قبرستان کی مسجد اور غیراللہ کا وسیلہ

٭قبرستان كى مسجد٭قبركے باهر عذابِ قبر٭ غير الله كا وسيلہ پكڑنا
٭خطبہ جمعہ ميں سورة ق ٓ ٭ جھوٹے كى امامت
سوال:كيا اس مسجد ميں نماز پڑهنا اور اِمامت كرانا جائز ہے جس كى قبلہ والى ديوارقبرستان سے ملتى ہے- اسى طرح جنوب مشرق كى طرف مسجد سے ملحقہ ايك دربار ہے جس ميں شرك كيا جاتا ہے- اكثر حاضرين مسجد كا عقيدہ شركيہ ہے نيز مسجد كى قبلہ ديوار ميں دو كهڑكياں ہيں جن كو بوقت ِضرورت كهولا جاتاہے تو سامنے قبريں نظر آتى ہيں- (ناظم دفتر جامعہ اشاعت الاسلام ،عارف والا)
جواب: 1۔ صحيح مسلم ميں حديث ہے كہ رسول اللہ ﷺنے فرمايا: قبروں كى طرف نماز نہ پڑهو نہ ان پر بيٹهو-
2۔رسول اللهﷺ نے فرمايا: تمام زمين مسجد ہے سوائے قبرستان اور حمام كے۔ (رواہ خمسہ اِلا نسائى)
3۔آپ نے فرمايا:كچھ نماز گهروں ميں پڑهو اور ان كو قبريں نہ بناؤ۔ (رواہ الجماعہ اِلا ابن ماجہ)
4۔رسول اللہ ﷺنے آخرى بيمارى ميں فرمايا:
" اللہ يہود و نصارىٰ پر لعنت كرے انہوں نے اپنے انبيا كى قبروں كو مسجديں بناليا" (متفق عليہ)
5۔آپ ﷺ نے فرمايا : "اپنے گهروں كو قبريں نہ بناؤ- بے شك شيطان اس گهر سے بهاگتا جاتا ہے جس ميں سورئہ بقرہ پڑهى جائے"- (مسلم)
پہلى حديث ميں قبروں كى طرف نماز پڑهنے سے منع فرمايا گيا ہے- سوال ميں جس مسجدكا ذكر ہے اس كے سامنے چونكہ كهڑكياں كهلتى ہيں، اس لئے اس ميں نماز پڑهنا قطعاً حرام ہے كيونكہ قبروں كا منظر سامنے ہوتا ہے- اگر كهڑكياں بند ہوں توبهى ٹهيك نہيں كيونكہ كهڑكياں قبروں كى خاطر ركهى گئى ہيں-اور اس سے شبہ پڑتا ہے كہ مسجد قبرستان كا حصہ ہے لہٰذا ايسى مسجد ميں نماز درست نہيں- چوتهى حديث ميں قبروں كو مسجد ميں بنانے پر لعنت كى گئى ہے- اوردوسرى حديث ميں قبرستان ميں نماز سے منع فرمايا ہے-
پهر اس كے اطراف ميں قبروں كا ہونا يہ بهى اس بات كى تائيد ہے كہ يہ مسجد قبرستان كا حصہ ہے- اگر بالفرض مسجد پہلے ہو اور قبريں پيچهے بنى ہوں تو بهى كچھ خلل آگيا- كيونكہ تيسرى اور پانچويں حديث ميں گهروں كو قبريں بنانے سے روكا گياہے اور گهر ميں قبر كى يہى صورت ہوتى ہے كہ گهر كى حدود اور صحن وغيرہ ميں قبر بنا دى جائے، مسجد كے آس پاس قبريں اس قسم سے معلوم ہوتى ہيں-مزيد برآں صورتِ نقشہ سے بهى كراہت كى شكل واضح ہے ،اس لئے ايسى مسجد ميں نماز پڑهنے اور پڑهانے سے احتراز ضرورى ہے-
الكوكب النووى(1/153 )ميں ہے كہ قبروں پربنائى گئى مسجد ميں نماز پڑهنا مكروہ ہے، چاہے قبر سامنے ہو يا پيچهے يا دو جانب سے كسى ايك جانب ميں- البتہ اگر قبر سامنے ہو تو شديد ترين كراہت ہے- فقہاءِ شافعيہ نے كہا قبروں پر مسجديں بنانا اور ان ميں نماز پڑهنا كبيره گناه ہے-(الزواجر :1/12) اور فقہاءِ مالكيہ نے كہا كہ حرام ہے(تفسير قرطبى:1/38)- اور فقہاءِ حنابلہ نے كہا: ايسى مسجدوں ميں نماز پڑهنا حرام بلكہ باطل ہے-تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو ، زادالمعاد :3/22 اور مجموعہ فتاوىٰ :27/140،141
سوال: اگر قبر كسى وجہ سے زمين كے برابر ہوجائے، تو عذاب قبر ختم ہوجاتاہے يا نہيں؟
جواب:بلاشبہ كتاب و سنت كى متعدد نصوص ميں عذابِ قبر كا اثبات برحق ہے- مثلاً امام بخارى رحمہ اللہ نے اپنى صحيح ميں باب ماجاء فى عذاب القبر عنوان قائم كركے قرآنى آيات اور احاديث سے اس مسئلہ پر فقيہانہ انداز ميں استدلال كيا ہے- پهر شارح حافظ ابن حجر رحمہ الله نے اس پرشرح و بسط كا خوب حق ادا كيا ہے- عقل پرست لوگوں كے شكوك و شبہات وارد كركے عقلى اور نقلى دلائل سے خوب ان كا محاكمہ كيا ہے جو لائق مطالعہ ہے- اس كے ضمن ميں وہ فرماتے ہيں:
«وإنما أضيف العذاب إلى القبر لكون معظمه يقع فيه ولكون الغالب على الموتى أن يقبروا، وإلا فالكافر ومن شاء الله تعذيب من العصاة يعذب بعد موته ولو لم يدفن، ولكن ذلك محجوب عن الخلق إلامن شاء الله» (فتح البارى:3/233)
"يعنى عذاب كى اضافت قبر كى طرف اس لئے ہے كہ اكثر و بيشتر عذاب اسى ميں ہوتا ہے اور اس لئے بهى كہ غالبا ً مردوں كو قبروں ميں دفن كيا جاتاہے، ورنہ كافر اور نافرمان جن كو اللہ عذاب ميں مبتلا كرنا چاہتا ہے اگرچہ وہ دفن نہ ہوں، عذاب سے بچ نہيں سكتے ليكن يہ سب مخلوق كى نظروں سے اوجهل ہے، اظہار وہاں ہوتا ہے جہاں اس كى مرضى ہو- "
حقيقت يہ ہے كہ قبر كے ہموار ہونے سے عذابِ قبر ميں كوئى فرق واقع نہيں ہوتا بلكہ اس كا تعلق برزخى زندگى سے ہے- اگرچہ كوئى سمندر ميں غرق ہويا كسى كى راكہ كو ہوا ميں اڑا ديا جائے يا جنگلى درندے كہا پى جائيں، پهر بهى انسان قبر كے محاسبہ سے بچ نہيں سكتا- تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو شرح عقيدئہ طحاويہ اور التذكرة از امام قرطبى رحمہ اللہ -
سوال: كيا خطبہ جمعتہ المبارك ميں سورة 'ق' مكمل يا اس كى كچھ آيات پڑهنا ضرورى ہيں-كيا اس كے بغير خطبہ جمعہ خلافِ سنت ہوگا ؟ صحيح حديث كى روشنى ميں وضاحت فرمائيں؟ صحيح مسلم ميں اُم ہشام بنت حارثہ رضى اللہ عنہ سے روايت ہے «يقرأها كل جمعة على المنبر إذا خطب الناس»... كہ نبى كريم ہر جمعہ جب لوگوں كو خطبہ ديتے تو اس سورة كى تلاوت فرماتے، ا س حديث كا مفہوم كيا ہوگا؟
جواب: اس حديث كے تحت علامہ صنعانى رحمہ اللہ 'سبل السلام ' ميں فرماتے ہيں كہ
"اس ميں اس امر كى دليل ہے كہ ہر جمعہ كے خطبہ ميں سورة ق كى تلاوت كرنا مشروع ہے- علماء نے كہا كہ اس سورةكو اختيار كرنے كا سبب يہ ہے كہ اس ميں بعث، موت، سخت قسم كے مواعظ اور شديد تنبيہات كا بيان ہے- اس سے يہ بهى پتہ چلتا ہے كہ خطبہ ميں قرآن كا كچھ حصہ پڑهنا چاہے اور اس پر اجماع ہے كہ سورة 'ق' مكمل يا ا س كا بعض حصہ خطبہ ميں پڑهنا واجب نہيں" (3/139)
اور آپ ﷺ كا اس سورة كى عادت اپنانا وعظ و نصيحت ميں دل پسند انداز كو اختيار كرنے كى بنا پر ہے- اس ميں اس بات كى بهى دليل ہے كہ وعظ كو بار بار لوٹايا جاسكتا ہے-
لہٰذا اس حديث ميں 'جمعہ' سے مراد وہ جمعے ہيں جن ميں اُمّ ہشام شريك تھيں-(المرعاة:2/310) اس كى تائيد اس سے بهى ہوتى ہے كہ عورت پر ويسے بهى جمعہ فرض نہيں اور ماہوارى كے ايام ميں ركاوٹ كا سبب بن جاتے ہيں-اس لئے وہ تمام جمعوں ميں شركت ہى نہيں كرسكتى-
سوال:كيا جمعتہ المبارك كے دونوں خطبوں كا مساوى ہونا طريق نبوى ہے يا ہمارا موجودہ رواج (پہلا خطبہ طويل اور دوسرا مختصر) سنت ہے- صحيح احاديث سے جواب ديں-
جواب: جمعہ كے دونوں خطبوں ميں برابرى يا كمى بيشى كى كسى حديث ميں تصريح موجود نہيں- ظاہر يہ ہے كہ جس پر خطبہ كا اطلاق ہو وہ كافى ہے، اگرچہ آپس ميں ان كى مساوات نہ ہو- راجح مسلك كے مطابق خطبہ كا اطلاق اللہ كى تعريف اور وعظ و تذكير پر ہوتا ہے- (المرعاة:2/310)
سوال:اگر نماز ميں كسى ركعت كا سجدہ حذف ہوجائے تو سجدئہ سہو كفايت كرسكتا ہے يا نہيں؟ حديث ميں ہے كہ ايك نماز ى كا آخرى ركعت كا سجدہ حذف ہوگياتها تو آپ ﷺ نے اس كو سجدہ كرنے كا حكم ديا اور پهر تشہد مكمل كرنے پر سجدہ سہو كا حكم فرمايا-
اگر مذكوره صورت كے علاوه پہلى يا دوسرى ركعت كا سجدہ حذف ہوجائے اور سلام پھيرنے سے پہلے ياد آجائے تو كيا كرے- ( حافظ محمد حسين،حجرہ شاہ مقيم، اوكاڑہ)
جواب: دو سجدوں ميں اگر ايك سجدہ رہ جائے توجس ركعت ميں سجدہ رہا ہے، وہيں سے نماز شروع كرے- جس كى صورت يہ ہے كہ ايك سجدہ پہلے ہوچكا ہے، ايك اور سجدہ كركے اس كے بعد ركعتيں پڑھ لے پهر اخير ميں التحيات كے بعد سلام سے پہلے يا بعد سجدہ سہواً كرے كيونكہ دونوں سجدے ركن ہيں ايك كے چهوٹنے سے نما زنہيں ہوتى- (فتاوىٰ اہلحديث از محدث روپڑى :2/280)
سوال: ايك شخص نے غير اللہ كا وسيلہ پكڑنے كے جواز كے متعلق دلائل تحرير كركے ديئے جو من وعن پيش خدمت ہيں- ان دلائل كا محققانہ تجزيہ فرماكر مدلل جواب مرحمت فرمائيے-
"واقعہ آدم: طبرانى نے معجم صغير ميں، حاكم، ابونعيم اوربيہقى نے حضرت عمر رضى اللہ عنہ اور حضرت على رضى اللہ عنہ سے روايت كيا ہے- امام قسطلانى نے المواہب ميں، محدث ابن جوزى نے اپنى كتاب 'الوفا باحوال المصطفىٰ' كے پہلے باب ميں انہيں جمع كيا ہے- مولانا اشرف على نے 'نشر الطيب' كى دوسرى فصل كا آغاز انہى احاديث كے بيان سے شروع كيا ہے- حضرت ميسرہ رضى اللہ عنہ سے مروى ہے كہ حضور صلى اللہ عليہ وسلم كا ارشاد ہے «واستشفعا باسمى إليه» آدم و حوا نے اللہ كے حضور صلى اللہ عليہ وسلم ميرے نام كا وسيلہ پيش كيا- (الوفا )
حضرت امام باقر والى حديث (تفسير درمنثور) علامہ ابن تيميہ رحمہ اللہ (فتاوىٰ ابن تيميہ) نزهته الخواطر الغاترنى (ملا على قارى: صفحہ41) اورحضرت غوث اعظم كا يہ قول بهى نقل فرمايا ہے:
"جو كوئى رنج و غم ميں مجہ سے مدد مانگے، اس كا رنج و غم دور ہوگا او رجو سختى كے وقت ميرا نام لے كر مجهے پكارے تو شدت رفع ہوگى اور جو كسى حاجت ميں ربّ كى طرف مجھے وسيلہ بنائے گا، اس كى حاجت پورى ہوگى-" (محمد احسان الحق،نادر آباد ،لاہور كينٹ)
جواب: حضرت آدم عليہ السلام سے خطا سرزد ہوئى اور اللہ تعالىٰ نے انہيں معاف فرمايا- قرآن مجيد اور احاديث ِصحيحہ پر غور كرنے سے بخوبى واضح ہوتا ہے كہ ان كى غلطى استغفار و توبہ كى وجہ سے معاف ہوئى نہ كہ رسول اللہ ﷺ كى ذات كو وسيلہ بنانے سے، قرآن ميں ہے: ﴿فَتَلَقّىٰ ءادَمُ مِن رَ‌بِّهِ كَلِمـٰتٍ فَتابَ عَلَيهِ...٣٧ ﴾... سورة البقرة "حضرت آدم نے اپنے ربّ سے چند كلمات سيكهے تو اللہ نے ان كى توبہ قبول كى " قرآن كريم ميں ايك دوسرے مقام پر ہے كہ آدم عليہ السلام نے اللہ تعالىٰ سے يہ كلمات سيكهے تهے :
﴿رَ‌بَّنا ظَلَمنا أَنفُسَنا وَإِن لَم تَغفِر‌ لَنا وَتَر‌حَمنا لَنَكونَنَّ مِنَ الخـٰسِر‌ينَ ٢٣ ﴾... سورة الاعراف
"ان دونوں نے كہا: اے ہمارے ربّ! ہم نے اپنى جانوں پر ظلم كيا اور تو نے ہم كو نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ كيا تو ہم نقصان اٹهانے والوں ميں ہوں گے-"
اس سے معلوم ہوا كہ آدم و حوا نے اپنى خطا اور گناہ كے اعتراف كو وسيلہ بنا كراللہ تعالىٰ كى جناب ميں توبہ كى - اللہ نے ان كى توبہ قبول فرمائى كيونكہ وہ تواب اور رحيم ہے، يہى قرآن كى شہادت ہے-
مذكورہ بالا روايت كى سند ميں راوى عبدالرحمن بن زيد بن اسلم پر محدثين نے كلام كيا ہے كہ وہ ضعيف ہيں- خود حاكم نے اپنى كتاب الضعفاء ميں ان كو ضعيف قرار ديا ہے - علامہ ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اس پر تعجب كيا ہے كہ حاكم نے اس روايت كو كيسے نقل كرديا اور كتاب المدخل ميں انہوں نے تصريح كى ہے كہ عبدالرحمن اپنے والد موضوع احاديث كى روايت كرتے تهے-
علامہ ابن تيميہ كا بيان ہے كہ عبدالرحمن بن زيد بالاتفاق ضعيف ہے،كثرت سے غلطياں كرتا ہے- امام احمد، ابوزرعہ، ابوحاتم، نسائى اور دارقطنى وغيرہ سب نے اسے ضعيف قرار دياہے- خلاصہٴ كلام يہ ہے كہ اس حديث كے متن مفہوم اور سند ميں سے كوئى بهى اس قابل نہيں كہ اس كا اعتبار كيا جائے او راسے عقيدہ جيسى بنيادى چيز ميں حجت بنايا جائے-
اور شيخ عبدالقادر جيلانى رحمہ اللہ كى طرف منسوب قول كتاب وسنت بلكہ خود ان كى اپنى تعليمات كے منافى ہے- حضرت شاہ ولى اللہ نے البلاغ المبينميں ان كا قصہ نقل كيا ہے كہ انہوں نے اللہ سے بارش كى دعا كى تومينہ برسا اوربادل سے آواز آئى كہ عبدالقادر ميں نے تيرے لئے حرام چيزوں كو حلال كرديا ہے-ليكن تعوذ اور لاحول پڑهنے پر يہ شيطانى دهوكہ زائل ہوگيا او رانہوں نے الله سے بندگى كا اظہار كيا نہ كہ خود مختارى اور رفع ضرر كرنے كا دعوىٰ اور قرآن ميں ہے ﴿أَمَّن يُجيبُ المُضطَرَّ‌ إِذا دَعاهُ وَيَكشِفُ السّوءَ وَيَجعَلُكُم خُلَفاءَ الأَر‌ضِ ۗ أَءِلـٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قَليلًا ما تَذَكَّر‌ونَ ٦٢ ﴾... سورة النمل
"بهلا كون بے قرار كى التجا قبول كرتا ہے، جب وہ اس سے دعا كرتا ہے اوركون اس كى تكليف كو دور كرتا ہے اوركون تمہيں زمين ميں (اگلوں كا) جانشين بناتا ہے ؟(يہ سب كچھ اللہ كرتا ہے) -تو كيا اللہ كے سوا كوئى اور معبود بهى ہے-(ہرگز نہيں مگر) تم بہت كم غور كرتے ہو-"
سوال: كيا كوئى شخص بيت الخلاسے نكل كر بغير وضو اذان دے سكتا ہے- قرآن و سنت سے رہنمائى فرمائيے- كيا رسول صلى اللہ عليہ وسلم يا صحابہ كرام نے بهى ايسا كيا؟ (مياں عبدالحق مقصود)
جواب:حديث ميں ہے : «كان النبى ﷺ يذكر اللہ على كل أحيانه» يعنى "نبى اكرم ﷺ ہر وقت اللہ كا ذكر كرتے تهے يعنى خواہ بے وضو ہوتے ياوضو سے "(مسلم) اور جس حديث ميں ہے كہ اذان باوضو ہونى چاہئے، وہ ضعيف ہے- (اِرواء الغليل :1/240)
سوال: دورانِ ركوع نظر كہاں ركهنى چاہئے؟ (زبير احمد اظہر، گوجرانوالہ)
جواب:نگاہ نيچے مقام سجود پرہونى چاہئے- تفسير ابن كثير (3/316) مستدرك حاكم (2/426) صفة صلاة النبى ﷺ : ص58 از علامہ البانى 
سوال: چار ركعتوں والى نماز كے پہلے تشہد ميں درود شريف پڑهنے كا كيا حكم ہے- بعض لوگ نہ پڑهنے كے قائل ہيں، بعض جواز او ربعض واجب گردانتے ہيں؟
جواب:حديث كے عموم كى بنا پر پہلے تشہد ميں درود پڑهنے كاجواز ہے "قولوا: اللهم صل على محمد ﷺ " (صحيح بخارى: كتاب الدعوات، باب الصلوٰة على النبى ﷺ)
سوال: خالق كائنات كے سوا مخلوق كى قسم اُٹهانا ناجائز ہے تو قرآن جو كہ كلام اللہ اور غير مخلوق ہے تو آيا اس كى قسم اٹهائى جاسكتى ہے؟
جواب: قرآن چونكہ اللہ كى صفت ہے لہٰذا اس كى قسم كهائى جاسكتى ہے (عون المعبود :3/216) ميں ہے :«روى عن بعض الصحابة التحليف على المصحف» يعنى بعض صحابہ سے قرآن كى قسم كهانا مروى ہے-قرآن چونكہ اللہ كى صفت ہے، اس لئے اس كے واسطہ سے اللہ سے التجا كى جاسكتى ہے-
سوال:امام كثرت سے جهوٹ بولتا ہے ، كيااس كے پيچهے نماز ہوجاتى ہے؟
جواب: جهوٹ بولنے والے امام كو تبديل كردينا چاہئے- دارقطنى ميں حديث ہے كہ امام بہتر لوگوں كو بناياكرو اور اگر مقتدى اس كى تبديلى پر قادر نہ ہوں تو اس كى اقتدا ميں نماز تو ہوجائے گى ليكن پسنديدہ عمل نہيں- صحيح بخارى باب إمامة المفتون كے تحت حضرت عثمان رضى اللہ عنہ كا قول ہے:«الصلاة أحسن ما يعمل الناس فإذا أحسن الناس فأحسن معهم وإذا أساء وا فاجتنب اساء تهم» يعنى "نماز بہترين كام ہے جو لوگ كرتے ہيں- جب لوگ اچها كام كريں تو توبهى ان كے ساتھ اچهائى كر اور جب برا كريں تو ان كى برائى سے بچ"- اس پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لكهتے ہيں «وفيه أن الصلاة خلف من تكره الصلاة خلفه أولى من تعطيل الجماعة » (فتح البارى :2/190)
"اس روايت ميں يہ مسئلہ ہے كہ جس كى اقتدا ميں نماز پڑهنامكروہ ہو، جماعت ترك كرنے سے بہتر ہے كہ اس كى امامت ميں نماز پڑھ لى جائے-"
سوال:وِرد كا اسلام ميں كيا تصور ہے؟ اور كسى آيت كا ورد كرنا مقصود ہو تو كيا طريقہ ہے؟
جواب: ورد وظائف كرنے كى كتاب و سنت ميں ترغيب وارد ہے- بعض كے لئے اوقات كا تعين ہے اور بعض كو علىٰ الاطلاق چهوڑا گيا ہے- اسى طرح بعض اذكار ميں گنتى كا تعين ہے ، جبكہ بعض ميں گنتى كى تصريح نہيں، احاديث ميں جس انداز سے وظائف وارد ہوئے ہيں، اس طرح ہونے چاہئيں، اپنى طرف سے كمى بيشى كى اجازت نہيں-
سوال: ميرى عمر پچيس سال ہے- اب ميں نے نماز باقاعدہ پڑهنا شروع كردى ہے- اس سے پہلے نماز نہيں پڑهى- كيا اب پہلى نمازوں كے ادا كرنے كا كوئى طريقہ ہے؟
جواب: زندگى كے گزرے حصہ كى ترك شدہ نماز وں كى قضا كى ضرورت نہيں- صرف توبہ استغفار كرنا ہى كافى ہے- قرآن ميں ہے: ﴿قُل لِلَّذينَ كَفَر‌وا إِن يَنتَهوا يُغفَر‌ لَهُم ما قَد سَلَفَ...٣٨ ﴾... سورة الانفال "(اے نبى) كفار سے كہہ دو كہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائيں تو جو ہوچكا وہ انہيں معاف كرديا جائے گا" اور دوسرى جگہ فرمايا: ﴿وَإِنّى لَغَفّارٌ‌ لِمَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ صـٰلِحًا ثُمَّ اهتَدىٰ ٨٢ ﴾... سورة طه "اور جو توبہ كرے اور ايمان لائے اور عمل نيك كرے پهرسيدهے رستے چلے،ميں اس كو بخش دينے والاہوں"- شريعت ميں قضاءِ عمرى كا كوئى ثبوت نہيں حديث ميں ہے «التوبة تجب ماكان قبلها» نيز فرمايا: «التائب من الذنب كمن لا ذنب له» (ابن ماجہ: حديث نمبر4250)

٭٭٭٭٭