بیت المقدس کے شرعی حق دارمسلمان ہیں یا یہود؟
حلقہ اشراق سے خط وکتابت کا سلسلہ
المورد کے اسسٹنٹ فیلوجناب محمد عمار خان ناصرکی طرف سے ماہنامہ 'اشراق'جولائی واگست 2003ء میں 'مسجد ِاقصیٰ،یہود اور اُمت ِمسلمہ 'کے عنوان سے ایک طویل مضمون شائع ہوا۔چونکہ محترم عمار صاحب نے اپنے اس مضمون میں اُمت ِمسلمہ کے عام موقف کے بالکل برعکس ایک نئی رائے کا اظہار کیا تھا،اس لیے کئی علمی حلقوں کی طرف سے ان کو مختلف قسم کی علمی اورجذباتی تنقیدی آرا کا بھی سامنا کرناپڑا۔ عمار صاحب نے ماہنامہ 'اشراق' مئی وجولائی 2004ء کے شماروں میں ان تمام تنقیدی آرا کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ عمار صاحب کے اس طویل مضمون کا خلاصہ یہ ہے:
''مسجد اقصیٰ کی تولیت کا اخلاقی اور شرعی حق یہود کو حاصل ہے، اگرچہ تکوینی طور پر یہ مسجد سینکڑوں سال سے مسلمانوں کی تولیت میں ہے۔ یا بقولِ دیگر مسجد اقصیٰ کی تولیت کا شرعی حق تو یہود کا ہے جبکہ قانونی حق مسلمانوں کا ہے۔ محترم عمار صاحب کے بقول مسجد اقصیٰ یعنی ہیکل سلیمانی کو حضرت سلیمان ؑنے اپنے زمانے میں جنات سے تعمیر کروایا تھا۔یہ یہودیوں کا قبلہ،مرکزی عبادت گاہ،قربان گاہ اور دیگر عباداتی رسوم کی ادائیگی کے لیے ایک مرکز و مرجع تھا،اس لیے مسجد اقصیٰ ایک یہودی عبادت گاہ ہونے کی وجہ یہودیوں کا حق ہے۔ عمار صاحب کا یہ مضمون اکثر و بیشتر اُن علما کے استدلالات کی تردیدپر مشتمل تھا جو کہ مسجداقصیٰ کو یہود کا قبلہ،مرکزی عبادت گاہ،قربان گاہ اور دیگر عباداتی رسوم کی ادائیگی کے لیے ایک مرکز و مرجع تو مانتے ہیں لیکن مسجد کے حق تولیت کو یہود کے حق میں منسوخ مانتے ہیں ۔''
عمارصاحب کے اس مضمون کے جواب میں راقم الحروف نے ایک ناقدانہ مضمون لکھا جو ماہنامہ' اشراق 'کے اپریل 2007ء کے شمارے اور ماہنامہ' الشریعہ' اور ماہنامہ 'میثاق' کے مارچ 2007ء کے شماروں میں شائع ہوا۔ راقم الحروف کے اس مضمون کا خلاصہ یہ تھا :
''اپنے اس مضمون میں ہم نے مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کے حق تولیت کے حوالے سے دو نکات کا تذکر ہ کیاتھا:
1 مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا سابقہ قبلہ ہے
2 یہ بیت اللہ کی طرح شروع ہی سے ملت ِاسلامیہ کی ایک عبادت گاہ کے طور پر چلی آ رہی ہے۔یہ تو ہمارا مثبت استدلال تھا۔ دوسرا ہم نے اپنے اس مضمون میں یہ کہا تھا کہ عمارصاحب کے پاس قرآن و سنت سے کوئی ایک بھی ایسی دلیل نہیں ہے کہ جس سے وہ یہ ثابت کر سکیں کہ مسجد اقصیٰ کو اللہ تعالیٰ نے یہود کا قبلہ، مرکزی عبادت گاہ،قربان گاہ یا دیگر عباداتی رسوم کی ادائیگی کے لئے مرکز و مرجع مقررکیا ہو۔ بلکہ ہم نے قرآن و سنت سے ایسے بہت سے دلائل اپنے اس مضمون میں اکٹھے کر دیے تھے جن سے یہ ثابت ہوتا تھاکہ یہود ونصاری کا مسجد اقصیٰ کواپنا قبلہ قرار دینا ان کے دین میں بدعت اور نئی اختراع ہے۔مسجد اقصیٰ کی تولیت پر یہود کے شرعی حق کی کل دلیل عمار صاحب کے نزدیک وہ اسرائیلیات ہیں جن کو وہ کتابِ مقدس کے بیانات کہتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک مسجد ِاقصیٰ کایہودیوں کا قبلہ، مرکزی عبادت گاہ، قربان گاہ اور دیگر عباداتی رسوم کی ادائیگی کیلئے ایک مرکز و مرجع ہونا قرآن و سنت سے ثابت ہی نہیں ہے۔ اسلئے یہود کے حق تولیت کے تنسیخ کی کوئی بحث ہی نہیں پیدا ہوتی جس کے حق یا مخالفت میں کوئی بحث کی جائے۔''
ہمارے اس مضمون کے جواب میں محترم عمار صاحب کا تعاقب ماہنامہ 'اشراق'کے اپریل 2007ء اور'الشریعہ'کے مارچ 2007ء کے شماروں میں شائع ہوا۔ عمار صاحب کے اس مضمون کا خلاصہ یہ تھا :
''عمار صاحب نے اپنے اس مضمون میں اپنے موقف کو دہرایا۔علاوہ ازیں میرے مضمون پر تنقید کرتے ہوئے اُنہوں نے پانچ نکات پر بحث کی اور یہ پانچوں نکات ایسے تھے جو میرے مضمون کی ضمنی ابحاث تھیں ۔ اور مضمون کی اصل بحث 'کہ مسجد اقصیٰ پریہود کے حق تولیت کی عمار صاحب کے پاس قرآن و سنت سے کیا دلیل ہے؟کو اُنہوں بالکل نظرا نداز کر دیا اور اپنے اس مضمون میں بھی اُنہوں نے اپنے اس موقف کہ'مسجد اقصیٰ یہودیوں کا قبلہ، مرکزی عبادت گاہ،قربان گاہ اور دیگر عباداتی رسوم کی ادائیگی کے لیے ایک مرکز و مرجع ہے،کی تائید میں قرآن وسنت سے کوئی دلیل نہیں دی۔ علاوہ ازیں میں نے اپنے مضمون میں 'مسجد اقصیٰ کا اللہ کی طرف سے یہود کے لئے قبلہ مقرر نہ کیے جانے اور بیت اللہ کا ہی یہود کا اصل قبلہ ہونے پر، جن قرآنی آیات ا ورا حادیث ِمبارکہ سے اثبات کیا تھا، ان آیات اور احادیث کا بھی اُنہوں نے اپنے اس مضمون میں کوئی جواب نہیں دیا۔ ''
عمار صاحب کے اس مضمون کی اشاعت پر مں نے ان کو ایک خط بذریعہ ای میل 22؍مارچ کو بھیجا لیکن اُنہوں نے اس خط کو ماہنامہ 'الشریعہ' کے اپریل کے شمارے میں شائع نہیں کیا بلکہ الشریعہ کے منظر عام پر آ جانے کے بعد 2؍ اپریل کو مجھے ایک خط بذریعہ ای میل بھیجا کہ جس میں اُنہوں نے الشریعہ میں میرے خط کو شائع نہ کرنے کی توجیہ پیش کی۔ اپنے اس خط میں عمار صاحب نے لکھا کہ اگر' 'آپ چاہیں تو ہماری مراسلت ساتھ ہی ساتھ الشریعہ میں شائع ہوتی رہے گی۔'' عمار صاحب کا دو اپریل کے بعدجبکہ 'الشریعہ' کا تازہ شمارہ شائع ہو چکا تھا،یہ پیش کش کرنا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
اُنہوں نے 'الشریعہ ' کے اپریل کے شمارے میں میرے جوابی خط کو تو شائع نہ کیالیکن مدیر محدث (حافظ حسن مدنی)کے ساتھ اس خط و کتابت کو شائع کیا جو 'محدث' کے ادارتی صفحات پر مشتمل مسجد اقصیٰ کے بارے میں ایک واقعاتی تجزیہ پر مبنی تھی جس کے پس منظرسے قارئین 'الشریعہ' آگاہ نہ تھے۔ حالانکہ مناسب تو یہ تھا کہ اگر عمار صاحب مسجد اقصیٰ کے حوالے سے شرعی موقف کی بحث کو آگے بڑھانا چاہتے تھے تو میرا خط شائع کرتے جسے نظر انداز کرتے ہوئے اُنہوں نے 'الشریعہ ' ہی کے اپریل کے شمارے میں جہاد کے موضوع سے متعلق ایک مضمون کے تقریباً بارہ صفحات پر پھیلے ہوئے حواشی شائع کرنے کو ترجیح دی۔اس طرزِ عمل کے مدنظر میں نے مناسب سمجھا کہ اپنی خط و کتابت 'محدث' میں اشاعت کے لیے دوں ۔
اس مختصر پس منظر کے بعد'الشریعہ' کے شمارئہ مارچ اور'اشراق ' کے شمارئہ اپریل میں میرے مضمون کے جواب میں عمار خاں ناصر کے تبصرہ پر میرا جوابی مراسلہ ملاحظہ فرمائیے :
محترم جناب محمد عمار خاں ناصر السلام علیکم!
اُمید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔سب سے پہلے تو میں آپ کا اس بات پر شکر گزار ہوں کہ آپ نے وسعت ِقلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے'مسجد ِاقصی 'کے حوالے سے میرے مضمون کو اپنے ماہنامہ میں نہ صرف جگہ دی بلکہ اس میں بعض ضمنی ابحاث کے حوالے سے کچھ قابل غور اور اصلاح طلب اُمور کی طرف توجہ بھی دلائی۔ آپ کی پیش کردہ تصریحات کی روشنی میں یہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ بعض اُمور پر افہام وتفہیم کو آگے بڑھایا جائے۔ اس ضمن میں ہماری اوّلین گزارش یہ ہے کہ مسجد ِاقصی کے حوالے سے اپنے اس موقف کے حق میں کہ یہ یہود کی مرکزی عبادت گاہ،قبلہ،مقامِ قربانی اور دیگر عباداتی رسوم کی ادائیگی کے لیے مقدس مقام اور روحانی مرجع و مرکز ہے،اگرآپ قرآن و سنت سے دلائل پیش کریں تو یہ بحث نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے، اس لیے کہ ہم نے بھی اپنے موقف کے دلائل قرآن وسنت ہی سے پیش کیے ہیں اور آئندہ بھی قرآن و سنت ہی سے پیش کریں گے۔ اِن شاء اللہ
اگرآپ کے پاس دلائل کے نام پر صرف اسرائیلیات ہی ہیں یا آپ کچھ ضمنی موضوعات پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس بحث کو اسی جگہ ختم کردیں گے۔ مکرر عرض ہے کہ مزید افہام و تفہیم کی غرض سے یہ خط لکھ رہا ہوں ،اُمید ہے آپ اس بحث کو مثبت انداز میں آگے بڑھائیں گے تا کہ آپ کا نقطہ نظر اور اس کے دلائل اچھی طرح واضح ہو جائیں ۔ ذیل میں ،میں اپنی رائے اور قرآن و سنت سے اس کے دلائل کو بیان کر رہا ہوں :
قرآن و سنت سے دلائل
1 میری رائے یہ ہے کہ مسجد ِاقصی مسلمانوں کا سابقہ قبلہ ہے اور اس کی دلیل
وَمَا جَعَلْنَا ٱلْقِبْلَةَ ٱلَّتِى كُنتَ عَلَيْهَآ...﴿١٤٣﴾...سورۃ البقرۃ
جبکہ اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کو کسی بھی دور میں یہود کا قبلہ مقرر کیا ہو۔آپ بیت المقدس کو یہود کا قبلہ توکہتے ہیں لیکن اس کی کوئی دلیل آپ نے ابھی تک پیش نہیں کی جبکہ مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا حق مسلمانوں کو حاصل ہے،کیونکہ یہ ان کا سابقہ قبلہ اور خصوصی عبادت گاہ ہے، جبکہ یہود کا معاملہ ایسا نہیں ہے جب تک کہ کسی شرعی دلیل سے مسجد ِاقصیٰ ان کا قبلہ ثابت نہ ہو جائے۔
2 دوسری بات یہ ہے کہ میری رائے کے مطابق مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی اہم عبادت گاہ ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت آدم ؑکے زمانے سے ہی مسجد ِحرام کی طرح یہ بھی دین اسلام کی ایک عبادت گاہ کے طورپر معروف رہی ہے،جبکہ آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ
''یہ مسجدبنی اسرائیل کی عبادت گاہ،قربانی اور دیگر عباداتی رسوم کی ادائیگی کے لیے مقدس مقام اور روحانی مرجع و مرکزہے۔''
آپ کے اس موقف کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :
پہلی بات: تو یہ کہ آپ کے اس موقف کی بھی قرآن و سنت میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ مسجد ِاقصیٰ کسی دور میں بنی اسرائیل کے لیے قربانی اور دیگر عباداتی رسوم کی ادائیگی کے لیے ایک مقدس مقام اور روحانی مرجع و مرکزرہی ہے،اگر اس موقف کی کوئی ایسی دلیل ہے تو آپ پیش کریں ، اس پر غور ہو سکتا ہے۔ مزید برآں اس کی بھی وضاحت فرما دیں کہ آپ کے نزدیک 'دیگر عباداتی رسوم' سے کیا مراد ہے ؟
دوسری بات :جہاں تک آپ کے اس موقف کا تعلق ہے کہ مسجد اقصی بنی اسرائیل کی عبادت گاہ ہے تو ہم یہ بات تو مانتے ہیں کہ ایک دور میں یہ بنی اسرائیل(اس دور کی ملت ِاسلامیہ) کی اہم عبادت گاہ رہی ہے، لیکن اس کی تعمیر پہلی مرتبہ بنو اسرائیل نے نہیں کی بلکہ یہ حضرت آدمؑ کے زمانے سے مسجد ِحرام کی طرح دین 'اسلام' (تمام انبیاء ورسل کے دین)کی ایک معروف اور اہم عبادت گاہ کے طور پر چلی آ رہی ہے، اس لیے حضرت سلیمانؑ کی مسجد اقصیٰ کی صرف تجدید سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اس پرصرف یہود کے شرعی حق کا دعویٰ کیا جائے۔ہمارے نزدیک مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی اہم عبادت گاہ ہے اور اس کے درج ذیل دلائل ہیں :
پہلی دلیل:اگر تو یہ بات دلائل کی روشنی میں ثابت ہو جائے کہ مسجد اقصیٰ کی پہلی تعمیر حضرت سلیمان ؑنے کی یا حضرت یعقوب ؑنے اس کی پہلی بنیاد رکھی تھی تو پھر تویہ بات قابلبحث بنتیہے کہ مسجد اقصیٰ پر یہود کا بھی شرعی حق ہے یا نہیں ؟لیکن اگر اس بات کے قوی دلائل موجود ہوں کہ حضرت ابراہیم ؑسے پہلے بھی مسجد اقصیٰ موجود تھی تو پھرہمارے خیال میں یہ مسئلہ قابل بحث ہی نہیں بنتا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر و تاریخ کا تعین کرنے میں حضرت ابو ذرّ غفاری ؓکی درج ذیل روایت کو بنیادی مقام حاصل ہے ۔
فرماتے ہیں :
سألت رسول اﷲ ﷺ عن أول مسجد وضع في الأرض قال: المسجد الحرام۔ قلت: ثم أي؟ قال المسجد الأقصٰی۔ قلت: کم بینھما؟ قال: أربعون عامًا 1
''میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،اس روے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی۔ آپ نے جواب دیا: مسجد ِحرام میں نے پھر سوال کیا: اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ تو آپ نے فرمایا: مسجد ِاقصیٰ، میں نے کہا: ان دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے تو آپ نے کہا: چالیس سال ۔''
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مطابق سب سے پہلی مسجد جوروے زمین پر بنائی گئی، وہ مسجد ِحرام ہے جبکہ دوسری مسجد' مسجد ِاقصیٰ' ہے اور ان دونوں کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہے۔ہم نے پہلے بھی لکھا تھا اور اب پھر لکھ رہے ہیں کہ اگرمسجد حرام کی پہلی تعمیر کو متعین کر دیا جائے تو مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا زمانہ واضح ہوجاتاہے اور صحیح نصوص کے مطابق مسجد حرام کی پہلی تعمیر حضرت براہیم ؑسے پہلے ہو چکی تھی۔ اس لیے حضرت سلیمانؑ یا حضرت یعقوب ؑکسی طرح بھی مسجد ِاقصیٰ کے مؤسس اوّل نہیں بنتے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ...﴿٣٧﴾...سورۃ ابراہیم
میں عند بیتک المحرم کے الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ بیت اللہ کی تعمیر اوّل حضرت ابراہیم ؑنے نہیں کی تھی۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ،حضرت ہاجرہ ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑکو مکہ کی سرزمین میں چھوڑ کر جا رہے تھے تو اُنھوں نے اس وقت یہ دعا مانگی۔
اس روایت کے الفاظ ہیں :
استقبل بوجھہ البیت ثم دعا بھؤلاء الدعوات ورفع یدیہ فقال:
رَّبَّنَآ إِنِّىٓ أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِى بِوَادٍ غَيْرِ ذِى زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ ٱلْمُحَرَّمِ...﴿٣٧﴾....سورۃ ابراہیم
''حضرت ابراہیم ؑنے بیت اللہ کی طرف رخ کر کے ہاتھ اُٹھا کریہ دعا مانگی:اے میرے ربّ بے شک میں نے اپنی اولادکوتیرے حرمت والے گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں ٹھہرایا ہے جو کہ کھیتی والی نہیں ہے۔''2
اسی طرح قرآن کی آیت
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَٰهِـۧمُ ٱلْقَوَاعِدَ مِنَ ٱلْبَيْتِ...﴿١٢٧﴾...سورۃ البقرۃ
بھی اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے پہلے سے موجود بیت اللہ کی بنیادوں پر اس کی تعمیر کی تھی۔ صحیح بخاری کی اسی روایت میں آگے یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ،حضرت ہاجرہ ؑاور حضرت اسمٰعیل ؑ کو مکہ کی سرزمین میں چھوڑ کر گئے تو اس وقت ایک فرشتے نے حضرت ہاجرہ ؑکو دلاسہ دیتے ہوئے کہا :
فقال لھا الملک لا تخافوا الضیعة فإن ھٰھنا بیت اﷲ یبني ھذ الغلام وأبوہ و إن اﷲ لا یضیع أھلہ۔ وکان البیت مرتفعا من الأرض کالرابیة تأتیہ السیول فتأخذ عن یمینہ وشمالہ 3
''تو فرشتے نے حضرت ہاجرہ ؑسے کہا کہ آپ ضائع ہونے سے نہ ڈریں کیونکہ اس جگہ بیت اللہ ہے جس کی یہ لڑکا اور اس کا والدتعمیر (نو) کریں گے۔ (حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا کہنا ہے کہ ان دنوں ) بیت اللہ ٹیلے کی مانند زمین سے کچھ بلند تھا اور جب سیلاب وغیرہ آتا تھا تو وہ بیت اللہ کے دائیں اور بائیں جانب سے نکل جا تا تھا۔ ''
مزید برآں مسجد حرام کی حضرت ابراہیم ؑسے پہلے تعمیر کے دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے تمام انبیا کے لیے نماز کو مشروع قرار دیا تھا جس کے لیے ایک قبلہ کا ہونا ضروری تھا،لہٰذایہ ثابت ہوا کہ حضرت آدم اور ان کے بعد انبیا کے دین میں نماز کا مشروع ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ ان کے لیے حضرت آدم ؑکوئی قبلہ بھی تعمیر کریں ۔ علاوہ ا زیں حضرت ابراہیم ؑسے پہلے مختلف انبیا کے ہاں حج کا تصور بھی اس بات کو مستلزم ہے کہ حضرت ابراہیم ؑسے پہلے ایک قبلے کا وجود مانا جائے ۔
جہاں تک یہود کے نام نہاد قبلہ (ہمارے بیت المقدس )کا تعلق ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہردور میں مقدس شخصیات اور بابرکت مقامات کے حوالے سے ہر مذہب کے لوگوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان شخصیات اور ان مقامات کی ان کی طرف خاص نسبت ہو، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ خود حضرت ابراہیم ؑ کی شخصیت کے حوالے سے یہود،نصاریٰ اور مشرکین مکہ کا بھی مسلمانوں کی طرح یہ دعویٰ رہا ہے کہ وہ ان کے مذہب کے حامل تھے۔لہٰذا جس قسم کا اختلاف حضرت ابراہیم ؑکی شخصیت کے بارے میں ہوا، اسی قسم کا اختلاف مسجد اقصیٰ کے بارے میں بھی ہوا۔مسجد اقصیٰ یہودیوں کی خصوصی عبادت گاہ نہیں ہے، اس کے بارے میں محترم عمار صاحب کو وہی دلیل دوں گاجو کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم ؑکے یہودی یا عیسائی نہ ہونے کے حوالے سے یہودو نصاریٰ کو دی۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
يَـٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِىٓ إِبْرَٰهِيمَ وَمَآ أُنزِلَتِ ٱلتَّوْرَىٰةُ وَٱلْإِنجِيلُ إِلَّا مِنۢ بَعْدِهِۦٓ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٦٥﴾ هَـٰٓأَنتُمْ هَـٰٓؤُلَآءِ حَـٰجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِۦ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِۦ عِلْمٌ ۚ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٦٦﴾ مَا كَانَ إِبْرَٰهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ﴿٦٧﴾...سورۃ آل عمران
''اے اہل کتاب !کیوں تم حضرت ابراہیم ؑکے بارے میں جھگڑا کرتے ہو۔اور تورات وانجیل نہیں نازل کی گئی مگر حضرت ابراہیم ؑ کے بعد،کیا پس تم عقل نہیں رکھتے؟ ہاں تم وہی لوگ ہو، تم نے جھگڑا کیا، اس بارے میں کہ جس کے بارے میں تمہارے پاس کوئی علم (دلیل)تھا (جیسے تورات وانجیل) پس کیوں تم جھگڑا کرتے ہو، اس بارے میں کہ جس کے بارے میں تمہارے پاس کوئی علم(دلیل) نہیں ہے (جیسے حضرت ابراہیم ؑ)۔ اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے ا ور تم نہیں جانتے۔ حضرت ابراہیم ؑ نہ ہی یہودی تھے اور نہ ہی عیسائی بلکہ وہ یکسو مسلمان تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے۔''
جناب عمار صاحب! آپ کس بنیاد پرمسجد اقصیٰ کویہودی عبادت گاہ قرار دے رہے ہیں ؟ حالانکہ مسجد اقصیٰ کی تعمیر تو یہودی مذہب کی ابتدا سے ہزاروں سال پہلے ہوچکی تھی۔چونکہ دلائل کی روشنی میں ثابت شدہ بات یہی ہے کہ مسجد اقصیٰ کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے ہو چکی تھی اس لیے یہ یہودیوں کی نہیں بلکہ ملت ِاسلامیہ کی عبادت گاہ ہے ۔
دوسری دلیل: مسجد اقصیٰ ان تین مساجد میں شامل ہے، جن کا تبرک حاصل کرنے کے لیے یا ان میں نماز پڑھنے کے لیے یا ان کی زیارت کے لیے سفر کو مشروع قرار دیا گیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
لا تشد الرحال إلا إلی ثلاثۃ مساجد: مسجدي ھذا ومسجد الحرام ومسجد الأقصٰی 4
''تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کا قصد کر کے سفر کرنا جائز نہیں ہے، میری اس مسجد کا، یعنی مسجد نبویؐ کا 'مسجد ِحرام کا اور مسجد ِاقصیٰ کا۔''
اسی طرح بعض صحیح احادیث میں بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی فضیلت ایک عام مسجد میں نماز پڑھنے سے دو سو پچاس گنازیادہ بیان کی گئی ہے۔ اگربیت المقدس یہودیوں کی عبادت گاہ اور قبلہ ہے تو وہاں نماز پڑھنے کی کیا تک بنتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری طرزِ عمل یہ تھاکہ آپ چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی یہودیوں کی مخالفت کرتے تھے چہ جائیکہ آپ مسلمانوں کو یہودیوں کی عبادت گاہ اور قبلے میں جا کر نمازپڑھنے کی ترغیب دلائیں ۔ اسی طرح بعض صحیح احادیث کے مطابق مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی نذر ماننا جائز ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آپ ؐ کے زمانے میں ایک یہودی عبادت گاہ میں نماز پڑھنے کی نذر ماننے کا کیا مطلب ہے؟جبکہ وہ عبادت گاہ ابھی تک مسلمانو ں کے قبضے میں بھی نہ آئی تھی۔ضعیف روایت کے مطابق جب بھی کوئی شخص اس مسجد میں نماز پڑھنے کی غرض سے آئے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو کرنکلے جیسے کہ اس کی ماں نے اس کو جنا ہو۔ایک یہودی عبادت گاہ میں نماز پڑھنے کی اتنی فضیلت کہ اس میں نماز پڑھنے کا ثواب مسجد حرا م اور مسجد نبوی کے علاوہ مسلمانوں کی تمام دنیا کی مساجد سے بڑھ کر ہو، یہ بات ہمیں سمجھ میں نہیں آتی۔
عمار صاحب سے گزارش ہے کہ مسجد اقصی کے حوالے سے صحیح احادیث میں وارد شدہ ایسے تمام فضائل کے بارے میں بھی اپنے نقطہ نظر کو واضح کریں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ان فضائل کو بیان کرنے کامقصد کیاتھا؟
میں جناب شیخ ابراہیم کا شکر گزار ہوں (i) کہ اُنہوں نے کچھ باتوں کی طرف توجہ دلائی :
1 پہلی بات تو یہ ہے کہ میں اُصولی طور پر جناب ابراہیم صاحب کی اس بات سے متفق ہوں کہ کسی شخصیت کے افکار و نظریات پر تنقید کرتے وقت اخلاقی اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے اور میری کوشش ہوگیکہ آئندہ اپنے مضامین میں اس سے بھی زیادہ محتاط اُ سلوب اختیار کروں ۔ لیکن جناب ابراہیم صاحب سے بھی میں وہی گزارش کروں گا جو کہ میں نے طالب محسن صاحب سے کی تھی کہ تنقید کرتے وقت ان بنیادی اخلاقیات کا پاس جناب غامدی صاحب کو بھی کرناچاہیے اور انہوں نے اپنی کتاب 'برہان'میں مذہبی جماعتوں کے قائدین، علما اورفقہا کے بارے میں تنقید کرتے وقت طنز و تضحیک کا جو اُسلوب اختیار کیا ہے یا تو ان حضرات سے معذرت کرتے ہوئے انہیں اس کا اِزالہ کرنا چاہیے یا پھرغامدی صاحب کوایک نئی 'برہان' تشکیل دینی چاہیے جو کہ اُن اخلاقی اُصولوں کے معیار پرپوری اُترتی ہو جس کی نصیحت ناصحین 'المورد' گاہے بگاہے غامدی صاحب کے ناقدین کو کرتے رہتے ہیں ۔کیونکہ جب تک غامدی صاحب کی 'برہان' موجود ہے، وہ انکے ناقدین کو 'غیر اخلاقی تنقید' کا جواز فراہم کرتی رہے گی۔
2 دوسری بات جس کی طرف جناب ابراہیم صاحب نے اشارہ کیا ہے کہ میں نے غامدی صاحب کے مآخذ ِدین کو بیان کرتے وقت کوئی حوالہ نہیں دیا تو ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے، کیونکہ میں نے غامدی صاحب کے مآخذ ِدین بیان کرتے وقت ان کی کتاب 'میزان' اور ان کے رسالے 'اشراق' کا حوالہ دیا تھا۔ المورد کے ریسرچ اسکالر اور غامدی صاحب کے تلمیذ ِخاص جناب منظور الحسن صاحب لکھتے ہیں :
''دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق، سنت ِابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں ۔ اس موضوع پر مفصل بحث اُستاذِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف 'میزان'کے صفحہ۴۷پر 'دین کی آخری کتاب 'کے زیر عنوان ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ ''5
'المورد' کے ریسرچ اسکالرز میرے اوپر تو تنقید کرتے ہیں کہ میں نے اپنی طرف سے غامدی صاحب کے مستقل مصادرِ شریعت دو کی بجائے چار بنا دیے حالانکہ سب سے پہلے جس نے اس بات کا انکشاف کیا کہ غامدی صاحب کے مصادرِ شریعت چار ہیں 'وہ المورد کے ہی ایک ریسرچ سکالر ' ماہنامہ 'اشراق' کے مدیر،غامدی صاحب کے تلمیذ ِخاص ہیں ۔جناب منظورالحسن صاحب نے غامدی صاحب کی کتاب 'میزان' کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مصادرِ شریعت چار ہیں جن کا تذکرہ اُستاذِ محترم نے اپنی کتاب 'میزان' کے صفحہ ۷۴ تا ۵۲ میں کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ جس دن غامدی صاحب نے 'میزان 'کے یہ صفحات پڑھائے ہوں ، اس دن جناب ابراہیم صاحب کلاس سے غیر حاضر ہوں ،اور کچھ نہ سہی تو یہ بات تو بہر حال طے شدہ ہے کہ منظور الحسن صاحب، المورد میں جناب ابراہیم صاحب سے کافی سینئر (Senior) ہیں اور ماہنامہ 'اشراق' کے مدیر بھی ہیں ۔ اس لیے غامدی صاحب کی کتاب 'میزان' کے بارے میں وہی بات معتبر ہونی چاہیے جو منظور الحسن صاحب، غامدی صاحب کا نام لے کر،ان کے رسالے میں کر رہے ہیں ۔
ہم اُمید کرتے ہیں کہ غامدی صاحب مدیر 'اشراق' کی تائید میں جناب ابراہیم صاحب کی فکری اصلاح کرتے ہوئے ماہنامہ 'الشریعہ' کے صفحات میں ضرور کچھ لکھنا پسند کریں گے۔ اس کے برعکس اگر غامدی صاحب'الشریعہ' کے کسی آئندہ شمارے میں مدیر 'اشراق' جناب منظور الحسن صاحب کی مبینہ علمی خیانت اوربہتان پرمشتمل 'اشراق' میں چھپنے والی مذکورہ بالا عبارت کی تردید فرما دیتے ہیں تو میں اپنے اس موقف کے بارے میں یہی کہوں گا کہ جو غلط فہمی جناب منظور الحسن صاحب کو غامدی صاحب کی طویل صحبت کے باوجود ہوئی، میں بھی اسی کا شکار ہوا ہوں لیکن پھر غامدی صاحب سے میرے سوالات کی نوعیت کچھ ا ور ہوگی۔
باقی رہی یہ بات کہ حدیث،اجماع یا مولانا امین احسن اصلاحی، غامدی صاحب کے مآخذ ِدین ہیں یا نہیں ؟ تو اس کے بارے میں آئندہ مستقل مضامین میں بحث ہوگی۔ ان شاء اللہ
3 تیسری بات یہ کہ میں نے 'الشریعہ' میں شائع شدہ 'تصورِ فطرت ' کے مضمون میں جتنے بھی حوالے دیے ہیں ، ان کو ان کے قائلین کی طرف منسوب کیا ہے۔جناب ابراہیم صاحب کا یہ اعتراض بھی صحیح نہیں ہے کہ میں نے' المورد 'کے ریسرچ اسکالرز کے بعض فتاویٰ غامدی صاحب کی طرف منسوب کیے ہںا ۔ اگر کوئی عبار ت غامدی صاحب کی تھی تو اس کی نسبت غامدی صاحب کی طرف کی گئی ہے اور اگر کوئی عبارت 'المورد 'کے کسی ریسرچ اسکالر کی تھی تو اس کی نسبت اسی ریسرچ اسکالر کی طرف کی گئی ہے،
مثلا 'الشریعہ ' میں شائع شدہ میرے اس مضمون کی دو عبارتیں ملاحظہ فرمائںس ،ایک جگہ ایک عبارت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے :
''المورد کے ریسرچ اسکالرجناب منظور الحسن صاحب،غامدی صاحب کے مآخذ ِدین کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ ''
ایک اور عبارت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے :
''اس کا اندازہ المورد کے ایک ریسرچ اسکالر امیر عبد الباسط کے شراب سے متعلق ایک سوال کے جواب سے ہوتا ہے۔ ''
اس لیے جناب ابراہیم صاحب کا یہ اعتراض بجا نہیں کہ میں نے بعض آرا کی نسبت بلا تحقیق غامدی صاحب کی طرف کر دی بلکہ میں نے ہر رائے کی نسبت اس کے اصل قائل ہی کی طرف کی ہے۔
آخر میں جناب مدیر 'الشریعہ'سے گزارش کروں گا کہ میں پہلے بھی اپنے ایڈریس کی تصحیح کروا چکا ہوں ، اب دوبار ہ کروا رہا ہوں کہ 51کے،ماڈل ٹاؤن،لاہور توغامدی صاحب کے ادارے'المورد 'کا ایڈریس ہے جبکہ قرآن اکیڈمی کا ایڈریس 36کے،ماڈل ٹاؤن،لاہور ہے۔
والسلام حافظ محمد زبیر
23؍مارچ 2007ء ریسرچ ایسوسی ایٹ 'قرآن اکیڈمی'
........................
محمد عمار خاں ناصر کا جواب
برادرِ مکرم حافظ محمد زبیر صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مزاجِ گرامی؟ آپ کا مکتوب موصول ہوا۔ بے حد شکریہ!
یہ بات میرے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہے کہ آپ مسجد ِاقصیٰ کی تولیت سے متعلق میرے نقطہ نظر کی تنقیح وتنقید کے سلسلے کو افہام وتفہیم کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔ میں آپ کے اس جذبے کا خیر مقدم کرتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ یہ سلسلۂ گفتگو اگر اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھتا ہوا پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تو نفس مسئلہ کی تنقیح کے ساتھ ساتھ خود میرے لیے بھی رہنمائی اور اگر میرا نقطہ نظر غلط ہے تو اس کی اِصلاح کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ اللہم أرنا الحق حقا وارقنا إتباعہ وأرنا الباطل باطلا وارقنا إجتنابہ!
آپ نے جو نکات پیش کیے ہیں ، ان پر اپنی معروضات پیش کرنے سے قبل میں آپ کے نقطہ نظر کا بہتر فہم حاصل کرنے کے لیے حسب ِذیل دو نکتوں کی وضاحت چاہوں گا:
1 آپ نے فرمایا ہے کہ مسجد اقصیٰ کا بنی اسرائیل کے لیے مرکزی عبادت گاہ، قبلہ، قربان گاہ اور دیگر عباداتی رسوم کے لیے مرکز مقرر کیا جانا قرآن وسنت سے ثبوت کے بغیر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ وضاحت طلب نکتہ یہ ہے کہ آیا قرآن وسنت آپ کے نزدیک اصلاً دین وشریعت کا ماخذ ہیں یا اُنھیں تاریخ کا جامع ومانع ذخیرہ ہونے کی حیثیت بھی حاصل ہے؟ میری مراد یہ ہے کہ اگر تو مسجد ِاقصیٰ کے اُمت ِمسلمہ کے لیے عباداتی رسوم کا مرکز مقرر کیے جانے کا مسئلہ زیر بحث ہو تو یقینا اس کے لیے قرآن وسنت ہی کی تصریح درکار ہوگی، لیکن یہ بات کہ اس مسجد کو بنی اسرائیل کی شریعت میں کیا مقام حاصل رہا ہے؟ میرے ناقص خیال میں شریعت کے بجائے تاریخ کا مسئلہ ہے اور اس کے لیے قرآن وسنت ہی سے ثبوت فراہم کرنے کی بات کم از کم میرے لیے ناقابل فہم ہے۔ خود آپ نے حضرت آدم ؑ کو بیت اللہ کا اوّلین مؤسس قرار دینے کے حق میں نہ صرف عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے مروی ایک ضعیف روایت جس کے بارے میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا رجحان یہ ہے کہ وہ اسرائیلیاتکی قبیل سے ہی اور ابن ہشام کی کتاب التیجان کے بیان سے استدلال کیا ہے بلکہ مختلف قیاسات سے بھی کام لیا ہے۔ 6
اسی طرح آپ نے بنی اسرائیل کے لیے خیمہ اجتماع کے قبلہ مقرر کیے جانے اور پھر اس کے صخرئہ بیت المقدس کے مقام پر رکھے جانے سے متعلق ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہما اللہ کے حوالے سے متعدد تاریخی واقعات ذکر کیے ہیں جن کا قرآن وسنت میں کوئی ذکر نہیں 7
پس اگر بیت اللہ اور مسجد اقصیٰ کی تاریخ کے بعض پہلووں سے متعلق اسماعیلیات بلکہ اسرائیلیات سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے تو دیگر تاریخی پہلوؤں کے بارے میں قرآن وسنت ہی میں کسی تصریح کا پایا جانا کیوں ضروری ہے اور اس معاملے میں بائبل کے بیانات کو آپ یکسر ناقابل اعتنا کیوں گردانتے ہیں ؟ میرے ناقص فہم کے مطابق تفسیر وحدیث کے علما کے ہاں اسرائیلیات کا اطلاق یہود ونصاریٰ سے منقول ان روایات پر کیا جاتا ہے جن کی نوعیت اصلاً قصہ کہانیوں اور دیومالا کی ہے۔ ان روایات کی پشت پر بالعموم کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ، اس وجہ سے اُنھیں کوئی استناد بھی حاصل نہیں ، لیکن بائبل کے صحائف پر اسرائیلی ان کا اطلاق کر کے اُنھیں کلیتاً ناقابل اعتبار قرار دینے کا طریقہ ہمارے اہل علم اور بالخصوص بائبل سے براہِ راست واقفیت رکھنے والے علما نے اختیار نہیں کیا بلکہ وہ بنی اسرائیل کی تاریخ کے ضمن میں عام طور پر ان صحائف سے پوری پوری مدد لیتے رہے ہیں ۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بائبل کو اُصولی طور پر ایک قابل اعتنا ماخذ ماننے کے بعد اگر اس کا کوئی بیان قرآن وسنت سے یا تاریخی قرائن وشواہد سے ٹکراتا ہو تو اس کو ردّ کر دینے میں کسی کو بھی کوئی تردّد نہیں ہوگا۔ مسجد اقصیٰ کے معاملے میں بائبل کے مختلف بیانات کی نوعیت کیا ہے، اس پر ہم اپنے سلسلہ گفتگو میں آگے چل کر بحث کر سکتے ہیں ۔ اس مرحلے پر میں متعین طور پر صرف یہ جاننا چا ہوں گا کہ آپ زیر بحث نکتے کو 'شریعت' کے دائرے کی چیز سمجھتے ہیں یا تاریخ کے دائرے کی؟ پہلی صورت میں آپ کی رائے کی توضیح اور اس کے دلائل مطلوب ہوں گے، جبکہ دوسری صورت میں آپ کو میرے مذکورہ سوال کا جواب عنایت فرمانا ہوگا۔
2 آپ نے فرمایا ہے کہ ''اگر تو یہ بات دلائل کی روشنی میں ثابت ہو جائے کہ مسجد اقصیٰ کی پہلی تعمیر حضرت سلیمان ؑ نے کی یا حضرت یعقوب ؑنے اس کی پہلی بنیا د رکھی تھی تو پھر تو یہ بات قابل بحث ہے کہ مسجد اقصیٰ پر یہود کا شرعی حق ہے یا نہیں ؟لیکن اگر اس بات کے قوی دلائل موجود ہوں کہ حضرت ابراہیم ؑسے پہلے بھی مسجد ِاقصیٰ موجود تھی تو پھرہمارے خیال میں یہ مسئلہ قابل بحث ہی نہیں بنتا۔''
میں زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھنا چاہوں گا کہ مذکورہ دونوں صورتوں میں آپ کے نزدیک فرق کہاں سے واقع ہوتا ہے؟ یعنی حضرت یعقوب یا حضرت سلیمان کے مسجد اقصیٰ کا بانی ہونے کی صورت میں وہ کون سا نکتہ ہے جو بنی اسرائیل کے حق تولیت کو کم از کم 'قابل بحث' ضرور بنا دیتا ہے؟ مزید یہ کہ اگر یہ فرض کیا جائے کہ مسجد اقصیٰ کی تاسیس تو پہلے کسی دور میں ہوئی تھی لیکن تاریخ کے ایک خاص مرحلے میں اسے بنی اسرائیل کی ایک مرکزی عبادت گاہ قرار دیتے ہوئے اسے ان کی تولیت میں دے دیا گیا تھا تو کیا اس صورت میں بھی آپ کے نزدیک ان کا حق تولیت 'قابل بحث' بنتا ہے یا نہیں ؟ اثبات یا نفی، دونوں صورتوں میں اُمید ہے کہ آپ اپنی رائے کی دلیل بھی بیان فرمائیں گے۔
قرآن اکادمی کے دیگر رفقا کی خدمت میں سلام عرض ہے۔
2؍اپریل 2007ء محمد عمار خان ناصر
نوٹ:
اگر آپ چاہیں تو ہماری مراسلت ساتھ ہی ساتھ 'الشریعہ' میں شائع ہوتی رہے گی، البتہ میرے خیال میں یہ بہتر ہوگا کہ یہ بحث اجزا اور اقساط میں سامنے آنے کے بجائے پہلے ہمارے مابین پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے اور اس کے بعد مکمل صورت میں یکجا شائع ہو۔ اگر آپ اس سے اتفاق فرماتے ہیں تو ازراہِ کرم اپنی تحریر میں سے حافظ ابراہیم صاحب کے خط سے متعلق حصے کو الگ کر دیں تاکہ اسے 'الشریعہ' کی مئی کی اشاعت میں شائع کیا جا سکے۔
میں جمعرات کو لاہور آتا ہوں ۔ اگر آپ ۳ سے ۵ بجے کے درمیان اکادمی میں موجود ہوں اور کچھ وقت فارغ کر سکیں تو میں ملاقات کے لیے حاضر ہونا چاہوں گا۔
حافظ محمد زبیر کا جواب الجواب
محترم جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ! اُمید ہے، مزاج بخیر ہوں گے۔
آپ کے مکتوبِ گرامی میں جن دونکات کے بارے میں مجھ سے وضاحت مانگی گئی ہے اس سلسلے میں قرآن وسنت کے بارے میں دین وشریعت کا ماخذ ہونا یا تاریخ کا جامع مانع ذخیرہ ہونے کا سوال آپ نے اُٹھایا ہے۔گویا کہ آپ قرآ ن وسنت کو دین و شریعت اور اسرائیلیات یا بائبل وغیرہ کو تاریخی کتاب قرار دینے کی بنیاد پر یہ سوال اُٹھا رہے ہیں ۔ حالانکہ بلا شبہ قرآن وسنت ہی بنیادی طورپر دین وشریعت کا بیان ہیں لیکن دین و شریعت کو بیان کرنے کے لیے بہت دفعہ ان کا انداز واقعاتی ہوتا ہے،کیونکہ واقعات کے پس منظر میں دین وشریعت کو بیان کرنے سے بات زیادہ مؤثر رہتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوئہ حسنہ (سنت ِرسولؐ) کا غالب حصہ تو واقعاتی ہے۔ اس لیے سابقہ تاریخ وسیر کی جانچ پڑتال کوقرآن وسنت سے باہر نہیں رکھا جا سکتا جبکہ سابقہ الہامی کتابوں میں بیان شدہ جن واقعات کو قرآن وسنت نے بھی بیان کیا ہے، ان واقعات کی حقیقت وہی ہے جو ہماری شریعت میں ہے کیونکہ اللہ کی کتاب (قرآن وسنت) پہلی شریعتوں کی مُہیمن(نگہبان) بھی ہے۔
اس سلسلے میں آپ نے میرے حوالے سے بعض معروف اہل علم کے ان استشہادات کا ذکر کیا ہے جنہیں میں اپنے مقالہ میں اپنے موقف کی تائید کے لیے پیش کر چکا ہوں ، بالخصوص آپ نے حضرت عبد اللہ ؓ بن عمرو بن العاص کی ایک ضعیف روایت کا ذکر کیا ہے جس کے بارے میں آپ کے بقول حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان یہ ہے کہ وہ اسرائیلیات کی قبیل سے ہے۔ اپنے اس استشہاد کی وجہ بیان کرنے سے پہلے میں اس سلسلے میں ضعیف احادیث اور سابقہ الہامی کتابوں کی روایات کے بارے میں اہل علم کا مو قف امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک عبارت کے حوالے سے پیش کر رہا ہوں ۔
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ان جلیل القدر ائمہ کی عبارت کے حوالے سے جو مجہول حدیث (یعنی جونہ صحیح ثابت ہو اور نہ اس کا جھوٹ ہونا معلوم ہو) کی روایت فضائل اعمال میں جائز سمجھتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ علما کا اجماع نقل کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ یہ صرف اس صورت میں جائز ہے جبکہ اس مجہول حدیث کی اصل صحیح شرعی دلیل سے معلوم ہو۔ علاوہ ازیں اسی مجہول روایت سے وجوب واستحباب جیسے شرعی احکام ثابت نہ کیے جا رہے ہوں اور اس مجہول حدیث کی مثال اسرائیلیات سے دیتے ہیں ۔
اما م ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
... وہذا کالإسرائیلیات یجوز أن یروٰی منہا ما لم یعلم أنہ کذب للترغیب والترہیب في ما علم أن اﷲ أمر بہ في شرعنا ونہٰی عنہ في شرعنا فأما أن یثبت شرعًا لنا بمجرد الإسرائیلیات التي لم تثبت فہذا لایقولہ عالم ولا کان أحمد بن حنبل ولا أمثالہ من الأئمة یعتمدون علی مثل ہذہ الأحادیث في الشریعة۔۔۔ 8
'' یہی صورت حال اسرائیلیات کی ہے کہ جب ان کا کذب معلوم نہ ہو تو ترغیب وترہیب کے لیے ان کی روایت جائز ہے اور یہ صرف اس وقت ہے جب کہ اس معاملے کا جائز یا ناجائز ہونا ہماری شریعت میں معلوم ہو۔ لیکن جہا ں تک اس بات کا معاملہ ہے کہ مجرد اسرائیلیات سے ہمارے لیے کو ئی شریعت ثابت کی جائے تو اس کا کوئی بھی عالم قائل نہیں ہے او رنہ ہی احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور ان جیسے بڑے ائمہ رحمۃ اللہ علیہ شریعت کے بارے میں ایسی احادیث پر اعتماد کرتے ہیں ۔''
آپ نے شریعت اور تاریخ کے تقابل میں ایک اچھوتی بات اور بھی پیش کی ہے وہ یہ کہ آپ بائبل کو اسرائیلیات سے علیحدہ کر کے اسرائیلیات صرف ان قصے کہانیوں اور دیو مالائی قصوں کو قرار دیتے ہیں جس کی پشت پر کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ہے ۔ ہمارے نزدیک اسرائیلیات کی اہل علم کے ہاں نہ یہ تعریف ہے اور نہ ایسی گری پڑی بے اصل کہاوتوں کی روایت ہی جائز ہے،کیونکہ علما کے نزدیک معروف صیغے سے صرف صحیح یا مستند٭ روایت ہی کی جا سکتی ہے۔بائبل وغیرہ کی کوئی سند موجود نہ ہونے کی بنا پر یہ بلا شبہ غیر مستند ہیں اور ان کے محرف ہونے پر قرآنِ مجید بھی شاہد ہے
۔اسرائیلیات کی تعریف کے سلسلے میں محمد حسین الذہبی کی مشہور تالیف التفسیر والمفسرون(ج1؍ص165) کے حوالے سے ڈاکٹرمحمد بن محمد ابوشہبہ نے خلاصہ اپنے الفاظ میں یوں پیش کیا ہے :
''ومن التوراة وشروحہا والأسفار وما اشتملت علیہ والتلمود وشروحہ والأساطیر والخرافات والأباطیل التي افتروها أو تناقلوها عن غیرهم کانت معارف الیہود وثقافتهم وہذہ کلها کانت منابع ا لأصلیة من إسرائیلیات التی زخرت بہا بعض کتب التفسیر والتاریخ والقصص والمواعظ ۔۔۔ فمن ثم انجر ذلک إلی الإسرائیلیات وقد یتوسع بعض الباحثین في الإسرائیلیات فیجعلها شاملة لما کان من معارف الیہود وما کان من معارف النصارٰی التي تدور حول الأناجیل وشروحہا والرسل وسیرهم ونحو ذلک فإنما سمّیت إسرائیلیات لأن الغالب والکثیر منہا إنما هو من ثقافة بني إسرائیل أو من کتبهم ومعارفهم أو من أساطیرهم وأباطیلهم۔ 9
''تورات،اس کی شروح، اسفار اور جن پر وہ مشتمل ہیں ؛ تلمود اور اس کی شروح،کہانیاں اور دیو مالائی قصے اوربے اصل باتیں جنہیں اُنہوں نے گھڑ لیا تھا اور افواہیں ؛یہی اصل میں یہودی علوم اور ان کی ثقافت ہے اور یہ سب کچھ ان اسرائیلیات کے ماخذ اور سر چشمے ہیں جن سے بعض تفسیر، تاریخ،قصوں اور وعظ ونصیحت کی کتابیں سنواری گئی ہیں ؛ تب سے ان پر اسرائیلیات کا لفظ جاری ہوگیا۔بعض محققین اسرائیلیات میں وسعت پیدا کرتے ہوئے یہودی علوم وفنون کے علاوہ اس میں وہ تمام عیسائی علمی ذخیرہ بھی شامل کرتے ہیں جو انجیلوں ،ان کی شروح، رسولوں اور ان کی سیرتوں وغیرہ پر مشتمل ہے کیونکہ ان چیزوں کا بڑا حصہ بنی اسرائیل کی ثقافت ہی ہے جوانہی کی کتابوں ،علوم ومعارف،کہانیوں اور بے بنیاد قصوں سے لیاگیا ہے۔''
جہاں تک میرے اوپر آپ کے الزام کا تعلق ہے کہ میں بھی ضعیف روایات یا اسرائیلیات سے استدلال کرتا ہوں تو یہ بات درست نہیں ہے بلکہ میرے اصل دلائل قرآن وسنت ہیں ۔ البتہ قرآن وسنت سے استدلال کرتے ہوئے میں اگر کہیں اسرا ئیلیات یا ضعیف روایات سے اُنہیں تائید دیتا ہوں تو یہ علمی اصطلاح میں 'استشہاد 'کہلاتا ہے ۔علاوہ ازیں اہل علم کی آرا میرے لیے مزید اطمینان کا باعث ہوتی ہیں گویا میرا انداز مسلمانوں کا مسلمہ طریق تحقیق ہے جب کہ آپ کا موقف صرف اسرائیلیات پر مبنی ہے۔ ہم شروع سے ہی آپ سے یہ مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ اپنے موقف کی کوئی دلیل قرآن وسنت سے پیش کریں ،لیکن آپ نے اپنے اس موقف'کہ مسجد اقصی بنی اسرائیل کے لیے مرکزی عبادت گاہ،قبلہ،قربان گاہ اور دیگرعباداتی رسوم کے لیے مرکز ومرجع ہے، کے اثبات میں تا حال قرآن و سنت سے کوئی ایک دلیل بھی نہیں دی۔میں بصد احترام آپ سے ایک بار پھر وہی گزارش کروں گا جوکہ میں اپنی اصل تحریر اور اس کے بعد ایک خط میں بھی کرچکا ہوں کہ اپنے موقف کے اثبات میں کوئی ایک دلیل قرآن وسنت سے پیش کریں ،ورنہ کم از کم یہ تو تسلیم کر لیں کہ آپ کے موقف کی کوئی دلیل قرآن و سنت میں نہیں ہے بلکہ آپ کے اصل دلائل وہ اسرئیلیات ہیں جس کو آپ کتاب مقدس کے بیانات کہتے ہیں ۔
میرے پہلے خط کے حوالے سے آپ نے مجھ سے دو سوالات کا جواب طلب کیا ہے تاکہ میرے نقطہ نظر کا بہتر فہم آپ کو حاصل ہو سکے۔ ان سوالات کا جوب درج ذیل ہے:
پہلی بات :آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے ہمارے نزدیک 'مسجد اقصی کا بنی اسرائیل کے لیے مرکزی عبادت گاہ ہونا 'قبلہ ہونا 'قربان گاہ اور دیگر عباداتی رسوم کی ادائیگی کے لیے مرکز ومرجع ہونا، امت ِمسلمہ کے لیے ایک شرعی مسئلہ ہے کیونکہ اس مفروضے کو ماننے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی تولیت، مسلمانوں کا شرعی حق نہیں ہے اور مسجد اقصیٰ کی تولیت پر مسلمانوں کا شرعی حق نہ ہونا، ملت ِاسلامیہ کی شریعت کا مسئلہ ہے جس کے لیے دلیل لازماً قرآن وسنت سے ہونی چاہیے۔
دوسری بات: یہ کہ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ 'مسجد اقصیٰ کا بنی اسرائیل کے لیے مرکزی عبادت گاہ ہونا،قبلہ ہونا،قربان گاہ اور دیگر عباداتی رسوم کی ادائیگی کے لیے مرکز و مرجع ہونا، بنی اسرائیل کے لیے ایک شرعی مسئلہ تھا۔ہماری نظر میں اُمت ِمحمدیہ کے لیے یہ بحث شرائع من قبلناکی ہے۔اُصولِ فقہ کے ماہرین نے اُصول کی کتب میں شرائع من قبلنا کی چار اقسام بیان کی ہیں :جن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کسی واقعے یامسئلے کا بیان پچھلی شریعتوں میں ہو اور قرآن و سنت میں اس کا کوئی تذکرہ نہ ہو تو علما اور فقہا کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس واقعے یا مسئلے سے کوئی شرعی ا ستدلال نہیں کیا جا سکتا ۔اس لیے اگر آپ اس بات کو ایک مجرد تاریخی واقعے کے طور پر بیان کرتے ہیں تو ہمارے خیال میں تصدیق و تکذیب کیے بغیر اس کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ زیر بحث تاریخی واقعہ قرآن وسنت کی تائید کے بغیر ایک مفروضہ ہے جبکہ آپ اس تاریخی واقعے کو صحیح قرار دیتے ہیں بلکہ آپ کے نزدیک اس تاریخی واقعے سے یہ مستنبط ہو تاہے کہ مسلمانوں کا مسجد اقصیٰ کی تولیت پر کوئی حق نہیں ہے ۔ہمارے نزدیک آپ کا یہ استدلال اجماعاً غلط ہے ۔
تیسری بات یہ کہ شرائع من قبلنا کی ایک قسم جس کا آپ نے بھی تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ''یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بائبل کو اُصولی طور پر ایک قابل اعتنا ماخذ ماننے کے بعد اگر اس کا کوئی بیان قرآن وسنت سے یا تاریخی قرائن و شواہد سے ٹکراتا ہو تو اس کو ردّ کردینے میں کسی کو بھی کوئی تردّد نہیں ہو گا۔'' ہمارے نزدیک آپ کے اس موقف 'مسجد ِاقصیٰ کا بنی اسرائیل کے لیے مرکزی عبادت گاہ ہونا،قبلہ ہونا،قربان گاہ اور دیگر عباداتی رسوم کی ادائیگی کے لیے مرکز و مرجع ہونا، کی تردید قرآن وسنت سے بھی ہوتی ہے اور ہم نے اس کے دلائل اپنے اصل مضمون میں دیے تھے۔میں نے سورۃ البقرۃ کی آیات 145'146 '147'148سے استدلال کیا تھا کہ یہود کا اصل قبلہ(یعنی مرکزی عبادت گاہ اور روحانی مرکز و مرجع) بیت اللہ ہی ہے۔ آپ نے ان آیات سے میرے استدلال کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔
علاوہ ازیں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓقرآن کی آیت
وَٱجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً...﴿٨٧﴾...سورۃ یونس
کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس سے مراد کعبۃہے۔ گویا حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے اس قول کے مطابق بنی اسرائیل کا قبلہ کعبۃہے اور قبلہ ہی کسی مذہب کی مرکزی عبادت گاہ اور روحانی مرکز و مرجع ہوتا ہے ۔حضرت عبد اللہ بن عباس ؓکا یہ قول غیر اجتہادی اُمور سے متعلق ہے اور غیر اجتہادی اُمور میں کسی صحابی کا قول حدیث ِمرفوع حکمی کہلاتا ہے۔
اسی طرح ہم نے اپنے اصل مضمون میں صحیح احادیث کی روشنی میں یہ بھی ثابت کیا تھاکہ بنی اسرائیل کے انبیا بیت اللہ کا حج کرنے کے لیے آتے تھے جیسا کہ حضرت موسی ؑاور حضرت یونس ؑکے بارے میں صحیح روایات میں ملتا ہے اور خود آپ بھی اس بات کے قائل ہیں جیسا کہ ایک ملاقات کے دوران آپ نے اس بات کا اقرار کیا کہ بنی اسرائیل کے انبیا کا مقامِ حج 'بیت اللہ' ہی تھا۔جب اولادِ ابراہیم کا مقام حج،بیت ا للہ ہے تو اولادِ ابراہیم ؑکے لیے بیت اللہ ہی اصل قربان گاہ اور دیگر عباداتی رسوام کی ادائیگی کے لئے مرکز و مرجع بھی ہوا۔
چوتھی بات یہ کہ ہمارے نزدیک 'مسجد اقصیٰ' مسجد ِنبوی کی طرح ایک اہم عبادت گاہ توہے لیکن یہ ان کا قبلہ نہیں ہے۔ اسی طرح نہ مرکزی قربان گاہ ہے اور نہ ہی دیگر عبادتی رسوم کی ادائیگی کے لیے کوئی مرکز و مرجع ہے ۔مسجد اقصیٰ اور مسجد ِنبویؐ کی عام مساجد کے اعتبار سے خصوصی فضیلت یہ ہے کہ ان کی طرف زیارت کی نیت سے سفر جائز ہے جو فضائل و برکات کے اعتبار سے عام مساجد کی نسبت ان کی فضیلت و برتری کا ثبوت ہے۔ کیونکہ یہ دونوں مساجد انبیا کی تعمیر کردہ ہیں ۔ علاوہ ازیں 'مسجد ِاقصیٰ' مسجد ِنبویؐ سے تاریخی اعتبار سے مقدم ہے لیکن فضائل اور برکات کے اعتبار سے کم ہے، البتہ مسجد ِاقصیٰ کامسجد حرام سے تقابل کرنا جائز نہیں ہے،کیونکہ اس کی فضیلت مسجد ِاقصیٰ سے سینکڑوں مرتبہ زیادہ ہے۔
2 دوسرا آپ کا سوال یہ تھا کہ' 'حضرت یعقوب یا حضرت سلیمان کے مسجد اقصیٰ کے بانی ہونے کی صورت میں وہ کون سا نکتہ ہے جو بنی اسرائیل کے حق تولیت کو کم از کم قابل بحث ضرور بنا دیتا ہے۔''
آپ کے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمار ے نزدیک مسجد اقصیٰ کی تولیت کی علت دین اسلام ہے گویا یہ ملت ِاسلامیہ کی اہم عبادت گاہ ہے، نہ کہ بنی اسرائیل کا نسلی توارث۔ اگر تو یہ بات دلائل کی روشنی میں ثابت ہو جائے کہ حضرت یعقوبؑ یا حضرت سلیمان ؑنے پہلی مرتبہ مسجد اقصیٰ کو تعمیر کیا تھا تو پھر کم از کم یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی تولیت کی علت کہیں نسلی توارث نہ ہو؟ لیکن قرآن و سنت اور قیاس صحیح کی روشنی میں یہی بات ثابت شدہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑسے پہلے ہو چکی تھی جیسا کہ ہم اپنے اصل مضمون میں ثابت کر چکے ہیں اور آپ نے بھی اس کا ابھی تک انکار نہیں کیا۔پس حضرت ابراہیم ؑسے پہلے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا ثابت ہونا اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ مسجد اقصی کی تولیت کی اصل علت دین اسلام ہے نہ کہ نسلی توارث،کیونکہ یہ ملت ِاسلامیہ کی عبادت گاہ ہے نہ کہ یہود کی۔
اسی طرح آیت مبارکہ
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَـٰجِدَ ٱللَّهِ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٰةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا ٱللَّهَ ۖ...﴿١٨﴾...سورۃ التوبہ
میں بھی اس بات کا بیان ہے کہ کسی بھی مسجد کی تولیت کا بنیادی حق اس کو حاصل ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتا ہے اور نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے۔جس قوم کو اپنی نماز کاطریقہ بھی یاد نہ ہو، اس کو مسجد اقصیٰ دینے کا کیا مفہوم ہے ؟مسجد کی سب سے اہم عبادت نماز ہے اور یہودیوں کی کون سی نماز ہے جس کو وہ مسجد اقصیٰ کو حاصل کر کے ادا کریں گے؟
نص میں جس علت کا تذکرہ ہو، اس کی ایک قسم 'ایماء ' کہلاتی ہے ۔'ایمائ'کی عام طور پر اُصولیین نے تین قسمیں بیان کی ہیں ۔ ان میں سے ایک قسم یہ ہے کہ کسی حکم کو اگر کسی وصف سے ملایا گیاتو وہ وصف اس حکم کی علت ہوتا ہے ۔اس آیت میں بھی مساجد کے آباد کرنے کے فوراً بعد کچھ اوصاف کا تذکرہ ہے جو کہ بطریق 'ایمائ' اس حکم کی علت بن رہے ہیں اور یہ ایسی علت ہے جس کی خبر ہمیں نص نے دی ہے۔دوسری بات یہ کہ اُصولیین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب جمع کے صیغے کو اضافت کے ذریعے معرفہ بنایا جائے تو وہ عموم کا فائدہ دیتا ہے۔(ii) اس لیے مذکورہ بالا آیت میں مساجد اﷲ کالفظ عام ہے اور یہ بات بھی اتفاقی ہے کہ سبب نزول سے کسی عام کی تخصیص نہیں ہو سکتی کیونکہ شانِ نزول کسی امر کے سمجھنے میں معاون تو ہوتا ہے ،علت نہیں ہوتا۔ اس قاعدے کو علما نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے العبرةلعموم اللفظ لا لخصوص السبب اس لیے اس آیت کا سبب ِنزول کچھ بھی ہو، ہم اس کی تخصیص نہیں کریں گے لہٰذا'مساجداللہ'سے مراد صرف مسجد ِحرام نہیں ہو گی۔
اسی طرح حنفیہ کے نزدیک مختار مذہب یہی ہے کہ عام کی دلالت اپنے مفہوم پر قطعی ہوتی ہے جب تک کہ اس کی تخصیص نہ ہوئی ہو،اس لیے کسی عام کی پہلی تخصیص صرف اسی دلیل سے جائز ہے جو کہ خود قطعی الدلالہ ہوجبکہ آپ اس عام کی تخصیص قرآن کے سیاق و سباق سے کرتے ہیں ۔معذرتاً عرض ہے کہ جس کو آپ قرآن کا سیاق و سباق کہتے ہیں ، وہ آپ کا ذاتی فہم ہے اور ذاتی فہم سے قرآن کے عام کی تخصیص نہیں ہو سکتی۔
اُمید ہے کہ آپ اس بارمیری ان گزارشات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت سے اپنے موقف کے دلائل ضرور دیں گے یا پھر اپنی کتابِ مقدس کے ان مقامات کی نشاندہی ضرور کریں گے جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کو یہود کا قبلہ اور مرکزی عبادت گاہ مقرر کیا تھا۔
محمد عمار ناصر کے پہلے تنقیدی مضمون کے پانچ نکات پر ہمارا تبصرہ
مسجد اقصیٰ کے بارے میں میری تحقیق وتنقید کے جواب میں ابھی تک ایک تو عمار صاحب کا مضمون ہے جو مارچ 2007ء میں شائع ہوا اور دوسرا اُن کا وہ خط ہے جس کا محدث کے سابقہ صفحات میں تذکرہ ہو چکا ہے اور اس کا مفصل جواب بھی ہم نے ساتھ ہی شائع کر دیا ہے۔ جہاں تک عمار صاحب کے پہلے تنقیدی مضمون کا معاملہ ہے تو وہ ۵ ؍نکات پر مشتمل تھا۔
پہلی بات پہلے نکتے میں عمار صاحب نے ہم سے ایک سوال کیا تھا کہ مسجد ِاقصیٰ کی تاسیس کے حوالے سے موجود تین آرا میں ایک رائے کو اختیار کرنے کی ہمارے نزدیک کیا وجوہات ہیں ؟ ہم نے ان کے اس سوال کا تفصیلی جواب علمی دلائل کے ساتھ 'محدث' کے سابقہ صفحات میں اپنے پہلے خط میں دے دیا ہے۔
عمار صاحب کا دوسرا نکتہ ایک عربی عبارت کے ترجمے کے حوالے سے ان پر ہماری طرف سے ہونے والی تنقید کے جواب میں تھا؛ یہ نکتہ ایک ضمنی بات پر مشتمل تھا۔ عمار صاحب کا تیسرا نکتہ ان کے ان نا مناسب بیانات کی وضاحت پر مشتمل تھا جو اُنہوں نے اپنے اصل مضمون میں علما پر تنقید کرتے ہوئے دئیے تھے۔یہ نکتہ ہمارے مضمون کی اصل بحث سے ہٹ کر تھا۔ عمار صاحب کا چوتھا نکتہ جو کہ ہمارے نزدیک ان کے اس مضمون میں واحد علمی نکتہ تھا،جو اُن پانچ ضمنی نکات میں بھی علمی نکتہ صرف یہی تھا اور ابن قیم کی اس عبارت پر مشتمل تھاجو عمار صاحب نے ان کی تصنیف ہدایۃ الحیاری کے حوالے سے بیان کی تھی۔میں نے اپنے اصل مضمون میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور اما م ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا موقف بیان کرتے ہوئے کہ یہ حضرات مسجد اقصیٰ کو یہود کا اللہ کی طرف سے مقرر کردہ قبلہ نہیں مانتے،ان کی عربی عبارات بھی لکھیں تھیں لیکن جناب عمار صاحب نے جب 'الشریعہ' میں میرا مضمون شائع کیا تو اس میں عربی عبارات کو حذف کر دیا
جس کی وجہ سے عمار صاحب کو یہ کہنے کاموقع مل گیا کہ
''ابن تیمیہ نے کعبہ کوحضرت ابراہیم اور ان سے پہلے کے انبیا کا قبلہ تو قرار دیا ہے لیکن ان کے بعد کے ا نبیا کے لیے کعبہ ہی کے 'قبلہ'ہونے کی، جیسا کہ فاضل ناقدکا اصرار ہے، نہ تو کوئی تصریح کی ہے اور نہ اشارہ''
حالانکہ ابن تیمیہ کی عربی عبارت اس مسئلے میں اتنی واضح ہے کہ عربی زبان کے ابتدائی طالب علم کے لیے بھی شاید وہ کسی اُلجھن کا باعث نہ ہو۔
امام صاحب لکھتے ہیں :
ولم یشرع اﷲ مکانا یصلي إلیہ إلا الکعبة والأنبیاء الخلیل ومن قبلہ انما کانوا یصلون إلی الکعبة وموسی لم یکن یصلي إلی البیت المقدس بل قالوا: إنہ کان ینصب قبة العھد إلی العرب ویصلی إلیھا في التیہ
'' اللہ تعالیٰ نے کعبہ کے علاوہ کسی مقام کو بھی شریعت ِاسلامیہ میں نماز کے لیے جہت نہیں بنایا حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان سے ماقبل کے تمام انبیا کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے اور خود حضرت موسیٰ بھی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ ان کاکہنا یہ ہے کہ حضرت موسی خیمہ عہد کو عرب(یعنی بیت اللہ) کی طرف رخ کر کے نصب کرتے تھے ۔ ''
ہمارا عمار صاحب سے سوال ہے کہ حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم سے پہلے تھے یا بعد میں تھے؟اور خط کشیدہ الفاظ کا کیا مفہوم ہے؟ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ امام صاحب کے اتنے واضح موقف پرعمار صاحب کو یہ اشکال کیوں پیدا ہو رہا ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں :'' امام صاحب کی عبارت میں نہ تو کوئی تصریح ہے ا ور نہ ہی کوئی اشارہ !''
دوسر ی بات یہ کہ انہوں نے امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے جو عبارت نقل کی ہے اس کو سمجھنے میں ان کو غلط فہمی ہوئی 'اگر وہ اپنے موقف کو ثابت کرنے کی کوشش کی بجائے امام رحمۃ اللہ علیہ صاحب کی دونوں کتابوں یعنی 'بدائع الفوائد'اور 'ہدایۃ الحیار ی ' کی عبارتوں کوسامنے رکھ کر امام صاحب کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو شاید ان کو 'ہدایۃ الحیاری 'کی عبار ت اپنے موقف کی تائید میں ہونے کا مغالطہ نہ ہوتا۔
امام صاحب کی کتاب 'بدائع الفوائد 'کی عربی عبارت جس کو عمار صاحب نے ہمارے مضمون میں حذف کردیا تھا، یہ ہے :
استقبال أھل الکتاب لقبلتھم لم یکن من جھةالوحي والتوقیف من اﷲ بل کان عن مشورة منھم واجتھاد۔۔۔ أما قبلة الیھود فلیس في التوراة الأمر باستقبال الصخرة البتة
''اہل کتاب(یہود و نصاریٰ) کا اپنے اپنے قبلوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا وحی کی روسے یا اللہ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ اُنہوں نے اپنا قبلہ آپس کے مشورے اور اجتہاد سے مقرر کیا۔۔۔(امام ابن قیم پہلے نصاری کے قبلے کا ردّ کرتے ہوئے پھر یہود کی غلطی کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ) جہاں تک یہود کے قبلے کا تعلق ہے تو یہ بات تو واضح ہے کہ تورات میں کہیں بھی صخرہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم نہیں ہے۔''
امام صاحب کی یہ عبارت بالکل واضح ہے اور جہاں تک 'ہدایۃ الحیاری ' کی عبارت کا تعلق ہے تو وہ یہ ہے :
وما صلی المسیح إلی الشرق قط وما صلی إلی أن توفاہ اﷲ إلا إلی بیت المقدس وھي قبلة داؤد والأنبیاء قبلہ وقبلةبني اسرائیل
''اور حضرت عیسیٰ نے کبھی بھی مشرق کی طرف رخ کر کے نماز نہیں پڑھی۔ وہ اپنے آسمانوں پر اُٹھائے جانے تک بیت المقدس کو سامنے رکھتے ہوئے (بیت اللہ ہی کے رخ) نماز پڑھتے رہے جوحضرت داؤدکا اور حضرت مسیح سے پہلے آنے والے انبیا اور بنی اسرائیل کا (اصل قبلہ یعنی بیت اللہ کے علاوہ ایک اضافی)قبلہ(نماز کی جہت) تھا۔''
ہم نے یہ مفہوم امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی دونوں کتابوں کو سامنے رکھ کر پیش کیا ہے۔ مذکورہ بالادونوں عبارتوں میں تطبیق کی صورت یہی ہے کہ یہود کا اصل قبلہ توبیت اللہ تھا جبکہ اُنہوں نے اپنے مشورے اور رائے سے بیت المقدس کو بھی اپنا قبلہ بنا لیا تھا جیسا کہ 'بدائع الفوائد ' کی عبارت میں وضاحت ہے۔اور یہود کا مسجد اقصیٰ کو قبلہ بنانے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں جب صحرامیں بنی اسرائیل نماز پڑھتے وقت بیت اللہ کی طرف رخ کرتے تھے تو بطورِ تبرک لڑائی کی طرح تابوتِ سکینہ کو بھی اپنے سامنے رکھتے تھے۔فلسطین میں بنی اسرائیل کی آمد کے بعد یہ تابوت توصخرہ پر رکھ دیا گیا۔ اب بنی اسرائیل نے اپنی نمازوں میں بیت اللہ کی طرف رخ کرتے ہوئے صخرہ کوبھی سامنے رکھنا شروع کر دیا'ان کا صخرہ کوسامنے رکھنا اس پر موجود تابوتِ سکینہ سے تبرک حاصل کرنے اور حضرت موسیٰ کی تیہ (صحرا) میں سنت کو پورا کرنے کی غرض سے تھا، نہ کہ اس وجہ سے کہ اللہ نے صخرہ کوبنی اسرائیل کا قبلہ بنا دیا تھا۔صخرہ سے تابوت کے غائب ہو جانے کے بعد آنے والے بنی اسرائیل بھی اپنی نمازوں میں سابقہ انبیاے بنی اسرائیل کی سنت کو پورا کرنے کے لیے بیت اللہ کے ساتھ ساتھ صخرہ (مسکن تابوت) کو بھی اپنی نمازوں میں سامنے رکھنے لگے۔
جبکہ 'ہدایة الحیاری' میں اپنی اس عبار ت کے سیاق میں امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ عیسائیوں کا ردّ کرتے ہوئے ان سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ تم نے ہر مسئلے میں یہود کی مخالفت کی یہاں تک کہ تم نے قبلے کے معاملے میں یہود کی مخالفت کرتے ہوئے مشرق کو اپنا قبلہ بنا لیا حالانکہ انبیائے بنی اسرائیل اور حضرت عیسیٰ اپنی نمازوں میں بیت اللہ کی طرف رخ کرتے ہوئے صخرہ کو تو سامنے رکھتے تھے لیکن جہت ِمشرق کو اُنہوں نے کبھی بھی اپنا قبلہ نہیں بنایا۔یہ ایک واقعاتی حقیقت ہے جس کی طرف امام ابن قیم اشارہ کر رہے ہیں ، نہ کہ شرعی مسئلہ!
عمار صاحب کا پانچواں نکتہ 'الشریعہ'ستمبر 2006ء میں غامدی کے تصورِ سنت پر شائع ہونے والے میرے ایک مضمون کی عبارت پر نقد تھاجس کا براہِ راست مسجد ِاقصیٰ کے مضمون سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عمار صاحب نے اپنے مضمون میں جن پانچ نکات پر بحث کی تھی، ان میں سے تین کا تعلق تو اصل بحث سے بالکل ہی نہیں تھا جب کہ دو نکات کا تعلق اصل بحث سے ضمناً تھا جب کہ جو اصل موضوعِ بحث تھا یعنی قرآن وسنت سے عمار صاحب کا اپنے موقف کے حق میں کوئی ایک دلیل بھی نقل کرنا تو اس بارے میں ابھی تک عمار صاحب ہماری رہنمائی کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔
علاوہ ازیں عمار صاحب نے اپنے مضمون میں إلی أن توفاہ اﷲ کی عربی عبارت کا ترجمہ 'اپنے قبض کیے جانے تک ' کیا ہے جس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ غامدی صاحب کی طرح آسمانوں پر حیاتِ مسیح کے مسلمہ عقیدے کے بھی قائل نہیں ہیں ۔ عمار صاحب کا اگر ایسا عقیدہ نہیں ہے تو اس کی اُنہیں وضاحت کرنی چاہیے تاکہ قارئین کو غلط فہمی نہ پیدا ہو۔
حوالہ جات
1. صحیح مسلم: کتاب المساجد، رقم 520
2. صحیح بخاری:کتاب الانبیاء: رقم 3364
3. ایضاً
4. صحیح بخاری:کتاب الجمعة،رقم: 1397
5. ماہنامہ اشراق: مئی 2004،ص11
6. الشریعہ': مارچ 2007ء، ص 9 و 10
7. الشریعہ': مارچ 2007ء، ص 16 و 17
8. قاعدة جلیلة في التوسل والوسیلة،ص 82
9. الإسرائیلیات والموضوعات في کتب التفسیر والتاریخ :ص 13،14
i. فروری 2007ء کے شمارہ "الشریعہ" میں میرا ایک مضمون "غامدی صاحب کا تصورِ فطرت" شائع ہوا تھا جس پر "المورد" کے ریسرچ سکالر جناب شیخ محمد ابراہیم کا ایک تنقیدی خط مارچ کے شمارے میں شائع ہوا۔ الشریعہ کو جو خط میں نے بھیجا ، اس میں عمار صاحب کے مضمون کے جائزہ کے علاوہ شیخ محمد ابراہیم کے خط پر مختصر تبصرہ بھی شامل تھا۔ مدیر "الشریعہ "محمد عمار ناصرصاحب نے ابراہیم صاحب کے خط کے اس جواب کو بھی شمارئہ اپریل میں شائع نہ کیا اور 2اپریل کو رسالہ شائع ہوجانے کے بعد مجھے یہ آفر کی کہ اگر میں چاہوں تو تو مئی کے شمارے میں یہ خط شائع کیا جاسکتا ہے۔ جواباً میں نے اُنہیں الشریعہ کے مئی 2007ء کے شمارے میں یہ خط شائع کرنے سے منع کردیا اور اب یہ خط "محدث" میں اشاعت کے لئے دیا جارہا ہے۔
ii. اصول الفقہ الاسلامی از ڈاکٹر وہبہ زحیلی : ص 245، 246