روشن خيال پاكستان؟
فرسودہ خيالات اور دقيانوسى روايات كى دورِ جديد ميں قطعى كوئى گنجائش نہيں-عرصہ دراز ميں زمانہ ترقى كى منزليں طے كرتا ہوا اس مقام پر پہنچ گيا ہے كہ ماضى سے اس كا رشتہ كٹ چكا ہے- سائنس، ٹيكنالوجى اور معاشى ترقى كى تيز رفتار دوڑ ميں مذہب زمانہ كا ساتھ نہيں دے سكتا- چادر، چارديوارى، حجاب، اسكارف اور داڑهى ملا كا دين اور پسماندگى كى نشانى ہے- تلوار اور آتشيں اسلحہ سے جنگ اور جہاد كا دور ختم ہوچكا، اب اس كى بجائے ڈپلوميسى سے كام ليا جاتا ہے- بدكارى، ڈكيتى وغيرہ كے خلاف اسلامى حدود كا ازسرنوجائزہ لے كر نئے اجتہاد كے دروازے كهولنا پڑيں گے- چوروں كے ہاتھ كاٹ كر قوم كو ٹنڈا نہيں كيا جاسكتا…!
يہ افكار، يہ پاليسى اور فرمان يورپ يا امريكہ كے ترقى يافتہ ماڈرن ملك كے صدر كے نہيں،بلكہ اسلاميہ جمہوريہ پاكستان كے صدر كے ہيں-امريكہ ميں تو نيوكنزرويٹو (نئى قدامت پرست عيسائى) گورنمنٹ دوبارہ برسراقتدار آئى ہے اور وہاں دين مسيح كى تجديد ہورہى ہے اور كروسيڈ كے نام پر اسلامى ملكوں كے خلاف صلیبى جنگ جارى ہے- دوسرى طرف روشن خيالى اور ماڈرن ازم كى بگ ٹٹ دوڑ ميں اسلامى جمہوريہ پاكستان كى موجودہ حكومت اور اس كے سربراہ يورپ اور امريكہ كوبهى پیچھے چهوڑ گئے ہيں- ان ملكوں كے اخلاق باختہ كلچر كو ترقى پسندى اور روشن خيالى كا معاشرہ سمجهتے ہيں- سپورٹس پاكستان كا دوسرا مذہب بن چكا ہے- ہمارى نوجوان نسل كو دين كے بنيادى عقائد كا اتنا علم نہيں جتنا كہ وہ سارى دنيا كے كركٹ كهلاڑيوں كے پورے شجرهٴ حسب نسب سے واقف ہيں- نيكر پوش خواتين كے مقابلے، ميراتھن مخلوط ريس كو نئى تہذيب كى نشانى بنا ديا گيا ہے- ان سے اختلاف كرنے والے انتہاپسند اور ’ملا‘ ہيں- حكمران قوم كو ان سے ڈراتے رہتے ہيں كہ يہ لوگ جديد اسلام كے مخالف اور پاكستان كى سا لميت كے لئے خطرہ ہيں-
اگرچہ صدرِ پاكستان جنرل مشرف صاحب نے محكمہ اوقاف كے علماءِ كرام اور مشائخين عظام كى مجلس خاص ميں يہ اعلانِ عام كيا تها كہ ان كا تعلق خانہٴ سادات سے ہے جو بڑى سعادت كى بات ہے- مگر ان كى تربيت زيادہ تر سيكولر ماحول ميں ہوئى ہے- اس لئے اُنہوں نے پاكستان كى باگ ڈور سنبهالتے ہى يہ اعلان كيا تها كہ اتاترك ان كے آئيڈيل ہيں- حالانكہ قرآن نے ہر مسلمان كے لئے سيدكائنات رسول اكرم ﷺ كواپنا آئيڈيل اور نمونہ عمل بنا كر اپنى اطاعت اور پيروى كا حكم ديا ہے- اتاترك جسے وہ اپنا آئيڈيل مانتے ہيں، اس نے تو اسلام كى مسلمہ روايات سے انحراف كركے تركوں كو نامانوس غير اسلامى تہذيب ميں ڈهالنے كے لئے جبروتشدد سے كام ليا- دين و مذہب سے اپنا رشتہ منقطع كركے تركى كو سيكولر اور لادينى رياست بنا ديا اور اس حد تك چلا گيا كہ داڑهى اس كے لئے وجہ تشويش بن گئى-
باريش مسلمانوں كى اس نے بالجبر داڑهياں منڈوا ديں اور برقعہ پوش خواتين كو زبردستى بے حجاب كركے ان كے سروں پر اُسترے پهروا ديے-يہ تو سب كو معلوم ہے كہ اس نے اسلامى عبادات ، اذان و نماز كے لئے عربى كى بجائے تركى زبان كو لازمى قرار ديا تها ليكن شايد بہت كم لوگوں كو معلوم ہوكہ اس نے نماز كوبهى موسيقى كى دهن پر ادا كرنے كا حكم ديا تها جو بوجوہ كامياب نہ ہوسكا- اصل ميں اتاترك كو يہودى اور مغربى استعمارى طاقتوں نے تركى پر اس لئے مسلط كرديا تهاكہ وہاں سے اسلام كو خارج كرديا جائے اور وہ اس سازش ميں كامياب بهى ہوگئے- يہ بات ہم اپنى طرف سے نہيں كہہ رہے بلكہ اس حقيقت كو ہمارے موجودہ زمانے كى روشن خيال، سيكولر، خداناشناس(Atheist)ريسرچ سكالر، ممتاز موٴرخ اور آكسفورڈ يونيورسٹى كے شعبہٴ تحقيق كى پروفيسر كرين آرمز سٹرانگ نے اپنى مشہور زمانہ تصنيف ’خدا كے لئے جنگ‘ (The Battle for God) ميں بے نقاب كيا ہے-
اسلام كے آفاقى نظام سے كنارہ كش ہوكر اتاترك نے يورپ كے كلچر اور لائف سٹائل كو تركى پر مسلط كرديا- اس كے باوجود يورپ كى يہود نواز، بظاہر سيكولر مگر فى الحقيقت عيسائى امپيريليٹ (شہنشاہيت) حكومتوں نے تركى كو اپنے سے دور اور پرے ركها اور اس كى فوجى آمريت امريكہ اور يورپ كى دست نگر اور ان كى امداد كے سہارے چلتى رہى-
پہلى جنگ ِعظيم كے بعد سے اب تك كے طويل عرصہ ميں تركى نے سائنس، ٹيكنالوجى يا معاشى ميدان ميں كوئى ترقى نہيں كى اور نہ ہى سياسى اور معاشى استحكام اسے نصیب ہوا- البتہ ماضى قريب ميں جب وہاں نشاة ِثانيہ كا آغاز ہوا تو ان كا يہ اسلام گريز رويہ تبديل ہونے لگا- اب يورپ كى ہمسايہ حكومت، یعنى ماڈرن تركى كے موجودہ وزيراعظم رجب طیب ايردوغان كى اہلیہ اور ان كى بچیاں اسكارف اوڑھتى ہيں جو ہمارے جنرل مشرف كى نظر ميں دقيانوسى اور پس ماندگى كى علامت ہے- وہاں كى جمہورى اسلام پسند پارٹى كى گورنمنٹ نے اسلامى شعائر اور كاروبار حكومت ميں بے جا فوجى مداخلت كو بڑى حد تك روك ديا ہے- ديگر عوامل كے من جملہ اس وجہ سے بهى تركى نے معاشى خود انحصارى كى طرف پيش رفت كى ہے-
عجيب تماشا ہے كہ ايك طرف تركى تلخ تجربوں كے بعد اتاترك كى سيكولر اور يورپ كى اندھى تقليد كے حدود و قيود سے باہر نكلنے كى كوشش كررہا ہے مگر دوسرى طرف جناب جنر ل مشرف اتاترك كى دم توڑتى ہوئى گمراہ كن پاليسى كو ملك عزيز ميں بروئے كار لانا چاہتے ہيں اور اس كے مطابق عمل درآمد بهى ہورہا ہے- پاكستان كے مسلمان عوام نے جب مولوى اور ملّا كے ہم نوا ہوكر جنرل پرويز مشرف كى اتاترك اور آئيڈيالوجى كى مخالفت شروع كر دى تو اُنہوں نے حسب ِعادت يوٹرن ليا اور اعلان كيا كہ وہ علامہ اقبال اور قائداعظم كى روشن خيالى اور ترقى پسندى كو اپنا رہنما اُصول سمجهتے ہيں- مگر ان كے عملى اقدام سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اتاترك كى ڈگر پر چل رہے ہيں- جنرل موصوف كو نہ تو اقبال كے افكار و خيالات اور پيغام سے پورى طرح آگہى ہے اور نہ قائداعظم كى پاكستان كے حصول كے لئے جان ليوا جدوجہد اور ان كے نظامِ مقاصد كا بخوبى علم ہے-
يہاں ہم روشن خيال اقبال سے رجوع كريں گے- اقبال نے يورپ ميں رہ كر اس كى تہذيب و تمدن كو نہايت قريب سے ديكها تها- اس كے فكرو فلسفہ، اس كى نفسيات كا بہت گہرا مطالعہ كيا تها- چنانچہ اتاترك نے جب اسلام گريز لادينى رجحانات اور اقدامات كا آغاز كرتے ہوئے تركى زبان كے عربى ماخذ كو ختم كركے عربى رسم الخط كو لاطينى ميں تبديل كرديا تو اقبال نے اس كو بروقت يہ كہہ كر ٹوك ديا تها :
اقبال كى يہ كيسى روشن خيالى ہے جو اتاترك جيسے ترقى پسند شخص كو رجعت پسندى كى طرف بلا رہى ہے- اسلامى دنيا كے مسلمان ملك تركى اور ايران كے حكمران مصطفى كمال اور رضا شاہ پہلوى كى مغربيت سے بيزار ہوكر وہ مستقبل ميں روحانى اور انسانى پيكر كى آمد كے منتظر تهے
نہ مصطفى ميں، نہ رضا شاہ ميں نمود اس كى
كہ روحِ شرق بدن كى تلاش ميں ہے ابهى!
تركى اور ايران كا موجودہ انقلاب ان كى دينى بصیرت پر ان كى زندگى ہى ميں آشكار ہوگيا تها، جس كا اظہار انہوں نے اپنى فارسى نظم ’اے جوانانِ عجم! اے نوجوانانِ عجم‘ ميں كيا ہے-
اقبال اور ملا ازم
اقبال اور ملا كے بارے ميں يہ غلط تصور قائم كرليا گيا ہے كہ وہ ايك دوسرے كے حريف ہيں،ليكن فى الحقيقت اقبال ملا كو مذہب و ملت كا نگہبان سمجهتے ہيں، جس كى دينى غيرت اور حميت كى بدولت افغانستان ميں اسلاميوں كا جذبہ حريت زندہ ہے ،جس سے يورپ اور امريكہ بهى لرزہ براندام ہيں- اسى جذبہ كو ختم كرنے كے لئے ابليس اپنے فرزندانِ سياست سے خطاب كرتے ہوئے كہتا ہے :
اقبال كى نظر ميں ’ملا‘ كا لفظ قابل تعريف ہے اور يہ كسى خاص طبقہ كے فرد كا نام نہيں البتہ ايك پس منظر ميں اس اصطلاح كو وہ برے مفہوم ميں بهى لاتے ہيں اور وہ ايسا شخص جس ميں دينى حميت اور غيرت نہيں اور جو ظالم كے خلاف جنگ كى بجائے اپنوں سے جنگ و جدل كرتا ہو اور فكرونظر ميں فساد كا باعث ہو، ان كے نزديك ايسا ’ملا‘ ہے جس كے وہ مخالف ہيں- يہى وجہ ہے كہ ايسا شخص جو بول چال ميں انگريزوں كى نقل كرتا ہو، اقبال اسے بهى خطرناك ملا قرار ديتے ہيں- اقبال كا عقيدہ ہے كہ جہاد دين كى اساس ہے، چنانچہ مردِ مجاہد كے خلاف يورپ كى منصوبہ بندى كا راز اس طرح فاش كرتے ہيں كہ وہ اسے ترك جہاد كى تعليم ديتا ہے-
آزادئ افكار كى روشن خيالى كو اقبال ابليس كى ايجاد كہتے ہيں
جو لوگ خود كو نہيں بدلتے بلكہ اپنى خواہشوں كے مطابق قرآن كو بدلنا چاہتے ہيں، انہيں وہ عقل كے مادر زاد اندهے سمجهتے ہيں،جن كے نصيب ميں قرآن كا نورِ بصيرت نہيں، ايسے لوگوں كے بارے ميں اُنہيں انديشہ تها كہ وہ ماڈرن ازم، تجديد اور جديديت كے بہانے يورپ كى اندهى تقليد كريں گے ۔
زمانہٴ حاضر ميں دماغ تو روشن ہے ليكن دل سياہ اور تاريك اور نگاہ بے ادب ہے
اسلام كو جديد و قديم ميں تقسيم كرنا كم عقلى كا نتيجہ ہے۔ اسلام تو ايسا دين ہے جس نے قديم و جديد سب كااحاطہ كيا ہوا ہے-
اقبال كى شاعرى كا محور و مركز محمد ﷺ كى ذاتِ گرامى اور ان كا لايا ہوا دين ’اسلام‘ ہے، اس لئے ان كا ايمان ہے : آبروئے ما ز نام مصطفى است اس نام و ناموس كى حرمت پر وہ تمام متاعِ حيات و كائنات كو قربان كرنازندگى كا مقصود سمجهتے ہيں۔
موجودہ حالات ميں يہ صاف نظر آرہا ہے كہ ہمارى حكومت اور صدرِ مملكت پاكستان ميں اتاترك كى كرم خوردہ پرانى افرنگى سياست كو اسلاميانِ پاكستان ميں قابل قبول بنانے كے لئے اقبال كے نام پر روشن خيالى، تجدد اور اعتدال پسندى جيسى اصطلاحات استعمال كررہے ہيں جبكہ ايسى سياست كو اقبال نے ملت كے لئے زہرہلاہل قرار ديا ہے- اقبال گستاخانِ رسول كے قتل كو قومى زندگى ميں غيرت كى علامت سمجهتے ہيں جس كا اظہار انہوں نے ’لاہور اور كراچى‘ كے عنوان سے ’ضربِ كليم‘ ميں شہيدانِ رسالت غازى علم الدين اور غازى عبدالقيوم كے لئے كيا ہے- اقبال شناس تو اچهى طرح جانتے ہيں كہ توہين رسالت كے قانون كو غيرموٴثر بنانے كى كوئى كوشش بهى ان كے لئے جاں كاہ صدمہ كا باعث ہوتى۔
اقبال كے لئے اس سے بڑھ كر اور كيا سانحہ ہوسكتا ہے كہ قرآن كے نظامِ جزا و سزا سے ہى انكار كرديا جائے اور پهر فكر اقبال كو اپنا رہنما باور كرانے كى كوشش بهى كى جائے۔ اقبال تو بارگاہ الٰہى ميں عرض كرتے ہيں:”اے خدا ميرى زبان و قلم كا ايك ايك لفظ آقاے كائنات كے لائے ہوئے قرآن كا ترجمان ہے۔“ جس كا انہيں اتنا يقين ہے جتنا كہ خود اپنے وجود كا ۔ اس يقين كى قوت سے وہ يوں گويا ہيں: ”اگر قرآن كے سوا ميں نے كوئى بات كى ہو تو ميرے ناموسِ فكر كے پردے كو چاك كردے- ميرى رگِ جاں سے ہر تارِنفس كو چهین لے۔“
اگر ہمارے حكمران اقبال كو اپنا آئيڈيل سمجهتے ہيں تو انہيں يہ دو عملى اور مداہنت كو ختم كرنا ہوگا- اقبال كے پيش نظر بهى قرآن وسنت كى اتباع كرنا تها اور ہميں بهى صرف انہى افكار كى پيروى كرنا ہے جو قرآن و سنت كى طرف ہمارى رہنمائى كرتے ہيں- مگر ايك صاحب جو قرآن و سنت كے محكمات كو بهى بخوبى نہ جانتے ہوں،جنہيں علامہ اقبال اور قائداعظم كے تعلق يا قرآن اور احكامِ نبوت سے ان كى وابستگى كا بهى پورى طرح علم نہ ہو، وہ ان رہنماوٴں كے فكروعمل كى روشنى ميں پاكستان كو لے كر آگے بڑهنے كا دعوىٰ كريں تو اس سے بڑھ كر اور كيا آثارِ قيامت ہوسكتے ہيں- العجب ثم للعجب