پاکستان میں جاری نظریاتی کشمکش اور اس کا حل

دورِ جدید میں 'اسلام' کے نام پر قائم ہونے والی واحد ریاست 'پاکستان' کو اس وقت شدید نظریاتی بحران کا سامنا ہے۔ چند سالوں سے جاری مسلسل اقدامات کے بعد آخر کار وہ مرحلہ بظاہر پیش آتا نظر آرہا ہے جب اس ملک کی نظریاتی اساس سے ہی انحراف کرلیا جائے۔ اس عرصے میں پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر لگاتار حملے کرنے کے بعد اُنہیں مختلف حیلوں بہانوں سے متنازعہ بنانے کی کوششیں کی جاتی رہیں ۔ عالمی پالیسیوں ، سیاسی اقدامات اور ابلاغی مہمات کے بل بوتے پر دھیرے دھیرے پاکستان میں اس نظریاتی کشمکش کو عروج پر پہنچا کرآخرکار اپنے مطلوبہ نتائج تک پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں ۔

ماضی قریب میں یہ نظریاتی کشمکش کبھی ایسی صورتحال سے دوچار نہیں ہوئی جس کیفیت کا وطن عزیزکے راسخ العقیدہ مسلمان آج سامنا کررہے ہیں ۔ فضائوں میں زہر ناکی اور انہونے اندیشے پھیلے ہوئے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے اس ملک میں 'نظریاتی خانہ جنگی' کی کیفیت طاری ہو۔ یاد رہے کہ یہ جنگ دوطرفہ نہیں بلکہ مخصوص مقاصد کے لئے حکومتی ایوانوں سے جنم لے رہی ہے۔ مفاد پرست عناصر طاقت اور حکومت کے بل بوتے پر اپنے اہداف کوحاصل کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے اسلام کو تختۂ مشق بنایا جا رہا ہے۔ اسلام پر کھلم کھلا تنقید کرناتومشکل ہے، لیکن اسلام کے نام لیوا علماے کرام، مدارس دینیہ اوراسلامی شعائر لگاتار نشانے پر ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ماضی میں پاکستان کے جو حلقے 'اسلام دوست' یا 'اعتدال پسند' کہلاتے تھے، حکومتی ایوانوں سے اُبھرنے والی جنونی مہم جوئی کے ذریعے اُنہیں بھی تدریجا ً 'روایت پسند'، 'شدت پسند' اور آخرکار 'انتہاپسند' قرار دیا جانے لگاہے جس کے بعد 'دہشت گرد' کی 'سند ِتوصیف' ملنے میں صرف ایک جست کا فاصلہ باقی رہ گیا ہے۔ انتخابات کے مرحلے پر رہے سہے وہ باقی تمام 'اعزازات' ملنے کی پوری توقع ہے جسے عالمی صہیونی میڈیا عرصۂ دراز سے دنیا بھر کے تمام مسلمانوں ، بشمول حکومت ِپاکستان پر چسپاں کرتارہا ہے۔

یوں تو پاکستان میں سیکولر قوتوں کی عمل داری کی تاریخ بہت طویل ہے، لیکن حالیہ منظرنامے کی تشکیل میں دو بنیادی مرحلے خصوصیت سے قابل توجہ ہیں :
نائن الیون کے حادثہ کے بعد حکومت ِپاکستان کا امریکہ کی جھولی میں جا گرنا، امریکہ سے دہشت گردی کے خلاف کارفرما 'فرنٹ لائن سٹیٹ' کا اعزاز پانا، 'سب سے پہلے پاکستان' کا نعرئہ مستانہ بلند کرنااور اس قربت کے بدلے عالمی برادری بالخصوص مسلم ممالک سے امریکی مفادات پر مبنی تعلقات استوار کرنا وہ اہم مرحلہ ہے جس سے عالمی طورپر پاکستان کا اسلامی تشخص ناقابل تلافی طورپر مجروح ہوا ہے۔ اس کے بعد سے پاکستان مسلم اُمہ کے لئے اپنے اس مخلصانہ کردار سے بطورِ ریاست دستبردار ہوگیا جو ہمیشہ سے اس کی خارجہ پالیسی کا طرئہ امتیاز رہا ہے اور اُسی بنا پر اسے اسلام کی نمائندہ اہم ترین مملکت سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس مرحلے پر پاکستان نے اپنے ہمسایہ مسلم ملک کے خلاف جارحیت کی حمایت کرکے اپنے لئے علاقائی مسائل میں ہی اضافہ نہیں کیا بلکہ اپنی سرحدوں کے اندر امریکہ جیسی توسیع پسند قوت کو جگہ دے کر ملکی سلامتی کوبھی دائو پر لگا دیا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اسی مناسبت سے فوجی اقتدار نے ملک کے داخلی حکومتی معاملات میں بھی امریکہ کی ڈکٹیشن کو والہانہ طورپر قبول کرتے ہوئے اس کے بامقصد تعاون اور سرپرستی میں کئی ایک سرکاری اقدامات کا بھی باضابطہ آغاز کردیا۔

یوں تو اندرونِ پاکستان اسلام دشمن اقدامات کا آغاز بھی اسی مرحلہ پر ہوگیا تھا جس کی مثالیں شعبۂ تعلیم کو 'آغا خان' جیسے 'اسلام مخالف گروہ' کے سپردکرنے اور تہذیبی وثقافتی جنگ کو فروغ دینے سے دی جاسکتی ہیں ۔ لیکن عملی طورپر موجودہ منظر نامہ کی تشکیل میں زیادہ تیزی گذشتہ ایک سال سے آئی ہے جس کے پس پردہ دراصل اپنے اقتدار کے خاتمے کا خوف کارفرما ہے۔ اقتدار کو طوالت دینے کے لئے حکومت نے گذشتہ برس کے اَواخر سے اس نظریاتی خلیج کو روز بروز وسیع سے وسیع تر کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے تاکہ اس طرح ایک طرف آئندہ انتخابات میں عالمی قوتوں کی سرپرستی حاصل کی جاسکے اور دوسری طرف ملک میں ایک محدود لادین اقلیت کی بھرپور تائید میسرآسکے۔ یہ کوشش صرف موجودہ حکومت ہی نہیں کررہی بلکہ اس مقصد کے لئے اقتدار کے چند بڑے اُمیدوار بھی اسلام مخالف اقدامات میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ ڈال رہے ہیں تاکہ وہ مستقبل کے پاکستان کے لئے زیادہ موزوں حاکم قرار پاسکیں ۔ پاکستان میں مغرب نوازی کی یہ صورتحال اب کسی سے مخفی نہیں رہی!!

اس سلسلے کا دوسرا اہم مرحلہ حدود آرڈیننس کی تنسیخ کی مہم اور جبر کی قوت سے اس میں من مانی تبدیلی سے شروع ہوتا ہے۔تحفظ ِحقوقِ نسواں بل کے حوالے سے کم وبیش سال بھر سے جاری بحث اور حکومتی اقدامات کو کوئی نتیجہ خیز، مفید اور مثبت پیش رفت ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ سارا عمل ایک قوم میں جاری نظریاتی کشمکشکی افسوس ناک تاریخ ہے۔حقوقِ نسواں بل کی عین منظوری کے موقع پر جنرل مشرف نے اپنی تقریر کے ذریعے قوم کو انتہا پسندوں کے مقابلے میں اپنی قوت دکھانے کی دعوت دی تھی اور اس کے بعد سے لگاتار حکومتی اقدامات کا رخ یہی ہے کہ پاکستان کے اسلام پسند عوام کو زیادہ سے زیادہ پس قدمی پر مجبور کردیا جائے۔

جنرل مشرف آج بھی طاقت کی یہی زبان بول رہے ہیں اور لگاتار قوم کو اس بات پر اُبھار رہے ہیں کہ وہ 'انتہاپسندوں ' کو مسترد کردے۔ اُنہوں نے اپنے اقتدار کے تسلسل کی وجہ جواز اس امر کو قرار دیا ہے کہ وہ انتہاپسندی کے بالمقابل 'روشن خیال اعتدال پسندی' کے داعی ہیں ۔ لیکن ان کے اس 'انتخابی نعرے' کا پول چیف جسٹس آف پاکستان کی معزولی کے واقعے سے بخوبی کھل جاتا ہے کہ وہ لگاتار مذہبی طبقہ کو اپنے اقدامات کا مخالف بتا کر خود ساختہ مخالف کا ہوا کھڑا کررہے ہیں جبکہ حقیقت ِحال اس سے قطعی مختلف ہے۔ پاکستان کا مسئلہ دراصل مزعومہ انتہا پسندی نہیں بلکہ درحقیقت وہ مطلق العنان اقتدار ہے جو اپنی راہ میں کسی بڑے سے بڑے قومی ادارہ ... چاہے وہ انصاف کا عظیم ترین منصب اور ریاست کا اہم ترین ستون 'عدلیہ 'ہی کیوں نہ ہو... کو گوارا کرنے کے لئے تیار نہیں ۔وہ ہر اس اہم چیز کے مخالف ہیں جو ان کے اقتدارِ مطلق میں ممکنہ رکاوٹ ڈالنے کی معمولی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔

ملک میں جاری اس نظریاتی تصادم کا یہ پس منظر تو سیاسی ہے اور اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ انہی سیاسی محرکات کی بنا پر اس کشمکش کو پروان چڑھا کر قوم کو آپس میں صف آرا کیا جارہا ہے لیکن اس کے اثرات محض وقتی نہیں بلکہ اس سے پاکستانی معاشرے میں دین کے خلاف ایک مسموم فضا جنم لے رہی ہے۔ دین مخالف عناصر کی حوصلہ افزائی اورانہیں شہ ملنے کے سبب ان کے اسلام مخالف اقدامات میں کافی تیزی دیکھنے میں آرہی ہے جس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں ۔ جیساکہ ایک ماہ قبل لاہور کے الحمرا آرٹ کونسل میں 'اجوکا تھیٹر' کی طرف سے ایک ڈرامہ چلایا گیا جس میں پردہ، برقعہ، داڑھی اور حجاب کے اسلامی احکامات کو کھلم کھلا ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ برقعہ ویگنزاکے نام سے جاری اس ڈرامہ میں اسلام کی تضحیک اوردین دار مسلمانوں کا مذاق اُڑایا جارہا ہے، لیکن اسلام کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈے کی وجہ سے ایسی فضا پیدا ہو چکی ہے کہ اس سے دین مخالف عناصر کی بے باکی بڑھتی جارہی ہے اور اسلام کی حمایت ودفاع کرنے والے خاموش کھڑے نظر آتے ہیں ۔

اس سے قبل پاکستان میں حکومتی سرپرستی میں بسنت منانے اور ثقافت کے نام پر موج میلہ کلچر کو فروغ دیا گیا، ملک میں شدید نظریاتی کشیدگی کے باوجود کئی بار 'میرا تھن ریس' کا انعقاد ہوا، صوبائی حکومت نے اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لئے بڑھ چڑھ کر اس کو کامیاب بنانے میں حصہ لیا اور اس میں شرکت کرنے والوں کوبڑے انعامات سے نوازا۔ ان ریسوں کے موقع پر انتظامیہ دینی جماعتوں کے مدمقابل کا کردار ادا کرتی رہی۔ توجہ طلب امریہ ہے کہ میرا تھن ریسوں کے انعقاد سے اسلام کو کیا خطرہ درپیش ہے اور اس کی کیا تہذیبی اہمیت ہے کہ ان کو روکنا ضروری خیال کیا جاتا رہا؟ جہاں تک ان میں مردوزن کے اختلاط کا تعلق ہے تو یہ اسلام کے تصورِ حجاب سے متصادم ہے، علاوہ ازیں کسی بھی اجتماعی عمل کا معاشرت سے ایک گہرا تعلق ہوتاہے۔ یہ میرا تھن ریسیں پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرکے اس کو مغرب کے اباحیت زدہ معاشرے کے مشابہ قرار دینے کا کام انجام دیتی رہیں ۔ حکومت کی طرف سے اس طرح کے اقدامات کی سرپرستی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اس سے مغرب میں پاکستان کا 'سافٹ امیج' اُبھرتا ہے۔

حکومت کے زیر سرپرستی اس طرح کے لگاتار اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ پاکستان میں دین سے بیزاری عملاً بڑھتی جا رہی ہے، اس سلسلے میں بعض جزوی واقعات سے بھی مدد لی جارہی ہے، مثال کے طورپر گوجرانوالہ میں سرور نامی شخص کا صوبائی وزیر ظل ہما کو قتل کرنا یا جامعہ حفصہ میں طالبات کا چلڈرن لائبریری پر قبضہ کرلینا وغیرہ؛ ان دونوں واقعات کو میڈیا میں اس طرح اُچھالا گیا ہے کہ اسے باعمل مسلمانوں کی ایک شناخت قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ پہلے حادثہ کی حمایت تو کجا ، اس کی مذمت میں تمام دینی جماعتیں بہ یک آوازہیں ، جہاں تک جامعہ حفصہ کا تعلق ہے توا س سلسلے میں بھی دوٹوک حمایت سے احتراز ہی کیا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود ان واقعات کو اسلام کے خلاف میڈیا میں ایک علامت کے طورپر پیش کیا جاتا ہے۔

اسلامی شعائر کے خلاف پھیلایا جانے والا یہ دبائواس قدر بڑھتا جارہا ہے کہ با پردہ خواتین کی حوصلہ افزائی کی بجائے ان کو مشکوک نظروں سے جانچا جاتا اور داڑھی جیسی سنت رسولؐ سے مزین شخص کو انتہاپسندی کے الزام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معاشرتی دبائو کا یہ عالم ہے کہ دو ہفتے قبل لاہور میں اے لیول کا امتحان دینے والی ایک طالبہ کی امتحان میں شرکت کو اس امر سے مشروط کردیا گیا کہ وہ اپنا حجاب اُتار پھینکے۔ ایسے ہی چند سالوں سے کئی اداروں اور دکانوں کے بارے میں لگاتار یہ خبریں سننے میں آ رہی ہیں کہ داڑھی والے مردوں کی ملازمت کو داڑھی منڈوانے یا اسے مختصر کرنے سے مشروط کردیا گیا اور اس حکم کی پاسداری نہ کرنے والوں کوملازمت کے خاتمے کا پروانہ مل گیا۔

دین داری کے خلاف یہ فضا صرف اخبارات کے ذریعے پروان نہیں چڑھی جس میں آئے روز جنابِ صدر کے ساتھ وزیر تعلیم کے اسلام مخالف بیانات بھی تواتر سے شائع ہوتے رہتے ہیں بلکہ اس میں کلیدی کردار الیکڑونک میڈیا ادا کررہا ہے۔ دسیوں کی تعداد میں ٹی وی چینلز کو اسلام کی تائید وحمایت میں کوئی مثبت وسنجیدہ پروگرام پیش کرنے کی توفیق خال خال ہی ملتی ہے لیکن ایسے دانشور جو اسلامی تعلیمات کا حلیہ بگاڑ کر روشن خیال اورمغرب نواز اسلام پیش کرتے ہیں ، ان کے پروگراموں میں ٹی وی انتظامیہ کی والہانہ دلچسپی پائی جاتی ہے۔ ان نام نہاد 'اسلامی' پروگراموں میں اسلام کے مسلمہ عقائد کی تعبیر نو، مسلماتِ اسلامیہ سے انحرا ف واعتزال کی راہ اور نادر قرآنی استنباطات اور شاذ فقہی آرا کو پیش کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ چینل دن رات مخربِ اخلاق میوزک پروگراموں اور فلموں کو پیش کرکے عملاً عشق ومستی پر مبنی تہذیب کے نمائندہ اور داعی کا مذموم کردار ادا کررہے ہیں ۔

صورتحال کا حل
پاکستان میں تاریخی اور معاشرتی طورپر اسلام کی اساسات اس قدر مضبوط ہیں کہ اُنہیں آسانی سے جڑ سے اُکھاڑنا ممکن نہیں ، تاہم چند سالوں کے مسلسل اقدامات سے ان میں روز بروز کمزوری پڑتی جا رہی ہے۔ خدا نخواستہ یہی صورتحال مزید کچھ سال برقرار رہی تو یہ دینی رجحانات مزید پس پردہ چلے جائیں گے، اس بنا پر اصلاحِ احوال کے لئے تمام سنجیدہ اور محب ِملک وملت عناصر کو اپنا مؤثر کردار ادا کرنے کیلئے میدانِ عمل میں اُترآنا چاہئے۔ قبل اس کے کہ دین پر عمل کرنا مزید اجنبی ہو جائے، اس مشکل کا مداوا کرنے کی ہرممکن تدبیر بروئے کار لانی چاہئے۔ اس سلسلے میں بعض اقدامات کی نوعیت فوری ہے اور بعض کا تعلق طویل حکمت ِعملی سے ہے:
1 موجودہ حکومت کا اصل حریف پاکستان کا نظریاتی طورپر اسلام سے وابستہ طبقہ ہے۔ یوں بھی یہ حکومت چونکہ امریکہ کی زیر سرپرستی اقتدار پرمتمکن ہے، اس لئے اپنے سرپرست امریکہ کے اسلام مخالف اقدامات کا بھرپورعکس یہاں بھی پایا جانا ایک لازمی امر ہے۔ ان دنوں حکومت کی بعض غلطیوں کی بنا پر حکومت اور عدلیہ کے درمیان شدید تنائو جاری ہے جس کی وجہ سے یہ حقیقی کشمکش ذرا پردے میں چلی گئی ہے، لیکن حالات سازگار ہونے پر بالخصوص انتخابات کے قریب یہ نظریاتی تصادم پھر عروج پر پہنچ جائے گا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ براہِ راست کشمکش کی بجائے اس محاذ پر مصروفِعمل مثبت تحریک کا بھرپور ساتھ دیا جائے۔یوں بھی نائن الیون کے بعد سے اندرون وبیرونِ ملک جس طرح اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کا میدان گرم کردیا گیا ہے، ان حالات میں براہِ راست اسلام کے نام پرکھلی تائید حاصل کرنا کافی مشکل ہوگیا ہے۔ شاید اسی مشکل کی بنا پر تائید ِایزدی سے حکومت کا سامنا دینی طبقہ کی بجائے براہِ راست عدلیہ سے ہوا ہے۔

حالیہ عدالتی بحران میں وکلا کا کرداربڑا غیرمعمولی رہا ہے۔ وکلا کے مختلف خیال حلقوں کا اپنی صفوں میں کلی اتحاد پیدا کرکے اس مزاحمتی تحریک کو پروان چڑھانا انتہائی قابل قدر ہے۔ اڑھائی ماہ گزرنے کے باوجود آج بھی وکلا برادری میں معمولی اختلاف کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔ قومی بحرانوں کا سامنا ایسی مشترکہ جدوجہد سے ہی کیا جاسکتا ہے!!

وکلا کی اس مہم میں کامیابی اور ان کی سخت جانی کو دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ معاشرے کے دیگر مظلوم ومایوس طبقات بھی اُٹھ رہے ہیں ۔ اساتذہ اور تاجربرادری میں بھی ہلچل پیدا ہورہی ہے۔ان حالات میں دین کے نام لیوا حضرات کو بھی پوری یک سوئی اورمکمل یک جہتی کے ساتھ عدل اور انصاف کی آواز کے ساتھ کھڑے ہوجانا چاہئے۔

وکلا کا ایک ہی نعرہ ہے :'آزاد عدلیہ' ...جسے اُنہوں نے تمام قومی وعدالتی مسائل کا حل قرار دیا ہے۔ اس تحریک سے دین دار طبقے کو بھی سیکھنا چاہئے کہ وہ کس طرح یک نکاتی ایجنڈے پر تمام دینی قوتوں کو یکجا کرکے قوم کوایک واضح رخ دے سکتے ہیں ۔ حقیقی دہشت گرد عناصر اور انتہا پسند ایوان بخوبی طشت از بام ہوچکے ہیں ، اس صورتِ حال میں مثبت حکمت ِعملی کے ذریعے دینی طبقوں کومشترکہ قوت کے ساتھ کارگاہِ عمل میں آگے بڑھنا چاہئے۔

2 پاکستان کی دینی تحریکیں اور تنظیمیں غیرمعمولی افرادی قوت اور بہت بڑے تنظیمی نیٹ ورک کی حامل ہیں ۔ ان کے ادارے اور ان سے وابستہ ورکر سب سے زیادہ جانفشانی اور یکسوئی سے اُخروی جذبہ کے پیش نظر کام کرتے ہیں ، ان کے پاس مقدس ترین سٹیج اور سینکڑوں صحافتی ذرائع ہںو ۔ ان میں سے ہر جماعت کا کروڑوں کا بجٹ ہے اور وہ ہرسال لاکھوں افراد کا اجتماع منعقد کرتی ہیں ۔ لیکن ان جماعتوں اور تنظیموں کا المیہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنے دائرے میں مگن ہے اور اس نے اپنے گرد خود ساختہ حساسیت کے دائرے کھینچ رکھے ہیں ۔اگر بعض مذہبی گروہوں پر فقہی تعصبات کا غلبہ ہے تو باقی تحریکیں مخصوص سیاسی یا عوامی اَہداف میں منقسم ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کے حساس مسئلہ پر کوئی زَد پڑے تو وہ حلقہ پوری قوت کے ساتھ اس کا جواب دیتا ہے لیکن حساسیت کے اس دائرے سے باہر پہاڑ بھی سرک جائے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

فی زمانہ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اپنی وضع کردہ حساسیّتوں سے آگے بڑھ کر اسلام کی ہرنوعیت کی مطلوبہ خدمت کو بھی اپنا ہدف ٹھہرائیں ۔ نئے پیش آمدہ مسائل کے لئے فوری طورپر نئی جماعتیں اور تحریکیں قائم ہونا تو مشکل ہے، البتہ پہلے سے موجود قوت وصلاحیت کو نئے مسائل کے لئے بآسانی استعمال کیا جاسکتاہے۔ اگر ملک کو درپیش بے دینی کی اس لہر کے کسی ایک نکتہ کی اصلاح کو بھی دینی جماعتیں اپنی ذمہ داری تصور کرلیں تو اس صورتحال سے نمٹ کرمعاشرتی اصلاح کے فرض سے بخوبی عہدہ برآ ہوا جاسکتا ہے۔ لادین قوتوں کی اخلاقی کمزوری وپستی کا یہ عالم ہے کہ کوئی ایک مذہبی حلقہ ہی ان کے دفاع کے لئے یکسو ہوجائے اور ان کی ہر حرکت پر نظر رکھ کرمطلوبہ ردّ عمل کا اظہار کرتا رہے تو حکومت کی ہزار سرپرستی کے باوجود ان کو سر چھپانے کو جگہ نہ ملے۔

ان حالات میں بعض دینی جماعتوں کا کردار واقعتا قابل قدرہے لیکن ایک طرف ہر معاملہ میں انہی سے توقع رکھی جاتی ہے تو دوسری طرف انہیں سیاسی اہداف سے مطعون بھی کیا جاتا ہے۔ دو طرفہ رویوں کی اصلاح کی ضرورت ہے، اسلام کا تحفظ اور دفاع تمام تحریکوں اور تنظیموں سے لے کر مدارس ومساجد تک ہر ایک کا مسئلہ ہے لیکن مثال کے طورپر حال ہی میں اسلام کی تضحیک پر مبنی ڈرامے کی پیش کش پر دینی تحریکوں کے مرکز لاہور میں کسی جگہ کوئی ہلچل نہیں مچی... اس سرد مہری کی وجوہات پر بھی غو رہونا چاہئے...!

3 یہ توموجودہ صورتحال کا فوری حل ہے،جہاں تک طویل مدتی لائحہ عمل کا تعلق ہے تو اس کے لئے ہمیں اپنے دینی حلقوں کے رجحانات کو پھرسے تشکیل دینا ہوگا۔ اصل مسئلہ افرادِ کار اور درکار صلاحیتوں کا غیرموجود ہونا نہیں بلکہ مطلوبہ رجحانات کا ہے۔ جن موضوعات پر دینی حلقوں میں توجہ اور احساس پایا جاتا ہے، اس پر تحقیق ومباحثہ کا یہ عالم ہے کہ عام شخص کے لئے افکار وآرا کے اس مجموعہ میں سے ایک رائے کواختیار کرنا بھی ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔ ایسے مسائل جن کی حیثیت راجح ومرجوح سے زیادہ نہیں ، ان پر دسیوں آرا پائی جاتی ہیں جن پر دلائل کا انبار اور جواب الجواب کی لامحدود تفصیلات بھی عام دستیاب ہیں ۔دوسری طرف وہ مسائل جن کا تعلق مبادیاتِ اسلام سے ہے، ان کے بارے میں ڈھونڈے سے کوئی ایک نقطہ نظر بھی میسر نہیں آتا۔ بالخصوص اجتماعی مسائل مثلاً معاشرت وسیاست اور تعلیم وصحافت کے موضوع پر اسلامی نقطہ نظرکی ترجمانی اور جدید معاشرے میں درپیش مسائل پر اسلام کا موقف اکثر وبیشتر بے توجہی کا شکار ہے اوراس سلسلے میں معاشرے کی رہنمائی کا فرض ادا نہیں کیا جارہا۔

ہماری نظر میں اصل مسئلہ صلاحیت اورافراد کا نہیں بلکہ رجحانات کا ہے۔ گذشتہ دنوں حدود قوانین کا مسئلہ چھ ماہ تک قوم کو درپیش رہا، لیکن شروع میں اس کے حوالے سے عوام کی سنجیدہ رہنمائی سے اِغماض برتا گیا، جونہی یہ بل منظور ہوگیا تو اخبارات کے صفحات اس کی مخالفت سے بھر گئے۔ وہ قدآورعلمی شخصیات جنہوں نے بعد میں مضامین لکھ کر منظور شدہ قانون پر بھڑاس نکالی، اُنہیں مسئلہ پیش آنے پر یہ رہنمائی دینے کا احساس کیوں نہ پیدا ہوسکا؟ اس سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ صلاحیت کی بجائے عوامی رجحانات اور معاشرتی تقاضوں پر توجہ رکھنے کی ضرورت ہے!!

یہی صورتحال ٹی وی چینلوں پر پیش کئے جانے والے اسلامی پروگراموں کی ہے جو دینی اساس اوراسلامی نظریات کو کاری نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ دیندار اہل علم شخصیات تو ٹی وی سے ویسے ہی احتراز کرتی ہیں ، جب کہ ایسی نشریات کے زہریلے اثرات معاشرے میں تیزی سے سرایت کرتے جارہے ہیں ۔ ابھی تک ان ٹی وی پروگراموں کا کما حقہ تریاق مہیا کرنے میں کامیابی(i) حاصل نہیں ہوسکی۔ یہاں بھی بنیادی مسئلہ جوابی دلائل اور صلاحیت کے فقدان کا نہیں بلکہ دراصل رجحانات کا ہے۔ اگر اہل علم حضرات اپنی صلاحیتوں کو بعض مخصوص موضوعات پر تحقیق درتحقیق سے فرصت دے کر معمولی توجہ قوم کو درپیش ان زندہ مسائل کی طرف کر لیں تو معاشرے میں تیزی سے پھیلنے والے نظریاتی انتشار کا بخوبی مداوا کیا جاسکتا ہے۔

یوں تواس نوعیت کے بیسیوں اقدامات اور بھی تجویز کئے جا سکتے ہیں لیکن مذکورہ بالا اُمور میں سے ہر ایک میں یہ قوت وصلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنی جگہ اکیلے ہی اس صورتحال کا مکمل حل بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تیزی سے بدلتے منظرنامے کا درست شعور عطا فرمائے، اور اس کے مطابق راست اور بروقت اقدام کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین!

 


 

i. یاد رہے کہ ٹی وی پر نشر کئے جانے والے مباحثے حقیقت ِحال کی پوری عکاسی نہیں کرتے بلکہ ان پروگراموں کے میزبان کو پروگرام کے دوران میں ہنر مندی اور فنکاری دکھانے کا خوب موقعہ مل جاتا ہے، رہی سہی کسر ایڈیٹنگ میں قطع وبرید اور مقررین کے من پسند انتخاب کے ذریعے پوری کردی جاتی ہے۔ اکثر پروگراموں کے یک رخے نتائج کی بنیادی وجہ دراصل یہی ہے جو اہل نظر سے مخفی نہیں ہے۔