عیدمیلاد النبیﷺکے حوال سے دو سوال

محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاوّل میں ہوئی جس کے معنی ہیں 'موسم بہار کی پہلی بارش'۔جس طرح بارش سے مردہ زمین سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے، اسی طرح آپؐ کی تشریف آوری سے مردہ دِلوں کو تروتازگی نصیب ہوئی۔ ظلم و جور کرنے والے عدل و انصاف کے داعی اور کفر و شرک کی تاریکی میں غرق رہنے والے شمع ِ توحید کے پروانے بن گئے۔

1. سوموار کو آپؐ کی پیدائش کے بارے میں مؤرخین کا عام طور پر اتفاق ہے۔ لیکن ربیع الاوّل کی کس تاریخ کو آپؐ پیدا ہوئے، اس بارے میں محققین کا اختلاف ہے۔ ابوالفدا حافظ ابن کثیر نے یہ تاریخ 10 ربیع الاوّل بتائی ہے جبکہ طبری اور ابن خلدون نے 12ربیع الاوّل لکھی ہے۔ مولاناادریس کاندھلوی نے زرقانی کے حوالے سے 8 ربیع الاوّل بتائی ہے۔ سلیمان منصور پوری نے ماہرین فلکیات کے حسابی دلائل کو مدنظر رکھ کر9 ربیع الاوّل لکھی ہے۔مؤرخین کاایک تاریخ پر اجماع ثابت نہیں ہے؛ اس میں کیا حکمت ہے؟ یہ بھی ایک سوال ہے جو حل طلب ہے...!

2. صحابہ کرام ؓ کو خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت و عقیدت تھی، وہ اظہر من الشمس ہے۔ صحابہ آپؐ کی اطاعت و اتباع پرمرمٹنے والے تھے۔ حتیٰ کہ اُنہوں نے آپؐسے کہا کہ ہمارادل چاہتا ہے کہ ہم آپؐ کو سجدہ کریں تو ہادئ برحق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''اگر اللہ کے سوا اور کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو کہتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کیاکریں ۔'' لیکن اس سب محبت، عقیدت اور آپؐ کی ہر اَدا پر مٹنے کے باوجود کسی صحابی سے یہ سوال منقول نہیں ہے کہ حضورؐ! ہم آپؐ کی پیدائش کے دن کو کیسے منایا کریں ؟ اور نہ ہی خلفاے راشدینؓ کے دور میں ایسی کوئی کاوش نظر آتی ہے۔ شاید اس لئے کہ یہ سب حضرات اس بات کو سمجھتے تھے کہ سیرت منانے کی نہیں بلکہ عمل کرنے کی چیز ہے یاپھر شایدکوئی اور وجہ تھی جس کے باعث صحابہؓ کی زندگی اس استفسار اور کاوش سے خالی نظر آتی ہے۔ بہرحال ایساکیوں تھا؟ یہ بھی ایک سوال ہے جو حل طلب ہے...!