امریکہ سے تعاون: ردّ ِعمل، خدشات و مضمرات

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، اس میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ عالمی منظر پر تیزی سے رونما ہونے والے واقعات و حالات نے پاکستان کی سا لمیت اور وقار کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ شاید ہی کوئی دو پاکستانی ایسے ہوں جو وطن عزیز کے تحفظ کو یقینی نہ دیکھنا چاہتے ہوں۔البتہ پاکستان کی سا لمیت اور تحفظ کے لئے کیا حکمت ِعملی اختیار کی جائے اور کون سے فوری اقدامات اٹھائے جائیں، اس کے متعلق کلی طور پر اتفاقِ رائے قومی سطح پر ابھی تک سامنے نہیں آسکا۔ ۱۱ /ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ میں خوفناک دہشت گردی کے واقعات کے بعد حکومت ِپاکستان نے امریکہ سے تعاون کے جو و عدے کئے ہیں، ان کی موزونیت اور عدمِ موزونیت کے متعلق اختلافِ رائے کھل کر سامنے آگیا ہے۔
۱۱/ ستمبرکے فوراً بعد پاکستان کو اعصاب شکن دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی دھاڑ رہے تھے کہ اب ہمارے ساتھ دوستی ہوگی یا دشمنی، تیسری کوئی بات قابل قبول نہیں۔ وہ ہر صورت میں پا کستان سے طالبان کے خلاف 'تعاون' چاہتے تھے۔ وہ سوچنے، سمجھنے اور غور کرنے کے لئے وقت دینے کو تیارنہ تھے۔ ۱۵/ ستمبر کو واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز میں خبرشائع ہوئی کہ امریکہ نے پاکستان کے سامنے مطالبات کی فہرست رکھ دی ہے۔ ۱۶/ ستمبر کے اخبارات نے پاکستان کے وزیرخارجہ کے اس بیان کو شہ سرخی بنا کر پیش کیا "دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری سے پورا تعاون کریں گے۔ اقوامِ متحدہ کے فیصلوں کے پابند ہیں۔ فضائی حدود اور زمینی سہولیات امریکہ کو دینے کا سوال قبل از وقت ہے۔ اپنی سرحدوں سے باہر فوجی کارروائی میں شریک نہیں ہوں گے" (نوائے وقت)۔ اسی روز کے اخبارات میں امریکی صدر جارج بش اور سیکرٹری خارجہ کولن پاول کے بیانات بھی شائع ہوئے جس میں انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف 'مکمل' اور 'ہر طرح' کے تعاون دلانے پر شکریہ ادا کیا تھا۔ صحافیوں نے جب پاکستانی وزیرخارجہ جناب عبدالستار سے سوال کیا"اڈّے دے دیے"؟ توان کا جواب تھا: "ان تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔" جنرل اسلم بیگ نے اس صورتحال پر یوں تبصرہ کیا :
"امریکہ نے جس طریقے سے پاکستان کے سامنے اپنے مطالبات رکھے ہیں، اس سے ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان کو ئی غلام ہے اور اس سے جو بھی مطالبات کئے جائیں گے، وہ پورے کرے گا۔ اگر حکومت نے امریکی مطالبات منظور کئے تو یہ فوجی لحاظ سے مہلک فیصلہ ہوگا۔" (نوائے وقت)
امریکہ سے 'مکمل' اور 'ہرطرح'کا تعاون واضح نہیں تھا۔ حکومت کی جانب سے بھی شروع میں تفصیلات میں جانے سے مصلحتاً گریز کیا گیا کیونکہ امریکہ سے کسی قسم کا تعاون کرنا ایک حساس معاملہ ہے۔ البتہ غیر ملکی پریس میں مطالبات کی فہرست بھی شائع ہوگئی۔ ۱۶ ستمبر کو روزنامہ 'ڈان' نے ادارتی نوٹ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: "امریکی مطالبات کا اعلان اگرچہ نہیں کیا گیا ہے، لیکن پریس کی رپورٹوں سے کم از کم چار درج ذیل مطالبات کا پتہ چلا ہے :
1۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات کا تبادلہ
2۔ افغانستان کے ساتھ سرحد کی بندش
3۔ افغانستان کو خوراک کی فراہمی کا انقطاع
4۔ فضائی حدود کے استعمال کی اجازت
امریکی صدر کی طرف سے والہانہ تشکر کے اظہار اورپاکستانی وزیرخارجہ کی طرف سے پراسرار سکوت نے پاکستانی عوام میں شدید ردّعمل پیدا کیا۔
امریکہ سے تعاون کے فیصلہ کے خلاف قومی سطح پر پہلی دفعہ بھرپور مخالفت ۱۶/ ستمبر کو جماعت اسلامی کی دعوت پر منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں دیکھنے میں آئی۔ اس کانفرنس میں تمام قابل ذکر دینی ومذہبی جماعتوں کے راہنماؤں کے علاوہ درجنوں بظاہر سیکولر سیاسی جماعتوں کے راہنما بھی شریک ہوئے۔ ان میں نوابزادہ نصراللہ خان، اسفند یار ولی (صدر اے این پی)، اجمل خان خٹک( صدر این اے پی)، سید کبیرعلی واسطی (صدر پاکستان مسلم لیگ،قاسم)، سردار فاروق احمد لغاری، اعجاز الحق، سید فخرامام، جاوید ہاشمی، فتح یاب علی خان(صدر پاکستان مزدور کسان پارٹی)، سید ضیاعباس( جنرل سیکرٹری نیشنل پیپلزپارٹی)، ڈاکٹر عبدالحئ بلوچ (صدربلوچستان نیشنل موومنٹ) حمیدالدین احمد مشرقی (قائد خاکسار تحریک)، رانا محمد اشرف خان (سیکرٹری جنرل پاکستان مسلم لیگ فنکشنل)، یونس مسیح بھٹی (سینئر نائب صدر پاکستان کرسچین نیشنل پارٹی)، ملک حیدر عثمان (سیکرٹری جنرل مسلم لیگ ،جونیجو)، جنرل اسلم بیگ، جنرل (ر) حمیدگل کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ کانفرنس نے نیویارک اور واشنگٹن میں ہونے والے المناک واقعات پر اپنے شدید دکھ اور رنج کا اظہار کیا اوردہشت گردی کی شدید مذمت کی۔ کانفرنس نے اپنی مفصل قرارداد میں کہا کہ اپنی تحقیقات مکمل کرنے سے قبل ہی امریکہ کی جانب سے حکومت پاکستان کومطالبات کی کوئی فہرست فراہم کرکے ان کی پابندی پر اصرار کرنا شدید زیادتی، ناانصافی اور غیر دوستانہ طرزِعمل ہے جو پاکستان کو عدمِ استحکام کا شکار کرسکتا ہے۔ حکومت ِپاکستان کو بھی ان مطالبات کی نوعیت کے بارے میں اپنے عوام کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ قرارداد کا آخری حصہ یوں ہے:
"یہ اجلاس ملک کے عوام سے پرزور اپیل کرتا ہے کہ وہ اندرونی اور بیرونی خطرات کے پیش نظر مکمل یکجہتی اور اتحاد کے ساتھ پاکستان کی سلامتی، بقا اور تحفظ کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردینے کا عہد کریں۔نیز یہ اجلاس حکومت ِپاکستان سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین یا وسائل کو کسی ملک یا شخص کے خلاف بلا جواز کارروائی کے لئے استعمال نہ ہونے دیں۔ پوری قوم کا یہ نمائندہ اجلاس دو ٹوک اعلان کرتا ہے کہ حکومت ِپاکستان کی جانب سے اس قسم کی کوئی کمزوری قوم کسی قیمت پر برداشت نہیں کرے گی۔" (انصاف، نوائے وقت، ایشیا)
جنرل پرویز مشرف کی وضاحت
پاکستان میں امریکی افواج کو اڈّے فراہم کرنے کے خدشات کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ لاہور، کراچی، پشاور اور اسلام آباد میں مختلف جماعتوں کی طرف سے جلوس نکالے گئے۔ ۱۷ اور۱۸/ ستمبر کے روز لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ اور خواتین کی جانب سے بڑے جلوس نکالے گئے۔ پشاور میں طلبہ پر لاٹھی چارج بھی کیا گیا، کراچی میں احتجاج کرنے والے ۱۴/ افراد کو گرفتار کیا گیا۔اسلام آباد میں انہی دنوں کفن پوش جلوس نکالا گیا۔جبکہ سوات، مالاکنڈ، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بھی احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ قومی اخبارات نے اپنے اداریوں میں مطالبہ کیا کہ حکومت احتجاج کرنے والوں پر پولیس یا دوسری فورسز کو تشدد نہ کرنے دے۔ دفاعِ پاکستان اور افغانستان کونسل نے ۲۱/ستمبر کو ملک بھر میں ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں کی کال دے دی۔ پاکستانی عوام کے بڑھتے ہوئے اشتعال اور ردعمل کو ٹھنڈا کرنے اور اپنے تئیں پاکستانی قوم کو اعتماد میں لینے کے لئے جنرل پرویز مشرف نے ۱۹/ ستمبر کو قوم سے مفصل خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے حکومتی پالیسی کے حق میں دلیل اور موجودہ سنگین حالات میں حکومتی مشکلات کے علاوہ اپنے فیصلوں کی تائید کے لئے قرآن و سنت سے بھی 'مضبوط دلائل' کا سہارا لیا۔ جناب پرویز مشرف کی تقریر کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:
1۔ "پاکستان کی سا لمیت اور دفاع ہماری اولین ترجیح ہے اورہمارا ہر فیصلہ ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔
2۔ اس وقت پاکستان کو انتہائی نازک دور کا سامنا ہے۔ اس وقت ہمارے فیصلوں کے دور رَس اور وسیع نتائج نکل سکتے ہیں، ملک کسی غلط فیصلے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
3۔ ہماری نظر میں ضروری ترجیحات چار ہیں: (اوّل) بیرونی خطرات سے حفاظت اور سا لمیت، (دوم) ہماری معیشت کی بحالی ، (سوم) ہمارے سٹریٹجک اثاثوں، نیوکلیئر اور میزائل کی حفاظت، (چہارم) کشمیر کاز۔
4۔ اس دہشت گردی سے امریکہ میں شدید غم ، غصہ اور انتقام کی لہر دوڑ اٹھی ہے۔ان کا پہلا ٹارگٹ اسامہ بن لادن اورالقاعدہ، دوسرا ٹارگٹ طالبان اور تیسرا ٹارگٹ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ ہے۔
5۔ مجموعی طور پر تین باتیں ہیں جن میں امریکہ ہم سے سپورٹ مانگ رہا ہے، پہلی: انٹیلی جنس اور انفارمیشن کا تبادلہ، دوسری مدد: ہماری فضائی حدود کا استعمال، تیسری لاجسٹک سپورٹ، ان کی تفصیلات کا ابھی تک ہمیں پتہ نہیں۔
6۔ جوکچھ کہ امریکہ کے ارادے ہیں، انہیں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل اور جنرل اسمبلی کی تائید حاصل ہے، جنرل اسمبلی نے دہشت گردی سے جنگ کرنے کی قرار داد منظور کی ہے۔ یہ قرارداد ان لوگوں کو سزا دینے کی قرار داد ہے جو دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔ تمام اسلامی ممالک نے اس قرارداد کی حمایت کی ہے۔
7۔ جنرل مشرف کے بقول : غور کرنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے اہداف میں کہیں بھی اسلام یا افغانستان کے عوام کے خلاف کسی قسم کے جنگ کی بات نہیں کی ہے۔
8۔ پاکستان کے لئے ۱۹۷۱ء کے بعد یہ سب سے زیادہ نازک دور ہے۔ اگر ہم نے صحیح فیصلے کئے تو اس کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ اگر ہم نے غلط فیصلے کئے تو اس کے بدترین نتائج ہوسکتے ہیں۔ بدترین نتائج سے خدانخواستہ ہماری سا لمیت اور بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ہمارے اہم مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہماری جوہری طاقت اور کشمیر کاز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
9۔ میں نے حالات کا مکمل جائزہ لیا۔ کور کمانڈر، سروسز چیف، کابینہ، نیشنل سیکورٹی کونسل سے مشاورت کی، میڈیا، علما اورسیاستدانوں سے بات کی۔ میں نے دیکھا کہ رائے کسی حد تک منقسم ہے لیکن بہت بھاری اکثریت حکمت اور تحمل کے حق میں ہے۔ دس پندرہ فیصد لوگ جذباتی فیصلے کی طرف مائل ہیں۔
10۔ ہمارے ہمسایہ ملک کے کیا عزائم ہیں؟ انہوں نے اپنے اڈے، سہولیات اور تمام لاجسٹک سپورٹ امریکہ کو فراہم کرنے کی پیش کش کی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ ان کے ساتھ ہوجائے اور پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دیا جائے اور ہمارے دفاعی اثاثوں اورکشمیر کاز کو نقصان پہنچایا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اگر افغانستان میں کوئی تبدیلی آئی تو وہاں ایک پاکستان مخالف گورنمنٹ کو تشکیل دیا جائے۔ آپ ان کے ٹیلی ویژن دیکھیں، صبح، دوپہر، شام ہمارے خلاف پراپیگنڈہ چل رہا ہے۔ ان کو میں کہنا چاہتا ہوں۔ "Lay off" (یعنی ہم سے دور رہو، ہمارے قریب نہ آنا)۔
11- فیصلے میں حق کی بالادستی ہونی چاہئے اوریہ فیصلہ اسلام کے عین مطابق ہونا چاہئے اورابھی تک جو کچھ بھی ہم کررہے ہیں وہ اسلام کے عین مطابق ہے اور اس میں حق کی بالادستی ہے۔
12۔ جہاں ملک کے مفاد یا نقصان کا سوال ہو، اس میں حکمت اور دانش مندی سے فیصلہ کرنا چاہئے۔ اس موقع پر جرأت اور بزدلی کا سوال نہیں ہے۔ ہم سب دلیر ہیں، ایسے موقع پر میرا پہلا رسپانس، (جواب) جارحانہ ہوتا ہے۔ لیکن بغیر سوچ کے دلیری بے وقوفی ہوتی ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے: "جس کو حکمت ملی، اس کو بہت بڑی نعمت ملی"
13۔ اپنے آپ کو نقصان سے بچانا ہے، ملک کے وقار کو بلند کرنا ہے۔ سب سے پہلے پاکستان، باقی ہر شے اس کے بعد ہے۔
14۔ صلح حدیبیہ کا سبق یہ ہے کہ جب بحران کی صورتحال ہو تو جذباتیت کی بجائے حکمت کا راستہ بہتر ہوتا ہے۔ ایمان کی کمزوری یا بزدلی کا سوال نہیں ہے۔ پاکستان کے لئے تو جان حاضر ہے۔ ویسے بھی شریعت کی رو سے کہا جاتا ہے کہ اگر دو مصیبتوں کا ایک وقت سامنا ہو اور ان میں سے ایک کو چننا ہو تو چھوٹی مصیبت کا راستہ لینا بہتر ہوتا ہے۔
15۔ ہمارے کچھ ساتھیوں کو افغانستان کی بڑی فکر لگی ہوئی ہے، میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے اور میری حکومت کو ان سے کہیں زیادہ فکر ہے، طالبان کی اور افغانستان کی۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ اس سنگین صورت حال سے کسی طریقے سے نکلا جائے جس میں افغانستان کا اورطالبان کانقصان نہ ہو۔
16۔ ہم امریکہ سے بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ تحمل اور توازن کامظاہرہ کریں۔ ہم ان سے اسامہ بن لادن کے سلسلہ میں جو بھی ثبوت ہیں، مانگ رہے ہیں۔
17۔ مجھے معلوم ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت ہمارے فیصلوں کے حق میں ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جواس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ذاتی ایجنڈا اور پارٹی ایجنڈا کو آگے بڑھانا چاہ رہے ہیں۔ وہ ایک فساد پھیلانا اورملک کو نقصان پہنچانا چاہ رہے ہیں۔ یہ کوئی وجہ نہیں کہ ایک اقلیت ، اکثریت کو یرغمال بنا رکھے۔ میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ اتحاد یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے عناصر کو ناکام بنا دیں۔
18۔ میرے ہم وطنو! آپ سب مجھ پر بھروسہ کریں، جس طریقہ سے آپ نے میرے آگرہ جاتے ہوئے بھروسہ کیا تھا۔ میں نے پاکستان کے وقار کا سودا نہیں کیا۔ ان شاء اللہ اب بھی اس موقع پر آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔
ردّ عمل
جنرل پرویز مشرف کے خطاب کے بارے میں ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔ کئی افراد کی طرف سے اسے حقیقت شناسی کا عین مظہر، حکمت و تدبر کا آئینہ دار اورپاکستان کے مفادات کے تحفظ کی قابل تحسین کاوش قرار دیا گیا۔ دائیں بازو کے ایک معروف صحافی نے گو 'مدبرانہ جسارت' کے عنوان سے کالم لکھ کر اس تقریر کی کھل کر مدح سرائی کی۔ متعدد کالم نگاروں نے رائے ظاہر کی کہ جنرل مشرف نے بھارت کے ناپاک عزائم کو بروقت خاک میں ملا دیا اور پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچا لیاحتیٰ کہ جنرل (ریٹائرڈ) حمیدگل کی طرف سے بھی اس تقریر سے نیم دلانہ اتفاقِ رائے ظاہر کیا گیا مگر عوام کی عظیم اکثریت، دینی جماعتوں ، جہادی تنظیموں اور کثیر تعداد میں دانشوروں ، صحافیوں اور راہنماؤں نے پرویز مشرف کی وضاحت پر عدمِ اطمینان کا اظہار کیا۔ مذکورہ تقریر کے باوجود۲۱/ ستمبر کو پورے ملک میں وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور ہڑتال ہوئی۔ کراچی میں پچاس ہزار سے زیادہ افراد پر مشتمل جلوس نے امریکی صدر بش کے پتلے جلائے، مشتعل جلوس نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ اس باہمی تصادم کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک بھی ہوئے۔ کراچی میں مفتی سلیم اللہ اور مفتی نظام الدین شامزئی نے فتویٰ دیا کہ امریکہ سے تعاون حرام ہے۔ انہوں نے اعلان کیاکہ اگر امریکی فوجی پاکستان کے زمین پر ناپاک قدم رکھیں تو ائرپورٹ پرقبضہ کرلیا جائے گا۔ پشاور، اسلام آباد، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں بھی بھرپور احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ ۲۱/ ستمبر کودفاعِ پاکستان و افغانستان کونسل نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ افغانستان پر یلغار پاکستان پرحملہ تصور کیا جائے۔ امریکہ کو اڈے دیئے گئے تو حکومت کو نہیں چھوڑیں گے، اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔ (انصاف: ۲۲/ ستمبر)
۲۱/ ستمبر کے احتجاجی جلسوں میں مختلف راہنماؤں نے حکومت کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کیا۔ ان کے درج ذیل منتخب بیانات سے ان کے ردّعمل کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
1۔ "امریکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ اگر حکومت نے امریکہ کو فضائی حدود یا اڈے دینے کی کوشش کی تو پھر اس کے خلاف ہماری کھلی جنگ ہوگی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان کی بھرپور حمایت کا اعلان کرے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں نے امریکہ کے دباؤ میں آکر اس کی حمایت کا اعلان کردیا ہے مگر کروڑوں مسلمان ان پٹھو حکمرانوں کے کسی بھی فیصلہ کے پابند نہیں ہیں۔" (مولانا فضل الرحمن: جمعیت علماءِ اسلام)
2۔ "ہم مشرف امریکہ ڈیل کو مسترد کرتے ہیں،یہ فردِ واحد کا فیصلہ ہے۔" (سعد رفیق: مسلم لیگ ن)
3۔ "پاکستان کی فوج اسلام اور پاکستان کی فوج ہے، جنرل مشرف کی فوج نہیں ہے۔ اگر جنرل مشرف نے بزدلی کا مظاہرہ جاری رکھتے ہوئے افغانستان کے خلاف امریکہ کی فوج کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی تو عوام امریکہ کا قبرستان بنا دیں گے۔ جنرل مشرف دس فیصد لوگوں کی بات کرتے ہیں، انہیں سڑکوں پر آنے والے لاکھوں لوگوں کو بھی دیکھنا چاہئے جو پاکستان، اسلام اور ایٹمی صلاحیتوں کی حفاظت چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنی عزت و غیرت زیادہ عزیز ہے" (قاضی حسین احمد)
4۔ "ہم نے ایٹم بم گلے میں ہار ڈال کر دکھانے کے لئے نہیں بنایا۔اگر امریکہ نے پاکستان کی سرزمین استعمال کی تو موجودہ حکومت کونکال پھینکیں گے۔" (انجینئر سلیم اللہ، جمعیت علماءِ پاکستان)
5۔ "کامیاب ہڑتال اور بھرپور ریلیوں نے ثابت کردیا ہے کہ پندرہ فیصد نہیں بلکہ پوری قوم امریکہ کی ہر جارحیت کے خلاف طالبان کے ساتھ ہے۔" (مولانا شاہ احمد نورانی)
6۔ "قوم نے حکومت کے فیصلہ کو مسترد کرکے کونسل کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے" (مولانا سمیع الحق)
یوم یکجہتی
۲۱/ ستمبر۲۰۰۱ء کے زبردست احتجاجی مظاہروں نے حکومت کے ذمہ داران کو فی الواقع پریشان کردیا۔ انہوں نے عوام میں غم و غصہ کی لہر کو کم کرنے اور انہیں اعتماد میں لینے کے لئے حکومتی مشینری اور ذرائع ابلاغ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا وسیع منصوبہ بنایا۔حکومت کی طرف سے ۲۷/ ستمبر کو قومی سطح پر یوم یکجہتی منانے کا اعلان کردیا۔ ۲۰ ستمبر اور ۲۷/ ستمبر کے درمیانی ہفتہ کے دوران پاکستان ٹیلی ویژن پر حکومتی فیصلہ کی تائید میں مبصرین کے مسلسل انٹرویوز دکھائے گئے اور اس بات کی بھرپور تشہیر کی گئی کہ یہ فیصلہ حکمت و تدبر کا عظیم شاہکار ہے۔محکمہ تعلقاتِ عامہ نے اخبارات کے ذریعے رائے عامہ کو حکومت کی تائید میں لانے کے لئے بھرپور ابلاغی مہم شروع کی۔ حکومت کی طرف سے سرکاری اداروں کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ اپنے ملازمین کو یوم یکجہتی کی تقریبات میں شریک کریں۔ اسی دن جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں نے یوم استحکامِ پاکستان منانے کے فیصلہ کیا۔ حکومت کی طرف سے یوم یکجہتی منانے کا مقصد واضح نہیں تھا۔ بظاہر یہی لگتا تھا کہ وہ اپنے خلاف ہونے والے ردعمل میں کمی لانا چاہتی تھی۔ جیسا کہ ۲۷/ستمبر کو شائع ہونے والے ایک مضمون میں حکومت پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز نے لکھا:
"امن پسند عوام کوگمراہ کرنے کی ان مذموم کاوشوں کے تدارک اور اتحاد و یگانگت کے فروغ کی خاطر صدر جنرل پرویز مشرف نے ۲۷/ ستمبر کو یوم یکجہتی پاکستان منانے کا انتہائی صائب اور خوش آئند فیصلہ کیا ہے۔" (نوائے وقت، جنگ)
مگر عام آدمی تذبذب میں مبتلا تھا کہ حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے اثرات کو کم کرنے کے لئے منایا جانے والا دن 'یومِ یکجہتی' کس طرح ہے؟ معروف کالم نگار جناب عباس اطہر نے اس الجھن کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا :
"جمعرات کے دن یوم یکجہتی کے بارے میں کسی کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کس کی حمایت میں منایا جارہا تھا۔ جس کسی فرد یا گروہ نے حکمرانوں کو یہ منانے کا مشورہ دیا تھا، اس سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ اظہارِ یکجہتی کس کے ساتھ مقصود تھا؟ امریکہ کے ساتھ یا پاکستان کے ساتھ، جنگ کے ساتھ یا امن کے ساتھ، نام یوم یکجہتی اور جہت ہے کہ متعین نہیں ہوپارہی!! "
جناب اطہر عباس نے یوم یکجہتی کی 'کامیابی' کے متعلق دلچسپ اور اپنے مخصوص لطیف طنزیہ پیرائے میں یوں تبصرہ کیا:
"جگہ جگہ قوتِ ایمانی اور حب الوطنی کے جذباتی مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ ابھی ابھی مجھے سرگودھا کے ایک شہری عثمان صاحب کا فون آیا ہے کہ وہاں پانچ سکولوں میں چھٹی کرا کے یوم یکجہتی کی شان دوبالا کی گئی۔ لاہور کی تمام ویگنیں یوم یکجہتی منانے میں مصروف تھیں۔ ا س لئے رکشوں، ٹیکسیوں، چھوٹی ٹرانسپورٹ نے سڑکوں پر خوار ہونے والی سواریوں سے مکمل اظہارِ یکجہتی کیا اور منہ مانگے کرائے لئے۔ بلدیہ کے سکولوں کے طلبہ جوق در جوق اس قومی مظاہرے میں شریک ہوئے۔ سرکاری اداروں خصوصی کارپوریشن، واسا اور ایل ڈی اے وغیرہ کے ملازموں نے فرض سمجھ کر اپنے اداروں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔" (کنکریاں: نوائے وقت، ۲۸ ستمبر)
طالبان کا موقف
طالبان نے موجودہ بحران میں مداہنت کی بجائے مدافعت، ذلت کی بجائے آبرو اور بے اصولی کی بجائے اصول پرستی، دنیا داری کی بجائے دین کا انتخاب کیا ہے۔ معاشی زبوں حالی اور دگرگوں حالات اور پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود ان کی طرف سے عزیمت کی راہ پر جمے رہنا تعجب انگیز اور ایمان افروز ہے۔امریکہ کے ممکنہ حملے اور مسلسل توہین آمیز دھمکیوں اور پاکستان کی طرف سے مسلسل سفارتی کاوشوں کے باوجود انہوں نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا ہے۔
۱۷/ ستمبر کو پاکستان کی طرف سے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل، جنرل محمود کی قیادت میں ایک وفد افغانستان گیا۔ وفد نے ملا عمر اور دیگر طالبان راہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔وفد نے انہیں امریکہ سے تعاون نہ کرنے کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا مگر طالبان مرعوب نہ ہوئے اور وفد ناکام لوٹا۔
۲۰/ ستمبر کو ایک ہزار افغان علماء کی کونسل نے فیصلہ دیا کہ "اسامہ بن لادن سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی اور ملک چلے جائیں۔" پاکستان میں متعین افغان سفیر عبدالسلام ضعیف نے وضاحت کی کہ افغان کونسل کا یہ فیصلہ محض 'مشورہ' ہے،فتویٰ یا حکم کا درجہ نہیں رکھتا۔ ۳۰/ ستمبر کو ۱۶ علماء کا ایک وفد جن میں مولانا تقی عثمانی، مولانا فضل الرحیم اور مفتی جمیل بھی شامل تھے، ایک دفعہ پھر افغانستان گیا۔وفد کے ساتھ جنرل محمود صاحب بھی تھے۔ وفد طالبان کو قائل تو کیاکرتا، الٹا قائل ہوکر واپس آگیا۔ یکم اکتوبر کو ملا عمر کا بیان شائع ہوا کہ"اسامہ بن لادن تو ایک محبوب مجاہد ہے ہم تو کسی عام شہری کو بھی ثبوت کے بغیر امریکہ کے حوالے نہ کریں گے"۔
طالبان نے بار بار وضاحت کی ہے کہ امریکہ میں دہشت گردی کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے اور نہ ہی اسامہ بن لادن اس میں ملوث ہے۔اگر عدل و انصاف کے تقاضوں کو پیش نظر رکھا جائے تو طالبان کا موقف حق پر مبنی ہے۔ محض متعصب اور منتقم مزاج امریکی قیادت کے کہنے پر آخر اسامہ بن لادن کو ان کے حوالہ کیوں کیا جائے جبکہ ان کے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں ہے۔ طالبان اسامہ بن لادن کو اپنا محسن، محبوب مجاہد اور عالم اسلام کا ہیرو سمجھتے ہیں۔ اسامہ بن لادن نے غریب افغانیوں، ان کے یتیم بچوں اور بیواؤں کی مالی معاونت میں کروڑوں ڈالر خرچ کئے ہیں۔ ہزاروں طالبان اس سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق اگرملا عمر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کردیں توہزاروں طالبان اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کردیں گے۔
اسامہ بن لادن ایک کرشماتی شخصیت ہے، اس نے نئی افغان نسل میں جوشِ جہا دکو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسامہ بن لادن محض کسی ایک شخص کا نام نہیں ہے، وہ اب ایک تحریک اور نظریہ کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ امریکہ نے اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کے لئے اسامہ بن لادن کا ہوا کھڑا کیا ہوا ہے۔ جس طریقے سے وہ اسامہ بن لادن کے متعلق پراپیگنڈہ کررہے ہیں، اس سے تو لگتا ہے کہ وہ ایک عام انسان نہیں بلکہ کوئی سپر نیچرل چیز ہے۔ ایک سپرپاور طاقت کی جانب سے ایک فرد سے مرعوبیت اور دہشت زدگی ایک ایسا شرمناک امر ہے جس کی انسانی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ اسامہ بن لادن نے اپنے بیان میں کہا کہ" میرا امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جنہوں نے یہ کام کیا ہے انہوں نے ایساذاتی مفاد کے لئے کیا ہے۔ میں ملا عمر کا پیروکار ہوں۔انہوں نے مجھ پر باہر کی دنیا سے رابطہ کرنے کی پابندی لگا رکھی ہے۔ ملا عمر نے مجھے اس قسم کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی۔" (جنگ:۱۷/ ستمبر)
امریکہ اسامہ بن لادن کی جو وحشت ناک تصویر کشی کررہا ہے اور اسے ایک مافوق الفطرت دہشت گرد اور وحشی انسان کی حیثیت سے پیش کررہا ہے، اگر اس کا یہ پراپیگنڈہ درست ہے تو اسامہ بن لادن بڑے فخر سے امریکہ میں دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرتا اور اپنے آپ کو امریکہ کے حوالہ کردیتا۔ اگر امریکہ کو تباہ کرنا ہی اسامہ بن لادن کا مقصود ہے تو پھر وہ بار بار وضاحتی تردید کیوں جاری کررہا ہے؟
عالم اسلام کہاں کھڑا ہے؟
جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے، عالم اسلام نے متفقہ طور پر اس کے خاتمہ کے متعلق سکیورٹی کونسل کی قرارداد کی تائید کی ہے۔ مگر دہشت گردی کا خاتمہ ایک الگ مسئلہ ہے اور افغانستان پر امریکی حملہ ایک دوسرا معاملہ ہے۔ امریکہ بھرپور سفارتی دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ عالم اسلام کو اپنا ہم نوا بنائے مگر اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ ایران نے صاف جواب دے دیا ہے کہ وہ بے گناہ افغان عوام کو ہلاک کرنے کے منصوبہ میں امریکہ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ مصر کے حسنی مبارک بار بار کہہ رہے ہیں کہ امریکہ جلد بازی نہ کرے، افغانستان پر حملہ کرنے سے پہلے ٹھوس ثبوت فراہم کرے۔ سعودی عرب کے بارے میں چند دن پہلے خبر آئی تھی کہ انہوں نے امریکہ کو فضائی اڈوں کی سہولت دینے کی حامی بھرلی ہے مگر یکم اکتوبر کو سعودی وزیر دفاع پرنس سلطان بن عبدالعزیز کی وضاحت شائع ہوئی کہ سعودی عرب کسی مسلمان ملک پر حملہ کے لئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ البتہ امریکی دباؤ میں آکر سعودی عرب نے افغانستان سے اپنے سفارتی روابط منقطع کرلئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے بھی افغانستان سے سفارتی تعلقات توڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ پاکستان اس وقت واحد اسلامی ریاست ہے جس کے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات اب تک قائم ہیں۔ عراق نے امریکی عزائم کی مذمت کی ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ نے امریکی صدر جارج بش سے ملاقات کے دوران زور دیا ہے کہ جہاد اور دہشت گردی کے درمیان فرق کو قائم رکھا جائے اوریہ کہ 'اسلامی دہشت گردی' جیسی اصطلاحات کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے۔
عالم اسلام کوچاہئے کہ وہ بحران کی اس نازک گھڑی میں افغانستان سے بھرپور اخلاقی تعاون کریں۔ آج اگر امریکہ جنگ کے ذریعہ افغانستان کو تباہی کا شکار کرتا ہے تو کل کسی بھی اسلامی ملک کی باری آسکتی ہے۔ کیونکہ امریکہ کے نزدیک کم از کم پانچ دیگر مسلم ممالک بھی دہشت گرد ممالک کے زمرے میں آتے ہیں۔ امت ِمسلمہ کو اتحاد کا بھرپور مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اگر آج تمام اسلامی ممالک ٹھوک بجا کر امریکہ پر یہ واضح کردیں کہ وہ افغانستان کے خلاف امریکی جارحیت کی ہرگز تائید نہیں کرتے تو امریکہ کو اس ریاستی غنڈہ گردی کی جرأت نہیں ہوگی۔ امریکہ اس وقت پراپیگنڈہ کررہا ہے کہ اسے مسلم ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اسلامی ممالک کو اس غلط پراپیگنڈہ کا موٴثر جواب دینا چاہئے۔ اسلامی ممالک امریکہ کی مخالفت کرکے پاکستان کے لئے بھی یہ کام آسان کردیں گے۔ کیونکہ اس صورت میں پاکستان امریکہ سے تعاون کرنے سے یہ کہہ کر انکار کرسکتا ہے کہ وہ عالم اسلام کونہیں چھوڑ سکتا۔
تحفظات و خدشات
۱۹/ستمبر ۲۰۰۱ء کوجنرل پرویز مشرف کی جانب سے اپنے فیصلے کی مفصل وضاحت پیش کرنے اور ۲۷/ستمبر کو سرکاری سطح پر یوم یکجہتی کو عظیم الشان 'کامیابی' قرار دینے کے باوجود پاکستانی قوم ذہنی تحفظات اور خدشات کا بدستور شکار ہے۔ امریکہ سے تعاون کے معاملے میں حکومت کے فیصلوں کے متعلق قومی اتفاقِ رائے کے دعوے خوش اعتقادی کا مظہر معلوم ہوتے ہیں۔حکومتی فیصلے کی تائید اور مخالفت میں رائے عامہ ابھی تک منقسم ہے۔جہاں حکومت فیصلے کی تائید میں ہر طبقہ فکر سے بیانات دیئے گئے ہیں، وہاں اس کی مخالفت میں سامنے آنے والی آرا بھی محض جہادی تنظیموں تک محدود نہیں ہیں۔ ان میں بھی اہل الرائے، صحافی، دانشور، سیاستدان، طلباء، خواتین اور دیگر طبقات کے نمائندے شامل ہیں۔ ہمارے پاس کوئی ایسا آلہ /مقیاسِ حرارت تو نہیں کہ جس سے ا س معاملے میں قومی موڈ کا ٹھیک ٹھیک درجہ حرارت نوٹ کرسکیں یا کوئی ایسا میزان بھی نہیں کہ جس کی بنیاد پر اعداد و شمار کی زبان میں ٹھوس بنیادوں پر دعویٰ کیا جاسکے کہ حکومت کے فیصلے کے خلاف رائے رکھنے والے رائے عامہ کے طبقات کا تناسب کیا ہے۔ البتہ ہمیں اس امر کا یقین ہے کہ جناب مشرف صاحب کا یہ دعویٰ محل نظر ہے کہ ان کے فیصلے کی مخالفت دس پندرہ فیصد لوگ کررہے ہیں جو عقل کی بجائے جذبات کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ اگر تو معروضیت اسی کا نام ہے کہ سرکاری ذرائع ابلاغ کی طرف سے پیش کردہ 'حقائق'کو ہی اس طرح کے اہم قومی امور کے متعلق رائے قائم کرنے کیلئے اساس تسلیم کیا جائے، تو پھر شاید حکومت کی مخالفت میں پندرہ فیصد کا تناسب بھی مبالغہ آمیز نظر آئے، لیکن اگر غیر جانبدار پریس اورپھر آس پاس کے ذاتی مشاہدات اور غیر رسمی اجتماعات اور عوامی بحثوں اورمختلف سماجی اداروں کی جانب سے پیش کردہ تاثرات کوبھی پیش نظر رکھا جائے توپھر بہت ہی قلیل تعداد ایسی ہے جو امریکہ سے پاکستان کے تعاون کے متعلق خدشات یا کم از کم ابہام کا شکار نہ ہو۔
ہمارا خیال ہے کہ وہ لوگ جو حکومت کے فیصلے کی شدت سے مخالفت کررہے ہیں، وہ بھی اپنے عقلی میزان پر عالم اسلام اورپاکستان کے قومی مفاد کو سامنے رکھ کر ایسا کررہے ہیں۔ وہ نہ تو فسادی عناصر ہیں جو کوئی مذموم ، ذاتی یا جماعتی ایجنڈا رکھتے ہوں نہ ہی حکمت و دانش سے عاری کوئی بے عقل انسان ہیں جو قومی معاملات کے متعلق صائب رائے اپنانے کے قابل ہی نہ ہوں۔ بالکل اسی طرح ہم جناب پرویز مشرف کے متعلق بھی کوئی ایسا سوئے ظن نہیں رکھتے کہ انہیں 'غدار' ، امریکی ایجنٹ یا قومی مفاد کا سودا کرنے والے توہین آمیز القابات کا مستحق سمجھتے ہوں۔ ہمارے خیال میں انہوں نے اپنی فراست کے مطابق ایک فیصلہ کیا ہے ،ان کا فیصلہ بھی ہر خطاکار انسان کی طرح غلط ہونے کابرابر امکان رکھتا ہے۔ اگرچہ ہر صاحب ِاقتدار کسی حد تک راست فکری کے پندار میں مبتلا ہوتا ہے، مگر اختلافِ رائے کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔
یہاں یہ نشاندہی بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ گیلپ سروے میں امریکہ کی مخالفت میں۶۷ فیصد آرا پیش کی گئیں۔ جنرل پرویز مشرف ہمیشہ اپنے آپ کو ایک ترقی پسند، لبرل اورروشن خیال انسان کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کی بات کو سننے کا میلان بھی رکھتے ہیں۔ اس نازک گھڑی میں ان کے لئے دوسرا نقطہ نظر جاننا بے حد ضروری ہے۔ جو لوگ حکومت کے موجودہ فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں، ان کے ذہنوں میں پائے جانے والے خدشات اور تحفظات درج ذیل ہیں:
(1) جیسا کہ حکومت نے واشگاف الفاظ میں اب اعلان کردیا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کے تین مطالبات پورے کرنے کی حامی بھرلی ہے۔ ۲۸/ ستمبر کو وزیرخاجہ جناب عبدالستار نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر پاکستان کو امریکہ کی طرف سے تین درخواستیں موصول ہوئی تھیں جو معلومات کے تبادلے، فضا کے استعمال اورلاجسٹک سپورٹ کے بارے میں تھیں، ہم نے ان پر ہاں کردی ہے" (نوائے وقت)۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کی طرف سے بار بار یہ وضاحت پیش کی جارہی ہے کہ"ہم افغانستان کے خلاف کسی کاروائی میں شریک نہیں ہوں گے۔" یہ دونوں اعلانات بادئ النظر میں باہمی تضادات کے حامل ہیں۔ معلومات کے تبادلہ، فضا کے استعمال کی اجازت اورپھر لاجسٹک سپورٹ کی فراہمی بالواسطہ طور پر امریکہ کی طرف سے افغانستان کے خلاف ممکنہ کارروائی میں شمولیت ہی کی تو غمازی کرتی ہیں۔ اس وقت امریکہ کو سب سے زیادہ ضرورت مستند معلومات کی ہے۔ وہ اپنی تمام تر اعلیٰ انٹیلی جنس کے نیٹ ورک اور سٹیلائٹ کے نظام کے باوجود اسامہ بن لادن کے ٹھکانے تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ اسامہ بن لادن جہاں بھی ہے، اکیلا نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ اس کے اہل خاندان کے علاوہ سینکڑوں مجاہدین اور محافظین بھی ہوں گے، معلومات کی فراہمی کے بعد امریکہ کی طرف سے وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں ان سب بے گناہوں کے ہلاکت کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ کیا پاکستانی قوم کا اجتماعی ضمیر اس طرح کی وحشیانہ ہلاکتوں میں اعانت کو کبھی قبول کر پائے گا؟اور پھر امریکی عزائم محض اسامہ بن لادن تک محدودنہیں ہیں، جس طویل جنگ کا وہ اعلان کررہے ہیں، اس میں طالبان حکومت کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ کیا امریکہ افغانستان کے فاقہ زدہ بے گناہ عوام کی وسیع پیمانے پر قتل و غارت کے بغیر طالبان کی حکومت کا خاتمہ کرسکتا ہے؟ کیا کابل شہر پر گرنے والے میزائل صرف طالبان کے گھروں کو ہی تباہ کریں گے؟ آخر ہم اس وحشیانہ کارروائی میں امریکہ کے ساتھ تعاون کا کیونکر دفاع کرپائیں گے؟ کیا افغان عوام ہماری اس اعانت کو کبھی فراموش کر پائیں گے؟ کیا پاکستانی عوام اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ اس بہیمانہ سلوک کی اجازت دیں گے؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات تشنہ جواب ہیں۔
(2) مذکورہ تینوں امریکی مطالبات میں سے سب سے زیادہ ابہام 'لاجسٹک سپورٹ' کے بارے میں پایا جاتاہے۔ بعض ماہرین کے نزدیک 'لاجسٹک سپورٹ' کی اصطلاح فضائی یا زمینی اڈوں کے لئے محض ایک 'کور' (Cover) ہے۔ فضائی یازمینی اڈوں کی فراہمی کے بغیر لاجسٹک سپورٹ کی فراہمی بے معنی بلکہ ناقابل تصور ہے۔ لاجسٹک سپورٹ میں اہم ترین بات فوجوں کی نقل و حرکت میں سہولت فراہم کرنا ہوتا ہے۔ خلیج کی جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ امریکیوں نے جس لاجسٹک سپورٹ کا معاہدہ کیا تھا، اس میں ٹرانسپورٹیشن، پانی کے اخراجات، ایندھن، فوجیوں کی رہائش اورلاجنگ کا بندوبست، افواج کی نقل و حرکت پراخراجات وغیرہ شامل تھے۔ خلیجی جنگ میں امریکی افواج کے سپریم کمانڈر جنرل نارمن شواز کوف نے اپنی سوانح عمری"It does not take a hero" میں اس کے بارے میں تمام تفصیلات بیان کی ہیں۔ اگر اب امریکہ پاکستان سے اس طرح کی لاجسٹک سپورٹ مہیا کرنے کا مطالبہ کررہا ہے تو پھر اس امر میں شک باقی نہیں رہنا چاہئے کہ امریکی افواج پاکستان کی سرزمین پر اُتریں گی۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے اپنی کانفرنس میں کہا کہ ابھی تک امریکیوں نے پاکستان کو 'آپریشنل پلان'(عملی منصوبہ) نہیں دیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب 'عملی منصوبہ' ابھی تک نہیں دیا گیا تو پھر امریکی وفد کے ا س بیان کا کیا مطلب سمجھا جائے جو اس نے ۲۸/ ستمبر کوامریکہ روانگی سے پہلے دیا۔ پاکستان نے لامحدود تعاون کا وعدہ کیا ہے۔ کسی آپریشنل پلان کے بغیر لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کی مصلحت و ضرورت کے بارے میں بھی وضاحت سامنے آجاتی تو شاید اس بارے میں عام لوگوں کے اندر جو تشویش پائی جاتی ہے، وہ کم ہوجاتی۔ لاجسٹک سپورٹ کے مطالبہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان پر زمینی حملہ کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
(3)تادمِ تحریر (یکم اکتوبر) حکومت ِپاکستان نے امریکہ کو فضائی اڈوں کی فراہمی کی تردید کی ہے۔ مگر اس کے باوجود پریس میں ایسی خبریں شائع ہورہی ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ امریکی مطالبات میں اڈوں کی فراہمی بھی شامل ہے۔ روزنامہ پاکستان نے ۲۸/ ستمبر کو نمایاں طور پر یہ خبر شائع کی: "امریکہ نے پاکستان سے فضائیہ کے تین اور فوج کے دو اڈّے مانگ لئے" ۔اخبار لکھتا ہے کہ انتہائی باوثوق ذرائع سے معلوم ہورہا ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر فضائی حملے کے لئے پاکستان سے سرگودھا، کامرہ، اور کوئٹہ کے ایئربیس حوالے کرنے کا مطالبہ کیاہے۔نیز پاک افغان سرحد کے قریب پارہ چنار اورمیراں شاہ کے علاقوں میں موجود دو فوجی ہوائی اڈّے بھی طلب کئے ہیں۔" اس طرح کی خبروں کی اشاعت نے پاکستان کے عام محب ِوطن شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ اہل پاکستان کو سب سے بڑی تشویش ہوائی اڈوں کی فراہمی کے بارے میں ہے کیونکہ ایک دفعہ پاکستانی اڈوں کا قبضہ لینے کے بعد امریکی افواج آسانی سے واپس نہیں جائیں گی اورپاکستان استعماری امریکہ کی مستقل غلامی میں چلا جائے گا۔ یہاں خلیج جنگ کے حوالہ سے امریکہ کے کردار کو بیان کرنا مناسب ہوگا۔
جب صدام حسین نے ۶/اگست ۱۹۹۰ء کو کویت میں فوجیں اتاریں تو اس کے دو دن بعد ایک امریکی وفد اس وقت کے سیکرٹری دفاع ڈک چینی کی سربراہی میں سعودی عرب پہنچا۔ اس وفد نے عراق کے کویت پر قبضہ کے بعد علاقہ میں بدلی ہوئی صورتحال پر سعودی فرماں روا شاہ فہد کو بریف کیا۔ جنرل نارمن نے اپنی سوانح عمری میں شاہ فہد سے ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ڈک چینی نے شاہ فہد کو بریف کرتے ہوئے کہا : "صدر بش نے مجھے آپ تک یہ پیغام پہنچانے کی ہدایت کی ہے ، ہم سعودی عرب کے دفاع کے لئے افواج بھیجنے کو تیار ہیں۔ اگر آپ کہیں گے، تو ہم آئیں گے، ہم مستقل طور پر کوئی اڈے نہیں مانگیں گے، اور جب آپ ہمیں کہیں گے تو ہم چلے جائیں گے۔" (صفحہ ۳۵۴) لیکن سعودی عرب نے خلیجی جنگ کے دوران امریکیوں کے جو اڈے فراہم کئے تھے، امریکی بدستور ان پر قابض ہیں۔ پرنس سلطان ایئر بیس اس وقت بھی امریکی افواج کے زیر تسلط ہے۔ دس سال گذرنے کے باوجود ان کے واپس جانے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ سعودی حکام نے بارہا ناگواری کا اظہار کیا ہے۔ مگر امریکی ان کی ناپسندیدگی کے باوجود ان پر آج تک مسلط ہیں۔ امریکی حد درجہ ناقابل اعتبار ہیں۔ وہ کبھی اپنے اصل عزائم کو ظاہر نہیں کرتے۔ اس دور کی بدترین استعماری ریاست امریکہ ہے۔ موجودہ ہنگامی حالات میں بھی امریکیوں کو اڈے فراہم کرنا پاکستان کی سا لمیت ، خود مختاری اور قومی وقار کو داؤ پر لگانے کے مترداف ہوگا۔ ارضِ پاک پر امریکیوں کے ناپاک قدم کا پڑنا ایک بہت بڑی قومی مصیبت کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ ہمارے وزیرخارجہ توکہہ چکے ہیں: "اگر طالبان سے مذاکرات ناکام ہوئے تو پاکستان میں غیر ملکی فوج کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ " (نوائے وقت:۱۹ /ستمبر)
(4) امریکی جس وسیع پیمانے پر جنگی تیاریاں کررہے ہیں، ان کا اصل ٹارگٹ اسامہ بن لادن یا افغانستان نہیں ہے، ان کا اصل ہدف دنیا کی واحد مسلم ایٹمی طاقت 'پاکستان' ہے۔ پاکستان کی ایٹمی طاقت امریکہ اور یہودی لابی کو ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے۔ امریکہ پر حملہ کے بعد امریکی ذرائع ابلاغ بار بار اس خدشہ کا اظہار کررہے ہیں کہ اگر مسلم بنیاد پرستوں کے ہاتھ کیمیکل یا نیوکلیئر ہتھیار آگئے تو وہ ناقابل بیان تباہی پھیلائیں گے۔ پاکستان کے 'اسلامی بم'کی مخالفت بھی اس خدشہ کے پیش نظر کی جاتی رہی ہے کہ یہ مستقبل میں کہیں بنیاد پرستوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ عراق اور ایران کے درمیان جنگ کے دوران اسرائیل نے امریکی سرپرستی کے ساتھ عراق کا ایٹمی گھر تباہ و برباد کردیا تھا اور اب ان کی نگاہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے تو اپنی تقریر میں فرمایا کہ اگر وہ امریکہ سے تعاون نہ کرتے تو پاکستان کے سٹرٹیجک اثاثے اور ینوکلیئر سہولت خطرات کا شکار ہوجاتی۔ مگر پاکستان میں بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اگر امریکی افواج پاکستان میں نازل ہوجاتی ہیں تو اس سے پاکستان کا نیو کلیئر پروگرام سخت خطرات کا شکار ہوجائے گا۔ قاضی حسین احمد نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : "امریکی افواج کے آنے سے ہمارے ایٹمی تنصیبات خطرے سے ددچار ہوجائیں گے۔" (ایشیا: ۲۶ ستمبر)
نوائے وقت نے اپنے اداریے میں قومی موقف کی نمائندگی کرتے ہوئے ان تحفظات کا اظہار کیا:
"ایٹمی پروگرام کی محافظ پاک فوج کی قیادت سے بہتر کون جانتا ہے کہ اگر خدانخواستہ ہم نے اپنی زمینی اور فضائی حدود پرامریکی بالادستی تسلیم کرلی اور اس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان کے خلاف ہماری سرزمین سے جنگ چھیڑ دی تو اس کا کوئی آوارہ میزائل اوربھٹکتا ہوا طیارہ کہوٹہ اور دیگر ایٹمی تنصیبات کا رخ کرسکتا ہے اور امریکہ کی جدید ٹیکنالوجی کے مقابلے میں ہم اس کا دفاع کرنے یا قبل از وقت پتہ چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔" (۱۹/ ستمبر)
(5) جنرل پرویز مشرف نے جن فوری اور شدید خطرات کی نشاندہی کی ہے، وہ اپنی جگہ پر ہیں۔ حکومت کا موقف کچھ مالی مفادات اور فوری نتائج کے اعتبار سے تو شاید درست ہو لیکن "مادّی مفادات سے بالاتر اخلاقیات، عدل و انصاف کے مسلمہ اصول اور غیرت و خودداری کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ صرف مادی تقاضے اور فوری مصلحتیں ہی سامنے نہیں رکھنی چاہئیں۔پھر ان سے بھی بالاتر دین و شریعت کی ہدایات ہیں جن کوہم کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ دینی احکام پرعمل میں خواہ ہمیں یہ سارے خطرات نظر آئیں تب بھی ہمیں دین کے تقاضوں کو اوّلیت دینی چاہئے۔ اس طرح دوراندیشی کا تقاضا ہے کہ صرف فوری مصلحتوں کے پیش نظر فیصلے نہ کئے جائیں، اخلاق کے مسلمہ تقاضے بھی ملحوظِ خاطر رہیں۔"
حکمت و دانائی محض مادّی مفادات کے حصول کی کاوش میں نہیں ہوتی، اخلاقی نصب العین کی پیروی اس سے بدرجہا حکیمانہ اور دانش مندانہ حکمت ِعملی کہلانے کی مستحق ہے۔ پاکستان کے وزیرخزانہ امریکی تعاون کے نتیجہ میں خوشحالی کے سیلاب کی نوید سنارہے ہیں،ابھی تک اس کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ محض یہ ہیں کہ یورپی یونین کے وفد نے پاکستان کے دورہ کے دوران پاکستان کے 37.9کروڑ ڈالر کے قرضے ری شیڈول کرنے کا معاہدہ کیا ہے اور ۳۰/ ستمبر کو یہ خبرشائع ہوئی کہ پاکستان کو امریکہ کی طرف سے پانچ کروڑ ڈالر کا قرضہ ملے گا۔ اگر معروضی تجزیہ کیا جائے تو یہ فوری مالی فوائد ان وسیع مادی و مالی نقصانات کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں جو پاکستان کو امریکہ کے افغانستان پر حملے کی صورت بھگتنا پڑیں گے۔ اس ممکنہ حملے کے نتیجہ میں ۱۵/لاکھ اضافی افغان مہاجرین کی پاکستان میں ہجرت متوقع ہے، یہ امر پاکستان کی معیشت پر اربوں روپے کا اضافی بوجھ ڈالے گا۔ طالبان کے بعد اگر افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت آتی ہے تو پاکستان کی مغربی سرحدیں خطرات کا شکار ہوجائیں گی جن کی حفاظت کے لئے اربوں ڈالر کے فوجی اخراجات چاہئیں۔ 37.9 کروڑ کی ری شیڈولنگ کوئی بہت زیادہ فوائد کی حامل نہیں ہے۔ یہ پاکستان کے ۴۰/ ارب ڈالر کے کل قرضہ کا ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ ابھی تک پاکستان کا قرضہ معاف کرنے کی بات نہیں کی گئی ہے۔ ری شیڈولنگ سے قرضہ بڑھے گا۔ کیونکہ ری شیڈولنگ کے بعد پرانے قرضوں پر سود کی شرح میں پانچ فیصد اضافہ کردیا جاتا ہے۔ نئے قرضے پاکستانی قوم کے لئے نعمت نہیں بلکہ وبالِ جان ہوں گے۔ نوائے وقت کا تبصرہ بالکل درست ہے کہ "عوام اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں کہ ڈالروں کا لالچ دے کر پاکستان کو اپنے اصولی موقف سے ہٹا دیا جائے اور افغان عوام کے خون سے ہاتھ رنگنے کی کسی کارروائی میں ہمیں شرکت پر مجبور کردیاجائے" (۳۰/ ستمبر)۔ اقبال کا پیغام بھی یہی ہے:
اے طائر ِلاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی!
(6) جنرل پرویز مشرف تو قوم کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ امریکہ سے تعاون نہ کیا تو کشمیر کاز کو خطرہ لاحق ہوجائے گا، مگر حالات کچھ ایسا رخ اختیار کررہے ہیں کہ امریکہ سے تعاون کے بعد کشمیر کاز بھرپور خطرات کی زد میں آجائے گا۔ بی بی سی سے انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں امریکی سیکرٹری خارجہ کولن پاول نے اٹلی، سپین اور بوسنیا کے ساتھ کشمیر کا ذکر کرکے کشمیر کی تحریک ِآزادی کو بھی دہشت گردی کے زمرے میں شمار کرنے کی طرف واضح اشارہ کردیا ہے۔ بھارتی اور یہودی لابیاں کشمیری مجاہدین کو اسامہ بن لادن کے ساتھ ملانے کی بھرپور پراپیگنڈہ مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ 'نوائے وقت' نے اس معاملے میں اپنے خدشات کا اظہاریکم اکتوبر کے اداریے میں یوں کیا ہے:
" کولن پاول کے بیان اور بھارت کی مسلسل شرارتوں کے بعد یہ خطرہ محسوس کیاجارہا ہے کہ طالبان کے بعد نزلہ جہادِ کشمیر اور اس میں حصہ لینے والی جہادی تنظیموں پر گرسکتا ہے۔ حرکت المجاہدین پرپابندی لگا کر اشارہ دے دیا گیا ہے کہ امریکہ جہادِ کشمیر کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔"
جنرل پرویز مشرف توجہاد اور دہشت گردی میں فرق کو تواتر سے بیان کرتے رہتے ہیں، مگر ان کی حکومت کی عملی پالیسیاں ان کی اس فکر سے متصادم دکھائی دیتی ہیں۔ امریکہ پر حملوں کے بحران سے پہلے ہی جہادی تنظیموں کو نکیل ڈالنے کے لئے حکومت کی طرف سے متعدد اقدامات اٹھائے گئے۔ اب امریکہ دباؤ میں آکر 'الرشید ٹرسٹ' جیسے رفاہی ادارے کے اکاؤنٹ منجمد کرکے اس پرعملاً پابندی لگا دی گئی ہے۔ پاکستان کی سیکولر لابی طالبانائزیشن اور لشکرائزیشن کی دہائی دیتی رہتی ہے۔ وہ کسی صورت میں جہادی تنظیموں کا وجود برداشت نہیں کرتیں۔ امریکہ بظاہر تو اپنی مطلب براری کے لئے پاکستان کا 'دوست' بن کر سامنے آیا ہے، مگر اس کی طوطا چشمی بھی ضرب المثل ہے۔ پاکستانی قوم اس کی آنکھیں بدلنے کی فریب کاری اور خود غرضانہ پالیسی سے بھی بخوبی واقف ہے۔ کیا جنرل پرویز مشرف یہ یقین دلا سکتے ہیں کہ اپنے مقاصد میں کامیابی کے بعد امریکہ ایک دفعہ پھر بے وفائی نہیں کرے گا؟
یہ بات بھی توجہ کے لائق ہے کہ امریکہ شروع سے بھارت کو پاکستان پر ترجیح دیتارہا ہے، اس علاقے میں ا س کا پہلا 'چوائس' بھارت ہے کیونکہ وہ ایک بہت بڑی منڈی ہے۔ پاکستان میں قدم جمانے اور اڈوں پر قابض ہونے کے بعد اس بات کا قوی احتمال ہے کہ امریکہ پاکستان میں اپنے اعلان کردہ بنیاد پرستوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا کاری وار کرے گا۔ امریکہ میں ایسے 'شکرے' موجود ہیں جو امریکی صدر بش کو اکسا رہے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے تربیتی کیمپ پاکستان میں موجود ہیں چونکہ جہادِ کشمیر کا جہاد افغانستان سے براہِ راست تعلق ہے، اسی لئے پاکستان میں امریکی موجودگی کے بعد جہادِ کشمیر کو براہِ راست خطرہ لاحق ہوجائے گا۔کسی بھی بات کا بہانہ بنا کر امریکہ جہادی تنظیموں کو'کریش'کرنے کی مہم چلا سکتے ہیں اورحکومت ِپاکستان جو پہلے ہی انتہا پسندوں کے متعلق یہ نظریہ رکھتی ہے کہ ملک کے ایک فیصد گروہ نے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے، امریکی اشاروں پر سرتسلیم خم بجا لائے گی۔ ان حالات میں اگر جہادی تنظیمیں خدشات کا شکار ہیں، تو ان کے خدشات کچھ بے جا بھی نہیں۔
(7) امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی تو محض ایک فوری بہانہ اور نامعقول عذر ہے جو امریکہ کے ہاتھ میں آگیا ہے ورنہ جو حقائق اب تک منظر عام پر آچکے ہیں، ان کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالنا کوئی مشکل امر نہیں ہے کہ امریکہ افغانستان پر حملہ بنانے کا ناپاک منصوبہ بہت پہلے بنا چکا تھا۔ امریکی تھنک ٹینک اس طرح کے منصوبے بنا چکے تھے۔ آج سے تین ماہ قبل پاکستان کے سابق وزیرخارجہ جناب آغا شاہی کا روزنامہ 'جنگ' میں مفصل انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوں نے اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر امریکی تھنک ٹینک کے اس طرح کے منصوبوں کی نشاندہی کی ۔ ۱۶ /ستمبر کو ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے حوالہ سے شہرت رکھنے والے پاکستان کے معروف سفارت کار جناب نیاز اے نائیک کا بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ امریکہ نیویارک اور واشنگٹن میں دھماکوں سے کم از کم چھ ہفتہ قبل افغانستان پرحملہ کرنے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج سے دو ماہ قبل وہ جرمنی میں سفارت کاروں کی ایک کانفرنس میں شریک ہوئے تھے، اس کانفرنس کے دوران امریکی سفارت کاروں کے حوالہ سے انہیں اس منصوبہ کے متعلق آگاہی ہوئی۔ یہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہی تھا کہ امریکی ایجنسیوں نے امریکہ پر حملوں کے صرف نصف گھنٹہ پر سٹیلائٹ پر اسامہ بن لادن کے دو ساتھیوں کی گفتگو سننے کا شرانگیز دعویٰ کردیا۔
صہیونی لابیاں 'تہذیبوں کے تصادم' کے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کی کی مکمل اور فریب انگیز منصوبہ بندی کرچکی ہیں۔ ملت ِاسلامیہ اور مغرب کے درمیان مستقبل کے تعلق کو 'صلیبی جنگوں' کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ تہذیب ِمغرب کو پوری انسان برادری کے لئے 'متفق علیہ' تہذیب کے طور پر کامیاب کرانا اہل مغرب کا دیرینہ خواب ہے۔ اس تہذیب کے خلاف جہاں کہیں اور جب کبھی مزاحمت کی جاتی یا آواز بلندکی جاتی ہے، تو اس مزاحمت کو کچلنا اور اس آواز کو دبانا مغربی استعمار اپنا نصب العین بنا لیتا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ اسی نصب العین کی پیروی تھی اور اب ا س کے زوال کے بعد اسلام کی نشاةِ ثانیہ کی تحریکیں مغرور استعماری طاقتوں کے لئے ایک چیلنج کا روپ اختیار کرچکی ہیں۔
افغانستان ملت ِاسلامیہ میں اس وقت نشاة ِثانیہ کا بڑا مرکز و مظہر ہے۔ روایتی دینی مدارس کے طالبان کا برسراقتدار آنا جہاں دورِ حاضر کاعظیم سیاسی معجزہ ہے، وہاں اسلام دشمن مغربی طاقتوں کے لئے اس کا وجود ناقابل برداشت ہے۔ آج امریکی صدر جارج بش اوربرطانوی وزیراعظم یہ اعلان کررہے ہیں کہ طالبان کے خلاف ان کی جنگ عالم اسلام یاکسی اسلامی ملک کے خلاف جنگ نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ مگر وہ ایسا اس لئے کررہے ہیں تاکہ عالم اسلام میں بسنے والے مسلمانوں کی اشک شوئی کرسکیں اور انہیں طفل تسلی دے سکیں۔ ان کے عزائم پوشیدہ اور ناپاک ہیں مگر ان میں اس قدر اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ ان کا کھل کر اظہار کرسکیں۔
عراق پر حملہ کرنے سے پہلے بھی انہوں نے اعلان کیا تھا کہ فوجی کارروائی کا مقصد محض کویت کو عراق کے قبضے سے چھڑانا اور صدام حسین کا قلع قمع کرنا ہے۔ مگر دنیا نے دیکھا کہ ان کا مقصد خلیج اور مشرقِ وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں مستقل قیام تھا۔ صدام حسین آج بھی موجود ہے اوروہ اس کو ہوا بنا کروہ خلیجی ممالک کو بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔ کیا پاکستان کے صاحبانِ اقتدار امریکی استعمار کے اصل اہداف اور عزائم سے بے خبر ہیں؟ اگر وہ بے خبر ہیں توایسے بے خبر حکمران پاکستان جیسے ملک کی قیادت کا فریضہ کیونکر انجام دے سکتے ہیں؟ اگر باخبر ہیں تو پھر یہود نصاریٰ کی اس عالمی گیم میں وہ پاکستانی قوم کو شریک کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ ایک مذہبی دانشور نے کہا کہ اس وقت دنیا میں صرف دو ہی ملک آزاد ہیں: ایک امریکہ اور دوسرا افغانستان۔ امریکہ اپنے مقابلے میں کسی دوسرے ملک کو آزاد نہیں دیکھ سکتا۔
(8) امریکہ سے تعاون کے حق میں ایک دلیل یہ بھی دی جارہی ہے کہ اس طرح ہم سیکورٹی کونسل کی قرارداد پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔ امریکہ پر حملوں کے ایک گھنٹہ کے اندر اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے دہشت گردی کی مذمت میں قرار داد منظور کی تھی۔ اس میں کسی ملک کو دہشت گرد قرار نہیں دیا گیا تھا۔ اصولی طور پر اس قرارداد کی مخالفت ناقابل تصور ہے۔ دہشت گردی کی جس قدر مذمت کی جائے، کم ہے۔ مگر امریکہ کی افغانستان پر چڑھائی اور مظلوم عوام کو دہشت گردی کے پردے میں تباہ و برباد کرنے کا مفہوم مذکورہ قرار داد سے کیسے نکلتا ہے؟ کیا ہم نے امریکہ کی پیروی کرتے ہوئے افغانستان کو ایک دہشت گرد ملک تسلیم کرلیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر امریکہ کی طرف سے جوابی دہشت گردی کے لئے ہم اپنے کندھے کیسے پیش کرسکتے ہیں۔
۳۰/ ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک اور قرارداد منظو رکی ہے جس میں تمام رکن ممالک کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے ہر قسم کے مالی اور لاجسٹک امداد کے ذرائع کا قلع قمع کریں۔ قرارداد کے مطابق ایسانہ کرنے والے ملکوں پر پابندیاں لگائی جائیں گی اور ضروت پڑنے پر فوجی طاقت بھی استعمال کی جاسکے گی۔ (نوائے وقت: ۳۰/ ستمبر) اس قرارداد کے سنگین خطرات ہیں۔امریکہ ایران، شام، سوڈان، لیبیا، عراق وغیرہ کو دہشت گرد ملک قرار دیتا آیا ہے۔ کیا اس قرارداد کے بعد امریکہ کو ان ممالک کے خلاف فوجی کارروائی کا بنابنایا جواز ہاتھ نہیں آجائے گا۔ بھارت پاکستان کو 'دہشت گرد' ملک قرار دلوانے کی سرتوڑ سفارتی کوشش کررہا ہے۔ فرض کیجئے امریکہ یا اقوام متحدہ پاکستان کو بھی اس فہرست میں داخل کرلیتے ہیں، تو پاکستان براہِ راست امریکی غنڈہ گردی کا ہدف نہیں بنے گا؟اقوامِ متحدہ درحقیقت امریکہ کی لونڈی کا کردار ادا کررہا ہے۔ وہ اس کے اشاروں پر ہر وقت ناچنے کو تیار رہتا ہے۔ اس قرارداد پر اقوامِ متحدہ نے محض ٹھپہ لگایا ہے، ورنہ یہ درحقیقت امریکی عزائم کو قانون کی شکل دینے کی ناپاک جسارت ہے۔ اقوامِ متحدہ مکمل طور پر ساقط الاعتبار ہے۔ عالم اسلام خلیج کی جنگ میں اس کا کردار ملاحظہ کرچکا ہے۔ لاکھوں معصوم اور بے گناہ عراقی شہریوں کو امریکہ اور اس کے حواریوں نے سمارٹ بموں سے ہلاک کیا تھا تواس کے پس پشت بھی اقوامِ متحدہ کی قراردادیں تھیں۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کوہمیشہ رعونت اور تکبر سے نظر انداز کیا اور ان کی خلاف ورزی کی مگر اقوام متحدہ ایک بے بس لونڈی بنی رہی۔ نوائے وقت نے اس قرارداد پر بے حد ایمان افروز تبصرہ کیا ہے:
" اقوامِ متحدہ ایک عرصہ سے اپنا آزادانہ بین الاقوامی کردار ترک کرکے امریکہ کا ایک ایسا گماشتہ ادارہ بن چکا ہے جس کی ذمہ داری واحد ورلڈ پاور کے ہر جائز و ناجائز اقدام کی توثیق اور ظالمانہ عزائم کی تکمیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر، فلسطین اور دیگر مظلوم اقوام کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کو عمل جامہ پہنچانے اور بھارت اور اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کو روکنے کے لئے اس بین الاقوامی ادارے نے آج تک اپنا کردار نہیں کیا۔ لیکن عراق کے بعد اب افغانستان پر امریکی حملے کے لئے ا س نے نہ صرف ایک گھنٹے میں قرار داد منظو رکر لی ہے بلکہ رکن ممالک کو نوے دن کے اندر دہشت گردوں کے خلاف کئے گئے اقدامات کی تفصیل سے کمیٹی کو آگاہ کرنے کی ہدایت بھی کردی گئی ہے۔ محض امریکہ کے کہنے پر کسی فرد یا گروپ کو دہشت گرد قرار دے کر اس کی مالی اور لاجسٹک سپورٹ کے ذرائع کا قلع قمع کرنا کیسے جائز ہوگا۔"(یکم اکتوبر)
(9) اسلامی اخوت اور پان اسلام ازم ملت ِاسلامیہ کا شروع سے نصب العین رہا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان دیگر مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ تحریک ِخلافت اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ افغانستان کے مسلمانوں سے ہندوستان کے مسلمان ایک گہرے رشتہ اخوت میں اپنے آپ کو بندھے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے افغانیوں کے ساتھ اسی اخوت کا اظہار ان لازوال الفاظ میں کیا تھا :
اُخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں     ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہوجائے!
مگر آج جبکہ امریکہ بدمست ہاتھی کی طرح افغانستان کی سرزمین کو روندنے کوہے، ہماری طرف سے افغان بھائیوں کی امداد کی بجائے امریکہ کے دباؤمیں ان کے خلاف تعاون کرنابلاشبہ ابن الوقتی، خود غرضی اور اسلامی اخوت کے رشتوں کو توڑنے کے مترادف ہوگا۔ وطن عزیز کے مفادات، بقا اور تحفظ کو یقینی بنانا اور اسے اوّلین سمجھنا ہم سب کا فرض ہے، مگر ان اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک ہمسایہ مسلم ملک کے خلاف محاذ آرائی میں تعاون کرنا قطعاً مناسب نہیں ہے۔ اس سے پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان اختلاف کی ایک ایسی خلیج قائم ہوجائے گی، جسے کبھی پاٹا نہیں جاسکے گا۔
۲۷/ ستمبر کو یوم یکجہتی کے دوران پہلی دفعہ "پہلے صرف پاکستان " کے نعرے کو کافی پبلسٹی دی گئی۔ سیکولر طبقہ جو پان اسلام ازم جیسے اعلیٰ تصور کا ہمیشہ مخالف رہا ہے، اسے ایک نادر موقع ہاتھ آگیا۔ پاکستان عالم اسلام سے اٹوٹ انگ رشتوں میں جڑاہوا ہے، یہ طبقہ اسے اسلام سے توڑ کر مغربی تہذیب کے دھارے میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ طالبان کی اسلامی حکومت کے خلاف ان اسلام دشمنوں کو اپنے خبث باطن کے اظہار کا اچھا موقع ہاتھ آگیا۔ ہم جو اب تک "پہلے اسلام اور پھر قوم ووطن کے دوقومی نظریہ" پر فخر کرتے رہے ہیں، معلوم ہوتا ہے ، حکومت پاکستان کی اساس کے اس تصور کو ریورس کرناچاہتی ہے۔ یہ کوئی خوش آئندہ بات نہیں ہے!!
(10) حکومت ِپاکستان نے حال میں ہی چین کی حکومت سے گوادر پورٹ کو ترقی دینے کے لئے اربوں روپے کے منصوبوں کے متعلق معاہدات کئے ہیں۔ ان معاہدات کا ایک مقصد امریکہ کی طرف سے بھارت کی طرف واضح جھکاؤ کے بعد اس پر یہ ظاہر کرنا تھا کہ پاکستان محض امریکہ کا دست نگر نہیں ہے۔ امریکہ نے چین کی بحر ہند کے قریب اس طرح کی موجودگی پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا تھا، مگر پاکستان نے اسے نظر انداز کردیا۔ اب اگر امریکی افواج کو پاکستان میں اڈے مہیا کئے جاتے ہیں، تو یقینا پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکی پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ گوادر کے معاہدات کو منسوخ کردے۔ کیا پاکستان اس دباؤ کا سامنا کر پائے گا؟
جنرل مشرف کی طرف سے بار بار کہا گیا ہے کہ انہوں نے چین کو اعتماد میں لیا ہے اوریہ کہ چین نے ان کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ چین نے اصولی طور پر دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کی جانے والی کاوشوں کو سراہا ہے۔ ورنہ افغانستان پر امریکہ حملہ کی چین کی طرف سے اب تک حمایت نہیں کی گئی۔ یکم اکتوبر کو بھی چین کی طرف سے نمایاں بیان شائع ہوا ہے کہ امریکہ افغانستان پر حملے سے پہلے ٹھوس ثبوت فراہم کرے۔ پاکستان، افغانستان اور چینی سرحدوں کے قریب امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف چین پہلا ملک ہوگا جو احتجاج کرے گا۔ امریکہ اس وقت چین کواپنا مدمقابل سمجھتا ہے اوراس کو حدود میں رکھنے کے لئے بے چین ہے۔ چین کے خلاف امریکی جاسوسی نیٹ ورک ہمیشہ متحرک رہا ہے۔ پاکستان کی علاقائی حدود سے جب چین کے خلاف جاسوسانہ کارروائیاں کی جائیں گی، ایسے میں پاکستان کو مشکل صورتحال کاسامنا کرنا پڑے گا۔
(11) اگر طالبان اسامہ کو امریکہ کے حوالہ کردیں، تب بھی وہ اپنے گھناؤنے عزائم کی تکمیل سے باز نہیں رہیں گے۔ امریکہ نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک اور انہیں پناہ دینے والے ممالک کی سرکوبی کا جارحانہ اعلان کیا ہے۔ طالبان کی حکومت کا خاتمہ امریکہ کااولین ہدف ہے۔ یکم اکتوبر کے اخبارات میں ظاہر شاہ کے ساتھ امریکہ کانگریس کے ارکان کو مذاکرات کرتے دکھایا گیا ہے۔ پاکستان میں امریکی سفیر وینڈی چیمبرلین کا بیان بھی اخبارات میں چھپاہے کہ امریکہ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔اقوامِ متحدہ کے افغان امور کے ڈائریکٹر نے وسیع البنیاد حکومت کی حکمت ِعملی کی وضاحت کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ Six Plus Two یعنی افغانستان اور اس کے چھ پڑوسی ممالک اور امریکہ اور روس کے تعاون سے افغانستان میں نئی حکومت بنے گی۔ شمالی اتحاد کے قائدین امریکہ کو ہر طرح کا تعاون پیش کررہے ہیں۔ ظاہر شاہ اورشمالی اتحاد اہم آپشن ہے جس پر امریکہ کام کرہا ہے۔ پاکستانی حکومت پرامریکہ کی اس حکمت ِعملی کے مضمرات بہت دیر بعد منکشف ہوئے ہیں۔ پاکستان نے ۲۸/ ستمبر کو امریکہ سے احتجاج کیا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ نہ کیاجائے۔ مگر حالات بتاتے ہیں کہ پاکستان کے احتجاج کو امریکہ کوئی وقعت نہیں دے گا۔
برطانوی اخبار' گارجین' نے تو ۲۱/ ستمبر کو ایک سٹوری شائع کی تھی جس کا عنوان تھا:
"Secret memo reveals plan to overthrow Taliban Regime."
ترجمہ: "خفیہ خط جو امریکہ کے طالبان کا تختہ الٹنے کے عزائم ظاہر کرتا ہے۔"
گارجین کی خبر کے مطابق امریکی حکومت اپنی یورپی اتحادیوں پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کا تختہ الٹنے کے لئے ملٹری آپریشن سے اتفاق کریں۔ منصوبہ کے مطابق اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک عارضی حکومت کا قیام ہے، امریکہ نے یورپی حکومت کو ایک خفیہ خط ارسال کیاہے جس میں ان سے رائے طلب کی گئی ہے کہ طالبان کے بعد افغانستان میں کس طرح کی حکومت قائم کی جائے ۔"
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کابل پر ظاہر شاہ یا شمالی اتحاد کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کی مشرقی سرحدیں غیر محفوظ ہوجائیں گی۔ قیام پاکستان کے بعد ظاہر شاہ نے پاکستان کو فوری طور پر تسلیم نہیں کیا تھااور ہمیشہ پاکستان کے لئے سیکورٹی کے مسائل کھڑے کئے۔ احمدشاہ مسعود نے حادثہ/موت سے دو دن پہلے دیئے جانے والے انٹرویو (شائع شدہ : ہفت روزہ ٹائم) میں پاکستان پر شدید تنقید کی تھی۔ وہ ہمیشہ طالبان کو پاکستان کی تخلیق کہتے رہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی فوج طالبان کے شانہ بشانہ شمالی اتحاد کے خلاف لڑتی رہی ہے۔ اگر کابل میں پاکستان مخالف حکومت قائم ہوتی ہے تو پاکستان Strategic depth(تزویراتی گہرائی) سے محروم ہوجائے گا۔ طالبان کی موجودگی میں پاکستان کو پاک افغان سرحد کی فکر نہیں ہے، اس لئے وہ یکسو ہوکر پاک بھارت سرحد پر تمام تر توجہ مرکوز رکھ سکتا ہے۔
یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ طالبان کو پاکستان کے تعاون کے بغیر بھی ہٹا سکتا ہے ؟ ہاں وہ ایسا کرسکتا ہے مگر اس کے لئے اسے زمینی حملہ کرنا پڑے گا۔محض فضائی حملوں سے طالبان کو کابل سے مستقل طور پربے دخل کرنا شاید ممکن نہ ہوگا۔ پاکستان امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ مہیا کرکے زمینی حملہ میں اگر معاونت کرے گا، تو اس سے افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمہ کی راہ ہموار ہوگی اورپاکستان کی سا لمیت کے لئے نئے خطرات پیدا ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا۔
(12) امریکہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی کا بیان شائع ہوا ہے کہ پاکستان کا تعاون ثبوت کی فراہمی کے ساتھ مشروط ہے۔ مگر ادھر افغانستان میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانوں کی تلاش کے لئے کمانڈو آپریشن بھی شروع ہوگیا ہے۔امریکی اخبار 'یوایس اے ٹو ڈے' نے ۲۸/ ستمبر کو رپورٹ شائع کی کہ یہ کمانڈوز ۱۳/ستمبر کو ہی پاکستان پہنچ گئے تھے، جہاں سے وہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں چلے گئے۔ امریکی حکام نے بھی کمانڈوایکشن کی تردید نہیں کی۔ ۱۳/ ستمبر کو اسلام آباد ایئر پورٹ دو گھنٹوں کے لئے بند کردیا گیا تھا۔ حکومت نے وضاحت کی تھی کہ کسی ملک کی طرف سے ائرپورٹ پرحملہ کا خدشہ تھا اور سیکورٹی کے نقطہ نظر سے اسے بند کرنا ضروری تھا۔ ۳۰/ ستمبر کو پاکستان کے وزیر خارجہ نے وضاحت کی کہ پاکستان کی سرزمین پر کوئی غیر ملکی فوجی موجود نہیں ہے۔ کیااس طرح کی بھانت بھانت کی خبریں 'کنفیوژن' پیدا نہیں کررہیں؟
(13) امریکہ سے تعاون کے فیصلہ پر ایک اعتراض یہ بھی وارد کیا جارہا ہے کہ یہ قدم نہایت عجلت میں اٹھایا گیا۔ فیصلہ پہلے کرلیا گیا اور مشاورت کا عمل بعد میں شروع کیا گیا۔ امریکی قیادت میں جنون خیزی، فوری اشتعال اور غم و غصہ کی شدید لہر کے کم ہونے کا انتظار کیا جاتا تو بہت مناسب تھا۔ ۱۶/ ستمبر کو جنرل مشرف نے علماء، مشائخ، صحافیوں اور سیاستدانوں سے مشاورتی ملاقات کی جبکہ ۱۵/ ستمبر کو امریکی صدر جارج بش اور جناب سیکرٹری کولن پاول نے پاکستان کا تعاون ادا کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ شاید اسی بات کی شکایت اے آر ڈی کے سربراہ نے ۱۶/ ستمبر کو آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا :
"ادھر انہیں دعوت نامے جاری کئے گئے اور ادھر امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ نے کہا کہ ان کے مطالبات تسلیم کرلئے گئے ہیں جبکہ پاکستانی قوم کو علم نہیں ہے کہ مطالبات کیا ہیں۔ قوم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔جب سب کچھ طے کرچکے ہیں تو پھر مشورہ کس بات کا؟ " (ایشیا: ۲۶/ ستمبر )
بعض افراد کے خیال میں جنرل مشرف نے آگرہ مذاکرات کے دوران جس طرح مضبوط اعصاب کا مظاہرہ اور قومی امنگوں کی جرأت مندانہ نمائندگی کی تھی، وہ امریکی دباؤ میں اس طرح کی آہنی قوتِ ارادی کا مظاہرہ نہیں کرسکے ہیں۔قاضی حسین احمد نے اپنا ردّعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ جب کھڑے ہونے کی ضرورت پیش آئی، تو مشرف صاحب بیٹھ گئے۔ سعودی عرب اور ایران کی طرف سے امریکی دباؤ کا جس طرح مقابلہ کیا گیا، پاکستان بھی ایسا کرتا تومناسب تھا۔ یکم اکتوبر کی آخری خبر کے مطابق سعودی عرب نے امریکہ کو مسلمانوں پر حملوں کے لئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ایران نے نہ صرف امریکہ سے تعاون کرنے سے انکار کردیا بلکہ ایرانی صدر جناب محمد خاتمی نے بے حد جرأت مندانہ بیان دیا کہ" امریکہ کو ہم سے تعاون مانگے کی جرأت کیسے ہوئی"۔ (جنگ:۲۸/ستمبر)
(14) ایک احساس یہ بھی پایا جاتا ہے کہ حکومت ِپاکستان نے بھارتی شرانگیزی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، بھارت کیا کوئی بھی ملک پاکستان پر حملہ کرتے ہوئے یک بارگی ضرور سوچے گا؟ اگر ہندوستان امریکہ کو اڈے فراہم بھی کردیتا ، بالآخر انہوں نے پاکستان کی فضائی حدود سے گزر کر افغانستان جانا تھا۔ پاکستان اگر اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت نہ دیتا تو ان کے لئے مشکلات پیدا ہوجاتیں۔ امریکہ پر حملوں میں جب پاکستان کا کسی قسم کا ہاتھ نہیں تھا، نہ ہی پاکستان اسامہ بن لادن کی سرپرستی کررہا ہے تو پھر اس قدر مرعوب ہونے یا خوف کھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ پاکستان میں محب ِوطن حلقے یہ بھی محسوس کررہے ہیں کہ پاکستان کو امریکہ کی بلیک میلنگ کے سامنے 'سرنڈر' نہیں کرنا چاہئے تھا۔ امریکہ اگر افغانستان پرحملہ کرنا بھی چاہتا تو افغانستان کے ہمسایہ دیگر ممالک کی زمین استعمال کرسکتا تھا جیسا کہ اب وہ ازبکستان اور تاجکستان میں کر رہے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کی بھرپور مذمت کی ہے، اتنا ہی کافی تھا۔ ا س کے علاوہ پاکستان قطعی طور پر 'نیوٹرل'اور غیر جانبدار رہتا، تویہ بات بے حد مناسب ہوتی۔
امریکہ سپرپاور ضرور ہے مگر دنیا میں اس قدر اندھیر نگری بھی نہیں مچی کہ وہ پاکستان پر بغیر کسی معقول عذر کے حملہ کردیتا۔ اب افغانستان پرممکنہ حملے کے خلاف امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، مشرقِ وسطیٰ، کینڈا، غرض متعدد ممالک میں مظاہرے ہورہے ہیں، حتیٰ کہ امریکہ کی پروردہ این جی اوز بھی No To War کے کتبے اٹھائے جلوس نکال رہی ہیں۔ پاکستان اگر امریکہ کی مخالفت کرتا تو اسے عالمی سطح پر بالخصوص چین اور مسلمان ممالک کی طرف سے اخلاقی حمایت میسر آتی۔ اگر پھر بھی امریکہ پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارادہ ظاہر کرتا تو عالمی سطح پر بہت کم ممالک ا س کی حمایت کرتے۔جنرل مشرف کامعاملہ صدام حسین کا ہے، نہ ملا عمر کا !!
ہندوستان کی شرانگیزی کے لئے وہی الفاظ کافی تھے جو جنرل مشرف نے اپنی تقریر کے دوران استعمال کئے یعنی "Lay Off" خود ہندوستان میں رائے عامہ نے واجپائی حکومت کی جارحانہ کاروائی کی مخالفت کرنا تھی۔ ابھی کل ہی تو بات ہے کہ بھارت علاقے میں امن کا علمبردار بنا ہوا تھا۔ اپنے موقف میں اس قدر جلد تبدیلی خود اس کے لئے مصیبت کا باعث بن جاتی۔ یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ امریکہ میں عسکری قوت تو ہے مگر ا خلاقی طاقت نہیں ہے۔ وہ کسی بھی ملک پر تن تنہا کبھی حملہ نہیں کرے گا۔ جب بھی کرے گا، دیگر ممالک کی 'کولیشن' بنا کر اور اقوامِ متحدہ کی چھتری استعمال کرتے ہوئے ایسا کرے گا۔ برطانیہ کے علاوہ کوئی بھی دوسرا ملک امریکہ کا اندھا مقلد نہیں ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو امریکی کی خفگی کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔
(15) اسلام امن کا علمبردار ہے۔ امریکہ میں ہونے والی ہولناک دہشت گردی تو ایک طرف، اسلام معمولی درجہ کی دہشت گردی کو بھی جائز قرار نہیں دیتا۔ جنرل مشرف کے متعلق خیال یہی ہے کہ وہ سیکولر ذہن کے مالک ہیں۔ مگر ۱۹/ ستمبر کو اپنی تقریر میں انہوں نے اپنے فیصلے کی تائید میں میثاقِ مدینہ، صلح حدیبیہ، رسول اکرم ا کی ہجرتِ مدینہ کے واقعات بیان کئے اور قرآنِ مجید کی چند آیات کا حوالہ دے کر اپنے موقف کو 'حکمت' پر مبنی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وہ اپنی بات کے صحیح ہونے کے لئے قرآن و سنت سے حوالہ دینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ مگر نہایت ادب سے یہ نشاندہی کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جنرل مشرف صاحب نے جس تناظر میں قرآن و سنت کے حوالہ جات پیش کئے، وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے۔ وہ جتنابھی اصرار کریں کہ ان کا فیصلہ عین اسلام کے مطابق ہے، ان کے موقف کی تائید کرنا مشکل ہے۔ امت ِمسلمہ کے علماء و فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف حملے کی صورت میں کسی غیر مسلم ملک کی حمایت کرنا جائز نہیں!!
مندرجہ بالا سطور میں جن تحفظات و خدشات کو بیان کیا گیا ہے ،انہیں جذباتی ردّعمل کہہ کر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ آنے والے چند ہفتوں میں ان کی صداقت، وقعت اور اہمیت یا ان کے بے بنیاد ہونے کے متعلق علم ہوجائے گا۔یہ خدشات بھی قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر پیش کئے جارہے ہیں اورجنرل مشرف صاحب تو واشگاف اعلان کرچکے ہیں کہ وہ قومی مفاد کے منافی کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔ ا بھی ان دونوں آرا کی افادیت کا سٹیٹ ہونا باقی ہے۔ اگر جنرل مشرف افغانستان پر ممکنہ امریکی حملے کو رکوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر ان کے فیصلے کوبلا تامل صائب کیا جائے گا، اگر اس کے برعکس حالات رخ اختیار کرتے ہیں اور افغان عوام ایک دفعہ پھر ہلاکت و بربادی سے دوچار ہوتے ہیں اورپاکستان پر امریکی آسیب بن کر مسلط ہوجاتے ہیں تو پھر تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
جنرل یحییٰ خان نے بھی اپنے لحاظ سے ایک مدبرانہ اورحکیمانہ فیصلہ کیا تھا، مگر بعد کے حالات نے ان کے فیصلہ کو درست ثابت نہیں کیا، تاریخ نے انہیں اب تک معاف کیا ہے، نہ پاکستانی عوام نے۔ اللہ کرے کہ ارضِ پاک ایک دفعہ پھر اس طرح کی آزمائش سے دوچار نہ ہو۔ (آمین!)

٭٭٭٭٭