اِنسانی حقوق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

معاشرہ سے فتنہ و فساد کے خاتمہ اور امن وامان کے قیام کے لئے معاشرہ کے افراد کے حقوق وفرائض کی تعیین نہایت ضروری چیز ہے، اور یہ تعیین دو طرح سے ہوتی ہے :
ایک صورت یہ ہے کہ معاشرہ کے کچھ سمجھدار لوگ اپنے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں ایسے حقوق و فرائض باہمی مشورہ سے طے کرلیتے ہیں۔ ایسی تعیین کبھی تو درست ثابت ہوتی ہے اور کبھی غلط،کیونکہ انسان کی عقل بھی محدود ہے اور علم بھی ۔ لہٰذا ایسی تعیین ہمیشہ تجربات کے دور سے گزرتی اور تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
دوسری قسم کی تعیین وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی کے لئے خود ہی تجویز فرمایا ہے۔ ۱نبیاء کرام علیہم السلام کو بذریعہ وحی ایسی ہدایات و احکامات دے دیئے جاتے ہیں جنہیں عوام الناس تک پہنچانا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان تھے تو ساتھ ہی نبی بھی تھے۔ انہی سے اس سلسلہ کی ابتدا ہوئی، جبکہ انتہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی۔ گویا تعیین الٰہیہ اور تعیین انسانی میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر غیر متبدل ہے اور لوگوں کو اپنے پیچھے چلنے کی دعوت دیتی ہے۔ جب کہ ثانی الذکر، جو لوگوں کے تجربات و مشاہدات اور خواہشات کے نتیجہ میں معرض وجود میں آتی ہے، ہمیشہ تغیر و تبدل کی زد میں رہتی ہے۔ بالفاظ دیگر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اوّل الذکر خود متبوع، اور عوام اس کے تابع ہوتے ہیں۔ جبکہ ثانی الذکر تعیین خود لوگوں کی خواہشات کے تابع ہوتی ہے۔
ہماری شریعت کا ایک کثیر حصہ ایسے احکامات و ارشادات پر مشتمل ہے جو انسانی حقوق سے متعلق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی وفات سے صرف تین چار ماہ پیشتر فریضہ حج ادا فرمایا۔ ہجرت کے بعد یہ آپ کا پہلا اور آخری حج تھا ۔ اس موقع پر آپ نے تقریباً سوا لاکھ صحابہ کرام  سے ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایاجو خطبہ حجة الوداع کے نام سے مشہور ہے۔اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی
﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣ ﴾... سورة المائدة
"آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پراپنی نعمتیں پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت ِدین پسند کرلیا ہے۔"
اس آیت کے نازل ہونے سے آپ کو یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ اب آپ کی زندگی کا مشن پورا ہوچکا ہے، نیزیہ کہ اب آپ اپنی زندگی کی آخری منازل طے فرما رہے ہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنے خطبہ کا آغاز ہی اِن الفاظ سے فرمایا:
«أيها الناس اسمعوا قولی فإنی لا أدری لعلی ألقاکم بعد عامی هذا بهذا الموقف أبداً»
"لوگو! میری باتیں غو رسے سن لو! شاید اس سال کے بعد، اس مقام پر میں پھر تم سے نہ مل سکوں"
اس خطبہ کی حیثیت گویا آپ کی وصیت کی تھی۔ لہٰذا آپ نے اس موقع پر صرف ان امور کی تاکید فرمائی جنہیں آپ انسانی فلاح و بہبود کے لئے نہایت اہم خیال فرماتے تھے۔ نیز یہ خطبہ دراصل پہلے سے نازل شدہ بہت سے احکامات کا خلاصہ تھا۔ اس خطبہ کا اکثر حصہ چونکہ انسانی حقوق کی تعیین پرمشتمل ہے، لہٰذا اگر اسے انسانی حقوق کے سب سے پہلے چارٹر کانام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
اس خطبہ کا کثیر حصہ تو آپ نے اونٹنی پر سوار ہو کر عرفہ کے دن میدانِ عرفات میں ارشاد فرمایا اور کچھ تھوڑا سا حصہ واپسی پر منیٰ میں ارشاد فرمایا تھا۔ صورتِ حال یوں تھی کہ آپ یہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور آپ کے الفاظ کو درمیان میں کھڑے لوگ پچھلوں تک پہنچانے کا فریضہ ادا کر رہے تھے۔ بعض باتیں آپ دو تین بار دہراتے۔ اس خطبہ کے آغاز میں ہی آپ نے سب سے اہم تین بنیادی حقوق: جان ومال اور آبرو کی حفاظت کاذکر فرمایا۔اور جس بلیغ انداز سے ان کا ذکر فرمایا، اسی سے ان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔آپ کے تمام تر خطبہ کا اندازیہ تھا کہ جب آپ ایک بات بیان فرما لیتے تو صحابہ کرام  سے پوچھتے کہ کیا میں نے یہ بات پہنچا دی؟ صحابہ کرام  جب یہ جواب دیتے کہ ہاں آپ نے پہنچا دی تو «اللهم اشهد!» فرماتے۔یعنی "اے اللہ! اس بات پر گواہ رہنا" صحابہ کرام  کی یہ جماعت اس بات کا اقرار کر رہی ہے کہ میں نے تیرا پیغام انہیں پہنچا دیا ہے۔
جان، مال اور آبرو کی حفاظت کی اہمیت کو اچھی طرح ذہن نشین کرانے کے لئے آپ نے جو انداز اختیار فرمایا، حضرت ابوبکر اسے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ہم سے پوچھا :
«أي شهر هذا؟ قلنا الله ورسوله أعلم، فسکت حتی ظننا آنه سيُسَمِّيه بغير اسمه: أليس ذا الحجة؟ قلنا، بلیٰ قال أی بلد هذا؟ قلنا الله ورسوله أعلم فسکت حتی ظننا أنه سيسميه بغير اسمه، قال: أليس يوم النحر؟ قلنا، بلیٰ، قال فإن دماء کم وأموالکم وأعراضکم عليکم حرام کحرمة يومکم هذا فی بلدکم هذا فی شهرکم هذا وستلقون ربکم فيسألکم عن أعمالکم ألا فلا ترجعوا بعدی ضلالا يضرب بعضکم رقاب بعض ألا هل بلّغت؟ قالوا نعم۔ قال اللهم اشهد۔ فليبلغ الشاهد الغائب فرب مبلّغ أوعیٰ من سامع»1
"یہ کون سا مہینہ ہے؟" ہم نے عرض کی: "اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔" آپ خاموش ہوگئے، تاآنکہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ آپ اس مہینہ کا کوئی اور نام تجویز فرمائیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا:"کیا یہ ذوالحجہ نہیں؟" ہم نے عرض کی "جی ہاں!" پھر آپ نے پوچھا: "یہ شہر کون سا ہے؟" ہم نے کہا "اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔" آپ خاموش ہوگئے، تاآنکہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز فرمائیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا : "کیا یہ البلدة (مکہ) نہیں؟" ہم نے کہا "جی ہاں" پھر آپ نے پوچھا: "یہ کون سا دن ہے؟" ہم نے کہا: "اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔" آپ خاموش ہوگئے تاآنکہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز فرمائیں گے، اس پر آپ نے فرمایا: "کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟" ہم نے کہا: "جی ہاں" تب آپ نے فرمایا "بلاشبہ تم پر تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں اسی طرح حرام ہیں، جس طرح اس مہینہ کی، اس شہر مکہ میں اور اس قربانی کے دن میں حرمت ہے۔ اور بلاشبہ تم عنقریب اپنے پروردگار سے ملو گے تو وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا۔ خبردار! میرے بعد گمراہ ہو کر ایک دوسرے کی گردنیں نہ کاٹنے لگنا۔" پھر آپ نے صحابہ کرام  سے پوچھا، "کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا؟" صحابہ کرام  نے عرض کی، "جی ہاں" تو آپ نے فرمایا: "اے اللہ! گواہ رہنا۔" پھر آپ نے فرمایا جو شخص یہاں موجود ہے، اسے چاہئے کہ وہ یہ بات اس شخص تک پہنچا دے، جو یہاں موجود نہیں، کیونکہ بسا اوقات سننے والے سے وہ شخص زیادہ نگہداشت رکھنے والا ہوتا ہے، جس کو بات پہنچائی جائے گی۔"
غور فرمائیے! اس ارشادِ مبارک میں تین قسم کی، اور تہری حرمت بیان کرنے کے بعد جان، مال اور آبرو کی حرمت کو اس تہری حرمت کے مانند قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی آپ نے یہ تاکید بھی فرما دی کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بات ان لوگوں تک پہنچا دیں، جو یہاں موجود نہیں۔ تاکہ یہ پیغام دنیا بھر کے لوگوں تک اور قیامت تک کے لوگوں کو پہنچ سکے۔
جان، مال اور آبرو کی حفاظت سے متعلق آپ کے اس مختصر مگر جامع ارشاد سے پہلے جو اَحکام نازل ہوچکے تھے، مختصراً درج ذیل ہیں :
(1) جان کی حفاظت
قتل ناحق کو شدید ترین اور ناقابل معافی جرم قرار دیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَلَكُم فِى القِصاصِ حَيو‌ٰةٌ يـٰأُولِى الأَلبـٰبِ...١٧٩ ﴾... سورة البقرة
"اے عقل والو! قصاص میں تمہارے لئے زندگانی ہے۔"
2۔ یہ قصاص محض قتل میں نہیں بلکہ اعضاء و جوارح میں بھی قصاص ہے، جس کی تفصیل احادیث میں موجود ہے۔
3۔ قتل سے متعلق مندرجہ ذیل سزائیں قرآنِ مجید میں مذکور ہیں:
(i) مسلمان کے دانستہ خونِ ناحق کی سزا ابدی جہنم ہے جس پر اللہ کا غضب اور لعنت مستزاد ہے۔(النساء:۹۳)
(ii) مسلمان کے قتل خطا کی سزا مقتول کے وارثوں کو خون بہا دینا اور ایک غلام آزاد کرنا ہے۔(النساء: ۹۲)
(iii) مقتول اگر معاہد قوم سے تعلق رکھتا ہو تو غلام آزاد کرنا اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دینا ہے۔ اگر دشمن قوم سے تعلق رکھتا، اور وہ خود موٴمن ہو توبھی ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ (النساء:۹۲)
(iv) نوزائیدہ بچیاں زندگی درگور کرنے کو بھی، جس کا عرب میں عام رواج تھا، قتل ہی قرار دیا گیا ہے۔ (التکویر: ۸۔۹)
(v) قتل ناحق کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا ہو۔ (المائدہ:۳۲)
قتل کی سب سے ہلکی سزا یہ ہے کہ مقتول کے وارث دیت پرراضی ہوجائیں، اور اگر وہ راضی ہوجائیں تویہ ان کی مہربانی ہے۔ دیت کی مقدار سو اونٹ ہے جو دورِ جاہلیت میں مروّج تھی۔ شریعت نے اسی کو بحال رکھا ہے۔ یا سو اونٹ کی قیمت کے لگ بھگ نقد رقم ادا کرنا ہوگا۔
آپ کی بعثت سے پیشتر عرب میں قبائلی نظام رائج تھا۔ یہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھ پڑتے اور قتل و غارت پر اتر آتے تھے۔ اگر کسی قبیلہ کا کوئی شخص قتل ہوجاتا تو جب تک یہ قبیلہ قاتل کے قبیلہ کے کسی شخص کو قتل نہ کرلیتا، چین سے نہیں بیٹھتا تھا۔ پھریہ سلسلہ پشت در پشت آگے چلتا رہتا اور ختم ہونے میں نہ آتاتھا، اس کے متعلق آپ نے اسی خطبہ حجة الوداع میں ارشاد فرمایا:
«ألا کل شئ من أمر الجاهلية تحت قدمی موضوع ودماء الجاهلية موضوعة وإن أول دم أضع من دمائنا دم ابن ربيعة بن حارثة»2
"خبردار! دورِ جاہلیت کا ہر کام میرے ان دونوں قوموں کے نیچے رکھا گیا ہے۔ دورِ جاہلیت کے تمام خون موقوف کردیئے گئے ہیں، اور سب سے پہلا خون جو میں موقوف کرتا ہوں، وہ ہمارا خون : ربیعہ بن حارثہ کا خون ہے!"
گویا اس موقع پر آپ نے اپنے قبیلہ کا خون موقوف کرکے اس برے دستور کا خاتمہ فرما دیا۔
(2) مال کی حفاظت
اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل سزائیں قرآنِ مجید میں نازل ہوچکی تھیں:
(i) چور کی حد یہ ہے کہ چور، خواہ مرد ہو یا عورت، اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔ (المائدہ:۳۸)
(ii) راہزنی اور ڈاکہ وغیرہ کے لئے قرآنِ مجید میں چاسزائیں مذکور ہیں:
(۱) سولی، (۲) قتل ، (۳) آمنے سامنے کے ہاتھ پاؤں کاٹنا اور (۴) جلاوطنی (المائدة:۳۳)
قاضی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ان میں سے کوئی ایک یا کئی ایک سزائیں، جرم کی نوعیت کا لحاظ رکھتے ہوئے دے دے۔
آج کل اسلامی سزاؤں کو، اور بالخصوص چوری کی سزا کو، وحشیانہ قسم کی سزا سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ تجربہ سے یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ لوگوں کے اَموال کی حفاظت صرف اسی صورت میں ممکن ہے اور شرعی سزاؤں کے نفاذ سے جرائم کی تعداد میں حیرت ناک حد تک کمی واقع ہوجاتی ہے۔ آپ نے ان سزاؤں کے نفاذ میں جس قدر استقلال کا ثبوت دیا، اس کا اندازہ درج ذیل واقعہ سے بخوبی ہوسکتا ہے:
قریش کی ایک ذیلی شاخ بنو مخزوم کی ایک عورت فاطمہ مخزومی نے چوری کی۔ قبیلہ قریش کے لوگ عرب میں بڑے معزز سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر فاطمہ کا ہاتھ کٹ گیا تو سارا قبیلہ بدنام ہوجائے گا۔ لہٰذا وہ سفارش کی راہیں تلاش کرنے لگے۔ بالآخر نظرانتخاب حضرت اسامہ بن زید پر پڑی۔ حضرت اسامہ  نے جب یہ سفارش کی تو آپ کو ان پر بھی سخت غصہ آگیا۔ آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور فرمایا : «إنما أهلک الذين قبلکم أنهم کانوا إذا سرق فيهم الشريف ترکوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد وأيم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها»3
" تم سے پہلے کی اُمتیں اسی وجہ سے ہلاک کی گئیں کہ اگر ان میں سے کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے ، اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔ اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔"
(3) آبرو کی حفاظت
(i)آبرو ریزی یعنی زنا کی حد غیر شادی شدہ کے لئے سو کوڑے مقرر ہے۔ (النور:۲) اور شادی شدہ کے لئے رجم ہے۔4 اگر عورت سے جبرا ً یہ فعل کیا گیا ہوتو حد صرف مرد پر جاری ہوگی اور عورت بچ جائے گی۔ اور اگر یہ کام باہمی رضا مندی سے ہو تو دونوں پر حد جاری ہوگی۔
(ii) کسی عورت یا مرد پر تہمت لگانے کی سزا ۸۰ کوڑے مقرر ہے، اور توبہ سے قبل اس کی گواہی ناقابل قبول ہے۔ (النور:۴)
(iii) شراب نوشی کی سزا جرم کی نوعیت کے مطابق ۴۰ کوڑے یا ۸۰ کوڑے ہے۔5 کیونکہ شرابی نشہ کی حالت میں بعض دفعہ لوگوں کی بے عزتی کر دیتا ہے اور بعض دفعہ کسی پر تہمت بکنے لگتا ہے۔
یہ تو جان، مال اور آبرو کی حفاظت کے سلسلہ میں حدود و تعزیرات کا ذکر تھا۔ اب اسی سلسلہ کے درج ذیل ارشاداتِ نبوی بھی ملاحظہ فرما لیجئے :
1۔ جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں۔6 (یعنی ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں)
2۔ جو شخص اپنے مال کو بچاتے ہوئے مارا جائے، وہ شہید ہے۔7
3۔ مسلمان پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کی مانند ہے۔8
4۔ کسی شخص کے لئے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔9
5۔ مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔10
(4) حق ملکیت
سرمایہ دارانہ نظا م میں زمین اور دوسری اشیا کا غیر مشروط حق ملکیت تسلیم کیا گیا ہے۔ ایک سرمایہ دار اپنے سرمایہ سے، جیسے بھی چاہے، اپنی دولت میں اضافہ کرسکتا ہے، خواہ اس کا یہ طریق کار معاشرہ کے اخلاق یا معاش کے لئے کتنا ہی نقصان دہ کیوں نہ ہو۔ دوسری طرف اشتراکیت میں حق ملکیت کو یکسر ختم کیا گیا ہے اور سب کچھ قومی تحویل میں لے لیا جاتا ہے۔ جب کہ اسلام فرد کے حق ملکیت کو تسلیم تو کرتا ہے مگر چند شرائط کے تحت۔ اسلامی نقطہ نظر سے ہر چیز کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اور انسان یا جماعت کے پاس جو کچھ ہے، وہ بطورِ امانت ہے۔ اس میں ہم اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تحت ہی تصرف کرسکتے ہیں۔
قدرتی اشیاء سے استفادہ کے معاملہ میں ہر شخص کو مساویانہ حق حاصل ہے ۔ مثلا ً جنگل کی لکڑیوں کو جو شخص بھی اکٹھا کرکے لائے گا، وہ اسی کی ہوں گی۔ خواہ وہ انہیں خود استعمال کرے یا بازار میں جاکر بیچ دے یا کوئی شخص اگر محنت کرکے پانی کے چشمہ سے پانی لاتا ہے تو وہ اسی کا ہوگا، کوئی دوسرا اس سے چھین نہیں سکتا۔ اس طرح اگر جنگل میں کوئی پھلدار درخت اُگ آیا ہے اور وہ زمین کسی کی ملکیت بھی نہیں، تو جو شخص سب سے پہلے وہاں جاکر قبضہ کرے گا اور ا س کی حفاظت کا اہتمام کرے گا، تو وہ اسی کی ملکیت بن جائے گا۔حتیٰ کہ اسلامی نقطہ نظر سے تو اگر کوئی شخص بنجر اور غیر مملوکہ زمین کو آباد کرلیتا ہے ، تو وہ اسی کی ہوجاتی ہے۔11
(5) معاشرتی حقوق
اسلام معاشرہ کے افراد میں اونچ نیچ کا قائل نہیں، بلکہ مساوات کا حامی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّا خَلَقنـٰكُم مِن ذَكَرٍ‌ وَأُنثىٰ وَجَعَلنـٰكُم شُعوبًا وَقَبائِلَ لِتَعارَ‌فوا ۚ إِنَّ أَكرَ‌مَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم...١٣ ﴾... سورة الحجرات
"لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہی ہے جو زیادہ متقی ہو"
انسان کے اس فطری حق کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ حجة الوداع میں یوں وضاحت فرمائی:
«أيها الناس إن ربکم واحد وإن اباکم واحد، کلکم بنو اٰدم و اٰدم من تراب، ألا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأحمر علی أسود ولا لأسود علی أحمر إلا بالتقوی» ( مسند احمد)
"لوگو! بلاشبہ تم سب کا ربّ ایک اور باپ بھی ایک ہے۔ تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو، اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔ سن رکھو! کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، نہ ہی کسی گورے کو کالے پر اور نہ ہی کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔ فضیلت اگر ہوسکتی ہے تو صرف تقویٰ کی بنا پر ہوسکتی ہے!"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ مبارک سے قومیت پرستی، وطنیت پرستی اور نسلی ولسانی ا ختلافات وفسادات کی جڑ کٹ جاتی ہے جو آج کل بین الاقوامی اور بین المملکتی فسادات نیز جنگ و جدال کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
پھر اس سلسلہ میں آپ کا اندازِ تربیت بھی ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت ابوذرّ غفاری ایک جلیل القدر صحابی اور سابقون الاولون میں سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے خصوصی پیار بھی تھا۔حضرت ابوذر خود بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ ایک شخص کوبرا بھلا کہا اور ا س کی ماں کو گالی دی12 تو آپ نے مجھ سے فرمایا: «يا أبا ذرعيرته بأمه إنک امرء فيک أمر الجاهلية»
"اے ابوذرّ! تو نے اسے (حضرت بلال کو) اس کی ماں سے عار دلائی ہے، تو ایسا شخص ہے جس میں ابھی تک جاہلیت کا اثر باقی ہے!"
(6) معاشی حقوق
سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی حقوق کوبالکل آزاد چھوڑ دیا گیاہے، خواہ اس بنا پر معاشرہ کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ پہنچے۔ اس کے اخلاق تباہ ہوں، بے حیائی اور فحاشی کو فروغ ملے، مثلاً لوگوں کو گندم کی ضرورت ہو، لیکن سرمایہ دار یہ سمجھے کہ اس وقت اسے شراب بنانے میں زیادہ فائدہ ہے تو وہ شراب ہی مہیا کرے گا اور حکومت اس پر کوئی گرفت نہیں کرسکتی۔ اس کے برعکس اشتراکیت میں یہ حقوق یکسر چھین لئے گئے ہیں۔ چنانچہ ہر شخص کے لئے حکومت خود کاروبار تجویز کرتی ہے، اور اسے بس ایک مشین کی طرح وہ کام کرنا پڑتا ہے۔
اسلام میں اس حق کو تسلیم کیا گیاہے، مگر چند در چند پابندیوں کے ساتھ، مثلاً جو چیزیں شریعت نے حرام قرار دی ہیں، ان کی خرید و فروخت بھی حرام ہے۔ چنانچہ شراب نوشی اگر حرام ہے تو شراب فروشی بھی حرام ہے۔ اگر مردار حرام ہے، تو اس کی کسی بھی چیز کو نہ فروخت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی خود اس سے کچھ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ چوری، ڈاکہ، غصب، رشوت، رہزنی وغیرہحرام،ان سے حاصل شدہ مال بھی حرام ہے۔
حرام اشیا میں سرفہرست سود ہے۔ سود اس کی تمام شکلوں کو، خواہ یہ مہاجنی قرضے ہوں یا کمرشل انٹرسٹ، سود مفرد ہو، مرکب یا ڈسکاؤنٹ (منی کاٹا) یا مارک اَپ اور مارک ڈاؤن۔ شریعت نے نہ صرف حرام، بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ کیونکہ طبقاتی تقسیم جس قدر سود سے بڑھتی ہے، اور کسی چیز سے نہیں بڑھتی، جو بالآخر فتنہ و فساد اور لوٹ مار پر منتج ہوتی ہے۔ سود چونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، اس لئے اس کی کوکھ سے اس کی دوسری انتہا اشتراکیت نے جنم لیا۔ سود کی حرمت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجة الوداع میں بالخصوص اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
«وربا الجاهلية موضوع وأول ربا أضع من ربانا ربا عباس بن عبد المطلب فإنه موضوع کله» (صحیح مسلم: کتاب الحج، باب حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
"دورِ جاہلیت کا سود موقوف کیا جاتا ہے۔ اور پہلا سود جو میں تمام کا تمام موقوف کرتا ہوں، وہ اپنے قبیلہ میں سے عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے!"
حضرت عباس آپ کے حقیقی چچا تھے جو تجارت کے لئے رقم سود پر دیا کرتے تھے۔ گویا آپ نے اس اصلاح کا آغاز اپنے گھر سے کرکے سود کا جزیرة العرب سے خاتمہ کردیا۔
اسلام انسان کی کمائی کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے: ایک حلال، دوسرا حرام! ... حرام کمائی کی تمام تر تفصیلات کتاب و سنت میں مذکور ہیں۔ اس حرام کمائی سے بچتے ہوئے ہر انسان پیشہ کاانتخاب نیز کمائی کے ذرائع کا پورا پورا حق رکھتا ہے۔ اور اس طرح جتنی بھی دولت وہ کمالے، یہ اس کی جائز آمدنی اور اس کی ملکیت ہوگی۔
تاہم اس جائز کمائی پر بھی کچھ پابندیاں عائد ہیں: اسلام مال کو ضائع کرنے، دولت کے بے جا استعمال اور عیاشیانہ زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ اس نے اس آمدنیمیں زکوٰة و صدقات اور انفاق فی سبیل اللہ کی صورت میں دوسروں کے حقوق کی نشاندہی بھی کردی ہے۔ یوں معاشرہ کے محروم طبقات کو ان کا حق بھی مل جاتاہے، دولت بھی گردش میں رہتی ہے، اور معاشرہ فساد و بدامنی کا شکار بھی نہیں ہوتا۔ نیز طبقاتی تقسیم میں از خود نمایاں کمی واقع ہوجاتی ہے۔
(7) سیاسی حقوق
آج کل سیاسی حقوق کابڑا چرچا ہے۔ ہربالغ انسان کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، رائے دہی کا حق حاصل ہے، اور مملکت کا ہر شہری بلا تخصیص مرد و زَن، بڑے سے بڑے سرکاری منصب پر فائز ہوسکتا ہے۔ اسلام ایسے غیر مشروط سیاسی حقوق کا قائل نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو سیاسی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دیا ہے کہ جب وہ اپنے گھر کی سربراہ بھی نہیں بن سکتی، تو ایک علاقہ یا ملک کی کیسے بن سکتی ہے؟ نیز اسلامی نقطہ نظر سے ہر ایریغیرے سے رائے طلب کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ رائے صرف اس شخص سے لی جائے گی، جو اس کا اہل ہو۔ حیرت کی بات ہے کہ ہم اپنے ذاتی امور میں تو رائے صرف اس شخص سے لیتے ہیں، جسے اس کا اہل سمجھتے ہیں۔ ہر کسی سے نہ مشورہ کرتے ہیں نہ رائے لیتے ہیں، تو پھر کیا اُمور مملکت ہی ایسے گئے گزرے معاملات ہیں کہ ان کے بارے میں اس پابندی کو یکسر ختم کردیا جائے؟
سیاسی اُمور میں اسلام باہمی مشورہ کی تاکید کرتا ہے، اور رائے دہی کا حق بھی دیتا ہے۔مگر رائے دہی پر پابندیاں یہ ہیں کہ وہ مسلمان ہو، کم از کم نماز اور زکوٰة ادا کرتا ہو، سمجھ دار ہو اور کوئی ایسا جرم نہ کرچکاہو، جس کی بنا پر اس کی شہادت ناقابل قبول ہو۔ ایسے لوگوں سے خلیفہ کے انتخاب میں رائے لی جاسکتی ہے اور مناصب کے لئے چند شرائط بھی ہیں، جیسے علومِ شریعت سے واقفیت اور تقویٰ وغیرہ۔
جمہوریت میں عہدہ یا منصب کے حصول کو ہرفرد کا حق قرار دیا گیاہے، جبکہ شرعی نقطہ نظر سے یہ حق نہیں، بلکہ ایک گراں بار ذمہ داری ہے۔ اسی لئے عہدہ کی طلب کو مذموم قرار دیا گیا ہے۔
(8 ) عدل و انصاف کا حق
ہر شہری کا یہ حق ہے کہ اسے عدل و انصاف مہیا ہو، پھرمفت اور بلا تاخیر مہیا ہو اور یہ حق اس قدر اہم ہے کہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
﴿إِنّا أَنزَلنا إِلَيكَ الكِتـٰبَ بِالحَقِّ لِتَحكُمَ بَينَ النّاسِ بِما أَر‌ىٰكَ اللَّهُ...١٠٥ ﴾... سورة النساء
"اے پیغمبر! ہم نے آپ پر سچی کتاب نازل کی ہے، تاکہ آپ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کریں۔"
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جتنے فیصلے فرمائے، ان میں یہ تینوں باتیں پائی جاتی تھیں۔ عدل وانصاف میں تاخیر بذاتِ خود بہت بڑا ظلم ہے۔ اب ہمارے ہاں عدالتوں کا جو حال ہے، وہ خود ملاحظہ فرما لیجئے۔عدل و انصاف کا حصول انتہائی مہنگا ہے، اور فوجداری مقدمات پر بھی سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ دیوانی مقدمات کا تو اور بھی برا حال ہے۔ ہماری عدالتوں کے اس طریقہ کار کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ جرائم کی تعداد میں دم بدم اضافہ ہورہا ہے، اور معاشرہ میں امن و امان کی صورت پریشان کن بن چکی ہے۔
اسلامی قانون کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہاں قانون ساز خود اللہ تعالیٰ ہے، جس کی نظر میں شاہ و گدا، امیر وغریب، آقا و غلام سب برابر ہیں، لہٰذا شرعی قانون سب پر ایک ہی جیسا لاگو ہے۔ اسلام کی یہی وہ صفت ہے جو اسے دوسرے تمام نظامہائے حیات سے ممتاز کردیتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دوسرے تمام نظاموں میں قانونی حاکمیت یا تو کسی ایک انسان کی ہوتی ہے یا کسی ادارہ یا پارلیمنٹ کی۔ ایسے حاکم یا قانون ساز ادارے اپنے آپ کو بہرحال قانون کی گرفت میں آنے سے بچائے رکھتے ہیں۔
(9) آزادیٴ رائے کا حق
آزادی ٴ رائے اگر معقول حدود میں ہو تو مثبت نتائج پیدا کرتی ہے، اور یہ بے لگام و بے مہار ہو تویہ ہزاروں فتنے پیدا کرکے مملکت کی سرحدوں کو کمزور کرتی رہتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں وقتاً فوقتاً حکومتوں کو اس لامحدود آزادی کو مختلف پابندیوں اور ا خلاقی ضابطوں سے محدود کرنا پڑتا ہے۔
اسلام نے آزادی ٴ رائے کو جائز اور لازم قرار دیا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت کے مطابق ہو۔ خلفائے راشدین  کے دور میں ہر مسلمان کو آزادی ٴ رائے اور حکومت پرنکتہ چینی کا پورا پورا حق حاصل تھا، جسے وہ اپنا دینی فریضہ تصور کرتا تھا، تاکہ عوام کو ان کے جائز حقوق مل سکیں اور ملک میں نیکی کی حوصلہ افزائی اور برائی کا استیصال ہو۔ یہاں یہ حق کسی خاص جماعت یعنی حزبِ اختلاف کو نہیں کہ وہ حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرے اور اس کے اچھے کاموں کی بھی مذمت کرتی رہے، کیونکہ اسلامی شو ریٰ میں باقاعدہ حزبِ ا ختلاف کا وجود ہی نہیں ہوتا۔
تاریخ اسلام میں کئی ایسے واقعات مذکور ہیں کہ عام مسلمانوں نے خلفا پر گرفت کی اور انہوں نے اسے تسلیم ہی نہ کیا، بلکہ اس جذبہ تنقید کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ ایسے واقعات کا اس مختصر مقالہ میں ذکر کرنا بہت مشکل ہے۔
(10) حق تعلیم
اسلام میں تعلیم حاصل کرنا ا س کا لازمی حصہ ہے۔ قرآن مجید میں جا بجا علم کے فضائل کا ذکر آیاہے۔اور آپ نے فرمایا: «خير کم من تعلم القرآن و علمه»13
"تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے، جو خود قرآن سیکھے اور پھر دوسروں کو سکھائے"
نیز آپ نے یہ ارشاد فرماکر تعلیم حاصل کرنا لازمی قرار دیا ہے
«طلب العلم فريضة علی کل مسلم»14 "علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے"
حضرت عمر نے حصولِ تعلیم کو لازمی قرار دیا۔ اور اس کے لئے بہت سے ادارے قائم کئے۔ حتیٰ کہ خانہ بدوش، بدوؤں کے لئے قرآنِ مجید کی تعلیم کو لازمی قرار دیا۔ آپ نے ابوسفیان نامی ایک شخص کو چند آدمیوں کے ساتھ مامور کیا کہ وہ قبائل میں پھر کر ہر شخص کا امتحان لے، اور جس کو قرآنِ مجید کاکوئی حصہ بھی یاد نہ ہو، اسے سزا دے۔15
کتاب و سنت کے علاوہ دوسرے علوم کی تعلیم کی طرف قرآن میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ البتہ ایک اسلامی مملکت میں ایسی تعلیم، جو اس کے بنیادی نظریات کے خلاف ہو اسے برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
(11) حق آزادیٴ مذہب
ایک اسلامی مملکت میں ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جونسا عقیدہ اور مذہب پسند کرتاہے، اختیار کرے، اور اپنی مذہبی عبادات بجا لائے۔ مگر اسے کوئی ایسا کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا جوکسی دوسرے مذہب یا فریق کی دل آزاری یا نقض عامہ کا باعث بنے۔
اسلام کسی کو جبرا ً مسلمان بنانے کا ہرگز قائل نہیں۔ لیکن ایک دفعہ اسلام لانے کے بعد مذہب کی تبدیلی کو وہ جرم قرار دیتا ہے۔ کیونکہ اسلام ایک تحریک ہے لہٰذا دین کی تبدیلی کوبغاوت سمجھ کر اس کی سزا قتل قرار دیتا ہے۔
دورِ فاروقی میں اہل کتاب آزادی سے اپنی مذہبی رسوم اداکرتے۔ ناقوس بجاتے اور صلیب نکالتے تھے۔ مسلمان اگر ان سے سختی کرتے تو وہ پاداش کے مستحق ہوتے تھے۔
(12) باہمی حقوق
اب ہم افرادِ معاشرہ کے حقوق کا اس ترتیب سے ذکر کریں گے، جس پر معاشرہ کی بنیاد اٹھتی ہے۔ ان حقوق میں سب سے پہلا نمبر زوجین (میاں بیوی) کے حقوق کا ہے۔
1۔ زوجین کے حقوق: ارشادِ باری تعالیٰ ہے
﴿وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعر‌وفِ ۚ وَلِلرِّ‌جالِ عَلَيهِنَّ دَرَ‌جَةٌ...٢٢٨ ﴾... سورة البقرة
"اور بیویوں کے حقوق اپنے خاوندوں پر ایسے ہیں ، جیسے دستور کے مطابق خاوندوں کے ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔"
عورتوں کا مردوں پر حق یہ ہے کہ مرد اپنی حیثیت کے مطابق بیویوں کے نان و نفقہ اور رہائش کے ذمہ دار ہیں۔ انہیں یہ ذمہ داری پوری کرنا بھی ضروری ہے،۱ور حسن سلوک سے پیش آنا اس سے بھی زیادہ ضروری! جب کہ مردوں کا عورتوں پر حق یہ ہے کہ وہ گھر کی مالکہ ہونے کی حیثیت سے اس امانت میں کسی طرح کی خیانت نہ کریں اور ان کی اطاعت کریں۔ مردوں کو جو زائد درجہ حاصل ہے، وہ عورتوں پرنگران ہونے کی بنا پر ہے۔ اب چونکہ منتظم خانہ ہونے کی حیثیت سے مردوں سے عورتوں پر زیادتی کا خطرہ موجود ہے، اس لئے آپ نے اپنے خطبہ حجة الوداع میں اس طرف خصوصی توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
«استوصوا بالنساء خيرا فإنهن عندکم عوان لايملکن لأنفسهن شيئا»
"عورتوں کے بارے میں میں تمہیں حسن سلوک کی تاکید کرتا ہوں، کیونکہ وہ تمہارے زیر نگیں رکھی گئی ہیں، جو خود کچھ نہیں کرسکتیں۔" (طبقات ابن سعد)
ازدواجی زندگی کی اصل روح مودّت، موانست اور مہربانی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمِن ءايـٰتِهِ أَن خَلَقَ لَكُم مِن أَنفُسِكُم أَزو‌ٰجًا لِتَسكُنوا إِلَيها وَجَعَلَ بَينَكُم مَوَدَّةً وَرَ‌حمَةً...٢١ ﴾... سورة الروم "اور اس اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف (مائل ہوکر) سکون حاصل کرو۔ اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی۔"
لہٰذا فریقین پر لازم ہے کہ وہ خوشگواری کی فضا کو بہرطور قائم رکھیں۔ لیکن اگر وہ اسے برقرار نہ رکھ سکیں اور ناچاقی کی صورت پیدا ہوجائے تو مرد کو طلاق کا حق دیا گیا ہے جو اگرچہ ناگزیر حالات میں جائز ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ناپسندیدہ چیز ہے۔16
ب۔ والدین اور اولاد کے حقوق
والدین پر اولاد کا حق یہ ہے کہ وہ اپنے بچے کا اچھا سا نام رکھیں اور اگر استطاعت ہو تو ساتویں دن عقیقہ کریں۔ اولاد کی تعلیم و تربیت کا داعیہ چونکہ ہر انسان میں فطری طور پر موجود ہے، لہٰذا یہاں قابل ذکر بات صرف یہ ہے کہ اولاد کی تربیت اور تعلیم اسلامی خطوط پر ہونی چاہئے۔لڑکی اگر بالغ ہوجائے تو اس کے لئے کوئی موزوں اور دیندار رشتہ تلاش کرکے اس کی شادی کرنا والد پر فرض ہے۔ البتہ لڑکے کے سلسلہ میں وہ مختارہے۔ اگر کرسکتا ہے تو کردے، ورنہ اس پرذمہ داری نہیں ہے۔
دوسری طرف اولاد پر والدین کی خدمت اور ان سے حسن سلوک اس قدر ضروری ہے کہ کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے ذکر کے ساتھ والدین سے احسان کا ذکر فرمایا ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقَضىٰ رَ‌بُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ وَبِالو‌ٰلِدَينِ إِحسـٰنًا ۚ إِمّا يَبلُغَنَّ عِندَكَ الكِبَرَ‌ أَحَدُهُما أَو كِلاهُما فَلا تَقُل لَهُما أُفٍّ وَلا تَنهَر‌هُما وَقُل لَهُما قَولًا كَر‌يمًا ٢٣ ﴾... سورة الإسراء
"اور تمہارے پروردگار نے فیصلہ فرما دیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا، اور نہ انہیں جھڑکنا، اور ان سے بات ادب سے کرنا۔"
دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿وَوَصَّينَا الإِنسـٰنَ بِو‌ٰلِدَيهِ حَمَلَتهُ أُمُّهُ وَهنًا عَلىٰ وَهنٍ وَفِصـٰلُهُ فى عامَينِ أَنِ اشكُر‌ لى وَلِو‌ٰلِدَيكَ...١٤ ﴾... سورة لقمان
"اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں تاکیدی حکم دیا، اس کی ماں اسے تکلیفیں سہہ سہہ کر اٹھائے پھرتی رہی۔ پھر دو برس میں اس کا د ودھ چھڑانا ہوتا ہے، کہ میرا بھی شکر ادا کرتا رہ، اور اپنے والدین کا بھی۔ "
ایک دفعہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: "میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟" آپ نے فرمایا: "تیری ماں" سائل نے پوچھا: "اس کے بعد کون؟" آپ نے فرمایا: "تیری ماں" سائل نہ تیسری بار کہا کہ"اس کے بعد کون؟" آپ نے فرمایا: "تیری ماں" اور جب چوتھی بار سائل نے یہی بات پوچھی تو آپنے فرمایا: "تیرا باپ"17
ایک دفعہ آپ نے برسر منبر فرمایا: "اس شخص پر لعنت جسے بوڑھے والدین یا ان میں سے کوئی ایک میسر آئے اور وہ اس کی خدمت کرکے اپنے گناہ بخشوا نہ لے۔"18
ایک دفعہ آپ سے پوچھا گیا: "سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟" آپ نے فرمایا: "اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔" پھر پوچھا گیا۔ "اس کے بعد کون سا؟" آپ نے فرمایا: "عقوق الوالدين"19یعنی "والدین کی نافرمانی کرنا یا انہیں ستانا"۔
ایک دفعہ ایک باپ بیٹے کی شکایت لے کر آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں بوڑھا ہوں، کمانے کے قابل نہیں رہا، اور میرا بیٹا مجھے کچھ نہیں دیتا۔ آپ نے بیٹے کو بلاکر فرمایا:
"أنت ومالک لأبيک" 20"تم خود بھی اور تمہارا مال بھی سب کچھ تمہارے باپ کا ہے"
اور ایک دفعہ یوں فرمایا:
«إن أطيب ما أکلتم من کسبکم وإن أولادکم من کسبکم»21
"پاکیزہ ترین رزق جو تم کھاتے ہو، وہ تمہاری اپنی کمائی ہے، اور اولاد بھی تمہاری کمائی ہے"
ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر باپ ضرورت مند ہو اور بیٹا اس طرف توجہ نہ کرے تو باپ کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ بیٹے کا سب کچھ یا حسب ِضرورت مال لے لے۔
ج۔ خادموں کے حقوق
ایک دفعہ آپ سے کسی نے پوچھا: "میرے پاس ایک ہی دینار ہے، وہ کس پر خرچ کروں؟" آپ نے فرمایا) اپنی ذات پر۔" وہ کہنے لگا، "اگر ایک اور بھی ہو تو اسے کس پر خرچ کروں؟" آپ نے فرمایا: "اپنی اولاد پر" وہ کہنے لگا : "اور اگر ایک اور ہو تو؟" آپ نے فرمایا: "اپنی بیوی پر" وہ کہنے لگا: "اور اگر ایک اور ہو تو؟" آپ نے فرمایا: "اپنے خادم پر" وہ کہنے لگا کہ "اگر ایک اور ہو تو؟" آپ نے فرمایا: "اب آگے جو تو خود مناسب سمجھے۔"22
اس حدیث میں اولاد پر خرچ کرنے کا ذکر بیوی سے پہلے آیاہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ خاوند بہت تنگ دست ہو، جیسے یہ سائل تھا۔ اس صورت میں چھوٹی اولاد بہرحال ماں سے زیادہ محتاج ہوتی ہے۔ ورنہ بیوی کا نمبر اولاد سے پہلے ہے۔
اگرچہ قرآن کریم میں خدام سے حسن سلوک کا جابجا ذکر آیا ہے، تاہم درج ذیل حدیث اس موضوع پر نہایت جامع ہے۔ آپ نے فرمایا:
«إخوانکم خدلکم جعلهم الله تحت أيديکم فمن کان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأکل وليلبسه مما يلبس ولاتکلفوهم مما يغلبهم فان تکلفوهم فأعينوهم»23
"تمہارے خادم، مزدور، غلام تمہارے بھائی ہیں جن کو اللہ نے تمہارے رحم وکرم پر چھوڑا ہے۔ لہٰذا تم میں سے جس کے قبضے میں اس کا کوئی بھائی ہو تو اس کو ویسا ہی کھلائے اور پہنائے جیساوہ خود کھاتا اور پہنتا ہے۔اور اسے ایسا کام کرنے کو نہ کہے جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔ اور اگر کبھی ایسا کام کرنے کو کہے تو خود بھی اس کا ہاتھ بٹائے۔"
اس ارشاد ِنبوی سے درج ذیل اُمور پر روشنی پڑتی ہے:
1۔ خَدلکا لفظ خادم، مزدور، غلام سب کے لئے مشترک ہے۔ لہٰذا یہ لوگ معاشرتی لحاظ سے تمہارے برابر ہی نہیں، بلکہ تمہارے بھائی ہیں۔ آپ نے إخوانکم کا لفظ پہلے استعمال کرکے اس کی تائید مزید فرما دی۔
2۔ ایسے خادموں کو کھانے اور پہننے کو وہی کچھ دینا چاہئے جوخود مالک کھاتا اور پہنتا ہے۔ اس سے مزدور کی اُجرت یا تنخواہ کی تعیین پر کافی روشنی پڑتی ہے۔
ولا تکلّفو هم مما يغلبهم ا س سے معلوم ہوا کہ خادموں کے آرام اور آسائش کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اور اگر کوئی کام ان کی ہمت سے زیادہ ہو تو مالک کو خود اس کام میں اس کا شریک بن جاناچاہئے، تاکہ آقا کی ذہنی برتری کا بھی علاج ہوجائے۔
ایک دفعہ ایک غلام روتا چلاتا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: " میں ایک غلام ہوں، میرے مالک نے مجھے ایک لونڈی کا بوسہ لینے کی پاداش میں خصی کردیا ہے۔" آپنے مالک کوبلایا، لیکن وہ حاضر نہ ہوا۔ اس پر آپ نے یکطرفہ فیصلہ دے دیا، اور فرمایا: «اذهب أنت حر» (جا تو آزاد ہے) وہ کہنے لگا: "اگر میرے مالک نے مجھے پکڑ کر دوبارہ غلام بنا لیا تو پھر میری مدد کون کرے گا؟" آپ نے فرمایا: «علی کل مسلم»24(یعنی ہر مسلمان پر تمہاری مدد کرنا فرض ہے) گویا مسلم معاشرہ یا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمہاری مدد کرے۔ (صحیح سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر ۲۶۸۰)
بعد میں صحابہ  میں یہ دستور چل نکلا کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام کو مارتا پیٹتا تو دوسرا صحابی اسے برملا کہہ دیتا کہ اب اسے آزاد کرو۔ چنانچہ دورِ صحابہ  میں اس طور پر بھی غلاموں کی ایک کثیر تعداد کو آزادی ملی۔
د۔ رشتہ داروں کے حقوق
رشتہ دار دوطرح کے ہیں: ایک قریبی یا خون کے رشتہ دار، دوسرے دور کے رشتہ دار جن سے خونی تعلق نہیں ہوتا۔ ان دونوں سے حسن سلوک کی تاکید توایک جیسی ہے، البتہ قریبی رشتہ داروں کا حق یہ ہے کہ ان سے بہرطور تعلقات استوار اور خوشگوار رکھے جائیں۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پراس کی تاکید آئی ہے، جب کہ ہمارے ہاں اکثر سننے میں آتا ہے کہ "اپنوں سے تو بیگانے ہی اچھے ہوتے ہیں" ان لوگوں کا یہ قول شریعت ِاسلامیہ کے مزاج کے سراسر خلاف ہے۔اس سلسلہ میں چند ارشاداتِ نبوی ملاحظہ ہوں۔ آپ نے فرمایا:
1۔ "کسی شخص کا یہ کمال نہیں کہ وہ حسن سلوک کا جواب حسن سلوک سے دے۔ بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ اس کے رشتہ دار اس سے بدسلوکی کریں تو بھی وہ ان سے حسن سلوک سے پیش آئے۔25
2۔ حضرت ابوذرّ غفاری کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی کہ
"رشتہ داروں کے حقوق پوری طرح ادا کرو، اگرچہ وہ تم سے بدسلوکی سے پیش آئیں"26
3۔ "جو شخص عام غریبوں کو صدقہ کرے گا اسے ایک اجر ملے گا، لیکن جو اپنے قرابت داروں کی امداد کرے گا، اسے دوہرا اجر ملے گا۔"27
4۔ "جو شخص صلہ رحمی کا حق ادا نہیں کرتا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔"28
5۔ "جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور ا س کی عمر دراز ہو، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔"29
ھ ۔ ہمسایوں کے حقوق
ہمسائے تین طرح کے ہوتے ہیں :
(i) رشتہ دار ہمسائے (ii) رفیق ہمسائے (iii) اجنبی ہمسائے۔ اسی ترتیب سے ان کے حقوق کا خیال رکھنا چاہئے۔ ہمسایوں کے حق کے متعلق آپ نے ایک بار یوں ارشاد فرمایا:
«جبريل يوصينی بالجار حتی ظننت أنه سيورثه»30
"جبریل امین مجھے ہمسایہ کے متعلق تاکید کرتے ہی گئے، تاآنکہ میں یہ خیال کرنے لگا کہ وہ ہمسایہ کو وراثت میں حق دار بنا دیں گے'۔'
ایک بار آپ نے یوں فرمایا:
"وہ شخص موٴمن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے، اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا ہو"31
نیز فرمایا: "وہ شخص موٴمن نہیں جس کا ہمسایہ ا س کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔"32
اور ایک دفعہ یوں فرمایا: "اگر تیرے ہمسائے تجھے اچھا آدمی سمجھتے ہیں تو تو واقعی اچھا ہے۔ اور اگر برا سمجھتے ہیں توتو واقعی برا آدمی ہے۔"33
ایک مرتبہ آپ سے عرض کیا گیا کہ فلاں عورت خوب نمازیں اور نوافل پڑھتی، روزے رکھتی اور خیرات کرتی ہے۔ مگر اس کے ہمسائے اس کی بدزبانی سے عاجز ہیں۔ آپ نے فرمایا: "وہ جہنمی ہے۔" صحابہ نے عرض کیا کہ فلاں عورت میں یہ خوبیاں تو نہیں، وہ صرف فرائض ہی بجا لاتی ہے، مگر پڑوسیوں کو تکلیف نہیں دیتی۔ آپ نے فرمایا: "وہ جنتی ہے۔"34
و۔ عام معاشرہ کے حقوق
معاشرہ میں اُلفت و محبت کے جذبہ کو فروغ دینے کے لئے قرآن مجید میں بھی بہت کچھ مذکور ہے، مگر ہم یہاں بغرضِ اختصار صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات نقل کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:
1۔ "تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ جب جسم کا ایک عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم کرب واضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔"35
2۔ "مسلمان ایک عمارت کی طرح ہیں، جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔"36
3۔ "دین خیرخواہی کانام ہے۔" آپ سے پوچھا گیا: "کس سے خیر خواہی؟" آپ نے فرمایا: "اللہ سے، اس کے رسول سے اور تمام موٴمنوں سے خیرخواہی"37
4۔ "کوئی شخص اس وقت تک موٴمن نہیں ہوتا، جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے۔"38
5۔ "جو شخص دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔"39
6۔ "مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے۔"40
7۔ "مسلمان کیلئے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلقات منقطع رکھے"41
8۔ "ہرمسلمان دوسرے مسلمان کو السلام علیکم کہے، خواہ اس سے پہچان ہو یا نہ ہو۔"42
9۔ "مسلمان مسلمان کا بھائی ہے جو اس پر نہ ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے۔"43
10۔ "جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا ہوتا ہے۔ اللہ اسکی حاجت روائی میں لگا ہوتا ہے"44
11۔ "بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی بڑا جھوٹ ہے۔ کسی کی باتوں پر کان مت لگاؤ، اور نہ ہی کسی کی ٹوہ میں رہو۔ دنیا کے لئے ریس نہ کرو، اور نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، نہ دشمنی رکھو اور بھائی بھائی بن کر اللہ کے بندے بن جاؤ۔"45
12۔ "چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا۔"46
13۔ "جو شخص دنیا میں کسی بندے کا عیب چھپائے گا، قیامت کے دن اللہ اس کا عیب چھپائے گا۔"47
(13) غیر مسلموں کے حقوق
مملکت ِاسلامیہ میں غیر مسلموں کو بھی وہی قانونی حقوق حاصل ہیں، جیسے مسلمانوں کو ہوتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان غیر مسلم کو قتل کر ڈالتا تو حضرت عمر اس کی فوری داد رسی کرتے اور انہیں انصاف دلاتے۔ مال اور جائیداد کے متعلق ان کے حقوق کی حفاظت اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ جس قدر زمینیں ان کے قبضہ میں تھیں، فتح کے بعد بھی انہی کے قبضہ میں بحال رہنے دی گئیں۔ ملکی انتظامات میں بھی ان سے مشورہ لیا جاتا تھا۔ آپ کے دور میں قاعدہ یہ تھاکہ جو مسلمان اپاہج ہوجاتا تو بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر ہوجاتاتھا۔ چنانچہ ایسی ہی مراعات ذمیوں کو بھی حاصل تھیں۔ مذہبی عبادات و رسوم کی ادائیگی میں بھی انہیں پوری آزادی حاصل تھی۔48 وہ ناقوس بجاتے اور صلیب نکالتے تھے۔ اور اگر کوئی مسلمان ان سے سخت کلامی سے پیش آتا تو وہ سزا کا مستوجب ہوتا تھا۔
ماحاصل یہ ہے کہ سوائے کلیدی اسامیوں پر فائز ہونے کے ان لوگوں کو وہ قانونی مراعات حاصل تھیں، جو مسلمانوں کو حاصل تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ غیر مسلموں نے اپنی ہم مذہب سلطنتوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ یہ غیر مسلم ہی تھے جو مسلمانوں کے لئے رسد بہم پہنچاتے تھے، لشکرگاہ میں مینابازار لگاتے، اپنے اہتمام سے سڑک اور پل تیار کراتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جاسوسی اور خبررسانی کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔ ( قو می سیرت کانفرنس ۱۴۱۲ھ میں پیش کردہ مقالہ)


حوالہ جات
1. متفق علیہ بحوالہ مشکوٰة، کتاب الحج: خطبه يوم النحر، الفصل الاول

2. مسلم: کتاب الحج۔ باب حجة النبیﷺ
3. بخاری: کتاب الحدود باب إقامة الحدود

4. بخاری: کتاب استتابة المرتدين
5. مسلم: کتاب الحدود۔ باب حد الخمر

6. مسلم:کتاب الايمان، عنوان باب
7. مسلم:کتاب الايمان۔ باب من قتل دون ماله فهو شهيد

8. مسلم: کتاب الايمان
9. مسلم: کتاب البروالصلة۔ باب تحريم ظلم...

10. مسلم: کتاب الايمان۔عنوان باب
11. بخاری: کتاب المزارعه
12. یہ شخص حضرت بلال تھے۔ اور حضرت ابوذر نے جو ماں کی گالی دی، وہ صرف یہ تھی کہ انہوں نے کہا تھا، "اے کالی ماں کے بیٹے!"... رسول اللہ انے اس پر جب ناراضگی کا اظہار فرمایا تو حضرت ابوذر نے حضرت بلال سے معافی مانگی اور اپنا گال زمین پر رکھ کرکہنے لگے، "اس وقت تک اپنا گال نہ اٹھاؤں گا، جب تک حضرت بلال اپنے پاؤں سے نہ روندیں۔" (وحیدالزمان مترجم بخاری)
13. بخاری:کتاب فضائل القرآن۔ عنوان باب...

14. مشکوٰة: کتاب العلم۔فصل ثانی...

15. الفاروق: شبلی نعمانی صفحہ ۲۶۶، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، اردو بازار لاہور، بحوالہ الاصابہ فی احوال الصحابہ

16. ابوداد۔ کتاب الطّلاق: باب فی کراهية الطلاق...

17.  بخاری: کتاب الادب۔ باب من أحق الناس بحسن الصحبة...

18. مسلم:کتاب البرولصلة ، باب تقديم برالوالدين...

19. مسلم : کتاب الايمان...

20. ابن ماجہ:ابواب التجارات۔باب للرجل من مال ولدہ

21. ترمذی بحوالہ مشکوٰة: کتاب البيوع۔ باب الکسب ...

22. ابوداود: کتاب الزکوٰة۔ باب الاستعفاف عن المسئلة...

23. بخاری: کتاب الايمان۔ باب المعاصی من أمر الجاهلية...

24. ابن ماجہ: کتاب الديات...
25. بخاری: کتاب الادب۔ باب ليس الواصل بالمکافئ...

26. ایضاً...

27. ایضاً...

28.  بخاری:کتاب الادب ۔ باب اثم القاطع...

29. بخاری: کتاب الادب۔ باب اثم القاطع/مسلم: کتاب البرولصلة۔باب صلة الرحم...

30. بخاری: کتاب الادب۔باب الوصية بالجار...

31.  شعب الايمان للبیہقی...

32. بخاری: کتاب الادب۔ باب اثم من لايأمن جارہ...

33.  ترمذی:ابواب البرولصلة۔ باب فی حق الجوار...

34. مشکوٰة: کتاب الآداب۔باب البروالنفقة فصل ثالث...

35. بخاری: کتاب الادب، باب رحمة الناس والبهائم...

36. بخاری: کتاب الادب، باب تعاون المسلمين...

37. مسلم: کتاب الایمان، باب الدين النصيحة...

38. بخاری: کتاب الایمان، باب من الايمان ان يحب لاخيه مايحب لنفسه

39. بخاری: کتاب الادب، باب رحمة الناس والبهائم...

40. بخاری: کتاب الایمان۔باب المسلم من سلم المسلمون من يدہ ولسانه
41. بخاری:کتاب الادب۔ باب ماينهیٰ عن التحاسد...

42. بخاری:کتاب الاستيذان، باب إفشاء السلام
43. بخاری: کتاب الاکراہ، باب يمين الرجال لصحابه

44. بخاری: کتاب الاکراہ، باب يمين الرجال لصحابه

45. مسلم:کتاب البر والصلة، باب تحريم الظن...

46. مسلم۔کتاب البر والصلة، باب تحريم الظن
47. مسلم: کتاب البر ولصلة۔ باب تحريم الغيبة...

48.  ماخوذ از الفاروق، شبلی نعمانی، زیر عنوان "ذمیوں کے حقوق"