آدابِ طہارت اورچند جديد مسائل

ٹائلٹ پيپر،كموڈ اور يورينل كا استعمال وغيرہ
اسلام پاكيزہ مذہب ہے اور پاكيزگى و صفائى ستھرائى كوہى پسند كرتا ہے-يہى وجہ ہے كہ كتاب و سنت ميں متعدد مقامات پر طہارت و پاكيزگى اختيار كرنے كى اہميت و فضيلت بيان كى گئى ہے- اس كے دلائل ميں سے چند آيات و احاديث حسب ِذيل ہيں:

(1) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ‌ ﴿٤﴾ وَٱلرُّ‌جْزَ فَٱهْجُرْ‌ ﴿٥...سورۃ المدثر
      ”اپنے كپڑے پاك ركهيں اور گندگى سے احتراز كريں-“

(2) وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَٱطَّهَّرُ‌وا ..﴿٦...سورۃ المائدۃ
      ”اگر تم جنبى ہو تو طہارت حاصل كرو-“

(3)إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلتَّوَّ‌ٰبِينَ وَيُحِبُّ ٱلْمُتَطَهِّرِ‌ينَ ﴿٢٢٢...سورۃ البقرۃ
”بلا شبہ اللہ تعالىٰ بہت زيادہ توبہ كرنے والوں اور طہارت و پاكيزگى حاصل كرنے والوں كو پسند فرماتے ہيں-“

حديث ِنبوى ہے كہ
(4) (الطهور شطر الإيمان) 1
”طہارت و صفائى نصف ايمان ہے-“

(5) لا تقبل صلاة بغير طهور 2
”طہارت (يعنى وضو) كے بغير نماز قبول نہيں ہوتى-“

(6) ايك روز صبح كے وقت رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال كو بلايا اور دريافت كيا كہ اے بلال! كس عمل كى بدولت تم مجھ سے جنت ميں سبقت لے گئے؟ يقينا ميں نے گذشتہ شب جنت ميں اپنے سامنے تمہارے قدموں كى آہٹ سنى ہے- تو حضرت بلال نے كہا: اے اللہ كے رسول ﷺ! ميں نے جب بهى اذان دى تو دو ركعتيں ادا كيں اور جب بهى مجهے حدث لاحق ہوا (يعنى ميں بے وضو ہوا) تو ميں نے اُسى وقت وضو كرليا- (يہ سن كر) رسول اللہ ﷺ نے فرمايا: ”اِسى كے بدلے (تمہيں يہ فضيلت عطا كى گئى ہے) “ 3

آداب قضاے حاجت
چونكہ ہمارا عنوان قضاے حاجت سے متعلق ہے، اس لئے آئندہ سطور ميں قضائے حاجت كے چند آداب ذكر كئے جارہے ہيں :

(1) اگر انسان آبادى ميں ہے تو بيت الخلا ميں داخل ہوجائے اور اگر فضا يا صحرا وغيرہ ميں ہے تو اس قدر دور نكل جائے كہ نظروں سے اوجہل ہوجائے- 4

(2) تمام محترم اور مقد س اشيا، مثلاً قرآن يا اللہ كے نام سے منقش انگوٹهى وغيرہ اپنے آپ سے عليحدہ كرلينى چاہئے ،جيسا كہ نبى ﷺ بيت الخلا ميں داخل ہوتے وقت اپنى انگوٹهى (جس پر ’محمدرسول اللہ‘ كا نقش تها) اُتار ديا كرتے تهے- 5
تاہم اگر ايسا كرنے سے قرآن (يا ديگر مقدس اشيا) كے چورى يا ضائع ہوجانے كا انديشہ ہو تو انہيں اپنے لباس ميں ہى كہيں چهپا ليناچاہئے- 6

(3) قضائے حاجت كيلئے پردہ ميں ستر چهپاكر بیٹھنا چاہئے- 7

(4) بيت الخلا ميں داخل ہوتے وقت پہلے باياں پاوٴں ركهنا چاہئے اور يہ دعا پڑھنى چاہئے:
”بِسْمِ اللهِ اَللّٰهُمَّ إِنِّىْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ“  8

(5) قبلہ روہوكر يا قبلہ كى جانب پشت كركے نہيں بیٹھنا چاہئے، البتہ اگر كوئى بيت الخلا ميں ہے اور بيت الخلا ہى قبلہ رخ بنا ہوا ہے تو اُميد ہے كہ ايسے شخص پر كوئى گناہ نہيں ہوگا-9

(6) گهاٹ پر، شاہراہ عام پر اور سائے كے نيچے قضاے حاجت سے اجتناب كرنا چاہئے-10

(7) غسل خانہ ميں پيشاب كرنا جائزنہيں- 11

(8) كهڑے پانى ميں پيشاب كرنے سے اجتناب كرنا چاہئے- 12

(9) جس روايت ميں كسى جانور كى بل ميں پيشاب كرنے سے منع كيا گيا ہے، وہ ثابت نہيں- 13

(10)بوقت ِضرورت كسى برتن وغيرہ ميں بهى پيشاب كيا جاسكتا ہے- 14

(11)دوران قضاے حاجت كسى قسم كا كلام نہيں كرنا چاہئے- 15

(12)نہ تو دائيں ہاتھ سے استنجا كرنا چاہئے اور نہ ہى دائيں ہاتھ سے شرمگاہ كو چہونا چاہئے-16

(13) استنجا كے لئے پانى استعمال كرنا افضل ہے- 17

(14) اگر تين پتهر يا ڈھیلے استعمال كرلئے جائيں تووہ بهى كفايت كرجاتے ہيں- 18

(15) گوبر اور ہڈى سے استنجا كرنا جائز نہيں- 19

(16)خوراك يا كسى قابل احترام چيز سے استنجا كرنا جائز نہيں- 20

(17) كوئلے سے استنجا كرنا بهى صحيح حديث كى رو سے ممنوع ہے-21

(18) بلا ضرورت شرمگاہ كو دیكھنا درست نہيں- 22

(19) پيشاب كے چھینٹوں سے اجتناب واجب ہے- 23

(20)جس روايت ميں ہے كہ رسول ﷺ نے (دورانِ قضاے حاجت) ہميں بائيں پاوٴں پر وزن دے كر بیٹھنے اور دائيں پاوٴں كو كهڑا ركهنے كا حكم ديا ہے، وہ ضعيف ہے- 24

(21) بيت الخلا سے نكلتے وقت يہ دعا پڑھنى چاہئے:

(غُفْرَانَكَ) 25

وجوبِ طہارت كى شرائط
بدن ، لباس يا كسى جگہ پر غلاظت لگى ہو تو اسے صاف كرنا واجب ہے ،ليكن اہل علم نے اس وجوب كے لئے كچھ شرائط مقرر كى ہيں جن ميں سے چند اہم حسب ِذيل ہيں:

(1)اسلام: كافر پر طہارت واجب نہيں ،كيونكہ اس پر اسلام كے احكام تب نافذ ہوں گے، جب وہ اسلام ميں داخل ہوگا، جبكہ وہ ابهى اسلام سے خارج ہے- اس كے لئے پہلے اسلام قبول كرنا ضرورى ہے-

(2) عقل: كيونكہ جو شخص پاگل يا بے ہوش ہے يا نشہ كى حالت ميں ہے، وہ اس قابل ہى نہيں كہ طہارت كا حكم سمجھ سكے-

(3) بلوغت:نابالغ بچہ مكلف نہيں ہوتا، اسلئے اس پر طہارت واجب نہيں، البتہ مستحب ضرور ہے-

(4) نيند، نسيان اور اكراہ كى عدم موجودگى: كيونكہ اگر كوئى سوجائے يا بهول جائے يا اسے مجبور كيا گيا ہو تو ايسا شخص بالاتفاق مكلف نہيں-

(5) كسى مُطهِّر كا وجود: يعنى پاك كرنے والى كوئى چيز مثلاً پانى يا مٹى وغيرہ موجود ہو-

(6) استطاعت: انسان ميں اس كے استعمال كى قدرت و طاقت بهى موجود ہو-

(7) نجاست لگى چيز كو اس قدر دہويا جائے كہ اس كا رنگ، بو اور ذائقہ باقى نہ رہے ،كيونكہ ان تينوں ميں سے كسى ايك چيز كى موجودگى بهى اس بات كا ثبوت ہوگى كہ عين نجاست كا كوئى جز ابهى موجود ہے، لہٰذا ان كے ختم ہونے تك نجس چيز كو دهونا يا كسى اور طريقے سے پاك كرنا ضرورى ہے-

طہارت كن اشيا سے حاصل كى جاسكتى ہے؟
طہارت حاصل كرنے كا اصل ذريعہ پانى ہے، كيونكہ كتاب و سنت ميں طہارت كے وصف كے ساتھ پانى كو ہى مختص كيا گيا ہے جيسا كہ قرآن ميں ہے :

وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً طَهُورً‌ا ﴿٤٨...سورۃ الفرقان
”اور ہم نے آسمان سے پاك كرنے والا پانى اُتارا ہے-“

اور حديث ميں ہے كہ
الماء طهور لايُنجِّسه شيء 26
”پانى پاك كرنے والا ہے، اسے كوئى چيز ناپاك نہيں كرتى-“

يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ پانى سے اس وقت طہارت حاصل كى جاسكتى ہے، جب اس ميں كوئى پليد چيز نہ ملى ہو، جيسا كہ ايك روايت ميں ہے كہ
”پانى پاك ہے، الاكہ اس كى بو، ذائقہ اور رنگ پليد چيز گرنے سے بدل جائے-“27
اس روايت كى سند ميں رشدين بن سعد راوى ضعيف ہے- 28
اگرچہ يہ روايت كمزور ہے، ليكن اس كے معنى و مفہوم كے صحيح و قابل عمل ہونے پر اجماع منعقد ہوچكا ہے- 29

اگر پانى كسى پاك چيز كے ملنے كى وجہ سے متغير ہوچكا ہو تو وہ اگرچہ خود تو پاك ہى رہتا ہے ليكن پاك كرنے والے وصف سے عارى ہوجاتا ہے، كيونكہ شريعت نے ہميں جس پانى سے طہارت حاصل كرنے كا حكم ديا ہے، وہ صرف ماءِ مطلق ہى ہے-

اگر پانى میسرنہ ہو تو پاك زمين سے طہارت حاصل كى جاسكتى ہے جس ميں مٹى، ريت اور پتهر وغيرہ سب اشيا شامل ہيں-ارشادِ بارى تعالىٰ ہے:
فَلَمْ تَجِدُوا مَآءً فَتَيَمَّمُواصَعِيدًا طَيِّبًا...﴿٤٣...سورۃ النساء
      ”تمہیں پانى ميسر نہ ہو تو پاك مٹى سے تيمم كرلو-“

حديث ِنبوى ہے كہ
جُعلت لي الأرض مسجدًا وطهورًا 30
”ميرے لئے زمين كو مسجد اور پاك كرنے والى بنايا گيا ہے-“

ايك اور حديث ميں ہے كہ

”پاك مٹى مسلمان كے لئے وضو ہے، چاہے دس سال اسے پانى نہ ملے، جب پانى حاصل ہوجائے تو اپنے جسم كو اس سے صاف كرے-“ 31

زمين دو طرح سے پاك ہوتى ہے :
نمبر1: يہ كہ ا س پر پانى بہا ديا جائے جيسا كہ ايك ديہاتى نے مسجد كے ايك كونے ميں پيشاب كرديا تو رسول اللہ ﷺ نے اس پر پانى كا ايك ڈول بہانے كا حكم ديا- 32

نمبر 2: يہ كہ سورج يا ہوا كى وجہ سے زمين خشك ہوجائے حتىٰ كہ نجاست كا اثر بهى زائل ہوجائے تو وہ پاك ہوجاتى ہے، كيونكہ اس پر وہ وصف ہى باقى نہيں رہا جس و جہ سے اس كے نجس ہونے كا حكم لگايا گيا تها-

(3) اگر كنوئيں ميں نجاست گر جائے اور اس كے اوصافِ ثلاثہ ميں سے كوئى وصف تبديل ہوجائے تو اسے پاك كرنے كا طريقہ يہ ہے كہ اس سے اتنا پانى نكال ليا جائے جس سے تغير ختم ہوجائے اور پانى اپنى اصل حالت پر واپس آجائے- يہ ياد رہے كہ اصل مقصود پانى ميں واقع تغير كا زائل كرنا ہے، وہ كم پانى نكالنے سے ہو يا زيادہ نكالنے سے يا بغير نكالنے كے ہى- كنوئيں كا پانى كم يا زيادہ ہونے ميں بهى كوئى فرق نہيں-

(4) ايسى اشيا جن ميں مسام (يعنى سوراخ و اجزا وغيرہ) نہ ہوں، مثلاً شيشہ، چهرى، تلوار، ناخن، ہڈى اور روغنى برتن وغيرہ ، وہ اس قدر (زمين يا كسى اور چيز پر) رگڑنے سے پاك ہوجاتى ہيں كہ جس سے نجاست كا اثر زائل ہوجائے-

(5) واضح رہے كہ جن اشيا كو پاك كرنے كا كوئى خاص طريقہ شريعت سے ہميں ملتا ہے اُنہيں اسى طرح پاك كيا جائے گا، مثلاً جوتى پر لگى نجاست كے متعلق حديث ميں ہے كہ اِسے زمين پر رگڑ كر پاك كيا جائے- 33

(1) ٹائلٹ پيپر سے استنجا كا حكم
افضل يہ ہے كہ پانى سے استنجا كيا جائے جيسا كہ حضرت ابوہريرہ بيان كرتے ہيں كہ يہ آيت :

فِيهِ رِ‌جَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُ‌وا ۚ وَٱللَّهُ يُحِبُّ ٱلْمُطَّهِّرِ‌ينَ ﴿١٠٨...سورۃ التوبہ

اہل قبا كے بارے ميں ناز ل ہوئى كيونكہ

كانوا يستنجون بالماء
”وہ پانى كے ساتھ استنجا كرتے تهے-“ 34

پانى كے ساتھ استنجا كرنے والوں كے بارے ميں اللہ تعالىٰ كا اظہارِ محبت كرتے ہوئے آيت نازل فرما دينا اس با ت كا قطعى ثبوت ہے كہ پانى سے ہى استنجا كرنا افضل ہے-
علامہ عينى رقم طراز ہيں كہ ”پانى (سے استنجا كرنا) افضل ہے ،كيونكہ يہ نجاست كى ذات اور اثر كو زائل كرديتا ہے-“ 35

يہاں يہ بات ياد رہے كہ پانى كے ساتھ استنجا كے افضل ہونے كا يہ مطلب نہيں ہے كہ صرف پانى كے ساتھ ہى استنجا كرنا واجب ہے- شيخ امين اللہ پشاورى فرماتے ہيں كہ
ولا يجب الاستنجاء بالماء كما يظنه العوام  36        
”پانى كے ساتھ استنجاكرنا واجب نہيں ہے، جيسا كہ عوام يہ گمان ركهتے ہيں-“

لہٰذا پانى كے علاوہ ڈھیلوں كااستعمال بهى مباح و درست ہے اور عہد ِرسالت ميں نبى اور صحابہ كرام  اكثر اوقات انہى سے استنجا كيا كرتے تهے، جيسا كہ ايك حديث ميں ہے كہ نبى نے قضاے حاجت كيلئے جاتے ہوئے حضرت ابن مسعود كو تين پتهر لانے كا حكم ديا- 37

اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ نبى نے پانى كے علاوہ مٹى كے ڈھیلوں سے ہى بالآخر كيوں استنجا كيا؟ يہى بات پيش نظر ركهتے ہوئے ريسرچ كى گئى تو يہ بات سامنے آئى كہ مٹى ميں نوشادر (Ammonium Chloride) اور اعلىٰ درجے كے دافع تعفن اجزا موجود ہيں-

ڈاكٹر ہلوك لكھتے ہيں كہ
”ڈهيلے كے استعمال نے سائنسى اور تحقيقى دنيا كو ورطہ حيرت ميں ڈال ركها ہے ،كيونكہ مٹى كے تمام اجزا جراثيموں كے قاتل ہيں-جب ڈهيلے كا استعمال ہوگا تو پوشيدہ اعضا پر مٹى لگنے كى وجہ سے ان پر بيرونى طور پر لگے تمام جراثيم مرجائيں گے- بلكہ تحقيقات نے يہاں تك ثابت كرديا ہے كہ مٹى كا استعمال شرمگاہ كے كينسر (Cancer of Penis) سے بچاتا ہے-“   38

معلوم ہوا كہ محسن انسانيت نے پانى كے علاوہ ڈهيلوں كا حكم يونہى نہيں ديا،بلكہ اس لئے ديا كہ اس ميں اُمت ِمسلمہ كے لئے بے شمار فوائد مضمر تهے-تاہم اہل علم نے پانى اور ڈهيلوں كے سوا ہر اس پاك چيز سے بهى استنجا كى اجازت دى ہے جو طہارت و نظافت ميں ان كے قائم مقام ہو اور نجاست كا اثر زائل كردے- امام شوكانى  رقم طراز ہيں كہ
”(قضاے حاجت كرنے والے پر) تين ڈهيلوں يا ان كے قائم مقام كسى پاك چيز سے استنجا كرنا لازم ہے-“39

ايك اور مقام پر فرماتے ہيں :
”شارع نے جس چيز كے استعمال كى اجازت دى ہے، اس كے ساتھ استنجا كا حكم اس لئے ہے كہ نجاست كا اثر مٹ جائے اور اس كى ذات ختم ہوجائے اور شارع نے جس چيز كے ساتھ استنجا كرنے سے منع كيا ہے وہ (اس عمل ميں) كفايت كرنے والى نہيں اور جس سے منع نہيں كيا، اگر وہ چيز محترم نہ ہو اور نہ ہى اس كا استعمال مضر ہو تو وہ كفايت كرجائے گى-“   40

نواب صديق حسن خان فرماتے ہيں:
”استنجا ہر ايسى جامد، پاك،(نجاست كى) ذات كو زائل كردينے والى چيز سے جائز ہے جو پتهر كے قائم مقام ہو اور نہ تو وہ چيز قابل احترام ہو اور نہ ہى كسى حيوان كا جز ہو، مثلاً لكڑى، كپڑے كا ٹكڑا، اينٹ اور ٹهيكرى وغيرہ -“41

امام ابن قدامہ بيان كرتے ہيں:
”لكڑى ، كپڑا اور ہر وہ چيز جس كے ذريعے صفائى كى جاسكے ،وہ (استنجا ميں) پتهروں كى مانند ہى ہے، يہى صحيح مذہب ہے اور اكثر اہل علم كا قول بهى ہے- “ 42

سيد سابق مصرى رقم طراز ہيں كہ
”پتهر اور اس كے ہم معنى ہر جامد، پاك، نجاست مٹا دينے والى غير محترم چيز سے استنجا كيا جاسكتا ہے-“43

ڈاكٹر وہبہ زحيلى نقل فرماتے ہيں كہ
”پانى يا پتهر اور اس كى مثل ہر جامدپاك، (نجاست) زائل كردينے والى غير محترم چيز، مثلاً (درخت كا) پتہ، كپڑے كا ٹكڑا، لكڑى اور ٹهيكرى وغيرہ سے استنجا ہوجاتا ہے-“44

شيخ امين اللہ پشاورى حفظہ اللہ فرماتے ہيں كہ
”اور ان رومالوں سے بهى استنجا كرنا جائز ہے جو (بطورِ خاص) اسى لئے تيار كئے جاتے ہيں-“45

مذكورہ علما نے ان روايات سے استدلال كيا ہے جن ميں يہ ذكر ہے كہ نبى نے تين پتهروں كے ساتھ استنجا كرنے كا حكم ديا اور يہ بهى فرمايا كہ ہڈى اور گوبر كے ساتہ استنجا نہ كيا جائے- 46

ان كا كہنا ہے كہ اگر آپ كا مقصود پتهر اور اس كے قائم مقام ہر چيز كے ساتھ استنجا كى اجازت دينا نہ ہوتا تو آپ كبهى ہڈى اور گوبر كو بطورِ خاص مستثنىٰ نہ كرتے- اس استثنا سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كے علاوہ تمام اشيا سے استنجا كيا جاسكتا ہے-

ٹائلٹ پيپر ايك ايسا نرم ملائم اور لطيف كاغذ ہے جو اہل يورپ كى ايجاد ہے اور اسے خاص طور پر استنجا كيلئے تيار كيا جاتا ہے- اگرچہ گذشتہ بحث سے بظاہر يہى معلوم ہوتا ہے كہ ٹائلٹ پيپر كے استعمال ميں بهى كوئى حرج نہيں، ليكن يہ ياد رہے كہ اس پيپر كى تيارى ميں جو مختلف قسم كے كيميكلز استعمال كئے جاتے ہيں،وہ انتہائى مہلك ہيں-ان سے جلدى امراض (Skin Diseases) ايگزيما (Eczema) اور جلد ميں رنگت كى تبديلى كے امراض پيدا ہوسكتے ہيں- اس وقت تمام اہل يورپ يہى پيپر استعمال كررہے ہيں- پچهلے دنوں اخبارات نے يہ خبر شائع كى كہ اس وقت يورپ ميں شرم گاہ كے مہلك امراض خاص طور پر كينسر تيزى سے پهيل رہا ہے- اسكے سدباب كے لئے جب تحقيقى بورڈ بيٹها تو اس بورڈ كى رپورٹ صرف دو چيزيں تهيں كہ ٹائلٹ پيپر كا استعمال كرنا اور پانى كا استعمال نہ كرنا- 47

ٹائلٹ پيپر كے استعمال كى دو ہى صورتيں ہوسكتى ہيں :
(1) مستقل استعمال
(2) پانى اور مٹى كى غير موجودگى ميں استعمال

درج بالا مضر اثرات و نتائج كى وجہ سے اسے مستقل استعمال كرنے سے اجتناب ہى بہتر ہے- تاہم اگر اس كے استعمال سے كسى ضرر كا انديشہ نہ ہو يا اس كے بعد پانى استعمال كرليا جائے يا پانى اور مٹى كى غير موجودگى ميں اسے استعمال كيا جائے تو اُميد ہے كہ ايسا كرنے والے پر كوئى گناہ نہ ہوگا- والله اعلم!

(2) كموڈ (Commode)كى شرعى حيثيت
كموڈ سيٹ نما فلش ہے ،جس پر بیٹھ كر قضاے حاجت كى جاتى ہے- آج كل اس كا استعمال دفاتر، ہوٹلز، ايئر پورٹس اور يونيورسٹيز سے لے كر گهروں تك عام ہوتاچلا جارہا ہے-

اس كى شرعى حيثيت سمجهنے كے لئے اتنا ہى كافى ہے كہ اس پر بیٹھ كر قضاے حاجت كرتے ہوئے پیشاب كے چھینٹوں سے بچنا انتہائى مشكل ہے اور يہ بات محتاجِ دليل نہيں كہ پيشاب كے چهينٹوں سے اجتناب بہرصورت واجب ہے- اور يہ اُصول ہے كہ جو چيز كسى واجب كى تكميل كے لئے ناگزير ہے، وہ بهى واجب ہے ،يعنى اگر پيشاب كے چهينٹوں سے اجتناب كموڈ سے بچنے ميں ہى ہے تو كموڈ سے بچنا بهى واجب ہے-

تاہم اس كے جواز كى ايك صورت ہے كہ اگر اس پر بیٹھ كر قضاے حاجت كے دوران نجاست يا پيشاب كے چهينٹوں سے بچنا يقينى ہو تو ہمارے علم كے مطابق كوئى اور ايسا سبب نہيں جس بنا پر اسے ناجائز قرار ديا جائے-

البتہ بہتر اور صحت بخش طريقہ وہى ہے جو فطرى ہے اور جسے محمد ﷺ نے اپنايا ہے- جديد ريسرچ كے مطابق اگر اس فطرى طريقے كے مطابق قضاے حاجت كے لئے بيٹها جائے تو اپنڈے سائيٹس(Appendesitis)، دائمى قبض، بواسير(Piles)، گردوں كے امراض، گيس، تبخير اور بدہضمى وغيرہ جيسے امراض ختم ہوجاتے ہيں- 48

علاوہ ازيں ايك روايت ميں ہے كہ حضرت سراقہ بن مالك فرماتے ہيں كہ
”علَّمنا رسول الله في الخلاء أن نقعد على اليسرٰى وننصب اليمنٰى“
”رسول اللہ ﷺ نے قضاے حاجت كى تعليم ديتے ہوئے ہميں فرمايا كہ ”ہم بائيں پاوٴں پر وزن دے كر بيٹهيں اور دائيں كو كهڑا ركهيں (يعنى اس پر كم بوجھ ڈاليں)“ 49

اگرچہ سنداً اس روايت ميں ضعف ہے، ليكن اس ميں مذكور طريقہ قضائے حاجت حكمت سے خالى نہيں، جيساكہ اس روايت كى شرح كرتے ہوئے مولانا صفى الرحمن مباركپورى حفظہ اللہ فرماتے ہيں :
”اس حديث ميں نبى كريم ﷺ نے بائيں پاوٴں پر بيٹهنے كا حكم ديا ہے- اس كى وجہ يہ سمجھ ميں آتى ہے كہ انسان كا معدہ بائيں طرف ہوتا ہے-بائيں پاوٴں پر بیٹھنے سے اخراجِ فضلہ ميں سہولت اور آسانى ہوتى ہے-“50

لامحالہ يہ فائدہ بهى انسان كو تب ہى حاصل ہوسكتا ہے،جب وہ كموڈ پر نہيں بلكہ ٹائلٹ پر قضاے حاجت كررہا ہو، كيونكہ كموڈ پر اس طرح بيٹهنا ممكن ہى نہيں-

خلاصہٴ كلام يہ ہے كہ قضائے حاجت كے لئے سب سے بہتر فطرى طريقہ كے مطابق عام ٹائلٹ كا استعمال ہے، ليكن اگر كموڈ كى بهى كہيں ضرورت پيش آجائے اور پيشاب كے چهينٹوں سے اجتناب ممكن ہو تو اس كا استعمال گوارا كيا جاسكتا ہے-

(3) يورينل (Urinal) كے استعمال كا حكم
يورينل اس ظرف كو كہتے ہيں جو بطورِ خاص مريضوں كے پيشاب كرنے كے لئے بنايا جاتا ہے- اس كى ضرورت تب ہى پيش آتى ہے جب مريض اُٹھ كر باتھ روم تك جانے كى قوت وطاقت نہ ركهتا ہو- يقينا ً ايسى صورت ميں مريض باتھ روم جانے كا مكلف نہيں ہے ،كيونكہ اللہ تعالىٰ نے انسان كو اتنے كام كا ہى مكلف ٹھہرايا ہے جتنے كى اس ميں استطاعت موجود ہے جيساكہ قرآن ميں ہے:

لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا ...﴿٢٨٦...سورۃ البقرۃ
”اللہ تعالىٰ كسى جان كو اس كى طاقت سے زيادہ تكليف نہيں ديتا-“

ايك اورآيت ميں ہے كہ
فَٱتَّقُوا ٱللَّهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ... ﴿١٦...سورہ التغابن
”پس جہاں تك تم سے ہوسكے اللہ سے ڈرتے رہو-“

اور حديث ہے كہ

(إذا أمرتكم بشيء فأتوا منه ما استطعتم) 51
”جب ميں تمہیں كسى كام كا حكم دو تو حسب استطاعت اس پر عمل كرليا كرو-“

نيز ايك صحيح حديث سے يہ بهى ثابت ہے كہ نبى ﷺ بيمارى كى حالت ميں چارپائى پر ايك لكڑى سے بنے برتن ميں ہى پيشاب كرليا كرتے تهے، جيسا كہ اس حديث ميں يہ لفظ ہيں كہ
(كان للنبي قدح من عيدان تحت سريره يبول فيه بالليل) 52
”نبى كے پاس لكڑى كا ايك برتن تها جسے آپ نے اپنى چارپائى كے نيچے ركها ہوتا تها اور آپ رات كو اس ميں پيشاب كرليا كرتے تهے-“

اس حديث كى شرح ميں علامہ شمس الحق عظيم آبادى فرماتے ہيں كہ
”نبى حالت مرض ميں ايسا كيا كرتے تهے-“ 53

معلوم ہوا كہ مريض كے لئے يورينل كا استعمال مباح و جائز ہے، البتہ ہوش مند مريض كے لئے پيشاب كے بعد استنجا كرنا ضرورى ہے- اگرپانى سے استنجا ممكن نہ ہو تو مٹى كے ڈهيلے استعمال كرے- اگر يہ بهى ممكن نہ ہو تو ٹشو پيپر سے ہى استنجا كرے۔


حوالہ جات
1.      مسلم:223
2.      مسلم :224
3.      صحيح الترغيب از البانى:201
4.      بخارى:363، ابوداوٴد:1
5.      ابوداود:19، بيهقى :1/90
6.      فتاوىٰ اللجنة الدائمة:4/40
7.      ترمذى:14، ابن ماجہ:337
8.      صحيح الجامع الصغير :3611، بخارى؛142
9.      بخارى:394، ابوداوٴد:13
10.  ابوداود:26، إرواء الغليل:62
11. ابوداود:28
12.  مسلم:281
13.  إرواء الغليل:55
14.  ابوداود:24
15.  السلسلة الصحيحة:3120
16.  ابوداود:8، احمد:2/247
17.  ترمذى:19، ابوداود:44
18.  ابوداود:40
19.  ابن ماجہ:316
20.  مسلم:450
21.  صحيح الجامع الصغير:6826
22.  ابوداود:4017
23.  مسلم:292
24.  بيہقى:1/96
25.  ابوداود:30
26.  ابوداود:67
27.  بيهقى:1/29، دارقطنى:1/28
28.  فيض القدير:2/383
29.  الإجماع لابن منذر: ص33، المجموع للنووي:1/110
30.   بخارى:335
31.  ابوداود:332
32.  بخارى:221
33.  ابوادود:65
34.  ابوداود:144
35.  عمدة القاري :2/ 276
36.  فتاوىٰ الدين الخالص:1/386
37.  بخارى:152
38.  سنت ِنبوى اور جديد سائنس:1/191
39.  الدّرر البهية: باب قضاء الحاجة
40.  السيل الجرار:1/202
41.  الروضة الندية :1/110
42.  المغنى:1/213
43.  فقہ السنة:1/26
44.  الفقه الإسلامي وأدلته:1/195
45.  فتاوىٰ الدين الخالص:1/386
46.  ابوداود:41، مسلم:1/223، كتاب الطهارة
47.  سنت ِنبوى اور جديد سائنس:1/191
48.  سنت ِنبوى اور جديد سائنس: 1/190
49.  بيہقى:1/96
50.  شرح بلوغ المرام:1/93
51.  بخارى:7288
52.  ابوداود:24
53.  عون المعبود:1/30