خواتین ایکٹ کے عواقب و مضمرات

زیر نظرمضمون محترم حافظ صاحب نے چند ماہ قبل ادارۂ محدث کو اشاعت کے لئے دیا تھا جس میں گذشتہ برس پاس ہونے والے تحفظِ حقوق نسواں بل کے خطرناک پہلوئوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ آج ہم بحیثیت ِقوم وملت جن مسائل کا شکار ہیں ، اس تک پہنچنے میں ہماری ماضی کی المناک غلطیوں کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔اس مضمون کو پڑھتے جائیے اور اپنے قومی اعمال نامے پر شرماتے جائیے کہ جس قوم نے اپنے ربّ اور دین کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا ہو، اس کو کیونکر دنیا میں عزت وامان حاصل ہوسکتی ہے؟ اس موقع پر یہ بھی یاد رکھئے کہ اس قانون کا بنیادی ڈرافٹ پیپلز پارٹی کا ایک سیا ہ کارنامہ ہے۔روزِ قیامت نافرمانوں کو قرآن کی یہ وعید یاد ر ہنی چاہئے:
{يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ ٱلَّذِينَ كَفَرُ‌واوَعَصَوُا ٱلرَّ‌سُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ ٱلْأَرْ‌ضُ وَلَا يَكْتُمُونَ ٱللَّهَ حَدِيثًا ﴿٤٢...سورۃ النساء}  اس دن ربّ کے منکر اور رسول کے نافرمان یہ خواہش کریں گے کہ کاش آج ان بداعمالیوں کا سامنا کرنے کی بجائے زمین ان پر برابر کردی جائے، اور وہ اللہ سے ایک برا عمل بھی چھپا نہ پائیں گے۔'' ح م

 


یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے مغربی آقایانِ ولی نعمت نے حدود آرڈیننس کی تنسیخ اور اس کی جگہ نئے ترمیمی قانون کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ اس پر نہایت مسرت کااظہار کیا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ وغیرہ کے مبارک بادی اور آشیربادی کے پیغامات اخبارات میں شائع ہوچکے۔ اس سلسلے میں جسٹس خلیل الرحمن خان کے مضمون کا ایک حصہ بھی بڑا چشم کشا ہے جو روزنامہ 'نوائے وقت' لاہور میں چارقسطوں میں شائع ہوا ۔ جسٹس صاحب موصوف لکھتے ہیں :
''تحفظ ِحقوقِ نسواں ایکٹ کے تحت جس طرح شادی کا اسلامی اور قانونی تصور مسخ کیا جارہا ہے، اسی طرح خاندانی نظام اور قانونِ وراثت میں ناجائز مداخلت کا دروازہ کھول دیا گیاہے۔ اس ایکٹ کو پارلیمان سے منظور کرانے کا پس منظر کیاہے؟ حکومتی حلقے اصرار سے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ دور رَس تبدیلیاں عورتوں کی حالت بہتر بنانے اور ان کے حقوق کے حصول کو یقینی بنانے اور قوم و ملک کے بہترین مفاد میں کررہے ہیں ۔ یہ تبدیلی نہ تو مغرب کے کلچر کی تقلیدہے اورنہ ہی یہ مغربی ایجنڈے کی پیروی ہے۔

قارئین بہرحال جانتے ہیں کہ بہت سی این جی اوز نے چند سال سے ڈالر کمانے کے لئے اسلامی قوانین کے خلاف کئی اداروں کی معاونت سے ایک طوفان برپا کررکھا تھا۔اس میں اس سال الیکٹرانک میڈیا بھی شامل کیا گیا۔ یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ ایک صد ملین ڈالر بالادست قوت اسلامی قوانین کے خلاف مہم پر خرچ کررہی ہے۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ ایک ٹی وی چینل نے ہربڑے شہر میں لمبے چوڑے بورڈ اور ہورڈنگ لگوائے۔ ٹی وی پر حدود قوانین پر پروگرام پیش کرنے سے پہلے جن پرلکھاتھا 'ذرا سوچئے'... بھاڑ میں جائیں مشرقی اقدار، اسلامی عفت اور شرم و حیا کی روایات، اور ایکٹ کے نفاذ کے بعد اسی چینل پر سکرپٹ چلائی جاتی ہے:'سوچنے کا شکریہ' مبارک ہو پارلیمان کے ممبران کو جن کے ووٹ سے قانون منظور ہوا اور مغرب کے ایجنڈا میں دیے گئے کام (Job) کی تکمیل ہوئی کیونکہ امریکہ کے اخبارات، ان کے کارپردازان اور تھنک ٹینک اس کام کی تکمیل پر از حد خوش ہیں ۔

امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بیوروآفس آف ڈپلومیسی اورہیومن رائٹس و لیبر کی مؤرخہ ۸؍نومبر ۲۰۰۵ء کو جاری شدہ رپورٹ اس معینہ کام (Job) کے بارے میں بہت کچھ واضح کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں درج ہے:
"As part of its education reform Initiatory the U.S Govt. continued to help the Education Ministry revise its curriculum, including eliminating the teaching of religious Intolerance. Embassy Officials remained engaged with all parties involved in the Madrassah reform to encourage similar changes. Embassy Officials pressed Parliamentarians and the Government to revise blasphemy laws and Hadood Ordinance to minimise abuses and raised concerns with Government Officials and religious leaders over growing rhetoric against Ismaili followers of Aga Khan and sectarian strikes in the Northern Areas."
''تعلیمی اصلاحات کی ابتدائی کوششوں کے طور پر امریکی حکومت نے نصاب میں ترمیم کے لئے وزارتِ تعلیم کی امداد جاری رکھی، اس میں مذہبی عدم رواداری کی حامل تعلیمات کا نصاب سے اِخراج بھی شامل تھا۔امریکی سفارت خانے کے حکام نے مدارس کے نصاب میں بھی ایسی ہی تبدیلیاں لانے کے لئے تمام ذمہ داران سے مسلسل رابطے کا کام سر انجام دیا۔ سفارت خانے کے حکام نے ارکانِ پارلیمنٹ اور حکومت پر زور دیاکہ توہینِ رسالت آرڈیننس اور حدود آرڈیننس کے غلط استعمال کو کم سے کم کرنے کے لئے ان میں ترامیم کی جائیں ۔ اُنہوں نے سرکاری حکام اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں ا ُنہیں اپنی اس تشویش سے آگاہ کیا کہ شمالی علاقہ جات میں آغا خان کے اسماعیلی پیروکاروں کے خلاف جذبات بھڑکائے جارہے ہیں اور وہاں فرقہ پرستی کے ہنگامے زوروں پر ہیں ۔''

اس تیرہ صفحات پر مکمل رپورٹ میں تعلیمی نصاب کی تشکیل نو اور تشہیر،قادیانی اصحاب و دیگر اقلیتوں ، اسماعیلی پیروکاروں سے سلوک اور مدارس کے نصاب میں تبدیلی کے بارے میں امریکی گورنمنٹ کی کوشش، تحریک اور تجاویز اورامریکہ کے سفارتکاروں کی ان معاملات میں حکومت پاکستان کے افسروں اور وزارتِ تعلیم اور وزارت مذہبی اُمور کوترغیب اورمعاونت کی تفصیل درج ہے۔ رپورٹ کے آخر میں من جملہ باتوں کے جو اختتامی ریمارکس دیے، وہ قابل توجہ ہیں :
"Chief concerns during this reporting period included the blasphemy laws, the Hadood Ordinances, curriculum reform in public education and madrassah education. Systems, treatment of Ahmedies community, sectarian violence and growing social presure on Ismaill followers of Aga Khan ...

The U.S Govt. continued to raise concerns in formally about the abuse of the blasphemy laws Hadood Ordinances with Govt. parliamentarians and Officials. Embassy Officials participated in a number of seminars that the NGO's organized to discuss these issues......

The new legislation that the Govt. enacted in January 2005 represented an important positive step in this direction. As a part of its over all public education reform program valued at $ 100 million (5.8 Billion Rupees). The United States provided substantial financial support to the Govt's curriculum reform initiative. which included the teaching of religious intolerance.
''مذکورہ رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں امریکی سفارتی حکام نے زیادہ تر توہین رسالت آرڈیننس، حدود آرڈیننس، تعلیم عامہ اور مدارس کی تعلیم، احمدی برادری سے سلوک، فرقہ ورانہ تشدد اور آغاخان کے اسماعیلی پیروکاروں پر روز افزوں سماجی دباؤ کے بارے میں تشویش ظاہر کی۔

امریکی حکومت کے اہلکاروں نے پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ کے ارکان اور حکام سے رسمی ملاقاتوں میں توہین رسالت قوانین اور حدود قوانین کے غلط استعمال بارے اپنی تشویش کااظہار کیا۔ سفارت خانے کے حکام نے کئی سیمیناروں میں شرکت کی جو این جی اوز نے ان مسائل پر بحث کرنے کے لئے منعقد کئے۔

حکومت نے جنوری 2005ء میں جو نئی قانون سازی کی، اس میں بھی اس سمت میں ایک اہم قدم اُٹھایا گیا۔امریکہ نے اپنے آل پبلک ایجوکیشن ریفارم پروگرام کے ایک جزو کے طور پر جس کی مالیت 10 کروڑ ڈالر (8ئ5 ارب روپے)تھی، حکومت ِپاکستان کے نصابی اصلاحی اقدامات کے لئے خاطر خواہ مالی امداد فراہم کی، جس میں مذہبی عدم رواداری کی تعلیم (کے سدباب کے لئے دی گئی امداد بھی) شامل تھی۔''

اس کے بعد رپورٹ میں مدرسہ ریفارمز پروگرام کے بارے میں جو نتائج حاصل کئے گئے، ان کاذکر ہے۔ مدرسہ ریفارم میں امریکی حکومت کا دباؤ، کردار اورمالی معاونت ایک الگ مضمون ہے ؛ وہ بحث اور اس کی تفصیل کسی اور وقت کے لئے اُٹھائے رکھتے ہیں ۔

سب سے پہلی بات کہ کسی آزاد اور باوقار قوم اور حکومت کے لئے اس طرح ڈکٹیشن لینا اور امریکی سفارتی عملہ کا اس حد تک دخل دینا کہاں تک جائز ہے۔ ہمارے ملک اور ہماری قوم کے لئے نصابِ تعلیم کیاہونا چاہئے اور ہمارے قوانین کیاہونے چاہئیں ، یہ ہمارا اندرونی اور ذاتی مسئلہ ہے اور ہمیں بتایا بھی یہی جاتاہے کہ یہ سب کچھ ہم کسی دباؤ کے تحت نہیں بلکہ خود اپنے قومی اور ملی مفاد میں کررہے ہیں لیکن ان سب رپورٹوں اور غیر ملکی اخباروں میں امریکی حکام کا دعویٰ کہ ہمیں خوشی ہے کہ ان کی ریفارم تحریک بارآور ہورہی ہے اور جب امریکی ڈالر اسی کام کی تکمیل کے لئے وصول کئے ہوں تو بہت نہیں تو تھوڑا سر تو نیچا کرنا ہی پڑتاہے(شرم آئے یا نہ آئے) اور پھر کیا کیاجائے کہ جو کچھ ایسی رپورٹوں میں درج ہو، وہی ہمارے محترم وزراے کرام کی پالیسی سٹیٹمنٹ میں بھی درج ہو۔ ملاحظہ ہو وزیر تعلیم کا بیان :
''جنرل مضامین سے اسلامی مواد ہٹا دیں گے۔ نیا تعلیمی نصاب زور دے گا کہ پاکستان مذہبی ریاست نہیں ، سکولوں میں تنگ نظر مذہبی رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ بچوں کو محض مولوی نہیں بنانا چاہیے۔ دو قومی نظریہ سے پیچھے نہیں ہٹ رہے۔ ''1

وزیر باتدبیر کو کون بتائے کہ حضور آپ تو وہی زبان بول رہے ہیں جو کہ ہمارے اور آپ کے آقا کے بیانوں اور رپورٹوں میں درج ہیں ۔ کون اُنہیں یاد دلائے کہ آپ آئین پاکستان کو بھی بھول گئے ہیں ۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل نمبر 2 کہتا ہے کہ اسلام مملکت پاکستان کا مذہب ہے:
Islam shall be stat religion of Pakistan.

اور ابھی تک آرٹیکل 2؍الف بھی دستور کا حصہ ہے اور آغاز یا مقدمہ Preamble میں بڑی صراحت کے ساتھ اسلام، عقیدہ اور ایمان سے وابستگی اورعوام کی زندگی اسلام کے اُصولوں (جسے مغرب انتہا پسندی اورتنگ نظری کا نام دیتاہے) سے زندگی استوار کرنے کے عزم کااظہار کرتاہے۔

اسلام تعلیم کے ذریعہ ہی ذہنی اور فکری انقلاب کا حامی ہے۔ ذہنی تربیت صرف اسلام کو ایک مضمون کے طور پر پڑھانے سے ممکن نہیں ہوتی جبکہ اس مضمون کو بھی خاص ڈھانچے میں ڈھالنے کا اہتمام ہو بلکہ یہ ایک ہمہ گیر پروگرام اور بامقصد تعلیمی پروگرام اور نظم سے ہی آتا ہے۔ اس ذہنی نشوونما میں فرق وہی کرسکتے ہیں جنہوں نے اسلامی سکولوں اور مشن سکولوں سے فارغ التحصیل بچوں کا کبھی موازنہ کیاہو۔

مغرب کو کس قسم کااسلام قبول ہے، اس کی وضاحت 'رینڈ کارپوریشن' (ایک امریکی تھنک ٹینک) کی رپورٹوں سے عیاں ہے۔ انور سعید ایک امریکی مسلمان مفکر کا کہنا ہے کہ رینڈ کارپوریشن کی رپورٹیں مغربی کلچر کی یلغار کا حصہ ہیں جو کہ اسلام کا چہرہ مہرہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ بی نارڈ Benardجو زلمے خلیل زاد کی بیگم (زلمے خلیل زاد افغانستان میں امریکہ کے سفیر رہے ہیں اورآج کل وہ عراق میں تعینات ہیں ) کی رپورٹ کے بارے میں لکھتی ہیں کہ اس رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ امریکہ کو ایک نئے اسلام کی ترویج کا ذمہ اپنے اوپر لیناچاہئے، ایک ایسا اسلام جو امریکی مفادات کے مطابق ہو :
"Benard in her report suggest that America take upon itself to devise nothing less than a new "Islam" carefuly crafted in order to suit American interest."
'' بینارڈ نے اپنی رپورٹ میں یہ مشورہ بھی دیا کہ امریکہ ایک نیا اسلام وضع کرنے کا کام اپنے ذمے لے جو بڑی احتیاط سے گھڑا جائے تاکہ وہ امریکی مفادات کے لئے سازگار ہو۔''

سو پاکستان میں جدت پسند اور نئے اسلام کے حامی اور دیگر سیکولر خیال کی پولیٹیکل پارٹیز اسلامی قوانین، فوجداری نظام اور نظامِ تعلیم کو مغربیت کے پیمانے پر جانچتے ہوئے تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ مسلمانوں کے قوانین، روایات اور نظام کی روح اور مقاصد مغرب کے قوانین، روح اور مطمع نظر اور نظام سے کسی طور میل نہیں کھاتا۔ یہی وجہ ہے کہ دو قومی نظریہ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور شاعر مشرق کے خیالات اور سوچ کو نئے معانی پہنائے جارہے ہیں بلکہ اب تو کچھ لوگ دو قومی نظریہ سانحۂ 1971ء کے ساتھ ہی کالعدم اور غیر مؤثر ہونے کا پرچار بھی کررہے ہیں ۔یقین نہیں آیا تو دیکھئے اخبار 'ڈان' کا اداریہ مؤرخہ9 دسمبر 2006ء

اس یلغار کو روکنے کے لئے اسلامیانِ پاکستان کو آئین پاکستان، اس کے اسلامی نظریہ اور نظام کو بچانے کے لئے ایک سوچ اور ایک انداز کے ساتھ متحد ہوکر آگے آنا ہوگا۔ وگرنہ خالق و مالک کا فیصلہ تو اَٹل ہے ہی۔''2

زیربحث قانون کی وضاحت کے لئے چند واقعات اور خبریں
علاوہ ازیں چند واقعات بھی جواخبارات میں شائع ہوئے ہیں ، ہماری آنکھیں کھولنے اوراس قانون کی اصل حقیقت (جس کی وضاحت مذکورہ سطور میں کی گئی ہے) مزید واضح کرنے کے لئے کافی ہیں مثلاً ،پیر پگاڑا نے اپنے اخباری ویاکھیان میں کہا:
''خواتین حدودبل وقت کی ضرورت ہے... چار دیواری کے اندر بے ہودگی کی اجازت ہونی چاہئے۔''3

بے ہودگی کا مطلب وہی جنسی آزادی ہے جس کی سہولت تحفظ ِخواتین ایکٹ میں دی گئی اورپیرپگاڑا نے اس کی تائیدکی ہے، سچ ہے :
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر ؛ باز با باز


ایک اور خبر ملاحظہ فرمائیں :
دیپالپور: حدود قانون کی مخالفت پر دو نوجوانوں نے بزرگ کو پیٹ ڈالا !!
نوجوان قانون پر خوشی کااظہار کررہے تھے، بزرگ نے حقیقت بتائی تو وہ برہم ہوگئے۔


دیپالپور(نامہ نگار) تحفظ ِحقوقِ نسواں بل پردو نوجوان ایک بزرگ سے جھگڑ پڑے۔ تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز مقامی کالج کے دو طالب علم کالج سے چھٹی کے بعد جنرل بس اسٹینڈ میں موجود حمام میں آئے اور کنگھا کرنے لگے۔ اسی دوران ایک طالب علم نے اپنے دوسرے طالب علم کومخاطب ہوکر کہاکہ تحفظ ِحقوقِ نسواں بل اب پاس ہوچکا ہے اور مکمل آزادی ہوگئی ہے اب اپنی دوست لڑکی کو کہیں لانے یالے جانے میں کوئی دقت نہیں رہی۔ اب پولیس کو کوئی اختیار نہیں رہاکہ وہ کسی کو پکڑے یا مقدمہ درج کرے۔ ان کی گفتگو سن کر حمام میں موجود عمر رسیدہ بزرگ نے ان سے کہا کہ آپ کو اس وقت اس بات کا احساس ہوگا جب تمہاری بہن یا بیٹی سے کوئی ایسا کرے گا اور شکایت لے کر جاؤ گے اور پولیس تمہیں قانونی کارروائی سے معذرت کرے گی جس پر وہ دونوں طالب علم شدید مشتعل ہوگئے اور اس کے گلوگیرہوگئے اور غلیظ گالی گلوچ کرنا شروع کردی۔ قریبی دوکانداروں نے حمام کے اندر جاکر بزرگ کی جان چھڑائی۔4

ایک اور مراسلہ ملاحظہ ہو جو 'نادیدنی' کے عنوان سے نوائے وقت لاہور (9جنوری 2007ء) میں شائع ہواہے :
''مکرمی! شام کے ۴ بجے تھے، ہم اپنی بیگم کو ساتھ لے کر لاہورکے ایک پارک میں واک کے لئے گئے اور بھی بہت سے مرد و خواتین اور بچے سیرو تفریح میں مشغول تھے اور سورج کی ہلکی تمازت کو انجواے کررہے تھے۔ میری بیٹی اور اس کا دو سالہ بیٹا بھی وہیں آگئے کہ ہم نے دیکھا کہ ایک نوجوان قریباً چوبیس پچیس سال کا بغیر آستین کے ٹی شرٹ اورکالے رنگ کی پینٹ پہنے ہلکی ہلکی جوگنگ کررہا ہے۔ تھوڑا پیچھے سے ایک اٹھارہ انیس سال کی لڑکی کانوں کو ہیڈ فون لگائے چست ولائتی جامہ پہنے بھرپور جوگنگ کرتی ہوئی آئی۔ جونہی وہ اس نوجوان کے پاس سے گزری، ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر ہم لوگ دیکھتے ہی رہ گئے۔ ان دونوں کے بازو ایک دوسرے کی کمر میں حمائل ہوگئے اور چند قدم اسی طرح 'مخلوط' جوگنگ ہوئی اور پھر شاید شدتِ جذبات کا غلبہ ہواکہ دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ تمام دوسرے جوگنگ اور واک کرنے والے مرد وزَن دم بخود کچھ خواتین نے منہ پرے کرلئے۔ وہ تو بھلا ہو وہاں موجود سیکورٹی گارڈ کا کہ وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ بھاگتا ہوا آیا اور بآوازِ بلند کہاکہ صاحب یہ کوئی پیرس نہیں ہے، آپ کیا کررہے ہیں اور اُن دونوں نے اسی طرح لپٹے ہوئے حیرانگی اور حقارت سے گارڈ کی طرف دیکھا جس پر اُس نے ہمت کی اور ان کو ایک دوسرے کے 'پنجوں ' سے چھڑایا۔''

آپ لکھتے رہئے، اپنی اقدار کے متعلق آپ کہتے رہئے کہ ہم غلام در غلام ہوتے جارہے ہیں اور ان کے جواب بھی سن رہے ہیں کہ کیا مرد عورتیں اکٹھے ہوائی جہاز میں سفر نہیں کرتے، کیا دفتر میں کام نہیں کرتے، کیا اکٹھے شاپنگ نہیں کرتے تو اکٹھے بھاگ لیاتو کیاکیا؟ اور پھریہ بھی تو کہا گیا کہ جنہیں شرم آتی ہے یا جنہیں نہیں دیکھنا تو وہ گھر بیٹھیں یا منہ پرے کرلیں ۔ ہم تو گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اور اگرلبرل ازم اورماڈرن ازم ہمارے پارکوں ، ہماری سڑکوں یعنی ہمارے گھروں میں آجائے تو پھرکیا کریں ؟ گھروں سے نکل کر ویرانوں میں چلے جائیں یاپھر حضرت اکبر الٰہ آبادی کے مطابق :
میں نے تو یہ سوچ رکھا ہے کہ اکبر آج سے
خانقاہ میں بیٹھ جاؤ ڈَٹ کے قوالی سنو سید محمد بابرشاہ5

ایک اور اخباری تبصرہ ملاحظہ ہو
''دو غریب لڑکیوں سے جبری زیادتی یعنی Rapeکا ایک کیس سامنے آیا۔ دونوں مظلوم لڑکیاں بیان درج کروانے عدالت پہنچ گئیں اوروہاں زار و قطار روتی رہیں ۔اس واقعے کی خبر اخبارات میں اس لئے چھپ گئی ہے کہ تحفظ ِخواتین آرڈیننس ابھی سینیٹ سے پاس نہیں ہوا ہے۔ یہ قانون پاس ہوکر نافذ ہونے دیں پھر دیکھئے گا کہ ریپ کی شکار کس عورت میں اتنی ہمت ہوتی ہے کہ وہ انصاف کے لئے فریاد کرے اور اخبارات میں خبر چھپوائے ؟ بہرحال دو چار دن کی بات ہے ایسی خبریں خلافِ قانون قرار پائیں گی۔''

ایک اور اخباری کالم ملاحظہ ہو:
'' یہ بل خواتین اور ان کے دوست مردوں کے حق میں ہے یا نہیں ، یہ پولیس کے خلاف ضرور ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس زنانہ و مردانہ تعلق اور رابطے میں پولیس کو دخل اندازی میں مشکل پیش آئے گی اور ایسی خبریں بند ہوجائیں گی جن میں بتایا جاتاہے کہ کل رات فلاں ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس پرچھاپہ مارکر اتنی عورتوں اور اتنے مردوں کو فحاشی اوربدکاری کے الزام میں گرفتار کرلیاگیا، اس کے بعد کیا ہوا اس کی خبر میں نے کبھی شاذو نادر ہی دیکھی ہے، کیونکہ پولیس کی خصوصی دلچسپی گرفتاری کی حدتک ہوتی ہے اوراس کارروائی کے ثمرات سے اس کے بعد اگر یہ کیس عدالت میں جاتا ہے تو پولیس کی بلا سے وہاں عدالت جانے یاوکیل حضرات۔

مشہور ہے کہ لاہور کے ایک وکیل صاحب جنہوں نے اپنا کیمپ آفس تھانہ ٹبی (بازارِحُسن) کے قریب قائم کررکھا تھا، اپنے پاس ضمانت ناموں کے عدلیہ سے دستخط شدہ فارم رکھا کرتے تھے اور بوقت ِضرورت ان میں ملزم کا نام بھر کر تھانے میں پہنچ کر ملزم کو ضمانت پررہاکرا لیتے تھے، خود پولیس بھی مقدمہ درج کرنے سے پہلے پہلے ایسی رہائی کردیاکرتی ہے۔پولیس کو مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب وہ مقدمہ درج کرکے چالان عدالت میں بھجوا دیتی ہے اور اس طرح ملزم اس کے ہاتھ سے نکل کر عدالت کے سپرد ہوجاتاہے۔

یہ بل جسے تحفظ ِنسواں بل کہا گیاہے، میں نے بھی پڑھنے کی کوشش کی ہے، لیکن سواے اس کے کہ اب مرد عورت کے تعلقات میں خاص آسانیاں پیداہوگئی ہیں ، بات زیادہ سمجھ میں نہیں آسکی۔ وہ تو نفاذ کے لئے جب قانون تیار ہوگا تو کسی وکیل صاحب سے اس کے اَسرار و رموز سے باخبر ہونے کی کوشش کی جائے گی۔ ویسے ہم عام لوگوں سے زیادہ پولیس والوں کو فکر ہوگی اور جب یہ قانون اس کے پاس پہنچے گا تو پولیس کے ماہرین اس پر غور کریں گے اور اس نئے قانون کو اپنے لئے مفید اورکارآمد بنانے کے راستے تلاش کریں گے۔ خیال یہی ہے کہ ماہرین پولیس اس قانون کو کارآمد بنانے کے کئی راستے تلاش کرلیں گے، کیونکہ آج تک کوئی قانون ایسا تیار نہیں کیا جاسکا جس سے تھانیدار اور پٹواری کوبے بس کیا جاسکے۔

مشہور ہے کہ ایک سرکاری اہلکار شدید قسم کابدعنوان تھا ، بہت سوچا گیا کہ اس کوکیاڈیوٹی دی جائے کہ وہ بدعنوانی نہ کرسکے۔ عقلمند اہلکاروں نے طے کیا کہ اسے دریا کی لہریں گننے پرلگا دیاجائے، وہاں وہ کیاکرسکے گا۔ چنانچہ اسے دریا کے کنارے بھیج دیا گیا، چند دن بعد وہاں سے بھی اس کی شکایتیں آنے لگیں ۔ معلوم ہواکہ لہروں کی گنتی کے دوران کوئی کشتی اُدھر سے گزرتی تو وہ ملاح کو پکڑ لیتا کہ تم نے میری گنتی خراب کردی ہے اورلہروں کاحساب کتاب گڑ بڑ کردیاہے۔

اس بل کی منظوری پر بازارِحُسن وغیرہ میں بہت خوشی منائی گئی ہے اور خوشی منانے والوں نے ایک بات یہ کہی ہے کہ پولیس ہمارے کوٹھوں پر چھاپے مارتی تھی، اب وہ ایسا نہیں کرسکے گی۔ ان لوگوں کو خوش ہونے کا حق حاصل ہے، لیکن عین ممکن ہے ان کی یہ خوشی عارضی ثابت ہو اور پولیس تھانے میں بیٹھی ان پر ہنس رہی ہو کہ خوش ہولو قانون آنے دو پھر تمہیں پتہ چلے گا کہ تمہارے تحفظ کاکیاحال ہوتا ہے۔ یوں تو ایک مقابلہ حُسن میں شریک ایک پاکستانی لڑکی سحر محمود نے ایک بیان میں خوبصورت جسم کی نمائش کو ملک و قوم کے لئے بیرونی سرمایہ کاری سے زیادہ مفید اور اس کی نیک نامی اور مشہوری کا بہت بڑا ذریعہ قرار دیاہے؛ کہا کہ اگر جنرل مشرف دو برس مزید رہ گئے تو پاکستان میں بھی ایسا مقابلہ حُسن منعقد ہوگا، لیکن معلوم ہوتا ہے اس پاکستانی لڑکی کا واسطہ کبھی قانون پر عملدرآمد کرنے والے پاکستانی اداروں سے نہیں پڑا جو فحاشی کے جرم میں اسے تھانے میں بند کرکے اس کے حسن کا معائنہ کرتے تو اسے پتہ چلتا کہ نمائش حسن اور مقابلہ حسن کیا ہوتاہے اور اس سے ملک کی ترقی کیسے ہوتی ہے؟

اس بل کو مغربی دنیا میں بہت سراہا جارہا ہے اور امریکہ سے آنے والی خبروں میں بتایاگیا ہے کہ پاکستان اپنی دقیانوسیت سے نکل کر روشنی کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ ایک بہت ہی حوصلہ افزا امر ہے۔ مغربی دنیاکے پاس زندگی کا کوئی نظریہ تو ہے نہیں صرف ایک سرمایہ داری کا نظام ہے جولوٹ مار پر مبنی ہے، اس کے پاس اگر کچھ ہے تو وہ اس کا کلچر ہے جسے وہ مغربی تہذیب وتمدن کا نام دیتاہے۔ اسی کلچر کو پھیلانااس کا مشن ہے جسے امریکی دانشور اور سیاستدان ہنری کسنجر نے 'روشن خیالی' اور 'اعتدال پسندی' کا نام دیاہے۔ ہم نے اس بات کو اپنے پلے باندھ لیا ہے۔ امریکہ اگر روشن خیالی کے اسی رنگ ڈھنگ سے خوش ہوتا ہے تو ہمارا ایک صوفی تو بہت پہلے کہہ چکا ہے کہ ''مینوں نچ کے یار مناون دے''

یہ جو تحفظ ِنسواں کابل ہے، اس کا ایک خصوصی فائدہ اس رقص و سرور کا تحفظ ہے۔ مسئلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری سوسائٹی میں راتوں کو جو کچھ ہوتا ہے وہ تو کسی قانونی مدد کے بغیر بھی ہورہاہے اور اسے کوئی روک نہیں سکتا، اسے تو انسان کا قدیم ترین پیشہ بھی کہا گیاہے، اس لئے بہتر یہی تھاکہ اسے ایک قانونی جواز عطاکردیا جائے کہ چاردیواری کے اندر جو چاہو کرتے رہو،مگر اس انقلابی قانون کافائدہ تب ہوگا جب پولیس کو بھی اس قانون کا قائل کیا جائے گا، ور نہ وہ اسے بھی دوسرے کئی قوانین کی طرح ناکام اور اپنی مطلب برآری کاذریعہ بنا لے گی۔ ہمارے قانون سازوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے اور اس قانون کی روشنی میں پولیس کا ریفریشر کورس کرانا چاہئے۔''

اب ایک خاتون کا خط جو 'نوائے وقت' کے کالم 'نقشِ خیال' میں شائع ہوا، پڑھیے:
''یوں تو 'مضامینِ تازہ' کاایک انبار سالگاہے اور ہرموضوع دامانِ قلم کو اپنی طرف کھینچ رہاہے لیکن آج ای ایم ای سوسائٹی لاہورسے مسز شہناز چودھری کا خط ملاحظہ فرمائیے :
''محترم عرفان صدیقی ! آداب...'نوائے وقت' میں آپ کا کالم ضمیرکوتازہ دم رکھے ہوئے ہے۔ کاش آپ کی آواز صاحب ِاقتدار لوگوں تک بھی پہنچ پائے۔ آج کل تو روزانہ ہی تواتر سے ایسی دل خراش خبریں آرہی ہیں کہ دل سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ ذرا ان خبروں کا تسلسل ملاحظہ ہو :
حدود آرڈیننس میں ترمیم کا بل منظور ہوگیا۔
صدر اور وزیراعظم نے اس بل کی منظوری پرقوم کومبارکباد دی۔
ٹونی بلیر کی آمد پر فیصل مسجد میں 'لاؤڈ سپیکر پر عصر' کی اذان کی ممانعت کر دی گئی۔
فوج کا ماٹو : ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ بدلا جارہاہے۔


میں تو حیران ہوں کہ مسلمان ہوتے ہوئے ان خبروں پر مجھے ہارٹ اٹیک کیوں نہیں ہوا اورہمارے علماے کرام میں سے بھی کسی کی حرکت ِقلب بند نہیں ہوئی، میں سوچ رہی ہوں کہ اب جو خبریں آنے والی ہیں ، وہ کچھ اس طرح کی ہوں گی :
توہینِ رسالت پرموت کی سزاختم کردی گئی۔ (میرے منہ میں خاک!)
مرتد کی سزا ختم کردی گئی۔
اسقاطِ حمل کی قانونی اجازت دے دی گئی۔
ہم جنس پرستی جائز قرار دے دی گئی۔
پاکستان میں مقابلہ حُسن کا انعقاد ہورہاہے۔
شراب پر عائد پابندی ختم کردی گئی ہے۔
جوا خانوں کی تعمیر کی قانونی اجازت دے دی گئی۔


یاپروردگار! یہ سیلاب کہاں جاکر رُکے گا؟ کون اس کے سامنے بند باندھے گا؟ ہم یہ سب کچھ سننے، سب کچھ دیکھنے کے لئے کیوں زندہ رہے؟ کوئی تو اُٹھے جو کہے کہ جو یہ خرافات چاہتے ہیں ، اُن کے پاس تو پہلے ہی امریکی ویزے ہیں ، وہ وہاں ک یوں نہیں چلے جاتے؟ وہ ہمارے اس جنت جیسے پاک وطن کو کیوں ناپاک کرنے پرتلے ہوئے ہیں ؟ کیایہ پچھلے سال 8؍ اکتوبر کا زلزلہ بھول گئے ہیں ؟ اب یہ کون سے عذابِ الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں ؟

قوم کو مہنگائی، فحاشی، عریانی اور ناچ گانے کے چکر میں اُلجھاکر ، اسے بے حس کردیا گیا ہے۔ اسے ان سات برسوں کے دوران تقسیم در تقسیم کردیا گیاہے۔ اب اگر خدانخواستہ کسی طرف سے مشرق یا مغرب سے ہم پر یلغار ہوئی تو کون لڑے گا؟ کیا ہم عراقی قوم کی طرح لڑ سکتے ہیں جنہوں نے امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ؟ کیا ہم افغانیوں کی طرح روکھی روٹی پیاز کے ساتھ کھا کر دشمن کامقابلہ کرسکتے ہیں ؟ پہلے تو ہندوستان سے لٹ کر اپنے گھر اور زمینیں جلتی چھوڑ کر ہمارے والدین اور آباؤ اجداد پاکستان آگئے تھے، اب وہ کہاں جائیں گے؟ اے غفور الرحیم! ہمارے حکمرانوں کے دل اور دماغ کو بدل دے۔ یااللہ ان کو سوچنے اورسمجھنے کی صلاحیت دے؟ آخر اُنہوں نے امریکہ کو کیوں خدا مان لیاہے؟

آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے نوجوان جذبۂ جہاد کے تحت ہی فوج میں جاتے ہیں ۔ اگر آپ 'جہاد' کے نعرے کو 'اتحاد' سے بدل دیں گے تو کون جائے گا؟ کیسا اتحاد؟ ہمارے حکمران اور سیاستدان اتحاد پیدا کررہے ہیں یااتحاد کو پارہ پارہ کررہے ہیں ؟ اگر جہاد کانعرہ تبدیل کیاجارہا ہے تو فوجی تربیت گاہوں کا نصاب بھی ضرور بدلا جارہا ہوگا؟ کیا اس میں سے بھی جذبۂ جہاد اور جذبۂ ایمان پیداکرنے والی وہ آیات نکالی جارہی ہیں جو ایک فوجی کیڈٹ میں Motivationپیدا کرتی ہیں ؟ ...کوئی ہے جو وہاں کی خبرلائے؟

میں نے ۲۱ سال پڑھایا ہے۔ میں سائنس کی لیکچرر رہی ہوں جس نے بچوں کے سامنے ڈاکٹر قدیر کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا۔ میرے بہت سے شاگرد KRL اور غلام اسحق انسٹی ٹیوٹ میں کام کررہے ہیں اور ہمارے ہیرو کا کیا حال کردیا گیا ہے؟ عرفان صاحب! اب لکھانہیں جارہا،دماغ شل ہوگیا ہے۔ کوئی تو کچھ کرے، یااللہ تو ہی رحم کر۔ آمین!''

اب اصل قانون پرگفتگو... صرف ایک نکتے پر بحث!
زناکے انسداد کو حکومت کی ذمہ داری سے نکال کر اسے انفرادی اور پرائیویٹ معاملہ قرار دے دیاگیاہے۔ جیسے کسی کاکوئی نقصان ہوجائے، اس پرکوئی ظلم و زیادتی کرے، اس کی جائیداد پرناجائز قبضہ کرے تو وہ عدالت میں مقدمہ دائر کرے اوروہاں سے سالہا سال کی مقدمہ بازی کے بعد اور وکیلوں کی بھاری فیسیں اورعدالتی اخراجات کے بعد حصولِ انصاف کی کوشش کرے۔

اسی لئے اس جرم کو پولیس کی مداخلت سے بالکل آزاد کردیا گیاہے، جب کہ کوئی ٹریفک سگنل توڑ دے، یا کسی گھر میں جعلی نوٹ چھاپنے کی پولیس کو اطلاع ملے تو اس قسم کے معمولی جرائم میں پولیس مداخلت کرسکتی ہے، پکڑ دھکڑ کرسکتی ہے، گھروں کے اندر چھاپے مارسکتی ہے لیکن زنا کاری اتنا ہلکا جرم ہے اور زنا کار مرد و عورت اتنے محترم ہیں کہ پولیس اس پر مطلع ہونے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتی۔ اس کی تفصیل
خوش تر آں باشد کہ سرّ دلبراں
گفتہ آید در حدیث دیگراں

کے مصداق، ایک محترم کالم نگار جناب ثروت جمال اصمعی کے الفاظ میں حسب ِذیل ہے:
''حقوقِ نسواں بل کی منظوری کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے وہ یہ ہے کہ فرض کیجئے خدانخواستہ آپ کے پڑوس میں بدکاری کاکوئی اڈّہ کُھل جاتا ہے۔ تو اب آپ نہ تو اس کی رپورٹ مقامی تھانے میں کرسکتے ہیں نہ پولیس از خود اس کے خلاف کوئی کارروائی کرسکتی ہے۔ آپ اس اڈّے کو بند کرانا چاہتے ہیں تو آپ کو سیشن کورٹ سے رجوع کرنا ہوگا۔ تاہم وہاں بھی محض کوئی رپورٹ درج کرانے سے کام نہیں بنے گا۔ اگر آپ کے سر میں بدی کے خاتمے کا سودا سمایا ہے تو اس کے لئے پہلے چار ایسے افراد تیار کرنے ہوں گے جو تحریری اور حلفیہ گواہی دے سکیں کہ اس اڈّے پر بدکاری ہوتے اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ پھر اُن چاروں کو لے کر آپ کو عدالت جانا ہوگا۔ عدالت کے طریق کار کے سارے تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ اس کے بعد یہ چاروں گواہ آپ کی مدعیت میں اپنے حلفیہ تحریری بیان جمع کرائیں گے۔ اس کے باوجود جج صاحب کو اگر آپ کے دعوے اور گواہوں کے بیانات پر اطمینان نہیں ہوتا تو وہ آپ پانچوں کے خلاف کسی مزید ثبوت کے بغیر اور آپ کو اپنے دفاع کا کوئی موقع دیے بغیر محض اپنی صوابدید پر حد قذف جاری کرسکیں گے جو شرعاً تو ۸۰ کوڑے ہے مگر نئے قانون میں پانچ سال قید مقرر کی گئی ہے۔ یعنی آپ میں سے ہر ایک کو معاشرے کو برائی سے پاک کرنے کے شوق کی پاداش میں پانچ سال قید کی سزا بھگتنی ہوگی۔ گویا بدکاری اب ریاست کے خلاف کوئی جرم نہیں ہے۔ ریاست اپنے طور پر اسے ختم کرنے کی ذمہ دار نہیں ہے۔ فحاشی کے اڈّوں کی روک تھام اب پولیس اور انتظامیہ کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔ اگر کسی کو اس سے تکلیف پہنچ رہی ہو تو وہ خود گواہ لے کر عدالت جائے اور مجرموں کو سزا دلانے سے کہیں زیادہ یقینی طور پر خود سزا پانے کے لئے تیار ہوکر جائے۔ ظاہر ہے اس کے بعد اگر طوائفوں نے اس بل کی منظوری پر مٹھائیاں بانٹی ہیں تو اُنہیں ایسا کرنا ہی چاہئے تھا۔ یہی صورتِ حال اس شخص کو بھی پیش آئے گی جس کی کسی عزیزہ کے ساتھ جبراً زیادتی کی گئی ہو۔ مجرم کے خلاف اب وہ تھانے میں رپورٹ درج نہیں کراسکتا۔ اس کے بجائے اسے حلفیہ بیان کے لئے چار گواہ تیار کرکے اُنہیں عدالت لے جانا ہوگا اور ان گواہوں کو بھی قذف کی سزا کا خطرہ مول لے کر گواہی دینی ہوگی۔ ریاست اور اس کی مشینری مجرم کے خلاف کسی تفتیش اور جرم کے ثبوت کی تلاش کی ذمہ داری سے مبرا ہوگی۔ پھر اگر کسی پر جرم مکمل طور پر ثابت بھی ہوجائے تو اسے قرآن و سنت میں مقرر کردہ سزا دینے کے بجائے جج اپنی صوابدید کے مطابق کچھ قید اور جرمانے کی سزا دے کر اس کی گلوخلاصی کردے گا۔ اس طرح یہ قانون قرآن و سنت کی منشا کے بالکل برعکس مجرم کے لئے سہولتیں فراہم کرے گا جبکہ اس کی ہوس کا نشانہ بننے والی مظلوم عورت کی ریاست کوئی مدد نہیں کرے گی بلکہ اس کی دادرسی کی راہ میں تقریباً ناقابل عبور مشکلات حائل ہوں گی۔ اسی لئے علماے کرام اس قانون کو انسدادِ بدکاری کے بجائے قرآن وسنت سے صریحاً متصادم 'فروغِ بدکاری کا قانون' قرار دے رہے ہیں ۔''6

اس کے لئے عذر یہ تراشا گیا ہے کہ ایک تو پولیس لوگوں کو ہراساں کرتی ہے۔ دوسرے، گھروں کی حرمت پامال ہوتی ہے۔ سبحان اللہ! اسے کہتے ہیں : عذر ِ گناہ بدتر از گناہ!

کوئی ان سے پوچھے،کون سا قانون یا معاملہ ایسا ہے جس میں پولیس کا رویہ نامعقول نہیں ہوتا؟ پھر تو ہر معاملے میں ہی اور ہر قانون پر عملدرآمد کرانے میں ہی پولیس کا کردار ختم کرنا چاہئے، نہ کہ صرف زنا کے معاملے ہی میں ۔

اسی طرح گھر کی حرمت کا خیال زنا کاروں کے معاملے ہی میں کیوں ؟ کسی بھی معاملے میں پولیس کو گھروں میں چھاپے مارنے کی اور گھروں کی حرمت پامال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مسئلہ نہ گھر کی حرمت کا ہے اور نہ پولیس کے ہراساں کرنے کا، اصل بات جو اس قانونِ زیر بحث کے خالقوں کے ذہنوں میں ہے، وہ ہے بدکاری کو فروغ دینا اور اس راہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جرمِ زنا کو ناقابل دست اندازئ پولیس ہی قرار نہیں دیا گیا بلکہ مقدمے کے اندراج کا طریقہ بھی ایسا انوکھا ایجاد کیاگیا ہے جو ساری دنیا سے نرالا ہے اور ایسا مشکل ہے کہ کوئی زنا کی شکایت درج ہی نہیں کراسکے گا۔ گویا

نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی
پھر زنا کی تقسیم زنا بالرضا اور زنا بالجبر کا پس منظر بھی مغربی معاشرہ ہے۔ اسلام میں زنا کی یہ تقسیم نہیں ، ہر دو صورت میں اجنبی مرد و عورت کا آپس میں جنسی تعلق قائم کرنا 'زنا' ہے اور دونوں قسم کی سزا بھی ایک ہے۔ البتہ جبر کی صورت میں حد کا نفاذ صرف جبر کرنے والے پر ہوگا، مجبور مرد یا عورت مستثنیٰ ہوگی۔ اسلام میں زنا کی دو قسمیں نہیں ، البتہ زنا کاروں کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک شادی شدہ زانی اوردوسرا غیر شادی شدہ (کنوارا) اور ان دونوں کی سزاؤں میں بھی فرق ہے۔ شادی شدہ زانی مرد و عورت کی سزا سنگساری (رجم) ہے یعنی نہایت عبرت ناک انداز سے پتھر مار مار کر اس کی زندگی ختم کردینا ہے اور کنوارے زانی مرد و عورت کی سزا سو کوڑے ہیں ۔

سب سے بڑا ظلم زنا کی اصل سزا کا خاتمہ ہے جو سو کوڑے یا رجم ہے جیسا کہ ابھی وضاحت کی گئی۔ اسی طرح قذف کی اصل سزا بھی جو 80 کوڑے ہے، ختم کردی گئی ہے اور ان کی جگہ دونوں جرموں کی سزا 5 سال تک قید اور 10 ہزار روپے تک جرمانہ ہے۔ البتہ زنا بالجبر کی سزا 25 سال قید یا موت ہے۔

یہ تبدیلی قرآن سے بغاوت اور کفر و ارتداد کے مترادف ہے۔ ان تمام حضرات کو جنہوں نے اس کو معرضِ تحریر میں لانے، اس کی بابت فکری مواد مہیا کرنے، اس کی نوک پلک سنوارنے اور اس کو پاس کرانے میں گونگے شیطان بنے، حصہ لیا۔ ان سب کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہئے اور اگر ایمان کی کوئی رَمق ان کے اندر باقی ہے تو توبہ کرکے اپنے ایمان کی تجدید کرنی چاہئے،کیونکہ قرآن کا فیصلہ ہے :
فَلَا وَرَ‌بِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ‌ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِىٓ أَنفُسِهِمْ حَرَ‌جًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥...سورۃ النساء
''آپ کے ربّ کی قسم! یہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو حَکَم (ثالث) تسلیم نہ کرلیں ، پھر آپ کے فیصلوں پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور دل و جان سے اس کو تسلیم کرلیں ۔''

نیز فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى ٱللَّهُ وَرَ‌سُولُهُۥٓ أَمْرً‌ا أَن يَكُونَ لَهُمُ ٱلْخِيَرَ‌ةُ مِنْ أَمْرِ‌هِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ ٱللَّهَ وَرَ‌سُولَهُۥ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَـٰلًا مُّبِينًا ﴿٣٦...سورۃ الاحزاب
''کسی مؤمن مرد اور کسی مؤمنہ عورت کے یہ لائق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں ، تو (اس کے بعد ) ان کے معاملے میں ان کا اختیار ہو اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتاہے، یقینا وہ کھلی گمراہی میں جاپڑا۔''

ایک اور ستم ظریفی یہ کی گئی ہے کہ ۱۶ سے کم عمر کی لڑکی اگر بدکاری کا ارتکاب کرے گی تو ہمیشہ کے لئے یہ قطعی اور پیشگی فیصلہ کردیا گیا ہے، گویا کہ اس قانون کے بنانے والے علام الغیوب ہیں کہ یہ زنا بالجبر ہی ہوگا۔ اس لئے سولہ سال سے کم عمر کی بچی سزا سے مستثنیٰ ہوگی،۱ور سزا صرف مرد کو ملے گا (اگر ملی تو)

ظاہر بات ہے کہ ایک تو قطعی فیصلہ یکسر غلط ہے؛ ۱۴،۱۵ سال کی بچیاں رضا مندی سے زنا کرسکتی ہیں ، دو ٹوک انداز میں اس کی نفی کردینا ہر لحاظ سے غلط ہے۔

دوسرا، یہ باور کرلیا گیا ہے کہ لڑکی سولہ سال سے پہلے بالغ نہیں ہوتی۔ یہ بھی حقائق و واقعات کے یکسر خلاف ہے۔ بلوغت کا تعلق صرف عمر سے نہیں ہے بلکہ علامات سے زیادہ ہے جیسے احتلام، حیض وغیرہ۔ بالخصوص آج کل ہمارے ملک میں 12 سال سے 15 سال کے درمیان اکثر بچیاں بالغ ہوجاتی ہیں ۔ بنا بریں اس عمر کی بچیوں کو جنسی خواہش سے مبرا قرار دے کر سزا سے مستثنیٰ کرنا نہایت تعجب خیز امر ہے۔

دراصل اس قانون کے خالق چاہتے یہ ہیں کہ ہمارا معاشرہ جنسی بے راہ روی میں مغرب کے معاشروں سے کسی طرح پیچھے نہ رہے۔ مغرب میں اس عمر کی بچیاں نوجوان لڑکوں سے جنسی تلذذ حاصل کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتیں ، حتیٰ کہ ان کو حمل بھی ٹھہر جائے تو یہ بھی ان کے ہاں عیب نہیں ، نہ معاشرہ ہی ایسی نوعمر بچیوں کے بن بیاہی مائیں بننے پر کوئی حرف گیری یا انگشت نمائی کرتی ہے۔ مشرق کے 'مغربی' بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہاں بھی بن بیاہی ماؤں کا ایک طوفان آجائے جیسے مغرب میں یہ طوفان ساری حدوں کو توڑ چکا ہے۔

ایک اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ زیر بحث قانون کی ترمیم نمبر 5 کی رُو سے اگر کوئی خاوند اپنی بیوی سے اُس وقت مباشرت کرے جب بیوی اس کام کے لئے آمادہ نہ ہو، تو یہ بھی زنا بالجبر کا ارتکاب ہوگا جس کی خود ساختہ سزا، سزاے موت یا سزاے قید جو کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ 25 سال ہوسکتی ہے اور وہ جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہوگا، کیونکہ اس دفعہ کے الفاظ حسب ِذیل ہیں :
''کسی مرد کو زنا بالجبر کا مرتکب کہا جائے گا جب وہ کسی عورت کے ساتھ مندرجہ ذیل پانچ حالات میں سے کسی صورت میں جماع کرے :
اس کی مرضی کے خلاف
اس کی رضا مندی کے بغیر...''

کسی عورت کے عموم میں بیوی بھی شامل ہے، کیونکہ بیوی یا منکوحہ یا مملوکہ کا استثنا اس میں نہیں ہے ، لہٰذا اپنی بیوی کے ساتھ بھی اس کی رضا مندی کے بغیر جماع کرنا ایسا جرم ہوگا جس کی سزا ، سزاے موت ہوسکتی ہے۔

یہ کوئی خوامخواہ کی موشگافی، بذلہ سنجی یا لطیفہ گوئی نہیں ہے بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جس کا اظہار اُس طبقے کی خواتین کی طرف سے ہوتا رہا ہے جس کی خوشنودی کے لئے امریکہ بہادر بھی 'ایڈ' دے رہا ہے اور اس کی خاطر یہ سارے پاپڑ بھی بیلے جارہے ہیں ۔ مغرب زدہ بیگمات کی اس خواہش کو بھی قانون کا جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ کوئی مشرقی حیا ووفا کی پیکر عورت چاہے ایسا نہ کرے، لیکن مغربی تہذیب کی والہ و شیدا عورت مستقبل قریب میں یورپ کی یہ روایت یہاں بھی دہرا سکتی ہے کہ خاوند کے زبردستی جماع کی خواہش پورے کرنے پر خاوند میاں حوالہ زنداں کردیئے جائیں گے، کیونکہ وہاں ایسے مقدمات قائم ہوچکے ہیں اور شوہر میاں سزا یاب!

جب کہ اسلام کا حکم یہ ہے کہ عورت کی طبیعت آمادہ ہو یا نہ ہو، خاوند اگر جنسی خواہش کی تسکین چاہتا ہے تو عورت فوراً سرتسلیم خم کردے خواہ وہ تنور ہی پر بیٹھی ہو۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ساری رات فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں کہ اس نے خاوند کی خواہش کا احترام نہیں کیا۔

اسلام میں یہ بھی ہے کہ معاملہ عدالت میں جانے کے بعد یا مقدمے کا فیصلہ ہوجانے کے بعد کسی کو معاف کرنے کا حق نہیں ہے۔ اللہ کے رسول کو بھی یہ حق حاصل نہیں تھا۔ لیکن زیر بحث قانون میں یہ حق صدرِ مملکت کے علاوہ صوبائی حکومتوں کوبھی دے دیا گیا ہے کہ وہ فیصلہ ہوجانے کے بعد مجرم کو معاف کرسکتی ہیں ۔

گویا اوّل تو اثباتِ جرم کا طریقہ ایسا نرالا، اتنا مشکل اور ایسا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ کسی کو زانی ثابت ہی نہیں کیا جاسکے گا اور اگر کوئی کسی وجہ سے مجرم ثابت ہوبھی گیا تو سزا پھر بھی یقینی نہیں ، البتہ اس کی بریت اور رہائی یقینی ہے کہ معاف کرنے والے اس کی معافی کا پروانہ جاری کردیں گے۔ علاوہ ازیں اعترافِ جرم پر بھی سزا کا کوئی تصور موجودہ ایکٹ میں نہیں ہے!

گویا عبرت ناک سزائیں اور اللہ و رسول کی مقرر کردہ حدیں ہی ختم نہیں کی گئیں بلکہ اس امر کا پورا اطمینان حاصل کرلیا گیا ہے کہ یہ خود ساختہ برائے نام سزائیں بھی کسی کو نہ مل سکیں اور یوں ہم اپنے مغربی آقاؤں کو یہ کہہ سکیں کہ ہم نے بھی آپ کی طرح زنا کو جرم نہیں ، بلکہ اس کا ارتکاب کرنے والوں کا 'حق' سمجھا ہے۔ ہم بھی آپ ہی کی طرح لبرل اور روشن خیال ہیں ، اپنا حق 'وصولنے' پر سزا کا ہے کی؟ 'انتہا پسند' بے شک شور مچائیں لیکن
کون سنتا ہے فغانِ درویش یا آوازِ سگاں کم نہ کند رزق گدارا


حوالہ جات
1. نوائے وقت: 19؍ دسمبر
2. روزنامہ 'نوائے وقت' لاہور: 4،5 جنوری2007ء
3. 'نوائے وقت' لاہور : 7 دسمبر 2006ء
4. ماہنامہ' حرمین' جہلم: شمارہ نومبر، دسمبر 2006ء
5. روزنامہ نوائے وقت، 9 جنوری2007ء
6. روزنامہ 'جنگ' لاہور: 10 دسمبر 2006ء