بہ امر ضرورت كهڑے ہوكر كهانے پينے كا مسئلہ

اس شمارے ميں دو مضامين شائع كيے جارہے ہيں جن ميں كهڑے ہوكر كهانے پينے اور كهڑے ہوكر پیشاب كرنے كى اجازت كو پيش كيا گيا ہے اور ان سلسلے ميں اجازت پر مبنى تمام احاديث كو يہاں ذكر كيا گيا ہے ليكن ان احاديث كا مدعا اس سے زيادہ نہيں كہ يہ بتايا جائے كہ كهڑے ہوكر كهانا پينا يا پیشاب كرنا مطلقاً حرام نہيں ہيں بلكہ ضرورت كے پيش نظر شریعت سے ايسا كرنے كا جواز مل سكتا ہے-اِس سے يہ مفہوم اخذ كرنا كہ اسلام ميں دونوں صورتيں يكساں حكم ركھتى ہيں، درست نہيں جس پر فقہا كے متعدد اقوال، اسلامى معاشروں كى ہميشہ سے چلى آنے والى روايات اور خود دورِ خير القرون ميں صحابہ كے درميان پايا جانے والا تصور واضح دليل ہے كہ وہ بهى ايسا كرنے والے كو عجيب اور اجنبى سمجھا كرتے- پهر محدثين نے ’عادل‘ شخص كى وضاحت كرتے ہوئے ان دونوں عادات كا بهى ذكر كيا ہے كہ ايسے كام خلافِ مروت تصور كيے جائيں گے- اس كى و جہ نبى كريم ﷺ كے وہ واضح فرامين ہيں جوصحيح احاديث ميں ملتے ہيں كہ آپ نے كهڑے ہوكر كهانے پينے سے روكا ہے- حتىٰ كہ نبى كريم ﷺ نے ايسا كرنے والے كو ڈانٹا اور بهول كر ايسا كرنے والے كو قے كرنے كا حكم ديا- البتہ ماء ِزمزم كى يہ خصوصیت ہے كہ اسے كهڑے ہوكر پيا جاسكتا ہے- يہ تمام احكام صحيح مسلم كى احاديث نمبر 5242 تا 5252 ميں دیكھے جا سكتے ہيں- نبى كريم كى ڈانٹ اور قے كرنے كا صحيح حكم اپنے مدعا ميں واضح ہے-
يہى صورتحال كهڑے ہوكر پيشاب كرنے كے بارے ميں بهى ہے- اس سلسلے ميں نبى كريم كے بارے ميں حضرت عائشہ كى حديث اور صحابہ كرام كے عمل پر مبنى دو صحيح احاديث واضح دليل ہيں جيساكہ دوسرے مضمون كے آخر ميں ان كو ذكر كيا گياہے، البتہ ديگر احاديث سے بامر ضرورت كهڑے ہوكر پيشاب كرنے كے جواز كا پہلو نكلتا ہے ليكن ان روايات كى بنياد پر اس عمل كو عادت بنانا اور بیٹھ كر پيشاب كرنے كى طرح يكساں حيثيت دينا درست نہيں ہے- بلكہ ترجيح اور اصل حيثيت پہلى صورت كو ہى حاصل رہے گى اور ان كى گنجائش بہ امر ضرورت ہى نكالى جاسكتى ہے۔
يوں بهى يہ دونوں كام غيرمسلموں كى گہرى مشابہت كا پہلو بهى ركهتے ہيں، نيز طبى نقطہ نظر سے بهى ان كى حمايت نہيں ملتى، چنانچہ اصل اور شریعت كے قريب طریقہ وہى ہے جس پر اسلامى معاشرہ عمل پيرا ہے- البتہ دوسرے طريقے كو علىٰ الاطلاق حرام قرار نہيں ديا جاسكتا۔ (ح م)

 

……………………………………


ايك دفعہ چند عرب مشائخ كى معيت ميں بهكر كى ايك مسجد ميں جانے كااتفاق ہوا- ہم مغرب كى اذان سے تهوڑى ہى دير قبل وہاں پہنچے- عرب مشايخ تحية المسجدكا بہت زيادہ التزام كرتے ہيں- چونكہ مغرب كى اذان ہونے والى تهى- ايك صاحب نے كهڑے ہوكر نماز كا انتظار كيا- اس دوران اُنہيں پانى پينے كى ضرورت محسوس ہوئى تو انہوں نے كهڑے كهڑے پانى نوش كرليا- وہاں ايك نوجوان موجود تهے جن كى نيكى اور علم دوستى پر كوئى شبہ نہيں كيا جاسكتا- وہ كتب ِحديث كے اُردو تراجم كا مطالعہ كرتے رہتے ہيں- اُنہوں نے ديكها تو برداشت نہ كرسكے اور آداب ِ محفل اور آداب ِ ميزبانى كو پس پشت ڈال كر ناشائستہ انداز ميں بحث شروع كردى- اُنہيں سمجھايا گيا كہ واقعى كهانے پينے كے آداب ميں يہ بات شامل ہے كہ بیٹھ كر كهانا پينا چاہئے- تاہم اگر كبهى كبھار آدمى كهڑے ہوكر كها يا پى لے تو اس كى گنجائش ہے- مگر وہ نوجوان اپنى بات پر مصر رہے بلكہ انہوں نے نازيبا انداز سے مجادلہ شروع كرديا- چند ايك اور مواقع پر بهى اس قسم كى صورت ِ حال پيش آئى تو مناسب معلوم ہوا كہ اس موضوع پر حاصل مطالعہ كو مرتب كرديا جائے تاكہ اس كا افادئہ عام ہو-

اصل موضوع كو شروع كرنے سے پہلے يہ وضاحت كردينا مناسب ہے كہ راقم الحرو ف نے كبهى كهڑے ہوكر كهانے پينے كى حوصلہ افزائى نہيں كى- البتہ اس بارے ميں اس كا موقف يہ ہے كہ آنحضرت ﷺ نے كهڑے ہوكر كهانے پينے سے واقعى منع فرمايا ہے۔البتہ آپ نے اور بعض صحابہ كرام نے بسا اوقات كهڑے ہوكر كهايا اور پيا ہے۔ اس لئے كسى ضرورت يا مجبورى كے تحت كهڑے ہوكر كهانے پينے كى گنجائش ہے، جيسا كہ آنحضرت ﷺ نے كهڑے ہوكر پیشاب كرنے سے منع فرمايا ہے، اس كے باوجود كتب ِحديث ميں بيان ہے كہ ايك بار آپ نے كهڑے ہوكر پيشاب كيا تها- علماء حديث نے اس كى شرح ميں صراحت كى ہے كہ آپ كا يہ عمل بيانِ جوازكے لئے تها اور بعض كا خيال ہے كہ آپ نے اس مقام كى نجاست كى بنا پر كهڑے ہوكر پیشاب كيا تها يا آپ كے گهٹنوں ميں درد تها جس كى وجہ سے آپ كے لئے بیٹھنا ممكن نہ تها- بہرحال و جہ كچھ بهى ہو، ممانعت كے حكم كے باوجود آپ نے يہ عمل كركے واضح كرديا كہ اگر كبهى بہ امر ضرورت كهڑے ہوكر پيشاب كرليا جائے تو اس كى گنجائش ہے۔

يہى صورت كهانے پينے كى ہے كہ كهڑے ہوكر كهانے پينے كو عادت بنا لينا خلاف ِ سنت اور غير مستحسن ہے- تاہم كسى ضرورت كے تحت كبهى اگر كهڑے ہوكر كچھ كها پى ليا جائے تو اس كى گنجائش ہے- يہ بهى ياد رہے كہ جن احاديث ميں كهڑے ہوكر كهانے پينے سے منع كيا گيا ہے، ان ميں يہ حكم تحريم كے لئے نہيں بلكہ محض تنزيہ (كراہت)كے طور پر ہے۔

(1)عن أم الفضل بنت الحارث أن ناسًا اختلفوا عندها يوم عرفة في صوم النبيﷺ فقال بعضهم: هو صائم وقال بعضهم ليس بصائم فأرسلتُ إليه بقدح وهو واقف على بعيره فَشَرِبَه1
اُمّ الفضل دختر حارث كا بيان ہے كہ عرفہ كے دن ان كے ہاں لوگوں ميں نبى ﷺ كے روزہ كى بابت اختلاف ہوگيا- بعض نے كہا كہ آپ نے روزہ ركها ہوا ہے اور بعض نے كہا كہ آپ روزہ سے نہيں تو ميں نے آپ كى خدمت ميں ايك پيالہ بهجوايا، آپ اس وقت اپنے اونٹ پر كهڑے تهے- چنانچہ آپ نے وہ پى ليا-“

(2) عن أنس بن مالك أن النبي ﷺ دخل على أم سليم وفي البيت قربةٌ معلقةٌ فشرِب مِنْ فِيْهَا وهوقائمٌ قال فقطعت أمُّ سليم فَمَ القِرْبَةِ فهو عندنا 2
انس بن مالك كا بيان ہے كہ نبى ﷺ اُمّ سليم  كے ہاں تشريف لے گئے- ان كے گهر ميں ايك مشكیزہ لٹكا ہوا تها- آپ نے كهڑے كهڑے اس مشكيزہ كے منہ سے پانى نوش كيا- انس كہتے ہيں كہ اُمّ سليم نے مشكيزے كا منہ كاٹ كر بطورِ تبرك اپنے پاس ركھ ليا- وہ ہمارے ہاں موجود ہے۔“

(3)عن عائشة قالت شرب رسول الله ﷺ قائمًا وقاعدًا ومشىٰ حافيًا وناعلًا وانصرف عن يمينه و شماله 3
اُمّ الموٴمنين سيدہ عائشہ كا بيان ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے كهڑے ہوكربهى پيا اور بیٹھ كر بهى- آپ ننگے پاوٴں بهى چلے اور جوتا پہن كر بهى- اور نماز سے فارغ ہوكر مقتديوں كى طرف كبهى دائيں طرف سے مڑتے اور كبهى بائيں جانب سے-“

(4) عن مسلم سأل أباهريرة عن الشرب قائما قال يا ابن أخي رأيت رسول الله ﷺ عَقَلَ رَاحِلَتَه وهي مُنَاخَةٌ وأنا آخذ بخطامها أو زمامها واضعًا رجلي على يدها فجاء نَفَرٌ من قريش فقاموا حوله فأتٰى رسول الله ﷺ بإناءٍ مّن لبن فشرب وهو على راحلته ثم ناول الذي يليه عن يمينه فشرب قائمًا حتى شَرِبَ القومُ كلُّهم قيامًا 4
مسلم كا بيان ہے كہ اُنہوں نے ابوہريرہ سے بحالت ِقيام پينے كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے (ابوہريرہ) نے فرمايا، بھتیجے! ميں نے رسول الله ﷺ كو ديكها كہ آپ نے اپنى سوارى كى ٹانگ كو رسى سے باندها- وہ بیٹھى ہوئى تهى اور ميں اس كے ايك ہاتھ ( اگلى ٹانگ) پر اپنا پاوٴں ركهے اس كى مہار پكڑے ہوئے تها- اسى دوران كچھ قريشى لوگ آگئے اور آپ كے ارد گرد كهڑے ہوگئے- رسول اللہ ﷺ سوارى كے اوپر ہى تشريف فرما تهے- اسى دوران آپ كى خدمت ميں دودہ كا ايك برتن پيش كيا گيا- آپ نے دودہ نوش فرمايا اور اس كے بعد اپنى دا ہنى جانب كهڑے ايك آدمى كو ديا- اس آدمى نے كهڑے كهڑے دودہ پيا- يہاں تك كہ سب لوگوں نے كهڑے كهڑے دودہ پيا۔“

(5) عن النزال قال أُتِيَ عليٌّ رضي الله عنه علىٰ باب الرحبة بِمَاءٍ فشرِبَ قائمًا فقال: إنَّ ناسًا يكرَه أحدُهم أن يَشْرَبَ وهو قائمٌ وإني رأيتُ النَّبِيَّ ﷺ فَعَلَ كما رأيتُمُوني فعلتُ 5
نزال كا بيان ہے كہ باب الرحبہ كے قريب سيدنا على كى خدمت ميں پانى پيش كيا گيا تو اُنہوں نے كهڑے كهڑے پى ليا- ساتھ ہى فرمايا كہ كچھ لوگ بحالت ِقيام نوش كرنے كو پسند نہيں كرتے، حالانكہ ميں نے ديكهاكہ اللہ كے رسول ﷺ نے اسى طرح كيا تها جيسا كہ تم نے مجهے كرتے ديكها۔“

(6) عن زاذان وميسرة أنَّ عليَّ بْنَ أبي طالب شَرِبَ قائمًا فنظر الناس إليه كأنهم أنكروه فقال ماتنظرون أن أشرب قائمًا فقد رأيت النبيﷺ يشرب قائمًا،وإن أشرب قاعدًا فقد رأيت النبيﷺ يشرب قاعدًا
زاذان اور ميسرہ كابيان ہے كہ سيدنا على بن ابو طالب نے بحالت ِقيام پانى نوش فرمايا، لوگوں نے عجيب نظروں سے اُن كى طرف ديكها تو اُنہوں نے فرمايا: كيا دیكھتے ہو؟ ميں اگر كهڑے ہو كر پيوں تو درست ہے،كيونكہ ميں نے نبى ﷺ كو بحالت ِقيام نوش فرماتے ديكها ہے اور اگر ميں بیٹھ كر نوش كروں تو يہ بهى جائز ہے كيونكہ ميں نے نبى ﷺ كوبیٹھے ہوئے بهى نوش فرماتے ديكها ہے-“6

(7) عن عيسىٰ بن عبدالله بن أُنَيْس عن أبيه قال رأيتُ النبيَّ ﷺ قَامَ إلى قِربةٍ معلّقةٍ فَخَنَثَهَا ثم شَرِبَ مِنْ فِيْهَا 7
عبداللہ بن اُنيس كا بيان ہے كہ ميں نے ديكها كہ نبى ﷺ ايك لٹكتے مشكيزے كى طرف اُٹهے اور اس كے منہ كواُلٹ كر اس سے منہ لگا كر پانى نوش فرمايا۔“

(8)عن كبشة قالت دخل عَلَىَّ رسول الله ﷺ فشرب مِن في قربة معلَّقة قائمًا فقمت إلى فيها فقطعته 8
”كبشہ كا بيان ہے كہ رسول اللہ ﷺ ميرے ہاں تشريف لائے، ايك مشكيزہ لٹكا ہوا تها- آپ نے بحالت ِقيام اس كے منہ سے پانى نوش فرمايا تو ميں نے اس مشكيزہ كامنہ كاٹ كر بطورِ تبرك ركھ ليا-“9

اس حديث كو امام نووى نے رياض الصالحين (ص339) ميں بيان كيا اور اس كى شرح ميں لكھا ہے كہ هذا الحديث محمول على بيان الجواز كہ يہ حديث اس بات پر محمول ہے كہ اس ميں كهڑے ہوكر پينے كاجواز بيان ہوا ہے- بلكہ مزيد برآں امام نووى نے اس حديث اور اس باب كى ديگر احاديث ذكر كرنے سے پہلے جو تبويب كى ہے، وہ انتہائى واضح ہے۔وہ رقم طراز ہيں: باب كراهة الشرب من فم القِرْبة ونحوها وبيان أنه كراهة تنزيه لا تحريم
” مشكيزہ يا اس قسم كى كسى چيز كومنہ لگا كر پانى پانا مكروہ ہے، تاہم حرام نہيں۔“

امام نووى نے اس سے آگے نيا باب بايں الفاظ قائم كيا ہے: باب بيان جواز الشرب قائمًا و بيان أن الأكمل والأفضل الشرب قاعدًا
كہ ”كهڑے كهڑے پانى پينے كاجواز اور بیٹھ كر پينے كے افضل ہونے كا بيان“

نيز امام نووى صحيح مسلم كى شرح ميں ايك حديث كى شرح ميں رقم طراز ہيں :
فهذا الحديث يدل على أن النهي ليس للتحريم
”اس حديث سے معلوم ہوا كہ كهڑے ہوكر پينے كى نہى بيانِ حرمت كے لئے نہيں۔“

(9)عن عائشة بنت سعد بن أبي وقاص عن أبيها أن النبيﷺ كان يشرب قائمًا 10
سعد بن ابى وقاص  كا بيان ہے كہ نبى كهڑے ہو كر بهى پانى وغيرہ نوش فرما ليا كرتے تهے۔“

(10) عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال رأيت رسول اللهﷺ ينفتل عن يمينه وعن شماله ورأيته صلّٰى حافيًا ومنتعلًا ورأيته يَشْرَبُ قائمًا وقاعدًا 11
عمرو بن شعيب اپنے والد سے اور وہ ان كے دادا سے بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول اللہ ﷺ كو ديكها، آپ نماز سے فارغ ہوكر كبهى دا ہنى جانب سے مڑتے اور كبهى بائيں جانب سے- اور ميں نے آپ كوجوتے پہن كر نما زپڑهتے بهى ديكها ہے اور جوتے اُتار كر بهى- نيز ميں نے آپ كوكهڑے ہوكر نوش فرماتے بهى ديكها ہے اور بیٹھ كر بهى ۔“

(11) عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال رأيت رسول اللهﷺ يشرب قائمًا وقاعدًا 12
عمر وبن شعيب اپنے والد سے اور وہ ان كے دادا سے بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ديكها كہ اللہ كے رسول ﷺ كهڑے ہوكر بهى پى ليتے تهے اور بیٹھ كر بهى -“

صحابہ كرام كا عمل
مذكورہ بالا تمام احاديث ميں رسول ﷺ كى فعلى اور تقريرى احاديث سے معلوم ہوا كہ كبھى كبھاربامر ضرورت كهڑے ہوكر پى لينے كى اجازت اور گنجائش ہے- آئيے صحابہ كرام  كا عمل بهى ديكھ ليں :
(1)عن أبي جعفر القاري أنه قال رأيت عبد الله بن عمر ليشرب قائما13
”ابوجعفر القارى كا بيان ہے، ميں نے عبداللہ بن عمر كو كهڑے ہوئے پانى پيتے ديكها-“

(2)عن ابن عمر قال كنا نأكل على عهد رسول ﷺ ونحن نمشي ونشرب ونحن قيام 14
”ابن عمر كا بيان ہے كہ ہم رسول اللہ ﷺ كے عہد ِمبارك ميں چلتے پهرتے كها پى ليتے اور كهڑے كهڑے پى ليا كرتے تهے-“

(3)عن ابن عمر قال كنا نأكل ونحن نمشي ونشرب قيامًا على عهد رسول الله ﷺ 15
”ابن عمر كا بيان ہے كہ ہم رسول اللہ ﷺ كے عہد ِمبارك ميں چلتے پهرتے كها ليا كرتے اور كهڑے كهڑے پى لياكرتے تهے-“

(4) عن ابن عمر قال كنا على عهد رسول اللهﷺ نشرب قيامًا ونأكل ونحن نسعى 16
”ابن عمر كا بيان ہے كہ ہم رسول اللہ ﷺ كے عہد ِمبارك ميں كهڑے كهڑے پانى پى ليتے اور چلتے چلتے يا دوڑتے دوڑتے كها ليا كرتے تهے-“

(5)عن ابن شهاب أن عائشة اُمّ المومنين وسعد بن أبي وقاص كانا لَايَرَيَانِ يشرب الإنسان وهو قائم بأسًا 17
”ابن شہاب كابيان ہے كہ اُمّ المومنين سيدہ عائشہ اور سعد بن ابى وقاص كهڑے كهڑے پانى پينے ميں كچھ حرج نہيں سمجهتے تهے-“

(6) عن عامر بن عبد الله بن الزبير عن أبيه أنه كان يشرب قائمًا
”عبداللہ بن زبير كهڑے كهڑے پانى وغيرہ پى ليا كرتے تهے-“ 18

مرفوع صحيح احاديث اور تعامل صحابہ كے ہوتے ہوئے مزيد تائيدى بيان كى قطعاً ضرورت باقى نہيں رہتى- پهر بهى قارئين كى تسلى كے لئے وضاحت كى جاتى ہے كہ كهڑے ہوكر كهانے پينے سے منع كى احاديث اور جواز كى احاديث كو جمع كرنے سے يہى ثابت ہوتا ہے كہ كهڑے ہوكر كهانا پينا علىٰ الاطلاق حرام نہيں- تمام فقہاء ِمحدثين نے ان احاديث سے يہى سمجھا ہے، جيسا كہ ہم حديث نمبر 8 كے ضمن ميں امام مسلم  كى كچھ عبارت ذكر كر آئے ہيں-

نيز فتح البارى 10/82 پر حافظ ابن حجر نے امام مازرى سے نقل كيا ہے، وہ فرماتے ہيں :
اختلف الناس في هذا فذهب الجمهور إلى الجوازه ”اس مسئلہ ميں لوگوں كا اختلاف ہے، البتہ جمہور كے نزديك كهڑے كهڑے كهانا پينا جائز ہے۔“

حافظ ابن حجر مزيد رقم طراز ہيں:
ولا خلاف في جواز الأكل قائمًا والذى يظهر لي أن أحاديث شربه قائمًا تدل على الجواز وأحاديث النهي تحمل على الاستحباب والحث على ماهو أولىٰ وأكمل 19
” كهڑے كهڑے كهانے كے جواز ميں كوئى اختلاف نہيں-تمام احاديث كا مطالعہ كرنے كے بعد مجهے تو يہ سمجھ آئى ہے كہ جن احاديث ميں آنحضرت ﷺ كے كهڑے ہوكر پينے كا ذكر ہے، وہ احاديث بحالت ِقيام پانى وغيرہ نوش كرنے كے جواز پر دلالت كرتى ہيں اور جن احاديث ميں كهڑے ہوكر كهانے پينے سے منع كيا گيا ہے ان كا تعلق محض استحباب سے ہے اور ان ميں محض ترغیب ہے كہ بیٹھ كركهانا پينا چاہئے۔“

امام قسطلانى  رقم طراز ہيں: واستدل بهذه الأحاديث على جواز الشرب قائمًا وهو مذهب الجمهور20
”ان احاديث سے كهڑے ہوكر پينے كے جواز كا استدلال كيا گيا ہے- جمہورعلماے اُمت كا بهى يہى موقف ہے۔“

اب ہم آخر ميں حافظ صلاح الدين يوسف كا توضيحى اقتباس پيش كركے اس بحث كو سمیٹتے ہيں
”فوائد: ابتدا ميں ذكر كردہ احاديث سے اگرچہ كهڑے كهڑے پانى پينے اور كهانے كا جواز ملتا ہے- ليكن ان پر عمل صرف بوقت ِضرورت (يا مجبورى) ہى كيا جاسكتا ہے، ورنہ اصل مسئلہ يہى ہے كہ جہاں تك ممكن ہو، بیٹھ كر ہى كهايا پيا جائے، يہى افضل عمل ہے- آج دعوتوں ميں كهڑے كهڑے كهانے كا رواج عام ہوگيا ہے-لوگ كہتے ہيں كہ اس ميں سہولت يہ ہے كہ بيك وقت سارے لوگ فارغ ہوجاتے ہيں- ليكن دوسرى طرف اس كى قباحتوں كو جو اس ايك سہولت كے مقابلے ميں بہت زيادہ ہيں، نہيں ديكهتے- اس ميں ايك تو مغرب كى نقالى ہے جو كہ حرام ہے- دوسرے، نبى كريم ﷺ نے كهڑے ہوكر كهانے پينے سے سختى سے منع فرمايا ہے- تيسرے، اس ميں جو بهگدڑ مچتى ہے وہ كسى باوقار اور شريف قوم كے شايانِ شان نہيں- چوتهے، اس ميں ڈهور ڈنگروں كے ساتھ مشابہت ہے- گويا اشرف المخلوقات انسانوں كو ڈهور ڈنگروں كى طرح چارہ ڈال كر كهول ديا جاتا ہے- پهر جو طوفانِ بدتميزى برپا ہوتا ہے اس پر جانور بهى شايد شرما جاتے ہوں- پانچويں، انسان نما جانوروں كو باڑے يا اصطبل ميں جمع كرنے كے لئے وقت پر آنے والوں كو نہايت اذيت ناك انتظار كى زحمت ميں مبتلا ركها جاتا ہے جس سے ان كا قیمتى وقت بهى ضائع ہوتا ہے اور انتظار كى شديد مشقت بهى برداشت كرنى پڑتى ہے- ششم، اس انتظار كى گهڑيوں ميں يا تو فلمى ريكارڈنگ سننے پر انسان مجبور ہوتا ہے يا بهانڈ ميراثيوں كى جگتیں يا ميوزك كى دھنیں سننے پر- ہفتم، يہ كہ اس طرح كهانا بهى بہت ضائع ہوتا ہے- بہرحال دعوتوں ميں كهڑے كهڑے كهانے كا رواج يكسر غلط ہے اور مذكورہ سارے كام بهى شيطانى ہيں- اس لئے دعوتوں كا يہ انداز بالكل ناجائز اور حرام ہے، اس كے جواز كى كوئى گنجائش نہيں ہے-“


 حوالہ جات
1. صحيح بخارى: كتاب الحج، حديث:1661، كتاب الصوم، حديث:1988، كتاب الاشربہ، حديث:5618
2. سنن دارمي:كتاب الأشربة، باب في الشرب قائما، حديث:2130 اور شمائل ترمذى، باب ماجاء في صفة شرب رسول الله ﷺ اور مسنداحمد:3/119، 6/376،431
3. مسنداحمد:6/87
4. احمد:2/260
5. صحيح بخارى: كتاب الأشربة، باب الشرب قائما، حديث: 5615 و شمائل ترمذى
6. مسنداحمد:1/101، 134، 114، 136
7.   جامع ترمذى مع تحفة الأحوذي:3/114، باب ماجاء في اختناث الأسقية
8.   جامع ترمذى مع تحفہ :3/114، باب ماجاء في اختناث الأسقية،سنن ابن ما جه: كتاب الأشربة، باب الشرب قائمًا، حديث: 3423، مسنداحمد:6/434، شمائل ترمذى: باب ماجاء صفة شرب رسول الله
9.    موارد الظمان إلى زوائد ابن حبان: ص333، حديث:1372، كتاب الأشربة
10.  شمائل ترمذى: باب ماجاء في صفة شرب رسول الله
11.  مسنداحمد:2/174، 178،179،190، 206،215، شمائل ترمذي: باب ماجاء في شرب رسول الله ﷺ
12.  جامع ترمذى مع تحفہ:3/112
13.  موطأ إمام مالك، باب ماجاء في شرب الرجل وهو قائم
14.  جامع ترمذى: ابواب الأشربة، سنن ابن ما جہ: كتاب الأطعمة حديث:3301، سنن دارمى:كتاب الأشربة، باب في الشرب قائما، حديث:2131
15.  موارد الظمان الى زوائد ابن حبان: ص333،كتاب الاشربہ: حديث: 1369
16. مسندطيالسى(مبوب) :1/333، باب ماجاء فى الشرب قائمًا
17. موٴطا امام مالك، باب ماجاء في شرب الرجل وهو قائم
18.  موطا ٴمالك: باب ايضاً
19.  فتح البارى : 10/83
20.  ارشاد السارى:8/329