فتاوی

جمعہ کی فرض اور نفل رکعات کتنی ۔کتنی مسافت پر نماز قصرکی جائے؟
حدیث لولاک کی فنی حیثیت ۔ کیا جلسہ استراحت ضروری ہے؟

کیا جلسہ استراحت ضروری ہے؟
سوال: گزارش ہے کہ ہمارے محلے کی مسجدکے امام جب نماز پڑھاتے ہیں تو جلسہ استراحت کرنا بہت ضروری سمجھتے ہیں جس سے تقریباً آدھے نمازی اُن کی آواز 'اللہ اکبر' سنے بغیر ہی اُن سے پہلے ہی کھڑے ہوجاتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ امام صاحب کو دیکھتے رہتے ہیں تاکہ وہ اُن کے اُٹھنے کے بعد کھڑے ہوں جو کہ خشوع و خضوع کے خلاف محسوس ہوتا ہے چونکہ ہمارے ہاں احناف اور اہل حدیث سب قسم کے نمازی ہوتے ہیں اور سب لوگ اتنا لمبا جلسہ استراحت ضروری نہیں سمجھتے جس سے نماز کی ہیئت ایک عجب شکل اختیار کرجاتی ہے۔اس سلسلے میں میں نے بعض اہل حدیث علما سے پوچھا تو اُن کا خیال تھا کہ امامت کے وقت امام کو جلسہ استراحت سے اجتناب کرنا چاہئے۔ میں نے امام ابن قیم کی کتاب زاد المعاد کامطالعہ بھی کیا ہے جس میں اُنہوں نے امام احمد بن حنبل کی رائے نقل کی ہے کہ جلسہ استراحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی صورت میں دیکھا گیا جبکہ براہِ راست اُٹھنا مشکل ہوتا ہے۔ ویسے بھی عقلاً نماز میں کوئی حرکت 'اللہ اکبر' کہے بغیر ممکن نہیں ہوتی تو جلسہ استراحت جوکہ ایک سکوت کی کیفیت ہے، بغیر دوبارہ اللہ اکبر کہے، کیسے اس سے نکلا جاسکے گا۔ ہر سکوت کی کیفیت سے دوسری حالت میں جانے کے لئے 'اللہ اکبر' کہنا ضروری ہے اس لئے براہِ کرم رہنمائی فرمائیے کہ امام کو کیسا رویہ اپنانا چاہئے ۔(ڈاکٹر محمد احمد، علامہ اقبال ٹاؤن )

جواب: جلسہ استراحت ابوحمید ساعدی کی مشہور حدیث سے ثابت ہے۔ ایسے ہی اس کا ذکر مالک بن حویرث کی حدیث میں بھی ہے جو صحیح بخاری وغیرہ میں ہے۔ علامہ البانی فرماتے ہیں کہ جلسہ استراحت کو اس امر پر محمول کرنا کہ یہ حاجت کی بنا پر تھا، نہ کہ عبادت کی غرض سے لہٰذا یہ مشروع نہیں جیسا کہ حنفیہ کا قول ہے ، تو یہ بات باطل ہے اور اس کے بطلان کے لئے یہی کافی ہے کہ دس صحابہ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز میں داخل ہونے پر سکوت اختیار کیا ہے اگر اُنہیں یہ علم ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بوقت ِضرورت کیا ہے تو ان کے لئے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز داخل کرنا جائز نہ تھا۔ 1
لہٰذا مقتدیوں کو چاہئے کہ طریقہ نبوی کے مطابق امام سے نماز کی تعلیم حاصل کریں اور امام صاحب پر اپنی مرضی ٹھونسنے سے اجتناب کریں ۔ ساری خیرو برکت اسی میں ہے۔ فعل یا ترک ہردو کا نام سنت ہے جیسا کہ امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ولکننا نتبع السنة فعلا أو ترکا 2

سماحة الشیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ احکام جو دین کی طرف منسوب ہوں ، ضروری ہے کہ وہ دین کے نصوص سے ثابت ہوں اور ہر وہ شے جو زمانہ تشریعی اور شرعی نصوص میں ثابت نہیں وہ اس کے قائل کو واپس لوٹا دی جائے گی۔ امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ نے حجراسود کو مخاطب کرکے جو فرمایا تھا، اس کا مقتضی بھی یہی ہے ۔ 3

جلسہ استراحت کے ترک پر چونکہ شرعی کوئی نص موجود نہیں ، لہٰذا اس کا اہتمام ہونا چاہئے۔ تمام بھلائیاں سنت کی پیروی میں ہیں اور اسکو نمازی کی کمزوری پر محمول کرنا درست نہیں ۔

جمعہ کی فرض او رنفل رکعات
سوال: نمازِ جمعہ کی سنتوں کے بارے میں معلوم کرنا ہے کہ کل کتنی ہیں ؟ فرض سے قبل کتنی اور بعد میں کتنی؟اس میں سنت ِمؤکدہ اور غیر مؤکدہ کون سی ہیں ؟ براہ کرم بحوالہ حدیث رکعتوں کا شمار اور تاکید و غیر تاکید کی تفصیل کے ساتھ وضاحت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں ۔
جواب: شرعی اصطلاح میں فرضوں کے علاوہ سب نوافل ہیں ۔ مؤکدہ، غیر مؤکدہ فقہاے کرام کی اصطلاح ہے۔ نمازِ جمعہ (جو دو رکعات باجماعت پر مشتمل ہے) سے قبل نوافل کی مقدار متعین نہیں ؛ جتنے ممکن ہوں ، پڑھے جاسکتے ہیں ۔
حدیث میں ہے :

(ثم یصلي ما کُتب له) 4

اور صحیح مسلم میں ہے:

( فصلّٰی ما قدَّر له) 5
اور نمازِ جمعہ کے بعد چار رکعات نوافل ہیں ۔ 6
مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : القول المقبول،7

حدیث ِلولاک کی فنی حیثیت
سوال: مولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ کی ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ آپ نے ایک جگہ تحریر فرمایا ہے کہ حدیث (لولاك لما خلقت الأفلاك) لفظاً اور روایتاً مشکوک ہے۔ آپ کو زحمت دے رہا ہوں کہ

  1.  یہ حدیث کون سی کتاب میں وارد ہوئی؟
  2. حدیث کی یہ کتاب احادیث کی کتابوں میں کیا حیثیت رکھتی ہے؟
  3. اس حدیث میں لفظاً کیا سقم ہے؟
  4. اور روایتاً کیا سقم ہے؟ (رشید احمد، ہربنس پورہ، لاہور)

جواب: یہ حدیث مسند دیلمی میں ہے۔ اس کی سند میں راوی عبدالصمد بن علی بن عبداللہ بن عباس کے بارے میں عقیلی نے کہا کہ اس کی حدیث غیرمحفوظ ہے اور یہ روایت صرف اسی کے واسطہ سے معروف ہے اور صنعانی نے الأحادیث الموضوعة صفحہ ۷ میں اس کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ مسند دیلمی میں ہر قسم کی روایات میں چھان بین کی ضرورت ہے بالخصوص جب کوئی حدیث صرف اس کتاب میں ہو تو مزید تتبع کی محتا ج ہوتی ہے اور یہ بات بداہتہً معروف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل کائنات کا وجود تھا تو پھر نص روایت کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے، یہ لفظاً سقم ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں ماہنامہ 'محدث' میں ایک مقالہ شائع ہوا ہے جس کا مطالعہ مفید ہوگا۔ i

سوال: سورۃ جمعہ میں آتا ہے کہ ''جب تمہیں نمازِ جمعہ کے لئے بلایا جائے تو دوڑ کر آؤ اور خریدوفروخت چھوڑ دو"۔ تو آیا کیا اس آیت کی روشنی میں پہلی اذان خطبہ شروع ہونے سے 15،20 منٹ پہلے دی جاسکتی ہے (یعنی جمعہ کے لئے دو اذانیں ) ایک خطیب صاحب فرماتے ہیں کہ صرف ایک اذان ہی دی جائے، لیکن اگر ایک اذان ہی دی جائے تو پھر اس آیت کا کیا مطلب ہے، کیونکہ اس آیت سے تو یہی واضح ہورہا ہے کہ جب حدیث میں حکم ہے کہ امام کے منبر پر بیٹھنے سے پہلے آنے والے کے جمعے کا ثواب ملتا ہے۔ (محمد خورشید شاہ، راولپنڈی)
جواب: سورۃ جمعہ کی آیت ِکریمہ میں منبری اذان کا بیان ہے۔ پہلی اذان کا نہیں وہ تو خلیفہ ثالث عثمانؓ کے دور میں شروع ہوئی اور یہ ضروری بھی نہیں ۔ صرف جواز ہے قرآنی آیت میں وجوب کے وقت کا ذکر ہے۔ اُصولِ فقہ میں قاعدہ مشہور ہے: مالایتم الواجب إلا بہ فھو واجب جس کامفہوم یہ ہے کہ پہلے اپنا کاروبار چھوڑ دینا چاہئے تاکہ آدمی منبری اذان کے وقت مسجد میں پہنچ سکے اور حدیث میں جن گھڑیوں کا بیان ہے وہ صرف فضیلت کی گھڑیاں ہیں ، وجوب کی نہیں ۔ اس سے معلوم ہواکہ قرآنی آیت میں پہلی اذان کی طرف اشارہ تک نہیں اور نہ آج تک کسی مفسر نے اس سے یہ بات سمجھی ہے جو آپ کے ذہن میں ہے۔ اصلاً اذان ایک ہی ہے جس طرح کہ خطیب صاحب نے فرمایا ہے۔اضافی اذان کے بارہ میں زیادہ سے زیادہ جواز ہے۔ مزید تفصیل کے لئے سابقہ فتاویٰ کی طرف رجوع کریں ۔

سفر کی کم از کم مسافت؟
سوال:تعلیم الاسلام از مولانا عبد السلام بستوی کے صفحہ۴۱۸ پر رقم ہے کہ ''سفر کی ادنیٰ مسافت کم از کم 48میل ہے، اس سے کم درست نہیں کیونکہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ مکہ والو! تم 48میل سے کم میں قصر مت کرنا۔ 8 اور جن روایات میں نو یا تین میل کاذکر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ نو یا تین میل سفر تک گئے تھے کہ نماز کا وقت ہوگیا۔ اُنیس دن ٹھہرنے کی روایت 9 پر لکھتے ہیں کہ ''قصر ہی کرتا رہے جب تک کہ اکٹھے ہی اُنیس دن سے زیادہ کی نیت کرے۔ اس کی دلیل حضرت عباسؓ والی حدیث ہے جو ابھی گذری۔'' صحیح موقف کیا ہے؟
جواب: صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین کوس یا تین فرسخ (9 کوس) نکلتے،یعنی سفر کرتے تو قصرپڑھتے۔ اس حدیث کو لمبے سفر پر محمول کرنا ظاہر کے خلاف ہے۔ پھر ابن عباسؓ کے قول سے فعلی حدیث مقدم ہے۔ اگر سفر میں کسی ایک جگہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو بلا تحدید قصر ہوسکتی ہے اور اگر چار دن سے زیادہ کسی ایک جگہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو نماز پوری پڑھے۔10


حوالہ جات
1. ارواء الغلیل :2؍83
2. فتح الباری :3/475
3. فتح الباری بہ تعلیق شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ :4؍606
4. صحیح بخاری:883
5. رقم: 857
6. صحیح مسلم:881
7. صفحہ 625
8. مصنف ابن ابی شیبہ، دارقطنی: جلد 1؍ ص387 باب قدر المسافة التي تقصر في مثلہا صلاة ، فتح الباری 2 ؍566 في شرح باب في کم یقصر الصلاة

9.بحوالہ بخاری باب مقام النبي:8؍ 87صفحہ420
10. تفصیل کے لئے 'الاعتصام':24؍مئی 1996ء


i. "احادیث ِلولاک کا تحقیقی جائزہ " از محمد اسلم صدیق،شائع شدہ "محدث": جولائی 2006ء ،ص 16تا29