نکیرین کے سوال کے وقت اِعادۂ روح کا مسئلہ

زیر نظر مضمون میں اِعادۂ روح سے ہماری مراد قبر میں منکر و نکیر کے سوالات کے وقت میت کی طرف اس کی روح کا لوٹایا جانا ہے اور علماے اہل سنت والجماعت کا بھی یہی مذہب ہے کہ دفن کے بعد میت کی طرف اس کی روح کو سوال و جواب کے وقت لوٹا دیا جاتا ہے۔ قبر میں سوالات کے وقت روح کا بدن میں لوٹایا جانا ایک ثابت شدہ امر ہے جس سے انکار کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں،کیونکہ میت سے قبر میں جو سوالات کیے جاتے ہیں وہ اس قدر اہم ہوتے ہیں کہ انہی سوالات کے صحیح جوابات پر ہی مرنے والے کے مستقبل کا فیصلہ ہوتا ہے، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ماضی میں بھی بعض لوگ اور حال میں بعض گروہ چند خود ساختہ وجوہ کی بنا پر اس کے منکر ہیں۔

قبر میں اعادئہ روح کے ثبوت پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی ایک صحیح و صریح احادیث منقول ہیں جس میں سے چند ایک سطورِ ذیل میں بیان کی جارہی ہیں:
سیدنا براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ایک انصاری صحابی کے جنازے میں گئے، پھر ہم قبرستان پہنچے جبکہ ابھی تک لحد تیار نہیں ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو ہم بھی آپؐ کے ارد گرد اس طرح بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندہ بیٹھا ہو۔ آپؐ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس کے ساتھ آپؐ زمین کرید رہے تھے۔ آپؐ نے سرمبارک بلند کرکے دو یا تین بارارشاد فرمایا: (استعیذوا باﷲ من عذابِ القبر) ''اللہ کے ساتھ عذاب قبر سے پناہ مانگو'' بعدازاں آپؐ نے فرمایا:

(إنَّ العَبدَ المؤمنَ إذا کان في اِنقطاع من الدنیا وإقبالٍ من الآخرة، نَزَل إلیه ملائکة من السماء، بَیضُ الوجوه، کأَنَّ وجوھُھم الشمسُ، معھم کفَنٌ من أکفان الجنة وحُنُوطٌ من حنوط الجنة، حتی یجلسوا منه  مَدَّ البصر، ثم یجيئُ مَلَکُ الموت علیه السلام حتی یجلسَ عند رأسه، فیقول: أیُّتُھَا النفسُ الطیبة! اُخرُجي إلی مغفرة من اﷲ ورضوان قال: فتَخرُجُ تَسِیْلُ کما تسیل القَطرَة من فِي السقاء، فَیأخُذُھا فإذا أخذھا، لم یَدَعوھا في یده طرفة عینٍ حتی یأخذوھا، فیجعلوھا في ذلک الکفنِ وفي ذلکَ الحُنوط، ویخرج منھا کَأطیَبِ نفحة مِسکٍ وُجِدَت علی وجه  الأرضِ قال: فیصعدون بھا، فلا یمرون ۔یعني بھا۔ علی ملإ من الملائکة إلا قالوا: ما ھذا الروح الطیب؟ فیقولون: فلان بن فلان، بأحسن أسمائه التي کانوا یسمونه  بھا في الدنیا، حتی ینتھوا بھا إلی السماء الدنیا، فیستفتحون لہه فیفتح لھم، فیشیعہ من کل سماء مقربوھا إلی السماء التي تلیھا، حتی ینتھي بہ إلی السماء السابعة، فیقول اﷲ عزوجل: اکتبوا کتاب عبدي في علیین، وأعیدوه إلی الأرض فإني منھا خلقتُھم وفیھا أعیدھم، ومنھا أخرجھم تارة أخری قال: فتعاد روحه في جسده، فیأتیه  ملکان فیجلسانه، فیقولان له: من ربک؟ فیقول: ربي اﷲ، فیقولان له: ما دینک؟ فیقول: دیني الإسلام، فیقولان  له: ما ھذا الرجل الذي بُعث فیکم؟ فیقول: ھو رسول اﷲ ! فیقولان له: وما علمک؟ فیقول: قرأت کتاب اﷲ فآمنت به وصدقت۔ فینادي مناد من السماء: أن صدق عبدي فأفرشوه من الجنة وألبسوه من الجنة، وافتحوا له بابا إلی الجنة قال: فیأته من روحھا وطیبھا، فیفسح له  في قبره مد بصره، قال:ویأتیه  رجل حسن الوجه، حسن الثیاب، طیب الریح، فیقول: أبشر بالذي یسرک، ھذا یومک الذي کنت توعد، فیقول له: من أنت؟ فوجھک الوجه  یجیئ بالخیر۔ فیقول: أنا عملک الصالح۔ فیقول: رب أقم الساعة! حتی أرجع إلی اھلي ومالي قال :وإن العبد الکافر إذا کان في انقطاع من الدنیا،وإقبال من الآخرة، نزل إلیه من السماء ملائکة سود الوجوہ معھم المسوح، فیجلسون منہ مد البصر، ثم یجيء ملک الموت، حتی یجلس عند رأسہ، فیقول أیتھا النفس الخبیثة! اخرجي إلی سخط من اﷲ) قال: (فتفرق في جسدہ، فینتزعھا کما ینتزع السفود من الصوف المبلول، فیأخذھا ۔فإذا أخذھا لم یدعوھا في یدہ طرفة عین، حتی یجعلوھا في فلک المسوح، ویخرج منھا کأنتن ریح جیفة وجدت علی وجہ الأرض فیصعدون بھا، فلا یمرون بھا علی ملإ الملائکة، إلأ قالوا: ما ھذا الروح الخبیث؟ فیقولون: فلان بن فلان، بأقبح أسمائہ التي کان یسمی بھا فی الدنیا، حتی ینتھی بہ إلی السماء الدنیا، فیستفتح لہ، فلا یفتح لہ)، ثم قرأ رسول اﷲ! {لاَ تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَائِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّة حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ} (فیقول اﷲ عزوجل: اکتبوا کتابہ في سجین ، فی الأرض السفلی، فتطرح روحہ طرحا) ثم قرأ: {وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاﷲِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَائِ فَتَخْطُفَہُ الطَّیْرُ أَوْ تَھْوی بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ} (فَتُعَاد روحہ في جسدہ، ویأتیہ ملکان، فیجلسانہ، فیقولان لہ: من ربک؟ فیقول: ھاہ ھاہ، لا أدري۔ فیقولان لہ: ما دینک ؟ فیقول: ھاہ ھاہ، لا أدري، فیقولان لہ: ما ھذا الرجل الذي بعث فیکم؟ فیقول: ھاہ ھاہ، لا أدري، فینادي مناد من السمائ: أن کذب، فأفرشوہ من النار، وافتحوا لہ بابا إلی النار، فیأتیہ من حرھا و سمومھا، ویضیق علیہ قبرہ حتی تختلف فیہ اضلاعہ، ویأتیہ رجل قبیح الوجہ، قبیح الثیاب، مُنتِنُ الریح، فیقول: ابشر بالذي یَسُوْؤُک، ھذا یومک الذي کنت توعد۔ فیقول: من أنت؟ فوجھک الوجہ یجیئ بالشر فیقول: أنا عملک الخبیث فیقول: رب لا تُقِم الساعة)1

''مؤمن شخص کا جب دنیا سے جانے اور آخرت میں داخل ہونے کا وقت ہوتا ہے تو اس کی جانب آسمان سے سفید چہرے والے فرشتے آتے ہیں، ان کے چہرے سورج کی مانند ہوتے ہیں، ان کے پاس جنت کا کفن اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے، وہ اس شخص سے حد ِ نظر کی مسافت پربیٹھ جاتے ہیں۔ پھر ملک الموت علیہ السلام آتے ہیں، وہ ان کے سر کے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، اے پاکیزہ روح! تو اللہ کی مغفرت اور اس کی رضا کی جانب آ۔ آپؐ نے فرمایا، روح اس قدر (آرام) سے نکلتی ہے جیسے مشکیزہ سے پانی کا قطرہ بہہ نکلتا ہے چنانچہ ملک الموت روح کو حاصل کرتے ہیں۔ جب وہ اسے لے لیتے ہیں تو (دوسرے) فرشتے اس روح کو ان کے ہاتھ سے آنکھ جھپکنے کے برابر (عرصہ تک) نہیں رہنے دیتے یہاں تک کہ (اس روح کو) ان سے حاصل کرتے ہیں پھر اس کو جنتی کفن اور جنتی خوشبو میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے زمین میں پائی جانے والی کستوری کی نہایت عمدہ مہک کی طرح خوشبو پھیلتی ہے۔ (آپؐ نے فرمایا): فرشتے اس کو لے کر (آسمانوں کی جانب) بلند ہونے لگتے ہیں وہ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے بھی گزرتے ہیں، وہ پوچھتے ہیں، یہ کون سی پاکیزہ روح ہے؟ وہ کہتے ہیں: یہ فلاں کا بیٹا فلاں ہے، اس کا نہایت عمدہ نام بتاتے ہیں جس نام کے ساتھ اسے دنیا میںپکارا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کو لے کر آسمان تک چلے جاتے ہیں۔ فرشتے اس کے لئے آسمان کے دروازے کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں چنانچہ ان کے لئے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ بعد ازاں ہر آسمان کے مقرب فرشتے اس سے اگلے آسمان تک اس کے ساتھ چلتے ہیں، یہاں تک کہ اسے ساتویں آسمان تک پہنچایا جاتا ہے۔ (اس کے بارے میں)اللہ عزوجل فرماتے ہیں: ''میرے بندے کے اعمال ناموں کو عِلِّیین میں برقرار کرو اور اس کو دوبارہ زمین پر لے جاؤ، اس لئے کہ میں نے اُنہیں مٹی سے پیدا کیا ہے، اسی میں اُنہیں دوبارہ لے جاؤں گا اور اسی سے دوسری بار اُنہیں پیدا کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا، پس اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، وہ اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے استفسار کرتے ہیں کہ تیرا ربّ کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے۔ وہ اس سے دریافت کرتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔ وہ ا س سے سوال کرتے ہیں: تجھے یہ کیسے علم ہوا؟ وہ جواب دیتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب کو پڑھا، اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی، پھر آسمان میں ایک فرشتہ منادی کرتا ہے کہ ( اللہ ربّ العزت فرماتے ہیں) میرے بندے نے سچی باتیں کہی ہیں، اس کے لئے جنت کا (بستر) بچھا دو، اس کو جنت کا لباس پہنا دو اور اس کے لئے جنت کی جانب دروازہ کھول دو۔ آپؐ نے فرمایا: چنانچہ اس کے پاس جنت کی بادِ نسیم اور خوشبو پہنچتی ہے۔ اس کی قبر تاحد ِنظر وسیع کردی جاتی ہے۔ (آپؐ نے فرمایا:پھر) اس کے پاس خوب صورت شخص آتا ہے جس کے کپڑے خوب صورت ہوتے ہیں جس سے عمدہ خوشبو مہکتی ہے، وہ کہتی ہے: خو ش وخرم رہ ان چیزوں کے ساتھ جو تیرے لئے خوشی کا پیغام ہیں، یہی وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ شخص اس سے دریافت کرتا ہے کہ تو کون ہے؟ تیرا چہرہ تو ایسا چہرہ ہے جو خیرو برکت کا مظہر ہے، وہ جواب دیتا ہے: میں تیرا نیک عمل ہوں۔ اس پر وہ شخص کہتا ہے:اے میرے پروردگار! قیامت قائم فرما، میرے پروردگار! قیامت قائم فرما تاکہ میں اپنے اہل و عیال اور اپنے ماں باپ کی جانب جاؤں۔
آپؐ نے فرمایا: کافر شخص کا جب دنیا سے الگ ہونے اور آخرت میں داخل ہونے کا وقت ہوتا ہے تو اس کی جانب آسمان کی طرف سے سیاہ چہرے والے فرشتے نازل ہوتے ہیں جن کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں، وہ اس سے حد نظر کی مسافت پربیٹھ جاتے ہیں۔ بعد ازاں ملک الموت آتے ہیں وہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں: اے خبیث روح! تو اللہ کی ناراضگی کی جانب باہر آ۔ آپؐ نے فرمایا: روح اس کے جسم میںپھیل جاتی ہے، وہ اس کو اس طرح کھینچ کر نکالتے ہیں جیسے لوہے کی سیخ کو بھیگی ہوئی اُون سے نکالا جاتاہے۔ وہ روح کو حاصل کرتے ہیں، جب وہ روح کو حاصل کرلیتے ہیں تو فرشتے آنکھ جھپکنے کے برابر وقت بھی اس کو اپنے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے کہ روح کو ان ٹاٹوں میں لپیٹ لیتے ہیں۔ روح سے دنیا میں پائے جانے والے بدبودار مردار کی سی بُو آتی ہے۔ فرشتے اس کو (حاصل کرکے آسمان کی جانب) لے جانا چاہتے ہیں۔ فرشتوں کی جس جماعت کے قریب سے وہ گزرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: یہ کون سی ناپاک روح ہے؟ وہ کہتے ہیں: یہ فلاں (شخص) کا بیٹا ہے۔ اس کا وہ نہایت قبیح نام لیتے ہیں جس کے ساتھ وہ دنیا میں معروف تھا یہاں تک کہ اسے پہلے آسمان کی جانب لے جایا جاتا ہے۔(اس کے لئے) دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا جاتاہے لیکن دروازہ نہیں کھلتا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (جس کا ترجمہ ہے) ''ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور وہ (اس وقت تک) جنت میں داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے نہ گزرے۔'' چنانچہ اللہ فرماتا ہے: اس کے اعمال نامے کو سِجِّین (مقام) میں ثبت کردو جو سب سے نچلی زمین میں ہے چنانچہ اس کی روح کو وہاں سے پھینک دیا جاتا ہے۔ (اس کی تصدیق کے لئے) آپ ؐ نے یہ آیت تلاوت کی (جس کا ترجمہ ہے) ''اور جس شخص نے اللہ کے ساتھ شرک کیا گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا، اس کو پرندوں نے اُچک لیا یا تیز ہوا نے اس کو دور پھینک دیا۔''(اس کے بعد) اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، وہ اس کو بٹھاتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں، تیرا ربّ کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے، ہائے ہائے! مجھے کچھ علم نہیں (پھر) وہ اس سے دریافت کرتے ہیں، تیرا دین کیا ہے؟ پھر وہ جواب دیتا ہے: ہائے ہائے ! مجھے کچھ علم نہیں (پھر) وہ اس سے سوال کرتے ہیں، یہ شخص کون تھا جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا؟ وہ جواب دیتا ہے: ہائے ہائے، مجھے کچھ علم نہیں۔ چنانچہ آسمان سے فرشتہ منادی کرتا ہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے، اس کے لئے آگ کا فرش بچھاؤ، دوزخ کی جانب اس کا دروازہ کھولو چنانچہ اس کے پاس اس کی گرمی اور تیز بو آتی ہے۔ اس پر اس کی قبر تنگ ہوجاتی ہے یہاں تک کہ قبر میں اس کی پسلیاں آپس میں یکجا ہوجاتی ہیں اور اس کے پاس ایک شخص آتا ہے جس کا چہرہ نہایت بدصورت ہوتاہے اور لباس نہایت خوفناک، اس سے بدبو آرہی ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے:تجھے ایسی چیز کی بشارت ہو جو تجھے غمناک کرے گی۔ یہ وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ اس سے دریافت کرتا ہے، تو کون ہے؟ تیرا چہرہ تو نہایت بدصورت ہے جس سے شر ظاہرہورہا ہے۔ وہ جواب دے گا: میں تیرا خبیث عمل ہوں۔ پس وہ کہنا شروع کرے گا، میرے پروردگار ! قیامت قائم نہ فرما۔''

حدیث ِمذکور کی صحت
امام حاکم رحمة اللہ علیہ اس روایت کے متعدد طرق نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین فقد احتجا جمیعا بالمنھال بن عمرو وزاذان أبي عمر الکندي وفي ھذا الحدیث فوائد کثیرة لأھل السنة وقمع للمبتدعة2
''یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے کیونکہ منہال بن عمرو اور ابوعمر زاذان الکندی سے دونوں (بخاری و مسلم) نے استدلال پکڑا ہے اور اس حدیث میںاہل سنت کے لئے بے شمار فوائد موجود ہیں جبکہ اہل بدعت کے عقائد کے قلع قمع کے لئے بھی ثبوت موجود ہیں۔ ''

امام قرطبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وھو حدیث صحیح له طرق کثیرة3
''یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے بے شمار طرق ہیں۔ ''

امام ابن قیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ھذا حدیث ثابت مشهور مستفیض صحَّحه جماعة من الحفاظ ولا أعلم أحدًا من أئمة الحدیث طعن فیه بل رووہ في کتبھم وتلقَّوہ بالقبول وجعلوہ أصلا من أصول الدین في عذاب القبر ونعیمه ومسألة منکر ونکیر وقبض الأرواح وصعودھا إلی بین یدي اﷲ ثم رجوعھا إلی القبر
''یہ حدیث ثابت مشہور اور مستفیض ہے، حفاظِ حدیث کی ایک جماعت نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ہمیں حدیث کا کوئی ایسا امام معلوم نہیں جس نے اسے میں طعن کیا ہو، بلکہ ائمہ حدیث تو اسے اپنی اپنی کتب میںلائے ہیں اور اسے قبول کر کے عذاب وثواب قبر،منکر ونکیر کے سوالات، روحوں کے قبض ہونے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے اور پھر قبر میں واپس لوٹانے کے سلسلے میں دین کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد قرار دیا ہے۔''4

امام ہیثمی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
رواہ أحمد ورجاله رجال الصحیح5
'' یعنی اس کو امام احمدنے روایت کیا ہے اور اس کے روای بھی صحیح (بخاری) کے راوی ہیں۔''

امام بیہقی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 

هذا حدیث صحیح الإسناد6
'' یہ حدیث صحیح سند والی ہے۔''

ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
هذا حدیث کبیر صحیح الإسناد،رواہ جماعة الثقات عن الأعمش
''یہ بڑی حدیث صحیح سند والی ہے، اسے محدثین کی ایک ثقہ جماعت نے امام اعمش سے روایت کیا ہے۔''7

امام ابن مندہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

هذا إسناد متصل مشهور رواہ جماعة عن البراء
''اس حدیث کی سند متصل مشہور ہے، اسے سیدنا براء بن عازب سے محدثین کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔'' 8

علامہ البانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:صحیح 9
شیخ حمزہ احمدالزیت فرماتے ہیں:إسنادہ صحیح 10
شیخ عبدالرزاق مہدی نے اسے جید قرار دیا ہے ۔ 11
شیخ محمد عوامہ نے بھی اسکی اسناد کوصحیح قرار دیا ہے۔12
شیخ شعیب ار ناؤوط فرماتے ہیں:
إسنادہ صحیح، رجاله رجال الصحیح13
''اس کی سند بھی صحیح ہے اور ا س کے تمام راوی صحیح بخاری کے ہیں۔ ''

ان ائمہ محدثین اور علما کرام کی مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ حدیث بلا شبہ صحیح ہے جیسا کہ حافظ ابن قیم رحمة اللہ علیہ نے کتاب الروح کے ایک مقام پر یوں فرمایا:
فالحدیث صحیح لاشك فیه14
''یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے صحیح ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ ''

حضرات محدثین اور علماے کرام میں سے کسی ایک نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار نہیں دیا جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ البتہ امام ابن حزم رحمة اللہ علیہ سے اس مسئلہ میں سہو ہوا جس کی بنا پر اُنہوں نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا۔ چنانچہ امام ابن قیم رحمة اللہ علیہ نے کتاب الروح میں ابن حزم رحمة اللہ علیہ کا خوب تعاقب کیا اور فرمایا کہ ابن حزم رحمة اللہ علیہ کا یہ موقف علم سے دوری پر مبنی ہے اور اس حدیث کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں۔15

عصر حاضر میں بھی چند خواہش پرست لوگوں نے اس حدیث کو نہ صرف ضعیف کہا بلکہ اُمت کے ایک اجماعی مسئلہ اعادۂ روح کو شرک کی جڑ قرار دیا اور پھر یہیں پر ہی بس نہیں بلکہ اس حدیث ِبراء بن عازب کو بیان کرنے والے محدثین کرام بالخصوص امام احمد بن حنبل جیسی نابغہ روز گار ہستی پر کفر کے فتوے لگا دیے۔ 16

جیسا کہ گذشتہ سطور میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ حدیث ِبراء بن عازب کو قدیم و جدید تقریباً تمام علما نے صحیح قرار دیا ہے تاہم اس کے باوجود بھی اعادۂ روح کے منکرین اس حدیث کے دو مرکزی راویوں یعنی منہال بن عمرو رحمة اللہ علیہ اور زاذان رحمة اللہ علیہ پر چند الزامات لگاتے ہیں، جن کا تفصیلی ازالہ ضروری ہے۔ چونکہ فن اصول حدیث کی بحث ایک مستقل موضوع ہے ، لہٰذا اس بحث کو راقم کی اس موضوع پر مستقل کتاب سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(المیِّتُ تَحضُرُہ الملائکة فإذا کان الرجلُ صالحًا قالوا: اُخرجي أیتھا النفس الطیبة کانت في الجسد الطیب أُخرجي حمیدة وابشري برَوح وریحان ورَبٍّ غیرِ غضبانٍ۔ فلا یزال یقالُ لھا حتی تَخْرُجَ ثم یُعْرَج بھا إلی السماء فیُفتح لھا فیقال من ھذا فیقولون: فلان، فیُقال مرحبا بالنفس الطیبة کانت في الجسد الطیب اُدخلي حمیدة وابشري بروح وریحان وربٍ غیرِ غضبان فلا یزال یقال لھا ذلك حتی یُنتھٰی بھا إلی السماء التي فیھا اﷲُ۔ فإذا کان الرجلُ السوئُ قال: اُخرجي أیتھا النفسُ الخبیثة کانت في الجسد الخبیث اُخرجي ذمیمة، وابشري بحمیمٍ وغسَّاقٍ وآخَر من شَکْله أزواج، فما تزال یقال لھا ذلك حتی تخرج ثم یُعْرَج بھا إلی السمآء فیُفْتَح لھا۔ فیقال: من ھذا؟ فیقال: فلان فیقال: لا مَرْحَبًا بالنفس الخبیثة کانت في الجسد الخبیث، اِرجِعي ذَمیمَة فإنھا لا تُفْتَح لك أبواب السمآء فَتُرْسَلُ من السمآء ثم تصیرُ إلی القبر)17
''جب کسی شخص کی موت قریب ہوتی ہے تو فرشتے اس کے قریب آتے ہیں۔ اگر (فوت ہونے والا) شخص صالح انسان ہے تو فرشتے کہتے ہیں: اے پاک روح! جو پاک جسم میں تھی، باہر آجا تو قابل تعریف ہے۔ اللہ کی رحمت، ا س کے عطیات اور ناراض نہ ہونے والے پروردگار سے خوش ہوجا۔ مسلسل اس کو یہ کلمات کہے جاتے ہیں یہاں تک کہ روح جسم سے باہر آجاتی ہے۔ بعد ازاں روح کو آسمان کی جانب لے جایا جاتا ہے، اس کے لئے (آسمان کا) دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ کون روح ہے؟ فرشتے بتاتے ہیں ، فلاں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکیزہ (روح) کے لئے خوش آمدید ہو جو پاک جسم میں رہی ( جنت میں) داخل ہوجا، تو تعریف کے لائق ہے اور تو اللہ کی رحمت، اس کے عطیات اور ایسے پروردگار سے ملاقات کے لئے خوش ہوجا جو تجھ پر ناراض نہیں۔ اسے مسلسل یہی کلمات کہے جاتے ہیں یہاں تک کہ روح اس آسمان تک پہنچ جاتی ہے جس میں اللہ ہے۔
(لیکن) جب برا شخص فوت ہوتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے ، اے خبیث روح! جو ناپاک جسم میں ہے تو قابل مذمت ہے، باہر نکل ۔ گرم پانی، پیپ اور اس قسم کے دیگر عذابوں کی بشارت قبول کر۔ اس کو مسلسل یہ کلمات کہے جاتے ہیں یہاں تک کہ روح باہر نکل آتی ہے پھر اس کو آسمان کی جانب چڑھایا جاتا ہے۔ اس کے لئے دروازے کھولنے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ جواب میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں ہے تو (اس کے حق میں) پیغام ملتا ہے، خبیث روح کو خوش آمدید نہ ہو جو ناپاک جسم میں تھی تو واپس چلی جا تو قابل مذمت ہے، تیرے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھل سکتے۔ چنانچہ اس روح کو آسمان سے پھینک دیا جاتا ہے، پھر وہ قبر میں لوٹ آتی ہے۔''

امام بوصیری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : إسنادہ صحیح رجاله ثقات18
شیخ احمد محمد شاکر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: إسنادہ صحیح19
دکتوربشارعواد فرماتے ہیں : إسناد ہ صحیح 20
علامہ البانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: صحیح21
شیخ عبیداللہ رحمانی نے بھی اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے۔ 22

سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے سنا:
(إنَّ ابنَ آدمَ لفي غفلة عمَّا خُلِقَ له۔ إن اﷲَ إذا أراد خَلْقَه قال للملك: اُکتُبْ رِزقه اُکتب أثرَہ اُکتب أجله اُکتب شقیًّا أم سعیدًا ثم یَرْتَفَعُ ذلك الملك ویبعثُ اﷲُ مَلَکًا فیَحفَظَه حتی یُدرك ثم یرتفع ذلك الملك ثم یُوکلُ اﷲ به ملَکَین یکتُبانِ حسناته وسیأته فإذا حضرہ الموت ارتفع ذلك الملکان وجاء ملك الموت لیقبض روحه فإذا أدخل قبرہ رد الروحَ إلی جسدہ،وجاء ہ ملکا القبر فامتحناہ ثم یرتفعان فإذا قامت الساعة انحط علیه ملك الحسنات وملك السیئات فانتشطا کتابا معقودا في عنقه ثم حضرا معه واحِد سائقٌ وآخَرُ شھیدٌ) ثم قال رسول اﷲ (إن قُدامکم لأمر عظیم ما تقدرونه فاستعینوا باﷲ العظیم)23
''ابن آدم جس کام کے واسطے پیدا کیا گیا ہے، اس سے بہت غافل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس کوپیدا کرنے کا ارادہ کیا تو فرشتہ کو حکم دیا کہ اس کی روزی اور اس کا آنا جانا لکھو، اس کی عمرلکھو، اس کے بدبخت یا نیک بخت ہونے کو لکھو، فرشتہ ان سب کو لکھ کر چلا جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ دوسرا فرشتہ اس کے پاس بھیجتا ہے تاکہ بالغ ہونے تک اس کی حفاظت کرے جب بالغ ہوتا ہے تو وہ فرشتہ چلا جاتا ہے اور دو فرشتے اللہ تعالیٰ اس پر مقرر کرتا ہے کہ اس کی نیکی اور بدی لکھیں پس جب موت کا وقت آتا ہے تو یہ دونوں چلے جاتے ہیں اور ملک الموت آتے ہیںاور روح قبض کرتے ہیں۔ جب دفن کیا جاتا ہے تو روح کو اس کے بدن میں ڈالتے ہیں اور قبر کے دو فرشتے منکر اور نکیر آتے ہیں اور اس کا امتحان لے کرچلے جاتے ہیں پھرجب قیامت کا دن آئے گا تو نیکی اور بدی لکھنے والا فرشتے آئے گا اور اس کی گردن میں جونامہ اعمال لٹکایا ہے، اس کو کھولے گا اور ایک فرشتہ آگے سے کھینچتا اور دوسرا فرشتہ پیچھے سے ہنکاتا ہوا میدانِ محشر کی طرف لے جائے گا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے آگے اتنا بھاری کام آنے والا ہے کہ تم لوگ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے لہٰذا اللہ سے مدد طلب کیا کرو۔''

روایت ِمذکور کی صحت
اس روایت کی سند کمزور ہے ،کیونکہ اس میں جابر جعفی ضعیف راوی ہے۔ شیخ عبدالرزاق مہدی رقم طراز ہیں:
وفي إسنادہ جابر بن یزید الجعفي ضعیف 24
علاوہ ازیں دیگر کئی ایک روایات بھی مسئلہ اعادۂ روح کے ثبوت پر دلالت کرتی ہیں گو ان کی اسنادی حالت کمزور ہی سہی، تاہم اس سے نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ اس کی تائید میں سیدنا براء اور سیدنا ابوہریرہؓ کی صحیح احادیث موجود ہیں۔

ذیل میں ہم اشارة ًان ضعیف روایات کا تذکرہ کررہے ہیں جن میں اعادۂ روح کا ذکر ہے :

سیدنا عبداللہ ابن مسعود کی روایت فإذا وُضع في قبرہ اُجلس وجيء بالروح وجعلت فیه فیقال: من ربك؟25
''پھر جب میت کو قبر میں دفن کردیا جاتا ہے تو اسے بٹھا کر روح کو لاکر اس میں داخل کردیا جاتا ہے، پھر پوچھا جاتا ہے تیرا ربّ کون ہے؟''

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی روایت فیقول ملك الموت والملائکة الذین ھبطوا إلیھا یارب قبضنا روح فلان ابن فلان المؤمن... وھو أعلم منھم بذلك، فیقول اﷲ: ردّوہ إلی الأرض فإني منھا خلقتھم وفیھا أعیدھم ومنھا أُخرجھم تارة أخرٰی...26
''پھر ملک الموت اور دوسرے فرشتے کہتے ہیں:اے ہمارے ربّ ہم نے فلاں بن فلاں مؤمن کی روح قبض کرلی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ اس بات کو ان سے زیادہ جانتا ہے۔پھر اللہ فرماتا ہے:اسے زمین کی طرف لوٹادو کیونکہ میں نے اُنہیں اسی سے پیدا کیا ور اسی میں اُنہیں لوٹا دے گااور پھراسی سےدوسری مرتبہ اُنہیں نکالوں گا۔''

أبو نُجیح کی روایت ... ثم تعاد إلیه روحه فیجلس في قبرہ27
''پھر میت کی طرف اس کی روح لوٹا دی جاتی اور اسے قبر میں بٹھایا جاتا ہے۔''

اعادۂ روح اور علماے اُمت
جیسا کہ گذشتہ سطور میں مسئلہ اعادئہ روح کی حقیقت کو احادیث کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے جس سے انکارکی قطعاً گنجائش نہیں، اگرچہ ایک مسلمان کے لئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہی کافی ہے لیکن اس کے باوجود ہم آگے ائمہ کرام اور علماے اہل سنت کے چند اقوال بھی پیش کیے دیتے ہیں تاکہ 'نور علیٰ نور' ہو جائے اور اہل سنت کا مسلک اس قدر واضح ہوجائے کہ کسی منصف مزاج کو اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔

اہل سنت کے امام احمدبن حنبل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''والإیمان بالحوض والشفاعة والإیمان بمنکر ونکیر وعذاب القبر والإیمان بملك الموت بقبض الأرواح ثم تُردّ في الأجساد في القبور فیسألون عن الإیمان والتوحید'' 28
''حوضِ کوثر' شفاعت ، عذابِ قبر، ملک الموت کا روحوں کو قبض کرنے اور پھر قبر میں اجسام کی طرف لوٹائے جانے اور ایمان و توحید کے متعلق سوال ہونے پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ ''

امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''وإعادة الروح إلی العبد في قبرہ حق ''29
''قبر میں روح کا بندے کی طرف لوٹایا جانا برحق ہے۔ ''

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''الأحادیث الصحیحة المتواترة تدل علی عودة الروح إلی البدن وقت السؤال، وسؤال البدن بلا روح قاله طائفة من الناس وأنکرہ الجمهور وقابلھم آخرون فقالوا السؤال للروح بلا بدن وھذا قاله ابن مرة وابن حزم وکلاھما غلط والأحادیث الصحیحة تردہ ولو کان ذلك علی الروح فقط لم یکن للقبر بالروح اختصاص''30
''صحیح اور متواتر احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سوالات کے وقت روح بدن میں لوٹا دی جاتی ہے ۔ روح کے بغیر صرف بدن سے ہی سوال کے بھی بعض لوگ قائل ہیں مگر جمہور نے اس کا انکار کیا ہے۔ اسی طرح بعض کے نزدیک محض روح سے ہی سوال ہوتا ہے بدن سے نہیں جیسا کہ ابن مرہ اور ابن حزم کی رائے ہے مگر یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ اور صحیح احادیث کی روشنی میں باطل ہیں۔ اگر سوال محض روح سے ہی ہوتا تو روح کے لئے قبر کی خصوصیت نہ ہوتی۔''

حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ عسقلانی ایک حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
وقد أخذ ابن جریر وجماعة من الکرامیة من ھذہ القصة أن السوال في القبر یقع علی البدن فقط وإن اﷲ یخلق فیه إدراکا بحیث یسمع ویعلم ویلذ و یألم وذھب ابن حزم و ابن ھبیرة إلی أن السوال یقع علی الروح فقط من غیر عود إلی الجسد أو بعضه کما ثبت في الحدیث ولو کان علی الروح فقط لم یکن للبدن بذلك اختصاص ولا یمنع من ذلك کون المیت قد تتفرق أجزاؤہ لأن اﷲ قادر أن یعید الحیاة إلی جزءمن الجسد ویقع علیه السؤال کما ھو قادر علی أن یجمع أجزاء ہ ''31
''بلا شبہ اس واقعہ سے ابن جریر (مشہور مفسر، محدث اور مؤرخ امام محمد بن جریر طبری کی بجائے محمد بن جریر الکرامی مراد ہے جو فرقہ کرامیہ کا روحِ رواں تھا) اور فرقہ کرامیہ کے ایگ گروہ نے یہ دلیل لی ہے کہ قبر میں سوال صرف بدن سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس بدن میں ایک ایسا اِدراک پیدا فرما دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ سنتا اور جانتا، لذت اور درد محسوس کرتا ہے جبکہ ابن حزم اور ابن ہبیرہ کا مذہب یہ ہے کہ صرف روح سے بغیر جسم کی طرف لوٹائے سوال ہوتا ہے لیکن جمہور علما نے ان کی مخالفت کی ہے۔ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ روح کو جسم یا اس کے بعض حصے کی طرف لوٹایا جاتا ہے جیساکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کیونکہ اگر یہ ساری کارروائی فقط روح سے وابستہ ہوتی تو بدن کی اس میں کوئی خصوصیت نہ ہوتی (حالانکہ بدن اس میں ملحوظ ہے) اور اس میں بھی کوئی امتناع نہیں کہ کبھی میت کے اجزا بالکل بکھر جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ بدن کے ایک حصے کی طرف روح لوٹا دے اور اس سے سوال ہو جیسا کہ وہ تمام اجزا کے جمع کرنے پر قادر ہے۔''

جسم کے بعض اجزا کی طرف روح لوٹائے جانے والی بات کی تردید کرتے ہوئے ملا علی قاری رقم طراز ہیں:
''(فتُعاد الروح في جسدہ) ظاھر الحدیث أن عود الروح إلی جمیع أجزاء بدنه فلا التفات إلی قول البعض بأن العود إنما یکون إلی البعض ولا إلی قول ابن حجر إلی نصفه فإنه لایصح أن یقال من قبل العقل بل یحتاج إلی صحة النقل''32
حدیث کے الفاظ (فَتُعاد روحہ في جسدہ)کا ظاہر اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کہ روح کا لوٹایا جانا سارے بدن کی طرف ہوتا ہے لہٰذا ان چند لوگوں کے قول کی طرف توجہ نہیں کی جاسکتی جو یہ کہتے ہیں کہ عودِ روح بدن کے بعض حصے کی طرف ہوتی ہے اور نہ ہی ابن حجر کے قول کی طرف التفات کیا جاسکتا ہے جو نصف بدن کی طرف عود کے قائل ہیں، کیونکہ محض عقلاً ایسا کہنا درست نہیں بلکہ اس میں صحت ِنقل ضروری ہے (جو یہاں مقصود ہے) ۔''

علامہ بدرالدین عینی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''إن الأرواح تعاد إلی أجساد عند المسألة وھو قول الأکثر من أھل السنة''
''بلا شبہ قبر میں سوال کے وقت ارواح کو ان کے اجساد کی لوٹا دیا جاتا ہے اور یہ قول اہل سنت والجماعت کی اکثریت کا ہے۔''33

امام قرطبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''وفي حدیث البراء (فتُعاد روحه في جسدہ) حسبك وقد قیل أن السؤال والعذاب إنما یکون علی الروح دون الجسد وما ذکرناہ لك أولاً أصح''

'' براء بن عازب کی حدیث میں ہے: پھر روح کو (قبر میں میت کے) جسم کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔'' اور یہی بات تجھے کافی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قبر میں سوال اور عذاب صرف روح پر ہی ہوتا ہے ۔ بدن پرنہیں لیکن جو بات ہم نے آپ کو پہلے بتائی ہے، وہی زیادہ درست ہے۔34

علامہ ابن ابی العز حنفی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''والشرع لا یأتي بما تحیله العقول ولکنه قد یأتي بما تحاد فیه العقول فإن عود الروح إلی الجسد لیس علی وجه المعھود في الدنیا بل تُعاد الروح إلیه إعادة غیر الإعادة المألوفة في الدنیا''35
'' شریعت ایسی باتوں کا ذکر نہیں کرتی جس کو عقلیں محال سمجھیں، البتہ ایسی باتوں کا ذکر (ضرور) کرتی ہے جس میں عقلیں حیران ہوتی ہیں۔ پس یقین کرلو کہ روح کا جسم میں لوٹایا جانا اس طرح کا نہیں جس طرح دنیا میں معروف ہے بلکہ روح کا اعادہ اس اعادہ کے خلاف ہے جو دنیا میں معلوم ہے۔''

علامہ ابن رجب حنبلی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فھؤلاء السلف کلھم صرحوا بأن الروح تُعاد إلی البدن عند السؤال وصرح بمثل ذلك طوائف من الفقھاء والمتکلمین من أصحابنا وغیرھم36
'' ان سب ائمہ سلف نے صراحت فرمائی ہے کہ سوالات کے وقت روح کو جسم کی طرف لوٹایا جانا ایک مستند امر ہے اور اسی طرح ہمارے (حنبلی) ساتھیوں میں سے فقہا اور متکلمین کی جماعتوں نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔ ''

حضرات علماے کرام کی ان عبارتوں سے معلوم ہوا کہ سلف صالحین کے نزدیک بھی مسئلہ اعادئہ روح برحق ہے اور اس پر ایمان رکھنا اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے۔

ایک شبہ اور اس کا جواب
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر قبر میں روح کو اس کے بدن کی طرف لوٹایا جانا تسلیم کر لیا جائے تو اس سے تین زندگیاں اور تین موتیں لازم آتی ہیں، حالانکہ قرآن مجید میں انسان کی صرف دو موتوں اور دو زندگیوں کا ذکر ہے۔ لہٰذا یہ چیز قرآن کے خلاف ہے،کیونکہ قرآن کریم میں ہے:

قَالُوا رَ‌بَّنَآ أَمَتَّنَا ٱثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا ٱثْنَتَيْنِ فَٱعْتَرَ‌فْنَا بِذُنُوبِنَا...﴿١١﴾...سورۃ المومن
''وہ (کفار) کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ! تو نے دوبار مارا اور دوبار ہی زندگی دی۔ اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں، تو کیا اب کوئی راہ نکلنے کی بھی ہے؟''

جواب:قبر میں عارضی طور پر جسم میں روح لوٹائے جانے کی نفی قرآن مجید میں کہیں بھی نہیں ہے لہٰذا جن احادیث میں عودِ روح کا ذکر ہے اُنہیں قرآن خلاف نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے برعکس قرآنِ مجید میں موت سے لے کر قیامت تک کے درمیان وقفے میں عارضی زندگی پر متعدد امثلہ موجود ہیں جن کی تفصیل سے یہ سطور قاصر ہیں تاہم بعض آیات حسب ِذیل ہیں:
سورة البقرة آیت 67 تا 73
سورة البقرة آیت 55،56
سورة البقرة آیت 243
سورة البقرة آیت 259

علامہ ابن قیم رحمة اللہ علیہ ابن حزم کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
''قلت ما ذکرہ أبو محمد فیه حق وباطل أما قوله مَنْ ظَنَّ أن المیت یَحیا في قبرہ فخطأ، فھذا فیه إجمال: إن أراد به الحیاة المعھودة في الدنیا التي تقوم فیھا الروح بالبدن وتدبرہ وتصرفه ویحتاج معھا إلی الطعام والشراب واللباس فھٰذا خطأ کما قال والحس والعقل یکذبه کما یکذبه النص وإن أراد به حیاة أخرٰی غیر ھذہ الحیاة بل تُعاد الروح إلیه إعادة غیر الإعادة المألوفة في الدنیا لیسأل ویمتحن في قبرہ فھذا حق ونفیه خطأ وقد دل علیه النص الصحیح الصریح وھو قوله ( فَتُعاد روحه في جسدہ)37
میں (ابن قیم) کہتا ہوں کہ ابن حزم کا جو اعتراض ہم نے بیان کیا ہے، اس میںکچھ باتیں صحیح ہیں اور کچھ غلط۔ ان کا یہ کہنا کہ قبر میں زندہ ہونے کی رائے غلط ہے، اگر اس سے دنیوی زندگی مراد ہے جس میں روح بدن سے قائم ہوتی ہے اور اس میں تصرف کرتی ہے اور بدن اس کی موجودگی میں کھانے پینے اور پہننے کا محتاج ہوتا ہے تو مردے کی ایسی زندگی کی رائے واقعی غلط ہے جس کا نہ صرف نص بلکہ عقل و حس بھی انکار کرتی ہے اور اگر اس سے برزخی زندگی مراد ہے جو دنیوی زندگی کی طرح نہیں۔ قبر میں روح جسم کی طرف لوٹتی ہے تاکہ امتحان لیا جائے مگر یہ لوٹنا دنیوی لوٹنے جیسا نہیں تو یہ رائے درست ہے اور اِسے غلط کہنے ولا خود غلطی پر ہے کیونکہ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث (وتُعَاد روحہ في جسدہ)نص صریح کی حیثیت رکھتی ہے۔''

قرآنِ مجید میں انسان کی دو مستقل زندگیوں اور موتوں کا ذکر ہے۔ مستقل زندگی یہ ہے کہ روح باقاعدہ جسم میں داخل ہو کر پورے بدن میں تصرف کرے۔ یہ صورت یا تو دنیا کی زندگی میں ہوتی ہے یا آخرت میں ہوگی۔ لہٰذا مستقل زندگیاں دو ہی ہیں: ایک دنیا کی اور دوسری آخرت کی جبکہ عالم قبر کا معاملہ ایسا نہیں وہاںتو بدن اور روح میں اصل جدائی ہے اور اسی کا نام موت ہے۔ عارضی طور پر کچھ دیر کے لئے روح کے جسم میں لوٹ آنے سے کوئی مستقل زندگی ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ دنیا میں انسان ایک مستقل زندگی بسر کررہاہے۔ اگر عارضی طور پر روح جسم سے جدا ہوجاتی ہے تو اس سے حقیقی موت واقع نہیں ہوتی جیسا کہ نیند کی حالت میں روح قبض کرلی جاتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :
ٱللَّهُ يَتَوَفَّى ٱلْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَٱلَّتِى لَمْ تَمُتْ فِى مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ ٱلَّتِى قَضَىٰ عَلَيْهَا ٱلْمَوْتَ وَيُرْ‌سِلُ ٱلْأُخْرَ‌ىٰٓ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِى ذَ‌ٰلِكَ لَءَايَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُ‌ونَ ﴿٤٢...سورۃ الزمر
''اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں اُن کی نیند کے وقت قبض کرلیتا ہے پھرجن پر موت کا حکم لگ چکا ہو انہیں تو روک لیتا ہے جبکہ دوسری روحوں کو ایک مقرر وقت تک کیلئے چھوڑ دیتا ہے بلا شبہ اس میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔''

نیند کو اسی لئے اُخت الموت (موت کی بہن) کہا گیا ہے کہ اس میں بھی روح قبض کرلی جاتی ہے۔ایک حدیث میں سونے کی دعا اس طرح ہے: (اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ أَمُوْتُ وَأَحْیَا)
''اے اللہ تیرے ہی نام کے ساتھ مرتا ہوں اور زندہ بھی (تیرے ہی نام کے ساتھ) ہوں گا۔''

لہٰذا روزانہ کئی بار نیند میں انسان کی روح قبض ہوتی اور واپس لوٹتی ہے مگر اس عارضی قبض روح کو کسی نے بھی حقیقی موت نہیں کہا۔ اگر ایسا ہے تو پھر روزانہ انسان دو کے بجائے کئی موتوں اور کئی زندگیوں سے ہم کنار ہوتا ہے۔

انسان کے ساتھ دنیا کی اس مستقل زندگی میں کئی مرتبہ قبض اور عودِ روح ہوتا ہے لیکن چونکہ یہ عالم دنیا ہے، اس میں ہر انسان دراصل ایک مستقل زندگی گزار رہا ہے۔ عارضی طور پر قبض روح کو حقیقی موت نہیں کیاجاسکتا۔ جبکہ عالم برزخ میں انسان دراصل ایک حقیقی موت میں ہوتا ہے۔ عارضی طور پر اِعادئہ روح سے کوئی مستقل حیات لازم نہیں آتی جس طرح کہ دنیا میں عارضی طور پر قبض روح سے حقیقی موت لازم نہیں آتی۔

خاتمہ کلام
مسئلہ اعادۂ روح برحق ہے کیونکہ اس پر متعدد احادیث دلالت کرتی ہیں۔
قرآنِ مجید میں کہیں بھی اس کی نفی وارد نہیں ہوئی۔
اہل سنت والجماعت اور سلف صالحین کا بھی یہی مذہب ہے ۔
قبر میں اعادۂ روح دنیا کے اعادے جیسا نہیں لہٰذا اس کی مکمل کیفیت اللہ ہی جانتا ہے۔
قبر میں اعادئہ روح قرآنی اُصول دو زندگیوں اور دو موتوں کے خلاف نہیں۔


حوالہ جات
1. مسند احمد:4؍288، رقم:18733، و اللفظ لہ،سنن ابوداؤد، رقم:4756، مستدرک حاکم :1؍37، رقم: 107
2. المستدرک:1؍40
3. التذکرة: 116 طبع جدید
4. کتاب الروح ص46
5. مجمع الزوائد:3؍50
6. شعب الایمان:1؍612
7. عذاب القبر وسؤال الملکین:ص 39
8. کتاب الایمان،ص 575،بیروت
9. ہدایة الرواة:2؍194
10. مسند احمد:4؍202،طبع مصر
11. تفسیر ابن کثیر بتحقیقه : 3؍675
12. مصنف ابن ابی شیبہ بتحقیقه 7؍283
13. مسنداحمد 30؍503، مؤسسة الرسالة
14. کتاب الروح: ص63
15. کتاب الروح: ص76
16. دیکھیں: دعوتِ قرآن اور یہ فرقہ پرستی
17. سنن ابن ماجہ: کتاب الزهد، باب ذکر الموت والاستعداد له، رقم :4262 واللفظ له؛ مسند احمد 2؍364، کتاب الإیمان لابن مندہ ص577 رقم 1058
18. سنن ابن ماجہ وبحا شیتہ مصباح الزجاجة 4؍235، رقم 4338
19. مسنداحمد 8؍414
20. ابن ماجہ 5؍647 بتحقیقه
21. سنن ابن ماجہ: رقم 4262
22. مرعاة المفاتیح:5؍320
23. حلیة الأولیاء ازابو نعیم 3؍221، رقم 3775، بیروت؛ تفسیر الدر المنثوراز سیوطی 6؍123 جدید؛ الجامع لأحکام القرآن از قرطبی 17؍16 جدید
24. تفسیر قرطبی 17؍16 بتحقیقہ
25. شرح السنة للخلال بحوالہ شرح الصدور للسیوطی ص120، رقم 60 بیروت
26. شرح الصدور: ص118، رقم 593
27. احوال القبورلابن رجب ص80 جدید
28. کتاب الصلاة: ص45
29. الفقہ الاکبر ص101
30. کتاب الروح: ص 38 جدید
31. فتح الباری 3؍298
32. مرقاة 4؍25
33. عمدة القاری 7؍93
34. التذکرةص121 جدید
35. شرح عقیدہ طحاویہ: ص450
36. أھوال القبور: ص80 جدید
37. کتا ب الروح: ص 59،60