تعبير شريعت اور پارليمنٹ
پاكستان ميں علامہ اقبال اور پارليمانى اجتہاد كے بارے ميں اكثر لوگوں كى تحريريں نظرسے گزرتى رہتى ہيں جن ميں يہ كوشش كى جاتى ہے كہ پاكستان ميں تعبير شريعت كے لئے پارليمنٹ كو قانون سازى كا اختيار ديا جائے يا اعلىٰ عدليہ كے ذريعے مروّ جہ قوانين كى تصحيح كى جائے- حالانكہ دنيائے اسلام ميں شريعت كا كامياب جزوى يا كلى نفاذ ديگر طريقوں سے بهى ہوا ہے۔
زير نظر مقالہ ميں محترم مدير اعلىٰ محدث نے نفاذِ شريعت ميں اُمت ِمحمديہ كے چار مشہور نظريات پر تبصرہ پيش كيا ہے اور اسى سے متعلقہ مختلف پہلووں تك اپنى گفتگو كو محدود ركها ہے۔
اُنہوں نے سب سے پہلے مفكر ِپاكستان علامہ محمد اقبال كے نظريہ كو ان كى متوازن رائے كا انتخاب كركے پيش كيا ہے كيونكہ پاكستان كے بہت سے دانشور ان كے نظريہ اجتہاد كو افراط و تفريط كى صورت ميں پيش كركے نفاذِ شريعت كے بارے ميں من مانى تاويليں كرتے رہتے ہيں ۔
اس مقالہ ميں پيش كردہ دوسرا نظريہ اس اعتبار سے بڑا اہم ہے كہ ماضى قريب ميں جنوبى ايشيا كى دو اہم حكومتوں نے اسے شريعت كے نفاذ كے حوالے سے اختيار كيا- ايران كا انقلابِ جديد اور افغانستان ميں طالبان كى حكومت اسى كى بازگشت ہے۔
تيسرا نظريہ ہمارے ملك كے كئى آزاد خيال اہل علم اور دينى سياسى جماعتوں كے زعما كى طرف سے زندگى كے پرائيويٹ پہلو كو چهوڑ كر پبلك لاء كى شكل ميں نافذ كرنے كے لئے تجويز كيا جاتا رہا ہے۔جس كى رو سے پارليمنٹ كو شريعت كا پبلك لاء وضع كرنے كا اختيار ہے اور ہرفرقہ كو پرسنل لاء كى آزادى ر ہنى چاہئے۔
چوتها نظريہ اُمت ِمسلمہ كے اندر ابتدا ہى سے چلا آرہا ہے- اور عالم اسلام كے اہم حصہ سعودى عرب سميت خلیجى ممالك كے اندر شریعت كى عمل دارى كى حد تك عرصہ سے رائج ہے- اس سلسلے ميں مصر كے بعض جديد علما، جو اگرچہ عہد ِنبوت سے لے كر دور حاضر تك عالم اسلام ميں شريعت كو دفعہ وار قانون كى شكل ديے بغير كتاب وسنت كى عمل دارى كا اعتراف تو كرتے ہيں ليكن تَقنِين شريعت كو بهى دورِ حاضر كى ايك ضرورت سمجهتے ہيں ، اُنہوں نے سعودى مملكت كے بانى شاہ عبد العزيز بن عبد الرحمن آل سعود كے ساتھ بالمشافہہ ملاقاتوں كے علاوہ اپنى تقريروں اور تحريروں كے ذريعے تَقنِين شريعت كو اپنا نے كے لئے سرگرم كوششيں بهى كيں ليكن خليجى حكومتوں ميں اُن كے نظريہ كو پذيرائى نہ مل سكى، البتہ بہت سے جديد موسوعاتِ فقہية ضرور تيار ہوگئے جن كى افاديت نظر انداز نہيں كى جاسكتى۔
پاكستانى اعلىٰ عدليہ كى كئى ممتاز شخصیتیں سعودى عرب اور پاكستان ميں نفاذِ شريعت كا جائزہ لينے كے بعد اس نتيجے پر پہنچیں كہ پاكستان كو بهى نفاذ شريعت كے سلسلے ميں خليجى ممالك كا انداز ہى اپنانا چاہئے- جن ميں سے جسٹس بديع الزمان كيكاؤس مرحوم كے بعد وفاقى شرعى عدالت كے چيف جسٹس گل محمدخاں مرحوم اس نظريہ كى اہميت اور اس كے بعض امتيازى پہلوؤں پر انگريزى او راُردو جرائد ميں لكهتے بهى رہے ہيں ۔
مذكورہ بالا چاروں نظريات كا جائزہ لينے سے پہلے بنيادى سوال يہ ہے كہ كيا كتاب وسنت كى تدوين جو فقہ ِاسلامى كے وسيع ورثہ كے ساتھ ہمارے ہاں موجود ہے، كے ذريعے پاكستان ميں سعودى عرب وغيرہ كى طرح شريعت كى عمل دارى زيادہ كامياب ہوگى يا تعبير شريعت كے لئے فقہ كى دفعہ وار قانون سازى زيادہ موزوں ہے ؟
پاكستان كى سپريم كورٹ كا شريعت بنچ اعلىٰ آئينى عدالت كى حيثيت سے 1986ء ميں ديوانى اور 1991ء ميں فوجدارى؛ ہر دو سطح پركتاب وسنت كى تقنين كئے بغير نہ صرف شريعت كے عملاً نفاذ كا فيصلہ كرچكا ہے بلكہ كئى دفعہ متعدد ديوانى اور فوجدارى قوانين بروقت نئى قانون سازى مكمل نہ ہونے كى بنا پر كالعدم بهى رہے حتىٰ كہ مروّ جہ قصاص و ديت آرڈيننس سپريم كورٹ سے مزيد مہلت نہ ملنے كى بنا پر ہى حكومت كو موجودہ ناقص صورت ميں نافذ كرنا پڑا۔
چونكہ مذكورہ بالا نظريات كے متعدد پہلو تفصيلى بحثوں كے محتاج ہيں ، اس لئے زير نظر مقالہ ميں ان پہلووں پر صرف اشارات ہى پر اكتفا كيا گيا ہے كيونكہ ہر بحث ايك مستقل مقالے كى متقاضى ہے- ماہنامہ ’محدث‘ اور ديگر جرائد ومجلات ميں بعض پہلووں پر بكهرى ہوئى كچھ تحريريں ضرور شائع ہوئى ہيں ، ليكن بالخصوص خلیجى ممالك كا نقطہ نظر ہمارے علمى حلقوں ميں بهى متعارف نہيں ہے-يہى وجہ ہے كہ اس نقطہ نظر كے حق اور مخالفت ميں عربى زبان ميں تو كافى مواد ملتاہے ليكن اُردو ميں اس پر بہت كم لكها گيا ہے۔ بہرصورت ما لا يدرك كله لا يترك كله كے مصداق زير نظر مقالہ ہديہٴ قارئين ہے۔ (حافظ حسن مدنى)
بسم الله الرحمن الرحيم
’پارليمنٹ كا اجتہاد اور تعبير ِشريعت‘ كاموضوع ان ممالك ميں بڑى اہميت كا حامل ہے جہاں نفاذِ شريعت اور اسلام كو حكومتى سطح پر اپنانے كى كاوشيں ہوتى رہتى ہيں -اس سلسلے ميں جہاں تركى كے مصطفى كمال پاشا كے تصورات كو زير بحث لايا جاسكتا ہے، وہاں علامہ اقبال كا نكتہ نظر بهى عموماً اس موضوع سے دلچسپى ركهنے والوں كے وردِ زبان رہتا ہے-اس سلسلے ميں يہ بحث بهى بڑى اہميت كى حامل ہے كہ اسلام ميں اجتماعى اجتہاد كى كيا حيثيت ہے؟ ايسے ہى كسى مجتہد كا اجتہاد كيا دوسروں كے لئے بهى حجت ہوتا ہے؟حكمران شريعت كى تعبير كے بارے ميں كيا اختيارات ركهتے ہيں يا ان كا دائرئہ عمل صرف شريعت كے نفاذ كى تدبير اور انتظامى اُمور تك محدود ہے- ’پارليمانى اجتہاد ‘ كے بارے ميں مختلف نكتہ ہائے نظر پائے جاتے ہيں :
پہلا نظريہ
شريعت كى روشنى ميں بالخصوص سياسى، معاشى اور معاشرتى مسائل كى روحِ عصر كے مطابق تعبير ِنو ضرورى ہے- موجودہ ترقى يافتہ دور كے بدلتے تقاضے اجتہاد ِ نو كى دعوت ديتے ہيں اور موجودہ فرقہ وارانہ كشمكش ميں پارليمنٹ كا ہى ايسا اجتہاد معتبر ہوسكتا ہے- مصطفى كمال پاشا كے جديد تركى كى ’گرينڈ نيشنل اسمبلى‘ نے بهى قرار ديا تها كہ خلافت و امامت كو فرد ِواحد كے بجائے كئى افراد پر مشتمل ادارے يا منتخب اسمبلى كے سپرد كيا جاسكتا ہے- جديد دورميں يہى اجماعِ اُمت ہے- پاكستان ميں نفاذِ شريعت كے لئے ائمہ سلف كى تقليد كى بجائے پارليمنٹ كے سركارى فيصلوں كى پابندى ہونى چاہئے-1
دوسرا نظريہ
قرآن وسنت ميں منصوص مسائل كے علاوہ ائمہ سلف نے خلفاے راشدين/ائمہ اہل بيت كے طرزِعمل سے ماخوذ مكمل نظامِ حيات پيش كرديا ہے- اب چونكہ مستقل اجتہاد كى اہليت باقى نہيں رہى، اس لئے انہى مدوّن كتب ِ فقہ سے احكام كا استخراج كركے كام چلانا چاہئے جو شیعہ / سنى مكاتب ِ فكر كے ہاں مسلمہ ہيں - رياست كا مسلك اس فقہ كے مطابق ہو جس كے پيروكاروں كى ملك ميں اكثريت ہو- اس معاملہ ميں برترى علماے فقہ كو حاصل ہے جبكہ اقليتى فرقوں كو صرف پرسنل لاز ميں آزادى دى جائے- 2
تيسرا نظريہ
عقيدہ، عبادات اور عائلى مسائل ميں ہر فرقہ اپنى اپنى فقہ پرعمل پيرا ہونے كا اختيار ركهتا ہے البتہ معاشرت، معيشت ، اور سياست سے متعلقہ اُمور اسلامى اُصولوں كى روشنى ميں پارليمنٹ طے كرے- اس سلسلے ميں ايسا رويہ اختيار كيا جائے كہ پارليمنٹ ميں علما كو بهى بهرپور نمائندگى حاصل ہو تاكہ بيك وقت مہارت ِ علمى كے ساتھ ساتھ عوام كا اعتماد بهى حاصل ہوجائے- چنانچہ اس كے لئے اسمبلى كى ركنيت كى شرائط اور بعض ديگر طريقوں كى تجاويز بهى پيش كى جاتى ہيں - 3
چوتها نظريہ
شريعت قرآن و سنت كى شكل ميں ہمارے پاس مدوّن صورت ميں محفوظ ہے- قرآن دستور ِ حيات ہے تو سنت ِرسول اس كى حتمى اور ابدى تعبير(4)اجتہاد انفرادى ہو يا اجتماعى، شريعت كا حصہ نہيں بلكہ پيش آمدہ مسائل كو منشاء الٰہى كے تابع انجام دينے اور شرع كى حدود كے اندر ركهنے كا طريق كار ہے- فتوے اور قضا ميں اجتہاد كى اہميت شريعت كى وسعتوں كى دليل ہے- اس بارے ميں مجتہد كى غلطى پر بهى اسے مخلصانہ اجتہاد كا اجرملے گا ليكن شريعت واحدہ ہونے كے باوجود فقہ واجتہاد مختلف اور متعدد بهى ہوسكتے ہيں -اسى طرح مسائل كى نوعيت كى تبديلى كى بنا پر شريعت كے دائمى ہونے كے باوجود علماء كے اجتہاد و فتوىٰ كا تغير ممكن ہے- پارليمنٹ كے فيصلوں كا اجتہاد سے كوئى تعلق نہيں كيونكہ ان كا تعلق اصلاً شريعت كے تعبيرو اطلاق سے نہيں ہوتا بلكہ قانون وضع كرنے كا مقصد امكانى صورتوں كى احاطہ گرى ہوتاہے جو تدبير اور انتظامى اُمور كو منضبط كرنے كا كام ہے يعنى يہ ضابطہ بندى اجتہاد كے دائرہ سے خارج شے ہے، گويا فنى طور پر بهى فقہ كى تشكيل ِ نو اور شريعت كيتَقنين(قانون سازى) دو مختلف امر ہيں - بلا شبہ شرع ميں اضافہ و تبديلى كى گنجائش خليفہ يا امام كو بهى نہيں ہے- اس طرح انسانوں كو انسانوں كى غلامى ميں نہيں ديا جاسكتا- 5
علامہ اقبال كى آرا حتمى نہيں بلكہ فكر و نظر كے ارتقائى مراحل ہيں !
اس سلسلے ميں بحث شروع كرنے سے قبل يہ امر واضح كرنا ضرورى ہے كہ تحريك ِ پاكستان كے حوالے سے علامہ اقبال كا فكرى مقام بلاشبہ مسلم ہے اور اس تناظر ميں فكر ِاقبال كى اپنى جگہ اہميت بهى بجا ہے ليكن علامہ كى اس حيثيت كا يہ لازمہ نہيں كہ انہيں ائمہ سلف كے مقابل لاكهڑا كيا جائے اور پهر اس تقابل كے نتيجے ميں ائمہ سلف كو تو دورِ ملوكيت كا پروردہ جبكہ اقبال كو ’اسلامى نشاةِ ثانيہ‘ كا ’حدى خواں ‘ قرار ديا جائے جيساكہ اقبال كے بعض مداحوں كا شيوہ ہے- خصوصاً اس لئے بهى كہ ائمہ سلف اور اقبال كے ميدان ہائے كار الگ الگ تهے اور انہيں پيش آنے والے حالات ميں بهى باہمى مماثلت موجود نہيں -
جو لوگ اسلامى رياست كى فكرى تشكيل ميں علامہ كے نظريات كو دليل بناكر انہيں مجتہد ِ مستقل كا مقام دينا چاہتے ہيں ، انہيں معلوم ہونا چاہئے كہ علامہ اقبال كے يہ نظريات ان كى ٹهوس آرا كى بجائے ان كے ارتقائى نظريات تهے- چنانچہ كائناتِ ارضى كے مختلف حصوں ميں رونما ہونے والے واقعات پر غوروفكر كے نتيجے ميں اقبال كے ان نظريات كو، جو فكر ِ اقبال كے حاملين كو ان كے عقائد نظر آتے ہيں ، منزل تك پہنچنے سے قبل اس راہ كى بهول بھلیوں يا درميانى مراحل كا نام بهى ديا جاسكتا ہے-
عقيدہ كى بجائے نظرياتى ارتقا كى ايك قرآنى مثال
بطورِ مثال حضرت ابراہيم كو ديكهئے كہ’روٴيت ملكوت ِ سماوى و ارضى‘ كے سلسلہ ميں آپ ستارے سے لے كر چاند اور پهر سورج تك كے لئے اپنے خاص عنديے كا اظہار فرماتے رہے ليكن بالآخر آپ تائيد ِايزدى سے اصل حقيقت كى تہ تك پہنچ گئے- قرآن مجيد نے ان حالات كى تفصيل بيان فرمائى ہے اور طبرى وغيرہ مفسرين نے ان واقعات كو مشركين سے مناظرہ كى بجائے حضرت ابراہيم كے اپنے غوروفكر كے ابتدائى مراحل قرارديا ہے-6
اس كے برعكس علامہ اقبال كے بارے ميں ايسے خيالات كا اظہار كرنے والوں كا اشكال يہ ہے كہ وہ ان كے نظريات كو علامہ كى پختہ اور حتمى آرا ہى سمجهتے ہيں ، حالانكہ برصغير كے اس دور ميں پاكستان جيسى مجوزہ اسلامى رياست محض ايك تخيل تها اور ايسے تخيل سے مفكر كا تعلق زيادہ تر رومانوى ہوتا ہے- وہ اپنے افكار و نظريات كو اپنى آخرى اور حتمى/ عملى تجاويز كے طور پر پيش نہيں كرتا- پهر يہ كيسے ممكن ہے كہ تشكيل رياست كے بارے ميں علامہ كى طرف سے ايسے فلسفيانہ مباحث ميں شركت كو علامہ كى ائمہ سلف پر برترى كى دليل بنا ليا جائے ؟ بالخصوص اس لئے كہ علامہ نے جس دور ميں آنكھ كهولى، يہ مذہب و سياست كى ثنويت يا اسلام اور سيكولرزم كى فكرى جنگ كا زمانہ تها، جس ميں كہيں مذہبى روايات كے تحفظ كے لئے جہاد ہورہا تها تو كہيں سياسى سطح پر اسلام كا نفاذ ہى وقت كى مسلم تحريكوں كا مطمح نظر بن رہا تها- ان حالات ميں فكرى افراط و تفريط ايك لابدى امر تها- لہٰذا آج ائمہ سلف كى نام ليوا بعض شخصيتوں كے طرزِ عمل كے حوالہ سے ، خود ائمہ پر يوں كيچڑ اُچهالنا كہ ان كى فقیہانہ مساعى ملوكيت كى تائيد كے لئے تہيں ، جبكہ علامہ اقبال اسلامى نشاةِ ثانيہ كے واحد حدى خواں تهے؛ كوئى پسنديدہ رويہ نہيں كهلا سكتا- بالكل اسى طرح جيسے كوئى شخص موجودہ مسلم تحريكوں كے قائدين پر يہ الزام تراشى شروع كردے كہ ان كى تمام تر جديد مساعى مسلمانوں ميں سيكولر جمہوريت كو ترويج دينے كے لئے تهيں تو اسے مستحسن فعل قرار نہيں ديا جائے گا-
ائمہ اسلاف كى خدمات مسلمہ ہيں !
دورِجديد ميں اسلامى مملكت كے مختلف پہلووٴں پر خيال آرائى كيلئے ہمارے سامنے ايك وسيع ميدان ہے- چنانچہ جمہوريت و آمريت كا تقابل كرتے ہوئے اسلامى خلافت كے موضوع كوبهى زير ِبحث لايا جاسكتا ہے او را س كى تشكيل كے لئے تجاويز بهى پيش كى جاسكتى ہيں ليكن عصر ِ حاضر كے تناظر ميں ائمہ سلف كى كردار كشى كرنا، نہ صرف بہت بڑى جسارت اور پرلے درجے كى ناقدر شناسى ہے بلكہ انتہائى ناانصافى بهى- كيونكہ يہ وہ لوگ ہيں كہ علمى سطح پر انہوں نے عبادات ومعاملات كے جملہ پہلووٴں پرعملى تفصيلات پيش كرنے كے ساتھ ساتھ سياست وحكومت كى غلط روشوں كا مردانہ وار مقابلہ بهى كيا ہے- كوئى تسليم كرے يا نہ كرے ليكن ائمہ اربعہ سميت معتدبہ ائمہ كى قربانياں تاريخ كے اوراق ميں ثبت ہوكر بقاے دوام كى حيثيت اختيار كرچكى ہيں -
البتہ ائمہ كے زمانے اور موجودہ دور ميں يہ فرق ضرور ہے كہ ان لوگوں نے سياسى اُمور ميں جو كچھ بهى كہا، شرعى نكات كى وضاحت كے لئے كہا كيونكہ اس دور ميں زندگى ايك وحدت تهى- حتىٰ كہ تدبيرى اور انتظامى اُمور بهى شرعى ہدايات كى روشنى ميں انجام پاتے تهے، جبكہ دور ِ حاضر ميں سياست اور مذہب الگ الگ ہوگئے ہيں ، لہٰذا اسلام كے نام سے سياسى فلسفے بهگارنے كو ہى زندگى كے جامع فكر كى معراج سمجھا جانے لگا ہے-
كيا ’اجتہاد‘ شريعت كے خلا پُر كرنے كا نام ہے ؟
اس بحث كو آگے بڑهانے سے قبل ايك اور اہم تصور كا نكهار بهى ضرورى ہے كہ اسلام ميں اجتہاد كا بنيادى فنكشن كيا ہے؟ اجتہاد كيا بذاتِ خود تشريع (شريعت سازى)7ہے يا فقط شريعت كى تفہيم اور بدلتے حالات كے تقاضوں كے مطابق شريعت كے اطلاق يا وسعت كا نام ہے؟8
اسلامى شريعت ميں سياست و حكومت كے تمام اُمور بهى شريعت كى نگرانى ميں طے پاتے ہيں اس كے باوجود مقامِ حيرت ہے كہ بعض دانشور جسارت كرتے ہوئے يہاں تك كہہ ديتے ہيں كہ شريعت نے اسلامى حكومت كا كوئى مخصوص نظام نہيں ديا، لہٰذا احكامِ الٰہى كى غير موجودگى ميں يہ خلا اجتہاد سے پر كيا جائے گا- در حقيقت يہ لوگ اجتہاد كى تعريف ہى سے واقف نہيں - اجتہاد كا كام شريعت كے خلا پر كرنا نہيں ، بلكہ زندگى كے متنوع پيش آمدہ مسائل كے حل كے لئے شريعت كى وسعتوں كى تلاش اور انہيں احكامِ الٰہى كى حدود ميں لانے كا نام ’اجتہاد‘ہے، تاكہ مسلمان مكمل طور پر اپنى زندگياں منشا الٰہى كے مطابق بسر كرسكيں - اسلام كا اپنى طرز كا مكمل امتيازى دستور حيات ’كتاب و سنت ‘ہيں اور مذہب و سياست كے جملہ اُمور بهى اسى دستور كى روشنى ميں انجام پاتے ہيں - جبكہ جديد رياستوں كے موجودہ دساتير صرف ملكى سياست تك محدود ہوتے ہيں اور انہيں فرد و معاشرہ كى غير سياسى زندگى سے براہ راست كوئى سروكار نہيں ہوتا-
يہ دساتير و قوانين رياست كے حكمران يا عوامى نمائندے بناتے ہيں اور وہى ان كى تعبير وتغير كے ذمہ دار ہوتے ہيں ، ليكن اسلام ميں نہ تو دستور ِ حيات انسانى عقل و تجربہ كا نتيجہ يا ا س كا محتاج ہوتا ہے او رنہ ہى اس كى تعبير و تنفيذ انسانى تگ و تاز پر منحصر ركهى گئى ہے بلكہ اللہ تعالىٰ نے كتاب (قرآنِ مجيد) نازل فرما كر سنت ِ رسول (ﷺ) سے اس كى تعبير و تنفيذ بهى ہميشہ كے لئے كردى ہے- اب انسانى تفكر و تعقل سے ہزاروں نكتہ آفرينياں تو كى جاسكتى ہيں ، ليكن ان ميں سے كسى كو بهى حتمى مرادِ الٰہى نہيں قرار ديا جاسكتا-9 ہاں صرف اورصرف سنت وحديث ِرسول ہى حتمى تعبير دين ہے كيونكہ رسول بہرحال معصوم ہوتا ہے، اور اس كے علاوہ كوئى شخص بهى معصوم عن الخطاء نہيں سمجھا جاسكتا-
اسلام دورِ نبوى سے نافذ ہے !
اسلام كے اس دستورى فكر سے ناواقفى كى بنا پر ہى جديد سياسى بزرجمھروں نے عوام كے ذہنوں ميں يہ بات راسخ كردى ہے كہ جس طرح دستور و قانون پارليمنٹ و حكومت پہلے خود وضع كرتى ہے اور پهر اس كا نفاذ كرتى ہے بالكل اسى طرح پہلے شريعت وضع كرنى پڑے گى اور پهر اس كا نفاذ عمل ميں آئے گا- حالانكہ شريعت اللہ كى طرف سے مكمل ہوكر قيامت تك كے لئے نافذ ہوچكى اور
﴿ اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلاَمَ دِيْنًا﴾10
كے الفا ظ سے اس كا اعلان بهى ہوچكا ہے جس كاانتہائى واضح بلكہ عملى ثبوت يہ ہے كہ آج تك بہت سے مسلمان عبادات كے علاوہ سياست واقتصاد سميت اجتماعى معاملات ميں بهى، ذاتى طورپر شريعت كے احكام كى اتباع كرتے چلے آرہے ہيں - ورنہ نفاذ سے قبل كسى قانون يا شرعى حكم كى تعميل كا كوئى معنى ہى نہيں -البتہ حكومت سے اگر نفاذِ شريعت كا مطالبہ كيا جاتا ہے تو اسكا معنى صرف يہ ہے كہ وہ قانونى طور پر بهى اس كا اعلان كركے اپنے تئيں مسلمان بنائے اور يوں عوام و حكومت كے رويوں ميں يكسانيت پيدا ہوجائے-
كتاب اللہ كى تنزيل كے ساتھ ساتھ سنت وحديث كى شكل ميں تعبير شريعت بهى 23 سالہ دور ِ نبوت ميں مكمل ہوچكى-
سورة النحل ميں ارشاد ِ بارى تعالىٰ ہے :
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ تِبْيَـٰنًا لِّكُلِّ شَىْءٍ... ﴿٨٩﴾...سورۃ النحل 11
”ہم نے كتاب (بتدريج) نازل فرما كر اس ميں ہر شے بہت وضاحت سے پيش كردى ہے-“
دوسرى جگہ اسى سورةميں ارشاد ہوا :
وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ...﴿٤٤﴾...سورۃ النحل 12
” ہم نے يہ ذكر آپ پر نازل فرمايا ہے تاكہ آپ اسے لوگوں كے سامنے بيان كريں -“
پهر قرآن مجيد ہى نے بتلايا كہ جس طرح اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجيد كى حفاظت كى ذمہ دارى لى ہے، اسى طرح اس كے بيان (تعبيربصورت ِسنت وحديث ) كى حفاظت بهى اللہ ربّ العزت كے ذمہ ہے :
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُۥ وَقُرْءَانَهُۥ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَـٰهُ فَٱتَّبِعْ قُرْءَانَهُۥ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُۥ ﴿١٩﴾...سورۃ القیامۃ13
”اس قرآن كا جمع كرنا او رپڑهنا پڑهانا ہمارے ذمہ ہے- ( نبى!) جب ہم قرآن پڑهيں تو آپ اس پڑهنے كى اتباع كريں - پهر اس كا بيان بهى ہمارے ذمہ ہے-“
يوں كتاب اللہ كو رسولِ كريم ﷺ كى زندگى (سنت وحديث) ميں پروكر ہمارے سامنے پيش كردياگيا ہے، لہٰذا اسى كى پابندى كركے ہم زندگى كے جملہ شعبوں ميں راہنمائى حاصل كرسكتے ہيں - گويا جب دستورِ حيات (قرآن مجيد) بهى مل گيا اور اس كى تعبير بهى سنت ِرسول كے ذريعہ متعين ہوچكى تو ہمارا كام اب صرف يہ ہے كہ اسى دستور كو مضبوطى سے پكڑ كر اس پر عمل پيرا ہوں اورفردو معاشرہ كى فلاح و نجات سے ہم كنار ہوں - 14
اجتہاد كا حق صرف علماء دين كو حاصل ہے؟
اندريں صورت اسلام كى پارليمانى تعبير يا پرائيويٹ تعبير كى بحث ہى بے بنياد اور بلا جواز ہے- حكومت ہو يا علما اور عوام ، سبهى كتاب وسنت (اسلامى دستور و تعبير) كے پابند ہيں جو ان كى زندگى كے جملہ پہلووٴں كے لئے كامل و اكمل موجود و محفوظ ہيں - باقى رہا اجتہاد كا معاملہ تويہ عرض كيا جاچكا ہے كہ اجتہاد دراصل شرعى احكام ہى كى تلاش و اطلاق كا نام ہے، كوئى نئى شريعت وضع كرلينے كا نام نہيں -لہٰذا اس سلسلہ ميں ضرورتوں كے مطابق وہى لوگ رہنمائى دے سكتے ہيں جو كتاب و سنت كى زبان اور اس كے علوم كے ماہر اور ان كى بهرپور بصيرت ركهتے ہوں -
ہم ديكهتے ہيں كہ مريض كا علاج ڈاكٹر كرتا ہے، اور عمارت و مشين انجينئر كے ہاتهوں تيار ہوتى ہے، بالكل اسى طرح اجتہاد بهى ماہرين علوم شريعت كا كام ہے، يہ ہر كس و ناكس كا كارنامہ نہيں - ورنہ جس طرح نيم حكيم خطرہٴ جان ہوتاہے، بالكل اسى طرح نيم ملا خطرہٴ ايمان ہوتا ہے- لہٰذا علما كو تهياكريسى كا طعنہ دے كر اجتہادى ذمہ دارياں عوام كے سپرد كردينا نرا احمقانہ تصورہے- مقامِ غور ہے كہ اسلام ميں جب نہ تو دستور و قانون وضع كرنے كا اختيار ہى علما كے پاس ہے اور نہ ہى ا ن كى تعبير (انفرادى ہو يا اجتماعى) دائمى يا عالمگير ہوتى ہے تو تهياكريسى (پاپائيت) كيونكر قائم ہوگئى؟
’اجتہاد‘ ميں حكومت اتهارٹى ہے نہ علماء دين!
دستور و قانون كے سلسلہ ميں كسى خاص طبقے كى وضع و تعبير كے اعتبار سے اجارہ دارى تهياكريسى كى بنيادى روح ہے جو دليل كى بنياد پر نہيں بلكہ شخصى برترى كى بنا پر كسى طبقے كو حاصل ہوتى ہے- يہى حال حكمرانوں كے تصور ’اختيارِ حقوقِ ربانى‘(Devine Rules of Kingdom) كا ہے- چنانچہ دستور و تعبير ميں علما كو دائمى اور عالمگير اتهارٹى مانا جائے يا حكمرانوں اور پارليمنٹ كو، يہ بہرحال خدائى حقوق ميں دخل اندازى ہے جس كى قرآن مجيد نے يوں مذمت فرمائى ہے:
ٱتَّخَذُوٓاأَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَـٰنَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ ٱللَّهِ ... ﴿٣١﴾...سورۃ التوبہ
”اُنہوں (يہود و نصارىٰ نے) اپنے علما اور درويشوں كو اللہ كے سوا اپنا ربّ ٹھہراليا-“
مروى ہے كہ حضرت عدى بن حاتم طائى نے حضورنبى كريم ﷺ كے سامنے جب اس آيت پر يوں معارضہ پيش كيا كہ
”ہم اپنے علما اور درويشوں كو ربّ نہيں كہتے؟“
تو رسول اللہ ﷺ نے جواباً ارشاد فرمايا تها :
”تم انكے حلال كردہ كو حلال گردانتے ہو او رحرام كردہ كو حرام، يہى انہيں ربّ بنانا ہے-“16
لہٰذا حقوقِ الٰہى ميں دخل اندازى خواہ علما كى تسليم كى جائے يا حكومت وعوام اور پارليمنٹ كى، يہ انہيں ربّ بنا لينے كے ہى مترادف ہے- يہى وجہ ہے كہ ائمہ سلف نے خود كو كبهى اتهارٹى قرار نہيں ديا،بلكہ اس سلسلہ ميں خود انہوں نے اپنے اقوال كو كتاب و سنت پر پيش كرنے اور يوں اپنے استدلالات كى صحت و غلطى كا جائزہ لينے كى تلقين كى ہے-
جہاں تك موجودہ فقہى مكاتب ِفكر كى بات ہے تو يہ واضح رہنا چاہئے كہ موجودہ مذاہب ِ فقہ يا فرقے نہ تو انہوں نے بنائے اور نہ ہى يہ ان كے زمانہ ميں موجود تهے بلكہ يہ تو مخصوص حالات كے نتيجہ كے طور پر ان ائمہ كى بلا جواز اور جامد تقليد كے ذريعے چوتهى صدى ہجرى ميں معرضِ وجود ميں آئے- لہٰذا ان مذاہب يا فرقوں كو خود ان كے زمانہ ميں ثابت كرنا ناممكن ہے كجا يہ كہ بنى اُميہ اور بنى عباس كے ادوارِ خلافت سے آگے بڑھ كر دور ِ خلافت راشدہ ميں ان كا وجود ثابت كرنے كى جسارت كى جائے-
پس جب ائمہ سلف يا ان كى فقہ …جو ان كے متوسلين نے بعد ميں ترتيب دى ہے… اتهارٹى نہيں ، حالانكہ يہ كتاب و سنت پر عبور ركهتے تهے تو پهر جديد دور كے سياسى قائدين اور حكومت يا ان كے اجتہادات …جو اجتہاد كى ابجد سے بهى واقف نہيں ، تاوقتيكہ كتاب و سنت كى ماہرانہ بصيرت حاصل كريں … كيونكر اتهارٹى قرار ديے جاسكتے ہيں ؟
غور فرمائيے!عيسائيت جيسى سابقہ شريعت … جو اب تك حكومتوں كى سرپرستى ميں علما كى كونسلوں كے ذريعے مدوّن كى جاتى رہى ہے… ان كے حلال و حرام كو بهى حتمى سمجھنا قرآن مجيد نے خدائى اختيارات ميں دخل اندازى قرار ديا ہے تو اب شريعت ِمحمدى سياسى برزجمھروں يا حكومتوں كے ہاتهوں انجام پذير ہوكر كيونكر اتهارٹى بنے گى اور اس كى كيا حيثيت ہوگى؟ … عيسائيت كى تدوين كے بارے ميں اب تك بيس سے زيادہ كونسلوں نے جو كارنامہ سرانجام ديا ہے، وہ آپكے سامنے ہے- ان ميں بعض كونسلیں ايسى تهيں كہ حكومت كى سرپرستى ميں ان ميں دو دو ہزار كے قريب علما شريك ہوتے رہے، بايں ہمہ اس پاپائيت كو قبول نہيں كيا جاسكتا، تو وضع شريعت يا تعبير شريعت كے نام پرپارليمنٹ يا حكومت كا ’حق سبحانى‘ كيونكر تسليم كيا جاسكتا ہے؟17
تدوين (فقہ كى ترتيب ِنو) اور تقنين (دفعہ وار قانون سازى) كا فرق(i)
جہاں تك كتاب وسنت كى بجائے جديد انداز پر دفعہ وار دستور وقانون كى شكل ميں شريعت كى تشكيل نو كا مسئلہ ہے جسے اجتماعى اجتہاد بهى كہا جارہا ہے تو تَقنين شريعت كى يہ صورت كوئى پختہ اسلامى تصور نہيں ہے بلكہ يہ تصور مغرب سے متاثر جديد ذہن كى پيدوار ہے جو فرانس كى تقليد ميں مسلمانوں ميں درآمد ہوا ہے- ورنہ صحيح تصور يہ ہے كہ شريعت (كتاب اللہ) اور اس كى تعبير(سنت وحديث) مكمل ہوكربہت پہلے ائمہ سلف اُسے مدوّن بهى كرچكے ہيں - البتہ جہاں تك اجتہاد كا تعلق ہے تو پہلے فقہا كے اجتہادات اگرچہ فقہ و فتاوىٰ كى ضخيم كتابوں كى صورت ميں مدوّن موجود ہيں ، تاہم جديد طرز پر ان كى اجتماعى تدوين نو مقصود ہو تو يہ كام غلط نہيں بلكہ جديد موسوعاتِ فقہية كى شكل ميں اپنى افاديت كا منہ بولتا ثبوت ہے،بشرطيكہ يہ كام صاحب ِتقوىٰ اور علم و بصيرت كے حامل لوگوں كے ہاتهوں ہى انجام پائے- ليكن اس وقت اجتماعى اجتہاد كے حوالے سے جس نكتہ پر ہم گفتگوكررہے ہيں ، وہ فقہ و اجتہاد كى تدوين نو كا مسئلہ نہيں بلكہ تدوين كے مغالطہ ميں تقنين(شريعت كى قانون سازى) كى ضرورت كا ہے، جسے دراصل جديد عربى ذو معنى لفظ’تشريع‘ سے پيش كيا جارہا ہے- لہٰذا اس موضوع پر گفتگو كے وقت تدوين و تقنين كا فرق ملحوظ رہنا چاہئے، يعنى تدوين تو فقہ واجتہاد كو ترتيب دينے كا نام ہے جس كى تقليد بالخصوص علما اور قضاة پر لازمى نہيں ہوتى، جبكہ تقنين اپنے الفاظ ميں كسى خاص تعبير وتدوين شريعت كو قانونى جامہ پہنانے كا نام ہے جو حتمى امر ہوكر ايك طرف شريعت سازى اور خدائى اختيارات ميں دخل اندازى كا موجب بنتى ہے تو دوسرى طرف اسے اجتہاد بهى نہيں قرار ديا جاسكتا كيونكہ اجتہاد سے تو شريعت كى وسعتيں حاصل ہوتى ہيں جبكہ تقنين سے فرد و معاشره كو ايك خاص تعبير شريعت كى تقليد كا پابند قرار دے كر اجتہاد كے دروازے ان پر بند كرديے جاتے ہيں - قرآن مجيدكى نظر ميں اس كا نام اِصر وأغْلال (ii)ہے جسے ختم كرنے كے لئے رسول اللہ ﷺ تشريف لائے تهے-18
ارشادِ بارى تعالىٰ ہے:
وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَٱلْأَغْلَـٰلَ ٱلَّتِى كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ...﴿١٥٧﴾...سورۃ الاعراف 19
”يہ (رسول ) ان سے وہ بوجھ اور بندشيں دور كرتے ہيں جن ميں وہ جكڑے ہوئے ہيں -“
سعودى عرب كے مشہور مفتى اعظم شيخ عبد العزيز بن باز جديد انداز ميں شريعت كى تقنين كے بجائے علما اور قضاة كو كتاب وسنت سے براہ راست استفادہ اور اسى كى حدود ميں رہنے پر زور ديتے جس كى تشريح اور تفصيل كے لئے مسلمانوں كا وسيع علمى ورثہ ائمہ اسلاف نے چهوڑا ہے- اس كے لئے وہ درج ذيل قرآنى آيات سے استدلال كرتے :
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ ﴿٤٤﴾...سورۃ المائدۃ20
” اور جو لوگ اللہ كى نازل كردہ (شريعت ) سے فيصلہ نہيں كرتے ، وہى لوگ كافر ہيں -“
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ ﴿٤٥﴾...سورۃ المائدۃ21
” اور جو لوگ اللہ كى نازل كردہ (شريعت ) سے فيصلہ نہيں كرتے ، وہى لوگ ظالم ہيں -“
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَـٰسِقُونَ ﴿٤٧﴾...سورۃ المائدۃ
” اور جو لوگ اللہ كى نازل كردہ (شريعت ) سے فيصلہ نہيں كرتے ، وہى لوگ فاسق ہيں -“
علماء قضاة كے لئے ان كا استدلال مَا أنزل الله كے لفظ سے بڑا زور دار ہوتا، كيونكہ مَا أنزل الله سے مراد صرف وحى ہے جو كتاب وسنت ميں ہى منحصر ہے- اس كے علاوہ كسى بهى انسانى تعبير كو مَا أنزل الله قرار نہيں ديا جاسكتا- گويا فقہ اور شريعت ميں فرق ہے- اہل علم كے لئے شريعت الٰہى كى پابندى ضرورى ہے جبكہ ان كے لئے فقہى اختلافات ميں توسع كى گنجائش ہے- تقنين شريعت كے بعض پہلوؤں پر سابق صدرِ پاكستان جناب جسٹس (ر) محمد رفيق تارڑ صاحب سے ان كى بالمشافہہ گفتگو كے علاوہ خط وكتابت بهى ہوتى رہى-
اسلامى شريعت كے دامن ميں وسعتيں ہيں ، انسانى جكڑبندياں نہيں !
سابقہ آيات ميں وہى سابقہ شريعتوں جيسى تدوين و تقنين كى جكڑبنديوں كى طرف اشارہ ہے ليكن ستم تو يہ ہے كہ آج كے متجددين، اُمت ِمسلمہ كو دوبارہ انہى جكڑبنديوں ميں دهكيل دينا چاہتے ہيں جن سے اللہ ربّ العزت نے رسول كريم ﷺ كے ذريعے اپنے بندوں كو نجات دلائى تهى … طرفہ يہ كہ اس نظريہ كے حامل لوگ جس شدومد سے تقليد كى مخالفت كرتے ہيں ، اس سے كہيں زيادہ شوروغوغا آرائى كے ساتھ حكومت يا پارليمنٹ كى تعبير و تقنين كو اتهارٹى منوانے پر تلے ہوئے ہيں - فكرونظر كا يہ كتنا بڑا تضاد ہے؟ … كيا يہ بات سوچنے كى نہيں كہ كسى امام سلف كى تقلید اگر ان كى مہارتِ علمى كے باوجود لازمى نہيں تو آج كى پارليمنٹ بغير كسى ضمانت ِصحت اور دليل كے كيونكر اتهارٹى بن سكتى ہے؟
بعض حضرات نے علامہ اقبال كے حوالہ سے تركى ميں ’گرينڈ نيشنل اسمبلى‘ كے فيصلوں كو بهى شرعى اجماع كے مساوى قرار ديا ہے كہ خلافت يا امامت كو كئى افراد پر مشتمل ادارے يا منتخب اسمبلى كے سپرد كيا جاسكتا ہے اور اسى بنا پرپارليمنٹ كو خليفہ يا امام كے قائم مقام ٹھہرايا ہے- حالانكہ خليفہ يا امام كو يہ مقام كہاں حاصل ہے كہ ’تعبير نو‘كے نام پروہ شريعت كى تقنين كرے؟ اسلامى تاريخ ميں يہ عجمى تصور سب سے پہلے خليفہ منصور كے عجمى اديب عبد اللہ ابن المقفع نے پيش كيا، جس كا ذكر اس كے ايك رسالہ مشمولہ جمهرة رسائل العرب ميں بهى ملتا ہے- ليكن يہ عجمى فكر امام مالك وغيرہ ائمہ دين كى پُرزور مخالفت كى بنا پر نہ صرف پنپ نہ سكا بلكہ ابن المقفع كے ايسے ہى لادين افكار اسے ارتداد تك لے گئے او رانہى كى پاداش ميں وہ قتل كرديا گيا-
كو ئى عظيم امام بهى اپنے فہم شريعت كو عائد كرنے كا دعوىٰ نہيں كرسكتا !
كليلہ ودمنہ كے مصنف ابن المقفع كے اس تصور كى وجہ بهى وہى تهى، جو آج كل كے متجددين فقہى اختلافات كے حوالے سے پيش كررہے ہيں - اس نے خليفہ منصور سے يہ كہا تها كہ مفتى حضرات كے اختلاف فتاوىٰ اور قاضيوں كے متنوع فيصلوں كى بنا پر فكرى انتشار بڑھ رہا ہے، لہٰذا بہتر ہوگا كہ خليفہ ان تمام مختلف آرا كو جمع كركے ان سے متعلق ايك ايسى حتمى رائے متعين كردے، جس كے سب مفتى اورقاضى حضرات پابند ہوں - ليكن امام مالك نے اس فكر كى بهرپور مخالفت كى اور تادم آخر كرتے رہے-23
ان كا مشہور مقولہ ہے كہ
”ما من أحد إلا وهو مأخوذ من كلامه ومردود عليه إلا رسول الله !“
” رسول اللہ ﷺ كے علاوہ ہر كسى كى بات قبول بهى كى جاسكتى ہے اور رد بهى كى جاسكتى ہے مگر رسول اللہ كى بات صرف قبول ہى كى جائے گى، ردّ ہرگز نہيں كى جائے گى-“ 24
آخرى مرتبہ خليفہ ہارون الرشيد نے اسى تجويز كو امام مالك كے سامنے ايك دوسرى صورت ميں پيش كيا كہ كيوں نہ امام مالك كى موطأ كو كعبہ ميں لٹكا كرجملہ ديار وامصار كے مجتہدين كو اس كا پابند بنا ديا جائے؟ ليكن آپ نے اس صورت كو بهى قبول كرنے سے يہ كہہ كر انكار كرديا كہ موطأ سارى شريعت كا مجموعہ نہيں جبكہ صحابہ و تابعين كے مختلف علاقوں ميں پهيل جانے سے احاديث لوگوں كے پاس پہنچ چكى ہيں اور وہ ان پر عمل كررہے ہيں ، لہٰذا اصل ميں وحى كى اتباع ہى ضرورى ہے، خواہ وہ موطا ٴميں مندرج ہو يا خارج 25موطا ٴ، يوں يہ عجمى فكر ايك لمبے عرصہ تك دوبارہ سر نہ اُٹها سكا-
امام ابوحنيفہ تو اس سے بهى بڑھ كر محتاط تهے-قاضى كا اجتہاد اگرچہ شريعت كى ايك خاص تعبير ہوتا ہے اور وہ غلطى كے امكان كے باوجود لاگو بهى ہوتا ہے، تاہم امام ابوحنيفہ نے منصب ِقضا كو قبول كرنے سے صرف اس خطرے كى بنا پر انكار كرديا كہ قضا و قانون كے ميدان ميں مبادا ان پر دباوٴ ڈالا جائے اور حكومت ِوقت انہيں اپنى خواہشات كے سامنے جهكنے پر مجبور كرے-26
اسى طرح امام مالك او رامام احمد بن حنبل نے عقيدہ و عمل كے بعض بظاہر معمولى مسائل ميں حكومت كى فكرى آمريت كو تسليم نہ كيا- اس جرم ميں انہوں نے ذلت و نكبت كو تو بخوشى قبول كرليا، ليكن دين و شريعت پر آنچ نہ آنے دى- ان كا مطمح نظر يہ تها كہ اقتدارِ حكومت اور شريعت كى اتهارٹى دو عليحدہ امر ہيں - حكومت ِوقت چونكہ اپنى ’تعبير شريعت‘ پر مجبور كركے اپنے اختيارات سے تجاوز كررہى ہے، لہٰذا خلافت تسليم ہونے كے باوجود تعبير شريعت كى يہ آمريت ہرگز قبول نہيں كى جاسكتى- گويا ائمہ سلف نے سياسى مسائل ميں بهى آمريت كو منظور نہ كيا اور ا س كى خاطر اپنى جان اور عزت بهى داوٴ پر لگا دى-27
بعض دانشو رعلامہ اقبال كى آرا كو ترجيح ديتے ہوئے جب ائمہ اسلاف پر يہ الزام لگاتے ہيں كہ وہ ملوكيت كى حمايت كے لئے فقہى موشگافياں كرتے رہے، اس لئے ائمہ اسلاف كى پيروى كى بجائے جمہورى دور ميں آزاد عوامى آرا كا احترام كيا جائے گا توا ن كى رائے پر تعجب ہوتا ہے- كيا مذكورہ بالا قربانيوں كے بعد اُمت كے محسنوں كو دورِ ملوكيت كا پروردہ كہا جاسكتا يا ان كو آمريت كى ہم نوائى كا طعنہ ديا جاسكتا ہے؟
اس بحث سے يہ بات بخوبى واضح ہوجاتى ہے كہ اگر ان ائمہ سلف كى آرا اس بنا پر دين ميں لازمى حجت تسليم نہيں كى جاسكتيں كہ وہ انفرادى حيثيت ركھتى ہيں تو كيا علامہ اقبال كى رائے بهى انفرادى رائے نہيں ، اس رائے پر كون سى اسمبلى كا اجماع ہوچكا ہے؟ الغرض اگر ائمہ سلف كى تقليد بُرى شے ہے تو يہى شے علامہ اقبال كا نام آجانے سے قابل تعريف كيونكر ہوجائے گى؟ علامہ اقبال، جو بذاتِ خود تقليد كے بجائے اجتہاد پر زور ديتے ہيں ، كيسے اپنى تقليد پر راضى ہوسكتے تهے؟
حوالہ جات
1 1. اقبال، علامہ محمد:تشكيل جديد الٰہياتِ اسلاميہ ، اُردو مترجم:سيد نذير نيازى، مكتبہ كارواں پريس، انار كلى لاہور (1958ء) ص242، 243 ، 268، 275
ب. ’اشراق‘، ماہنامہ، لاہور (جون 2001ء) ص31، 32 مدير: جاويد احمد غامدى
ج. افضال ريحان:اسلامى تہذيب بمقابلہ مغربى تہذيب،انٹرويو ناصر شمسى،مطبع دار التذكير (2004ء) ص324، 325، 334
د. ’ميثاق‘ ، ماہنامہ لاہور ( اكتوبر 1997ء) ص 19 مدير : ڈاكٹر اسرا راحمد
ہ. يوسف گورايہ ، ڈاكٹر محمد: روزنامہ نوائے وقت،لاہور 18/نومبر 1986ء
و. ’طلوعِ اسلام‘، ماہنامہ لاہور (اكتوبر 1992ء)
ز. يوسف گورايہ ، ڈاكٹر محمد:جديد اسلامى رياست ميں تعبير شريعت كا اختيار، شيخ محمد اشرف،لاہور
2 ’ميثاق‘، ماہنامہ لاہور (اكتوبر 1997ء) ص 25 مدير: ڈاكٹر اسرار احمد
3 1. امين احسن اصلاحى، مولانا : اسلامى قانون كى تدوين، مكتبہ مركزى انجمن خدام القرآن ، لاہور (جون1976ء) ص 43، 44، 63
ب. خالق داد رانجها: اسلام ميں قانون سازى، مركز ِتحقيق ديال سنگھ ٹرسٹ لائبريرى، لاہور ص 47، 94
ج. ’ميثاق‘، ماہنامہ لاہور (اكتوبر 1997ء) ص 25 مدير: ڈاكٹر اسرار احمد
4 ’ميثاق‘، ماہنامہ لاہور( ستمبر 1997ء) ص 6 تا 10 خصوصاً ص 7 مدير: ڈاكٹر اسرار احمد
5 1. محمد بن ابراہيم آل الشيخ، مفتى اكبر سعودى عرب: رسالہ تحكيم القوانين (عربى)
اُردو ترجمہ حافظ حسن مدنى : ماہنامہ ’محدث‘ لاہور(اگست 1993ء) ص 133 تا 147
ب. سفر بن عبد الرحمن الحوالى، ڈاكٹر: شرح رسالہ تحكيم القوانين (عربى خطاب) ،
اُردو ترجمہ محمد بن صديق طابع وناشر غيرمذكور
خليجى ممالك ميں تقنين شريعت كے موضوع پر درج ذيل دو كتابيں قابل ذكر ہيں :
ج. عبدالرحمن عبدالعزيز القاسم: الاسلام وتقنين الأحكام في البلاد السعودية، مطبعة المدنى، شارع عباسيہ، قاہرہ ص 73 تا 77
د. محمدذكى عبد البر،ڈاكٹر : تقنين الفقہ الإسلامي،ادارہ احياء التراث الاسلامى، قطر ، ص 83 ، 84
6 1. الطبرى ،ابو جعفر محمد بن جرير:جامع البيان فى تاويل القرآ ن ، آيات 74 تا 83 ، دار الكتب العلميہ، بيروت( 1992 ء)، ج5/ص 246
ب. ابن كثير قرشى دمشقى ، ابوالفداء حافظ عماد الدين اسماعیل ،تفسیر القرآن العظیم ،مكتبہ دار السلام، رياض(1992ء ) ج2/ص169،170
7 اقبال، علامہ محمد:تشكيل جديد الٰہياتِ اسلاميہ، اُردو مترجم: سيد نذير نيازى، مكتبہ كارواں پريس، انار كلى لاہور (1958ء) ص228، 229، 234، 259، 260،267
8 امين احسن اصلاحى، مولانا: اسلامى قانون كى تدوين، مكتبہ مركزى انجمن خدام القرآن، لاہور (جون1976ء) ص 92
9 ابن تيميہ ،شيخ الاسلام احمد بن عبد الحليم: مقدمہ اصولِ تفسير(عربى)، مترجم: عبد الرزاق مليح آبادى، مكتبہ سلفيہ،شيش محل روڈ،لاہور (1970ء) ص 10
10 سورة المائدة /3
11سورة النحل/89
12 سورة النحل/44
13سورة القيامہ/17تا 19
14 عبد الرحمن مدنى، حافظ:پاكستان ميں شريعت كى عمل دارى ميں تاخير كيوں ؟ ماہنامہ ’محدث‘ لاہور: ج8/عدد 10،11، ص 3 تا 13
15 سورةالتوبہ/31
16 الترمذى، ابو عيسىٰ محمد بن عيسىٰ بن سورة:موسوعة الحديث الشريف (جامع الترمذى) مكتبہ دار السلام، الرياض ، حديث نمبر: 3095
17 1. عبد الرحمن مدنى،حافظ: شريعت محمدى يا سركارى؟ ماہنامہ محدث ،لاہور: ج 17/ عدد 3، ص 2 تا 7
ب. اكرام اللہ ساجد:قانون سازى كى بجائے كتاب وسنت كى دستورى حيثيت، ماہنامہ محدث، لاہور: ج 14/ عدد 11 ، ص 2 تا 7
18 1 اور ب : (ايضاً)
19 سورة الاعراف/157
20 سورة المائدة /44
21 سورة المائدة /45
22 سورة المائدة /47
23 الذہبى، ابو عبد اللہ شمس الدين:كتاب تذكرة الحفاظ،دائرة المعارف العثمانية ،حيدر آباد دكن (1956ء) ج1/ص 209
24 ارشاد السالك، ج 1/ص 227
25 عبد الرحمن محدث مباركپورى ، مولانا : مقدمة تحفة الاحوذى، دار الكتاب العربى ،بيروت ، ص 85
26 محمد ابو زہرہ : حيات امام ابو حنيفہ ، مترجم غلام احمد حريرى ،ملك سنز،فيصل آباد(1983ء) ص 97
1. ابن عبد البر: الانتقاء،ص 43،44
ب. ابن الجوزى : مناقب احمد بن حنبل،مطبعة عبد الفتاح الطويل،قاہرہ ،مصر : ص 416تا 45
i. شریعت (کتاب وسنت) کی وحی الٰہی ہونے کے ناطے امتیازی حیثیت مسلمہ ہے۔ یعنی اگر اس کا ثبوت محدثین کے مسلمہ معتمد طریقوں سے حاصل ہو جائے تو اجتہاد کی ساری وسعتیں انہی حدود میں رہیں گی، البتہ اجتہاد کے دعوے سے شریعت کی تشکیل نوکا سوال غلط ہے کیونکہ شریعت کا فہم یا اس کے وہ احکام جو انفرادی یا اجتماعی اجتہاد کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں ، ان کے بارے میں خواہ اجتماعی اجتہاد کو انفرادی اجتہاد پر کتنی بھی اہمیت کیوں نہ دی جائے یا اجتماعی اجتہاد کی بہتر سے بہتر صورتیں تلاش کرلی جائیں لیکن اسے شریعت کے قائم مقام یا تشکیل نو قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وحی الٰہی اور انسانی فقہ واجتہاد کا بہر صورت فرق واضح ہے۔ وحی الٰہی (کتاب وسنت) کی حیثیت عالمگیر اور دائمی ہوتی ہے جبکہ فقہ واجتہاد کی تدوین حالات وزمانہ کی ضرورت کے مطابق ہوتی ہے۔ فقہ کی تدوین نو کو شریعت کی تشکیل نو قرار دینا غلط ہے۔ تدوین اور تقنین کے فرق سے ہم شریعت اور فقہ کایہی علمی اور قانونی مرتبہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اجتماعی اجتہاد کے مغالطے میں نہ تو اسے شریعت کی تشکیل نو قرار دیا جائے اور نہ ہی اجتماعی اجتہاد کو اُصولِ فقہ کی معروف اصطلاح میں 'اجماع' سمجھا جائے۔لہٰذا جب ہم شریعت کی تشکیل نو یا شریعت کی تقنین (دفعہ وار قانونی شکل) پر تکیہ کرنے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو اُس کا مقصد یہی ہے کہ جدید فقہ کی کوششوں کو مروّ جہ دستور وقانون کی شکل دینے سے احتراز کیا جائے تاکہ علما اور قضاة کے لئے اجتہاد کی شرعی آزادی کا حق باقی رہے۔
ii.شریعت (کتاب وسنت) کی تقنین کا ایک ناقص پہلو یہ بھی ہے کہ وحی الٰہی کو انسانی الفاظ میں پیش کرنے سے اس میں وہ گہرائی اور گیرائی باقی نہیں رہتی جو وحی کا معجزانہ جوہر ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا عالم احکام الٰہی کو وحی سے بہتر الفاظ میں پیش کرنے پر قادر نہیں ۔یہی بات سابق صدرِ پاکستان جناب غلام اسحق خاں سے ایک مجلس میں جسٹس گل محمد نے اُس وقت کہی جب صدر صاحب نے جج حضرات کی شرعی ٹریننگ کی بجائے شریعت کی متفقہ دفعہ وار تقنین پر زور دیا تو جناب جسٹس صاحب نے ایمان افرو ز الفاظ میں یوں جواب دیا کہ ''شریعت تو وحی الٰہی ہے جو کتاب وسنت کی صورت میں مکمل بیان کر دی گئی ہے۔ اب کیا ہم وحی سے بہتر تعبیر پیش کرسکتے ہیں ؟'' اس جواب پر مجلس میں خاموشی چھا گئی۔