب مستند حضرات سے کہیں زیادہ ہوگا اور ہمارے ہاں مذہبی معاملات میں خرابیوں کی ایک بڑی وجہ یہ ہے، جس کی طرف اکثر حضرات کی توجہ نہیں ہے اور جو اہل دانش اس کا اِدراک رکھتے ہیں وہ کسی فتوے کی زد میں آجانے کے خوف سے اس کا اظہار نہیں کرتے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے اور اسلامی نظریاتی ریاست ہونے کے ناطے سے سٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح دوسرے شعبوں میں 'اَن کوالیفائیڈ' افراد کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے کوالیفائیڈ افراد کی فراہمی پر زور دیا جاتا ہے، امامت و خطابت اور دینی تعلیم کے شعبہ میں بھی ان کوالیفائیڈ افراد کا تناسب کم سے کم کرنے اور بالآخر اسے ختم کرنے کی پالیسی اختیار کی جائے اور جس طرح ملک میں خواندگی کا تناسب بہتر بنانے کے لئے بجٹ مخصوص کیا جاتا ہے، دینی شعبہ میں کوالیفائیڈ افراد کا تناسب بڑھانے کے لئے دینی مدارس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور قومی تعلیمی بجٹ میں ان کے لئے معقول حصہ مختص کیا جائے۔
دینی مدارس سے دوسری شکایت یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے مختلف شعبوں بالخصوص عدلیہ میں مطلوبہ معیار کے رجالِ کار کی فراہمی کو دینی مدارس کے نظام نے اپنے مقاصد میں شامل نہیں کیا۔ یہ کام بھی اگرچہ اصلاً ریاستی نظامِ تعلیم کا تھا لیکن ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ ریاستی نظامِ تعلیم نے اس سمت سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی اور اس کے بعد اس خلا کو پر کرنے کے لئے لوگوں کی نظریں بہرحال دینی مدارس کی طرف اُٹھتی ہیں۔ اگر دینی مدارس اپنے نصابِ تعلیم کا از سر نو جائزہ لے کر اسلام کو بطورِ نظام زندگی دوسرے مروّجہ نظاموں کے ساتھ تقابل کے ساتھ پڑھانے کا اہتمام کرتے اور اجتماعی زندگی سے تعلق رکھنے والے حدیث و فقہ کے ابواب کو ضروری اہمیت کے ساتھ پڑھایا جاتا تو دینی مدارس سے فارغ ہونے والے علماء کرام اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے تربیت یافتہ اور شعوری کارکن ثابت ہوتے اور اس کے ساتھ اگر تجارت، عدالت، انتظامیہ اور دیگر شعبوں کے افراد کے لئے ہلکے پھلکے کورسز تیار کرکے انہیں دینی مدارس کے تعلیمی دائرہ میں شریک کرلیا جاتا تو اسلامی نظام کے لئے رجالِ کار کی فراہمی کی ایک اچھی بنیاد مل سکتی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس کے نتائج آج معاشرہ میں فکری انتشار اور اخلاقی انار کی کی صورت میں سب کے سامنے ہیں۔
دینی مدارس سے تیسری شکایت اسلام کے بارے میں مغربی لابیوں اور ورلڈ میڈیا کے منفی پراپیگنڈہ کی صورت میں سامنے آنے والے چیلنج کو نظر انداز کرنے کی ہے۔ آج اقوامِ متحدہ کے چارٹر، جنیوا انسانی حقوق کمیشن کی قرار دادوں اور بنیادی حقوق کے مغربی تصورات کے حوالہ سے اسلامی احکام اور قوانین کا مذاق اڑایا جارہا ہے، جرائم کی شرعی سزاؤں کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا جارہا ہے۔ارتد اد اور توہین رسالت پر قدغن کے بارے میں اسلامی قوانین کو آزادی ٴرائے کے بنیادی حق سے متصادم کہا جارہا ہے اور دنیا میں کسی بھی اسلامی معاشرہ کے قیام کو قرونِ وسطیٰ کے ظالمانہ دور کی واپسی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اس چیلنج کا سامنا کرنے اور آج کی زبان میں اسلام کو انسانی حقوق کے علمبردار اور محافظ نظام کے طور پر پیش کرنے کے لئے لوگوں کی نظریں ان دینی اداروں کی طرف اٹھتی ہیں اور عام مسلمان یہ توقع کرتا ہے کہ جس طرح دینی مدارس کے نظام نے برطانوی استعمار کے دور میں اعتقادی اور معاشرتی فتنوں کا دلجمعی سے مقابلہ کیا تھا، آج بھی وہ مغربی فلسفہ کی نئی اور تازہ دم یلغار کے سامنے خم ٹھونک کر میدان میں آئے گا، مگر چند استثناؤں کو چھوڑ کر دینی مدارس میں اس چیلنج کے اِدراک کی فضا ہی سرے سے موجودنہیں جو بلا شبہ ایک بہت بڑا المیہ ہے!!
دینی مدارس سے چوتھی شکایت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اساتذہ اور طلبہ کو گفتگو اور مباحثہ کے نئے اُسلوب اور ہتھیاروں سے روشناس نہیں کرایا۔ فتویٰ اور مناظرہ کی زبان قصہ پارینہ بن چکی ہے مگردینی مدارس بلکہ ہمارے منبر و محراب پر بھی ابھی تک اسی زبان کا سکہ چلتا ہے۔ اخبارات پڑھنے والے اور ٹی وی دیکھنے والوں کے لئے ہماری زبان اور اُسلوبِ بیان دونوں اجنبی ہوچکے ہیں مگر وہ کوئی پروا کئے بغیر اسی ڈگر پر قائم ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر دینی مجالس میں تعلیم یافتہ لوگوں کا تناسب دن بدن کم ہوتا جارہا ہے۔ آج کی زبان منطق و استدلال کی زبان ہے، مشاہدات کی زبان ہے اور انسانی حقوق کے حوالے سے گفتگو کی زبان ہے مگر دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کی اکثریت اس زبان سے ناآشنا ہے اور ستم بالائے ستم کہ اچھا بولنے اور اچھا لکھنے والوں کا تناسب جو دینی حلقوں میں پہلے ہی بہت کم تھا، مزیدکم ہوتا جارہا ہے۔ انگلش اور عربی تو رہی ایک طرف، اُردو زبان میں اپنے مافی الضمیر کو اچھی تحریر کی صورت میں پیش کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ایک پختہ کار عالم دین نے شکایت کی کہ فلاں قومی اخبار کو میں نے درجنوں مضامین بھجوائے ہیں، ان میں سے ایک بھی شائع نہیں ہوا۔ میں نے اس اخبار کے ایڈیٹر سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ جو مضمون ہمیں پورا ازسر نو لکھنا پڑے، اسے شائع کرنے کا تکلف ہم کس طرح کرسکتے ہیں؟
دینی مدارس سے پانچویں شکایت یہ ہے کہ دینی اور اخلاقی تربیت کا ماحول جو عرصہ پہلے ان مدارس میں قائم رہا ہے، وہ ختم ہوتا جارہا ہے اور گنتی کے چند اداروں کے سوا دینی مدارس کی اکثریت ایسی ہے جن میں طلبہ کی فکری، دینی اور اخلاقی تربیت کا نظام موجود نہیں ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مدارس سے فارغ ہونے والے فضلا کی اکثریت کے ذہنوں میں مشنری جذبہ کے طور پر کوئی واضح اور متعین مقصد ِزندگی نہیں ہوتا اور اگر کسی کے ذہن میں کوئی مقصد ہو بھی تو اس کے مطابق اس کی تربیت نہیں ہوتی اور اس کے نقصانات بھی قدم قدم پر سامنے آرہے ہیں۔
دینی مدارس سے چھٹی شکایت یہ ہے کہ ان کا باہمی ربط و مشاورت کا نظام انتہائی کمزور ہے۔ پہلے تو بالکل نہیں تھا مگر کچھ عرصہ سے تمام مذہبی مکاتب ِفکر کے مدارس نے اپنے اپنے 'وفاق' قائم کرلئے ہیں جو اگرچہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہیں لیکن اپنے اپنے مکتب ِفکر کی حد تک انہوں نے باہمی ربط کا ایک نظام قائم کرلیا ہے جس سے امتحانات کی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور کچھ دیگر فوائد بھی سامنے آئے ہیں، لیکن معاشرہ میں دینی مدارس کی کارکردگی اور اثرات کا دائرہ جس قدر وسیع ہے، اس کے مطابق موجودہ ربط و نظم قطعی طور پر ناکافی ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مدارس کے قیام میں کوئی منصوبہ بندی اور ترجیحات نہیں ہیں۔ جہاں جس کا جی چاہتا ہے ضروریات اور تقاضوں کو ملحوظ رکھے بغیر کسی بھی معیار اور سائز کا دینی ادارہ قائم کرلیتا ہے اور چونکہ ان کی چیکنگ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، اس لئے کارکردگی اور اخراجات کا دائرہ شخص واحد یا زیادہ سے زیادہ اس کے منظورِ نظر اشخاص تک پھیلا ہوتا ہے جو تعلیمی اداروں کی بجائے 'مذہبی دکانیں' کہلانے کے زیادہ حقدار ہیں اور ان میں مالی بدعنوانیوں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔
ضیاء الحق مرحوم کے دور میں سرکاری زکوٰة کا ایک حصہ دینی مدارس کے لئے مخصوص کیا گیا تو اس کے حصول کے لئے دنوں میں کئی مدرسے وجود میں آگئے اور پھر سرکاری زکوٰة کی رقم حاصل کرنے کے لئے رشوت، سفارشات اور بدعنوانیوں کے جو دروازے کھلے، انہوں نے دینی اداروں کو بھی دیگر سرکاری محکموں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ اس سلسلہ میں دینی مدارس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک حصہ میں وہ معیاری دینی ادارے ہیں جنہوں نے سرکاری زکوٰة کی وصولی سے گریز کیا اور اپنی چادر کے دائرے میں پاؤں پھیلانے کے باوقار طریق کار پر گامزن رہے۔ دوسرے نمبر پر وہ دینی ادارے ہیں جو اپنی کارکردگی اور معاملات میں دیانت اور اعتماد کے معیار پر پورے اترتے ہیں اور انہوں نے سرکاری زکوٰة وصول کرکے اسے صحیح مصرف پر صرف کیا۔ اور تیسرے نمبر پر وہ مدارس ہیں جنہوں نے سرکاری زکوٰة وصول اور خرچ کرنے میں کسی دینی اور اخلاقی معیار کی پابندی کا تکلف گوارا نہیں کیا۔ بدقسمتی سے سرکاری ریکارڈ میں تیسری قسم کے مدارس کی فہرست زیادہ لمبی ہے اور دینی مدارس کے مجموعی نظام کے بارے میں سرکاری محکموں کی رائے قائم ہونے میں یہی فہرست بنیاد بن رہی ہے۔
پھر چند بڑے اور معیاری دینی مدارس کو چھوڑ کراکثر و بیشتر دینی مدارس نے عوامی چندہ کے حصول کے لئے جو طریقے کچھ عرصہ سے اختیار کر لئے ہیں، انہوں نے چندہ دینے والے اصحابِ خیر کو پریشان کردیا ہے اور اس سے مدارس کی نیک نامی اور اعتماد مجروح ہورہا ہے ۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ جیسے کاروباری شہروں میں رمضان المبارک کے دوران مساجد اور دکانوں پر دینی مدارس کے سفیروں کی جو یلغار ہوتی ہے اور لوگوں کی توجہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے گفتگو کا جو اسلوب اختیار کیا جاتا ہے، اس سے دینی اداروں کے اعتماد اور وقار کا گراف تیزی کے ساتھ نیچے جارہا ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ کی بات نہیں کہ کاروباری شہروں میں بہت سے دکاندار رمضان المبارک کے دوران سفیروں کی یلغار کے خوف سے خود اپنی دکانوں پر بیٹھنے سے کترانے لگے ہیں اور مساجد میں نمازوں کے بعد کھڑے ہوکر اپیل کرنے والے سفیروں کو اب نمازیوں نے ٹوکنا شروع کردیا ہے۔
اس سلسلہ میں سب سے پریشان کن صورتحال پاکستان سے باہر لندن میں دیکھنے میں آتی ہے جہاں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے مدارس کے سفراء نما زکے بعد کھڑے ہوکر اپنے مدرسے کے لئے اپیل کرتے ہیں اور پھر دروازے پر رومال بچھا کربیٹھ جاتے ہیں، جہاں نمازی گزرتے ہوئے پاؤنڈ اور سکے پھینکتے جاتے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ میرے جیسے حساس دینی کارکن کی نظریں شرم سے زمین پر گڑ جاتی ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل لندن میں ایک مسلم نوجوان کا مراسلہ شائع ہوا، جس میں اس نے بتایا کہ برطانیہ میں پلنے بڑھنے والے مسلمان نوجوانوں کی اکثریت مساجد میں اس لئے نہیں آتی کہ ایک تو ائمہ اور خطباء کی زبان ان کی سمجھ میں نہیں آتی، دوسرے جن موضوعات پر وہ گفتگو کرتے ہیں ان سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے، تیسرے ہر نماز کے بعد کسی نہ کسی مدرسہ کا سفیر چندہ کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور ان کے پاس ہر آدمی کو دینے کے لئے اتنے پیسے نہیں ہوتے۔ یہ صورتِ حال برطانیہ کی مساجد کی ہے جب وہاں کا یہ حال ہے تو اپنے ملک کی مساجد کا کیا حال ہوسکتا ہے؟ اور قیاس کرنے کی ضرورت کیا ہے، سارا منظر تو ہم رمضان المبارک میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
یہ بات نہیں کہ لوگ دینی مدارس سے تعاون نہیں کرتے، اس لئے مدارس کو مجبوراً ایسے طریقے اختیار کرنا پڑتے ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کیونکہ بیسیوں ایسے اداروں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جن کا سالانہ بجٹ لاکھوں سے متجاوز ہے اور بعض کا کروڑوں میں قدم رکھ رہا ہے، وہ مدارس نہ سرکاری امدا د لیتے ہیں اور نہ ہی ان کے سفیر اس طرح چندہ کے لئے گھومتے پھرتے ہیں، مگر ان کا بجٹ صاحب ِخیر مسلمانوں کے تعاون سے باوقار طریقے سے فراہم ہوجاتا ہے۔
یہ ہے دینی مدارس کا ماضی اور حال جسے اب پاکستان کی وزارتِ داخلہ اور اس سے بڑھ کر بین الاقوامی سطح پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی تحقیقات اور سروے کی بنیاد بنا کر دنیا کو ان کی منفی تصویر دکھانے کے درپے ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا تو یہ نظریاتی محاذ ہے، وہ مغربی حکومتوں اور لابیوں کی نمائندہ ہے جن کا موقف یہ ہے کہ اسلام آج کے دور میں بطورِ 'نظامِ زندگی' قابل عمل نہیں ہے اور اسلامی احکام و قوانین انسانی حقوق کے منافی ہیں، اس لئے عالم اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات کو ناکام بنانا ضروری ہے ، ورنہ قرونِ وسطیٰ کا وحشیانہ دور پھر واپس آسکتا ہے جس سے ویسٹرن سولائزیشن اور تہذیب و ترقی سب کچھ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس لئے مغربی حکومتیں اور ان کے مفاد میں کام کرنے والی لابیاں عالم اسلام میں دینی بیداری کے سرچشموں کو بند کرنا چاہتی ہیں۔
ان کی نظر میں پاکستان دنیا کا سب سے بڑا بنیاد پرست مسلمان ملک ہے اور پاکستان کی بنیاد پرستی کا سرچشمہ دینی مدارس ہیں، اس لئے دینی مدارس کو غیرموٴثر بنانا اور عوام کے ساتھ ان کے اعتماد کے رشتہ کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اسی بنیاد پر علماء کرام اور دینی مدارس کی کردار کشی اور انہیں منتشر رکھنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اسی مہم کو لے کر آگے بڑھنا چاہتی ہے اور پاکستان کے غیر معیاری اور برائے نام دینی مدارس کو بنیاد بنا کر ایک رپورٹ دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کررہی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس میں طلبہ کو آج کے تقاضوں سے بے خبر رکھا جاتاہے، انہیں مارا جاتا ہے، زنجیروں سے باندھا جاتا ہے، ان سے جبری بیگار لی جاتی ہے، ان کی خوراک، رہائش اور صفائی کا معیار ناقص ہے، انہیں ان مدارس میں آزادئ رائے اور دیگر بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں، انہیں جان بوجھ کر ناقص رکھا جارہا ہے تاکہ وہ قومی زندگی کے شعبے میں کھپ نہ سکیں۔ ان کے نام پر چندہ جمع کرکے مدارس کے منتظمین کھا پی جاتے ہیں اور طلبہ کو انتہائی تنگی کی حالت میں رکھ کر خود عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ان مدارس میں طلبہ کو اسلحہ کی ٹریننگ دے کر دہشت گرد بنایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ کا حصہ ہوتا ہے جو ہر سا ل منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔اس کے لئے بطورِ خاص ایسے غیرمعیاری مدارس کو سروے کی بنیاد بنایا جارہا ہے جہاں یہ سب کچھ ہوتا ہے تاکہ رپورٹ پر 'غیر حقیقت پسندانہ' اور 'خلافِ واقعہ' ہونے کا الزام عائد نہ کیا جاسکے۔ اس سروے مہم میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کوئی ٹیم معیاری دینی مدارس میں نہیں جائے گی اور نہ ہی رپورٹ میں ان کا تذکرہ ہوگا۔ پاکستان کی وزارتِ داخلہ اور دیگر محکمے اس مہم میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے معاون ہیں اور دینی مدارس کے خلاف اس مہم میں ان کے مقاصد بھی اس سے مختلف نہیں ہیں۔
کسی بھی طبقہ کی کمزوریاں ہمیشہ اس کے خلاف دشمن کا ہتھیار بنتی ہیں اور دینی مدارس کے نظام سے نالاں قوتوں نے اس کے خلاف ان کمزوریوں کو ہتھیار بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس لئے دینی مدارس کو اور دینی مدارس کے وفاقوں کو خود احتسابی کا ایک مضبوط نظام قائم کرنا ہوگا اور اپنی کمزوریوں کو خود اپنے ہاتھوں دور کرنے کا اہتمام کرنا ہوگا، ورنہ یہ کمزوریاں ان کے خلاف صرف مغربی لابیوں کی پراپیگنڈہ مہم کا ہتھیار نہیں ہوں گی بلکہ ان مدارس پر ریاستی کنٹرول مہم میں بھی معاون ثابت ہوں گی۔ اس لئے ہم دینی مدارس کے اربابِ حل و عقد کی خدمت میں عرض کریں گے کہ
٭ تمام مکاتب ِفکر کے دینی مدارس کے الگ الگ وفاق اپنا وجود اور نظم قائم رکھتے ہوئے ایک مشترکہ بورڈ قائم کریں اور مشترکہ معاملات کو اس بورڈ کے ذریعہ کنٹرول کیا جائے۔
٭ درسِ نظامی کے موجودہ نصاب کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں انگریزی زبان اور عصری علوم کو بنیادی معلومات کی حد تک ضرور شامل کیا جائے۔
٭ گفتگو اور مباحثہ کے جدید اسلوب اور انگریزی /اردو میں صحافتی زبان سے طلبہ کو متعارف کرایا جائے
٭ اسلام کو بطورِ نظام حیات پڑھایا جائے اور دیگر نظام ہائے حیات کے ساتھ تقابلی مطالعہ کے ساتھ نظامِ شریعت کی اہمیت و ضرورت کو ان کے ذہنوں میں اجاگر کیا جائے۔
٭ مدارس کی درجہ بندی کرکے ہر علاقہ میں وہاں کی ضروریات کے مطابق مدارس کے قیام کے لئے قومی سطح پر منصوبہ بندی کی جائے۔
٭ اباحت ِمطلقہ (فری سوسائٹی) کے مغربی تصور اور انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ کے پس منظر اور نتائج سے طلبہ کو آگاہ کیا جائے۔
٭ دینی، ا خلاقی اور روحانی تربیت کا بطورِ خاص اہتمام کیا جائے اور دینی مقاصد کے حصول کے لئے ان میں مشنری جذبہ اجاگر کیا جائے۔
٭ مالی امداد کے حصول کے لئے باوقار اور آبرو مندانہ طریق کار کی پابندی اور غیر معیاری طریقوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اس سلسلہ میں وفاق کی سطح پر ضابطہ اخلاق طے کرکے مدارس سے اس کی پابندی کرائی جائے۔
٭ اساتذہ کے مشاہروں اور طلبہ کی رہائش، خوراک اور صفائی کے معیار کو بہتر بنایا جائے اور کام کو پھیلانے کی بجائے تھوڑے اور معیاری کام کو اُصول قرار دیا جائے۔
٭ مسلم معاشرہ میں دینی مدارس کی اہمیت، خدمات اور کردار کے حوالہ سے معیاری مضامین کی انگلش اور اُردو میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر اشاعت کا اہتمام کیا جائے۔
ہمیں اُمید ہے کہ دینی مدارس کے اربابِ حل و عقد ان گزارشات پر ہمدردانہ غور فرما کر اصلاحِ احوال کی ضروری تدابیر اختیار کریں گے تاکہ دینی مدارس کا یہ نظام ماضی کی طرح مستقبل میں بھی اسلامی علوم کی حفاظت اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں مفید اور موٴثر کردار ادا کرسکے۔ ( 'الشریعہ' جنوری ۱۹۹۵ء)

٭٭٭٭٭