’مسجد ِاقصیٰ کی شرعی تولیت‘ اور ’اشراق کے مجوزہ حل‘
چند برس قبل حلقہ اشراق نے مسجد اقصیٰ کے بارے میں سلسلۂ مضامین شائع کرنے کے بعد مسلم اُمہ میں پہلی باریہ دعویٰ کیا تھا کہ مسجد اقصیٰ کے متولی مسلمانوں کے بجائے شرعاً یہود ہیں اور مسجد اقصیٰ پر یہود کا ویسا ہی حق ہے جیسے بیت اللہ پر مسلمانوں کا۔ بعض حالیہ بحثوں میں ان کا موقف مزید نکھر کرسامنے آیا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کو حقائق سے ماورا مسلمانوں کی خود ساختہ مسجد ِاقصیٰ قرار دیتے ہیں جبکہ ان کی نظر میں حقیقی مسجد اقصیٰ قبہ صخرہ ہی ہے۔ اپنے مضامین کے آخر میں اس مسئلہ کا قابل عمل حل اُنہوں نے یہ تجویز کیا تھا کہ قبہ صخرہ چونکہ مسجد اقصیٰ کا حقیقی مصداق ہے جس کی تولیت شرعاً یہود کے پاس ہے، اس بنا پریہود کو وہاں ان کا مزعومہ ہیکل سلیمانی تعمیرکرنے کی اجازت دی جائے ۔راقم نے گذشتہ 'محدث' میں مسجد اقصیٰ پرصیہونی جارحیتوں کا تذکرہ کیا جس میں پیش کردہ حقائق و وقائع سے اس کے برعکس صورتحال کا پتہ چلتا ہے۔ البتہ مسجد اقصیٰ کی تولیت کی شرعی بحث سے تعرض ہی نہیں کیا گیاکیونکہ یہ ایک مسلمہ امرہے کہ اللہ کے پسند کردہ واحد دین 'اسلام' کے حامل ہونے کے ناطے اُمت ِمحمدیہ ہی اس عظیم المرتبت مسجد کی شرعاً وارث و متولی ہے جبکہ قرآن تو یہود ونصاریٰ کومغضوب اور ضالین میں شمار کرتا ہے۔نقطہ نظر کے ان واضح اختلافات کو نظرانداز کرتے ہوئے اشراقی محققین نے اپنے موقف میں وزن پیدا کرنے کے لئے راقم کی بعض تحریروں کو اپنا من پسند مفہوم دینے کی کوشش کی اور اپنے پیش کردہ حل میں شریک کرنے کی ناروا سعی بھی کی ہے۔ اس ممکنہ اشراقی حل کے بارے میں راقم کی رائے یہ ہے کہ اشراقی محققین اس سلسلے میں صہیونیوں کے فریب کا شکار ہوئے ہیں کیونکہ صہیونیوں کا ۴۰ سالہ طرزِ عمل اسی امر کی چغلی کھاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی طرح قبہ صخرہ کو حقیقی مسجد اقصیٰ سمجھنے کی بجائے موجودہ مسجد اقصیٰ کے مقام پر ہی اپنا ہیکل تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔اس سلسلہ میں حلقہ اشراق کا 'محققانہ موقف'ہردو ملتوں کے ہاں کوئی وقعت نہیں رکھتااور ان کا طویل سلسلۂ مضامین ایک لایعنی نتیجہ پرختم ہواہے۔ بہرطور اس موضوع پر دو طرفہ خط وکتابت ہدیۂ قارئین ہے:
جناب محمد عمارخاں ناصرکا پہلا خط
بردارِمحترم حافظ حسن مدنی صاحب السلام علیکم ورحمتہ اﷲوبرکاتہ
اُمید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔'محدث' کے مارچ 2007ء کے شمارے میں ''مسجد اقصیٰ صہیونیوں کے نرغے میں '' کے زیر عنوان آپ کا تفصیلی اور معلوماتی اداریہ پڑھنے کو ملا اور اس بات پر خوشگوار حیرت ہوئی کہ میں نے 'الشریعہ' کے ستمبر؍ اکتوبر 2003ء اور اپریل؍مئی 2004ء کے شماروں میں شائع ہونے والی اپنی تفصیلی تحریروں میں شرعی زاویہ نگاہ سے اس معاملے کے جس بنیادی پہلو کی طرف اہل علم کی توجہ مبذول کرائی تھی، آپ کی تازہ تحریر میں اس کو تسلیم کرتے ہوئے مسجد ِاقصیٰ کے حوالے سے ایک ایسا موقف اختیار کیا گیا ہے جو اُمت مسلمہ کے مروّجہ جذباتی، غیر اخلاقی اور غیر شرعی موقف سے بالکل مختلف ہے اور جس سے، صورتِ حال کے واقعی تجزیے اور حکمت ِعملی کے بعض پہلووں سے قطع نظر، کوئی اُصولی اختلاف غالباً نہیں کیا جا سکتا۔ میری پوری بحث کا حاصل یہی تھا کہ
حضرت سلیمان علیہ السلام کے تعمیر کردہ ہیکل سے، جسے قرآنِ مجید نے 'مسجد اقصیٰ' کے نام سے یاد کیا ہے، بنی اسرائیل کے حق تولیت کو ازروے شریعت منسوخ قرار دینے کا تصور اور اس کی بنیاد پر تقریباً 1500 فٹ لمبے اور 1000 فٹ چوڑے موجودہ احاطہ ہیکل (Temple Mount) کے پورے رقبے اور بالخصوص اس کے وسط میں موجودہ صخرئہ بیت المقدس اور اس پر اُموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کے تعمیر کردہ 'قبة الصخرہ' کو بلاشرکت غیرے مسلمانوں کی ملکیت قرار دینے کا دعویٰ شرعی واخلاقی لحاظ سے درست نہیں ، اس لیے مسلمانوں کو اپنا دعواے استحقاق تاریخی وواقعاتی بنیاد پر اس احاطے کی جنوبی دیوار کے ساتھ قائم اس مسجد تک محدود رکھنا چاہیے جہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فتح بیت المقدس کے موقع پر نماز ادا کر کے اسے مسلمانوں کی عبادت کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ (یہ مسجد خود سیدنا عمرؓ نے تعمیر نہیں فرمائی تھی(i)، بلکہ بعد کے دور میں مسلمانوں کی تعمیر کردہ ہے۔ ابتدا میں اسے 'مسجد ِعمر' کا نام دیا گیا تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ 'مسجد اقصیٰ' ہی کے نام سے معروف ہو گئی جو ظاہر ہے کہ قرآنِ مجید کی ذکر کردہ 'مسجد اقصیٰ' یعنی حضرت سلیمان کی تعمیر کردہ مسجد سے مختلف ایک اصطلاح ہے)
آپ نے اپنی تحریر میں اس بنیادی نکتے کو تسلیم فرماتے ہوئے لکھا ہے:
''اس مسجد پر مسلمانوں کے استحقاق کی وجہ تاریخی طور پر یہ ہے کہ جب مسلمانوں نے اس مقام پر مسجد کو تعمیر کیا تھا تو اس وقت یہ جگہ ویران تھی۔ حضرت عمرؓ نے خود یہاں سے کوڑا کرکٹ صاف کر کے اس مسجد کو قائم کیا تھا۔ خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ آپ جیسا عادل حکمران کسی اور قوم کی عبادت گاہ پر اسلامی مرکز تعمیر کر کے کسی دوسری قوم کا مذہبی حق غصب کریں گے۔'' 1
''اگر یہود اس علاقے میں کوئی ہیکل تعمیر کرنا بھی چاہتے ہیں جس سے ان کے مذہبی جذبات وابستہ ہیں تو ا س کے لیے مسجد ِاقصیٰ کا انہدام کیوں ضروری ہے اور وہ عین اس مقام پر ہی کیوں تعمیر ہوتا ہے جہاں یہ مقدس عمارت موجود ہے؟ مسجد ِاقصیٰ کے احاطے میں شمال مغربی حصہ اور دیگر بہت سے حصے بالکل خالی ہں ، وہاں وہ قبہ بھی ہے جس کے بارے میں اکثر مسلم علما کا موقف یہ ہے کہ اس قبہ صخرہ کی کوئی شرعی فضیلت نہیں ، حتیٰ کہ حضرت عمرؓ نے یہاں نماز پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ یوں بھی یہود کے ہاں قبلہ کی حیثیت اس کو حاصل رہی ہے کیونکہ اُنھوں نے خیمہ اجتماع کو اپنا قبلہ بنایا ہوا تھا جو قبہ صخرہ کے مقام سے اُٹھا لیا گیا، چنانچہ قبہ صخرہ کو اس کا آخری مقام ہونے کے ناطے اُنہوں نے اسے ہی اپنا قبلہ قرار دے لیا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہود قبہ صخرہ پر کوئی تصرف کرنے کی بجائے سارا زور مسجد اقصیٰ پر ہی صرف کر رہے ہیں ؟'' 2
ان اقتباسات کی روشنی میں میرے ناقص فہم کے مطابق نتیجے کے اعتبار سے آپ کے موقف اور میرے نقطہ نظر میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ البتہ اس کے ساتھ اپنی تحریر کے آخر میں آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ
''اُمت ِمسلمہ کے فرزند آج 40 برس گزرنے کے بعد بھی نہ صرف مطمئن وپرسکون ہیں بلکہ آہستہ آہستہ کوتاہی اور مداہنت یوں اپنا اثر دکھا رہی ہے کہ مسلمانوں میں بعض ایسے کرم فرما بھی پیدا ہو گئے ہیں جو مسجد اقصیٰ کو اسی طرح یہود کی تولیت میں دے دینے کے داعی ہیں جیسے مسلمانوں کے پاس بیت اللہ الحرام کی تولیت ہے۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون!'' 3
اگر یہ اشارہ...جیسا کہ گمانِ غالب ہے ... میری تحریروں کی طرف(ii) ہے تو میں ، فی الواقع، آپ کی اس تعریض کا مدعا نہیں سمجھ سکا۔ اگر تو مسجد ِاقصیٰ سے آپ کی مراد حضرت سلیمان کا تعمیر کردہ ہیکل ہے جس کا محل وقوع قبة الصخرہ کے قریب ہے تو اس پر تصرف اور تولیت کی اجازت بلکہ ترغیب تو آپ خود بھی یہود کو دے رہے ہیں ، اور اگر اس سے مراد حضرت عمرؓ کے مخصوص کردہ مقام پر تعمیر کی جانے والی مسجد یعنی موجودہ 'مسجد اقصیٰ' ہے تو میری تحریر میں کہیں بھی اس کی تولیت یہود کے سپرد کر دینے کی بات نہیں کہی گئی، بلکہ 'الشریعہ' کے اپریل؍مئی ۲۰۰۴ کے شمارے میں ، میں نے اس بحث کا اختتام ہی اس نکتے پر کیا ہے کہ
''مسلمانوں کو پوری دیانت داری کے ساتھ اپنے موجودہ موقف پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان بے بنیاد مذہبی تصورات کو خیرباد کہنا ہوگا جو پوری عبادت گاہ سے یہود کے حق تولیت کی تنسیخ یا قبة الصخرہ کی اہمیت وتقدس کے حوالے سے وضع کر لیے گئے ہیں اور سیدنا عمرؓ کے طرزِ عمل کی اتباع میں اپنے حق کو اس جگہ تک محدود ماننا ہوگا جہاں روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کا تذکرہ ملتا ہے اور جسے سیدنا عمرؓ نے مسلمانوں کی عبادت کے لیے مخصوص فرما دیا تھا۔'' 4
آپ کے مضمون میں اٹھائے جانے والے بعض قانونی نکات اور واقعاتی تفصیلات پر بحث واختلاف کی گنجایش موجود ہے، لیکن ان سے قطع نظر کرتے ہوئے موجودہ مسجد اقصیٰ کے انہدام کے حوالے سے جن صہیونی عزائم کا آپ نے ذکر کیا ہے، وہ اگر درست ہیں تو یقینا اُمت ِمسلمہ کو اپنے حق کا دفاع پوری جرات اور استقامت کے ساتھ کرنا چاہیے۔ خدا کرے کہ اُمت ِمسلمہ کے دل میں 'اپنے حق' کے تحفظ کے ساتھ ساتھ 'نفس حق' کو پہچاننے اور اس کو تسلیم کرنے کا جذبہ بھی بیدار ہو جائے۔
محترم حافظ عبد الرحمن مدنی اور ادارہ کے دیگر رفقا کی خدمت میں سلام اور آداب عرض ہے۔
جواب از حافظ حسن مدنی
برادرِ گرامی محمد عمار خاں ناصر صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ کا مراسلہ ملا، شکرگزار ہوں کہ مسجد اقصیٰ کے حالات وواقعات پر مبنی میرے مضمون کا نہ صرف آپ نے مطالعہ کیا بلکہ اس کی افادیت اور واقعاتی استدلال سے بھی اتفاق فرمایا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اطمینان اس امرپر ہے کہ آپ نے اپنے مراسلے کے آخر میں مسجد ِاقصیٰ کے تحفظ کے بارے میں ان جذبات سے بھی اتفاق ظاہر کیا جو مسلم اُمہ میں بالعموم پائے جاتے ہیں ۔ آپ کے الفاظ میں ''موجودہ مسجد اقصیٰ کے انہدام کے حوالے سے جن صہیونی عزائم کا آپ نے ذکر کیا ہے، وہ اگر درست ہیں تو یقینا اُمت ِمسلمہ کواپنے حق کا دفاع پوری جرات اور استقامت کے ساتھ کرنا چاہئے۔'' مزید برآں میرے موقف پر یہ تبصرہ کہ''کوئی اُصولی اختلاف غالباً نہیں کیا جاسکتا'' لکھ کر بھی آپ نے میرے استدلال کو تقویت بخشی۔
میرا یہ مضمون مسجد ِاقصیٰ کے بعض حالیہ واقعات کے حوالے سے تھا اور میں نے مضمون کے مقدمہ میں ہی اس امر کی صراحت کردی تھی کہ مسجد اقصیٰ پر دینی رسائل میں جاری شرعی بحث سے اس مضمون کا کوئی تعلق نہیں ، اور اس حوالے سے مستقل مضمون درکار ہے۔ چنانچہ میرے اس مضمون میں شرعی موقف کو سرے سے پیش نہیں کیا گیا تھا، اس کے باوجود میرے لئے یہ امر چونکا دینے والا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی شرعی تولیت پرتین برس قبل شائع ہونے والے آپ کے طول طویل مباحث اور ان کے نتائج سے آپ نے مجھے بھی ازخود متفق قرار دے لیا ہے۔ اور اس اتفاق کے اظہار کے لئے آپ نے میرے مضمون کے دو اقتباسات پیش کئے ہیں ۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان اقتباسات کو سیاق سے کاٹ کر آپ نے اپنے من مانے مفہوم میں لیاہے جبکہ ان سے میرا مدعا ہرگز وہ نہیں جو آپ باور کرا رہے ہیں ۔ میرے مضمون کے مطالعے کی بجائے آپ اس سے وہ شواہد تلاش کرتے رہے ہیں جن سے کسی طورآپ کے متنازعہ موقف کی ہم نوائی ہوتی ہو، وگرنہ ان اقتباسات کا یہ مفہوم میرے حاشیہ خیال میں بھی موجود نہیں ۔آپ کو بخوبی یاد ہوگا کہ آپ کے مضامین کی اشاعت کے بعد علما کے حلقے میں سے غالباً کوئی ایک رائے بھی آپ کی تائید میں شائع نہیں ہوئی اور مسجد ِاقصیٰ پر آپ کے مضامین دینی صحافت کے متنازعہ ترین مقالات میں سے ہیں جس پر 'الشریعہ' کے متعدد مراسلے اور مستقل مضامین بھی شاہد ہیں ، جبکہ میرے مضمون کا موضوع ہی اس سے مختلف ہے۔
بہرحال آپ نے یہ الفاظ '' میرے ناقص فہم کے مطابق نتیجے کے اعتبار سے آپ کے موقف اورمیرے نکتہ نظرمیں کوئی خاص فرق نہیں ۔'' لکھ کرجس طرح مجھے اپنا ہم نوا قرار دیا ہے، اس سے میں متفق نہیں ہوں کیونکہ جہاں تک میرے شرعی موقف کا تعلق ہے تو میں اس پر ایک مستقل مقالہ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔
آپ کے موقف کے بارے میں فی الحال چند تنقیحات پر اکتفا کرتا ہوں :
کیا آپ صہیونیت کے نام نہاد دعوے 'ہیکل سلیمانی' کے قائل نہیں بلکہ اس کو دوبارہ تعمیر کرنے کے مؤید بھی ہیں ؟
کیا آپ مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کی بجائے یہود کو تولیت کا حق دینے کے داعی نہیں ؟
کیا آپ مسلمانوں کے موقف کو جذباتی، غیر اخلاقی اور غیرشرعی قرار نہیں دیتے؟
کیا آپ 'دیوارِ گریہ' کے قائل نہیں اور اسے بھی یہود کا حق قرار دیتے ہیں ؟جبکہ دوسری طرف مسلم اُمہ کے زعما بالعموم ان میں سے کسی بات کو تسلیم نہیں کرتے۔
جہاں تک 'واقعاتی نتیجہ' میں بظاہر اتفاق کا مسئلہ ہے تو میری رائے میں اس کی حیثیت بھی چند الفاظ کے اشتراک سے زیادہ کچھ نہیں ، حقیقت اور امر واقعہ اس کے عین برعکس ہے۔ ماضی قریب میں آپ کے پیش کردہ'ممکنہ حل ' اور موجودہ مراسلہ کے گہرے مطالعے کے بعد میں پوری بصیرت سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے اور آپ کے پیش کردہ نتیجے میں عملاً کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی۔ آپ احاطہ قدس میں یہودیوں کی شراکت کے قائل ہیں جبکہ میں اس سے متفق نہیں ۔
اس سلسلے میں مزید تفصیلات پرگفتگو کرنے سے قبل میری گذارش ہے کہ اس موضوع پر آپ کی سابقہ تحریروں کی غیرمعمولی طوالت کی وجہ سے بعض بنیادی باتوں کے بارے میں آپ کے موقف میں نکھار باقی نہیں رہا۔ اشتراک کا شائبہ پیدا ہونے کی وجہ یہی ابہام اور احتمال ہے۔ اگر آپ حسب ِذیل سوالات کی دو ٹوک وضاحت فرماسکیں توآپ کے مراسلہ میں ذکر کردہ دعواے اتفاق پر میں اپنا بادلائل موقف پیش کرسکوں گا۔ اس دوٹوک نکھار کی ضرورت اس لئے زیادہ ہے کہ اس طرح کئی برس سے جاری یہ بحث بہت جلد کسی حتمی نتیجہ پر پہنچ جائے گی :
1. مسجد ِاقصیٰ اور ہیکل سلیمانی آپ کی نظر میں ایک ہی چیز کے دونام ہیں ، آپ کے نزدیک اس [حقیقی]iii مسجد اقصیٰ کا مصداق کونسی جگہ ہے؟ قبہ صخرہ، فوارئہ کاس، [حالیہ] مسجد اقصیٰ یا کوئی اور
2. [حالیہ] مسجد ِاقصیٰ جہاں حضرت عمرؓ نے نمازپڑھی تھی،کیا[حقیقی]مسجد ِاقصیٰ یہی نہیں ؟اگر نہیں توآپ اس مسجدکو کیاحیثیت دیتے ہیں ؟
3. [حقیقی] مسجد ِاقصیٰ پر کیا مسلمانوں اور یہود ہر دو اقوام کا استحقاق ہے، اگر دونوں کاحق مشترک ہے تو اس حق کی نوعیت کیا ہے اور ان میں سے کس کا حق آپ برتر سمجھتے ہیں ؟
4. حق کی برتری کی صورت میں عملاً اس قوم کے لئے آپ کیا اقدام تجویز کرتے ہیں اور مرجوح حق والی قوم کے لئے کیا؟
5. شد ِرحال والی متفق علیہ حدیث(مساجد ِثلاثہ) اور مسجد ِاقصیٰ میں نماز کی فضیلت والے فرمانِ نبویؐ پر عمل کی آپ مسلمانوں کے لئے عملی صورت کیا تجویز کرتے ہیں ؟
چونکہ اس بحث کو آپ نے ہی شروع کیا اور ا س کے ہر پہلو پر تفصیل سے تحقیق بھی فرمائی، اس لئے اس بحث کے ان اہم نکات کا دوٹوک جواب بھی اخلاقاً آپ کو دینا چاہئے کیونکہ حق کو واضح ہونا چاہئے اور اس میں کوئی ابہام نہیں رہنا چاہئے۔ بہتر ہوگا کہ آپ دوٹوک اور معروضی اُسلوب میں ان کے جواب دے کر تفصیلی دلائل کے لئے اپنے ۱۵۰ صد سے زائد صفحات کے متعین پیرا گرافوں کی نشاندہی کردیں ۔مجھے اُمید ہے کہ آپ کے جوابات کے بعد پیش نظر مسئلہ کافی حد تک از خود ہی واضح ہوجائے گا۔ تاہم آپ کے جواب کے بعد میں بڑی وضاحت اور صراحت سے اپنا تفصیلی موقف تحریر کروں گا، تاکہ اس اہم شرعی مسئلہ پر ہمارے قارئین کسی واضح نتیجہ تک پہنچ سکیں ۔ إن شاء اللہ
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه
جناب محمد عمار خاں ناصر کا دوسرا خط
برادرم حافظ حسن مدنی صاحب
السلام علیکم ورحمة اﷲ مزاجِ گرامی؟
میرے خط کے جواب میں آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ بے حد شکریہ!
میں اشتیاق کے ساتھ منتظر رہوں گا کہ مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے شرعی پہلو سے متعلق آپ کا مستقل مضمون کب معرضِ تحریر میں آتا ہے اور اس میں آپ کیا نقطہ نظر اختیار فرماتے اور اس کے حق میں کیا استدلالات پیش کرتے ہیں ؟ سردست مںل اپنی گزارشات کو آپ کے حالیہ مکتوب کے مندرجات تک محدود رکھوں گا۔
آپ نے فرمایا ہے کہ میں نے آپ کے مضمون سے اپنے اور آپ کے موقف میں جو اشتراک اخذ کیا ہے، وہ درست نہیں ، بلکہ ایسا آپ کے اقتباس کو سیاق وسباق سے ہٹا کر من مانے معنی پہناتے ہوئے کیا گیا ہے۔ تاہم آپ نے اس اقتباس سے میرے اخذ کردہ نتیجے کی تردید تو فرمائی ہے لیکن اپنے مضمون کے سیاق وسباق کی روشنی میں اس کا صحیح مدعا اور مفہوم واضح کرنے کی زحمت نہیں کی۔ میں آپ کا اقتباس یہاں دوبارہ نقل کرنا چاہوں گا:
''اگر یہود اس علاقے میں کوئی ہیکل تعمیر کرنا بھی چاہتے ہیں جس سے ان کے مذہبی جذبات وابستہ ہیں تو ا س کے لیے مسجد اقصیٰ کا انہدام کیوں ضروری ہے اور وہ عین اس مقام پر ہی کیوں تعمیر ہوتا ہے جہاں یہ مقدس عمارت موجود ہے؟ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں شمال مغربی حصہ اور دیگر بہت سے حصے بالکل خالی ہیں ، وہاں وہ قبہ بھی ہے جس کے بارے میں اکثر مسلم علما کا موقف یہ ہے کہ اس قبہ صخرہ کی کوئی شرعی فضیلت نہیں ، حتیٰ کہ حضرت عمرؓ نے یہاں نماز پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا ... پھر کیا وجہ ہے کہ یہود قبہ صخرہ پر کوئی تصرف کرنے کی بجائے سارا زور مسجد ِاقصیٰ پر ہی صرف کر رہے ہیں ؟'' 5
ازراہِ کرم آپ واضح فرمائیں کہ جب آپ ہیکل کی تعمیر کے لیے یہود کو موجودہ مسجد اقصیٰ کے بجاے احاطہ ہیکل ہی میں واقع دیگر مقامات، مثلاً قبة الصخرہ وغیرہ کی راہ دکھا رہے ہیں اور یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ان مقامات کی آپ کے نزدیک کوئی شرعی فضیلت نہیں تو اس کا مطلب مذکورہ مقامات پر تصرف و تولیت میں عدم دلچسپی ظاہر کرنے کے سوا کیا نکلتا ہے؟ اگر یہود آپ کی دکھائی ہوئی راہ پر چلتے ہوئے قبة الصخرہ کی جگہ پر اپنا ہیکل تعمیر کرنا چاہیں تو وہ آخر زمین کے اوپر ہی بنے گا یا 'بغیر عمد ترونہا' فضا میں معلق ہوگا؟ اور اگر آپ یہود کا ہیکل تعمیر کرنے کا حق تو تسلیم کرتے ہیں ، لیکن احاطے یا ہیکل کی تولیت میں انھیں کسی طرح بھی شریک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو یہ واضح فرمائیے کہ کیا ہیکل کی تعمیر کے بعد یہودی قوانین کے مطابق اس میں رسوم عبادت ادا کرنے اور کاہنوں سے متعلقہ مذہبی خدمات بجا لانے کا فریضہ بھی آپ خود ہی انجام دیں گے؟ اور اگر یہ حق بھی آپ یہود کے لیے تسلیم کرتے ہیں تو مذہبی معنوں میں کسی عبادت گاہ پر تصرف وتولیت اور کیا چیز ہوتی ہے؟
کوئی مصنف جب اپنی تحریر سے واضح طور پر نکلنے والے کسی نتیجے کو Own کرنے سے انکار کرتا ہے تو اسکی وجہ یا تو یہ ہوتی ہے کہ اس نے وہ تحریر اچھی طرح سوچ سمجھ کر نہیں لکھی ہوتی اور یا یہ کہ وہ اپنی تحریر میں ملفوف نتیجے کا واضح اعتراف کرنے کے لیے درکار اخلاقی جرات سے محروم ہوتا ہے۔ میں حسن ظن رکھتا ہوں کہ آپ کے معاملے میں یہ دوسری صورت نہیں پائی جاتی۔
آپ نے اپنے مکتوب کے آخر میں میرے موقف کے حوالے سے جن نکات کی وضاحت طلب فرمائی ہے، ان سب کی تفصیل میں اپنی تحریروں میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں ، تاہم آپ کی فرمایش پر انھیں دوبارہ دہرا دیتا ہوں :
1 قرآنِ مجید نے 'مسجد ِاقصیٰ' کا لفظ ہیکل سلیمانی کے لیے استعمال کیا ہے۔ موجودہ احاطہ ہیکل کے اندر اس کا محل وقوع یقینی طور پر معلوم نہیں ، تاہم غالب گمان کے مطابق اس کو صخرئہ بیت المقدس (جس کے اوپر اس وقت 'قبة الصخرہ' قائم ہے) کے قرب وجوار میں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ صخرہ بنی اسرائیل کے لیے قبلے کی حیثیت رکھتا تھا اور ہیکل کی عمارت کے اندر ہی واقع تھا۔ اس وقت مسلمان جس مسجد کو 'مسجد اقصیٰ' کہتے ہیں ، وہ عین ہیکل سلیمانی کی جگہ پر واقع نہیں ، بلکہ احاطہ ہیکل کی جنوبی دیوار کے قریب اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں فتح بیت المقدس کے موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نماز ادا فرمائی تھی۔
2 موجودہ مسجد اقصیٰ، ہیکل سلیمانی (یعنی قرآن مجید کی ذکر کردہ 'مسجد اقصیٰ') کی اصل عمارت کا حصہ نہ ہونے کے باوجود توسیعی طور پر مسجد ہی کے حکم میں ہے، اس لیے اس میں نماز ادا کرنے کی وہی فضیلت اور ثواب ہے جو صحیح احادیث میں مسجد اقصیٰ کے حوالے سے ثابت ہے۔
3 بنی اسرائیل کی مرکزی عبادت گاہ، قربان گاہ اور قبلہ ہونے کے ناتے ہیکل سلیمانی یعنی اصل مسجد اقصیٰ کی تولیت شرعی واخلاقی طور پر انھی کا استحقاق ہے اور قرآن وسنت میں ان کے اس حق کی تنسیخ کی کوئی دلیل نہیں ۔ مسلمانوں کا حق اس مسجد کے حوالے سے یہ ہے کہ انھیں یہاں عبادت کرنے کی پوری آزادی حاصل ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہیکل سلیمانی کی اصل عمارت کے بجائے اس سے بالکل ہٹ کر احاطہ ہیکل کے جنوب میں ، جہاں اس وقت موجودہ مسجداقصیٰ واقع ہے، مسلمانوں کے لیے عبادت کی جگہ متعین کر کے دونوں اقوام کے مذہبی حق کے تحفظ اور پاس داری کی ایک واضح صورت متعین فرما دی تھی اور اُمت ِمسلمہ کو اسی کی پابندی کرنی چاہیے۔
اگر اس ضمن میں مزید کوئی نکتہ وضاحت طلب ہو تو میں اس کے لیے حاضر ہوں ۔
جواب از حافظ حسن مدنی
برادرِ محترم جناب محمد عمار خاں ناصر السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ کا جواب موصول ہونے پرشکرگزار ہوں ۔ سردست آپ کے حسب ِارشاد اُس اقتباس کے سیاق پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں جسے آپ اپنے موقف کی حمایت قرار دینے پر مصر ہیں ۔ جیساکہ میں پچھلے مراسلے میں تحریرکرچکا ہوں کہ میں نے حالیہ مضمون شرعی موقف کے حوالے سے عمداً نہیں لکھاکیونکہ اس مضمون کی وجہ تحریر مسجد اقصیٰ پر حالیہ جارحیت بنی تھی نہ کہ دینی رسائل میں جاری ۴سالہ پرانی بحث، اسی بنا پر میں نے مقدمہ میں بھی اس کی صراحت کومناسب خیال کیا۔ چنانچہ میرے اس مضمون میں ان واقعات کو ترتیب وار پیش کیا گیا کہ مسجد اقصیٰ ان دنوں کن حالات سے دوچار ہے۔ اس بنا پر کوئی شخص ان واقعات کے وقوع سے انکارکرے، یا اُنہیں مفروضہ قرار دے تو ایسااعتراض تو اس مضمون کے ضمن میں کیا جاسکتا ہے، البتہ جب میں نے کوئی شرعی موقف خود بھی اختیار نہیں کیا او ر اس کے دلائل نہیں دیے، تو میری ایک عبارت سے اپنے تئیں وہ موقف کیسے کشید کیا جاسکتا ہے، جس سے تعرض نہ کرنے کا صاحب ِمضمون خود شروع میں اظہار کرچکا ہے؟
آپ کا کہنا ہے کہ ''نتیجے کے اعتبار سے آپ کے موقف اورمیرے نکتہ نظرمیں کوئی خاص فرق نہیں ۔'' یہ دعویٰ کرنا اس وقت ممکن ہوتا جب یہ کہاجاسکتا کہ میں نے بھی آپ کے 'ممکنہ حل' کی طرح، اپنے پیش کردہ اقتباس کے ذریعے صہیونی شورشوں کا یہ حل پیش کیا ہے کہ قبہ صخرہ یہود کے حوالے کردیا جائے۔ جبکہ میرے مضمون میں مسجد ِاقصیٰ پر اسرائیلی تسلط کے بعد ۴۰سالہ مختصر تاریخ، ہیکل مزعوم کی تعمیر کے صہیونی جنون کے تذکرہ اورحالیہ جارحیت کے چار امکانات پیش کرنے کے بعد موجودہ مقام، جہاں یہ جارحیت ہوئی ہے، کی غیرمعمولی اہمیت کو پیش کرنے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے اور آخر میں اُمت ِمسلمہ کو ان کا فرض یاد دلایا گیا ہے۔
اس مقام کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے میں نے یہ قرار دیا ہے کہ صہیونیوں کا مزعومہ ہیکل کوئی مجرد دعویٰ نہیں بلکہ اس میں مسجد ِاقصیٰ کا انہدام ایک لابدی امر ہے کیونکہ ا رضِ مقدس کو مسلم شعور سے کھرچنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ میں نے لکھا ہے کہ اگران کے پیش نظر مسجد اقصیٰ کا انہدام نہیں بلکہ محض ہیکل سلیمانی کی تعمیرہوتا تو اُنہوں نے یہ مزعومہ ہیکل موجود ہ مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی اور نقطہ پر تعمیرکیوں نہیں کیا؟ جبکہ وہاں احاطہ قدس کے باہر بھی جگہیں خالی ہیں بلکہ مسجد اقصیٰ کے ماسوا اس احاطے میں بھی خالی مقامات اور اہم عمارتیں مثلاً قبہ صخرہ وغیرہ بھی موجود ہیں ، ان کو چھوڑ کر عین مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل کی موجودگی کا دعویٰ ہندؤوں کے اس دعوے کے مشابہ ہے جو وہ ہندوستان میں کئی مساجد کے حوالے سے کرچکے ہیں کہ وہ عین قدیم مندروں پر تعمیر کی گئی ہیں ،ایسے دعوے کرنے والوں کے پیش نظر اپنے مرکز کی تعمیرکی بجائے دراصل دوسری قوم کی عبادتگاہ کو مسمار کرنے کا مکروہ عزم کار فرما ہوتا ہے۔
میرے اس اقتباس کا رجحان ہیکل کی تعمیر کے جواز اورا س کا محل ذکرکرنے کی بجائے عین مسجد اقصیٰ کے انہدام کے صہیونی ہدف کی مؤکد نشاندہی اور ان کے عزائم کو آشکارا کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے مضمون کے آخر میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ اس پورے احاطہ قدس پر استحقاق صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص ہے۔ عجب بات ہے کہ ایک عبارت کو لکھنے والے کے مدعا کی بجائے،مضمون کی دیگر عبارتوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اور سیاق وسباق کے برعکس اپنے ذہن میں پہلے سے موجود نکتہ کو نہ صرف مقالہ نگار کا اصل دعویٰ قرا ردے دیا جائے بلکہ موقف بھی بنا دیا جائے۔ مذکورہ اقتباس کی ترکیب سے بھی میرے موقف ہونے کی نفی ہوتی ہے، کیونکہ یہ سارا اقتباس محض ایک الزامی مفروضہ ہے جس کی نشاندہی جملے کے آغاز میں درج لفظ 'اگر' کے ساتھ بھی ہورہی ہے۔
راقم کا تو یہ الزامی مفروضہ ہے جس کا ہدف بھی وہ ہے جو اوپر ذکر ہوچکا، جبکہ دوسری طرف آپ اس موقف کے پرزور داعی ہیں جس پر پہلے خط کے آخر میں الشریعہ:اپریل۲۰۰۴ء میں شائع شدہ آپ کا اقتباس شاہد ہے۔ آپ کے طویل شرعی موقف کی طرح... جس نے دردمندانِ ملت کے دلوں کو زخمی کیا ہوا ہے... آپ کا 'ممکنہ حل' بھی معصومیت اور حقائق سے منہ موڑنے کی نادر مثال ہے۔آپ کو راقم کی تحریر کی تہہ میں چھپا ہوا اشتراک تو نظر آتا ہے ، جس کی صریح نفی بھی ساتھ ہی موجود ہے لیکن راقم کے ذکر کردہ ۴۰ برس پر محیط وہ مسلسل صہیونی اقدامات دکھائی نہیں دیتے جو آپ کے 'ممکنہ حل' کا منہ چڑا رہے اور اسے کلیتاً ناقابل عمل بتارہے ہیں ۔ میرا مضمون(جسے 'حالات کی رپورٹ اور تبصرہ'کہنا زیادہ بہتر ہوگا) آپ کے ممکنہ حل کی پوری قلعی کھول دیتا ہے۔
آپ ایک بار اپنے سلسلۂ مضامین کا تتمہ (بعنوان 'ممکنہ عملی حل') ملاحظہ فرمالیں اور پھر اس کا راقم کے مضمون سے تقابل کرلیں ، تو آپ پر 'مزعومہ اشتراک' کی پوری حقیقت کھل جائے گی:
I. آپ اُمت ِمسلمہ کی بجائے یہود کو مسجد ِاقصیٰ کا متولی قرار دیتے ہیں
II. اور قبہ صخرہ یا اس کے اردگردکو حقیقی مسجد اقصیٰ کا مصداق سمجھتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ موجودہ مسجد اقصیٰ جہاں حضرت عمرؓنے نماز پڑھی،مسلمانوں کی خودساختہ قرار پاتی ہے
III. جسے آپ خود ساختہ کہنے کی بجائے حقیقی مسجد اقصیٰ کے توسیعی حکم میں شامل ہونے کی توجیہ(iv) فرماتے ہیں ۔ قبہ صخرہ کو مسجد اقصیٰ کے حقیقی مصداق ہونے کی بنا پر آپ اسے یہود کو دینے کے پرزور داعی اس بنا پر ہیں کہ
IV. آپ کے نزدیک اصل مسجد شرعاً یہود کی زیر تولیت ہی ہونی چاہئے۔ یا د رہے کہ آپ کے موقف کے یہ مرکزی نکات پوری مسلم اُمہ کے چودہ صدسالہ موقف بلکہ تعامل کے صریح مخالف گویا قرآنی اصطلاح میں 'سبیل المومنین سے انحراف' کے زمرے میں آتے ہیں ۔
اب میرے مضمون کو دیکھئے، میں نے ان نظریاتی بحثوں کی بجائے موجودہ مسجد اقصیٰ پر صہیونیوں کے منفی اقدامات کو ذکر کیا ہے۔ یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ یہود کا ۴۰ سالہ جارحانہ طرزِ عمل بھی آپ کی اس توجیہ اور 'ممکنہ حل' کی کسی طور تائید نہیں کرتا؟ چنانچہ یہاں پہنچ کر آپ یہود کی بعض تحریروں کا سہارا لیتے ہوئے ان کے کھلے ظالمانہ طرزِ عمل سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں ۔ میراآپ سے سوال ہے کہ اگر یہود قبہ صخرہ پر ہیکل سلیمانی تعمیرکرناچاہتے ہیں تو
1 ان کی تمام کوششیں مسجد اقصیٰ کومسمار کرنے پر کیوں مرکوز ہیں ، گذشتہ 40 برسوں میں قبہ صخرہ یا کوئی او رمقام ان کی جارحیت کا نشانہ یا عزائم کا مرکز کیوں(v)نہیں ٹھہرا جبکہ آپ کے خیا ل میں یہود کے نزدیک یہی مقام مزعومہ ہیکل کا اصل مرکز ہے۔ یا د رہے کہ یہ قبہ بھی موجودہ مسجد اقصیٰ کی طرح مسلم خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروان کا ہی تعمیر کردہ ہے کیونکہ علامہ ابن تیمیہؒ کی تصریح کے مطابق دورِخلفائے راشدین میں صخرہ بیت المقدس محض ایک ننگی چٹان تھی۔
2 صہیونیوں نے سرنگیں بھی مسجداقصیٰ کے نیچے کھودی ہیں تاکہ وہ ازخود منہدم ہوجائے نہ کہ قبہ صخرہ کے نیچے۔ اگر ان کا ہدف قبہ صخرہ (آپ کے نزدیک: مزعومہ ہیکل کا مرکز)ہے توان کی جارحیتوں کا مرکز مسجد اقصیٰ کیوں ہے؟
3 یہود کے نزدیک مزعومہ ہیکل سلیمانی کی آخری یادگار(مزعومہ دیوارِ گریہ) بھی مسجد اقصیٰ کے بالکل متصل ہے جبکہ قبہ صخرہ تو اس سے کہیں فاصلے پر ہے۔اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ یہود موجودہ مسجداقصیٰ کو ہی ہیکل سلیمانی کا مرکز سمجھتے ہیں نہ کہ قبہ صخرہ کو۔
4 یہود نے 1988ء اور 1989ء میں مسجد اقصیٰ میں ہیکل سلیمانی کا دوبار سنگ ِبنیاد رکھا اور یہ دونوں مقام قبہ صخرہ سے کافی دور جبکہ موجودہ مسجد اقصیٰ سے ملحق تھے۔
5 صہیونیوں نے چار بار جس مقام کو بم سے اُڑانے کی کوشش کی، وہ مقام بھی مسجد اقصیٰ ہے نہ کہ قبہ صخرہ!
6 حالیہ شورشوں اور جارحیتوں کا مرکز باب المغاربة ہے جو موجودہ مسجد اقصیٰ کا براہِ راست دروازہ ہے، مزید برآں اسرائیلی تسلط کے فوراً بعد 1967ء میں اس سے ملحق محلہ حي المغاربة ہی صہیونی جارحیتوں کا مرکز بناتھا،یہ شورشیں کبھی قبہ صخرہ کے براہِ راست دروازوں اور محلوں پر نہیں ہوئیں ۔ایسے ہی حالیہ جارحیت کا مقصد بھی اسی جنوب مغربی حصہ کو ہی مسمار کرنا ہے۔اس سے بھی بخوبی یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہودی مسجد اقصیٰ ہی کو نعوذ باللہ مسمار کرکے وہاں اپنا خود ساختہ ہیکل بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
7 سب سے بڑھ کر یہ کہ 11؍اپریل 2005ء کوایریل شیرون نے واشنگٹن میں جو منصوبہ امریکی حکومت کو پیش کیا ہے اورامریکی حکومت نے اس کی تائید کی ہے، وہ مسجداقصیٰ کے مقام پر ہیکل کی تعمیر کا ہے، نہ کہ قبہ صخرہ کی جگہ پر۔ ان کا منصوبہ ہے کہ وہ احاطہ قدس کو مسلمانوں اور یہودیوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں یعنی جنوب مغربی حصہ (موجودہ مسجد اقصیٰ) پر اپنے ہیکل کی تعمیر اور قبہ صخرہ کو مسلمانوں کے لئے چھوڑ دینا۔
مذکورہ بالا نکات کے بعد پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ آپ کا یہ کہنا کہ یہود قبہ صخرہ پر ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں ، اور وہ اسے ہی قدیم مسجد اقصیٰ کا مصداق تصور کرتے ہیں ، اور یہی آپ کی نظر میں ممکنہ حل بھی ہے (جس میں آپ مجھے بھی اپنے تئیں شریک ِجرم ٹھہرا رہے ہیں )؛ زمینی حقائق، 40 سالہ واقعات اور اسرائیلی سرکاری منصوبوں سے نہ تو اس دعوے کی کسی طور تائید ہوتی ہے اور نہ ہی یہ کوئی قابل عمل حل قرار پاتا ہے۔اس کے بعد برادر موصوف کی یہ بے جا معصومیت ہے کہ وہ مسلم امہ کے حق اور زمینی حقائق سے بے پروا ہوکر ، ان غیروں کے حق کی جستجو میں اپنی اور دوسروں کی صلاحتیں کھپا رہے ہیں جن کی مسلم دشمنی پر قرآنِ کریم میں کئی آیات شاہد ہیں ۔ یہ بھی یادرہے کہ اپنے مضامین کے آغاز میں انہوں نے مسلمانوں کو اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے اپنے سارے استدلال کی بنیاد قانون کی بجائے اخلاقیات پر استوار کی ہے۔لیکن اسرائیل کے فلسطینیوں سے ظالمانہ رویہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے ان کے پورے مضمون میں اخلاقیات کا یہ وعظ کہیں یہود کے لئے دکھائی نہیں دیتا۔
مجھے بخوبی احساس ہے کہ ایک حساس علمی اور تاریخی موضوع کے نتائج کو دلائل و حقائق سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جس طرح میں نے قارئین کی غیرمعمولی استعداد کے سہارے پرذکر کردیا ہے، اس سے استفادہ کافی مشکل ہوگا۔ لیکن برادرِ محترم نے ہی ایک ایسے مسئلہ میں مجھے اُلجھا کر جو ابھی مستقلاً موضوعِ بحث نہیں تھا، ہمیں اس مشترکہ اُلجھن سے دوچار کیا ۔ ان کا اپنے دعویٰ پر لگاتار اِصرار ہی اس تحریر کا باعث بنا ہے، وگرنہ میں اب بھی اس پوری بحث کو مستقل طورپر کتاب وسنت، تعامل صحابہؓ اور ائمہ اسلاف کے دلائل وبراہین سے مزین کرکے کسی اور موقعہ پر نکات وار تفصیلاً پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ واضح رہے کہ میرے اس مراسلے کا تمامتر دارومدار بھی حقائق وواقعات ہی ہیں نہ کہ شرعی استدلال! جناب عمار کو میری تحریر میں سے اپنے مطلوبہ نکات کشید کرنے کی بجائے میرے مرکزی استدلال پراپنی توجہ صرف کرنی چاہئے۔ مذکورہ بالا واقعاتی تفصیلات میرے حالیہ مضمون میں موجود ہیں جس سے مزعومہ اشتراک کشید کرنے کی بجائے کہیں بہتر ہوتا کہ وہ اپنے 'ممکنہ حل' کا میرے پیش کردہ واقعات کی روشنی میں جائزہ لے لیتے تو اپنے موقف پر مجھے گھسیٹنے کی بجائے، اس درست موقف کی طرف رجوع کرلیتے جو صدیوں سے اُمت ِمسلمہ کا رہا ہے اور اپنے اس 'ممکنہ حل' پر بھی اِصرار نہ کرتے جس کی تردید یہود کے ۴۰ سالہ مسلسل عمل سے ہوتی ہے۔ واللہ الموفق!
جناب محمد عمار ناصر کا تیسرا خط
برادرم حافظ حسن مدنی صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ مزاجِ گرامی؟
میرے لیے یہ بات خوشی کا باعث ہے کہ آخرکار آپ کو اپنے اس اقتباس کی، جس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ آپ قبة الصخرة وغیرہ کی کوئی شرعی فضیلت واہمیت نہ ہونے کے باعث اُمت ِمسلمہ کے لیے اس کی تولیت کے دعوے دار نہیں ہیں ، ایک تاویل سوجھ گئی ہے، یعنی یہ کہ یہ سارا اقتباس آپ کی حقیقی رائے کا ترجمان نہیں ، بلکہ محض ایک 'مفروضے' پر مبنی تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس صورتِ حال میں قارئین بہترین منصف ہوتے ہیں ، اس لیے میں مزید بحث میں اپنا اور آپ کا وقت ضائع کرنے کے بجائے یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس نکتے کا فیصلہ 'الشریعہ'اور'محدث'کے قارئین پر چھوڑ دیا جائے۔
البتہ میں یہ ضرور واضح کرنا چاہوں گا کہ 'محدث' کی یہ روش نئی نہیں ہے۔ اس سے قبل جب میری رائے 2003 میں پہلی مرتبہ 'الشریعہ' اور 'اشراق' میں شائع ہوئی تھی تو 'محدث' کے غالباً نومبر اور دسمبر 2003 کے شماروں میں اس پر ایک 'بلند پایہ علمی تنقید' شائع ہوئی تھی۔ اس کی پہلی قسط میں 'فاضل' مضمون نگار نے موجودہ عرب زعما کے اس موقف کی پرزور تائید کی تھی کہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کا تاریخ میں کبھی کوئی وجود نہیں رہا اور یہ محض ایک صہیونی مفروضہ ہے، لیکن مضمون کی دوسری قسط میں ، سابقہ رائے میں کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی تاثر دیے بغیر، اس کے بالکل برعکس یہ موقف سامنے آگیا کہ حضرت سلیمان کی تعمیر کردہ مسجد اقصیٰ یعنی ہیکل سلیمانی پر یہود کا حق تولیت شریعت ِاسلامی کی رو سے منسوخ کر دیا گیا ہے۔ میں نے ایک خط میں مضمون نگار سے دریافت کیا تھا کہ اگر ہیکل سلیمانی کا کبھی کوئی وجود ہی نہیں تھا تو شریعت ِاسلامی نے یہود کا حق تولیت آخر کس چیز سے منسوخ کیا ہے؟ تاہم انھوں نے اس کا کوئی جواب دینا پسند نہیں کیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ انھیں ازخود اپنے پہلے موقف کے ناقابل دفاع ہونے کا احساس ہوا اور انھوں نے چپکے سے پینترا بدل لیا(vi)یا ادارہ 'محدث' نے اعلیٰ صحافیانہ اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا موقف مضمون نگار کی طرف منسوب کر دیا۔ یہ خط آپ کی دلچسپی کے لیے منسلک ہے۔
بہرحال اس سارے معاملے پر مجھے کوئی حیرت نہیں ۔ آپ کے لیے 'عالم عرب' کے موقف سے کھلا اختلاف نہ کر سکنا پوری طرح قابل فہم ہے۔ میں آپ کے شرعی موقف اور اس کے دلائل پر مبنی مقالہ کا شدت سے منتظر رہوں گا۔
حوالہ جات
1. محدث، مارچ 2007، ص 5
2. ایضاً:ص 18
3. ص 20
4. ص 74
5. محدث: مارچ 2007، ص18
i. موصوف کی یہ توجیہ ایک ناروا تاویل ہے جس کی تائید ان کی اپنی تحریر سے بھی نہیں ہوتی۔ اس سے قبل اپنے مضامین میں وہ حافظ ابن کثیر کی 'البدایة والنهایة' اور ابو عبید کی 'الاموال' کے حوالے سے لکھ چکے ہیں کہ ''آپ [حضرت عمر] نے مسجد کے اگلے حصے میں یعنی جنوبی دیوار کے قریب ایک جگہ کو مسلمانوں کی نماز کے لئے متعین کردیا۔'' (الشریعة: اپریل 2004ء ، ص 47) شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں: والصلاة في هذا المصلی الذي بناہ عمر للمسلمین أفضل من الصلاة ... اور کان أئمة الأمة إذا دخلوا المسجد قصدوا الصلاة في المصلی الذي بناہ عمر(مجموع فتاویٰ:1876)
''اس مقام پر نماز ادا کرنا جسے عمر نے مسلمانوں کے لئے تعمیر کیا تھا، افضل ترین ہے'' ...مزید برآں ''امت مسلمہ کے ائمہ جب مسجد میں داخل ہوتے تو اس مقام پر نماز پڑھنے کا ارادہ کرتے جسے عمر نے تعمیر کیا تھا۔''
جناب عمار ناصر اس مسجد کی تعمیر کی نسبت حضرت عمر کی طرف کرنے سے اس بنا پر کترا رہے ہیں کیونکہ اس طرح ایک جس مسجد کو وہ مسلمانوں کا خود ساختہ تصرف قرار دے رہے ہیں، اس الزام کی زد میں خلیفہ راشد حضرت عمر بھی آجاتے ہیں۔ جبکہ حضرت عمر کا یہ فعل،صحابہ کرام کا اس پر نکیر نہ کرنا اور ائمہ اسلاف کا اس کے مطابق عمل کرنا ایسے قرائن ہیں جن سے حضرت عمر کے اس فعل کی حیثیت کا تعین ہوجاتا ہے۔
ii. اس تعریض کا روے سخن حلقہ اشراق کی طرف ہے۔ہم ماضی میں بھی اس نقطہ نظرکا مرکز محور "اشراق" کو قرار دیتے تھے اور اب بھی آپ کے کئی دیگر محسنین کی طرح اس بحث کا مرکز ِثقل آپ کے زیر ادارت مجلہ "الشریعہ" کی بجائے "اشراق" کو ہی سمجھتے ہیں ۔ آپ کی یہ تحریریں "الشریعہ" کی بجائے اشراقی طرزِ فکر کی نمائندگی کرتی ہیں جس میں آپ کی حیثیت اشراق کے شعبۂ تالیف کے ایک رکن ہونے کے ناطے ان کے دیگراراکین تحقیق کی طرح ایک پیش کنندہ سے زیادہ نہیں ۔ "اشراق" کی ان مباحث میں دلچسپی کااس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی میں بھی آپ کی ان تحریروں کو الشریعہ سے کافی پہلے "اشراق" میں شائع کیا گیا تھا اور یہ حالیہ خط وکتابت بھی سب سے پہلے "اشراق" میں ہی منظر عام پر آرہی ہے۔ جہاں تک "الشریعہ" کا تعلق ہے تو ادارہ الشریعہ اس مستعار فکر میں آپ کا ہرگز ہم نوا نہیں جس پر الشریعہ اکیڈمی کے ناظم مولانا محمد یوسف خاں اور آپ کے والد ِگرامی جو"الشریعہ" کے مدیر اعلیٰ بھی ہیں ، کی کئی تحریریں شاہد ہیں ۔مقامِ افسوس یہ ہے کہ آپ حلقہ اشراق میں وقتی پذیرائی ...جس کی داخلی پیچیدگیوں سے بھی آپ بخوبی آگاہ ہیں ... سے متاثر ہوکر ایک طرف "الشریعہ "جیسے مجلے کواشراقی فکر کا خادم بنا کر اور دوسرے طرف اپنے بلند قامت علمی خانوادہ کی دین کے لئے عظیم مساعی کو نظرانداز کرکے ایسے گروہ کی فکری ہم نوائی پرمصر ہیں ، جن کے فکری رجحانات اور اسلام مخالف رجحانات اب پاکستان میں کسی غور وفکر کرنے والے سے مخفی نہیں رہے۔
iii. ان سوالات میں [ ] میں درج الفاظ کی تقسیم جناب عمار ناصر صاحب کی ہے، محض تعین کے لئے ان کو استعمال کیا گیا ہے۔
iv. لیکن اس تاویل میں موجود تضاد کی طرف ان کی نظرنہیں گئی جو یہ ہے کہ اگر آپ کے نزدیک حقیقی مسجداقصیٰ مسلمانوں کی بجائے شرعاً یہود کے زیر تولیت ہے تو پھر اس کی توسیع کے احکام بھی وہی ہونے چاہئے جو اصل کو حاصل ہیں ۔ آپ کی یہ دوہری منطق ناقابل فہم ہے کہ حقیقی مسجداقصیٰ پر تو یہود کا استحقاق مانا جائے، البتہ اس کی خود ساختہ توسیع پرمسلمانوں کے لئے فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود فضائل کی بشارت کی نوید سنا دی جائے۔ اس پر طرہ یہ کہ حضرت عمر کی تعمیرکو تسلیم کرنے سے تو گریز کیا جائے، البتہ اس تعمیر کی بنا پر حاصل ہونے والے نتیجہ پر اپنے شرعی موقف کی بنا رکھ لی جائے۔ یہ تاویل صاف اس امر کی چغلی کھا رہی ہے کہ آپ کے پاس مسجد ِاقصیٰ کے بارے میں فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود فضائل کی کوئی عملی صورت موجود نہیں ۔چنانچہ بجائے اس امر کے،کہ اس بنا پر آپ اپنے صیہونیت نواز موقف پر نظر ثانی کرکے حقیقی مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کی تولیت کا موقف اپنالیتے ، آپ نے ان فضائل کو مزید تاویل درتاویل کی بھینٹ چڑھا دیا۔ فیا للعجب !
v. یہاں جس اندازمیں قبہ صخرہ وغیرہ کاتذکرہ کیا گیا ہے، راقم کے مضمون میں پہلے بھی اسی سیاق میں اس کا تذکرہ تھا، اس سے یہ مفہوم نکالنا کہ قبہ صخرہ پر جارحیت یا اسے اپنا مرکز بنانے کی ترغیب دی جارہی ہے، کلام کے مدعا سے صریح تجاوز ہے۔کیونکہ راقم مسجد اقصیٰ کے علاوہ تمام احاطہ قدس پربشمول قبہ صخرہ مسلمانوں کا استحقاق ہی سمجھتا ہے۔
vi. اس بارے میں میری وضاحت میرے شرعی موقف والے مقالہ میں آرہی ہے، کیونکہ حالیہ واقعاتی بحث بلاوجہ طول پکڑتی جا رہی ہے۔ان شبہات کی وضاحت اپنے صحیح محل پر ہی کی جائے گی۔ ان شاءاللہ (ح۔م)