عقیدئہ عذابِ قبراور اس کی ضروری تفصیلات
اسلامی عقائد میں سے ایک عقیدہ عذابِ قبر کا بھی ہے جو نہ صرف قرآنِ مجید بلکہ صحیح اور متواتر احادیث سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہے، نیز عام اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ مرنے کے بعد ہرانسان سے عالم برزخ میں سوالات ہونے ہیں ، خواہ اسے قبر میں دفن کیا جائے یا نہیں ، اسے درندے کھا جائیں یا پھر آگ میں جلا کر ہوا میں اُڑا دیا جائے یا وہ پانی میں ڈوب کر مرجائے اور اسے مچھلیاں اپنی خوراک بنالیں ۔ ہرانسان سے اس کے ایمان کے متعلق محاسبہ ہونا ہی ہے، پھر اگر وہ ایماندار ہوگا تو قبر (برزخ) میں اسے کامیابی اور ثابت قدمی نصیب ہوگی، اور اگر وہ کافر یا منافق ہو تو اسے قبر میں قطعاً ثابت قدمی نصیب نہیں ہوگی۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يُثَبِّتُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا بِٱلْقَوْلِ ٱلثَّابِتِ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَفِى ٱلْءَاخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ ٱللَّهُ ٱلظَّـٰلِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُ ﴿٢٧﴾...سورة ابرہیم
''ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیاکی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ۔البتہ ناانصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے، اللہ جو چاہے کر گزرے۔''
تمام مفسرین، محدثین اور علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت عذابِ قبر کے بارے میں نازل ہوئی۔ خود ناطقِ وحی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس آیت کی تفسیرمیں یہی منقول ہے۔
چنانچہ سیدنابرا بن عازب ؓ سے مروی ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا:
(إذا أقعد المؤمن في قبرہ أتی،ثم شھد أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدا رسول اﷲ،فذلك قوله (يُثَبِّتُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا بِٱلْقَوْلِ ٱلثَّابِتِ...﴿٢٧﴾...سورة ابراہیم
''مؤمن جب اپنی قبر میں بٹھایاجاتاہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں ، پھر وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں ۔ پس یہی مطلب ہے اﷲ کے اس قول:
(يُثَبِّتُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوابِٱلْقَوْلِ ٱلثَّابِتِ...﴿٢٧﴾...سورة ابراہیم کا۔'' 1
محمد بن بشار رحمة اللہ علیہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں :
(يُثَبِّتُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوابِٱلْقَوْلِ ٱلثَّابِتِ...﴿٢٧﴾ نزلت في عذاب القبر) ''
یعنی یہ آیت عذابِ قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔'' 2
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر ربّ العالمین کا ارشاد ہے:
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِىٓ أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ﴿١٢٥﴾قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ ءَايَـٰتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ ٱلْيَوْمَ تُنسَىٰ ﴿١٢٦﴾...سورة طہ
''اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا یقینا اس کے لئے تنگ زندگی ہوگی اور ہم اس کو قیامت کے دن اندھا کرکے اُٹھائیں گے۔ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا جبکہ (اس سے پہلے) تو میں بلاشبہ دیکھنے والا تھا۔ وہ (اللہ) فرمائے گا: اسی طرح تیرے پاس ہماری نشانیاں آئیں لیکن تو نے انہیں فراموش کردیا، اس طرح آج کے دن تجھے فراموش کردیا جائے گا۔''
اس آیت میں مَعِیْشَةً ضَنْکًا کی تفسیر صاحب ِقرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمائی۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(وإن الکافر إذا أتی من قبل رأسه لم یوجد شيء ثم أتی عن یمینه فلا یوجد شيء ثم أتی عن شماله فلا یوجد شيء ثم أتی من قبل رجلیه فلا یوجد شيء۔ یقال له: اجلس فیجلس خائفا مرعوبا فیقال له: أرأیتك ھذا الرجل الذي کان فیکم ماذا تقول فیه وماذا تشھد به علیه؟ فیقول: أي رجل؟ فیقال: الذي کان فیکم۔ فلا یھتدي لاسمه حتی یقال له: محمد۔ فیقول: ما أدري سمعت الناس قالوا قولا فقلت کما قال الناس۔ فیقال له: علی ذلك حییتَ وعلی ذلك متَّ وعلی ذلك تُبعث إن شاء اﷲ۔ثم یفتح له باب من أبواب النار فیقال له: ھذا مقعدك من النار وما أعد اﷲ لك فیھا۔ فیزداد حسرة وثبورا ثم یفتح له باب من أبواب الجنة فیقال له: ذلك مقعدك من الجنة وما أعد اﷲ لك فیه لو أطعته۔ فیزداد حسرة و ثبورا ثم یُقیَّض علیه قبرہ حتی تختلف فیه أضلاعه فتلك المعیشة الضنکة التي قال اﷲ: {فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةً ضَنكًا...﴿١٢٤﴾...سورة طہ) 3
''اور بے شک کافر کو (عذاب دینے کے لئے فرشتے) اس کے سر کی طرف سے آتے ہیں ۔ وہ (ایمان اور عمل صالح کی) کوئی رکاوٹ نہیں پاتے۔ پھر وہ اس کے دائیں جانب سے آتے ہیں پس وہ کوئی رکاوٹ نہیں پاتے۔ پھر وہ بائیں طرف سے آتے ہیں ، ادھر بھی کوئی رکاوٹ نہیں پاتے۔ پھر وہ اس کے پاؤں کی جانب سے آتے ہیں تو ادھر بھی کوئی رکاوٹ نہیں ملتی۔ پھر اس(کافرکو) کہا جاتا ہے: بیٹھ جا۔ وہ خوف زدہ اور سہما ہوا بیٹھ جاتا ہے۔ فرشتے پوچھتے ہیں : جو شخص تم میں (رسول بناکر) بھیجا گیا تھا، اس کے بارے میں تیری کیا رائے ہے اور اس کے متعلق تو کیا گواہی دیتا ہے؟ جواب میں کافر کہتا ہے: کون سا آدمی؟ فرشتے کہتے ہیں : جو تم میں بھیجا گیا تھا۔ اسے آپؐ کے نام کے متعلق کچھ پتہ نہیں چلتا یہاں تک کہ اسے بتایا جاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (کے متعلق پوچھا جارہا ہے)۔ وہ کافر کہتا ہے: میں تو نہیں جانتا (البتہ) میں نے لوگوں کو (آپؐ کے متعلق) کچھ کہتے ہوئے سنا تھا۔ پھر میں نے بھی لوگوں کی طرح ہی کہہ دیا۔ فرشتے کہتے ہیں : اس شک پر تو زندہ رہا اور اسی پر مرا اور ان شاء اللہ اسی پر تو اُٹھایا جائے گا۔ پھر جہنم کے دروازوں میں ایک دروازہ اس کے لئے کھول دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی اسے یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ تیرا ٹھکانہ یہ آگ ہے (اور دوسرے عذاب) جو اللہ نے تیرے لئے تیار کررکھے ہیں ۔ پس (اس نظارے کے بعد) اس کی ندامت اور ہلاکت میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر اس کے لئے جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اسے بتایا جاتا ہے کہ اگر تو (اللہ اور اس کے رسولؐ کی) اطاعت کرتا تو یہ جنت تیرا ٹھکانہ ہوتی اور (دوسری نعمتیں ) جو اللہ نے تیرے لئے اس میں تیار کررکھی تھیں ۔ (اس نظارے کے بعد) اس کی ندامت اور ہلاکت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ پھر اس پر اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے، یہاں تک کہ اسکی ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف کی پسلیوں میں دھنس جاتی ہیں ۔ پس یہ ہے معیشة ضنکا(کی تفسیر) جسکے متعلق اللہ نے فرمایا ہے:{فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةً ضَنكًا...﴿١٢٤﴾...سورة طہ)''
اسی طرح سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ایک دوسری حدیث یوں ہے کہ
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا:
أتدرون فیما أنزلت هذہ الآیة{فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾...سورة طہ) أتدرون ما المعیشة الضنکة؟
کیا جانتے ہو کہ یہ آیت{فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ أَعْمَىٰ} کس چیز کے متعلق نازل ہوئی؟ کیا تم جانتے ہوکہ معیشة ضنکة کیا ہے؟ صحابہ کرامؓ نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عذاب الکافر في قبرہ والذي نفسي بیدہ أنه یسلط علیه تسعة وتسعون تنینا۔أتدرون ما التنین؟ سبعون حیة لکل حیة سبع رؤوس یلسعونه ویخدشونه إلی یوم القیامة 4
''(معيشة ضنكا سے مرادیہ ہے کہ) کافر کو اس کی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کافر پر ننانوے تنین مسلط کر دیے جاتے ہیں ۔جانتے ہو کہ تنین سے کیا مراد ہے؟ اس سے ستر سانپ (مراد) ہیں اور ہر سانپ کے سات سرے (منہ) ہیں جن کے ساتھ وہ قیامت تک کافر کو کاٹتے رہیں گے۔ ''
اسی آیت کی تفسیر میں امام قرطبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
وقول رابع وھو الصحیح أنه عذاب القبر قاله أبوسعید الخدري وعبداﷲ بن مسعود وروٰی أبوهریرة مرفوعًا عن النبي ! وقد ذکرنا في کتاب 'التذکرة' قال أبوهریرة یضیق علی الکافر قبرہ حتی تختلف فیه أضلاعه وھوالمعیشة الضنك 5
'' چوتھا قول اوریہی صحیح ہے کہ بے شک معیشة الضنك (سے مراد) عذابِ قبر ہے۔یہ قول ابوسعید خدری اور عبداللہ بن مسعود (7) کا بھی ہے اور ابوہریرہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع بیان کیاہے جسے ہم نے اپنی کتاب التذکرة میں ذکر کیاہے۔ ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ کافر پراس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں اِدھر اُدھر ہوجاتی ہیں یہی معیشة ضنک ہے۔''
علامہ شوکانی رحمة اللہ علیہ نے اپنی بھی اپنی تفسیر میں ا س سلسلے میں مروی متعدد روایات درج کرنے کے بعد یہی قرار دیا ہے کہ معیشة ضنك سے مراد عذاب ِقبر ہی ہے۔ 6
سید احمد حسن دہلوی نے بھی اس بارے میں سلف کے بعض اقوال ذکر کرنے کے بعد مسند بزار میں حضرت ابوہریرہ ؓکی سند سے مروی ایک معتبر حدیث کی بناپر یہی قرار دیا ہے کہ خود صاحب ِوحی صلی اللہ علیہ وسلم نے معیشة ضنک کی تعریف عذابِ قبر فرمائی ہے۔ 7
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ایک اور ارشاد ہے:
فَوَقَىٰهُ ٱللَّهُ سَيِّـَٔاتِ مَا مَكَرُوا وَحَاقَ بِـَٔالِ فِرْعَوْنَ سُوٓءُ ٱلْعَذَابِ ﴿٤٥﴾ ٱلنَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ أَدْخِلُوٓا ءَالَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ ٱلْعَذَابِ ﴿٤٦﴾...سورة غافر
''پس اسے (آلِ فرعون میں سے مؤمن آدمی کو) اللہ نے تمام سازشوں سے محفوظ رکھ لیا جو اُنہوں (فرعونیوں )نے سوچ رکھی تھیں اور فرعونیوں پربُری طرح کا عذاب اُلٹ پڑا۔ (یعنی) آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح و شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا کہ)آلِ فرعون کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔''
عذابِ قبر کے اثبات میں ان آیات میں دو بڑی واضح دلیلیں موجود ہیں : قیامت قائم ہونے سے پہلے قومِ فرعون کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے اور قیامت سے پہلے اُنہیں جس عذاب پر پیش کیا جارہا ہے، وہی عذابِ قبر ہے۔ یاد رہے کہ آگ پر پیشی آلِ فرعون کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ اس میں تمام مجرمین شامل ہیں ۔ چنانچہ حدیث میں ہے :
(إن أحدکم إذا مات عرض علیه مقعدہ بالغداة والعشي،إن کان من أھل الجنة فمن أھل الجنة، وإن کان من أھل النار فمن أھل النار فیقال ھذا مقعدك حتی یبعثك اﷲ یوم القیامة) 8
''بے شک جب تم میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کا ٹھکانا اسے صبح و شام دکھایا جاتا ہے، اگر وہ جنتی ہے تو جنت والوں میں ، اور اگر وہ دوزخی ہے تو دوزخ والوں میں ، پھر کہا جاتاہے یہ تیراٹھکانا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھ کو اٹھائے گا۔''
معلوم ہوا کہ صبح وشام آگ پر پیشی صرف آلِ فرعون کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ اس میں وہ سب لوگ شامل ہیں جن کے اعمال فرعون اور آلِ فرعون جیسے ہوں ۔
دوسری دلیل اس آیت میں یہ ہے کہ قیامت کے دن فرشتوں سے کہا جائے گا کہ قومِ فرعون کو زیادہ سخت عذاب میں داخل کرو۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس سے پہلے جو ان کو کم عذاب دیا گیاتھا، وہ عذابِ برزخ تھا کیونکہ روزِ محشر تو اُنہیں أشد العذاب ہوگا۔ اس کے مقابلے میں پہلے والا عذاب اتنا سخت نہیں تھا، اسی لئے {سُوٓءُ ٱلْعَذَابِ ﴿٤٥﴾ ٱلنَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا} فرمایا اور پھر بعد میں {أَدْخِلُوٓا ءَالَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ ٱلْعَذَابِ ﴿٤٦﴾} فرما کر اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ قیامت سے قبل جو عذاب دیا گیا تھا، وہ تھا تو عذاب ہی مگر قیامت کے سخت عذاب کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔
امام فخرالدین رازی رحمة اللہ علیہ اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں :
احتج أصحابنا بھذہ الآیة علی إثبات عذاب القبر۔ قالوا: الآیة تقضي عرض النار علیھم غدوا وعشیا،ولیس المراد منه: یوم القیمة؛ لأنه قال: { وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ أَدْخِلُوٓا ءَالَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ ٱلْعَذَابِ ﴿٤٦﴾} ولیس المراد منه أیضا: الدنیا؛ لأن عرض النار علیهم غدوا وعشیا ما کان حاصلا في الدنیا؛ فثبت أن ھذا العرض إنما حصل بعد الموت وقبل یوم القیمة، وذلك یدل علی إثبات عذاب القبر في حق ھولاء، وإذا ثبت في حقھم ثبت في حق غیرھم؛ لأنه لا قائل بالفرق 9
''ہمارے اَصحاب نے اس آیت سے عذابِ قبر کی دلیل پکڑی ہے، اُنہوں نے فرمایا کہ یہ آیت ان (آلِ فرعون) پر صبح و شام آگ پیش کرنے کا تقاضا کرتی ہے، اور اس (پیشی) سے مراد نہ تو قیامت کا دن ہے، کیونکہ اس کے لئے { وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ أَدْخِلُوٓا ءَالَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ ٱلْعَذَابِ ﴿٤٦﴾} ''اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو (حکم ہوگا) کہ آلِ فرعون کو سخت عذاب میں داخل کروـ۔''فرمایا ہے: اور نہ ہی اس سے مراد دنیا (کا دن) ہے، کیونکہ صبح وشام ان پرآگ کی پیشی دنیا میں حاصل نہیں ہوئی۔ پس ثابت ہوگیا کہ بے شک یہ پیشی صرف اور صرف موت کے بعد اور قیامت سے پہلے ہی حاصل ہوگی اور یہ (آیت) ان فرعونیوں کے بارے میں عذابِ قبر کے برحق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ جب ان (فرعونیوں ) کے بارے میں (عذابِ قبر) ثابت ہوگیا تو دوسروں کے بارے میں بھی ثابت ہوگیا۔ اس لئے کہ (اللہ تعالیٰ کا) فرمان سب کے لئے یکساں ہے۔''
یہی بات حسن بن محمد نیسا پوری رحمة اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں :
وفي الآیة دلالة ظاھرة علی إثبات عذاب القبر،لأن تعذیب یوم القیمة یجيء في قوله: {وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ} 10
اس آیت میں اثبات عذاب قبر کی واضح دلیل ہے، کیونکہ قیامت کے دن عذاب دینے کا (ذکر تو ) اس فرمان میں ہے: {وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ}
امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''ہر صبح و شام ان کی روحیں جہنم کے سامنے لائی جاتی ہیں ۔ قیامت تک اُنہیں یہ عذاب ہوتارہے گا، اور قیامت کے دن ان کی روحیں جسم سمیت جہنم میں ڈال دی جائیں گی، اور اس دن ان سے کہا جائے گا :اے آلِ فرعون! سخت، دردناک اور بہت تکلیف دہ عذاب میں چلے جاؤ۔ یہ آیت اہل سنت کے اس مذہب کی کہ عالم برزخ (یعنی قبروں ) میں عذاب ہوتا ہے۔ بہت بڑی دلیل ہے۔ 11
علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
ذھب الجمھور أن ھذا العرض ھو في البرزخ:{وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ أَدْخِلُوٓا ءَالَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ ٱلْعَذَابِ ﴿٤٦﴾} یدل دلالة واضحة علی أن ذلك العرض ھو في البرزخ12
''جمہور کا مذہب (یہ) ہے کہ بے شک (آگ پر) یہ پیشی برزخ ہی میں ہے۔ {وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ أَدْخِلُوٓا ءَالَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ ٱلْعَذَابِ ﴿٤٦﴾} واضح طور پر دلالت کررہا ہے کہ بیشک یہ (آگ پر) پیش کیاجانابرزخ ہی میں ہوتا ہے۔''
منکرین عذاب قبر کی طرف سے اس آیت پر عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آلِ فرعون صبح و شام قیامت تک صرف آگ پرپیش کئے جاتے رہیں گے، آگ میں ڈالے نہیں جائیں گے۔ آگ پر پیش کیا جانا اور آگ میں ڈالا جانا دونوں مساوی نہیں ۔
وضاحت: منکرین عذابِ قبر آل فرعون کا آگ پر پیش کیا جانا تو مانتے ہیں ، جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے، اب بات صرف اتنی ہے کہ کیا آگ پر پیشی عذاب ہے یا نہیں ؟
اس بات کا فیصلہ ہر صاحب ِعقل بخوبی کرسکتا ہے ۔ معمولی سی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی دنیا کی آگ سے یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ آگ پرپیش کیا جانا عذاب ہے یا راحت؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(نارکم هذہ التي یوقد ابن آدم جزء من سبعین جزء من حر جهنم۔ قالوا: واﷲ إن کانت لکافیة یا رسول اﷲ؟ قال: فإنھا فضلت علیھا بتسعة وستین جزء کلھا مثل حرھا) 13
''تمہاری یہ (دنیا کی) آگ جسے ابن آدم جلاتا ہے، جہنم کی آگ کا سترہواں حصہ ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی: واللہ! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (انسانوں کو جلانے کے لئے) یہی کافی تھی؟ آپؐ نے فرمایا: لیکن وہ تو دنیا کی آگ سے اُنہتر(69) درجہ زیادہ گرم ہے اور اس کا ہر حصہ اس دنیا کی آگ کے برابر ہے۔''
اس اُنہتر گنا کم حرارت والی آگ کے سامنے جب ہم بیٹھتے ہیں (آگ میں داخل نہیں بلکہ صرف سامنے بیٹھے ہیں ) تو اس کی تپش اور حرارت اس قدر ہوتی ہے کہ اس کی طرف دیکھا بھی نہیں جاتا، چہ جائیکہ آگ پر پیش کیا جائے۔یہ بات آپ ان حضرات سے اچھی طرح پوچھ سکتے ہیں جو تنور یا کسی آگ کی بھٹی پرسخت گرمی میں کھڑے ہوکر کام کرتے ہیں یا پھر گوشت کو ہی لے لیں جسے آگ پر صرف پیش ہی کیا جاتا ہے پھر دیکھ لیں کہ گوشت کا کیا حال ہوتا ہے؟ جب ہماری اس دنیا کی آگ کا یہ حال ہے تو آخرت کی آگ جو اس سے اُنہتر درجہ زیادہ ہے، اس پر پیش ہونے والوں کا کیا حشر ہوتا ہوگا۔ العیاذ باﷲ
سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
'' آگ پر پیش ہونا تو خود عذاب ہے، کیونکہ جہنم کے صرف پانی کا یہ حال ہے کہ {وَإِن يَسْتَغِيثُوايُغَاثُوا بِمَآءٍ كَٱلْمُهْلِ يَشْوِى ٱلْوُجُوهَ...﴿٢٩﴾...سورة الکھف''اگر وہ فریاد رسی چاہیں گے تو ان کی فریاد رسی اس پانی سے کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا جو چہرے بھون دے گا۔'' پس جب جہنم کے پانی کی گرمی اور تیزی اتنی ہے کہ اسکے قریب سے منہ جل جائے گاتو پھر آگ کا کیا کہنا؟ پیش ہونا تو خود عذاب ہے۔''14
بالفرض چند لمحوں کے لئے مان بھی لیا جائے کہ آگ پر پیشی عذاب نہیں تو اب منکرین عذابِ قبر ہی بتائیں کہ اسے کیا نام دیں گے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے آلِ فرعون کی آگ پراس پیشی کو ہی سوء العذاب قراردیا ہے۔
قبر میں ہونے والا عذاب کی بعض تفصیلات اوپر ذکر ہوئیں ، اس کی مزید تفصیلات مضمون کے آخر میں فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے درج کی گئی ہیں ۔ ان سطور میں ہم بخوفِ طوالت انہی آیات اور احادیث پر اکتفا کرتے ہیں ، وگرنہ قرآنِ مجید(i)اور احادیث ِصحیحہ میں اس مسئلے پر دلائل کے انبار موجود ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب ِقبر برحق ہے بلکہ ایک حدیث تو صاف ان الفاظ میں ہے:
(عذاب القبرحق)
''عذابِ قبر برحق ہے۔'' 15
عذاب قبر اور علماے سلف
آج بھی الحمدﷲ اہل سنت کا موقف عذاب قبر کے برحق ہونے کا ہے اور جس کسی نے بھی ان کی اس مسئلے میں مخالفت کی ہے، اسے سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں ملا۔ ذیل میں ہم اہل سنت کے چند ممتاز علما کی آرا بھی اثباتِ عذابِ قبر پر پیش کرتے ہیں :
شارح صحیح مسلم امام نووی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اعلم أن مذھب أھل السنة إثبات عذاب القبر،وقد تظاھرت علیه دلائل الکتاب والسنة: قال اﷲ تعالیٰ {ٱلنَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ...﴿٤٦﴾...سورة غافر} وقد تظاھرت به الأحادیث الصحیحة عن النبي من روایة جماعة في مواطن کثیرة، ولا یمتنع في العقل أن یعید اﷲ تعالیٰ في جزء من الجسد ویعذبه، وإذا لم یمنعه العقل وورد الشرع به، وجب قبوله واعتقادہ 16
''جان لو ! اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ عذابِ قبر برحق ہے اور اس پر کتاب وسنت کے واضح دلائل موجود ہیں ،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:ٱلنَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ...﴿٤٦﴾...سورة غافر
وہ آگ ہے جس پر وہ (لشکر ِفرعون) صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں ۔
ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب کے بارے میں بہت سی احادیث ِصحیحہ موجود ہیں ، جنہیں صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت نے بہت سے موقعوں پر بیان کیا ہے۔یہ امر عقلاً بھی محال نہیں کہ اللہ تعالیٰ جسم کے کسی حصہ میں زندگی لوٹا دے اور اسے سزا دے اور شرع میں بھی اس کا ثبوت موجود ہے۔ چنانچہ اس کو قبول کرنا اور اس پراعتقاد رکھناواجب ہے۔''
امام ابن قیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ومما ینبغي أن یعلم أن عذاب القبر ھو عذاب البرزخ، فکل من مات وھو مستحق للعذاب، ناله نصیبه منه، قُبِر أولم یُقبر، فلو أکلته السباع أو حرِّق حتی صار رمادا أو نسف في الھواء أو صلب أو غرق في البحر، وصل إلی روحه وبدنه من العذاب ما یصل إلی المقبور 17
''اس امر کا علم رکھنا ضروری ہے کہ عذابِ قبر اصل میں عذابِ برزخ ہی کا دوسرا نام ہے۔ ہر مرنے والے کو جو عذاب کا مستحق ہو، اس کا حصہ پہنچ جاتاہے، خواہ اسے قبر میں دفن کیا جائے یا نہ، اسے درندے کھا گئے ہوں یا وہ آگ میں جلا دیا گیا ہو، اس کی راکھ ہوا میں اُڑا دی گئی ہو یاوہ پھانسی دے دیا گیا ہو یاسمندر میں ڈوب مرا ہو۔ (ان سب حالات میں ) اس کی رُوح اور اس کے بدن کو وہ عذاب پہنچ کررہے گا جو قبر والوں کو ہوتا ہے۔''
حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ صحیح بخاری کے باب ماجاء في عذاب القبر کے تحت لکھتے ہیں :
واکتفی بإثبات وجودہ خلافا لمن نفاہ مطلقا من الخوارج وبعض المعتزلة کضرار بن عمرو وبشر المریسي ومن وافقھما وخالفھم في ذلك أکثر المعتزلة وجمیع أھل السنة وغیرھم 18
''امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے یہاں صرف اثباتِ عذاب قبر پر ہی اکتفا کیا ہے تاکہ اس سے ان خارجیوں اور معتزلہ کا ردّ کریں جنہوں نے مطلقاً عذابِ قبر کی نفی کی ہے، جیسے ضرار بن عمرو، بشر مریسی اور ان کے ہم خیال لوگ۔ البتہ اکثر معتزلہ اور اہل سنت نے اس مسئلے میں ان کی مخالفت کی ہے۔''
علامہ عینی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
إثبات عذاب القبر وھو مذھب أھل السنة والجماعة، وأنکر ذلك ضرار بن عمرو و بِشر المُریسي وأکثر المتأخرین من المعتزلة ۔19
''اہل سنت والجماعت کا موقف عذابِ قبر کے اثبات کا ہے، جب کہ ضرار بن عمرو اور بشر مریسی اور متاخرین معتزلہ میں سے اکثر نے اس کا انکار کیا ہے۔''
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ومن الإیمان بالیوم الآخر الإیمان بکل ما أخبر به النبي ﷺ مما یکون بعد الموت فیؤمنون بفتنة القبر وبعذاب القبر ونعیمه ۔20
''اور آخرت پر ایمان لانے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے بعد کے احوال کے متعلق جو بھی خبر دی ہے، ان سب پرایمان لاتے ہوئے انسان فتنۂ قبر ، عذابِ قبر اور ثواب قبر پربھی ایمان رکھے۔''
اُستاذِ محترم جناب ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ رقم طراز ہیں :
''احادیث ِرسولؐ پر سچے دل سے ایمان لانے کے بعد اب جو شخص بھی ان احادیث کا مطالعہ کرے گا تو وہ اس حقیقت کو پالے گا کہ قبر کا عذاب ایک حقیقت ہے۔ عذابِ قبر کا تعلق چونکہ مشاہدے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے، اس لئے حواس اس کا ادراک نہیں کرسکتے، بس یوں سمجھ لیں کہ جیسے فرشتوں ، جنات، جنت اور دوزخ کو ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے کہنے سے تسلیم کرتے ہیں ، اسی طرح عذابِ قبر کو بھی ہمیں تسلیم کرلینا چاہئے کیونکہ عذابِ قبر کے متعلق بے شمار احادیث ِصحیحہ موجود ہیں جو درجہ تواتر تک پہنچ چکی ہیں ۔ ان احادیث کا انکار گویا قرآنِ کریم کے انکار کے مترادف ہے۔'')21
مولانا محمد یوسف لدھیانوی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :
''پوری جزا سزا تو آخرت میں ہی ملے گی جب ہر شخص کا فیصلہ اس کے اعمال کے مطابق چکایا جائے گا، لیکن بعض اعمال کی کچھ جزا و سزا دنیا میں بھی ملتی ہے، جیسا کہ بہت سی آیات واحادیث میں یہ مضمون آیا ہے اور تجربہ و مشاہدہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اسی طرح بعض اعمال پر قبر میں بھی جزا و سزا ہوتی ہے اور یہ مضمون بھی احادیث ِمتواترہ میں موجود ہے۔''
آخر میں فرماتے ہیں :
''بہرحال قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس سے ہر مؤمن کو پناہ مانگتے رہنا چاہئے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد عذابِ قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ '' 22
خلاصہ نکات:مذکورہ بالا بحث سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ
- قرآن و سنت کی نصوص کی روشنی میں جملہ اہل سنت والجماعت کے عقیدے کا لازمی حصہ ہے کہ عذابِ قبر کو برحق مانا جائے اور اس پر ایمان لایا جائے۔
- موت کے بعد انسان جہاں کہیں بھی ہو اور جس حالت میں بھی ہو، اسے عذاب یا راحت پہنچتی ہے۔اس کے لئے قبر میں ہونا لازمی نہیں ۔
- عذابِ قبر کا انکار خوارج،بعض معتزلہ اور ان کے بعض پیروکاروں نے کیا ہے، جب کہ یہ لوگ اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں اور بالاتفاق گمراہ ہیں ۔
- عذابِ قبر کا تعلق مشاہدے سے نہیں بلکہ ایمان بالغیب سے ہے، اس لئے ہماری عقل اس کا اِدراک نہیں کرسکتی۔
- ہر مؤمن کے لئے ضروری ہے کہ وہ عذابِ قبر سے پناہ مانگے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سے پناہ مانگا کرتے تھے۔
یاد رہے کہ اگر مرنے والا نیک ہو تو قبر اس کے لئے انعاماتِ اُخرویہ کا زینہ اوّل ثابت ہوتی ہے اور اگر وہ نافرمان ہو تو پھر قبر آخرت کے عذاب کا نقطہ آغاز بنتی ہے۔
عالم 'برزخ'سے کیا مراد ہے؟
اصطلاح میں بَرْزَخ اس مدت اور زمانے کا نام ہے جو دنیا اور آخرت کے درمیان ہے، یعنی موت کے وقت سے لے کر قیامت تک کا درمیانی 'وقفہ' برزخ کہلاتا ہے۔
عربی لغت کی مشہورکتاب 'الصحاح' کے مصنف علامہ جوہری فرماتے ہیں :
البرزخ الحاجز بین الشیئین والبرزخ ما بین الدنیا والآخرة من وقت الموت إلی البعث فمن مات فقد دخل في البرزخ
''برزخ (لغت میں ) اس رکاوٹ کا نام ہے جو دو چیزوں کے درمیان ہوتی ہے،جبکہ (اصطلاح میں ) برزخ وہ عرصہ ہے جو دنیا اور آخرت کے درمیان ہے؛ موت کی گھڑی سے لے کر قیامت تک۔ پس جو شخص مرگیا وہ برزخ میں چلا گیا۔''
امام ابن زید رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
البرزخ ما بین الموت إلی البعث 23
''برزخ موت اور قیامت کے درمیانی عرصے کو کہتے ہیں ۔''
برزخ کے متعلق چند ضروری باتیں :فوت شدہ انسان کے لئے برزخ ظرفِ زمان ہے، مرنے کے بعد انسان عالم برزخ میں چلا جاتا ہے۔ جو میت چارپائی پر پڑی ہو، وہ بھی عالم برزخ میں داخل ہوچکی ہے، جس کو لوگ کندھوں پر اُٹھائے ہوئے ہوتے ہیں ، وہ بھی عالم برزخ میں ہی ہے اور جس کو قبر میں دفن کردیا گیا ہو، وہ بھی برزخ میں ہے۔ الغرض فوت شدہ انسان جہاں اور جس حالت میں بھی ہو، وہ عالم برزخ میں ہی ہے کیونکہ موت کے وقت سے اس کا عالَم(زمانہ) تبدیل ہوگیا۔ پہلے وہ 'عالم دنیا' میں تھا اور اب وہ 'عالم برزخ' میں داخل ہوگیا ہے، اگرچہ وہ وہیں چارپائی پر ہی کیوں نہ پڑا ہوا ہو۔
یادرہے کہ وقت اور زمانے کی تبدیلی کے لئے جگہ کی تبدیلی ضروری نہیں مثلاً ایک شخص نے عصر کی نماز مسجد میں ادا کی اور پھر اسی مسجد اور اسی مصلیٰ پر ہی بیٹھا رہاحتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا اور مغرب ہوگئی تو وہ شخص وہاں بیٹھے بیٹھے ہی رات میں داخل ہوچکا ہے۔ حالانکہ وہ ایک ہی مقام پر بیٹھا رہا اور اس نے کوئی جگہ نہیں بدلی لیکن زمانہ تبدیل ہوگیا۔ عصر کے وقت وہ دن میں تھا اور مغرب کے وقت رات میں پہنچ گیا۔ اسی طرح مرنے سے پہلے آدمی عالم دنیا میں ہوتا ہے اور مرنے کے بعد عالم برزخ میں چلا جاتا ہے خواہ چارپائی پر ہی کیوں نہ پڑا ہو یا جہاں بھی ہو ، اب اس کا زمانہ تبدیل ہوگیا ہے۔
برزخ والے دنیا والوں کے حالات سے بے خبر ہیں ۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس وقت دنیا میں کیا کچھ ہورہا ہے اور ہمارے اہل و عیال پر کیا بیت رہی ہے، اگرچہ میت چارپائی پر ہی کیوں نہ پڑی ہو۔ بالکل ایسے ہی دنیا والوں کی مثال ہے کہ وہ بھی مرنے والے کے ساتھ ہونے والی کارروائی سے ناآشنا ہیں ۔ فرشتے مرنے والے کی پٹائی کررہے ہوں یا اسے جنت کی بشارتیں سنا رہے ہوں یا میت چیخ و پکار کررہی ہو، أین تذھبون کی صدا یا قَدِّمُوْنِيْ قَدِّمُوْنِيْ پکار رہی ہو، دنیا والوں کو کچھ نظر نہیں آتا اور وہ سب اس ساری کارروائی سے بے خبر ہوتے ہیں ۔ اس لئے کہ اب دونوں کا زمانہ مختلف ہے۔ ایک عالم دنیا میں ہے اور دوسرا عالم برزخ میں ہے۔ اختلافِ عالم کے سبب یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ دنیا والے برزخیوں کے حالات یا اہل برزخ دنیا والوں کے حالات سے آگاہ ہوسکیں ۔
عالم دنیا میں ہر انسان کو راحت ولذت اور عذاب وسزا کا پہنچنا ایک مسلم حقیقت ہے جس سے کسی کو بھی انکار نہیں لیکن آپ دیکھیں کہ بسا اوقات انسان کو اس زمین کے بجائے فضاؤں (جیسے ہوائی جہاز وغیرہ) میں آرام یا سزا ملتی ہے۔ اب اس شخص کو دلیل بنا کر کسی نے بھی زمین پر ملنے والی سزاؤں کا انکار نہیں کیا کیونکہ اوّلا زمین پر سزاؤں کاملنا اَغلب واکثر ہے ۔ ثانیاً: ہوائی سزا بھگتنے والا بھی بالآخر کسی نہ کسی وقت زمین پر آ ہی جائے گا۔ بعینہٖ عالم برزخ میں بھی ثواب وعذاب کاملنا برحق ہے، خواہ کسی کو یہ زمینی گڑھے (قبر) میں ملے یا نہ ملے؟جس فوت شدہ شخص کو یہ زمینی قبر نہ ملے، اسے دلیل بنا کر اس زمینی قبر میں ہونے والی کارروائی کا انکار کر کے کسی نئی قبر (جیسے فرقہ عثمانیہ نے برزخی قبر کا تصور پیش کیا ہے) میں عذاب یا ثواب دیے جانے کا نظریہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک برزخ میں ہونے والے عذاب کو عذابِ قبر کہنے کی بات ہے تواس کی وجہ یہ ہے کہ اوّلاً قبروں میں مردوں کا دفن ہونا اَغلب واکثر ہے، ثانیاً: جنہیں فی الوقت قبر نہیں ملی، کسی تابوت یا چارپائی پر رکھا گیا ہے وہ بھی ایک نہ ایک دن اسی زمین میں چلے جائیں گے جو آخرکار ان کے لیے قبر بن جائے گی اور پھر حشر کے دن سارے اسی زمینی قبروں سے ہی اُٹھائے جائیں گے:
مِنْهَا خَلَقْنَـٰكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ ﴿٥٥﴾...سورة طہ
اسی (زمین) سے ہم نے تمہیں پیداکیا اور اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ (قیامت کے دن ) ہم تمہیں نکالیں گے ۔''
عالم برزخ عالم آخرت ہی کا حصہ ہے، کتاب و سنت میں اس کے بے شمار دلائل موجود ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤمن بندے کی موت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
(وإن العبد المؤمن إذا کان في انقطاع من الدنیا وإقبال الآخرة) 24
''بے شک مؤمن بندہ جب دنیا سے کوچ کرنے لگتا ہے اور آخرت کی طرف روانہ ہوتا ہے۔''
ایک اور فرمانِ نبویؐ ہے:
(ان القبر أول منزل من منازل الآخرة)
''بے شک قبر آخرت کی گھاٹیوں میں سے پہلے گھاٹی ہے۔'' 25
معلوم ہوا کہ عالم برزخ عالم آخرت ہی کا حصہ ہے، اسی لئے عالم برزخ کو آخرت کا مقدمہ بھی کہا جاتا ہے۔ عالم آخرت یا عالم برزخ میں ہونے والی ساری کارروائی کا تعلق پردئہ غیب سے ہے، اور غیب کی خبروں کا علم وحی الٰہی کے بغیر ناممکن ہے، اس لیے بحیثیت ِمسلمان ہم سب پر ضروری ہے کہ احوالِ آخرت کے بارے جس قدر اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں علم دیا ہے، اس پر بلا چوں چرا ، من وعن بغیر کسی تحریف ،تمثیل اور کیفیت کے ایمان لایا جائے،کیونکہ ربّ العالمین نے نیک لوگوں کی پہلی صفت ہی یہ بیان فرمائی ہے کہ
يُؤْمِنُونَ بِٱلْغَيْبِ...﴿٣﴾...سورة البقرة
''وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں ۔''
البتہ اس حد تک عالم برزخ کی کیفیت کا تذکرہ جو خود زبانِ رسالتؐ سے ہمیں علم ہواہے، اس کی تفصیلات ہم آگے اپنے مقام پر پیش کریں گے۔
قبر کیا ہے ؟
جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ میت کے لئے برزخ توظرفِ زمان ہے جبکہ قبر ظرفِ مکان ہے۔ تمام اہل سنت والجماعت کے نزدیک قبر زمین کے اسی حصہ کا نام ہے جس میں مردے کودفن کیا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر مردہ انسان کے مدفن یعنی جائے دفن کو 'قبر' کہتے ہیں ۔
لغت سے استدلال:
لغت میں بھی انسان کے مدفن ہی کو قبر کہا گیا ہے، مثلاً دیکھیں : المنجد مادّہ قبر، مترادفات القرآن: ص623، مفردات القرآن اُردو ص820، فیروز اللغات ص550 اور مصباح اللغات ص654 وغیرہ
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمة اللہ علیہ اپنی صحیح میں قبر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وقول اﷲ عزوجل: {فأقبرہ}أقبرت الرجل: إذا جعلت له قبرا وقبَّرته: دفنته {کفاتا} یکونون فیھا أحیاء ویدفنون فیھا أمواتا
'' (سورئہ عبس میں ) اللہ تعالیٰ کے ارشاد {فَاَقْبَرَہُ} (کی تشریح یہ ہے کہ یہ عرب کا محاورہ ہے) جب کوئی کسی کے لئے قبر بنائے، تو اس وقت کہتا ہے: أقبرت الرجل ''یعنی میں نے آدمی کی قبر بنائی'' اور قبَّرتُه کے معنی ہیں :'' میں نے اسے دفن کیا۔'' ( سورئہ مرسلات میں ) {کِفَاتًا} کے لفظ (کے معنی یہ ہیں) ''کہ زندگی بھی زمین ہی پر گزاروگے، اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہوگے۔'' 26
قرآنِ کریم سے بھی پتہ چلتاہے کہ قبر سے مراد وہی گڑھا ہے، جو زمین میں کھودا جاتاہے:
وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِۦٓ ۖ...﴿٨٤﴾...سورة التوبہ
''اور آپ ان (منافقین) میں سے کسی کی قبر پر کھڑے نہ ہوں ۔''
وَمَآ أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِى ٱلْقُبُورِ ﴿٢٢﴾...سورة الفاطر
''اور آپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں ۔''
كَمَا يَئِسَ ٱلْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَـٰبِ ٱلْقُبُورِ ﴿١٣﴾...سورة الممتحنہ
''جیسے کفار اہل قبر سے مایوس ہوچکے ہیں ۔''
ثُمَّ أَمَاتَهُۥ فَأَقْبَرَهُۥ ﴿٢١﴾...سورة عبس
''پھر اسے موت دی، پھر اسے قبر میں دفن کیا۔''
وَإِذَا ٱلْقُبُورُ بُعْثِرَتْ ﴿٤﴾...سورة الانفطار
''اور جب قبریں اُکھاڑ دی جائیں گی۔''
حَتَّىٰ زُرْتُمُ ٱلْمَقَابِرَ ﴿٢﴾...سورة التکاثر
''یہاں تک کہ تم قبریں دیکھ لو۔''
وَأَنَّ ٱللَّهَ يَبْعَثُ مَن فِى ٱلْقُبُورِ ﴿٧﴾...سورة الحج
''اور یقینا اللہ تعالیٰ ہی قبر والوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا۔''
أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِى ٱلْقُبُورِ ﴿٩﴾...سورة العادیات
''کیا وہ نہیں جانتا کہ جب قبروں میں جو کچھ ہے، وہ نکال لیا جائے گا۔''
تمام مفسرین کے نزدیک بالاتفاق قبر، قبور اور مقابر سے مراد فوت شدہ انسان کی جائے دفن ہی ہے۔
احادیث ِنبویہؐ کی روشنی میں
جس طرح قرآنِ مجید میں لفظ' قبر' کا اطلاق اسی معروف زمینی قبر پر کیا گیا ہے، ایسے ہی بے شمار احادیث ایسی ہیں جن میں 'قبر' کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ قبر سے مراد مردہ انسان کا مدفن ہی ہے۔ ذیل میں اسی سلسلے کی صرف چند احادیث بیان کی جارہی ہیں :
عن أبي ھریرة أن رسول اﷲ! قال: (قاتل اﷲ الیھود اتخذوا قبور أنبیاء ھم مساجد)27
'' سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں ، کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' یہودیوں کو اللہ تعالیٰ ہلاک کرے، انہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مساجد (سجدہ گاہ) بنا لیا۔''
عن جابر قال: (نھٰی رسول اﷲ!عن تجصیص القبور)28
''سیدنا جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کوچونا گچ کرنے سے منع فرمایا۔''
عن أبي ھریرة قال: زار النبي ! قبر أمه فبکی وأبکی من حوله فقال: (استاذنت ربي في أن استغفرلھا فلم یؤذن لي واستاذنته في أن أزور قبرھا فأذن لي فزوروا القبور فإنھا تذکر الموت) 29
''سیدناابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ کی قبر پر تشریف لے گئے، خود بھی روئے اور گردوپیش لوگوں کوبھی رُلا دیا۔پھر فرمایا:''کہ میں نے اپنے ربّ سے اپنی والدہ کے حق میں استغفار کی اجازت چاہی، لیکن نہ ملی۔ پھر زیارتِ قبر کی اجازت چاہی تو اجازت مل گئی، چنانچہ قبروں کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ تمہیں موت یاد دلاتی ہیں ۔''
لغت ِعرب، قرآنِ مجید کی آیات اور بے شمار احادیث سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قبر سے مراد یہی زمینی گڑھا ہے ۔ جب قبر سے مراد یہی زمینی قبر ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ اسی قبر میں نکیرین آتے ہیں ، اسی میں سوال و جواب ہوتے ہیں ، اس کے بعد پھر اسی قبر کو اعمال کے مطابق جنت کا باغ یا جہنم کا گڑھا بنا دیا جاتا ہے۔ اس قبر کے علاوہ کسی اور قبر کا دعویٰ کرنا، جیسا کہ بعض لوگوں نے 'برزخی قبر' کا دعویٰ کیا ہے، سراسر کتاب و سنت کے منافی ہے اور اتنا بودا اور کمزور ہے، جیسے تارِ عنکبوت۔
عذابِ قبر کی دو اقسام
دائمی عذاب:اس سے مراد ایسا عذاب ہے جو موت سے لے کر قیامت تک کفار کو دیا جائے گا، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا آلِ فرعون کے متعلق ارشاد ہے:
وَحَاقَ بِـَٔالِ فِرْعَوْنَ سُوٓءُ ٱلْعَذَابِ ﴿٤٥﴾ ٱلنَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ أَدْخِلُوٓا ءَالَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ ٱلْعَذَابِ ﴿٤٦﴾...سورة غافر
''اور آلِ فرعون پر بُری طرح کا عذاب الٹ پڑا، آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح و شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا کہ )آلِ فرعون کو سخت عذاب میں ڈال دو۔''
ایسے ہی قومِ نوح کے متعلق فرمایا:
مِّمَّا خَطِيٓـَٔـٰتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا۟ لَهُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ أَنصَارًا ﴿٢٥﴾...سورة نوح
''اور وہ لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے ڈبو دیئے گئے پھر آگ میں داخل کردیئے گئے ہںٰ پس نہ پایا انہوں نے اپنے لئے اللہ کے سوا کوئی مدد کرنے والا۔''
منافقین بھی اس دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے، جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث میں ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں :
(وإن کان منافقا قال سمعت الناس یقولون فقلت مثله لا أدري فیقولان: قد کنا نعلم أنك تقول ذلك۔ فیقال للأرض التئمي علیه فتلتئم علیه فتختلف فیھا أضلاعه فلا یزال فیھا معذبا حتی یبعثه اﷲ من مضجعه ذلك) 30
''اگر مرنے والامنافق ہو تو وہ(فرشتوں کے سوال کے جواب میں ) کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ) کچھ کہتے ہوئے سناتھا پس میں بھی وہ کچھ کہتا تھا، اس سے زیادہ مجھے کچھ معلوم نہیں ۔ فرشتے کہتے ہیں : ہمیں معلوم تھا کہ تو جواب میں یہی کچھ کہے گا۔ پھر زمین کو (اللہ کی طرف سے) حکم دیاجاتا ہے: اسے جکڑ لے۔ پس قبر اسے جکڑ لیتی ہے اس کی ایک طرف پسلیاں دوسری طرف کی پسلیوں میں پیوست ہوجاتی ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی قبر سے اُٹھا کھڑا کرے گا۔''
بعض کبائر کے مرتکب مسلمان بھی قبر کے دائمی عذاب میں مبتلا رہیں گے، جیسا کہ سیدنا سمرہ بن جندبؓ کی بیان کردہ ایک طویل حدیث سے ثابت ہورہا ہے۔مکمل حدیث کے بیان کرنے سے تو یہ سطور قاصر ہیں ، تاہم حدیث کا ایک ٹکڑا یہاں درج کیا جاتاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لئے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو پتھر سر پر لگ کر دور جاگرتا اور وہ اسے اُٹھا کر لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہوجاتا۔ بالکل ویسا ہی، جیسا پہلے تھا، واپس آکر وہ اسے مارتا ۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر فرشتے نے کہا کہ)
''فرجل علَّمه اﷲ القرآن فنام عنه باللیل ولم یعمل فیه بالنهار یفعل به إلی یوم القیامة''31
''یہ وہ انسان تھا جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا، دن میں ان پر عمل نہیں کرتاتھا، اسے یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا۔''
وقتی عذاب:حافظ ابن قیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''دوسری قسم کا عذابِ قبر وقتی ہے جو ہلکے گناہ والوں پر ان کے گناہوں کے مطابق ایک مقررہ وقت تک ہوتا ہے اور پھر موقوف ہوجاتا ہے، جیسا کہ گناہ گاروں کو ایک خاص وقت تک جہنم میں عذاب ہوگا اور پھر موقوف کردیا جائے گا۔ وقتی عذابِ قبرمیت کے لئے دعاے استغفار یا اسکی اولاد کے صدقہ وغیرہ سے بھی موقوف ہوجاتا ہے۔''32
عذابِ قبر کی مختلف صورتیں
کفار اور دیگر گناہ گاروں کو قبر میں ملنے والے عذاب کی مختلف صورتیں
آگ کے لباس اور بستر کا عذاب :
سیدنا براء بن عازبؓ سے مروی لمبی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''قبر میں کافر کی روح جب لوٹائی جاتی ہے تو (ویأتیه ملکان فیجلسانه فیقولان له: من ربك؟ فیقول: ھاہ ھاہ لا أدري۔قال فیقولان: ما دینك؟ فیقول: ھاہ ھاہ لا أدري۔قال: فیقولان له: ماھذا الرجل الذي بعث فیکم؟ فیقول: ھاہ ھاہ لا أدري؟ فینادي مناد من السمآء: أن کذب فأفرشوہ من النار (وألبسوہ من النار) وافتحوا له بابا إلی النار فیأتیه من حرِّھا وسُمومھا، ویُضیَّقُ علیه قبرہ حتی تختلف فیه أضلاعه، ویأتیه رجل قبیح الوجه قبیح الثیاب مُنتن الریح فیقول: أبشر بالذي یسوء ك ھذا یومك الذي کنت توعد فیقول: من أنت فوجھك الوجه القبیح یجيء بالشر۔فیقول : أنا عملك الخبیث۔فیقول: رب لا تقم الساعة) 33
''اور کافر کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اسے بیٹھا کر پوچھتے ہیں : ''تیرا ربّ کون ہے؟'' وہ کہتا ہے : ''ہائے افسوس!میں نہیں جانتا۔'' فرشتے پوچھتے ہیں :''تیرا دین کون سا ہے؟'' کافر کہتا ہے : ''ہائے افسوس! میں نہیں جانتا۔'' فرشتے پوچھتے ہیں : ''وہ شخص جو تمہارے درمیان مبعوث کئے گئے تھے، وہ کون تھے؟'' کافر کہتا ہے : ''ہائے افسو س! میں نہیں جانتا۔'' آسمان سے منادی کی آواز آتی ہے کہ اس نے جھوٹ کہا ہے۔ اس کے لئے آگ کا بستر بچھا دو، اسے آگ کا لباس پہنا دو، اس کے لئے جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔چنانچہ جہنم کی گرم اور زہریلی ہوا اسے آنے لگتی ہے۔ اس کی قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے، حتیٰ کہ اس کی ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف کی پسلیوں میں پیوست ہوجاتی ہیں ۔ پھر اس کے پاس ایک بدصورت ، غلیظ کپڑوں اور بدترین بدبووالا شخص آتا اور کہتا ہے : ''تجھے بُرے انجام کی بشارت ہو، یہ ہے وہ دن جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ کافر کہتا ہے: تو کون ہے؟ تیرا چہرہ بڑا ہی بھیانک ہے۔ تو (میرے لئے) برا ئی کا پیغام لے کر آیا ہے، وہ جواب میں کہتا ہے: ''میں تیرے اعمال ہوں ۔'' تب کافر کہتا ہے: اے میرے ربّ! قیامت قائم نہ کرنا۔''
لوہے کے ہتھوڑوں سے مارے جانے کا عذاب :
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(العبد إذا وضع في قبرہ وتُوُلِّيٍَ وذھب أصحابه حتی أنه لیسمع قرع نعالھم،أتاہ ملکان فأقعداہ فیقولان: ما کنت تقول في ھذا الرجل محمد ﷺ؟ فیقول : أشھد أنه عبد اﷲ ورسوله،فیقال: اُنظر إلی مقعدك من النار اَبدلك اﷲ به مقعدا من الجنة) قال النبي ! (فیراھما جمیعا، وأما الکافر أو المنافق فیقول: لا أدري کنت أقول ما یقول الناس، فیقال: لا دریت ولا تلیت، ثم یضرب بمِطرقة من حدید ضربةً بین أذنیه فیصیح صیحة یسمعھا من یلیه إلا الثقلین) 34
''جب بندہ قبر میں دفن کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس پلٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں : ''تو اس آدمی کے بارے میں کیاکہتا تھا؟'' (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ) بندہ کہتا ہے :''میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسولؐ ہیں ۔'' پھراسے کہا جاتا ہے: ''دیکھ جہنم میں تیری جگہ یہ تھی جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں جگہ عنایت فرما دی۔'' چنانچہ وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے اور کافر یا منافق (منکرنکیر کے جواب ميں ) کہتا ہے: ''مجھے معلوم نہیں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں ؟) میں وہی کچھ کہتا تھا جولوگ کہتے تھے۔ ''چنانچہ اسے کہا جاتا ہے: ''تو نے (قرآن و حدیث کو)سمجھا،نہ پڑھا ۔'' پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے مارا جاتا ہے اور وہ بُری طرح چیخ اُٹھتا ہے۔ اس کی آواز جن و انس کے علاوہ آس پاس کی ساری مخلوق سنتی ہے۔''
قبر کے شکنجے میں جکڑے جانے کا عذاب:
سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی مکمل حدیث پانچ صفحات قبل ذکر ہو چکی ہے، جس میں ہے کہ
(فیقال للأرض التئمي علیه فتلتئم علیه فتختلف أضلاعه)35
''پھر زمین کو (اللہ کی طرف سے) حکم دیا جاتا ہے کہ اسے جکڑلے، پس وہ اسے جکڑ لیتی ہے۔ اس کی ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف کی پسلیوں میں پیوست ہوجاتی ہیں ۔
سانپوں اور بچھوؤں کے ڈسنے کاعذاب:
سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(وإن کان من أھل الشك قال: لا أدري سمعت الناس یقولون شیئا فقلته فیقال له: علی الشك حییتَ وعلیه متَّ وعلیه تُبعث۔ ثم یفتح له باب إلی النار وتسلط علیه عقارب وتنانین لو نفخ أحدھم علی الدنیا ما أنبتت شیئا تنھشه وتؤمر الأرض فتنضم علیه حتی تختلف أضلاعه) 36
''اور مردہ (اللہ اور سولؐ کے متعلق) شک کرنے والوں میں سے ہو تو وہ (منکر نکیر کے سوالوں کے جواب میں ) کہتا ہے: میں نہیں جانتا۔ میں نے لوگوں کو کچھ کہتے سنا تھا اور میں نے بھی وہی بات کہی۔ اسے کہا جاتا ہے کہ شک پرتوزندہ رہا، شک پر ہی تیری موت ہوئی اور شک پر ہی تو دوبارہ اُٹھایا جائے گا۔پھر اس کی قبر کے لئے جہنم کی طرف سے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس پر اس قدر زہریلے بچھو اور اژدہا مسلط کردیے جاتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک زمین پرپھونک مار دے تو کوئی چیز پیدا نہ ہو۔ چنانچہ وہ بچھو اور اژدہے اسے کاٹتے رہتے ہیں ۔ زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس پر تنگ ہوجا، چنانچہ (زمین اس پراس قدر تنگ ہوجاتی ہے کہ) اسکی ایک طرف کی پسلیاں دوسری پسلیوں میں دھنس جاتی ہیں ۔'' العیاذ باللہ
حوالہ جات
1. بخاری: رقم4699
2. بخاری، کتاب الجنائز، باب ماجاء في عذاب القبر، رقم :1369
3. صحیح ابن حبان کتاب الجنائز، رقم :1303 'حسن' کما قاله الألباني
4. صحیح ابن حبان، کتاب الجنائز، رقم:3112،3109 حسنه الألباني
5. تفسیر قرطبی:11؍259، طبع ایران
6. تفسیر فتح القدیر:3؍392
7. احسن التفاسیر:4؍199
8. بخاری: کتاب الجنائز، رقم:1379
9. بحوالہ تحفة الأحوذي:9؍266 طبع جدید
10. ایضاً
11. تفسیر ابن کثیر، مترجم اُردو :4؍529
12. تفسیر درّ منشور:4؍495، قدیم
13. صحیح مسلم، رقم:7165، طبع دارالسلام
14. عذابِ قبر کی حقیقت: ص 30
15. صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم:1372
16. المنهاج شرح صحیح مسلم:2؍385،386 درسی
17. کتاب الروح: ص56
18. فتح الباری:3؍296، دارالسلام
19. عمدة القاری شرح صحیح البخاری: 6؍161
20. شرح العقیدة الواسطیة: ص140
21. عقیدئہ عذابِ قبر:ص20
22. آپ کے مسائل اور ان کا حل:1؍305
23. تفسیر طبری: ج18؍ ص62
24. صحیح بخاری:رقم 4451
25. ترمذی، کتاب الزهد، رقم 2308
26. صحیح بخاری،کتاب الجنائز، باب ماجاء في قبر النبي ﷺ وأبي بکر وعمر رضي اﷲ عنهما
27. صحیح بخاری:کتاب الصلاة،رقم:437
28. ابن ماجہ،کتاب الجنائز، رقم 1562، صححه ألباني
29. صحیح مسلم: رقم 972
30. جامع ترمذی: رقم 1071، حسنه الألباني
31. صحیح بخاری:رقم 1386
32. کتاب الروح، ص 165
33. مسنداحمد : 4؍288، رقم :18733 بطوله صحّحه الألباني
34. صحیح بخاری: رقم 1338
35. ترمذی: 1071
36. مجمع الزوائد:3؍52، الترغیب والترهیب
i. عذاب قبر اور قرآن مجید از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری'محدث' نومبر 2000ء میں ملاحظہ فرمائیں۔